اپریل 2025ء

شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری)  قسط (9)

بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالیٰ:﴿مَلِكِ النَّاسِ﴾ [الناس: 2]

باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ’’لوگوں کا بادشاہ “۔

اس باب میں امام بخاری﷫ اللہ تعالیٰ کی صفت مَلِک ( بادشاہت)  ثابت کررہے ہیں۔ اس کے لیے قرآن مجید میں دو لفاظ آئے ہیں : مَلِک  اور مَالِک ۔ ملک کا معنی بادشاہ اور مالک کامعنی  کسی چیز کی ملکیت رکھنے والا ۔ امام نےیہاں ترجمۃ الباب کے لیے ﴿مَلِكِ النَّاسِ﴾[الناس: 2] کو منتخب کیا ہے ، اس کی دو وجوہات ہیں :

  •   تمام مخلوقات سے افضل انسان ہے ، جب انسان کا وہ تنہا مالک ہے ، تو دوسری چیزوں کا بالاولیٰ وہ مالک ہے ۔
  • ﴿ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ۰۰۳﴾ میں دو قراءات ہیں ،  مَالِكِ اور    مَلِكِ ، لیکن مذکورہ آیت میں ایک ہی قرائت       مَلِكِ ہے اور امام بخاری  اس باب میں اسی صفت  کو بیان کرنا چاہتے ہیں ۔

 امام بیہقی کے بقول مَلِك اسم خاص ہے اور اللہ تعالیٰ کے حق میں اس کا معنی ہے’’ ایجاد کرنے پر قادر ‘‘  اور یہ اللہ کی ذاتی صفت ہے۔ امام راغب فرماتے ہیں کہ الملک اس کو کہتے ہیں جو امر و نہی کا کلی اختیار رکھتا ہو (یعنی وہ اپنے ارادے اور مشیئت کو مطلق طور پر نافذ کرے )۔یہ لفظ   ناطقین (جن،  انس اور ملائکہ ) کو امر و نہی دینے کے ساتھ خاص ہے ، اسی لیے ملک الناس تو کہا جاسکتا ہے ، ملک الاشیاء نہیں کہا جاسکتا  [1]۔ اس اعتبار سے  مَلِكِ الناس کا معنی ہے لوگوں  پر پورا کنٹرول رکھنے والا ،  اس کے حکم کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے   اور   ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ۰۰۳﴾ کا معنی ہوگا حساب کے دن کا بادشاہ   ۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو  قیامت  کے دن کے ساتھ اس لیے خاص کیا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے  دنیا میں کئی لوگوں کو محدود علاقوں میں عارضی بادشاہت دے رکھی  ہے ، جبکہ قیامت کے دن اللہ کے سوا کوئی   بادشاہت کا دعوے دار نہ ہوگا ، جیساکہ قرآن مجید میں ہے  قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا :

 ﴿ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ﴾

’’ آج بادشاہ  کون ہے ؟۔‘  ‘

کسی طرف سے  جواب نہیں آئے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا:

﴿ؕ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۰۰۱۶﴾ [غافر: 16]

’’ (آج کلی طور پر حکومت ) اللہ کی ہے جو واحد زبر دست ہے۔ ‘‘

حافظ ابن حجر  ﷫فرماتے ہیں : اس صفت کی دو وجہیں ہیں :

ذاتی صفت کے اعتبار سے یہ قدرت  کے معنی میں ہے ، اور صفت فعلیہ  مراد لیں تو اس  کا معنی ہوگا غالب اور اپنے ارادے کو نافذ کرنے والا،  اس اعتبار سے یہ فعل کی صفت ہوگی[2] ۔

اللہ تعالیٰ کے ارادے  اور مشیئت کی وضاحت کے لیے قرآن مجید میں کئی آیات آئی ہیں، مثلاً :

﴿وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُؒ۰۰۲۵۳﴾ [البقرة: 253]

’’ لیکن اللہ تو وہی کچھ کرتا ہے ،جو وہ چاہتا ہے ۔‘‘

﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ۰۰۱۰۷﴾ [البروج: 16]

’’ جو کچھ چاہے  اسے کر ڈالنے والا ہے ۔ ‘‘

﴿لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْـَٔلُوْنَ۰۰۲۳﴾ [الأنبياء: 23]

’’ جو کچھ وہ کرتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا البتہ (جو مصنوعی معبود  بنا رکھے ہیں)ان سے ضرور باز پرس ہوگی ۔‘‘

اسی معنی کو واضح کرنے کے لیے صفتِ  ملک ہے ۔ یعنی کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ  کا ارادہ نافذ ہوتا ہے،  اس کے مقابلے میں لوگوں کا ارادنافذ ہوتا ہے نہ اس  کی کچھ حیثیت نہیں ہے ۔

 مالک ہونے کے معنی مراد لیں تو بھی درست ہے ، کیونکہ قرآن مجید میں  کئی مقامات پر  آسمان و زمین کی ملکیت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے :

﴿وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌؒ۰۰۱۸۹﴾ [آل عمران: 189]

’’ آسمانوں اور زمین کا مالک اللہ ہی ہے اور اللہ ہر چیز پرقادر ہے ۔‘‘

 یعنی اللہ تعالیٰ  کائنات کا خالق اور مالک ہے ، وہ کائنات میں اپنی مشیت و ارادہ کو اس طرح تصرف کرتا ہے کہ اس کے حکم کو کوئی رد کرنے والا نہیں ، اس کے فیصلے پر کوئی  نظر ثانی کرنےوالا نہیں ہے ۔ لوگوں کا بادشاہ اس معنیٰ میں ہے کہ انسانوں پر اس کا پورا کنٹرول ہے ، اس کے کنٹرول کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا ۔

علامہ عبدالحق ہاشمی ؒ اس باب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ذکر الإمام البخاری فی هذا الباب هذا الإسم، و أشار إلی إثبات  صفة الذات أو الفعل، و ذلک لأن الملک إن کان بمعنی القدرة یکون صفة الذات، و إن کان بمعنی القهر و الصرف عما یریدون إلی ما یریده یکون صفة فعل [3].

’’  امام بخاری نے اس بات میں یہ اسم بیان کیا ہے اور اس ذاتی یا فعلی صفت کے اثبات کی طرف اشارہ کیا ہے ، یہ اس لیے کہ  اگر ملک کا معنی قدرت کریں تو یہ صفت ذاتی ہے اور اگر اس کا معنی یہ کریں کہ اسے کائنات میں غلبہ حاصل ہے اور وہ جس چیز کو  لوگوں کی چاہت سے  اپنی چاہت  کی طرف پھیر دے تو یہ صفت فعلی بنے گی ۔ ‘‘

جیساکہ حضرت علی کی طرف منسوب ایک  مشہور مقولہ ہے :

عرفت ربی بفسخ العزائم ونقض الهمم [4].

’’میں نےاپنے رب کو پختہ ارادوں کے ٹوٹنے  اور قوی ارادوں کے ناکام ہوجانے سے پہچانا ۔‘‘

صحیح بخاری میں نقل احادیث کے طریقے :

صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں تین   طریقوں سے احادیث نقل کرتے ہیں :

  • متصل احادیث : یہ احادیث پوری اسناد کے ساتھ اور بطور دلیل نقل کرتے ہیں ، اور یہ احادیث امام بخاری کی شرائط پر پوری اترتی ہیں ۔
  • معلق احادیث : یہ روایات بغیر سند کے نقل کی جاتی ہیں ، ان کی اسناد درست ہوتی ہیں ، لیکن امام بخاری کے اس کتاب میں مقرر کردہ کڑے معیار پر پوری  نہیں اترتی ۔  حافظ ابن حجر نے’’ تغلیق التعلیق  علی صحیح البخاری ‘’ میں تمام معلقات بخاری کو اسناد کے ساتھ جمع کردیا ہے۔
  • کبھی امام بخاری حدیث کا صرف حوالہ دیتے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ  امام بخاری کا اصول یہ ہے کہ وہ صحیح بخاری میں کسی  حدیث  کو مکرر نہیں لاتے۔   صحیح بخاری میں جتنی بھی احادیث تکرار کے ساتھ  آئی ہیں ان  میں لازمی طور پر سند ،   متن،   یا دونوں  میں کوئی نہ کوئی فرق ہوتا ہے۔ جب کسی حدیث کی ایک ہی سند ہو اور دوسری جگہ اس سے استدلال کرنے کی ضرورت پڑے تو  امام بخاری ؒ  حدیث نقل کرنےکی بجائے اس کا حوالہ دےدیتے ہیں۔   جیساکہ امام بخاری نے   مذکورہ ترجمۃ الباب میں حضرت ابن عمر ؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

فِيهِ ابْنُ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

’’  اس مسئلہ میں   ابن عمر بھی رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں ۔‘‘

 جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیاہے، وہ  صحیح بخاری ،کتاب التوحید(7412)  میں موجود  ہے :

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ اللهَ يَقْبِضُ يَوْمَ القِيَامَةِ الأَرْضَ، وَتَكُونُ السَّمَوَاتُ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا المَلِكُ[5].

’’ عبداللہ بن عمر ﷠سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں پکڑے گا  اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہو گا، پھر کہے گا کہ میں بادشاہ ہوں۔‘‘

7382۔ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:يَقْبِضُ اللهُ الأَرْضَ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا المَلِكُ ، أَيْنَ مُلُوكُ الأَرْضِ .

وَقَالَ شُعَيْبٌ، وَالزُّبَيْدِيُّ، وَابْنُ مُسَافِرٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ [مِثْلَهُ ] .

’’ ہمیں  احمد بن صالح نے بیان کیا،کہ ہمیں  ابن وہب نے بیان کیا ، کہ مجھے  یونس نے خبردی ،ابن شہاب سے، انہوں نے سعید سے ، کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ  کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ  قیامت کے دن زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا پھر فرمائے گا : میں بادشاہ ہے ہوں ، زمین کے بادشاہ  کہاں ہیں ؟ ۔‘‘

لطائف الاسناد

امام بخاری نے حدیث کے شروع میں جو سند بیان کی ہے ، اس میں یونس،  ابن شہاب زہری سے اور  وہ سعید بن مسیب عن أبی ھریرة سے  بیان کررہے ہیں اور حدیث کے آخر پر امام بخاری فرماتے ہیں کہ    اس کے برعکس امام زہری کے چار شاگرد شعیب ، زبیدی ، ابن مسافر اور اسحاق بن یحییٰ اپنے استاذ امام الزہری سے یہ روایت ابو سلمة عن أبی هریرة  کے واسطے سے روایت کرتے ہیں، یعنی  اختلاف یہ ہے کہ اس حدیث میں امام الزھری کے استاذ کون ہیں  :سعید یا ابو سلمہ؟   یہ تضاد نہیں ہے  کیونکہ   امام زہری نے یہ  حدیث دو استادوں سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن  دونوں   سے سنی ہے اور   حافظ ابن حجر نے محمد بن یحییٰ ذھلی سے نقل کیا ہے کہ یہ دونوں  سندیں ہی محفوظ ہیں اور امام بخاری کا اسے نقل کرنا اسی بات کا تقاضا کرتا ہے  ۔ شعیب والی سند  کو کثرت  متابعت کے سبب  ترجیح  ہے اور یونس  کی سند اس لیے قابل ترجیح ہے کہ  یونس امام زہری کےساتھ زیادہ دیر رہنے کے سبب شاگرد خاص ہیں۔ اسی لیے امام بخاری نے امام زہری کے چار شاگردوں کےمقابلے میں  یونس پر اعتماد کیا ہے ، مزید ان کے متعلق  احمد بن صالح کہتے ہیں  :

 نحن لا نقدِّمُ أحدا علی یونس فی الزهری  [6].

’’ ہم زہری کے شاگردوں میں یونس سے بڑھ کر کسی کو نہیں سمجھتے  ‘‘۔

امام بخاری نے  مِثله کہہ کر بتادیا کہ سعید بن مسیب اور ابو سلمہ کی اسناد  کے متن میں کوئی فرق نہیں ہے۔

شرح الحدیث

مذکورہ بالا دونوں روایات میں  اللہ تعالیٰ کی عظمت ، کبریائی  اور پوری کائنات پر اس کا تصرف اور بادشاہت کا تذکرہ ہے ۔ جس کا مظاہرہ  قیامت کے دن ہوگا ، جیساکہ قرآن مجید میں ہے :

﴿يَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ لَا يَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَؕ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۰۰۱۶﴾

[غافر: 16]

’’جس دن سب لوگ  کھلے میدان میں ہوں گے اور ان کی کوئی بات اللہ سےچھپی نہ رہے گی (اور پوچھا جائے گا کہ ) آج حکومت کس کی ہے ؟ (جب کوئی جواب نہ دے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ) اللہ اکیلے کی جو سب پر  غالب ہے۔‘‘

صحیح مسلم میں ابن عمر ؓ سے مروی ہے :

يَطْوِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ. ثُمَّ يَطْوِي الْأَرَضِينَ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟ [7]

’’ اللہ عزو جل قیامت کے دن تمام آسمانوں کو لپیٹ دیں گے ، پھر اسے اپنےدائیں ہاتھ میں پکڑیں گے ، پھر فرمائیں  گے: میں بادشاہ ہوں ، کہاں ہیں جبار ؟ کہاں ہیں متکبر ؟ پھر تمام زمینوں کو اپنے بائیں ہاتھ میں لپیٹ لیں گے  ، پھر فرمائیں  گے: میں بادشاہ ہوں ، کہاں ہیں جبار ؟ کہاں ہیں متکبر ؟ ۔‘‘

صحیح بخاری کی ایک حدیث میں زمین و آسمان کو لپیٹنے کی مزید تفصیل ان الفاظ میں  ملتی ہے :

أَنَّ اللهَ يَجْعَلُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ وَالأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الخَلاَئِقِ عَلَى إِصْبَعٍ، فَيَقُولُ أَنَا المَلِكُ[8].

’’ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا،  تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، دریاؤں اور سمندروں کو ایک انگلی پر، گیلی مٹی کو ایک انگلی پر اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔‘‘

 اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق  ومالک ہے ، وہ اپنی مشیت اور قدرت  میں آزاد ہے ، وہ  جسے چاہے بادشاہ بنا دے اور جس سے چاہے بادشاہت چھین لے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُوَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۲۶ ﴾ [آل عمران: 26]

’’ آپ کہئے : اے اللہ ! ملک کے مالک ! جسےتو چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے اور جس سےچاہتا ہے چھین لیتا ہے ۔ تو ہی جسےچاہے عزت دیتا ہےاور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے ۔ سب بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے (اور) تو یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

 زمین کے تمام بادشاہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین پر خلیفہ ہیں ، یعنی وہ اللہ کے احکام پر عمل کرنے اور دوسروں سے عمل کرانے کے  پابند ہیں ، اس لیے وہ حقیقی بادشاہ نہیں ہیں۔ حقیقی بادشاہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفت ملک ، اگر چہ مخلوق کےلیے بھی استعمال ہوتی ہے ، لیکن مخلوق کے لیے نہایت چھوٹے پیمانے پر یہ صفت استعمال ہوتی ہے ، یعنی انسان کسی ایک یا چند چیزوں یا زمین کے کسی ٹکڑے  کا عارضی طور پر مالک ہوسکتا ہے ، لیکن مطلق طور پر ملک یا ملک الملوک  کا استعمال صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے  ۔

 ﴿لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ﴾  کا ہرگز یہ معنیٰ نہیں کہ اللہ کی بادشاہت اسی دن قائم ہوگی ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہےکہ دنیا میں رہتے ہوئے بہت سارے لوگ اپنی بادشاہت اور طاقت کے گھمنڈ میں حقیقت کو فراموش کیئے ہوئے ہیں  اور خود کو حقیقی اور آزاد بادشاہ سمجھتے ہیں ۔جیساکہ  ابراہیم ﷤  نے اپنے وقت کے باد شاہ کے سامنے اللہ تعالیٰ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو زندگی دیتا اور موت دیتا ہے ، تو اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہےا ور مارتا ہوں ، تب ابراہیم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ روز سورج کو مشرق سے طلوع کرتاہے ،اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ایک دن تو مغرب سے سورج کو طلاع کرکے دکھا دے ۔ [9]

 جب اللہ کے  آرڈر سے ساری کائنات ختم ہوجائے گی ، تب یہ حقیقت اپنی ظاہری شکل میں رونما ہوگی۔

فوائد :

  • ملک کے لیے دو الفاظ استعمال ہوتےہیں :ملک اور مالک  ۔
  • "ملک’’ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے ۔البتہ فعلی صفت بھی ہوسکتی ہے ۔
  • صفتِ ذاتی کے اعتبار سے اس کا معنی قدرت  اور صفتِ فعلی ہونےکے اعتبار سےمعنی ہوگا غالب اور اپنے ارادے کو نافذ کرنے والا ۔
  • امام بخاری ؒ کوئی حدیث مکرر نہیں لاتے ، اگر حدیث دوبارہ لائیں  تو  اس کی سند یا متن میں فرق ہوتا ہے۔
  • اگر ایک ہی سند والی حدیث کو  دوبارہ لانے  کی ضرورت ہو تو امام بخاری ؒ صرف اس کا حوالہ دیتے ہیں ۔

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین  وآسمان کو اپنے ہاتھ میں لے کر فرمائے گا : آج بتاؤ میرے سوا کس کی بادشاہت ہے ؟۔ یعنی اس دن وہ اپنے  ملک ہونےکا اظہار کرے گا ۔

 

[1]     المفردات فی غريب القرآن، مادۃ : ملک،ص: 774

[2]     فتح الباری :14/314

[3]     کتاب التوحید للامام البخاری  بشرح لشیخ أبی محمد عبدالحق بن عبدالواحد الهاشمی ، ص : 36]

[4]     کتاب الایمان لابن تیمیۃ :356، حضرت علی  ﷜ کی طرف نسبت کیے بغیر ۔

[5]     صحيح بخاری : 7412

[6]     خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ،ص: 441

[7]     صحيح مسلم:2788

[8]     صحيح بخاری :4811

[9]     ملاحظہ فرمائیں : سورۃ البقرۃ : 258