اپریل 2025ء

احادیث میں غیرمسلموں سے مشابہت کی ممانعت

دورِ حاضر میں مشترکہ علاقے ؍ وطن کی بنا پر بننے والی قومی ریاستوں میں، مختلف نظریات کے حامل شہری تکثیری معاشرہ میں مل جل کر رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت جاری اس بین الاقوامی نظام میں نظریاتی شناختوں کے مسائل آئے روز پیش آتے رہتے ہیں۔ ماضی قریب میں بلادِ اسلامیہ میں مغربی استعمار کے طویل سیاسی غلبہ کے دوران بھی یہ مسئلہ بڑا نمایا ں رہا ہے او رمغلوب مسلمان، مغربی اقوام کے سیاسی غلبہ کے استعارہ پر شدت سے مغربی تہذیب کوردّ کرتے آئے ہیں۔ تحقیر و ذلّت سے قطع نظر، مذہبی شناخت سے بہت سے سماجی اور قانونی مسائل اسی طرح وابستہ ہیں جس طرح فی زمانہ شہریت Nationalaityسے بہت سے سماجی اور قانونی حقوق منسلک ہیں۔

جزیرہ عرب کے خاص احکام سے بڑھ کر، برصغیر کے کثیر المذہبی اور سماجی رواداری پر قائم معاشرے میں تہذیبی شناختوں کے اشتراک کا مسئلہ ہمیشہ سے بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ شناخت اورمشابہت کا دائرہ عبادات کے ساتھ حیاتِ انسانی کے بے شمار پہلؤوں کو محیط ہے، جیسے لباس ، بول چال، اکل وشرب، تعمیرات، تحریر وتقریر، تہوار وکھیل،خرید وفروخت اور تہذیب وتمدن کے بے شمارمسائل، نظام و قوانین ،مغربی علوم اور ٹیکنالوجی وغیرہ ۔ ان مسائل کی وسعت اور ہمہ جہتی کے سبب ان کے شرعی حکم میں پائے جانے والے تنوع کی بنا پر اس مسئلہ کو مختصر اور سادہ الفاظ میں سمجھنے ؍ بیان کرنے میں بھی کافی مشکل پیش آتی ہے۔ عام طور پر کم علمی کے باعث بظاہر متضاد پہلؤوں کو آپس میں ٹکڑا کر، اس شرعی مطالبہ کو محدود یا مشکوک کردیا جاتا ہے حالانکہ اسلام میں جہاں کفار سے مشابہت حرام ہے، وہاں بلادِ اسلامیہ میں بسنے والے کفار کے لئے مسلمانوں سے مشابہت بھی ناجائز[1] ہے۔ پاکستان میں اس اہم شرعی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے، قادیانیوں کے لئے شعائر اسلامیہ کی ممانعت پر مستقل قانون ’امتناعِ قادیانیت 1984ء‘ نافذ العمل ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں عالمی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے دعوتی دورے میں یہ بحث دوبارہ تازہ ہوئی اور ان کی پتلون یا ٹائی وغیرہ کو کفار کی مشابہت سے بھی ملایا گیا تو یہ مسئلہ پھر سے زندہ ہوگیا۔

زمان ومکان سے بالاتر اللہ تعالیٰ کی آخری کامل ہدایتِ ’شریعتِ محمدیہ‘ یعنی قرآن وسنت اس سلسلے میں مسلمانوں کو کیا رہنمائی دیتی اور ان سے کیا تقاضا کرتی ہے؟ کفار سے مشابہت کی حرمت کا شرعی مفہوم کتنا وسیع ہے ؟ ذیل میں نکات وار ان مسائل کو مدلل طو رپر زیر بحث لایا گیا ہے۔

کفار سے مشابہت کی ممانعت اور اس کی وسعت

دسیوں احادیث میں مختلف انداز سے کفار سے مشابہت نہ کرنے کا مسلمانوں سے دو ٹوک مطالبہ کیا گیا ہے:

  • سیدنا عبد اللہ بن عمر﷜ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے یہ اُصولی ضابطہ ارشاد فرمایا کہ

«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ».[2]

”جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا۔“

علی گڑھ کالج کے بانی سرسید احمد خان نے اپنے مضمون میں اس حدیث کو ضعیف قرار[3] دیا ہے، لیکن شیخ حافظ احمد شاکر، شیخ محمد ناصر الدین البانی، شیخ زبیر علی زئی اور مجلس علمی ، دہلی کی تحقیقات کے مطابق اس حدیث کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ۔ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر[4] سمیت بہت سے محدثین اس حدیث کی صحت کے قائل ہیں۔ یہ حدیث سیدنا عبد اللہ بن عمر کے علاوہ سیدنا ابوہریرہ، سیدنا انس بن مالک اور سیدنا حذیفہ یعنی چار صحابہ کرام﷢ سے مختلف اسناد سے مروی ہے جو سنن ابو داؤد، مسند احمد ، مشکل الآثار الطحاوی، معجم اوسط طبرانی اورمصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ کتب میں ہے۔ امام بخاری نے اس لمبی حدیث کا اوّلین حصہ صحیح بخاری میں بطورِ معلق ذکر کیا ہے۔ ان متعدد اسانید کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ٖ کے درجہ[5] تک پہنچتی ہے اور اس مفہوم کی بے شمار احادیث بھی اس کی تائید کرتی ہیں، جیسا کہ نکتہ نمبر5 کے تحت جامع ترمذی کی روایت آگے آرہی ہے۔پھر اس ُاصولی ممانعت کا اطلاق کرتے ہوئے احادیثِ نبویہ میں درجنوں شرعی مسائل کو محض کفار سے مشابہت کی بنا پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔جس بنا پر مسلم وغیرمسلم کی مشابہت کی دو طرفہ ممانعت دین کے اصولوں میں ایک بنیادی اُصول ہے۔

سرسید احمد خاں کی تردید میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب نے 1929ء میں مستقل کتاب التشبّه في الإسلام لكھی۔جس میں آپ نے قرار دیا کہ

’’اس حدیث کی اسناد میں کوئی کمزوری نہیں ہے اور اس کا کوئی راوی ضعیف نہیں ہے۔ اس حدیث کا مفہوم عام ہے اور تشبہ کی ممانعت تمام کفریہ اعمال کے لئے ہے۔ ‘‘[6]       

اس حدیث میں مشابہت کی حرمت کو کفار اور یہود ونصاری سے بڑھ کر ہر غیر قوم تک لفظ مَن سے وسیع کردیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام مشابہت کا دائرہ ’’ان تما م اُمور تک وسیع ہے جو کسی غیر قوم سے اِرادتاً یا عرفاً ، کلی یا جزوی مماثلت پر مشتمل ہو۔ ‘‘ مشابهة غيره في كل ما يتّصف به غيره أو بعضه.

رسول اللہ ﷺ کے فرامین، قیامت تک واجب الاتباع ہیں اور اقوال صحابہ وفقہاے کرام کی طرح انہیں وقتی احکام قرار دے کر کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م 728ھ)لکھتے ہیں کہ

’’ حدیث «من تَشَبَّه بقوم فهو منهم » کا کم ازکم تقاضا یہ ہے کہ اہل کتاب کی مشابہت حرام ہے، جبکہ اس کا ظاہری مفہوم مشابہت کرنے والے مسلمان کے کفر کا متقاضی ہے۔ ‘‘[7]

یمن کے عالم ربانی، امیر محمد بن اسمٰعیل صنعانی (م 1182ھ) لکھتے ہیں کہ

والحديث دالّ على أن من تشبّه بالفساق كان منهم أو بالكفار أو بالمبتدعة في أي شيء مما يختصون به من ملبوس أو مركوب أو هيئة...قالوا: فإذا تشبه بالكافر في زي واعتقد أنه يكون بذلك مثله كفر، فإن لم يعتقد ففيه خلاف بين الفقهاء: منهم من قال: يكفر وهو ظاهر الحديث ومنهم من قال: لا يكفر ولكن يؤدب.[8]

’’اس حدیث میں مشابہت کی ممانعت عام ہے جو فاسق، بدعتی اور کافر لوگوں تک وسیع ہے کہ وہ انہی جیسا ہوجاتا ہے۔ یہ مشابہت ہر اس لباس، سواری اور وضع قطع تک پھیلی ہوئی ہے جو ان کے ساتھ  خاص ہے۔علما کہتے ہیں کہ جب کوئی مسلمان کسی کافر سے مشابہت کرکے اس جیسا بننا چاہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔اگر اس کا یہ عزم نہ ہو تو اس میں فقہا میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ ظاہر حدیث کے مطابق کافر ہوجاتا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ نہیں، اس کو اس جرم پر سزا دی جائے گی۔‘‘

محدث وفقیہ امام محمد عبد الرءوف مناوی مصری (م 1031ھ)لکھتے ہیں کہ

والتشبه يقع في الأمور القلبية من الاعتقادات والإرادات، ويقع في الأمور الخارجية الظاهرة من العبادات والعادات.[9]

’’یہ حرام مشابہت عقائد وعزائم سے لے کر، عبادات وعادات تک وسیع ہے۔ ‘‘

روزمره معاملات میں كفار سے مشابہت کی حرمت

اس شرعی تصور کے تقاضے بڑے وسیع اور اس کے مفاہیم حیات انسانی کے ہر پہلو کو حاوی ہیں۔ مغربی تہذیب کے غلبہ کے دور میں ،پیام حق کی بجائے غالب سے تعلق کے اظہار سے بے شمار سماجی فوائد وابستہ ہیں۔ اس بنا پر اس حدیث کے مفہوم پر بہت سے اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ بہت سے دانشور وں کا کہنا ہے کہ

’’کفار سے مشابہت کی یہ ممانعت صرف عبادات تک محدود ہے۔ کفار کی عادات ومعاملات میں مشابہت کی کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔‘‘

حالانکہ رسول کریم ﷺ کے بے شمار فرامین[10] میں کفار سے مشابہت کی یہ ممانعت زندگی کے ہر پہلو کو وسیع ہے، جیسا کہ امام ابوداؤد نے اس حدیث کو عبادات کی بجائے ’لباسِ شہرت پہننے‘ کے عنوان کے تحت درج کیا ہے۔نیز

  • سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ

رَأَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَيَّ ثَوْبَيْنِ مُعَصْفَرَيْنِ فَقَالَ: «إِنَّ هَذِهِ مِنْ ثِيَابِ الْكُفَّارِ فَلَا تَلْبَسْهَا».[11]

’’رسول اللہ ﷺ نے مجھے گیروے(زرد)رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ کافروں کے کپڑے ہیں، تم اُنہیں مت پہنو۔‘‘

  • سیدنا ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے تنبیہ اور مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ

«لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى قَالَ فَمَنْ؟»[12]

’’یقیناً تم مسلمان اپنے سے پہلے لوگوں کی بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ (قدم بقدم) پیروی کرو گے۔ اگر وہ کسی سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ گے۔‘‘ہم نے عرض کیا: اے رسول اللہ! پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اور کون ہو سکتےہیں؟‘‘

کفار کی عبادات میں مشابہت اور ان کے ساتھ ان میں شرکت اور تعاون کی حرمت میں تو کوئی اختلاف نہیں ، جیسا کہ نصارٰی کا نما ز کے لئے ناقوس[13] بجانا، نماز مغرب كو عشاء[14] اور نماز عشاء کو عَتمہ کہنا[15]، نمازِ مغرب میں ستارے ظاہر ہوجانے تک تاخیر[16] کرنا، بيت الله كے قريب عبادت کے لئے سیٹیاں اور تالياں[17] بجانا، جنہیں رسول اللہ ﷺ نے كفار سے مشابہت کی بنا پر مسلمانوں کے لئے ممنوع فرما دیا۔

اسی طرح نماز میں اشتمال[18]، مسجدوں میں قبریں [19]بنانا، روزے کے لئے سحری نہ [20] کرنا، صرف یوم عاشورا کا روزہ نہ[21] رکھنا، صیام رمضان کے لئے رؤیت ہلال پر اعتماد [22] نہ کرنا وغیرہ بھی اہل کتاب سے مشابہت کی بنا پر ممنوع ہیں ۔ حج میں جمرات کے لئے بڑی کنکریاں نہ[23] لینا، مُزدلفہ سے طلوعِ شمس سے پہلے پہلے نکل[24] جانا کی حرمت کی وجہ بھی یہود اور مشرکین سے عدم مشابہت ہیں۔

روز مرہ عادات میں کفار کی ممانعت پر اہم احادیث

عبادات سے بڑھ کر، روز مرہ عادات میں کفار کی ممانعت پر اہم احادیث درج ذیل ہیں :

  • سیدنا عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ

«إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَأْكُلْ بِيَمِينِهِ وَإِذَا شَرِبَ فَلْيَشْرَبْ بِيَمِينِهِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ وَيَشْرَبُ بِشِمَالِهِ».[25]

’’جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تواپنے دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب تم میں سے کوئی شخص پیے تو اپنے دائیں ہاتھ سے پیے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔‘‘

  • صرف اشارہ سے سلام کرنا درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

«لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ وَلَا بِالنَّصَارَى، فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَهُودِ الْإِشَارَةُ بِالْأَصَابِعِ وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الْإِشَارَةُ بِالْأَكُفِّ».[26]

 ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیروں سے مشابہت اختیار کرے، نہ یہود کی مشابہت کرو اور نہ نصاریٰ کی، یہودیوں کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں کا اشارہ ہے۔‘‘

 اگر مخاطب دور ہوں تو زبان سے سلام کرکے ہاتھ سے مخاطب کو اشارہ کرنا درست ہے ، جیسا کہ اس حدیث میں ہے جسے سیدہ اسماء بنت یزید نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے کہ

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا وَعُصْبَةٌ مِنْ النِّسَاءِ قُعُودٌ فَأَلْوَى بِيَدِهِ بِالتَّسْلِيمِ وَأَشَارَ عَبْدُ الْحَمِيدِ بِيَدِهِ.[27]

’’رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں  گزرے وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، چنانچہ آپﷺ نے اُنہیں اپنے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔‘‘

یا نمازی اور گونگا شخص صرف ہاتھ سے اشارہ کرکے بھی سلام کا جواب دے سکتا ہے۔ [28] الغرض امکان کے باوجود زبان سے سلام نہ بولنا، اہل کتاب کی عادت ہے، جو غیرمسلموں سے مشابہت کی بنا پر ناجائز ہے۔

  • اہل کتاب اپنی داڑھیوں کو نہیں رنگتے ۔ ان کی مخالفت میں داڑھی کو رنگنے کا حکم دیا گیا۔حدیث میں ہے:

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: «إِنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى لَا يَصْبُغُونَ فَخَالِفُوهُمْ».[29]

’’یہود ونصاریٰ بالوں کو خضاب نہیں لگاتے، تم لوگ ان کے خلاف طریقہ اختیارکرو۔‘‘

سیدنا جابر سے مروی ہے کہ

أُتِيَ بِأَبِي قُحَافَةَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَرَأْسُهُ وَلِحْيَتُهُ كَالثَّغَامَةِ بَيَاضًا فَقَالَ ﷺ غَيِّرُوا هَذَا بِشَيْءٍ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ.[30]

’’فتح کے دن (سیدنا ابوبکر کے والد )حضرت ابوقحافہ ﷜کو لایا گیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال سفیدی میں ثغامہ (کے سفید پھولوں) کی طرح تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اس (سفیدی) کو کسی چیز سے تبدیل کر دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔‘‘

  • سیدنا عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ

«خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ».[31]

”تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں کتراؤ۔“ 

عورتوں کی طرح ٹھوڑی کو ننگی کرنا اور مرد کا اپنی ڈاڑھی کو مونڈ لینا، خواتین سے مشابہت کی بنا پر ملعون فعل ہے۔ ایسا کرنے والا مسلمانوں کے طریقے پر نہیں اور صنفِ غیر سے مشابہت کرنے والے مردوزَن جنت میں نہیں جائیں گے۔ ان تینوں معانی پر مستقل صحیح احادیثِ نبویہ مروی[32] ہیں۔

بعض لوگوں کا غلط دعویٰ یہ ہے کہ ڈاڑھی کو باقی رکھنے کا مطالبہ کفار سے مخالفت کی بنا پر ہے، اب جب بہت سے کفار ڈاڑھیاں رکھتے ہیں تو گویا مخالفت کا یہ شرعی حکم ختم ہوگیا۔ حالانکہ مسلمان کے لئے داڑھی رکھنے کا حکم صنفِ غیر سے عدم مشابہت کی بنا پر بھی ہے۔ اور یہ ان دس فطری خصائل کی بنا پر بھی ضروری[33] ہے جس کا ہر مسلمان کو پابند کیا گیا ہے۔ نیز احادیث میں اس کا حکم بھی موجود ہے اور نہ کرنے کی وعید بھی ۔ چنانچہ حکم کو بلاوجہ گنجائش پر محمول کرنا، یا اسے اُمور عادت میں داخل کرنا ناجائز تاویل ہے، جس کی کوئی حیثیت نہیں۔

  • خواتین کا اضافی بال یا وگ لگانا یہود سے مشابہت کی بنا پر حرام ہے ، سيدنا معاویہ﷜ کے متعلق آیا ہے کہ

قَدِمَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَدِينَةَ آخِرَ قَدْمَةٍ قَدِمَهَا فَخَطَبَنَا فَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ مَا كُنْتُ أُرَى أَنَّ أَحَدًا يَفْعَلُ هَذَا غَيْرَ الْيَهُودِ وَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَمَّاهُ الزُّورَ يَعْنِي الْوِصَالَ فِي الشَّعَرِ.[34]

’’ سیدنا معاویہؓ بن ابو سفیان ؓ جب آخری بار مدینہ طیبہ تشریف لائے تو انہوں نے ہمیں خطبہ دیا  اورمصنوعی بالوں کی ایک لٹ نکالی، پھر فرمایا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ یہودیوں کے علاوہ کوئی اور یہ کام کرتا ہوگا۔ بے شک نبی کریم ﷺ نے اس کانام جھوٹ اور فریب رکھا ہے، یعنی زینت کے لیے اپنے اصلی بالوں میں مصنوعی بال ملانا۔‘‘

مصنوعی یا دوسروں کے بالوں کو ساتھ ملانا ، یہود سے مخالفت کی بنا پر حرا م ہے اور بعض احادیث میں ایسا کرنے اور کروانے والی عورت کو الواصلة والمستوصلة [35] کہہ کر مستقل ناجائز بھی قرار دیا گیا ہے۔

  • سیدنا انس بن مالک سے مروی ہےکہ آپﷺ نے غیرمسلموں کے تہواروں میں شرکت سے منع فرما یا:

كَانَ لِأَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَانِ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ قَالَ «كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا وَقَدْ أَبْدَلَكُمْ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى».[36]

’’دور جاہلیت میں  لوگوں کے لیے سال میں دو دن تھے جن میں وہ کھیلتے کودتے تھے۔ جب نبی ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے دودن تھے جن میں تم کھیلا کودا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے تمہیں اُن کے بجائے دو اچھے دن دے دیے ہیں۔ ایک عیدالفطر کا دن اور دوسرا عیدالاضحیٰ کا دن۔“

ان دو دنوں سے مراد ’نوروز اورمہرجان‘ مراد ہیں۔ نوروز تو سال کا پہلا دن اور مہرجان موسم بہار کا جشن کی صورت میں منایا جاتا تھا۔ یہ دونوں ایرانیوں کی عیدیں تھیں۔ عرب صرف نقالی کے طور پر اُنہیں مناتے تھے۔

نبی کریمﷺ  نے بوانہ مقام پر اونٹ قربان  کرنے کی اجازت مانگنے والے سے یہ دریافت کرنے کے بعد اجازت دی:

«هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ: «هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟»، قَالُوا: لَا.[37]

”کیا وہاں کوئی دور جاہلیت کا کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی ہو ؟‘‘لوگوں  نے کہا: نہیں ۔ آپ نے پوچھا : کیا وہاں کوئی جاہلیت کا میلہ تھا؟“        لوگوں نے کہا: نہیں۔ ‘‘

غیرمسلموں کو بلادِ اسلامیہ میں رہائش رکھنے اور اپنے تہوار منانے کی اجازت ہے لیکن مسلمانوں نے صدیوں پر محیط تاریخ میں کبھی بھی ان کے تہواروں میں شرکت نہیں کی۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق نے انہیں پابند کیا تھا کہ وہ اپنے تہوار مسلمانوں میں نمایاں نہیں[38] کریں گے، ان شروط پر سب صحابہ کرام﷢ کا اجماع ہوا تھا۔سیدنا عمر فاروق نے فرمایا کہ

"لا تعلّموا رطانة الأعاجم ولا تدخلوا على المشركين كنائسهم يوم عيدهم، فإن السخطة تنزل عليهم."[39]

’’عجمی لوگوں کی زبانیں مت سیکھو، اور تہواروں کے دن مشرکوں کے معابد میں مت داخل ہو، کیونکہ [اس وقت]ان پر اللہ کی ناراضی نازل ہوتی ہے۔‘‘

آپ کا ایک اور فرمان یہ ہے کہ

 "من بنٰى ببلاد الأعاجم فصنع نيروزهم ومهرجانهم، وتشبّه بهم حتي يموت وهو كذلك، حُشر معهم يوم القيامة". [40]

جو عجمی لوگوں کے شہروں میں قیام پذیر رہا ، ان کے نوروز اور مہرجان منائے اور ان سے مشابہت کی تو اس کا انجام بھی انہی کے ساتھ ہوگا۔ ‘‘

مذكوره نكات نمبر 4 تا 9 میں مذکور احادیثِ نبویہ سے علم ہوتا ہے کہ کفار سے مشابہت ان کی عبادات میں تو حرام ہے ہی، یہ مشابہت روز مره معاملات میں بھی حرام ہے جو بائیں ہاتھ سے کھانے پینے، اشارے سے سلام نہ کرنے، بالوں کو نہ رنگنے، ڈاڑھیوں کو مونڈنے، خواتین کے اضافی بالوں کو نہ لگانےاور ان کے تہواروں میں شرکت نہ کرنے کی واضح احادیث کی بنا پر ممنوع ہے۔ مذکورہ تمام  چیزوں کا تعلق روزمرہ بول چال، لباس، عادات اور تہواروں سے ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے شرعی احکام ایسے ہیں جن سے کفار سے مشابہت کی بنا پر منع کیا گیا ہے، ان احادیث کو طوالت کی بناپر ذکر نہیں کیا جارہا۔

کفار سے حرام مشابہت جس طرح ظاہری وباطنی ہر نوعیت کے عبادتی اور معاملات: اقوال واعمال تک وسیع ہے،اسی طرح یہ حرام مشابہت فساق ومبتدعہ حتی کہ اعراب واعاجم تک پھیلی ہوئی ہے، جیسا کہ بہت سی احادیث میں شیطان ، اعرابیوں اور عجمیوں سے مماثلت کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اعراب و اعاجم  اگر کافر ہیں تو اس ممانعت کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں، اگر وہ مسلمان ہیں تو بھی وہ سابقین اوّلین اور فضیلت یافتہ اَدوار سے دور ہونے کی بنا پر قابل اقتدا نہیں اور ان کی مشابہت بھی کراہت  سے خالی نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

لما یفضی من فوت الفضائل، التی جعلها تعالي للسابقين الأولين أو حصول النقائص التي كانت في غيرهم.[41]

اور گناہ گار وفاسق لوگوں کی مشابہت ممنوع ہونے کی دلیل یہ قرآنی آیات ہیں کہ

﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۶۳﴾

(النور: 63)

’’جو لوگ رسول اللہ کے احکام کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں سنگین آزمائش اور دردناک عذاب سے ڈرجانا چاہیے۔ ‘‘

﴿وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۰۰۱۹ ﴾(الحشر:19)

’’ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو الله نے ان کو اپنا آپ بھلا دیا، یہی لوگ گناہ گار ہیں۔ ‘‘

بعض لوگوں نے حرام مشابہت کو یا تو ایک تاریخی ضرورت قرار دیا ہے، یا کفار کے سنگین رویوں کا ردّعمل بتایا ہے، اور اسے دائمی شرعی اُصول نہیں سمجھا، جیسا کہ ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کے سابق چیئرمین اور شریعت اپلیٹ بنچ ، سپریم کورٹ کے جج خالد مسعود لکھتے ہیں کہ

’’ہمارے خیال میں یہود ونصاری اور عجم کے طورطریقوں سے مشابہت سے ممانعت کی یہ احادیث اس دور سے تعلق رکھتی ہیں، جب مدینہ میں اسلامی معاشرت کو غیرمسلموں کے ساتھ دینی اور ثقافتی تعلقات میں مختلف رویوں کا سامنا کرناپڑا۔ ... جب یہود نے عناد کا راستہ اختیار کیا  اور عام میل جول میں بھی انتہائی نفرت اور دشمنی کا اظہار کیا گیا، تو نبی کریم نے بھی احتیاط کا راستہ اختیار کیا۔ ‘‘[42]

مضمون نگار نے یہاں نرم انداز سے احادیث نبویہ کو ہر زمانے کی ہدایت کی بجائے، مخصوص حالات کا تقاضا قرار دے کر، ناروا تاویل کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس طرح تو رسول اللہﷺ  کی ہر بات کو  دور نبوی سے خاص کرنے کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔ جو بہرحال کوئی علمی طریقہ یا اسلامی سلیقہ نہیں کہلا سکتا۔آپ مزید لکھتے ہیں کہ

’’[اما م ابن تیمیہ کی] اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کفار سے مشابہت صرف مذہبی امور میں منع ہے، ہر مشابہت منع نہیں۔ یعنی ایسے افعال کی نقل کرنا منع ہے جسے غیرمسلم مذہب اور عبادت کے طور پر کرتے ہیں، اسی طرح مذہبی غرض اورمقصد سے غیرمسلموں کے افعال کی نقل کرنا بھی شدت سے منع ہے۔

امام ابن تیمیہ کے ہاں مشابہت کے حوالے سے دین اور ثقافت میں فرق کرنا ضروری ہے اور دین کو وسیع مفہوم میں لینے کی بجائے اس کی تحدید ضروری ہے۔ تاکہ دینی اور ثقافتی تشخص میں فرق کیا جاسکے۔ اس حوالے سے تشبہ کا مسئلہ بہت حد تک بدعت کے تصور اور ممانعت کے قریب ہے۔ یعنی ہر نئی بات بدعت نہیں بلکہ بدعت وہ عمل ہے جسے دین کا درجہ دے کر اپنایا جائے۔ ‘‘[43]

امام ابن تیمیہ کی یہ ترجمانی بھی درست نہیں، بالخصوص خط کشیدہ جملہ اس کی داخلی نفی کررہا ہے۔

یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ احادیث 12 ویں صدی تک اسناد کے لحاظ سے کمزور سمجھی[44] جاتی تھیں،حالانکہ پیچھے مذکور احادیث کی اکثریت صحیحین میں مروی ہیں اور سنن ابو داؤد کی حدیث کی حجیت اور معنوی تائید پر پیچھے متعدد احادیث ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔جن سے یہ مسئلہ اصول دین میں ایک اصل قرار پاتا ہے۔

کفار سے مشابہت کی ممانعت کی حکمتیں

  • کفار سے مشابہت کی بنا پر ان سے محبت ، ان کی طرف جھکاؤاور ان کے اطوار کو اچھا سمجھنے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر طرح کی مشابہت باہمی مناسبت اور قرب کا سبب بنتی ہے۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

أن المشابهة تفضي إلى كفر، أو معصية غالبا، أو تفضي إليهما في الجملة ....[45]

’’ مشابہت کفر و معصیت کی  طرف لے جاتی   ہے  یا دونوں کی طرف ، اور ہر وہ چیز کفر کے فروغ کا غالب ذریعہ ہو، شریعت اسے حرام کردیتی ہے۔ حتی کہ اس کے مخفی یا امکانی ذرائع بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ ‘‘

ہمارا مشاہدہ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جب سے مسلمانوں نے کفار کے ساتھ رہن سہن اور میل جول میں اضافہ کرکے، ان کی مشابہت کو معمول بنایا اور ان کی عادات کو اپنایا ہے ، اسلامی عقائد واعمال کمزور اور مسلم ملت انتشار کا شکار ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کے باہمی تعلقات میں کمی آکر، غیروں سے اپنائیت میں اضافہ ہوگیا ہے، جس سے مسلمانوں کا جسد ملی کمزور تر ہوچکا ہے۔

  • حافظ ابن قیم الجوزیہ حرمتِ مشابہت کی حکمت یوں بیان کرتے ہیں کہ

’’مسلمان اور کفار میں واضح امتیاز قائم ہوکر، دونوں کے اطوار میں کوئی مشابہت کا امکان نہ رہے۔ یہ ظاہری مشابہت دراصل باطنی تعلق کا اظہار ہوتی ہے۔ والمقصود الأعظم ترك الأسباب التي تدعو إلى موافقتهم ومشابهتم باطنا والنبي ﷺ سنّ لأمته ترك التشبه بهم بكل طريق.[46] اصل مقصد یہ ہے کہ ان تمام اسباب کا خاتمہ کردیا جائے جو کفار سے باطنی موافقت اور مشابہت کی طرف لے جاسکتے ہوں۔ اور نبی کریم نے اپنی امت کے لئے ہر وہ راستہ جاری کیا جس سے ہرطرح کی مشابہت کا کلی خاتمہ ہوجائے۔ آپ نے فرمایا خالف هدينا هدي المشركين[47] کہ ہماری راہ ہدایت نے مشرکین کے ہر طریقے کی مخالفت کی ہے۔ اور اس شرعی اصول کے دلائل 100 سے زائد ہیں، حتی کہ نبی کریم ﷺنے اللہ اور  رسول کی پسند کردہ عبادات میں ظاہری مشابہت کی بھی ہر صورت کا خاتمہ کردیا۔ ‘‘

  • حرمتِ مشابہت کی حکمت پر قاری محمد طیب کا استدلال یہ ہے کہ

’’اسلام نے قبل از اسلام قوانین اور شرائع کو منسوخ کردیا، اور تشبہ کی ممانعت دراصل اسی تنسیخ کی حفاظت کے لئے تھی کہ مشابہت کے بہانے یہ منسوخ شدہ قوانین اور روایات دوبارہ زندہ نہ ہوجائیں۔ ان میں یہود ونصاری کی شرائع بھی شامل ہیں جنہیں شریعت اسلامیہ نے منسوخ کردیا تھا، کیونکہ وہ دنیا کے روحانی مزاج کے موافق نہیں رہے تھے۔ (رسالہ تشبہ :ص 45)

علاوہ ازیں تشبہ سے تشخص میں ابہام بھی پیدا ہوتا ہے۔ قوم اس انسانی مجموعہ کا نام ہے جو کسی خاص ملت، خاص مشرب یا خاص سبیل وصراط کاپابند ہو۔ اور اس مشرب وملت کی خصوصیات نے اس مجموعہ کو دوسرے انسانی مجموعوں سے الگ اور ممتاز کردیا ہو۔ جیسے نصاری، یہود، مشرک اور مسلمان سب اپنے عقائد واعمال کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ممتاز ہیں ، تشبہ بالغیر سے یہ امتیاز مٹ جاتا ہے۔ (رسالہ تشبہ :ص 66) کفار سے مشابہت کا اصل مقصد امت مسلمہ کو فکری انتشار اور تباہی سے بچانا اور ان کو غیرمسلموں سے ممیز کرنا ہے۔ تاہم فطری ضروریات کے ضمن میں حرج یا تنگی پیدا کرنا اس ممانعت کا مقصود نہیں ہے۔

مشابہت کی شرعی ممانعت اضطراری اور طبعی عادات جیسے کھانا پینا وغیرہ میں نہیں کہ ان میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ تاہم افعال واعمال جن پر مشابہت کی ممانعت کا اطلاق ہوتا ہے ، وہ دو طرح کے ہیں، تعبدی افعال جن کا تعلق عبادات سے ہے جیسے صلیب لٹکانا، یا تعوّدی جو عادات سے تعلق رکھتے ہیں جیسے غیرمذہبی رسوم ورواج وغیرہ۔‘‘

  • جب کوئی قوم غیروں کی نقالی شروع کردے تو اس میں اپنے نظریات واقدار پر اعتماد کم ہوکر، دوسروں پر انحصار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ غیروں سے میل جول بڑھتے بڑھتے بعض اوقات اپنے دین پر عمل کرنا، انہیں باعثِ ذلت محسوس ہونا شروع ہوتا ہے۔اپنی تاریخ وتہذیب سے شرمندہ کوئی قوم وملت کس طرح اپنا کھویا مقام حاصل کرکے، عزت سے جی سکتی ہے۔

ہمارا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ہر خیر کی بات ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں اپنے قول وعمل سے واضح کرکے بتادی اور رسول کریمﷺ سے ارفع واعلیٰ نہ تو کسی کی ذات ہے اور نہ ہی بات۔ چنانچہ غیرمسلموں کے طریقوں کو اختیار کرنے والا نقائص کا عادی اور کوتاہیوں کا خوگر بن جاتا ہے، کیونکہ اسلام سراسر سعادت اور کفر ناکامی وذلت اور نقص وحسرت کا نام ہے۔

  • مسلم اور غیر مسلم لوگوں کی باہمی مشابہت کی ممانعت کی وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے شرعی اور قانونی احکام ومسائل میں دونوں کے مابین فرق ہے۔ بعض مقامات پر داخلہ صرف مسلمانوں کے لئے ممکن ہے، غیرمسلموں کو سلام میں پہل کرنے سے منع کیا گیا ہے، رمضان میں غیرمسلموں کے لئے کھانا پینا جائز ہے، اسی طرح غیرمسلم شراب پی اور حرام کھانے استعمال کرسکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بہت سی سیاسی اور تعلیمی نشستیں یا ملازمتیں مذہب کی بنا پر مخصوص ہوتی ہیں۔ اس بنا پر حقارت سے قطع نظر، شناخت کے بہت سے تہذیبی وسماجی مصالح ہیں، جن کے لئے اسلام نے مسلمانوں کو مستقل شناخت کا پابند بنایا ہے ۔

مذکورہ بالا احادیث نبویہ سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ کفار کی مشابہت سے شرعِ مطہرہ نے درجنوں مقامات پر منع کیا ہے۔ تاہم اس شرعی تقاضے پر بہت سے شبہات واعتراضات وارد ہوتے ہیں، کہ آیا اس مشابہت سے کوئی استثنیٰ بھی ہے ، یا نہیں اور فی زمانہ سائنس و ٹیکنالوجی کی بے شمار چیزیں مغربی ممالک سے ہی مسلمانوں میں متعارف ہورہی ہیں۔ اسی طرح بہت سے چیزیں آغاز میں کفار کی عادات وشعائر تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عرفی حیثیت میں تبدیلی ہوتی گئی، کیا اب بھی ان کا حکم حرمت باقی ہے یا نہیں؟ اس طرح کے بہت سے سوالات وشبہات مستقل مضمون کے متقاضی ہیں، جو عنقریب لکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ

 

[1]   دیکھئے راقم کا مفصل مضمون: ’الشروط العمریہ؛ حدیث و تاریخ کے آئینے میں‘، مجلہ محدث ، لاہورفروری 2020ء

[2]    سنن أبي داؤد: كِتَابُ اللِّبَاسِ (بَابٌ فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ)، رقم 4031

[3]    سرسید احمد خاں کفار سے مشابہت کی ممانعت کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ 1867ء میں سید احمد خاں نے کچھ انگریزوں کے ساتھ ایک ہی میز پر کھانا کھایا اور چھری کانٹے کا استعمال کیا تو اس پر پورے ملک میں بہت احتجاج ہوا۔جس کے جواب میں سرسید نے لکھا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، نیز یہ حدیث کوئی شرعی مطالبہ نہیں بلکہ ایک خبری بیانیہ ہے۔ رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ میں شائع ہونے والا مضمون 1875ء میں ’مقالات سرسید‘ (ص 90 تا 94)میں شائع ہوا۔

[4]    دیکھئے :عون المعبود شرح سنن ابو داود از مولانا شرف الحق عظیم آبادی: 11؍52، دار الکتب العلمیہ، بیروت1415ھ

[5]    السنن والآثار في النهي عن التشبه بالکفار از سہیل عبد الغفار: ص 102، دارالسلف، الریاض، 1416ھ

[6]    بحوالہ ’مسلم شناخت ؛ فکر ی عملی تناظر‘از ڈاکٹر محمد خالد مسعود مجلّہ اجتہاد، اسلام آباد، جنوری 2010ء ، ص 9

[7]    اقتضاء الصراط المستقیم از امام ابن تیمیہ: 1؍ 237، تحقیق ڈاکٹر ناصر العقل، مکتبہ العبیکان، الریاض1404ھ

[8]    سبل السلام شرح بلوغ المرام از امیر صنعانی: 4؍347، ناشر:جامعہ امام ، الریاض، طبع سوم 1405ھ

[9]    فیض القدیر شرح الجامع الصغیر از مناوی: 6؍ 104، دار المعرفۃ ، بیروت

[10] آیاتِ قرآنیہ میں بھی تفرقہ بازی کی ممانعت کرتے ہوئے، ایسے لوگوں کی مشابہت سے روکا گیا ہے :وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَيِّنٰتُ١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌۙ۰۰۱۰۵ (سورۃ آل عمران: 105)

      نیز مسلمانوں کو مشرکوں سے بھی جدا رہنے کی ہدایت کی گئی ہے:

      مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَۙ۰۰۳۱ (سورۃ الروم: 31)

[11] صحيح مسلم: كِتَابُ اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ (بَابُ النَّهْيِ عَنْ لُبْسِ الرَّجُلِ الثَّوْبَ الْمُعَصْفَرَ)، رقم 5434

[12] صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ)، رقم 3456

[13] اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ اليَهُودِ، ...فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «يَا بِلاَلُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلاَةِ». (صحيح البخاري: 604)

[14] «لاَ تَغْلِبَنَّكُمُ الأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلاَتِكُمُ المَغْرِبِ» قَالَ الأَعْرَابُ: وَتَقُولُ: هِيَ العِشَاءُ (صحيح البخاري: 563)

[15] «لَا تَغْلِبَنَّكُمُ الْأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلَاتِكُمْ، أَلَا إِنَّهَا الْعِشَاءُ، وَهُمْ يُعْتِمُونَ بِالْإِبِلِ(صحیح مسلم: 644)

[16] ...مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ بِانْتِظَارِ الْإِظْلَامِ مُضَاهَاةَ الْيَهُودِ. (مسند احمد: 19067)     

مسجد اقصی میں سیدنا عمرفاروق کا صخرہ کی بجائے قبلہ کی سمت بڑھ کر نماز پڑھنا: صَلَّيْتَ خَلْفَ الصَّخْرَةِ ...فَقَالَ عُمَرُ: ضَاهَيْتَ الْيَهُودِيَّةَ لَا وَلَكِنْ أُصَلِّي حَيْثُ صَلَّى فَتَقَدَّمَ إِلَى الْقِبْلَةِ. (مسند احمد: 261)

[17] يقول شيخ الإسلام ابن تيمية: والتصدية التصفيق فاتخاذ هذا قربة وطاعة من عمل الجاهلية. (اقتضاء الصراط: 1/ 327)

[18] «نهى عن الصماء اشتمال اليهود». (شرح السنة از بغوي: 2/ 425)

[19] «لعنة الله على اليهود والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مساجد». (صحيح بخاری: 425)

[20] «فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب أكلة السحر».(صحيح مسلم : 1096)

[21] «صوموا يوم عاشوراء وخالفوا اليهود...». ( مسند احمد: 249)

[22] «إنا أمة أمية لا نكتب ولا نحسب ....» (صحيح البخاري: 1814)

[23] «هات القط لي... فانما أهلك من كان قبلكم الغلو في الدين». (سنن النسائي: 3057)

[24] «إن المشركين لا يفيضون حتى تطلع الشمس... وإن النبي خالفهم فدفع قبل أن تطلع الشمس». (صحيح البخاري: 1600)

[25] صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ (بَابُ آدَابِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَأَحْكَامِهِمَا)، رقم 5265

[26] جامع الترمذي: أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ إِشَارَةِ الْيَدِ بِالسَّلاَمِ)، رقم 2695

      اس حدیث کو شیخ البانی ، شیخ شعیب ارناؤط اور مجلس علمی، دہلی نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور حافظ ابن حجر نے امام نسائی کے طریق سے اس کی سند کو معتبر کہا ہے۔ فتح الباری: 11؍ 14، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد (8؍ 41)میں بھی اسے صحیح کہا۔ اما م احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ نے ابن لہیعہ کی حدیث کو بطور ِتائید معتبر قرار دیا ہے۔ (اقتضاء الصراط المستقیم: 1؍ 245)

[27] جامع الترمذي: أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى النِّسَاءِ)، رقم 2697

[28] فتح الباري از حافظ ابن حجر: ص 11/ 14، دار المعرفة، بيروت

[29] صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ)، رقم3462

[30] صحيح مسلم: كِتَابُ اللِّبَاسِ (بَاب اسْتِحْبَابِ خِضَابِ الشَّيْبِ بِصُفْرَةٍ أَوْ...)، رقم 5509

[31] صحيح البخاري: كِتَابُ اللِّبَاسِ (بَابُ تَقْلِيمِ الأَظْفَارِ)، رقم 5892

[32] دیکھیں راقم کی کتاب: ’صنفی مشابہت کے احکام اور تبدیلی جنس کی شرعی حیثیت‘:ص 18؟؟

[33] «عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ». (صحيح مسلم: كِتَابُ الطَّهَارَةِ، بَابُ خِصَالِ الْفِطْرَةِ، رقم 604)

      ’’دس چیزیں (خصائل) فطرت میں سے ہیں: مونچھیں کترنا، داڑھی بڑھانا، مسوک کرنا، ناک میں پانی کھینچنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑ دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال مونڈنا، پانی سے استنجا کرنا۔‘‘ اور دسویں چیز کلی کرنا ہو سکتا ہے۔

[34] صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابٌ)، رقم 3488

[35] صحيح البخاري: رقم 5590

[36] سنن النسائي: كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ (بَابٌ) :... ، رقم 1557

[37] سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ (بَابُ مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ)، رقم 3313

[38] اقتضا ء الصراط المستقیم از شیخ الاسلام ابن تیمیہ: 1؍ 454

[39] السنن الكبری از بیہقی: 9؍393، اور مصنف عبد الرزاق: 1؍ 411، رقم 1609

[40] السنن الكبری از بیہقی: 9؍392، دار الکتب العلمیہ، بیروت 1414ھ

[41] اقتضاء الصراط المستقیم از امام ابن تیمیہ: 1؍ 399

[42] ’مسلم شناخت ؛ فکر ی عملی تناظر‘از ڈاکٹر محمد خالد مسعود مجلّہ اجتہاد، اسلام آباد، جنوری 2010ء ، ص 6

[43] ایضًا:ص 10

[44] ایضًا:ص 5           

[45] اقتضاء الصراط المستقیم از امام ابن تیمیہ: 1؍ 482

[46] احكام اہل الذمہ از حافظ ابن قیم، 2؍ 747، دار العلم، بیروت 1983ء

[47] السنن الکبری از امام بیہقی: رقم 9521، اور اس روایت کی اصل صحیح بخاری: رقم 1600 میں ہے۔