علوم  تجوید وقراءات  کی فرضیت

ہمارے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری اور ابدی پیغام کے لیے اس امت کا انتخاب کیا ہے ۔ قرآن مجید محض  اللہ کی کتاب نہیں بلکہ یہ کلام اللہ ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ کلام فرمایا ہے ۔ اس کے کلام اللہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو اس کے اصلی  الفاظ اور حقیقی لہجہ میں ادا کیا جائے ۔

اس میں شک نہیں کہ پچھلے چند سالوں میں   جب  سے دینی مدارس میں  تجوید و قراءات کا شعبہ قائم ہوا ہے بہت  بہتری آئی ہے ۔قراءات کانفرنسز کے ذریعے اس کی طرف  لوگوں کی توجہ  بڑھی اور شوق پیدا ہوا ہے ۔ اس کے باوجود ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو تجوید و قراءات کو غیر ضروری تصور کرتا ہے یا محض اسے  ایک اضافی خوبی  سمجھتا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری مساجد کے خطباء کرام اور ناظرہ پڑھانے والے مدرسین بالکل اس کی طرف توجہ نہیں دے رہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچے بڑے ہو کر جب حفظ کریں گے یا اس کے بعد تجوید کا کوئی کورس کر لیں گے تو ان کا تلفظ اور ادا درست ہوجائے گی ۔ اس میں شک نہیں کہ جو بچے  آگے چل کر حفظ اور پھر  تجوید کے شعبے میں چلے جاتے ہیں ان کے لفظ اور ادا درست ہوجاتی ہے ، لیکن سوال ہے کہ ہمارے معاشرے میں  کتنے فیصد  بچے حفظ یا تجوید کرتے ہیں ؟ صرف  ایک یا دو فیصد  ۔ باقی اٹھانویں فیصد  تو اس طرف نہیں آتے ، تو وہ ساری زندگی کلام اللہ کو غلط انداز سے پڑھتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مساجد ، مدارس ، سکولز  یا گھروں میں ٹیوشن پڑھانے والے اساتذہ کرام کو چاہیے کہ پہلے دن سے ہی بچوں کے تلفظ اور ادا درست کرائیں اور انہیں تجوید کے بنیادی اور ضروری قواعد سے روشناس کرائیں ، تاکہ بچہ  آگے چل کر  اگر   حفظ اور تجوید کی لائن اختیار نہ بھی کرے تو وہ قرآن مجید کی تلاوت درست انداز سے  کرے ۔

یہ معاملہ تو محض سستی اور  عملی کوتاہی کا ہے جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، اصل خطرناک معاملہ یہ ہے کہ بعض احباب تجوید کے قواعد کو غیر ضروری سمجھتے ہیں ،ایسے احباب کی خدمت میں چند آیات  و احادیث پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے  ہیں، جن سے واضح ہوجائے گا  کہ قرآن مجید کو درست طریقے سے پڑھنا واجب ہے ، انہی قواعد کانام تجوید ہے :

شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام  ہے جسے ترتیل کے ساتھ پڑھا گیا ، ترتیل کے ساتھ نازل  کیا گیا  اور ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا ہمیں حکم دیاگیا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا۰۰۳۲﴾ [سورة الفرقان: 32]

’’ہم نے اسے ترتیل کے ساتھ نازل کیا ہے۔ ‘‘

مزید ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے  فرمایا:

﴿وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا﴾ [سورة المزمل: 4]

’’اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔ ‘‘

شیخ اسامہ یاسین حجازی اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

أتله علی تؤدة و طمانیة و خشوع و تدبر، مع مراعاة قواعد التجوید [1].

’’ اس کی تلاوت سکون ، اطمنان ، خشوع اور  تدبر کے ساتھ ساتھ تجوید کے قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے کرنی چاہئے  ۔‘‘

ترجمان قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ﷟  فرماتے ہیں کہ ترتیل کا معنی واضح کرکے پڑھنا ہے[2]۔  سچ یہ ہے کہ کلمات کواسی صورت میں واضح کرکے پڑھا  جاسکتا ہے جب قواعد تجویدکے مطابق پڑھا   جائے ۔

ترتیل کی تفسیر بیان کرتے ہوئے امام ابن کثیر﷫ کہتے ہیں:

’’ ارشاد ہواکہ قرآن شریف کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر، تاکہ خوب سمجھتا جائے۔ اس حکم پر    رسول اللہ ﷺ بھی عامل تھے [3]۔

 حضرت علی ﷜سے صحیح سند سے ترتیل کا معنیٰ روایت کیا گیا ہے :

الترتیل : تجوید الحروف  و معرفة الوقوف [4].

’’ ترتیل (کا معنی) : حروف کو عمدہ انداز میں اور وقف کی معرفت  کےساتھ پڑھنا ہے۔‘‘

سیدنا انس  ﷜  سے قراءت ِ نبوی  کا وصف پوچھا گیاتو فرمایا کہ  آپ ﷺ الفاظ پر خوب  مد (لمبا)کر کے پڑھا کرتے تھے،  پھر آیت (بسم الله الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر سنائی جس میں لفظ الله پر ،لفظ رحمٰن پر، لفظ رحیم ،پر مد کی   [5]۔

ام المومنین  سیدہ حفصہ ﷝ کا بیان ہے:

كَانَ يَقْرَأُ بِالسُّورَةِ فَيُرَتِّلُهَا حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا [6].

’’ آپ ﷺ کوئی بھی سورت پڑھتے تو  ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے، جس سے چھوٹی سی سورت بھی  بہت لمبی ہو جاتی تھی۔‘‘

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿وَ اِنَّكَ لتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ۰۰۶﴾ [النمل: 6]

’’  (اے نبی !) آپ یہ قرآن ایک حکیم و علیم ہستی کی طرف سے حاصل کررہے  ہیں۔‘‘

یعنی  نبی اکرم ﷺ نے قرآن کی قراءت جبریل کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے حاصل کی ۔ یعنی جبریل نے اللہ تعالیٰ سے قرآن سنا اور نبی کریم ﷺ نے جبریل سے سنا ۔ لہٰذا  آں حضرت ﷺ پر فرض ہے کہ قرآن کو اسی طرح پڑھیں  جس طرح جبریل سے سنا ہے، رسول اللہ ﷺ اس کی پھرپور کوشش بھی کرتے تھے ، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :

﴿لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖؕ۰۰۱۶ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚۖ۰۰۱۷ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗۚ۰۰۱۸﴾

                                                                                                                                                                        [القيامة: 16 - 18]

’’ اسے جلدی پڑھنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت مت دیں ، بلاشبہ اس کو (آپ کے دل میں )جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے ) اس کی تلاوت کرانا ہماری ذمہ داری ہے ۔پس جب ہم اسے پڑھ چکیں تو اس کی اتباع کرتے ہوئے آپ اس کی تلاوت کریں ۔‘‘ 

حضرت ابن عباس ﷠  ان   کا شان نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب وحی آتی تو رسول اللہ ﷺ (بھولنے کے ڈر سے )جبریل کے ساتھ ساتھ پڑھنے لگتے تھے  جو آپ پر بھاری پڑتا تھا ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں جن میں آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ جبریل کے  ساتھ ساتھ نہ پڑھا کریں ، اسے آپ کے سینے میں محفوظ کرنا اور آپ کی زبان سے پڑھانا ہماری  ذمہ داری ہے [7]۔

 اس کا مطلب یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن مجید نازل ہی نہیں کیا بلکہ نبی ﷺ  کو  قراءت  قرآن کی تعلیم بھی دی ہے ۔ تعلیم قراءت میں الفاظ کی صفات اور ادا کی کیفیات شامل ہیں اور یہی تجوید ہے  ۔ دوسرے لفظوں میں  تجوید کا علم اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ ﷺ کو سیکھایا ہے ۔ جبریل ﷤  رسول اللہ ﷺ کے دل پر صرف وحی کا القا ہی نہیں کرتے  تھے ، بلکہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی  زبان سے سناتے اور رسول اللہ ﷺ  کی زبان سے سنتے تھے [8]۔

قرآن مجید  کی تلاوت سکھانا رسول اللہ ﷺ  کی منصبی ذمہ داری تھی ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ رَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ مُبَيِّنٰتٍ  ﴾ [الطلاق: 11]

’’ (اللہ تعالیٰ  نے بھیجا)  ایک ایسا رسول ، جو تمہارے سامنے اللہ کی واضح ا ٓیات پڑھ کر سناتا ہے ۔‘‘

آیات پڑھ کر سنانے میں قرآن مجید پڑھنے کے اصول و ضوابط جنہیں تجوید کہا جاتا ہے بھی شامل ہے، جیساکہ ایک روایت  میں ہے سیدنا عبدا للہ بن مسعود ر﷜کسی شخص کو قرآن کریم پڑھارہے تھے، اس نے﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ ﴾     کو مد کے بغیر پڑھا تو آپ نے اس کو ٹوکا اور فرمایا:’’حضور ﷺ نے مجھے اس طرح نہیں پڑھایا ہے‘‘۔ اس نے دریافت کیا کہ حضورﷺ نے آپ کو کس طرح پڑھایا ہے ؟ تو سیدنا ابن مسعودؓ نے یہ آیت پڑھی اور  ﴿لِلْفُقَرَآءِ ﴾     پر مد کیا [9]۔

غور  کریں کہ  حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ نے  حرف یا حرکت کے چھوٹنے یا بدلنے پر نہیں صرف مد کے چھوڑنے پر ٹوکا  ، پھر نبی کریم ﷺ کی قرأت کے مطابق پڑھ کر سنایا ،اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم اسی طرح پڑھناچاہیے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنے شاگردوں کو  پڑھایا ہے ۔  یعنی  حروف کو مخارج وصفات اور دیگر قواعدکے اعتبار سے ان کی ادائیگی درست ہو اور بے موقع وقف نہ کیا جائے۔

رسول اللہ ﷺ  صرف نماز میں تلاوت نہیں کرتے تھے ، بلکہ صحابہ کرام کو انفرادی اور اجتماعی طور پر باقاعدہ سکھاتے تھے اور یہ اللہ تعالیٰ کا باقاعدہ حکم تھا ، جیساکہ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں مخاطب کرکے  فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ القُرْآنَ [10].

’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ  میں آپ کو قرآن  پڑھ کر سناؤں۔‘‘

یہ عظیم الشان اہتمام تصحیح تلاوت کے لیے   تھا۔  اس سے بڑھ کر تجوید کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے ؟

حضرت علی فرماتے ہیں :

إنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرُكم أن تقرأوا كما عُلِّمتم[11].

’’ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں حکم دیاہے کہ اسی طرح پڑھو جس طرح تمہیں سیکھایا گیا ہے ۔‘‘

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ اُولٰٓىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ﴾ [البقرة: 121]

’’ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی  ہے ، وہ  اس کی تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے،  یہی لوگ  اس پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘

حق ِ تلاوت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن مسعود ﷜  فرماتے ہیں :

والذي نفسي بيده، إن حق تلاوته: أن يحل حلاله ويحرم حرامه، ويقرأه كما أنزله الله، ولا يحرف الكلم عن مواضعه، ولا يتأول منه شيئا على غير تأويله[12].

’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تلاوتِ قرآن کا حق یہ ہے کہ : اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا جائے ۔ اس طرح اس کی قراءت کی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے نازل کیا ہے ، کسی حرف کو اس کے مخرج سے پھیرا نہ جائے اور  اس کی تفسیر میں تاویل نہ کی جائے ۔‘‘

اس سے واضح ہوا کہ تجوید کے قواعد کا اہتمام کرنا حقِ تلاوت میں داخل ہے ۔

امام غزالی اس آیت کے حوالے سے فرماتے ہیں :

 وتلاوة القرآن حق تلاوته هو أن يشترك فيه اللسان والعقل والقلب، فحظ اللسان تصحيح الحروف بالترتيل، وحظ العقل تفسير المعاني، وحظ القلب الاتعاظ، والتأثر بالأزجار والائتمار،فاللسان يرتل، والعقل يترجم، والقلب يتعظ[13].

’’ تلاوتِ قرآن کا حق  یہ ہے کہ زبان، دماغ اور دل اس میں شریک ہوں۔ تلاوت میں  زبان کا حصہ حروف کو درست  کرکے تلاوت کرنا ، عقل کا حصہ الفاظ کی تفہیم و  تفسیر ، دل کاحصہ ا س کو سمجھنا  اور اس کا اثر  قبول کرنا ۔ پس زبان پڑھتی ہے ، عقل سمجھتی اور دل قبول کرتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی ایک خوبی بیان کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ ﴾ [الشعراء: 195]

’’ جو کہ فصیح عربی زبان میں ۔‘‘

مزید فرمایا:

﴿وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا لَّقَالُوْا لَوْ لَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ﴾[فصلت: 44]

’’  اور اگر ہم اس قرآن کی زبان غیر عربی بنا دیتے تو کافر کہتے کہ اس کی آیات واضح کیوں نہیں کی گئیں ۔‘‘

امام قرطبی اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ اس میں دلیل  ہے کہ قرآن عربی میں ہے ، اور اسے لغت عرب میں نازل کیا  ، بلاشبہ یہ  عجمی زبان میں نہیں ہے ، لہٰذا جب اسے غیر عربی  لب و لہجہ میں پڑھاجائے گا وہ تو قرآن نہیں رہے گا[14]۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے  یہود کے جرائم بیان کرتے ہوئے ایک جرم یہ بیان کیا :

﴿يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ وَ ﴾ [المائدة: 13]

’’  ( اب ان کا حال یہ ہے کہ ) کتاب اللہ کے کلمات کو ان کے موقع و محل سے بدل ڈالتے ہیں اور جو ہدایات انہیں دی گئی تھیں ان کا اکثر حصہ بھول چکے ہیں ۔‘‘

حروف کے محل سے مراد اس کے مخارج ہیں اور تجوید کا مطلب حروف کو ان کے مخارج سے پڑھاجائے ۔ جو شخص قرآن پڑھتے ہوئے  تجوید کا خیال نہیں رکھتا وہ دراصل حروف کو اس کے محل سے ہٹ  کر ادا کررہا ہے، جو کہ مذکورہ آیت میں  ممنوع اور قابل مذمت فعل ہے ۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود  ﷜ کا فرمان ہے:

لَا تَنْثُرُوهُ نَثْرَ الرَّمْلِ وَلَا تَهُذُّوهُ هَذَّ الشِّعْرِ، قِفُوا عِنْدَ عَجَائِبِهِ، وَحَرِّكُوا بِهِ الْقُلُوبَ، وَلَا يَكُنْ هَمُّ أَحَدِكُمْ آخِرَ السُّورَةِ. رَوَاهُ الْبَغَوِيُّ [15].

’’ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بے ادبی سے نہ پڑھو، اس کی عجائبات پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو ۔‘‘

عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ» قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: «لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»[16].

’’ حضرت تیمی داری  ﷜ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے،  ہم نے پوچا : کس کی خیر خواہی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی ، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی ، مسلم حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی ۔‘‘

علماء کرام نے کتاب کی خیر خواہی میں  حروف کی درست ادا کو بھی شامل کیا ہے [17]۔

سیدنا عبداللہ  بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا ۔تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری تلاوت ختم ہوگی[18]۔ ‘‘

سیدنا انس بن مالک کا قول  ہے :

رُبَّ تَالٍ لِلْقُرْآنِ أوْ قَارِئٍ لِلْقُرْآنِ وَالْقُرْآَنُ يَلْعَنُهُ [19].

’’ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص قرآن کی تلاوت کرتا ہے جبکہ قرآن اس پر لعنت بھیج رہا ہوتا ہے ۔‘‘

امام ابو عبداللہ الشیرازی فرماتے ہیں :

ويجب على القارئ أن يتلو القرآن حق تلاوته؛ صيانة للقرآن عن أن يجد اللحن إليه سبيلا، على أن العلماء اختلفوا فى وجوب حسن الأداء فى القرآن: فذهب بعضهم إلى أن ذلك مقصور على ما يلزم المكلف قراءته فى المفروضات، وآخرون إلى وجوبه فى [كل] القرآن؛ لأنه لا رخصة فى تغيير اللفظ بالقرآن [وتعويجه][20].

’’  قاری پر واجب ہے کہ وہ  تلاوتِ قرآن  کا حق ادا کرے  اور قرآ ن مجید کو ہر قسم کے لحن سے محفوظ رکھے ۔ حسنِ ادا کے واجب ہونے پر  علماء کرام میں اختلاف ہے ، بعض کہتے ہیں کہ فرض نماز میں کی جانے والی تلاوت  کی درست ادا واجب  ہے ، بعض  علماء کرام پورے قرآن کی ادائی کو فرض قرار دیتے ہیں ، کیونکہ  قرآن مجید کے لفظ کو بدلنے اور اس میں ٹیڑھاپڑھنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے ۔‘‘

خلافِ تجوید قرآن پڑھنا موجب گناہ ہے

محققین علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ غیر تجوید قرآن پڑھنے والامستحق ثواب نہیں بلکہ (بعض دفعہ)گناہ گار ہوجاتا ہے۔بہت سارے علماء نے اس  کی تصریح فرمائی ہے ۔

  • جیساکہ علم تجوید و قراء ت کے مشہور امام ابن الجزری ﷫ فرماتے ہیں:

وَالْاَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ حتم لَازِمٌ                  مَنْ لَّمْ  یُجَوِّدِ الْقُرْآنَ آٰثِمٌ

 لِأَنَّهُ     بِهِ      الْإِلٰهُ         أَنْزَلَ                   وَهٰکَذَا مِنْهُ إِلَیْنَا وَصَلَ [21].

’’تجوید کا حاصل کرنا ضروری ولازم ہے۔جو شخص تجوید سے قرآن نہ پڑھےوہ گناہگار ہے ۔کیونکہ اللہ نے تجوید ہی کے ساتھ اس کونازل فرمایا ہے اور اسی طرح آپ ﷺ سے ہم تک پہنچا ہے۔ ‘‘

  • شیخ الاسلام ناصر الدین الطبلاوی ﷫ سے پوچھا گیا کیا  تجوید کے قواعد پر عمل کرنا واجب یا نہیں ؟ اگر واجب ہے تو کیا وہ  شرعی واجب ہے کہ اس پر عمل کرنےوالا ثواب کا مستحق  اور عمل نہ کرنے والا گناہ گار ہے یا فنی اعتبار سے  لازم ہے  کہ اس کا گناہ و ثواب سے کوئی تعلق نہیں  ، مزید وجوب کا انکار کرنے والے کا کیا حکم ہے ؟

آپ  ﷫  نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’ ہر عقلمند شخص پر واجب ہے کہ وہ اس فن کے معتبر ائمہ سے سیکھے اور ادا کی کیفیت کو انہیں سے حاصل کرے ، کسی غیر اہل سے حاصل نہ کرے ۔ان احکام  پر عمل کرے جن پر آئمہ قراء کا اتفاق ہے اور جس پرآئمہ قراء کا اجماع ہو  اس کی مخالفت کرنا حرام ہے ۔جو شخص اس کے وجوب کا انکار کرے وہ خطاکار اور گناہ گار ہے ، اس عقیدے سے رجوع کرنا اس پر واجب ہے [22]۔

  • اردو زبان میں سیرت النبی پر سب سے  معروف کتاب ’’رحمۃ اللعالمین‘‘ کے مصنف قاضی محمد سلیمان منصورپوری ﷫(1867ء ۔ 1930) بہت بڑے عالم دین تھے ، ان سے کسی نے سوال کیا :

’’ تجوید کا حکم کیا ہے؟ فن تجوید کا مرتبہ دیگر فنون کے مقابلہ میں کیا ہے؟ تجوید کے خلاف قرآن پڑھنا  اور پڑھانا کیسا ہے؟ قرآن کس شخص پر لعنت کرتا ہے، وہ حدیث مع ترجمہ وخلاصہ کے ضرور تحریر فرمائیں، مجہول قرآن پڑھنے والے کی امامت (جب کہ نہ تو لحن جلی کی خبر رکھتا ہو اور نہ لحن خفی کا پتہ ہو) اور مقتدی میں عمدہ تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے والا موجود ہو، تو ایسی نماز کا کیا حکم ہوگا؟ قاضی صاحب نے جواب دیتے ہوئے لکھا:

’’تجوید سے اس قدر واقفیت فرض ہے کہ آدمی قرآن شریف بقدرِ ضرورت صحیح پڑھ سکے، جس سے اس کی نماز میں فساد نہ آئے اور پورا فنِ تجوید مہارت کے ساتھ سیکھنا فرضِ کفایہ ہے، یعنی اگر چند حضرات بھی اس میں مہارت پیدا کرلیں تو دوسروں کے لئے اس میں محنت کرنا ضروری نہیں ہوتا، لیکن قرآنِ کریم مجہول پڑھنا کسی حالت میں درست نہیں ہے، اس لئے امام کو متعین کرتے وقت ان باتوں کا لحاظ کرنا چاہئے۔لیکن اگر کسی امام کو متعین کردیا گیا اور وہ بہ قدر ضرورت قرأت کرنے پر قادر ہے اور مقتدیوں میں اس سے اچھے پڑھنے والے قاری اور اچھے مجود موجود ہوں، تو ایسی صورت میں امامت کا حق ان مقتدی قاریوں کو نہیں ہے،بلکہ متعین امام ہی امامت کا حق دار ہوگا۔جیساکہ رد المختار میں ہے:

  واعلم أن صاحب البیت ومثله إمام المسجد الراتب أولی بالإمامة من غیره مطلقاً [23].

’’ جان لو کہ متعین گھر کا مالک اور اسی طرح  امام مسجد بہرحال دوسروں سے  امامت کا زیادہ مستحق  ہے ۔‘‘

فقط واﷲ تعالی اعلم .

 احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ

  • دمشق کے معروف مفتی الشيخ احمد شريف سے پوچھا گیا کہ

’’ کیا امام جزری﷫ کایہ کہنا صحیح ہے کہ جو شخص قرآن تجوید کے ساتھ نہیں پڑھتا وہ گناہ گار ہے ؟

تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا:

 فلا خِلافَ بَينَ الفُقَهاءِ في أنَّ الاشتِغالَ بِعِلمِ التَّجويدِ فَرضُ كِفايَةٍ، وأمَّا العَمَلُ به فهوَ واجِبٌ على من يَقْدِرُ عَلَيهِ، لأنَّ اللهَ تعالى أنزَلَ به كِتابَهُ المَجيدَ، وَوَصَلَ إلَينا عن سَيِّدِنا رَسولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعلى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ مُتَواتِراً بالتَّجويدِ.

’’ اس باب میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ علم تجوید حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور اس پر عمل کرنا یعنی اس کے مطابق قرآن پڑھنا واجب ہے کیونکہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے تجوید کے ساتھ ہی نازل فرمایا اور نبی کریم ﷺ سے ہم تک اسی طرح تجوید کے ساتھ پہنچا ہے۔‘‘

  وذَهَبَ المُتَأخِّرونَ من الفُقَهاءِ إلى وُجوبِ مُراعاةِ قَواعِدِ التَّجويدِ فيما يَتَغَيَّرُ به المَبنى ويُفسِدُ المَعنى، وإلى هذا أشارَ مُحَمَّدٌ الجَزرِيُّ في مَنظومَتِهِ في التَّجويدِ:

 والأخْذُ بالتَّجويدِ حَتْمٌ لازِمُ و من لم يُجَوِّدِ القُرآنَ آثِمُ.

’’جبکہ تمام فقہاء متاخرین بھی اس پر متفق ہیں کہ اتنا علم حاصل کرنا واجب ہے جس سے قواعدتجوید کا لحاظ ہوسکے اور قرآن کامعنیٰ نہ بدلے ۔ اسی طرف امام محمد بن یوسف جزری﷫ نے اشارہ کیا ہے:

’’ جو شخص قرآن کریم کو تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔‘‘

ولا شَكَّ أنَّ الأُمَّةَ كما هُم مُتَعَبَّدونَ بِفَهْمِ مَعاني القُرآنِ العَظيمِ وإِقامَةِ حُدودِهِ، كذلكَ هُم مُتَعَبَّدونَ بِتَصحيحِ ألفاظِهِ وإقامَةِ حُروفِهِ على الصِّفَةِ المُتَلَقَّاةِ من أَئِمَّةِ القُرَّاءِ والمُتَّصِلَةِ بالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعلى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ.

’’بلاشبہ جس طرح یہ امت پابند ہے کہ وہ قرآن کریم کے معانی کو سمجھے اس کے احکام کو بجالائے اسی طرح وہ اس بات کی بھی پابند ہے کہ قرآن کریم کواس کے صحیح الفاظ اور قراء کرام کی جانب سے پڑھائے گئے طریقہ تجوید کے مطابق پڑھے کیونکہ نبی ﷺ سے اسی طرح پڑھنا سکھایاگیاہے ۔ ‘‘

فمن كانَ قادِراً على تَعَلمِ أحكامِ التجويدِ لِتَصحيحِ تِلاوَتِهِ وَجَبَ عَلَيهِ أن يَتَعَلَمَ، وإلا فلا، وذلكَ لِقَولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعلى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ:(اَلْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ)[24]، والله تعالى أعلم [25].

’’اور اسی بنا پرجوشخص علم تجوید مکمل  سیکھنے پر قدرت رکھتا ہے ،اسے یہ علم ضرور سیکھنا چاہیئے۔ کیونکہ ایسے  لوگوں کے متعلق  ہی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قرآن کریم کاماہر اور مشاق، معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگااور جو قرآن کواٹک اٹک کراور مشقت کے ساتھ پڑھتا ہے اس کودوہرااجر ملے گا۔‘‘

لہٰذا ضروری ہے کہ قرآن مجید کو  تجوید کے قواعد کے مطابق سیکھیں  اور انہی کے مطابق تلاوت کریں ۔

 

[1]    ھل التجوید واجب  لشیخ أسامة  ياسين حجازي كيلاني الحسني:60، دار المنھاج

[2]     تفسیر طبری : 29/80

[3]     تفسیر ابن کثیر :5/444

[4]     ھل التجوید واجب :60

[5]     صحیح بخاری: 5046

[6]     صحیح مسلم : 733

[7]     صحیح بخاری :5044

[8]     صحيح بخاری :6285

[9]            المعجم الكبير للطبراني (9/ 137):8677 ، السلسة الصحیحة للألبانی  :2921

[10]   سنن الترمذی :3898

[11]   تفسیر الطبری  (1/ 24)، رقم الحدیث : 13

[12]   تفسير الطبری  (2/ 567)، رقم الحدیث :1886

[13]   إحياء علوم الدين لغزالي :1/ 287، دار المعرفۃ، بيروت.

[14]   تفسیر القرطبی :15/368

[15]   تفسیر ابن کثیر :5/444

[16]   صحيح مسلم :55

[17]   ھل التجوید واجب :116

[18]   سنن ابی داؤد :1464، سنن ترمذی :2914

[19]   احیاء العلوم:1/324

[20]   شرح طیبۃ النشر فی القراءات العشر لأبی القاسم محمد بن محمد النویری :1/250

[21]   مقدمۃ جزریۃ: 10، حاشیۃ فوائد مکیہ: 3

[22]   ھل التجوید واجب :120 ملخصاً

[23]   الدرالمختار مع الرد المحتار: 2؍297

[24]   صحیح مسلم: 1862

[25]   رقم الفتوىٰ، 6019بتاریخ 27 ستمبر 2011