على منى وأنا منه
شیعہ حضرات کے دعاوی اور اُن کے جوابات :
شیعہ حضرات کا ایک دعوی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے نفس سے قرار دے کر انھیں تما م صحابہ کر م رضوان اللہ عنھم اجمعین پر فضیلت و بر تری بخشی ہے ۔" ان زعما ء کے جو ب میں شارح تر مذی ؒ علامہ عبد الرحمٰن مبارک پو رؒی فر ما تے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اُن کا یہ زعم انتہائی باطل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول"ان عليا منى"
کے معنی ہر گز نہیں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حقیقتاً اپنے نفس سے بنا دیا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا معنوی اعتبار سے فر ما یا ۔" پس شیعہ حضرات کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو افضل التصحابہ ثابت کرنے کی یہ دلیل قطعی بے وزن ثابت ہو ئی ۔اب جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کا کسی اور صحابی کی شان میں نہ فر ما نے کا شعی دعویٰ کا تعلق ہے تو یہ دعویٰ بھی باطل ہے جیسا کہ علامہ عبد الرحمٰن مبارک پو ریؒ فر ما تے ہیں :
"جہاں تک ان کے اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور صحابی کے لیے نہیں فر ما یا تو یہ دعوٰیٰ بھی باطل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی الفاظ حضرت جلیببیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں بھی فر ما ئے تھے ۔چنانچہ ابی برزۃ ؒ کی اس حدیث میں مروی ہے :
«أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ فِي مَغْزًى لَهُ فَأَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَالَ لأَصْحَابِهِ " هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ " . قَالُوا نَعَمْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا . ثُمَّ قَالَ " هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ " . قَالُوا نَعَمْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا... الحديث.وفيه. قَالَ " لَكِنِّي أَفْقِدُ جُلَيْبِيبًا فَاطْلُبُوهُ " . فَطُلِبَ فِي الْقَتْلَى فَوَجَدُوهُ إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ ثُمَّ قَتَلُوهُ فَأَتَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ " قَتَلَ سَبْعَةً ثُمَّ قَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ "»
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قول اشعر یین کی شان میں بھی فر ما یا تھا جیسا کہ ابو موسیٰ کی حدیث میں مروی ہے :
«الَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ الأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ بَيْنَهُمْ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ ".»
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بنی ناجیہ کی شان میں بھی منقول ہے جیسا کہ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مندرجہ ذیل حدیث میں مروی ہے :
«ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لبنى ناجية أنا منهم وهم منى .»(رواه احمد فى مسنده)
اسی طرح بعض اور احادیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی الفاظ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں بھی فر ما ئے تھے ۔امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو بطریق حسن بن عرفہ نا اسمٰعیل بن عیاش عن عبد اللہ بن عثمان عن سعید بن راشد عن یعلی بن مرۃ اس طرح اس طرح روایت کیا ہے :
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حسين منى وانامن حسين احب الله من احب حسينا حسين سبط من الاسباط" امام بخاریؒ ابن ماجہ ؒ ابن حبان ؒ حاکم ؒ اور احمد بن حنبل ؒ نے بھی اس کی تخر یج کی ہے ۔علامہ شیبانیؒ علامہ سخاویؒ اور عجلونیؒ رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی اپنی تصانیف میں اس حدیث کا ذکر فر ما یا امام ترمذی ؒ فر ما تے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔" حاکم ؒ فر ماتے ہیں کہ" صحیح الاسناد ہے ۔ لیکن علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ فر ما تے ہیں :"چونکہ اس میں سعید بن راشد موجود ہے لہٰذا یہ محل نظر ہے سعید بن راشد کو علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے "مقبول" لکھا ہے لیکن وہ منقول اُسی وقت قرار پائے گا جب کہ اس کی متابعت پا ئی جا تی ہو ،اسی لیے ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں۔کہ" اُس میں ضُعف ہے ۔" علامہ ذہبیؒ فر ما تے ہیں کہ" امام ترمذی ؒ نے فضائل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اس کی تحسین فر ما ئی ہے ۔ "امام بیہقی فرماتے ہیں کہ "سعید بن راشد ضعیف ہے ۔"ابو حاتم ؒ نے بھی سعید کو ضعیف الحدیث قرار دیا ہے اور ایک مرتبہ متروک الحدیث بھی کہا ہے ۔ لیکن اب حبان ؒ نے سعید بن راشد کا ذکر اپنی ثقات میں کیا ہے ۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی ؒ بھی سعید بن راشد کو "ضعیف " بتا تے ہیں اور ایک مقا م پر لکھتے ہیں کہ" علماء کا قول ہے کہ ابن ابی راشد سے ابن خثیم کے علاوہ کو ئی دوسرا شخص روایت نہیں کرتا ۔ابن حبان ؒ کے علاوہ اور کسی نے اس کی تو ثیق نہیں کی ہے ۔ اس روایت کا دوسرا راوی عبد اللہ بن عثمان بن خثیم المکی "صدوق ثقہ اور امام مسلم ؒ کے رجال میں سے ہے امام عقیلی ؒ فرماتے ہیں کہ یحییٰ اور عبد الر حمٰن ؒ ابن خثیم سے حدیث روایت نہیں کرتے تھے کیونکہ اس کی حدیث میں لچک مو جو د ہو تی تھی ۔ علامہ ذہبی ؒ فر ما تے ہیں :ابن معینؒ نے ایک مرتبہ فر ما یا کہ اس کی احادیث قوی نہیں ہوتیں اور دوسرے مقا م پر فر ما یا کہ " وہ ثقہ اور حجت ہے ۔" اسی طرح ابو حاتم الرازیؒ نے ایک مرتبہ کہا کہ" اس میں کو ئی حرج نہیں ہے ،وہ صالح الحدیث ہے ۔"لیکن دوسرے مقام پر کہا کہ" اس کے ساتھ احتجاج درست نہیں ۔"نسائی نے اس کی حدیث پر تعقب کیا ہے اور اسے لین الحدیث قرار دیا ہے ۔ علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی فر ما تے ہیں :"ابن خثیم صدوق اور رجال مسلم میں سے ہے لیکن اس کے حافظہ میں کچھ (خلل) ضرور ہے ۔ اسی وجہ سے بعض ائمہ نے اس کی تضعیف کی ہے ۔" امام ترمذی ؒ کے اس طریق اسناد میں عبد اللہ بن عثمان بن خثیم کا تابع اسمٰعیل بن عیاش ہے جس کی طرف وہی احادیث درسوت ہو تی ہیں جنھیں وہ شامیین سے روایت کرتا ہے لیکن اس حدیث میں وہ جس سے روایت کرتا ہے وہ عبد اللہ بن عثمان بن خثیم مکی الحجازی ہیں چنانچہ اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے ۔علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ فرما تے ہیں کہ "اپنے اہل بلد (یعنی شامیوں )سے روایت کرنے میں صدوق ہے لیکن ان کے علاوہ دوسروں سے روایت کرنے میں مخلط ہے ۔" امام نسائی ؒ فر ما تے ہیں کہ"ضعیف ہے" علامہ ہیثمی ؒ فر ما تے ہیں کہ" اہل مجاز سے اس کی روایت ضعیف ہو تی ہے ۔" ایک دوسرے مقام پر فر ما تے ہیں :" اس کے ساتھ احتجاج میں اختلا ف ہے ۔" اور "اس پر کلام کیا گیا ہے "وغیرہ۔ امام عقیلی ؒ فر ما تے ہیں :وہ اگر اہل شام کے علاوہ کسی اور سے روایت کرے تو اس میں اضطراب و خطا ہو تی ہے ۔" ابو حاتم ؒ فر ما تے ہیں کہ اسماعیل بن عیاش ؒ حفاظ میں سے تھا ،لیکن جب عمر بڑھی تو اس کے حافظہ میں تغیر آگیا تھا ۔ علامہ خزرجیؒ اور علامہ عبد الر حمٰن مبارکپوری ؒ فر ما تے ہیں :"وہ شام کے ایک عالم تھے ۔امام احمد ؒ ابن معینؒ ،رحیم ؒ ،بخاری اور ابن عدیؒ نے اہل شام سے روایت کرنے میں ان کی تو ثیق کی ہے اور حجاز یین سے روایت کرنے میں تضعیف کی ہے علامہ ذہبی ؒ فر ما تے ہیں :" فسوی ؒکا قول ہے کہ ایک قوم نے اسمٰعیل پر کلام کیا ہے لیکن اہل شام کی حدیث کے معاملہ میں ثقہ و عادل ہے جن لو گوں نے اس پر کلام کیا ہے کہتے ہیں کہ حجاز کے ثقات کی طرف سے غرائب بیان کرتا ہے ۔" یحییٰ ؒ نے ثقہ کہا ہے ۔
ابن معینؒ کا قول ہے کہ اہل شام کے لیے اس میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔" وحیمؒ کہتے ہیں کہ شامیین کے معاملہ میں غایت ہے لیکن مد نیین کے معاملہ میں خلط کرتا ہے ۔"
امام بخاریؒ فر ما تے ہیں "اگر اپنے اہل بلد سے روایت کرے تو صحیح ہے اور جب دوسروں سے روایت کرے تو محل نظر ہے ابو حاتم ؒ نے اس میں لچک بیان کی ہے نسائیؒ نے ضعیف قراردیا ہے ابن حبان ؒ نے کثیر الخطاء ہو نے کے باعث اسے حد احتجاج سے خارج بتایا ہے ابو داؤد ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابن معین کو ثقہ کہتے ہو ئے سنا ہے ابن خزیمہ ؒکہتے ہیں کہ حجت نہیں ہے امام ترمذیؒ نے اس کی صحت بیان کی ہے خاص طور سے جب وہ اپنے اہل بلد کے علاوہ دوسروں سے روایت نہ کرتا ہو۔" علامہ محمدناصر الدین الالبانی ؒ فر ما تے ہیں کہ" مختلف فیہ ہے ۔" ایک جگہ لکھتے ہیں کہ حجت نہیں ہے :" ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :"غیر شامیین سے روایت کرنے میں ضعیف ہے ایک اور جگہ فر ما تے ہیں کہ"معجاز یین سے روایت کرنے میں ضعیف ہے وغیرہ مزید تفصیل کے لیے تہذیب تاریخ و مشق لا بن عساکر " تاریخ یحییٰ بن معین ؒ الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتمؒ الکا مل فی الضعفاء لا بن عدیؒ فہارس مجمع الزوید للز غلول اور المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ ملا حظہ فر ما ئیں ۔امام ترمذی ؒکے علاوہ امام بخاریؒ نے اس حدیث کو " الادب المفرد "اور اپنی تاریخ میں عبد اللہ بن صالح حد ثنا معاویۃ بن صالح عن راشد بن سعد عن یعلیٰ بن مرۃ کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس طریق کو بیان کرنے کے بعد ابن خثیم والے طریق پر تعقب کرتے ہو ئے لکھا ہے ۔"والاول اصح"
امام بخاریؒ کے اس طریق میں راشد بن سعد المقرانی ثقہ اور کثیر الارسال ہے علامہ ذہبیؒ بیان کرتے ہیں کہ ابن معین ؒ ابو حاتم ؒ اور ابن سعدؒ نے اس کی تو ثیق کی ہے ۔
دارقطنی ؒکہتے ہیں کہ اس پر اعتبار کیا جا ئے اس میں کو ئی حرج نہیں ہے امام احمد ؒ کے نزدیک بھی اس سے روایت کرنے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔مگر ابن حزئم نے انتہائی شدت اختیار کرتے ہو ئے اسے ضعیف لکھا ہے لیکن ان کا یہ اکیلا قول اکثر محدثین کے نزدیک قابل لحاظ نہیں ہے ،چنانچہ ابن عساکر ؒ امام ذہبیؒ ابن حجر عسقلانی ؒ،عجلی ؒ ہیثمیؒ ،عبد الر حمٰن مبارکپوری ؒ اور ناصر الدین الالبانی وغیرہ سب نے اس کی تو ثیق بیان کی ہے ۔ راشد بن سعد کے علاوہ اس کے باقی تمام رجال رجال الصحیح ہیں راشد بن سعد کے تابع معاویہؒ بن صالح قاضی اندلس سے امام ابو الحسین مسلم بن حجاج القشیری ؒ (م261ھ)نےاپنے "صحیح "میں احتجاج کیا ہے امام احمدؒ ابو زرعہؒ عجلی ؒ نسائیؒ ابن حبان ؒبزارؒ اور ابن سعدؒ وغیرہ نے اس کی تو ثیق کی ہے ۔ابن عدی ؒ اسے صدوق بتاتے ہیں ابن حجر عسقلانی ؒ بھی صدوق کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس کے وہم کی طرف بھی اشارہ فر ماتے ہیں ابن معین ؒ نے اسے لین الحدیث کہا ہے یحییٰ القطان ؒ بھی اس سے راضی نہ تھےابوحاتم ؒ اسےحجت نہ سمجھتے تھے امام عقیلیؒ نے بھی ان کا ذکر اپنی کتاب" الضعفاء الکبیر "میں کیا ہے لیکن ابن معینؒ یحییٰ القطان اور ابو حاتم ؒ وغیرہ کا معاویہ بن صالح پر کلام قطعی بے ضرر ہے تفصیل کے لیے ملاحظہ فر مائیں :
معرفۃ الثقات للجعلی ؒ تہذیب التہذیب لابن حجر ؒ تاریخ علماء الاندلس لابن الفرضی ؒ بغیۃ الملتمس للضبی ؒسیر اعلام النبلاء الضعفاء الکبیر اللعقیلیؒ تحفۃ الاحوذی للمبار کپوریؒ اور میزان الاعتدال للذہبیؒ وغیرہ معاویہ بنصالح کا تابع عبد اللہ بن صالح بن محمد مسلم الجہنی ابو صالح المصری کا تب اللیث ہے اس پر کلام کیا گیا ہے ۔امام نسائی ؒ فر ما تے ہیں "ثقہ نہیں ہے ۔ علامہ ذہبیؒ فر ما تے ہیں اس سے منا کیر مروی ہیں ۔ابو حاتم ؒ نے اسے صدوق واین بتایا ہے ابو زرعہ ؒ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایسی کو ئی شہادت نہیں ہے کہ جس سے ان کے کذب پر اعتماد کیا جائے ۔بلکہ وہ تو حسن الحدیث ہیں احمد بن صالحؒ کا قول ہے کہ متہم ہے بلکہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
صالح جزررہؒ فر ما تے ہیں : "ابن معین ؒنے اس کی تو ثیق کی ہے لیکن میرے نزدیک وہ احادیث میں جھوٹ بولا کرتا تھا ابن مدینیؒ کہتے ہیں کہ میں اس سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا ۔ابن حبان ؒ فر ما تے ہیں کہ فی نفسہ صدوق تھا ابن عدیؒ کا قول ہے کہ میرے نزدیک مستقیم الحدیث ہے اس سے امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں روایت کی لیکن وہ مدلس ہے ابن حبان ؒ فر ما تے ہیں بہت زیادہ منکر ہے اثبات کی طرف سے ایسی روایات بیان کرتا ہے جو ثقات کی حدیث کے مشابہ نہیں ہو تیں ۔اس کے پاس بہت سی مناکیر ہیں جنھیں وہ مشاہیرائمہ کی طرف سے روایات کرتا اگرچہ وہ فی نفسہ صدوق ہے۔" امام عقیلی ؒ فر ما تے ہیں :"ابو مرۃ اس کی ذم کرتے ہیں اور اس سے کراہت کرتے تھے عبد اللہ بن احمدؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فر ما یا :"پہلے ٹھیک تھا بعد میں فساد کا شکار ہوا اور وہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ علامہ ابن حجر ؒاور علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری فر ما تے ہیں :"صدوق لیکن کثیر الغلط ہے اور اس میں بہت غفلت پائی جا تی ہے ۔ علامہ ہیثمیؒ فر ما تے ہیں :"ایک جماعت نے اس کی تو ثیق کی ہے اور دوسروں نے اس کی تضعیف کی ہے ۔" ایک مقام پر لکھتے ہیں :"جمہور نے اس کی تضعیف کی ہے لیکن عبد الملک بن شعیبؒ نے ثقہ اور مامون کہا ہے ۔" علامہ محمد ناصر الدین الالبانی نے بھی بہت سے مقامات پر عبد اللہ بن صالح کو ان کے حافظہ کی خرابی کے باعث ضعیف قرار دیا ہے ۔ایک مقام پر لکھتے ہیں ۔چونکہ وہ امام بخاریؒ کے شیوخ میں سے ہیں اس لیے عند المتابعت حجت ہیں لیکن حافظہ کے لحاظ سے ضعیف ہیں ۔" علامہ بغویٰ فر ما تے ہیں :"ابن صالح صدوق ہے لیکن اس کی احادیث میں مناکیر واقع ہیں ،علامہ بو صیریؒ نے ایک مقام پر عبد اللہ بن صالح کے ضعف کا ذکر کیا ہے مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فر ما ئیں ۔التاریخ الکبیر للبخاریؒ الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ؒ الکامل فی الضعفاء تہذیب التہذیب لا بن حجرؒ ہدی الساری مقدمہ فتح الباری لابن حجرؒ المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان اور فہارس مجمع الزوائد للز غلول وغیرہ عبد اللہ بن صالح پر اوپر جو کلام نقل کیا گیا ہے وہ یہاں چنداں مضر نہیں ہے اسی لیے علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ اس کے ضعف کے قائل ہو نے کے باوجود فر ما تے ہیں کہ" اس کی اسناد جید ہے ابن عساکر ؒ نے بھی اس سلسلہ میں جعفر بن لا ہز ین "قريط قال سمعت ابى لاهزن قريط عن ابيه ابوزمعدى بن رفاعه عن ابى رمثه" سے ایک مرفوع روایت کی تخریج کی ہے لیکن اس کی اسناد میں ابو رمشہ کے علاوہ مجہول ہیں لہٰذا علامہ محمد نا صر الدین الا لبانی فر ما تے ہیں :"اس کی یہ اسنادمظلم ہے اس کے رواۃ میں سے سوائے ابو رمشہ کے اور کسی کا ترجمہ مجھے نہیں مل سکا
الحمد لله کہ زیر بحث حدیث اور اس سے متعلق دوسری تمام روایات پر تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے اور بد لا ئل ثابت ہو چکا ہے کہ شیعہ حضرات کے تمام دعادی قطعی بے بنیاد لغو اور باطل ہیں
حوالہ جات
1۔تحفۃ الا حوذی للمبار کفوری ج 2 ص325،
2۔ایضاً ج3ص 341،حدیث نمبر777
3۔ التاریخ الکبیر للبخاری ج4 ق2ص415والادب المفرد للبخاری حدیث340
4۔سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 144
5۔ابن حبان حدیث نمبر 224
6۔حاکم ج3ص177
7۔تمیزالطیب للشیبانی ص80،المقاصد للبخاری ص190وکشف الخفاء للعجلونی ج1ص429،
8۔جامع الترمذی مع تحفۃ لاحوذی للمبار کفوری ج4ص341،
9۔حاکم ج3ص177،
10۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ج3ص230۔229،
11۔تقریب التہذیب لابن حجر ج1ص295،
12۔التلخیص الجیرلابن حجر ج3ص10،
13۔میزان الاعتدالال للذہبی ج2ص135،
14۔علل اہلحدیث ترجمہ 326،
15۔ تحفۃ الاحوذی للمبار کفوری ج4ص341،
16۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ لالبانی ج1ص54وکذافی ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی ؒ
17۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی ج3 ص229،
18۔تقریب التہذیب لابن حجر ج1ص432ومعرفہ الثقات للعجلی ج2ص46،وتحفۃ الاحوذی للمبار کفوری 2ص123وتہذیب لابن حجر ج5ص315،
19۔الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2 ص272،281،
20۔ میزن الاعتدالال للذہبی ج2ص 954۔064،
21۔سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ اللا لبانی ج 3ص 926،
22۔تقریب التہذیب لابن حجر ج1ص374،
23۔الضفعاء روالمترو کو ن للنسائی ترجمہ نمبر34،
24۔مجمع الزواید للہیثمی ج1ص16ج4ص38،
25۔ایضاًج1ص122ج9ص285،
26۔ایضاً ج3ص25۔60،
27۔الضفاءالکبیر للعقیلی ج1ص88،90
28۔کتاب المجروحین الابن حبان ج1 ص126،124
29۔تحفۃ الا حوذی للمبار کفوری ج1ص123،وتہذیب الکمال اللخزرجی ج1ص92،
30۔میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر1ص240،244،
31۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعہ للالبانی جلد 1ص 28
32۔ایضاً ج1ص440،
33۔ایضاًج485،440،
34۔ایضاً ج2ص 2610،172،131010787وغیرہ
35۔تاریخ تہذیب ومشق لا بن عساکر ج3ص 42،
36۔تاریخ یحییٰ بن معین ج2ص 36
37۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج3ص 251،250،
38۔الکامل فی الضعفاء لا بن عدی ج1ص 688،
39۔فہارس مجمع الزوائد غلول ج3ص251،250،
40۔المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص51،
41۔الادب المفرد للبخاری حدیث نمبر364،التاریخ للبخاری ک4ص415،
42۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فر ما ئیں تہذیب تاریخ و مشق لابن عساکر ج5ص293میزان الاعتدال اللذہبی ج6ص35تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ؒج4ص13،تہذیب التہذیب لابن حجر ج3ص227،معرفہ الثقات للعجلی ج1ص347،تقریب التہذیب لابن حجر ج1ص640مجمع الزوائد للہیثمی ج 9ص22سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی ج2ص59و فہارس مجمع الزوائد للز غلول ج3ص288،
43۔معرفۃ الثقات اللجعلی ج2ص684،
44۔ تہذیب التہذیب لابن حجر ج10ص209،
45۔تاریخ علماء الاندلس لابن الفرضی 2ج ص138،
46۔الملتمس للضبی ص458،
47۔سیراعلام النبلاء ج7ص140،
48۔الضعفاء الکبیر للعقیلی ج4ص183،
49۔ تحفۃ الا حوذی للمبار کفوری ج1ص105
50۔میزان الاعتدال للذہبی ج4ص135
51۔الضعفاء والمتروکین للنسائی ترجمہ نمبر334،
52۔میزان الاعتدال للذہبی ج2ص 440،445،
53۔کتاب المجروحین لابن حبان ج2ص 43،40،
54۔الضعفاء الکبیرللقیلی ج2ص267،
55۔تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج3ص15وتقریب التہذیب لابن حجر ج1ص423،
56۔مجمع الزوائد للہیثمی ج1ص62ج4ص234،
57۔ایضاً ج2ص78وج4ص153وج5ص281،
58۔،سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعہ للا لبانی ج1ص475،296،وج24071191وسلسلۃ الادیث الصحیحۃالالبانی ج1ص589،67766ج2ص720،406،680،199،142ج4ص375،322305،10،
59۔الزوائد للبوصیری ج2ق48،
60۔التاریخ الکبیر للبخاری ج5ص121،
61۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ ج5ص86،
62۔الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج4ترجمہ نمبر 1522،
63۔تہذیب التہذیب لابن حجر ج5ص258،
64۔ہدی الساری مقدمہ فتح الباری لا بن حجر ص415،412،
65۔المجموع فی الضعفاٰ والمتروکین للسیروان ص142
66۔فہارس مجمع الزوائد للز غلول ج،3ص333،
67۔سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للا لبانی ج3ص،230
68۔تاریخ ومشق لابن عساکر 18/6/2/
69۔سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی ج3ص230