اسلام آباد میں اکابر علمائے اہلحدیث کا اہم اجتماع

اہلحدیث ایک اصلاحی تحریک ہے جس نے برصغیر کی تاریخ میں اگر ایک طرف سکھا شاہی اور مغربی استعمار کے خلاف جہاد کی روشن مثالیں قائم کر کے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا تو دوسری طرف دعوت وتعلیم کے میدان میں مذہبی جمود اور فرقہ وارا نہ تعصب کے بالمقابل اسلاف کی قربانیوں کی یادیں بھی تازہ کیں اسی کا نتیجہ ہے کہ پاک وہند کے ہر حصہ میں اُن کے تبلیغی مراکز اور تعلیمی درسگاہ ہیں قل اللہ وقال رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداؤں سے آباد نظر آتی ہیں تو علماء کی ایک بہت بڑی تعداد شرک و بدعت کے خلاف سینہ سپربھی ہے لیکن عصر حاضر کی لادین سیاست جس کا طرہ امتیاز اسلامی اقدار کی پامالی ہے اس سے ہر دینی تحر یک نہ صرف متاثر ہوئی بلکہ اسی جمہوری سیاست نے مذہبی جماعتوں کو بھی سیاسی پارٹیوں کی طرح متعتدد گروہوں میں تقسیم کردیا ۔استقلال پاکستان کے بعد اہلحدیث عوام و علماء کو سیاسی طور ر پر منظم کرنے کے لیے جو پارٹی "جمعیت اہل حدیث "کے نام سے معرض وجود میں آئی تھی ایک عرصہ سے وہ اختلاف کا شکار ہے ملک اور بیرون ملک بہی خواہوں کی خواہشات صلح کی کوششوں کا رنگ بھی اختیار کرتی رہیں لیکن شاید وہ اس وجہ سے مؤثر نہ ہو سکیں کہ اُن میں علماء کی شرکت بھر پور نہیں تھی لہٰذا عام دعوتی اور تعلیمی مراکز بھی ان میں کوئی اہم کردار ادانہ سکے ۔اگرچہ اس کا احساس اختلاف کی شدت کے ساتھ ساتھ ضرور تیز ہو تا رہا تاہم یہ بات بڑی خوش کن ہے کہ چند روز قبل پاکستان بھر کی نمایاں علمی شخصیات نے ایسی مساعی کو بار آور بنانے کے لیے اسلام آباد میں اجتماع کیا جس میں ملک کے ہر حصہ سے اہل حدیث بزرگ شریک ہو ئے اور انھوں نے باہمی تبادلہ خیال سے ایک معاہدہ کیا جس پر سب کے دستخط ثبت ہو ئے ۔

اسی سلسلہ کی تحریر جو اصل عربی میں ہے اس کا اردو ترجمہ ہدیہ قارئین ہے

"الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبى بعده"

بروز بدھ مؤرخہ 5ربیع الاول 1410ھ بمطابق 4اکتوبر 1989ءہم درج ذیل بیان پر دستخط کرنے والے اس غرض سے جمع ہو ئے ہیں کہ پاکستان میں جمعیت اہل حدیث کے دونوں دھڑوں کا اختلاف کس طرح ختم کر کے انھیں ایک لڑی میں پر دیا جا سکتا ہے تاکہ وہ ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر ایک جماعت کی صورت میں کا م کریں چنانچہ ہم نے دیکھا کہ موجود صورت حال سے سب پر یشان ہیں اور باہم مل کر صلح کی کو شش کے لیے عزم رکھتے ہیں

لہٰذا اس کے عملی طریق کا ر پر غور وحوض ہو کر سب کی متفقہ رائے یہ بنی کہ معاملہ کو مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز کے سپرد کیا جا ئے اور نزاع میں شریک پارٹیوں کو موصوف کے فیصلے پر مجبور کیا جا ئے ۔اسی بناء پر ہم اس اجتماع میں دونوں دھڑوں کے اختلاف سے الگ رہ کر اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا اتحاد ہر اُس شخص کے خلاف ہو گا جو اس فیصلہ کو تسلیم نہ کرے اس لیے ایک طرف ہم سب اس کے لیے فضاء کو تیار کرنے کا عہد کرتے ہیں تو دوسری طرف مفتی اعظم موصوف سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ "فیصل" کی حیثیت قبول فر مائیں ،جس کے لیے تجاویز ذیل ہیں ۔

1۔شیخ موصوف امرصادر فرمائیں کہ جلسے ہوں یا اخبارات و جرائد ان میں تُو تکار کو فوری طور پر بند کر دیا جا ئے ۔

2،3شیخ ہی کی سر پرستی میں صلح کی غرض سے ایک بورڈ تشکیل پائے جو اس سلسلہ میں فوری اقدامات کرے ۔

4۔5صلح کے بعد ہماری رائے میں ایسی اعلیٰ رابطہ کونسل تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس سے اہل حدیث کے جملہ ادا رے اور دفاتر منسلک ہو ں اور جس کے خود شیخ ہی "نگرا ن اعلیٰ ہوں

6۔آخر میں ہم اپنے اللہ سے اس عہد کا اعلان کرتے ہیں کہ جو شخص شیخ موصوف کے فیصلوں سے پیچھے ہٹے گا ہم من تن دھن سے انھیں تسلیم کرنے پر مجبور کریں گے ۔(ماشااللہ )

دستخط کنند گان

سید بدیع الدین شاہ راشدی (حیدر آباد)۔۔۔۔مولیٰنا عبد الخالق رحمانی (کرچی)

مولانا عبد الرحمٰن سلفی (کراچی )۔۔۔مولانا محمد حسین شیخوپوری

مولانا محمد خالد گرجاکھی (گوجرانوالہ )۔۔۔مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی (لاہور)

مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی (قصور )۔۔۔۔۔مولانا حافظ عبد الرشید اظہر (اسلام آباد )

مولانا سید عبد الحنان شاہ (کوئٹہ )۔۔۔۔مولانا حافظ عبد المنان (گوجرانوالہ )

مولانا محمد یحییٰ شرق پوری ۔۔۔۔مفتی عبد الرحمٰن رحمانی (عبد الحکیم ضلع ملتان)

پروفیسر چوہدری ظفر اللہ (کراچی )۔۔۔ڈاکٹر محمد راشد رندھا وا(لاہور )

مولانا حافظ العزیز نور ستانی (پشاور )۔۔۔مولانا عبد القہار سلفی (کراچی)

مولانا حافظ عبد السلام بھٹوی ۔۔۔۔۔مولانا عبد الکریم (ڈیرہ غازی خان )

مولانا عبد اللہ ناصر رحمانی (کراچی )۔۔۔۔۔مولاناشریف عتیق (ملتان )

مولانا عبد القادر ندوی (ماموں کانجن )۔۔۔۔مولانا عبد الغفار اعوان (فیصل آباد )

(ودیگران )

جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ )کا اعزاز

جامعہ ہذا جو لاہور میں اپنے متعدد تعلیمی اور تحقیقی پروگراموں کے ذریعے نہ صرف علمائے دین کی تیاری کے لیے سرگرم عمل ہے بلکہ عصری یونیورسٹیوں کے فاضلین کے لیے علوم کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بھی انجام دے رہا ہے اس وقت مدرسہ رحمانیہ ،کلیتہ الشر یعۃ اور معہد عالی (شریعت (قضاء وغیرہ جامعہ کے مشہور تعلیمی شعبے ہیں ۔جن میں دینی علم و حکم کے علاوہ ایم اے تک تعلیم کا انتظام ہے عموماً پہلی شفٹ علوم دینیہ و عربیہ کے لیے مخصوص ہے تو دوسری شفٹ عصری علوم کے لیے جامعہ کے نظام تعلیم کا امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان کے دینی مناہج کو عالم اسلامی و عربی سے ہم آہنگ کرتا ہے اسی بناء پر الحمد اللہ جامعہ سے فراغت حاصل کرنے والے طلباءکوبیرونی یونیورسٹاں بڑی اہمیت دیتی ہیں اور اس وقت بیسوں طلباء ان یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جامعہ کے تو سط سے سکا لر شپ حاصل کرنے والے دو طالب علموں نے امسال اپنی اپنی یونیورسٹیوں میں نہایت اعلیٰ امتیازی پوزیشن حاصل کی ہے جو ہمارے لیے قابل فخر ہے تو پاکستا ن کے لیے نیک نامی کا باعث بھی ۔

جامعہ کے لائق فرزند قاری محمد انور جو امسال جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامہ کے شریعہ فیکلٹی میں چارسالہ کورس سے فارغ ہوئے انھوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی تو حافظ محمد اسحٰق شجاع آبادی نے اسلامی یو نیورسٹی مدینہ منور ہ کی حدیث فیکلٹی کے تیسر ے سال میں نہ صرف اول پوزیشن حاصل کی بلکہ 97فیصد نمبر حاصل کر کے ایک نیار یکارڈ قائم کیاہے واضح رہے کہ حافظ محمد اسحٰق اب تک ماشاء اللہ امتیازی پوزیشن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر سال اپنی کلاس میں فرسٹ پوزیشن میں کامیابی حاصل کرتے چلے آرہے ہیں گزشتہ سال مدیر جامعہ ہذا حافظ عبد الرحمٰن مدنی صاحب نے حافظ محمد اسحٰق صاحب کو ایسی ہی کا میابی پر مدینہ منورہ میں اۃن کی خواہش کے مطابق اعلیٰ علمی انعام بھی دیا تھا ۔

تحدیث نعمت کے طور پر چند سطور سپر د قلم ہیں اللہ تعا لیٰ نظر بد سے بچائے ۔(آمین )