سیدنا ابوہریرہ کا ایمان افروز تذکرہ
فضیلۃ الشیخ مولانا پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی صاحب اپنی زندگی کے آخری ایام میں لاہور تشریف لائے تو الحکمۃ انٹرنیشنل ، لاہور میں اہل علم کی خوب صورت مجلس سجی، جس میں مختلف علمی موضوعات پر شیخ محترم نے بڑے نادر علمی نکات سے حاضرین کے علم میں اضافہ فرمایا۔ یہ مجلس مغرب تا عشاء جاری رہی۔ بعد نمازِ عشاء مدیر ادارہ حافظ شفیق الرحمن زاہد﷾کی درخواست پر شیخ محترم نے سیرتِ سیدنا ابوہریرہ پر بڑا ایمان افروز درس ارشاد فرمایا، جس سے آپ خود بھی آبدیدہ ہوئے اور سامعین کو بھی اشکبار کیا۔ یہ درس 17 فروری 2025، بروز سوموار کو ارشاد فرمایا۔ اس سے چند ہی دن بعد آپ خالق حقیقی سے جا ملے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) اس درس کو افادہ عام کے لیے ’’ محدث ‘‘ کی زینت بنایا جا رہا ہے تاکہ ہم سب اس کے مطالعے سے اپنی تربیت کا سامان کر سکیں۔[ادارہ] |
بعد از حمد و ثنا اور درود و سلام!
میں ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں اور طالب علم ہی رہنا چاہتا ہوں۔ یہ اہل علم کی مجلس ہے اور ’’من آنم کہ من دانم۔‘‘
ایک عرصے سے میری یہ خواہش اور تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس ادارے کی زیارت کا موقع نصیب فرمائے۔ بہرحال تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہیں، جب اسے منظور ہوتا ہے تب ہی معاملات انجام پاتے ہیں۔ آج اللہ نے مجھے موقع دیا اور اس ادارے میں حاضری ہوگئی۔
مجھے درس کے لیے کہا گیا ہے، تو میں اپنی باتیں کرنے کے بجائے ایک عظیم صحابی رسول کا تذکرہ کرنا بہتر سمجھتا ہوں۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صحابہ کرام میں سے کسی میں علم کے حوالے سے کوئی کمی نہیں ہے۔ تمام صحابہ کرام ہی بہت عظیم المرتبت ہیں لیکن جب علمی حوالے سے دیکھتے ہیں تو جو حیثیت اور مقام سیدنا ابوہریرہکو نصیب ہوا ہے وہ کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہیں ہوسکا۔
سیدنا ابو ہریرہ کی علمی عظمت کا خود رسول اللہﷺ نے بھی اظہار فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ ابوہریرہنے نبی کریمﷺسے ایک مسئلہ پوچھا: اے اللہ کے رسول! آخرت میں آپ کی سفارش کا سب سے زیادہ حق دار کون ہو گا؟ تو نبی کریمﷺنے سوال کا جواب دینے سے پہلے ان کی تعریف کی اور فرمایا:
لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لاَ يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الْـحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ.
’’اے ابوہریرہ! مجھے یقین تھا کہ اس حدیث کے بارے میں سب سے پہلے آپ مجھ سے سوال کرو گے، کیونکہ میں نے حدیث کے طلب میں تمہاری رغبت اور شوق کو دیکھا ہے۔‘‘
اس کے بعد آپﷺنے ابوہریرہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ[1].
’’قیامت کے دن میری شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار وہ شخص ہوگا، جس نے دل کی سچائی اور اخلاص کے ساتھ لا اِلٰہ اِلا اللہ کہا ہوگا۔‘‘
صحابہ کرام آپس میں بعض اوقات تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے کہ ہم پہلے مسلمان ہوئے ہیں اور ہمیں نبی کریمﷺ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے، ہم مکہ میں بھی آپ کے ساتھ رہے ہیں اور مدینہ میں بھی، جبکہ ابوہریرہ تو خیبر کے موقع پر 7ہجری میں مسلمان ہوئے ہیں اور یہ کم وبیش تین چار سال ہی رسول اللہﷺ کے ساتھ رہے ہیں۔اس کے باجود وہ سب سے زیادہ احادیث بیان کرتے ہیں۔
یہ بالکل سچ ہے کہ صحابہ کرام میں سے کوئی صحابی 10 سال، کوئی 15 سال، کوئی 20 سال یا کوئی 23 سال آپﷺکے ساتھ رہے ہیں۔سیدنا ابو بکرصدیق جو بالکل ابتدا ہی میں مسلمان ہوگئے تھے ، ان کو تئیس برس نبی کریمﷺکے ساتھ رہنے کا موقع ملا تھا، ان سے بھی سو سے کچھ اوپر احادیث ہم تک پہنچی ہیں۔
اس لیے صحابہ کرامکہا کرتے تھے کہ یہ ابوہریرہ ؓپتہ نہیں کیسے احادیث سنا دیتے ہیں، ہم نے تو یہ چیزیں کبھی سنی ہی نہیں اور نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں۔
جب ابوہریرہ کو معلوم ہوا کہ ان کے متعلق ایسی باتیں کی جاتی ہیں تو وہ فرمانے لگے:
’’لوگو! آپ کے بیوی بچے تھے، آپ کے باغات تھے، آپ تجارت اور کھیتی باڑی کرتے تھے جبکہ میں تنہا تھا ، میرے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا تھا، لہٰذا میں ہر وقت نبی کریمﷺکے ساتھ رہا کرتا تھا۔ آپ سفر میں ہوتے یا بازار جاتے میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا، صرف اس وقت ابوہریرہنبی کریم ﷺسے جدا ہوتا جب آپ ﷺ پنے گھر تشریف لے جاتے۔‘‘ [2]
نبی کریم ﷺگھرجاتے تو ابوہریرہدروازے سے باہر زمین پر لیٹ جاتے تھے۔ وہ کوئی چادر، کپڑا یا صف نہیں بچھاتے تھے۔ یہ ان کی نبیﷺکے ساتھ عقیدت اور محبت کا اظہار تھا اور ان کا یہ بھی مقصد تھا کہ جب نبیﷺگھر سے باہر آئیں گے تو وہ فوراً آپﷺکی صحبت اختیار کر لیں گے۔
زیادہ احادیث یاد رکھنے کی دوسری وجہ سیدنا ابوہریرہ نے یوں بیان کی کہ مجھے کچھ احادیث بھول جاتی تھیں،تو میں نے رسول اللہﷺسے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے احادیث سنتا ہوں لیکن مجھے وہ بھول جاتی ہیں، لہٰذا آپ دعا کیجیے کہ میں جو احادیث سنوں وہ مجھے یاد رہیں۔ تو رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’ابوہریرہ! چادر بچھاؤ۔‘‘
میں نے چادر بچھائی تو رسول اللہﷺنے اپنے ہاتھ بلند کیے، پھر خوب دعا فرمائی۔ مجھے یقین ہونا شروع ہوگیا کہ اللہ کی رحمت نازل ہورہی ہے اور میری چادر میں اللہ کی رحمت آرہی ہے۔جب آپ ﷺ دعا سے فارغ ہوئے تو فرمایا:
ابوہریرہ! یہ چادر اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لو۔
میں نے اپنی چادر کو چاروں کونوں سے پکڑ کر ایسے اٹھایا جیسے وہ دعاؤں سے بھری ہوئی ہو۔ آپ نے چادر اٹھا کر سینے سے لگا لی۔ اس کے بعد مجھے کوئی بھی چیز بھولی نہیں۔ [3]
ایک بار کسی نے کہا: ابوہریرہ! آپ کمال کرتے ہیں، ہم نے تو یہ احادیث سنی ہی نہیں ہیں، آپ پتہ نہیں کہاں سے سنا دیتے ہیں۔ تو ابوہریرہنے کہا اچھا یہ بتاؤ: کل رات عشاء کی نماز کس کس نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ باجماعت پڑھی تھی؟ تو سب بولے کہ ہم نے پڑھی تھی۔ سیدنا ابوہریرہ نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ رسول اللہﷺنے پہلی رکعت میں کون سی سورت پڑھی تھی اور دوسری رکعت میں کون سی سورت پڑھی تھی؟ صحابہ کرام بولے: ہمیں یاد نہیں ہے۔ تو ابوہریرہنے فرمایا: آپﷺنے فلاں سورت پہلی رکعت میں اور فلاں سورت دوسری رکعت میں پڑھی تھی۔ سب بولے: ہاں اب یاد آگیا ہے ۔ تو سیدنا ابوہریرہ نے فرمایا: میرے اور تمہارے درمیان یہی فرق ہے کہ میں جو دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں وہ یاد رکھتا ہوں۔
سیدنا ابوہریرہ کا تذکرہ اتنا دلنشین ہے کہ جی چاہتا ہے بندہ بیان کرتا ہی رہے۔
احادیث میں آتا ہے کہ ایک دن سیدنا ابوبکر صدیقکو بھوک لگی ہوئی تھی اور گھر میں کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ باہر نکلے کہ کہیں سے اللہ کھانے کا کوئی بندوبست کردے ۔ راستے میں ان کی ملاقات سیدنا عمر فاروقسے ہوگئی۔ تو سیدنا عمرفاروقنے سیدنا ابوبکر صدیقسے پوچھا: آپ کہاں جارہے ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیقنے فرمایا: میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے، اس لیے میں باہر نکلا ہوں کہ کہیں سے کچھ کھانے کو مل جائے۔ تو سیدنا عمر فاروقنے فرمایا: میرا بھی یہی حال ہے، مجھے بھی بہت بھوک لگی ہے اور میرے پاس بھی کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ آئیں ہم اکھٹے ہی کہیں چلتے ہیں، تاکہ کچھ انتظام کیا جا سکے۔راستے میں انہیں سیدنا ابوہریرہمل گئے۔ ان سے پوچھا تو کہنے کہ میرے گھر میں بھی اس وقت کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے، آؤ، اللہ کے رسولﷺکے پاس چلیں کہ وہاں سے کھانے کو کچھ مل جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ کے پوچھنے پر ابوبکر صدیقنے بتایا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے بہت بھوک لگی ہے اور آج میرے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے، میرے بھائی عمربھی بھوک سے بے حال ہیں اور ابوہریرہ کا تو سب کو ہی پتہ ہے کہ ان کے پاس بھی کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔
رسول اللہﷺنے سب کو دو دو کھجوریں دیں۔ یہ کھجوریں عام نہیں تھیں بلکہ یہ برکت والی کھجوریں تھیں کیونکہ وہ رسول اللہﷺکے ہاتھ سے دی گئی تھیں، پھر وہ برکت والی کیسے نہ ہوتیں۔
سیدنا عمر فاروقاور سیدنا ابوبکر صدیقنے وہ کھجوریں کھالیں لیکن سیدنا ابوہریرہنے ایک کھجور کھالی اور ایک جیب میں ڈال لی۔ نبی کریمﷺنے یہ دیکھ کر فرمایا: ابوہریرہ! یہ کیا کیا ہے؟ تمہیں تو بھوک لگی ہوئی تھی، میں نے تمہیں صرف ہی کھجوریں دی ہیں اور تم نےان میں سے بھی ایک رکھ لی ہے ؟ تو سیدنا ابوہریرہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! گھر میں امی جان کی بھی بھوک سے یہی حالت ہے، میں نے ایک کھجور کھا لی ہے دوسری ان کے لیے رکھ لی ہے۔ یہ بات سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابوہریرہ! تم یہ کھجور بھی کھالو، میں تمہاری والدہ کے لیے اور کھجوریں دے دیتا ہوں۔ [4]
صحابہ کرام اور سیدنا ابوہریرہکی والدہ کتنی خوش نصیب ہیں کہ رسول اللہﷺان کے لیے خاص طور پر کھجوریں عطا فرما رہے ہیں۔
سیدناابو ہریرہفرماتے ہیں: میں ایک دن بھوک سے نڈھال نیم بے ہوشی کی حالت میں راستے میں پڑا تھا۔ میں نے اچانک رسول اللہ ﷺکو آتے ہوئے دیکھا تو بہت مشکل سے اٹھا کہ رسول اللہﷺ میری حالت دیکھیں گے کہ تو میرے لیے کھانے کا کچھ بندوبست کر دیں گے۔رسول اللہﷺنے نزدیک آکر سیدنا ابوہریرہکو ساتھ لیا اور مسجد میں تشریف لے گئے۔ اسی اثناء میں کسی بندے نے دودھ کا ایک پیالہ رسول اللہ ﷺکو پیش کیا ۔اسے دیکھ کر مجھ میں کچھ ہمت پیدا ہوئی کہ اس دودھ سے کچھ رسول اللہﷺ پی لیں گے اور کچھ مجھے دے دیں گے ۔لیکن رسول اللہﷺنے فرمایا: ابوہریرہ! جاؤ، صفہ والوں کو بھی بلا کر لاؤ، وہ بھی بھوکے ہیں۔ اس وقت ان کی تعداد 70 یا 80 کے قریب ہوتی تھی۔ سیدنا ابوہریرہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دودھ کا صرف ایک پیالہ ہے، جس سے رسول اللہﷺنے بھی پینا ہے اور مجھے بھی بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔ صفہ والے بھی آجائیں گے تو میرے حصے میں تو کچھ بھی نہیں آئے گا ۔ لیکن رسول اللہﷺکے حکم کی بجا آوری لازم تھی۔ لہٰذا سیدنا ابوہریرہاصحابِ صفہ کو بھی بلا کر لے آئے۔ پھر رسول اللہﷺنے فرمایا: ان کو دودھ پلاؤ۔
ابوہریرہکہتے ہیں کہ میں نے آپ کے حکم پر ایک آدمی کو دودھ دیا، اس نے خوب سیر ہوکر پیا لیکن دودھ میں ذرہ بھی کمی نہیں آئی تو مجھے اطمنان ہوا کہ دودھ ختم نہیں ہوگا۔ میں نے سب کو دودھ پلایا۔ پھر پیالہ رسول اللہﷺکو پیش کیا کہ اب آپ اور میں ہی رہ گئے ہیں، لہٰذا آپ نوش فرمائیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: ابوہریرہ! تم پیو۔ چنانچہ میں نے پیا۔ پھرمیں نے پیالہ آپ کو دینا چاہا تو آپ نے فرمایا: ابوہریرہ! اور پیو۔ میں نے اور پیا۔ پھر پیالہ آپ کو دینا چاہا تو آپ نے تیسری، پھر چوتھی بار بھی یہی فرمایا کہ ابوہریرہ! اور پی لو ۔
اسں واقعے کے متعلق میرے استاذ، میرے شیخ، میرے مربی اور میرے محسن شیخ سلطان محمود محدث جلالپوری فرماتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! اگر میں اور پیوں گا تو دودھ میرے منہ میں ہی رہ جائے گا، آگے نہیں جاسکے گا، کیونکہ اب مزید گنجائش نہیں ہے ۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے پیالہ پکڑ لیا اور دودھ نوش فرما لیا۔ [5]
سیدنا ابوہریرہ نے ایک مرتبہ فرمایا: اللہ تعالیٰ اس آدمی کی مغفرت کرے، جو میرے لیے اور میری ماں کے لیے مغفرت کی دعا کرے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اگر ہم روزانہ دعا نہ کرسکیں تو کبھی کبھار ہی سیدنا ابوہریرہکا نام لے کر دعا کیا کریں کہ یااللہ! سیدنا ابوہریرہاور ان کی والدہ محترمہ کی مغفرت فرما ۔ اس طرح ہم بھی سیدنا ابوہریرہکی دعائے مغفرت کے مستحق بن جائیں گے ۔
سیدنا ابوہریرہکے سامنے ایک آدمی نے کہا: اللہ تمہاری بھی مغفرت کرے، تمہاری والدہ کی بھی مغفرت کرے اور تمہارے والد کی بھی مغفرت کرے۔ تو سیدنا ابوہریرہنے فرمایا کہ نہیں نہیں، صرف میرے اور میری ماں کے لیے دعا کرو، میرے والد کے لیے دعا نہیں کرو کیونکہ وہ مشرک ہی مرگیا تھا اور مشرک کے لیے دعا نہیں کی جاتی۔ اللہ اکبر!۔
یہ سیدنا ابوہریرہ ہیں جن کا تذکرہ ایمان میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں ایسے بدبخت لوگ بھی ہیں جو سیدنا ابوہریرہکی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ ایک مسجد میں کچھ لوگ بیٹھے تھے، وہاں ایک حدیث بیان کی گئی تو ایک بدبخت کہنے لگا: میں اس حدیث کو نہیں مانتا کیونکہ اسے ابوہریرہ نے روایت کیا ہے۔ یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ اللہ نے اپنی قدرت دکھائی، اچانک اس کے اوپر ایک اژدھا گرا، سارے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، مجمع بکھر گیا تو اژدھے نے اس آدمی کا تعاقب کیا، جس نے سیدنا ابوہریرہکی شان میں گستاخی کی تھی۔ لوگ اسے کہنے لگے: توبہ کر لو، ورنہ یہ سانپ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ تو اس نے خوف کی وجہ سے کہہ دیا: میں اپنی بات سے توبہ کرتا ہوں۔ اتنا کہنا تھا کہ سانپ غائب ہوگیا اور پتہ نہیں کہاں سے آیا تھا اور کہاں چلا گیا۔ [6]
یہ واقعہ سیدنا ابوہریرہ کی شان میں بدزبانی کرنے والوں کے انجام کو واضح کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں سیدنا ابوہریرہ کا جانشین بنائے، ہم جو پڑھیں اور پڑھائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے اور اسے ہمارےلیے ، ہمارے والدین اور اساتذہ کرام کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے۔ آمین
[1] صحيح بخاری :99
[2] صحیح بخاری: 118 ، 2350
[3] صحیح بخاری: 119
[4] سير أعلام النبلاء: 2/ 592
[5] صحیح البخاري: 6452
[6] سير أعلام النبلاء: 2 / 618-619