محدثِ وقت شیخ ابو اسحاق الحوینی... ایک شمع جو بجھ گئی!
یہ وقت بھی دیکھنا تھا کہ اہلِ علم کے قافلے کا وہ چراغ، جو صفحۂ گیتی پر حدیثِ رسول ﷺ کی روشنی بانٹتا رہا، آج خود عدم کے اندھیروں میں چھپ گیا!
محدث ابو اسحاق الحوینی... وہ نام جسے علماے حدیث میں امتیاز حاصل تھا، وہ ہستی جس نے قال اللّٰہ و قال الرسول کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا، وہ محقق جس کی نگاہ روایت کی باریکیوں کو یوں پرکھتی تھی جیسے جوہری نگینے کو پرکھتا ہے۔ حدیث کی سند ہو یا متن، رجال کی جرح ہو یا تعدیل، شیخ الحوینی کی زبان جب کسی مسئلے پر کھلتی تو گویا قرونِ اولیٰ کے محدثین کا لہجہ سنائی دیتا۔ عرب کے علمی حلقے ان کے درس میں کھنچے چلے آتے، ان کی مجلس گویا علمِ حدیث کی ایک زندہ بزم ہوتی۔
شیخ ابو اسحاق الحوینی کا اصلی نام حجازی محمد یوسف شریف تھا۔ وہ صرف محدث نہ تھے بل کہ ایک داعی، ایک مجاہدِ اصلاح بھی تھے۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر جملہ، ہر وعظ، گویا دلوں پر ضرب لگانے والا تیر تھا... بہ راہِ راست، بے کم و کاست، بغیر کسی مصلحت کے! قرآن و حدیث کی روشنی میں وہ امت کو جھنجھوڑتے، بدعات کے حجاب چاک کرتے اور لوگوں کو اصل دین کی طرف بلاتے۔ ان کے خطبات میں وہی جلال تھا جو سلف کے خطبوں میں ہوتا تھا؛ وہی سادگی جو اکابر محدثین کا طرۂ امتیاز تھی۔ ان کی دعوت کی برکت سے بے شمار دلوں میں دین کی شمع روشن ہوئی، بے شمار بھٹکے ہوؤں نے راہِ راست پائی۔
شیخ الحوینی نے علامہ ناصر الدین البانیؒ جیسے محدثِ وقت کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور ان سے بہت مستفید ہوئے؛ صرف علل سے متعلق دو سو سوالات ان سے پوچھے۔ محدث البانی بھی انہیں بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کی علمی تحقیقات کو سراہتے تھے۔ شیخ ابن بازؒ، ابن عثیمینؒ، ابن جبرینؒ اور محمد نجیب المطیعیؒ جیسے اساتذہ نے بھی ان کے علمی ذوق کی آب یاری کی اور یوں وہ فنِ حدیث کے درخشندہ ستارے بن کر ابھرے۔
ان کی تحقیقاتِ حدیث میں غوث المكدود بتخريج منتقى ابن الجارود اور بذل الإحسان بتقريب سنن النسائي بہت ممتاز ہیں۔ نکاح سے متعلق شیخ کی تصنیف الانشراح في آداب النكاح بھی بڑی ہی مفید ہے اور نکاح کے احکام و آداب پر مستند دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے ضعیف احادیث کی نشان دہی پر مشتمل کتاب النافلة في الأحاديث الضعيفة والباطلة بھی تحریر کی۔ إقامة الدلائل على عموم المسائل کے نام سے دینی مسائل پر ان کے فتاویٰ کا مجموعہ بھی شایع ہو چکا ہے۔ ابن ابی الدنیا کی کتاب الصمت اور تفسیر ابن کثیر کی تحقیق و تخریج بھی ان کے نمایاں علمی کارناموں میں شامل ہیں۔ ان کی تصنیفات و تالیفات اور تحقیقات کی تعداد درجنوں میں ہے۔
آہ! وہ ہاتھ جو صحاح ستہ کے اوراق پلٹتے نہ تھکتے تھے، آج مٹی تلے جا دَبے؛ وہ زبان جس پر حدیث کے نکات رواں رہتے تھے، آج خاموش ہو گئی۔ پر کیا کیجیے، یہی دنیا کا دستور ہے۔ شیخ کی موت حقیقتاً اک جہان کی موت ہے کہ ہر ایک نوحہ کناں ہے:
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
شیخ ابو اسحاق الحوینی علماء کی نظر میں
بہت سارے اکابر علماء نے شیخ ابو اسحاق الحوینی کی تعریف کی ہے اور آپ کی خدماتِ حدیث کو سراہا ہے ۔ذیل میں ہم چند علماء کے وہ اقوال جو شیخ کی مدح میں ہیں ذکر کرتے ہیں :
- شیخ البانی شیخ حوینی کے استاد بھی تھے اور آپ سے بہت شدید محبت کرتے تھے ۔شیخ البانی کی پوتی کا بیان ہے کہ ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کے بعد ہم حدیث کی تصحیح و تضعیف میں کس کی طرف رجوع کریں تو شیخ نے کہا کہ ابو اسحاق الحوینی کی طرف رجوع کرو ۔ شیخ البانی کے مشہور شاگرد شیخ مشہور حسن آل سلمان ﷾فرماتے ہیں کہ
ولم أر شيخنا البانى فرحا بأحد كما رأيته فرحا بقدوم شيخ ابى اسحاق الحوينى
’’ میں نے کبھی بھی شیخ البانی کو کسی کی آمد پہ اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جس قدر آپ شیخ
ابو اسحاق الحوینی کی آمد پہ خوش ہوتے تھے ۔‘‘
- شیخ مشہور حسن آل سلمان ﷾ فرماتے ہیں :
أشهد الله ان ابا اسحاق من علماء الحديث ومن اهل الحديث الراسخين فيه
’’میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ شیخ ابو اسحاق الحوینی کا شمار ان علماء حدیث ومحدثین میں ہوتا ہے جو فن حدیث میں خوب رسوخ رکھتے ہیں۔‘‘
- شیخ عبد الرحمن عبد الخالق فرماتے ہیں:
لو كانت الاعمار توهب لوهبت بقية عمر لشيخ ابى اسحاق الحوينى
’’اگر زندگیوں کا ہبہ کرنا ممکن ہوتا تو میں اپنی بقیہ زندگی شیخ ابو اسحاق الحوینی کو ہبہ کر دیتا۔‘‘
- دکتور احمد عیسی المعصراوی ﷾فرماتے ہیں:
فلم يكن سماحة الشيخ والدا لاخ الهيثم والحاتم وهمام وسفيان وغيرهم فقط بل كان والدا لكل متسنن
’’شیخ رحمہ اللہ صرف اپنے بیٹوں ہیثم ،حاتم ،ہمام اور سفیان کے ہی والد نہیں تھے بلکہ آپ حقیقت میں اہلسنت کے ہر فرد کے والد تھے ۔‘‘
- میں نے اپنے استاد محترم شیخ مبشر احمد ربانی کی زبان سے متعدد بار شیخ کا تذکرہ سنا ۔آپ بہت ہی احترام ومحبت وعقیدت سے شیخ حوینی کا تذکرہ کرتے تھے ۔
ذوق مطالعہ
شیخ حوینی انتہائی وسعت مطالعہ کے حامل عالم ربانی تھے ۔آپ نے اپنی زندگی میں سیر اعلام النبلاء جیسی ضخیم کتاب کا 28 مرتبہ مطالعہ کیا ۔کتاب العلل لابن ابی حاتم کا 100 سے زائد بار مطالعہ کیا اور شیخ عبد الرحمن المعلمی کی التنکیل کا 70!سے زائد بار مطالعہ کیا ۔آپ کے ذوق ِمطالعہ کے حوالے سے آپ کے بیٹے حاتم کا بیان ہے کہ ہمارے والد دن کے پندرہ گھنٹے لائبریری میں گزارا کرتے تھے۔
عقیدہ و منہج
آپ عقیدے اور منہج کے اعتبار سے خالصتا سلفی فکر کے حامل تھے ۔اگرچہ بہت سارے مدخلی فکر کے حاملین نے آپ کے منہج پہ نہایت سطحی قسم کے اعتراضات کرتے ہوے آپ کو بدعتی ،اخوانی، سروری اور تکفیری قرار دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ان اعتراضات کی حیثیت سواے اتہامات کے اور کچھ بھی نہیں ۔ذیل میں ہم شیخ حوینی کے عقیدہ و منہج پہ مداخلہ کے سطحی و بچگانہ اعتراضات کا تفصیلی رد کریں گے۔
پہلا اعتراض
شیخ ابو اسحاق پہ مداخلہ کی جانب سے سب سے زیادہ جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ شراب نوشی ٬سود خوری اور دیگر گناہوں کے باربار ارتکاب کو کفر اکبر سمجھتے تھے لہذا مدخلی حضرات اس وجہ سے اعلانیہ شیخ حوینی کو خارجی اور تکفیری کہتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔شیخ نے اپنی بہت ساری مجالس میں اپنے اوپر لگنے والے اس الزام کی تردید کی اور واضح کہا کہ میرا عقیدہ ائمہ اہل سنت والا ہے اور میں کسی بھی گناہ کبیرہ کے مرتکب کی کبھی بھی تکفیر نہیں کرتا اور نا ہی اس کا سوچ بھی سکتا ہوں چاہے وہ گنہگار اس گناہ کبیرہ پہ اصرار ہی کیوں نا کرتا ہو سواے اس کے کہ وہ اس گناہ کو حلال سمجھنے والا ہو تو صرف اس صورت میں تکفیر کرتا ہوں لیکن افسوس کہ مدخلی حلقوں کی جانب سے شیخ کی وفات کے بعد بھی اس حوالے سے یہ پروپیگنڈا بڑی شدت سے ہوا کہ آپ تکفیری ہیں کیونکہ آپ گناہ کبیرہ کی وجہ سے تکفیر کرتے ہیں حالانکہ شیخ زندگی بھر اس الزام کی تردید کرتے رہے ۔تو چونکہ مدخلی حضرات کا اصرار ہے کہ ہم نے شیخ کی وضاحت نہیں ماننی تو ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ مدخلی حضرات جس ویڈیو کی بناء پہ شیخ کو تکفیری کہتے ہیں اس کی بھی وضاحت کر دیں ۔ اس ویڈیو میں شیخ نے جو گفتگو کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی سود کی حرمت کو قرآن وسنت کی نصوص سے جانتا ہو اور پھر کہے کہ میں جانتا ہوں کہ قرآن و سنت میں سود حرام ہے لیکن میں سود ضرور کھاؤں گا اور سود ترک نہیں کروں گا ۔تو اگر وہ اپنی اس حالت پہ مصر رہا اور مر گیا تو وہ کفر پہ مرے گا۔ مداخلہ اس عبارت سے یہ باور کرواتے ہیں جیسے شیخ حوینی کی مراد یہ تھی کہ جو شخص کسی گناہ کبیرہ کا باربار ارتکاب کرے یا اس گناہ کبیرہ پہ مصر ہو تو وہ کافر ہو جاتا ہے حالانکہ شیخ کی قطعا یہ مراد نہیں تھی اور یہ مداخلہ کی اصول اہلسنت سے جہالت ہے کہ انہیں شیخ کا یہ کلام سمجھ نہیں آیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ شیخ کے اس کلام میں یہ ساری بحث احکامات شریعہ کے التزام و عدم التزام اور احکامات شریعہ کے لیے انقیاد(سر تسلیم خم کرنا ) اختیار کرنے کی ہے یعنی اگر کوئی بندہ کسی فرض حکم کی فرضیت کا زبانی اقرار کر کے اس کی ادائیگی سے تکبرا ًوعناداً انکار کردے یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم نا کرے اور کہے کہ میں تو یہ فرض اداء نہیں کروں گا کون ہے جو مجھ سے زبردستی یہ کام کرواے گا یا کسی حرام کی حرمت کا زبانی اقرار کر کے تکبراً وعنادا ً کہے کہ میں ضرور اس حرام کا ارتکاب کروں گا کون ہے جو مجھے روکے ؟ جیسے مانعین زکوٰۃ نے سیدنا صدیق اکبر کے دور میں تکبراً زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تھا اور جیسے ابلیس نے اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم نا کیا اور تکبر کرتے ہوے کہا کہ میں آدم کو سجدہ نہیں کروں گا ۔شیخ نے اس عدمِ انقیاد اور سر تسلیم خم نا کرنے کو کفر اکبر کہا ہے اور یہ بالکل ہی الگ بحث ہے اور اس معاملے میں شیخ الحوینی پہلے نہیں ہیں مجموع الفتاویٰ کی کتاب الجہاد اور الصارم المسلول میں اس حوالے سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا مفصل کلام مختلف جگہوں پہ موجود ہے اور اسی طرح امام ابو عبید قاسم بن سلام کی کتاب الایمان کا وہ مقام بھی لائق مطالعہ ہے جہاں انہوں نے مانعین زکوٰۃ کے کفر کی بات کی ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
فأما ان اعتقد إن الله لم يحرمه أو أنه حرمه لكن امتنع من قبول هذا التحريم وأبى أن يذعن لله وينقاد فهو أما جاحد وأما معاند ولهذا قالوا من عصى الله مستكبرا كإبليس كفر بالإتفاق ومن عصى مشتهيا لم يكفر عند أهل السنة والجماعة وإنما يكفره الخوارج.[1]
’’ اگر انسان کا کسی گناہ کے بارے یہ عقیدہ ہو کہ اللہ نے اس کو حرام نہیں کیا یا یہ عقیدہ تو ہو کہ اللہ نے اس گناہ کو حرام کیا ہے مگر وہ انسان اس حرمت کو قبول کرنے (یعنی اپنے اوپر لاگو کرنے) سے انکار کر دے اور اللہ کی اطاعت اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردے تو وہ یا تو جاحد (پہلی صورت میں )ہو گا یا معاند (دوسری صورت میں )۔ اسی لیے سلف کہتے تھے کہ جس نے تکبر کرتے ہوے اللہ کی نافرمانی کی وہ تو بالاتفاق کافر ہے جیسا کہ ابلیس نے کفر کیا اور جس نے محض گناہ کی چاہت کی وجہ سے نافرمانی کی تو وہ اہلسنت کے ہاں کافر نہیں ہے اس کی تکفیر صرف خوارج ہی کرتے ہیں ۔‘‘
شیخ الاسلام کے اس کلام کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اس وقت کافر نہیں ہوتا جب کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب محض اپنی نفسانی خواہش کی وجہ سے کر رہا ہو اور اگر وہ تکبر اختیار کرے اور اللہ کے حکم کو اپنے اوپر لاگو ماننے سے اعلانیہ انکار کردے اگرچہ اسے علم ہو کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو ایسا شخص کافر ہے جیسا کہ ابلیس اور سیدنا ابوبکر صدیق کے دور میں مانعین زکوۃ تھے۔
لہٰذا شیخ پہ یہ اعتراض ب الکل ہی لغو ہے ۔اول تو ان کی اپنی وضاحت موجود ہے کہ میں گناہ کبیرہ کی بنیاد پہ تکفیر نہیں کرتا اور اگر وضاحت نہیں بھی ماننی تب بھی کلام میں بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے ۔
دوسر اعتراض
مداخلہ کی جانب سے شیخ پہ دوسرا بڑا اعتراض یہ ہوا کہ وہ اہل بدعت اور بہت سے جہادی مجموعات جیسے حماس وغیرہ کی مدح سرائی کرتے تھے ۔ اس حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ شیخ مختلف جہادی حلقوں کی غلطیوں کے باوجود کفار کے مقابلے میں نا صرف ان کی مدح و سرائی بھی کرتے تھے بلکہ ان کا ساتھ دینے پہ امت کو ابھارتے تھے لیکن آپ نے کبھی ان کی غلطیوں کا دفاع نہیں کیا ۔اس لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ تو عین اعتدال پہ قائم منہج ہے اور اس کی نظائر آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تحریروں( خاص طور پہ مجموع الفتاوی کی کتاب الجہاد)سے بھی بہت ساری مل جاتی ہیں جہاں انہوں نے زور دیا ہے کہ اگر مسلمان بدعت میں واقع بھی ہو تو خیر کے کام میں اس کے ساتھ تعاون بھی کیا جاے گا اور اس کی وجہ سے اس کی مدح بھی کی جا سکتی ہے اور انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ بہت سارے لوگوں نے اہل بدعت سے دوری اختیار کرتے ہوے ان کے خیر کاموں میں بھی ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور ان کا یہ طرز عمل درست نہیں اور خیر کے کاموں کی مثالیں دیتے ہوے شیخ الاسلام نے جہاد اور علم کی خاص طور پہ مثال دی کہ جب ان دونوں کا قیام اہل بدعت کے تعاون کے بغیر نا ممکن ہو تو پھر ان کے ساتھ ان خیر کے کاموں میں تعاون کیا جاے گا۔ ماضی میں کونسا تمام مسلم جرنیلوں کا عقیدہ و منہج مکمل درست تھا لیکن اس کے باوجود ہر دور میں اہل ایمان ان کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کرتے رہے ہیں لہٰذا اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ جب حماس ظالم اور غاصب یہودیوں سے برسر پیکار ہے تو ان کی مدح کی جاے یا ان کا دفاع کیا جاے بلکہ یہ عین منہج اہلسنت ہے ۔
تیسرا اعتراض
شیخ کے بارے میں تیسرا بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ شیخ توحیدِ حاکمیت کو توحید کی سب سے اہم قسم کہتے تھے۔ مدخلی فکر کے حاملین آج تک شیخ محترم کا کوئی ایسا بیان پیش نہیں کر سے جس میں توحید حاکمیت کو توحید کا سب سے اہم جزء کہا گیا ہو۔
چوتھا اعتراض
شیخ حوینی پہ یہ کیا جاتا ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں کو شرعی امراء نہیں مانتے تھے تو عرض یہ ہے کہ ان کا یہ موقف اس بناء پہ تھا کہ یہ حکمران چونکہ شریعت اسلامیہ کی تنفیذ نہیں کرتے بلکہ اس کی جگہ اپنے قوانین نافذ کرتے ہیں اس لیے یہ شرعی حکمران نہیں ، یہ تو کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کی بناء پہ انہیں خارجی کہا جائے۔ کیونکہ شرعی حکمران تو وہی ہوتا ہے جو اللہ کے دین کو نافذ کرے جیسا کہ احادیث سمع وطاعت میں بھی اس کا وصف یہی آیا ہے يقودكم بكتاب الله ’’وہ حکمران اللہ کی کتاب کے ساتھ تمہاری قیادت کرتا ہو ‘‘ باقی یہ بات واضح ہے کہ شیخ صاحب مسلم ممالک میں خروج وبغاوت اور مسلمانوں کے آپس کے قتال کے شدید مخالف تھے اور انہوں نے کبھی بھی تکفیری فکر کی حمایت نہیں کی تھی ۔
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی شیخ کی مغفرت فرماے آمین یارب!
[1] الصارم المسلول لإمام ابن تيمية: 378