اپریل 2025ء

ملتقی فضلاء جامعہ لاہور الاسلامیہ (4فروری2025)

انسانی  زندگی کا سب سے خوبصورت یاد گاری  حصہ دور  طالب علمی  ہے ۔ جس میں آدمی کو گھر اور علاقے سے دور ،  خونی رشتہ داروں سے الگ تھلگ ناواقف اور اجنبی لوگوں کے ساتھ  اور گھر سے مختلف ماحول میں رہنا پڑتا ہے ، گھر کی آزادی  کی بجائے  نظام کی جکڑ بندیاں ہوتی ہیں ، جہاں والدین  کی بجائے اساتذہ کی نگرانی ہوتی  ہے ،  آغاز میں اجنبت ہوتی ہے جو   چند ہی دنوں کے بعدمانوسیت سے بدل جاتی ہے  ، اساتذہ سے محبت و احترام  کا رشتہ اور ساتھی طالبہ سے ایسا تعلق پیدا ہوتا ہے کہ جس میں  اہل خانہ  سے بڑھ کر محبت ، اقربا سے بڑھ کر چاہت اور دوستوں  سے کہیں زیادہ کشش پیدا ہوجاتی ہے ،نئے تعلقات جنم لیتے ہیں ، خاندانی نسبتوں کی جگہ مدرسے اور اساتذہ کی نسبتیں پنپتی  ہیں  ،خاندانی نسبت آدمی کے لیے  محض تعارف ہوتی ہے جبکہ   مدرسے اور اساتذہ کی نسبتیں انسان  کے لیے زندگی بھر کے لیے قابل  فخر سرمایہ ہوتی ہیں  ۔ دینی مدارس کے ماحول سے جنم لینی والی محبت کے نقوش کبھی مدہم نہیں پڑتے ۔فارغ التحصیل ہونے والے   تقریب بخاری   پر خوش ہونے کی بجائے باہمی جدائی پر آنسو بہا رہے ہوتے ہیں ۔

ایک راہ کے راہی ، ایک منزل کے مسافر ، ایک  گاڑی  کی سواریاں اور ایک درخت پر بیٹھنے والے پرندے کبھی دوبارہ اکٹھے نہیں ہوتے ، اسی طرح ایک مدرسہ سے فارغ ہونے والے سارے طلبہ دوبارہ مشکل سے ہی اکٹھے ہوتے ہیں ۔ البتہ جامعہ  لاہور اسلامیہ کی انتظامیہ  کا یہ اعزاز ہے کہ وہ  ہر چند سال بعد کوشش کرتے ہیں  کہ جامعہ کے فضلاء کو اکٹھا کیا جائے ، دورِ طالب علمی کی یاد یں تازہ کی جائیں ، باہمی رابطے بڑھائے جائیں،تجربات بانٹے جائیں اورایک دوسرے کی   زندگی کے اسباق سے  فائدہ اٹھایا جائے ۔  جامعہ لاہور الاسلامیہ کے فضلاء کا پہلا ملتقیٰ 14؍ ستمبر 2005ء  مجلس التحقیق الاسلامی 99 جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں منعقد  ہوا ، جس میں  فضلاء جامعہ لاہور الاسلامیہ کی رابطہ کونسل کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کے بعد اگلی ملاقات  کا پروگرام یکم جون 2013ء کو جامعہ  لاہور الاسلامیہ 99 بابر بلاک گارڈن ٹاؤن لاہور میں وقوع پذیر  ہوا ۔پھر  14؍ فروری 2021ء کو لاہور کے مشہور سفاری پارک میں ملن پارٹی منعقد  ہوئی  ، اگلے سال 5 ؍  مئی 2022ء کو ایوان اقبال میں ہوا باہم ملنے کا پروگرام ترتیب پایا ، جس میں دنیا بھر معروف قراء کرام نے بھی شرکت فرمائی تھی ۔پھر  24؍ فروری 2024ء کو مرکز البیت العتیق میں تمام فضلاء جامعہ کی تشریف آوری  ہوئی  ۔

امسال 4فروری 2025 بروز منگل جامعہ نے کوشش کی کہ  تعلیمی سال کے اختتام پر تقریب  تکمیل بخاری  والقراءات العشر کے موقع پر اپنے فضلاء کی ملاقات کا انتظام کیا جائے ۔اس کے لیے واٹس ایپ گروپس میں اعلانات کیے گئے ۔ جامعہ ہی کے ایک فاضل مولانامحمد  اصغر صاحب  کی نگرانی میں ایک  رابطہ کمیٹی قائم کی گئی، جس   نے فضلاء سے  رابطے کیے  اور سب  کو فرداً فرداً واٹس ایپ پر  دعوت نامہ بھی ارسال کیے۔  

امسال تقریب  تکمیل بخاری اور ملتقی فضلاء اس حوالے سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ اس بار تقریب کا اہتمام  جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) کے ساتھ متصل پارک میں شاندار  طریقے سے کیا  گیا تھا ، دوسری وجہ یہ تھی کہ   91۔بابر بلاک  نیوگارڈن  ٹاؤن میں  ایک نئے ادارے ’’  لاہور انسٹی ٹیوٹ  آف سوشل سٹڈیز‘‘  (LISS) کی شکل میں  ایک نئے تعلیمی سسٹم کا آغاز کیا گیا ہے ۔  اس میں درس نظامی پلس  بی ایس اسلامک سٹڈیز  کی کلاسز کا اجرا ہوا ہے ۔ جامعہ کے فضلاء کا یہ اجتماع اس ادارے کے افتتاح کے موقع پر تھا ۔جس کا مقصد فضلاء کی باہم ملاقات  کے علاوہ نئے ادارے  ’’  لاہور انسٹی ٹیوٹ  آف سوشل سٹڈیز‘‘  (LISS) کا تعارف اور اس کے تعلیمی سسٹم کے حوالے سے باہم مشاورت کرنا بھی تھا ۔

جامعہ کی محبت اور ساتھیوں سے ملاقات کی تمنا  لیے فضلاء کی کثیر تعداد نماز ظہر سے پہلے ہی پہنچ گئی تھی ۔ ہر آنے والے مہمان کی  ضیافت کی گئی ۔ یہ سلسلہ عصر تک چلتا رہا ۔

کلاس فیلو ز کی باہمی ملاقات ،ملنے کے  انداز ،  گپ شپ سے مجھے ایک واقعہ یاد آیا جو استاذِ محترم  علامہ مضطر عباسیؒ آف مری  نے سنایا تھا ، فرمانے لگے کہ  میرے ایک دوست  جو بہاولپور یونیورسٹی میں میرے روم میٹ اور  کلاس فیلو تھے  لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔  میں انہیں ملنے اور مبارک باد دینے کے لیے لاہور گیا ، مجھے مہمان خانے میں بیٹھایا گیا ، چیف جسٹس  صاحب تشریف لائے ، گپ شپ ہونے لگی  ، تھوڑی دیر کے بعد  ایک خوبرو نو جوان ناشتہ کا سامان  لے کر  اندر داخل ہوا ۔ میں نے (چیف جسٹس صاحب کے موجودہ مقام و مرتبے کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے احترام سے)  پوچھا  : یہ آپ کے صاحب زادے ہیں؟  تو کہنے لگے : اوے! تجھے یاد نہیں کہ ہم نے  کلاس روم میں بیٹھ کر معاہدہ کیا تھا کہ ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے ۔

میں نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ فرمانے لگے : جہاں محبت ہوتی ہے وہاں عزت نہیں ہوتی ۔ دوستوں میں چونکہ محبت ہوتی ہے اس لیے ان کے ہاں لفظی احترام اور گفتگو کے رسمی  آداب   کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔  دوسرے لفظوں میں دوستوں کے درمیان  کھلے ڈلے ماحول میں اور تکلفات سے پاک گفتگو ہوتی ہے جسے ہماری زبان میں گپ شپ  کہتے ہیں  ۔ یہی منظر مجھے ملتقیٰ فضلاء جامعہ میں دکھائی دیا ۔  

طے شدہ شیڈول کے مطابق نماز ظہر کے بعد جامعہ کی مسجد فاطمہ میں  تعارفی نشست کا آغاز ہوا ، جس کا عنوان "جامعہ رحمانیہ اور اس سے جڑی ہماری یادیں" تھا۔  اس نشست کی نظامت محترم نصیر الرحمن ساجد اور پروفیسر حافظ محمد ظہیر نے کی۔  آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا ، جس کی سعادت  قاری مدثر عزیزی (استاذ مرکز البیت العتیق) نے  حاصل کی، اس کے بعد محترم عبداللہ عزام نے جامعہ سے اپنی محبت کے  اظہار  کو نظم  کی صورت میں پیش کیا۔  پروفیسر ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾نے  تعارفی خطبہ دیا ، جس میں انہوں نے جامعہ رحمانیہ دلی سے لے کر جامعہ رحمانیہ لاہور تک کی  مختصر تاریخ بیان کی اور اس حوالے سے علماے  روپڑ کی خدمات کا تذکرہ کیا ۔ مزید  فرمایا: انسان کی یہ فطرت ہے کہ جہاں اس کا پچپن گزرا ہو اسے  بھلا  نہیں  سکتا ، اس کی یاد میں ہمیشہ  اسے تڑپاتی  رہتی ہے ۔ پچپن میں کھائی ہوئی چیزوں کی لذت ساری زندگی یاد رہتی  ہے۔ سیدہ عائشہ ﷞   اپنے اہل خانہ کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئیں ،  مدینہ کی برکات بھی کوئی کم نہ تھیں، مزید  رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کی شادی ہوگئی ، آپﷺ  کی رفاقت میں زندگی کا ایک عرصہ بسر کیا ، اس کے باوجود  ساری زندگی مکہ کی یادوں کو بھلا نہ سکیں ۔ ان کے متعلق آتا ہےکہ مکہ سے جب کوئی شخص مدینہ آتا تو گھنٹوں اس کے پاس بیٹھتیں ، مکہ کی ایک ایک گلی اور ایک ایک گھر کے متعلق پوچھتیں ۔

  ہماری حالت بھی اس سے مختلف نہیں ہے ، جامعہ میں گزرے ماہ و سال ، اس کی ایک ایک چیز کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی ۔ موبائل اور جدید آلات ریکاڈنگ سے پہلے پروگرامز کی دیکاڈنگ ٹیپ ریکارڈر  پر  ہوتی تھی ۔   مجھے آج بھی یاد ہے کہ جامعہ میں ایک پروگرام ہوا تھا ، میں نے ٹیپ پر اس کی ریکارڈنگ کی تھی ، اور کیسٹ پر میں نے اس کی یادگار تاریخ لکھی تھی : 88 –   8- 8 ۔ ہمارا یہ ملتقیٰ صرف رسمی ملاقات نہیں ہے بلکہ اس میں دین کی نسبت بھی شامل ہے ۔

جامعہ کے ممتاز فاضل  حافظ خضر حیات (فاضل مدینہ یونی ورسٹی) اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اسی جامعہ نے ہمیں  تعلیم دی  ، ہماری تربیت کی ۔ اسی جامعہ کی وساطت سے مجھے  مدینہ یونی ورسٹی میں پڑھنے کا موقع ملا  ، وہاں جا کر دیکھا کہ جس قدر مسلکی غیرت اور تمسک بالکتاب و السنۃ یہاں کے طلبہ و فضلا ء میں ہے کسی دوسرے مدرسے کے طلبہ و فضلاء میں  نہیں   ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ  انہوں نے  ایک اہم کام کی طرف توجہ دلائی ، فرمانے لگے : اس جامعہ کو قائم ہوئے نصف صدی کا عرصہ بیت چکا ہے ، اس دوران  جامعہ رحمانیہ نے تاریخی خدمات انجام دی ہیں ، لیکن جامعہ کی نصف صدی کی تاریخ اوریہاں پڑھانے والی عظیم شخصیات کے حوالے سے کوئی دستاویز تیار نہیں کی گئی ۔فضلاے جامعہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ    اس حوالےسے ایک جامع دستاویز تیار کریں ۔ 

مولانا حافظ محمد  فاروق  شیخوپوری سبط  ِشیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری ﷫فرمانے لگے جس جامعہ میں آپ اپنی یادیں شیئر  کررہے ہیں ہم نے اس کی بنیادیں رکھی ہیں ۔ میں اس ادارے کا سب سے پرانا طالب علم ہوں میرے نانا شیخ القرآن محمد حسین شیخوپوری ﷫ 1978 میں خود  مجھے داخل کروانے کے لیے آئے تھے۔اس وقت ادارہ محض ایک خالی پلاٹ تھا۔ جب مولانا محمد حنیف ندوی ﷫ہمارا امتحان لینے آئے تو ہم نے 99-J بلاک کے باہر کھلے پلاٹ میں بیٹھ کر امتحان دیا تھا۔  اس کے بعد انہوں نے جامعہ رحمانیہ والے پلاٹ  کے ملنے سے لے کر اس کی تعمیر تک اور اس دوران بریلوی مسلک کے لوگوں  کی طرف سے قبضہ کی کوششیں اور ان کا جواب دینے کی روداد بیان کی ۔ان کے علاوہ  چندفضلاء نے جامعہ میں گزارے لمحات اور مادرِ علمی سے اپنے دلی تعلق کا اظہار کیا۔

یادرہے پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی صاحب  نے جامعہ سے  منسلک رہنے والےسابقہ اساتذہ وسٹاف کو خصوصی طورپر  دعوت دی ۔فضیلۃ الشیخ ہدایت اللہ صاحب ، فضیلۃ الشیخ رانا طاہر محمود صاحب، قاری اسلم صاحب ، ڈاکٹر فاروق موسیٰ تونسوی صاحب  پروگرام میں تشریف لائے اوراپنے شاگردوں سے  پرانی یادیں تازہ کیں اور ابوالجامعہ حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾ سے  ملاقات بھی کی۔ مولانا اکرام اللہ ساجد ﷫   نے طویل عرصہ  بطور نائب مدیر  ماہنامہ محدث واکاؤٹنٹ خدمات انجام دیں ۔ان کے صاحب زادے مولانا انعام اللہ ساجد صاحب بھی پروگرام میں  تشریف لائے انہیں اعزازی شیلڈ بھی پیش کی گئی۔ ان کے علاوہ ارشدعلی ڈرائیور، ابوبکر ڈرائیور، عطاء اللہ لکھوی  ڈرائیور بھی   پروگرام میں تشریف لائے۔

علماء کی ذمہ داریاں اور مستقبل کی حکمتِ عملی

نمازِ عصر کے بعد جامعہ کے متصل پارک میں دوسری  مشاورتی نشست منعقد ہوئی ، جس کا عنوان تھا ’’علماء کی ذمہ داریاں اور مستقبل میں مؤثر کردار کی حکمتِ عملی‘‘ ۔ جامعہ کے  سیئنر ترین فضلاء کو  بطور مہمان خصوصی اسٹیج پر جگہ دی گئی جو ان کا حق بھی تھا ، جامعہ کے فضلاء میں سے جنہوں نے سعودی جامعات سے اعلیٰ تعلیم  حاصل کی ہے انہیں بطور خاص مدعو کیا گیا اور انہیں  شامیانے کے بائیں طرف اسٹیج کے ساتھ جگہ دی گئی تھی ۔ اس نشست کی نقابت ڈاکٹر آصف جاوید نے کی۔

پروگرام کا آغاز  قاری احمد ہاشمی کی تلاوت سے ہوا ،نظم کے لیے محترم عبداللہ عزام کو دعوت دی گئی۔ اس نشست میں  ممتاز فاضلین جامعہ(مولانا  زبیر عقیل ،مولانا محمد رفیق زاہد،مولانا محمد اجمل بھٹی، قاری فہد اللہ مراد،  قاری شفیق الرحمٰن زاہد وغیرہم) نے عصرِ حاضر میں علماء کے چیلنجز اور ان کے مؤثر کردار پر روشنی ڈالی۔

اس نشست میں   حافظ محمد عباس صدیق آف قطر(مدیر اسلامک انسٹی ٹیوٹ مہنتاوالہ)  نے بڑی  اہم گفتگو کی جس   نے سب کی توجہ حاصل کی۔ انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز اس پنجابی شعرسے کیا

                مسلم یاد کر،او وقت جدوں دنیا وچ سرفراز سی تو                               دنیا سی ناز دہندا، ناز بردار سی تو

                لوگ ماہر منطق فلسفہ دے سن                                                      پر محتاج او تیرے مسلم درس دے سن

پھر کہا کہ میں نے بہت سے اداروں کا وزٹ کیا، لیکن  میں نے جامعہ رحمانیہ  جیسا کوئی دوسرا ادارہ نہیں پایا ،  یہ جامعہ محدثین پیدا کرنے والا ادارہ ہے۔

ابو الجامعہ ڈاکٹر حافظ عبدالرحمٰن مدنی ﷾کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے  کہ وہ جب بھی کہیں بطور چیف گیسٹ مدعو کیے جاتے ہیں، تو انہیں فائیو اسٹار ہوٹلز اور گیسٹ پیلسز میں قیام کی پیشکش ہوتی ہے، مگر وہ وزارتوں کے پروٹوکول کو چھوڑ کر اپنے کسی طالب علم کے گھر میں رات گزارنا پسند کرتے ہیں۔

انہوں نے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے اشتہار کو دیکھتے ہوئے کہا  کہ ڈاکٹر حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب نے اپنے گھر میں کیسے نایاب ہیرے پیدا کیے ہیں ،  ان کے گھر میں کوئی بچہ ایسا نہیں جو حافظِ قرآن نہ ہو۔ میں مختلف میدانوں میں  ان ناموں(ڈاکٹر حافظ حسین مدنی،ڈاکٹر حافظ حسن مدنی،ڈاکٹر حافظ انس مدنی،ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی) کو پڑھ پڑھ کر تھک گیا ہوں  ۔

جامعہ رحمانیہ نے ہمیں کیا دیا ہے ؟  جامعہ نے جہاں دیدہ  ماہرین فن علماء دیے، عالمی سطح کے اسکالرز دیے، محققین اور محدثین دیے،دین اور دنیا کی قیادت کے لیے رجالِ کار فراہم کیے۔ پاکستان کے سیاسی و سماجی میدان میں جامعہ کے اثرات نمایاں ہیں۔ صدر پاکستان  رفیق تارڑ جیسےعظیم  نام اسی ادارے کے رہین منت ہیں۔

حافظ عباس صاحب  نے اپنے اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلا لفظ شیخ عبدالرحمان عظیمی﷫ سے پڑھا۔ قاری نعیم الحق اور حافظ عبدالرشید اظہر ﷮کے دروس آج بھی یاد ہیں۔

ہماری جامعہ کے شیخ الحدیث   محدث العصر حافظ ثناء اللہ مدنی ﷫ سے  پڑھنا  عرب علماء بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ حافظ صاحب ﷫ عرب ممالک میں دورہ حدیث کراتے تو اس میں  کئی کئی گھنٹے تدریس کرتے ، صبح سے ظہر، ظہر سے مغرب تک مسلسل پڑھاتے رہے۔ایک موقع پر مجھے بھی ان کے درس میں عربی عبارت پڑھنے کا موقع ملا، میں تھک گیا، جبکہ وہ بغیر رکے پڑھاتے رہے۔

اساتذہ کرام کے تقویٰ کا ذکر کرتے ہوئے  کہنے لگے  کہ جب  ہماری کلاس  نے فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی صاحب[1]  سےحرمت تصویر کا  مسئلہ پڑھا تو اس کا اثر اتنا گہرا تھا  کہ ہم اپنے اسٹوڈنٹ کارڈزبھی  جیب میں رکھنے سے گریز کرنے لگے ، بعض  طلبہ نے یہ عزم کیا کہ تصویر والے  نوٹوں کا چینج لے کر سکے جیب میں رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ زندگی کے کسی بھی شعبے کو دیکھیں، تو آپ کو وہاں جامعہ رحمانیہ کے فارغ التحصیل طلبہ ضرور ملیں گے۔ وہ چاہے تعلیم کا میدان ہو، سیاست ہو، قیادت ہو یا دین کا کام ہو، ہر جگہ جامعہ کے افراد اپنی قابلیت کے جوہر دکھا رہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ  جامعہ لاہور الاسلامیہ صرف تعلیمی ادارہ نہیں، بلکہ یہ ایک تحریک ہے، جس نے پوری دنیا میں نبذة العلماء، فقہاء اور مجتہدین پیدا کیے۔اللہ تعالیٰ اس ادارے کو مزید ترقی دے اور اس کے اساتذہ و طلبہ کو دنیا و آخرت میں سرخرو کرے۔ آمین۔

مولانا محمد جابر حسین مدنی   (فاضل جامعہ رحمانیہ ومدینہ یونیورسٹی  مدیر مرکز نداء الاسلام رینالہ خورد) جامعہ کے قدیم فضلاء میں  سے ہیں اور مولانا محمد شفیق مدنی (سابق مدیرالتعلیم جامعہ لاہور الاسلامیہ) کے قریبی عزیز بھی ہیں  موصوف  نے اپنی  مادر علمی  سے متعلق اپنی یادیں  تحریر کی صورت میں یوں پیش کیں ۔

’’ 41 سال قبل میں اپنی زندگی کے 14 سال گزار چکا تھا اور ناظرۃ القرآن کے ساتھ ساتھ روز مرہ کے اذکار ومسنون دعائیں، پیارے رسول کی پیاری دعائیں اور صلاۃ الرسول جیسی مقبول عام کتابوں سے یاد کر رہا تھا کہ والدین نے دین سیکھنے کے لئے دینی درسگاہ جامعہ رحمانیہ  (موجودہ نام جامعہ لاہور الاسلامیہ)  کا انتخاب کیا۔ اس وقت  جامعہ رحمانیہ اعظم گارڈن ہنجروال میں کرایہ کی بلڈنگوں میں تھا ۔ ابوالجامعہ بھرپور جوانی کی عمر میں تھے اور ان کے برادرِ خورد حافظ عبد الوحید روپڑی بھی ان کے شانہ بشانہ تھے، اگرچہ حافظ عبد الوحید تب بھی برنتھ روڈ پر کاروبار کرتے تھے  لیکن جامعہ رحمانیہ کی تعمیر وترقی کے لیے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ تھے۔  اسی دوران 91 بابر بلاک والی جگہ درسگاہ کے لیے حاصل کرنے  میں وہ  کامیاب ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند ماہ میں بلڈنگ تعمیر کروا کر تمام کرایہ کی بلڈنگوں سے طلباءو کو یہاں شفٹ کر دیا گیا ۔  جامعہ رحمانیہ عروج کی منزلیں طے کرنے لگا ، چند ہی سالوں میں  پاکستان کے نمایاں دینی مدارس میں اس کا   شمار ہونے  لگا ۔تب ابو الجامعہ کے بیٹے  زیر تعلیم تھے ، پھر دیکھتے  ہی دیکھتے  سب  بڑے ہوئے، دینی و دنیوی تعلیم کے تمام مراحل امتیاز ی حیثیت سے طے کرکے جامعہ میں تدریسی فرائض انجام دینے لگے  بلکہ نظم و انصرام میں بھی اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے، ان کی  شاندار کارکردگی  کا نتیجہ تھا  کہ جامعہ رحمانیہ اندرون ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی  متعارف  ہوا ۔ جامعہ  کے سینکڑوں نہیں ہزاروں بیٹے  نا صرف اندرون ملک بلکہ دنیا کے کونے کونے میں دین اسلام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔

آج پھر اسی جامعہ رحمانیہ میں 4 فروری کو ابناء الجامعہ کے ساتھ ابوالجامعہ حافظ عبدالرحمن مدنی  اور ان کے تمام بیٹے ، بھائی  مؤرخ اہلحدیث حافظ عبدالوحید روپڑی ، شیخ الحدیث حافظ عبد الغفار روپڑی ، مفسر قرآن  حافظ عبد الوھاب روپڑی بھی شرکت فرما رہے ہیں ، کس قدر حسین منظر  ہے جب شرکاء   جلسہ  کے روبرو  پورا خاندان اسیٹج پر جلوہ افروز ہے۔ ایں دعا است از جملہ جہاں آمین است ۔‘‘

تاثرات

 بہت سارے فاضلین نے  پروگرام کی کامیابی پر اپنے دلی جذبات کا اظہار  سوشل میڈیا   میں  فاضلین جامعہ کے واٹس ایپ گروپس  میں کیا ۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں :

عبدالرحمٰن  محمدی ( فاضل مدینہ یونیورسٹی)

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس بابرکت اجتماع کے تمام منتظمین، معاونین اور خدمت گاروں کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ان کے علم و عمل میں برکت نازل فرمائے اور انہیں مزید علمی و روحانی خدمت کی توفیق بخشے۔ یہ روشن چراغ یونہی فروزاں رہے اور علم و عرفان کی روشنی نسل در نسل منتقل ہوتی رہے۔ آمین یا رب العالمین!

رات پروگرام کی انتہائی خوش کن اور باعث مسرت باتوں میں سے روپڑی خاندان کے بزرگوں کا ایک اسٹیج پر جمع ہونا تھا۔ جب شیطان خاندانوں کو توڑ کر اور ان کے مابین افتراق وانتشار اور دوریاں پیدا کرکے خوش ہوتا ہے تو خاندانوں کے ملنے، جڑنے اور ان کے باہم متحد ہونے سے مومن کا خوش ہونا ایمان کی علامت ہے۔ اللہ رب العزت اس اتحاد کو باعث خیر بنائے، اسلام اور اہل اسلام کیلئے نافع بنائے۔

 آصف اسماعیل

آج مادر علمی جامعہ لاہور الاسلامیہ کی روح پرور فضا میں ایک حسین منظر دیکھنے کو ملا، جہاں دینِ اسلام کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ممتاز روپڑی خاندان کا اتحاد اور یکجہتی اپنی مثال آپ تھا۔ عرصہ دراز سے ادارے میں منصبِ تدریس پر فائز اساتذہ کرام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے، ان کی محنت، خلوص اور علم دوستی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

خصوصی طور پر، مثالی طلبہ کو عمرے کے ٹکٹ سے نوازا جانا ایک قابلِ رشک سعادت تھی، جبکہ اساتذہ، دوست احباب، کلاس فیلوز اور جامعہ کے رفقاء سے ملاقات نے دل کو خوشی اور شادمانی سے بھر دیا۔ یہ لمحات نہ صرف روحانی مسرت کا باعث بنے بلکہ علمی و دینی وابستگی کو مزید تقویت بھی ملی۔

اللہ تعالیٰ ابو الجامعہ اور تمام اساتذہ کرام کی شب و روز کی محنت، خلوص اور محبت کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور جامعہ لاہور الاسلامیہ کو مزید ترقی و استحکام بخشے۔ آمین!

انتظامیہ کی طرف سے شرکاء ملتقی کے لیے اظہار تشکر

 ابناء جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) کا اخلاص، تعلق اور تعاون ہمارے لیے ہمیشہ باعثِ افتخار رہا ہے۔ ہم دل کی گہرائیوں سے آپ تمام معزز ہستیوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنی قیمتی مصروفیات ترک کر کے مادرِ علمی کی پکار پر لبیک کہا اور اس عظیم اجتماع کو رونق بخشی۔

آپ جیسے علم ودانش کے حامل ڈاکٹرز، پروفیسرز، مدرسین، مصنفین، دعاۃ، خطباء اور قراء کرام کی شرکت ہمارے لیے نہایت عزت وافتخار کا باعث تھی، بلکہ ہمارے ہاں زیر تعلیم طلبہ کے لیے بھی فکری وعلمی رہنمائی کا بیش بہا ذریعہ ثابت ہوئی۔ آپ کی موجودگی نے اس روحانی محفل کو مزید وقار بخشا اور اسے یادگار بنا دیا۔

 ہماری حتی المقدور کوشش تھی کہ آپ کی میزبانی آپ کے شایانِ شان ہو، تاہم آپ کو کسی کمی کا احساس ہوا ہو تو امید ہے کہ اسے نظرانداز فرمائیں گے۔ جزاکم اللہ خیراً وبارک فیکم

منجانب                    

مدنی برادران ،انتظامیہ اور نمائندگان فضلائے جامعہ

 

[1]  شیخ سعیدی مجتبیٰ سعید ی ﷫ کو پروگرام میں شمولیت کے لیے دعوت دی گئی تھی لیکن وہ  ان دنوں کراچی کے دس روزہ   تبلیغی ودعوتی سفر پر تھے  جس  کے سبب  تشریف نہ لاسکے ۔ بعد میں 17؍فروری بروزسوموار  محدث لائبریری 99۔جے ماڈل    ٹاؤن تشریف لائے  نماز  مغرب ادا کی اور ابو الجامعہ حافظ عبد الرحمٰن  مدنی ﷾   کی عیادت کی۔ 25فروری  2025بروزمنگل صبح 9بجے اپنےخالق حقیقی سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون)... اس شمارے میں شیخ  ﷫ کے احوال زندگی پر مشتمل مضمون موجود  ہے ، قارئین ضرور ملاحظہ فرمائیں ۔