اپریل 2025ء

کیا فرقہ وارانہ تشدد کے سامنے حکومت گھٹنے ٹیک دے گی؟

پاکستانی قانون کے مطابق تمام سرکاری ، نیم سرکاری اور پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں اپنے رہائشیوں کی سماجی اور مذہبی ضروریات پورا کرتے ہوئے پارک، قبرستان اور مساجد کے لئے اراضی مختص کرتی ہیں ۔ بعض رہائشی سوسائٹیاں خود مساجد کا انتظام کرتی ہیں اور بعض انتظامات کی ذمہ داری معتمد اداروں یا افراد کے حوالے کر دیتی ہیں ۔ اہل سنت کے تینوں مکاتب فکر بریلوی ، دیوبندی اور اہل حدیث کے پاس سوسائٹیز کی مساجد موجود ہیں ، اہل تشیع کو بھی تقریباً ہر بڑی سوسائٹی میں امام بارگاہ کے لیے جگہ ملی ہوئی ہے۔ اس کا زیادہ منظم طریقہ تو اسلام آباد  میں اختیار کیا گیا ہے ، جہاں ہر مکتب فکر سے وابستہ افراد کو مساوی طور پر مساجد کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔

چند سال  سے مساجد  کی تعمیر وانتظام کے لئے فرقہ وارانہ رجحانات میں تیزی آئی ہے اور حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے عہدیداران  وملازمین نے مسلک کی بنیاد پر جانبد اری کا واضح سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ہر سرکاری دفتر میں بڑی جماعتوں کے نمائندے ،اپنے ہم مسلکوں کو خاص رعایتیں دیتے ہیں۔ یہ ایک غیر صحت مند ، غیر شرعی اور غیر اخلاقی عمل ہے ، جو گھن کی طرح  چاٹتے ہوئے معاشرے کو فرقہ بندی میں تیزی سے دھکیل رہا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تحریک لبیک پاکستان (TLP)   کی آمد سے فرقہ وارانہ تشدد اور جذباتی اشتعال انگیزی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اور حکومتی ادارں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ اس کا سد باب کرنے کی بجائے فرقہ وارانہ تشدد اور اشتعال انگیزی سے گھبراتے  ہوئے ،ان کے سامنے بچھتے چلے جارہے ہیں جس سے وطن عزیز میں اشتعال دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔

گذشتہ ماہ فرقہ واریت کے اس معاشرتی ناسور کا ایک نیا واقعہ سامنے آیا ۔  2007ء میں ایل ڈی اے ایونیو1 کی 9 کنال پر محیط، مرکزی مسجد کا NOC ایل ڈی اے آفس اور ڈی سی آفس نے ادارہ محدث کے سرپرست ادارے ’اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ‘ کو جاری کیا تھا۔ پھر 2008ء میں’اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ‘ کو الاٹمنٹ لیٹر بھی جاری کردیا گیا۔لیکن ادائیگی کے مسلسل مطالبے کے باوجود، ٹرسٹ کو پیش قدمی کا موقع نہ دیا گیا، جس پر اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ نے لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا ۔ہائی کورٹ نے دلائل سن کر 2013ء میں اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔ ٹرسٹ کے ذمہ دار بتاتے ہیں کہ جب وہ عدالت سے باہر نکلے تو ایک آدمی نے ہمیں روک کر کہا : آپ نے عدالت سے فیصلہ تو کرالیا ہے ، لیکن مسجد آپ یہاں نہیں بنا سکیں گے اور ایسا ہی ہوا کہ جب ایل ڈی اے سے ہائی کورٹ کے فیصلےپر عمل درآمد کی درخواست کی گئی تو جواب ملا کہ اب ہم نے یہ فیصلہ کیاہے کہ ایل ڈی اے اپنی سوسائٹیز کی تمام مساجد کی تعمیر وانتظام خود چلائے گا ۔

پھر ایل ڈی اے نے لاہور میں اپنی تین نئی ہاؤسنگ سکیموں: ایل ڈی اے ایونیو  1 ، جوبلی ٹاؤن اور موہلن وال میں تین مرکزی مساجد کے لئے مختص اراضی پر مساجد کی خود تعمیر میں کڑوڑں روپے کی خطیر رقم صرف کی۔ 2018ء میں ان مساجد کی تعمیر کےلئے اپنے حق میں این او سی حاصل کئے۔ ان مساجد کی ملکیت کو اپنے پاس رکھتے ہوئے، 2024ء میں اُنہیں فعال کرنے کےلئے اچھی شہرت والے مختلف ٹرسٹوں سے معاہدے کئے گئے۔جو یہاں کسی فرقہ ؍ مسلک سے بالا تر ہوکر اور چندہ مانگے بغیر ، عوام کی پرسکون عبادات کے لئے ضروری نگرانی اور اخراجات (مثلاً یوٹیلیٹی بلز، عملہ کے مشاہرے اورروزمرہ اخراجات) کا انتظام کریں گے۔نیز یہ ٹرسٹ ایل ڈی اے کی مزید مساجد کی تعمیر کی ذمہ داری بھی پوری کریں گے۔

17؍ فروری 2025ء کو ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر ہاؤسنگ جناب صہیب عمر نے تینوں مساجد کا انتظام وانصرام متعلقہ ٹرسٹوں کے ذمہ داران کو بلا کر ، ان کے حوالے کردیا۔ ایل ڈی اے کی مرکزی مسجد کا معاہدہ المرکز ٹرسٹ سے ہوا، جوبلی ٹاؤن کی مسجد کی ذمہ داری  غنی روضة الجنة ٹرسٹ کے حوالے کی گئی۔ مسجد میں پہلی اذانِ ظہر کی سعادت (ٹرسٹ کے چیئرمین ) ڈاکٹر انوار احمد خاں غنی نے حاصل کی اور خود پہلی نمازِ ظہر کی امامت کی۔ ڈاکٹر صاحب ، مشہور زمانہ غنی فاؤنڈیشن کے علاوہ ازمیر ٹاؤن، لاہور میں متعدد مساجد کی براہِ راست نگرانی کررہے ہیں۔

اُنہوں نے اپنے ٹرسٹ کی طرف سے جوبلی ٹاؤن جامع مسجد میں خطابت اور انتظامات کی ذمہ داری پنجاب یونیورسٹی میں ’شعبہ اطلاقی علوم اسلامیہ ‘کے چیئرمین ڈاکٹر حافظ حسن مدنی کے حوالے کی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہاں پہلا خطبہ جمعہ 21؍ فروری 2025ءکو دیا، اور پہلے جمعہ میں ہی مسجد کے تینوں ہال نمازیوں سے کھچا کھچ بھر گئے۔ عام نمازوں میں بھی اہالیانِ محلہ کی تعداد سیکڑوں سے تجاوز کرگئی۔ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ایک معروف علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں جوصدی بھر سے برصغیرمیں دینی خدمات انجام دے رہا ہے، اور اس خاندان میں بے شمار ڈاکٹرز کے علاوہ ، خاندان کا ہر بچہ، بچی قرآن مجید کا حافظ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تشدد وفرقہ واریت سے بالاتر عالمانہ شخصیت اور تحقیقی خدمات معروف ہیں۔

مسجد میں فوری طور پر رمضان المبارک کے حوالےسے قرآن مجید کے دورۂ تفسیر برائے خواتین کا آغاز کردیا گیا۔ نمازِ فجر کے بعد، مختصر درسِ قرآن، نماز مغرب کے بعد مختصر درسِ حدیث اور عوام کے لئے مفت کھانے اور رمضان میں افطاری کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اہالیان محلہ سے تعارفی نشست 23؍ فروری کو منعقد کی گئی، اور 25 فروری 2025ء کو تلاوتِ قرآن کی ایک روح پرور مجلس کا شاندار انعقاد بھی کیا گیا۔

جوبلی ٹاؤن کے قرب وجوار کے علاقوں: شیرشاہ اور بھوبتیاں گاؤں وغیرہ میں بدقسمتی سے فرقہ واریت کی طویل روایت رہی ہے۔ فرقہ بندی اور شدت پسندی کا بیک گراؤنڈ رکھنے والی تحریک کےچند انتشار پسندوں نے جوبلی ٹاؤن مسجد میں توحید ورسالت کی خالص دعوت کے مقابل فرقہ وارانہ دعوے شروع کردیے اور مسجد فعال ہونے کے چند دن بعد 2013ء کے ایک غلط این او سی کا دعوٰی کردیا ۔ حالانکہ خود بریلوی علما مانتے ہیں کہ جس این او سی کی بنیاد پر وہ اس مسجد کا دعوی کررہے ہیں، وہ جوبلی ٹاؤن سی بلاک کا ہے، نہ کہ سوک سنٹر کی مسجد کا ۔ ایل ڈی اے عہدیداران سے ہونے والی باضابطہ میٹنگوں میں بھی اُنہوں نے ان حضرات پر دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ان کے پاس موجود این او سی، موجودہ جامع مسجد کی بجائے کسی اور جگہ کا ہے، جہاں واقفانِ حال افراد بتاتے ہیں کہ اٹک پٹرول پمپ تعمیر کردیا گیا ہے۔ گویا جوبلی ٹاؤن کی مرکزی جامع مسجد کا کوئی مبینہ
 این او سی درست نہیں۔ یہ مسجد ایل ڈی اے کی ہی ملکیت ہے اور ایل ڈی اے انتظامیہ نے 2018ء میں ان تینوں مساجد کی تعمیر کے لئے مشترکہ این او سی حاصل کرکے سلسلہ تعمیر کا آغا ز کیا تھا۔

لیکن شدت پسندوں نے سوسائٹی میں ناجائز پروپیگنڈاکا سہارا لیا او رسوشل میڈیا پر عوام الناس کو جذباتی نعروں سے مشتعل کرنا شروع کیا۔ سپیکرز سکواڈکے ذریعے سرکاری اداروں کے باہر شدید بیان بازی اور الزام تراشی کو معمول بنایا گیا، جس سے گھبرا کر ڈپٹی کمشنر لاہور نے ڈائریکٹر ایل ڈی اے کو مسجد بند کرنے کے فوری احکام صادر کردیے اور حالات معمول پر آنے کے انتظار کو کہا۔جب اس زیادتی پر احتجاج کیا تو کہا گیا کہ ہم وہی کریں گے جس کا اوپر سے آرڈر آئے گا ۔ اس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگ اس فرقہ بندی اور شر پسندی کو سپورٹ کررہے ہیں ۔ کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ حکومت اورانتظامیہ نے قرآن وسنت،امن وسلامتی اور قانون پسندی کی بجائے فرقہ وارانہ تشدد اور جھوٹی، جذباتی اشتعال انگیزی کے آگے سرجھکا دیا ہے؟

بریلوی ہونے کے دعویدار ان شر پسند افراد کو کسی بھی قومی مذہبی لیڈر کی تائید حاصل نہیں۔ دینی جماعتیں ایسے نفرت انگیز رجحانات اور علانیہ بیانات سے پہلو بچاتی ہیں۔ جب این او سی میں راہ نہ ملی تو ان لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ جوبلی ٹاؤن کے شہری بریلوی مسجد کے حق میں ہیں اور ان کی یہاں اکثریت ہے۔ حالانکہ بریلوی مکتبِ فکر کی اس علاقہ میں پہلے ہی پانچ مساجد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ موہلن وال کی مسجدکی ذمہ داری بھی بریلوی امام کے سپرد ہے۔ اگر اکثریت کے دعوے کو مان لیا جائے تو اس ناطے شیعہ مکتب فکر کو تو پاکستان میں کسی بھی سوسائٹی میں عبادت گاہ بنانے کا موقع نہیں مل سکتا۔  ایل ڈی اے  انتظامیہ نے بھی اپنی تعمیر شدہ مسجد میں فرقہ واریت   سے بالاتر ہونے کا معاہدہ کررکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جدید سوسائٹی میں عوام کی عظیم تعداد فرقہ وارانہ  سوچ سے بالا عبادت کرنا چاہتی ہے ، اور وہ اس کے لئے کئی اجتماعات اور ملاقاتیں منعقد کرکے اپنا پیغام حکام بالا کو پہنچا بھی چکے ہیں۔

جوبلی ٹاؤن مسجد کے باہر رکشے اکٹھے کرکے، نعرے لگانے والوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی عوام ، پولیس ، فوج اور سرکاری ادارے سب تحریک لبیک کے ہیں۔ اگر اس کو مان لیا جائے تو پھر کیا تحریک لبیک سے غیروابستہ حضرات کو اس ملک سے نکل جانا چاہیے۔ کیا وہ انڈیا کے باسی ہیں؟ اور تحریکِ لبیک کو یہ ہمت کس نے دی کہ وہ مودی اور بال ٹھاکرے کی زبان استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے امن کو سبوتاز کریں ، اور یہاں فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دیں۔ پاکستان سراسر کلمہ طیبہ پر بنا ہے، اور توحید ورسالت کے سب علم بردار مسلمانوں کو یہاں مساوی حقوق حاصل ہیں۔

مسلک اہل حدیث شخصیت پرستی اور فرقہ بندی سے پاک خالص قرآن وسنت کی دعوت پر مبنی ایک تحریک ہے۔ اس مسلک سے وابستہ لوگ محب وطن، قانون پسند ، دوسرے مسالک کا احترام کرنے اور ہمیشہ سے پُر امن رہنے والے ہیں ۔ اس مسلک سے وابستہ لوگوں نے انگریز کو ہندوستان سےنکالنے میں اپنی جان مال اور اولاد قربان کی ۔پھر جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو انہوں نے ہراول دستہ کا کردار ادا کیا ۔ تحریک پاکستان میں پنجاب کا حصہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، اس وقت مسلم لیگ پنجاب کے صدر مولانا محمد داؤد غزنوی تھے جو جمعیت اہل حدیث، ہند کے صدر تھے ۔

موجودہ حالات میں اہل حدیث کی سب جماعتیں (مرکزی جمعیت اہل حدیث، مرکزی مسلم لیگ، جمعیت اہل حدیث، جماعت اہل حدیث، قرآن وسنت موومنٹ اور لاہور کے تما م دینی مدارس اور مراکز) اس کاز پر متفق ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں ایک شرپسند گروہ کے سپیکرپروپیگنڈے کی بنا پر دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ ایک شرپسند گروہ نے فرقہ واریت کا آغاز کرکے، لوگوں کو بھڑکایا اور ناجائزمشتعل کیا ہے۔ دوسری طرف اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کی انتظامیہ نے اس سارے عرصہ میں نہ صرف تمام مکاتبِ فکر کے علما وخطبا کو استقبالیہ دے کر احترام ومحبت کی اسلامی تعلیم کو فروغ دیا۔ پرامن اور صبر پر کا ربند رہے، جھوٹے پروپیگنڈے پر خاموشی کا دامن تھاما۔ عظیم دینی مقاصد کےلئے ایل ڈی اے کی بڑی مسجد کا این او سی موجود ہونے کے باوجود اپنا حق لینے سے بھی رکے رہے۔ پھر انتظامیہ کے مطالبے پر ، پرامن طریقے سے جوبلی ٹاؤن مسجد بھی ان کے حوالے کردی۔

ڈپٹی کمشنر ، لاہور سید موسیٰ رضا کے حکم پر جامع مسجد جوبلی ٹاؤن کی بندش کو ایک ماہ سے زائد ہوچکا ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں مسجد میں نمازیں ، اذانیں، تراویح واعتکاف اور خطبات جمعہ بند ہیں جو قرآن کی رو سے بدترین ظلم وزیادتی ہے۔ انتظامیہ نے امن کمیٹیوں کے ذریعے اس مسئلہ کا پرامن حل نکالنے کی کوشش کی، متعدد میٹنگیں ہوئیں۔ جہاں آمنے سامنے ملاقاتوں میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ علاقے کے بریلوی پس منظر رکھنے والے افراد کے پاس جب اس مسجد کا کوئی این او سی ہی نہیں ہے تو وہ جامع مسجد جوبلی ٹاؤن میں سرے سے فریق ہی نہیں بنتے۔ اگر ایل ڈی اے انتظامیہ کے بقول یہ این او سی یہاں کا نہیں ہے، تو پھر جس مقام کا بھی ہو، ان کا یہ اختلاف ایل ڈی اے کے ساتھ تو ہوسکتا ہے، لیکن اس میں جامع مسجد جوبلی ٹاؤن کی انتظامیہ اور اہالیان علاقہ کا کوئی قصور نہیں کہ نقض امن کے نام پر ایک جاری مسجد کو بند کردیا جائے۔ جب اس مسجد کو انتظامیہ نے باقاعدہ معاہدے کے تحت غنی ٹرسٹ اور ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب کے انتظام وانصرام میں دیا ہے، اور اس معاہدے میں کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی  جیسا کہ تمام حکومتی ادارے مسلسل اس امر کی شہادت دے رہے ہیں تو پھرقانون کو ثابت قدمی سے نافذ کرنا چاہیے۔ حکومت اتنی کمزور نہیں ، جتنی چند لوگوں کے سامنے بن رہی ہے۔ اور ان کا مسجد کو بند کرنا، پھر اس میں تاخیر کرنا سراسر زیادتی ہے، جس کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

فرقہ بندی اور شدت پسندی کی یہ لہر ملک کے استحکام کے لیے نہایت خطرناک ہے ، فوج ، انتظامیہ اور حساس ادارے اس کا نوٹس لیں اور فرقہ واریت کو سپورٹ کرنے والے حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا محاسبہ کریں ، خدا نہ کرے کہ ایک پرامن معاشرے میں چند شر پسندعناصر فرقہ ورایت کی آگ جلانے میں کامیاب ہوجائیں اور ملک کا استحکام خطرے میں پڑ جائے ۔

 ہم انتظامیہ وعوام سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام کو فرقہ پرستی سے نکال کر، خالص قرآن وسنت کی تبلیغ کو جاری کیا جائے۔ انتظامیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر پرامن طریقے سے حق نہ ملا تو منظم وپرامن احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا، جو قرآن وسنت کے متوالے عوام کا جم غفیر بن کر، اپنے حق کی پرزورجدوجہد کریں گے۔ اگر بریلوی جھوٹے این او سی کی بنا پر نقض امن کے مسائل پیدا کرسکتے ہیں اور ناجائز دعوے پر ڈٹے ہوئے ہیں تو سچے این او سی کی بنا پر، ایل ڈی اے ایونیو1 کی مسجد پر اہل حدیث حضرات بھی اپنے حق کا اعلان کرکے، پھر اس سے قطعاً دستبردار نہیں ہوں گے۔ آخرکار فتح حق اور امن وسلامتی کی ہوگی۔ علاقے کے عوام سمیت ملک بھر کے اہل حدیث حضرات میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے انصاف کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے۔                                                                                             (ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی )

 

دینی مدارس کے طلبہ کی خدمت میں

 

یہ تاریخ کے صفحات کا غیر متزلزل فیصلہ ہے کہ جب بھی انسانیت پر علمی تاریکیوں کے بادل چھائے، جب بھی فکری افلاس نے قلب و نظر کی دنیا کو ویران کیا، تب اہلِ علم و فضل نے فکر و دانش کے چراغ جلائے، مینارِ ہدایت بلند کیے اور بھٹکے ہوئے قافلوں کو راہ دکھائی۔ انہی روشن چراغوں میں سے ایک درخشندہ مینار دینی مدارس ہیں جو قرنِ اول سے لے کر آج تک، اسلام کی علمی و فکری میراث کے محافظ اور امت کے فکری و روحانی رہ نما رہے ہیں۔

یہ کوئی معمولی مراکزِ تعلیم نہیں بل کہ وہ مقدس خانقاہیں ہیں جہاں کتابِ ہدایت کے اسرار کھلتے ہیں، جہاں سنتِ نبوی کی تجلیاں بکھرتی ہیں، اور جہاں وہ رجالِ کار تیار ہوتے ہیں جو قوموں کی تقدیر سنوارنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ یہ وہی مدارس ہیں جہاں سے امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام غزالی، اور شاہ ولی اللّٰہ جیسے بلند پایہ علما نے علم و عرفان کی شمعیں روشن کیں۔ انھی مدارس کی کوکھ سے وہ مجاہد نکلے جنھوں نے باطل کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کیا۔ اگراسلامی تاریخ کو مدارس سے الگ کر دیا جائے تو یہ محض ایک بے روح داستان بن کر رہ جائے گی۔

آج کے پُرآشوب دور میں جب جدیدیت کے سیلاب نے تہذیب و تمدن کی بنیادیں ہلادی ہیں، جب عقائد و افکار کی دنیا میں بے یقینی اور اضطراب کی آندھیاں چل رہی ہیں، تب دینی مدارس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ محض کتابیں رٹانے کے ادارے نہیں بل کہ روحانی و فکری تربیت گاہیں ہیں جو مسلمان نسل کو اس کے اصل مقام سے روشناس کراتی ہیں۔ مدارس اس امت کے قلب میں وہ حرارت پیدا کرتے ہیں جو تاریخ کے رخ کو موڑنے کی قوت رکھتی ہے۔

لیکن یہاں ہمیں رک کر سوچنا ہوگا…. کیا مدارس کا کردار محض ماضی کی داستان سنانے اور فقہ و حدیث کی مخصوص تشریحات میں محدود رہنے تک ہی ہے؟ نہیں! اگر ہمیں عصری چیلنجز کا سامنا کرنا ہے تو مدارس کو نہ صرف اپنی قدیم شان برقرار رکھنی ہوگی بل کہ وقت کے تقاضوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔ دورِ جدید کی پیچیدگیاں، فلسفیانہ موشگافیاں اور سائنسی تحقیقات بھی اب ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں رہنی چاہئیں۔

اے طالبانِ علوم نبوت! تمھارے کاندھوں پر صرف اپنی ذات کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری نہیں بل کہ امت کی فکری رہ نمائی اور تہذیبی احیا بھی تم سے تقاضا کرتا ہے۔ مدارس کے در و دیوار میں داخل ہونے والا ہر طالب علم، محض ایک فرد نہیں بل کہ ایک عہد، ایک تحریک، ایک انقلاب کا استعارہ ہے۔ تم پر لازم ہے کہ علم کو فقط الفاظ کے ذخیرے میں محدود نہ رکھو بل کہ اس کے جوہر سے آشنا ہوں، اس کی روح میں اترنے کی سعی کرو۔

قرآن و حدیث کا محض الفاظ کے طور پر حفظ کرلینا کافی نہیں بل کہ ان کی حکمتوں کو سمجھنا، جدید تناظر میں ان کی تطبیق کرنا اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ امت کے عملی مسائل کا حل پیش کرنا بھی ضروری ہے۔ تمھاری ذمہ داری فقط روایتوں کو یاد رکھنا نہیں، بل کہ عقل و فکر کی اس روشنی کو ساتھ لے کر چلنا بھی ہے، جو تمھیں صحیح اور غلط کی پہچان دے۔

یاد رکھو! اگر تم نے صرف علومِ ماضی کے بوجھ کو اپنی پشت پر لادے رکھا، لیکن عقل و شعور کی تیز تلوار کو استعمال نہ کیا، تو تمھارا علم محض ایک جامد سرمایہ ہوگا، جو نہ کسی کے لیے رہ نمائی کا ذریعہ بنے گا، نہ ہی کسی اندھیری راہ کو روشن کرے گا۔ مدارس کے طلبہ کو صرف حافظ اور عالم بننے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بل کہ انھیں مفکر، مصلح اور مجدد بننے کی راہ پر بھی گامزن ہونا چاہیے۔

دورِ جدید میں جب نئے نئے افکار نے سر اٹھایا ہے، جب مغربی فلسفہ اور الحادی نظریات نے اسلامی فکر کو چیلنج کیا ہے تو مدارس کے طلبہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان افکار کا نہ صرف مطالعہ کریں بل کہ ان کا مدلل رد بھی کریں۔ یاد رکھو! ہر دور میں علم کے میدان میں وہی قومیں غالب رہی ہیں جن کے علما نے عقل و حکمت کے ہتھیار سے لیس ہو کر اپنی فکر کا دفاع کیا ہے۔

پس اے جُویانِ علم! تمھارے لیے ضروری ہے کہ اجتہاد و بصیرت کو اپنی علمی و فکری زندگی کا شعار بنا لو۔ تم دین کے وارث ہو مگر فقط تقلید کے اسیر نہیں؛ تمھیں اجتہادی روشنی سے زمانے کے بدلتے تقاضوں کا جواب دینا ہوگا۔ اگر آج تم فقط ماضی کی کتابوں میں گم رہے اور حال و مستقبل کے مسائل کو نظرانداز کیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب دنیا تمھیں فرسودہ خیالات کے حاملین کے طور پر دیکھے گی۔

یہ مدارس اسلام کی روحانی اور فکری معراج کے امین ہیں مگر ان کے حقیقی وارث وہی ہوں گے جو علم کے ساتھ حکمت کو، نصوص کے ساتھ عقل کو اور روایت کے ساتھ اجتہاد کو بہ یک وقت لے کر چلیں گے۔ اس لیے یہ وقت تمھاری آزمایش کا ہے؛ اگر تم نے اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشی تو دنیا تمھیں امام ابو حنیفہ، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللّٰہ کے وارثین میں شمار کرے گی؛ اور اگر تم نے جمود اختیار کیا تو تاریخ تمھیں محض ماضی کا ایک باب بنا کر چھوڑ دے گی۔اللّٰہ ہمیں علم و عمل کی دولت سے سرفراز کرے اور ہمارے مدارس کو حقیقی معنوں میں اسلام کی علمی نشاَتِ ثانیہ کا مرکز بنائے۔ آمین!                                                                                                    (ڈاکٹر حافظ ابو عمرو )