قرآن کریم شیعہ کی نظر میں !
اسلام کےزریں عہد اول سے لے کر آج تک ہر دور اور ہر زمانہ میں نسل مسلمانوں کا متفقہ طور پر اجماعی عقیدہ چلا آیا ہے کہ کتاب الٰہی ہر قسم کے حوادثات و تغیرات اور تبدیلیوں کے شائبوں سے محفوظ ومامون ہے ۔
رُوئے زمین پر صرف شیعہ ایک ایسی مبہوت قوم ہے جس کے زعم باطل کے مطابق قرآن کریم اپنی اصلی شکل وصورت میں ہمارے درمیان موجود نہیں بلکہ اس کا کثیر حصہ زمانہ کے دست برد ہو چکا ہے۔
"اعوذ بالله من هذه العقيدة الفاسدة"
درحقیقت شیعہ کو ئی مستقل مذہب نہیں بلکہ انتقامی جذبہ پر مبنی ایک منفی تحریک کا نام ہے جس کی بناء شمع رسالت کے جانثاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے عداوت و دشمنی پر قائم ہے یہ وہی عظیم ہستیاں جنھوں نے غلبہ اسلام کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہو ئے شرق و غرب میں اسلامی پرچم کو لہرا یا ان کے ہاتھوں دشمنان اسلام کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔بالخصوص یہود و نصاری نے بری طرح ذلت آمیز شکستیں کھائیں عیسائیوں نے صلیبی جنگیں لڑ کر انتقامی جذبہ کو ٹھنڈا کیا مگر یہودیوں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ میدان کا رزارمیں مسلم مجا ہدین کا مقابلہ کر سکتے اس لیے انھوں نے زیر زمین سازشوں کے جال پھیلا نے شروع کر دئیے جس کے نتیجہ میں ابتداء سبائی ٹولہ نمودار ہوا ۔ان لو گوں نے عمائدین اسلام کے بارے میں عوام کے اذہان میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم شروع کردی کاتبین وحی حفاظ قرآن اور اس کی نشر واشاعت اور حفاظت کرنے والوں کے اعتماد کو مجروح کرنے کی سازش کی۔
اس سے ان کا اولین مقصد اسلام کے بنیادی ماخذ قرآن مجید سے لو گوں کا اعتماد مجروح کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک پر اعتماد کو کو ٹھیس پہنچانے کے لیے مثالی کر دار کےلیے مثالی کردار کے حامل راویوں پر حبرح وقدرح کی مذمومہ اور ناکام سعی کرنا تھا تاکہ اس کے درپردہ مثلا شیان حق کی راہیں مسدود ہو سکیں جب ا صلی ہیئت میں نہ کتاب رہی ہے اور نہ سنت ،توصحیح راہنمائی کہاں سے حاصل ہو؟
رفتہ رفتہ اس سازشی ٹولے نے ذخیرہ احادیث کے مقابلے میں اقوال ائمہ کے نام سے کتابیں مرتب کیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بد نام کر نے کے لیے خانوادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم شخصیتوں سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اختلافات ان پر مظالم اور حق تلفیوں کے افسانے اس طریقے سے مشہور کئے کہ سادہ لو ح مسلمان بھی متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکے ۔
المختصر روافض کا یہ عقیدہ ہے کہ صحیح قرآن اس وقت ہماری نظروں سے اوجھل ہے امام مہدی اسے لے کر غار میں چھُپ گئے ہیں (وہ مہدی جس کا وجود فی الوقع موہوم ہے) بقول شخصے ان کا ظہور اس وقت ہو گا جب ساری دنیا میں تین سو تیرہ پکے سچے شیعہ موجود ہو ئے ۔چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب "احتجاج طبرسی "میں ہے:
"يجتمع اليه من اصحابه عدة اهل بدر ثلث مأة وثلثة عشررجلا من اقاصى الارض ان قال فاذا اجتمعت له هذه العدة من اهل الاخلاص اظهر الله امره"(ص123 طبع ايران)
"یعنی امام مہدی کے پاس اصحاب بدر کی گنتی برابر تین سوتیرہ مرد دنیا کے اطراف واکناف سے جمع ہو جا ئیں گے جب مخلصین کی تعداد ہذا جمع ہو گی تو اس وقت اللہ تعا لیٰ ان کی دعوت کو غلبہ بخشے گا ، اب شیعہ حضرات کے لیے مقام غور ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج تک اپنے میں مخلصین کی مذکور ہ تعداد پیدا نہ کر سکے ۔جبکہ سید لطف اللہ صافی ایک شیعی عالم شیعہ کی تعداددس ملین سے زائد کا دعوایدار ہے اس سے ہرذی شعور انسان اندازہ کر سکتا ہے آخر اتنی کثرت کا شمار کس پلڑے میں ہے ! دوسری بات یہ ہے کہ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ایمان و اخلاص کو بھی تسلیم کیا گیا ہے جسے ان لو گو ں نے خواہ مخواہ متنازع فیہ بنا چھوڑا ہے کیونکہ یہاں تین سو تیرہ کا عدد محض مدح وار ہوا ہے ۔
امام ابن حزم اند لسیؒ فر ماتے ہیں :
"ومن قول الامامية كلها قديما وحديثا ان القرآن مبدل زيد فيه ماليس منه ونقص منه كثير و بدل منه كثير"(الملل والنحل ص182 ج4 مكتبة المثنى بغداد)
ہر دور میں سب امامیہ کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ قرآن میں رد بدل ہوا ہے اس میں کچھ اضافے ہیں جو اصل میں نہیں اور بہت ساری کمی و بیشی اور تبدیلی ہو ئی ہے ۔"
اسی طرح عیسا ئیوں نے جب قرآن کی تبدیلی پر شیعہ کے قول سے دلیل وحجت لینے کی کوشش کی تو امام موصوف نے ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہو ئے فرمایا:
"ان دعوى الشيعة ليست حجة على القرآن ولا على المسلمين لانهم ليسوا منا ولسنا منهم"(الملل والنحل ص78 ج2)
شعیہ کے دعویٰ کو دلیل کے طور پر قرآن اور مسلمانوں کے خلا ف پیش نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ ان کا تعلق نہ ہمارے ساتھ ہے اور نہ ہمارا تعلق ان کے ساتھ ہے یعنی شیعہ مسلمان نہیں ۔"
پھر یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کا تذکرہ تما م شیعی کتب امہات اراجع تفسیر حدیث فقہ عقائد وغیرہ میں باقاعدہ دلائل وبراہین سے موجود ہے کمال یہ ہے کہ موضوع ہذا پر مستقل ایک شیعی معتبر تصنیف موجود ہے جس کا نام ہی مسمی پر واضح برہان ہے ۔نام ملاحظہ فر ما ئیں :
"فصل الخطاب فى اثبات تحريف كتاب رب الارباب للنورى الطبرسى"
علامہ محب الدین الخطیب اپنی شہرہ آفاق کتاب "الخطوط العریضۃ میں رقمطراز ہیں "حتیٰ کہ وہ قرآن جو ہم اہل سنت کو اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لا نے کا ایک جا مع مرجع ہے ان شیعہ کے نزدیک اصول دین سر تاپا اس کی آیات کی تاویل پر اور ان معانی کے افکار پر قائم ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھے اور ائمۃ اسلام نے اس نسل سے سمجھے جس پر قرآن نازل ہوا بلکہ ایک بڑے نجفی عالم نے اور وہ الحاج مرزا حسین بن محمد تقی نوری طبرسی ہے جس کی 1340ء میں وفات کے وقت شیعہ حضرات نے اتنی تعظیم و تکریم کی کہ اس کو نجف میں مشہد مرتضوی کی حمارت میں ایوان جو بانو عظمی بنت سلطان ناصر الدین اللہ میں دفن کیا اور یہ دیوان جو قبلیعہ نجف اشرف میں باب قبلہ سے صحن مر تصنوی کی طرف اندر دائیں جانب جو ان کے نزدیک بہت مقدس جگہ ہے اس نجفی عالم نے 1293ءکو نجف میں اس قبر کے پاس جو امام علی کی طرف منسوب ہے ایک کتا ب تالیف کی جس کا نام اس نے "
"فصل الخطاب فى اثبات تحريف كتاب رب الارباب للنورى الطبرسى"
رکھا جس میں اس نے مختلف زمانوں کے علماء شیعہ اور اُن کے مجتہدین کی سینکڑوں نصوص جمع کیں کہ قرآن میں کمی بیشی کی گئی ہے طبرسی کی یہ کتاب ایران میں 1289ھ ہیں ۔طبع ہو ئی اس کی طباعت کے وقت اس کے گرد ایک شور مچ گیا کیونکہ شیعہ چاہتے تھے کہ قرآن کے بارے میں تشکیک اُن کے خواص ہی تک محدود رہے ۔اور اُن کی سینکڑوں معتبر کتب میں ہی بکھری رہے اور یہ سب کچھ ایک ہی کتاب میں جمع نہ ہو جس کے ہزاروں نسخے شائع ہوں ۔اور ان کے مخالفین اس سے آگاہ ہوں اور تمام لو گوں کی نظروں کے سامنے یہ اُن کے خلاف حجت ثابت ہو جب اُن کے عقلاء نے یہ اعتراضات و ملا حظات ظاہر کئے تو اس کتاب کے مؤلف نے اس بارے میں ان کی مخالفت کی۔ اور اس نے ایک اور کتاب تالیف کی جس کا نام اس نے"
"رد بعض الشبهات عن فصل الخطاب فى اثبات تحريف رب الارباب"
رکھا اور یہ دفاع اس نے اپنی آخری زندگی میں اپنی موت سے تقریباً دوسال پہلے لکھا اور شعیہ حضرات نے اس کے یہ ثابت کرنے کی کو شش پر کہ قرآن محرف ہے اسے یہ بدلہ دیا کہ نجف میں مشہد علویؒ کی ایک ممتاز جگہ میں اسے دفن کیا۔ اور یہ نجفی عالم قرآن میں نقض وارد ہو نے کے متعلق جو استشہاد کرتا ہے اور اقتباس لا تا ہے اس کا ذکر اس نے اپنی کتاب کے صفحہ 180 پر ایک سورت سے کیا ہے جسے شیعہ (سورۃ الولایۃ) کہتے ہیں جس میں ولایت علیؒ مذکور
«يايها الذين امنوا بالنبى والولى الذين بعثنا هما يهديائكم الى الصراط المستقيم»
چند سطور بعد فر ماتے ہیں :
"جس طرح اس نجفی عالم نے سورۃ الولایۃ سے یہ استشہاد کیا ہے کہ قرآن محرف ہے ۔اسی طرح کتاب (الکافی ) جو شیعہ کے نزدیک وہی درجہ رکھتی ہے جو مسلمانوں کے نزدیک صحیح البخاری کا ہے اس کی ابرانی طبع 1278 ھ کے صفحہ 289پر درج ذیل عبارت سے استشہاد کیا ہے ۔
"ووى عدة من اصحابنا.
عن سهل بن زيادة عن محمد بن سليمان عن بعض اصحابه عن ابى الحسن عليه االسلام (اي ابو الحسن الثانى علي بن موسى الرهنا المتوفى سنة206ه) قال قلت له جعلت فداك انا نسمع الايات فى القرآن ليس هى عندنا كما نسمعها ولا نحن ان نقرأها كما بلغنا عنكم فهل نأتم فقال لا اقرأوا كما تعلمتم نسيجيئكم من يعلمكم"
"ہمارے متعدد اصحاب نے سہل بن زیاد سے اُس نے محمد بن سلیمان سے اُس نے اپنے بعض اصحاب سے اُس نے ابو الحس (یعنی ابوالحس ثانی علی بن موسیٰ رضا متوفی 206ھ)سے روایت کیا کہا میں نے اس سے کہا میں آپ پر قربان ہم قرآن میں آیات سنتے ہیں جو ہمارے ہاں (قرآن میں )ایسی نہیں جیسی کہ ہم سنتے ہیں اور نہ ہم ان کی اچھی طرح سے تلاوت ہی کرسکتے ہیں جس طرح کہ آپ سے ہمیں پہنچی ہیں تو کیا ہم گناہ کا کا م کرتے ہیں تو اس نے کہا نہیں جس طرح کہ تم نے سیکھا ہے پڑھتے رہو جلدی تمہارے پاس وہ آئےگا جو تمہیں تعلیم دے گا ۔"
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ کلام شیعہ نے علی بن موسیٰ رضا کے بارے میں گھڑا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُن کے ہاں یہ فتوی ہے کہ جو اس طرح قرآن پڑھے کہ جس طرح لو گ مصحف عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیکھتے ہیں وہ گنہگار نہیں ہوتا ۔ویسے شیعہ کے خاص لو گ مصحف عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف ایک دوسرے کو بتاتے رہتے ہیں کہ اصل قرآن یہ نہیں بلکہ وہ اور ہے جو مو جو دہے یا ان کے ائمۃ اہل بیت کے پاس موجود تھا ان کے اس مزعومہ قرآن کے درمیان جسے وہ رازداری سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں اور تقیہ کے عقیدہ پر عمل کرتے ہو ئے اس کا بر ملا اظہار نہیں کرتے اور اس مصحف عثمانی کے درمیان وہی تقابل ہے جسے حسین بن محمد تقی نوری طبرسی نے اپنی کتاب ۔"فصل الخطاب فى اثبات تحريف كتاب رب الارباب"
میں جمع کیا ہے۔یہ کتاب ان کے علماء کی سینکڑوں نصوص پر مشتمل ہے جو ان کی معتبر کتب میں موجود ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ شعی قرآن میں تحریف پر پختہ ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ قرآن کے بارے میں اُن کے اس عقیدے پر کو ئی شورش و ہنگامہ برپا ہو۔
نوری طبرسی نے مسئلہ امامت پر بحث کرتے ہو ئے فصل الخطاب ص216طبع ایران میں امام جعفر صادق ؒ کا فر مان تحریر کیا ہے :
«لو ترك القرآن كما انزل لا لفيتنا فيه مسمين»
یعنی"اگر قرآن اس طرح چھوڑا جا تا جیسے نازل کیا گیا تھا تو اے مخاطب تو ہمیں اس میں نام بنام پاتا ۔"
نیز تفسیر صافی میں مقدمہ سادسہ کے تحت ص25 پر ہے:
"لولا زيد فى القرآن ونقص ماخفى حقنا على ذى حجى"
امام باقرؒ فرماتے ہیں اگر قرآن میں بڑھایا اورگھٹا یا نہ گیا ہو تا تو ہما را حق (یعنی امامت) کسی ذی عقل پر پوشید ہ نہ رہتا ۔"
کلینی نے اپنی الکافی میں بسند ہ بیان کیا ہے :
"ان القرآن الذى جاء به جبرائيل عليه السلام الى محمد صلى الله عليه وسلم سبعة عشرالف آية"(کتاب فضل القرآن ۔ج۔ص634)
"یعنی وہ قرآن جسے لے کر جبرائیل ؑ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے وہ ستر ہ ہزار آیات پر مشتمل تھا ۔"
یہ بات معروف ہے کہ قرآن کریم کی کل 6666آیات ہیں ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ دو تہائی قرآن پاک ہوا کی نذر ہو گیا اور موجود ہ صرف ایک تہائی ہے کلینی نے باقاعدہ اپنی "کافی " میں اس بات کی صراحت کیا ہے اور اس کے اثبات کے لیے ایک مستقل تبویب قائم کی ہے ۔"باب ذکر الصحیفہۃ والجفر والجامعۃ ومصحف فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کے تحت جو روایت بیان ہوئی ہے کا فی تفصیلی ہے چند فقروں کا تر جمہ ملاحظہ فرمائیں :
"پھر امام نے فر ما یا ہمارے پاس مصحف فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے اور لو گو ں کو کیا معلوم کہ مصحف فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیا چیز ہے ۔فر ما یا وہ مصحف ہے جو تمہارے قرآن سے تین گنا زیادہ اور اللہ کی قسم تمہارے اس قرآن کا ایک حرف بھی اس میں نہیں ہے بلکہ عبارت ہذا تو اس بات کی مو ید ہے کہ موجود مصحف کلی طور پر مصحف فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مختلف ہے جس کا حجم مؤلف "کافی" نے ستر ہاتھ لمبا بیان کیا ہے ۔
"اس سے بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ روافض کا موجود ہ قرآن پر کس حد تک یقین و ایمان ہے حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کے نزدیک موجودہ قرآن کی شرعی کو ئی حیثیت نہیں اگر کو ئی بات بادل نخواستہ مسلمہ یا قابل اعتراف ہے تو وہ صرف تقیہ کے طور پر جو دراصل جھوٹ سے تعبیر ہے،شاید کسی کو تر ددلا حق ہو جب تمام مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن غیر محرف ہے ۔
آخر شیعہ کو کیا تکلیف ہے اسے غیر محر ف کیوں تسلیم نہیں کرتے ۔اصلاًاس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ امر مسلمہ ہے کہ جامع قرآن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جب یہ لو گ حضرات شیخین کے ایمان کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اُن کے جمع شدہ قرآن پر ایمان لے آئیں ۔اگر اسے تسلیم کریں تو حضرات موصوفین دیانت و امانت بھی تسلیم کرنی پڑتی ہے جو اُن کی عقول خیفہ سے بالا ترشے ہے ،
"استغفر الله الذى لا اله الا هو واتوب اليه و ان يلهمنا حب الرسول واهل بيته وصحبه اجمعين آمين يارب العالمين"