امام محمد بن اسمٰعیل البخاریؒ
اور اُن کی الجامع الصحیح کا تعارف اور صحیحین کا موازنہ
ولادت 194ھ وفات :256ھ
نا م ونسب :
ابو عبد اللہ محمد بن اسمٰعیل بن ابراہیم بن المغیر ۃ ۔
آپ رحمہ اللہ 13/شوال 194ھ کو پیدا ہو ئے ۔اور 256ھ ہفتہ کی رات سمر قند کے قریب وفات پائی ،بعد از ظہر آپ کو دفن کیا گیا ۔
امام بخاریؒ بچپن میں بینائی سے محروم ہو گئے تھے والد ہ کی دعاء سے بینائی لوٹ آئی ۔امام الائمۃ امام الحفاظ حضرت امام بخاریؒ نے احدیث صحیحہ بڑی محنت اور ذکاوت سے جمع دودن فر ما ئیں اور لاکھوں طرق حدیث کو اپنے سینہ میں سندو متن کے ساتھ محفوظ کیا ۔سندومتن کے ساتھ جتنی احادیث کو محفوظ کیا اس کے امتحان میں سو فیصد ی کامیاب و سرفراز ہو ئے ۔
کمال حافظہ :
امام بخاریؒ ایک لا کھ حدیثوں کے حافظہ تھے ۔خود امام رحمہ اللہ فر ما تے ہیں
"احفظ مائة الف حديث صحيح"(3)
امام بخاری ؒ کے چند عم عصروں کا بیان ہے کہ امام بخاریؒ ہمارے ساتھ بصرہ کے شیوخ حدیث کے پاس اخذ حدیث کے لیے جا یا کرتے تھے مگر یہ کچھ لکھتے نہ تھے اور ہم سب لکھ لیتے تھے سولہ سترہ دن تک جب یہی حال رہا تو ہم لو گوں نے علامت کی کہ جب تم حدیثوں کو قلمبند نہیں کرتے تو حافظہ کب تک محفوظ رکھ سکے گا ۔اس لیے تمھارا وقت ضائع ہو رہا ہے ، امام بخاریؒ نے فر ما یا جو کچھ میں نے اب تک سنا ہے وہ مجھے سب یاد ہے آپ لو گ اپنی لکھی ہو ئی کاپیاں نکالیں اور مجھ سے زبانی سنتے جا ئیں تو ہم نے اپنے بیاض کو نکالا اور امام موصوف نے اپنے حافظہ سے زبانی سنانا شروع کیا تو پندرہ ہزار سے کچھ زیادہ حدیثیں جو ہم نے اس وقت تک حاصل کی تھیں امام بخاریؒ نے لفظ بلفظ پو ری صحت کے ساتھ سنا دیں ۔
(4)جب امام بخاریؒ بغداد رونق افروز ہو ئے تو آپ کی کمال ذکاوت اور قوت حافظہ کا جو غلغلہ تھا اُس کا محدثین بغداد نے امتحان لینا چاہا ،چنانچہ ان اصحاب حدیث نے سو حدیثوں کے متن اور سند کو پلٹ کر آپ کے سامنے پیش کیا امام بخاریؒ نے ہر متن کو اُس کی اصل سند کے ساتھ اور ہر سند کو اس کے اصل متن کے ساتھ ترتیب وار بیان کردیا۔
"قاقرالناس بالحفظ واذعنوا له بالفضل" (5)
امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق آراء:
ابو نعیم بن حماد ؒ نے امام بخاریؒ کے متعلق یوں کہا :
"هو فقيه هذه الامة" (6)
"یعنی وہ اس امت کے فقیہہ ہیں ۔"
امام الائمۃ ابن خزیمہ ؒ فر ما تے ہیں :کہ روئے زمین پر امام بخاریؒ سے بڑھ کر کو ئی حدیث کا عالم اور حافظ نہیں"(7)
امام ترمذیؒ ،امام بخاریؒ سے مخاطب ہو تے ہو ئے کہتے ہیں :
"جعلك الله زين هذه الامة"
"اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس اُمت کی زینت بنا یا ہے ۔"(8)
امامذہبی ؒ لکھتے ہیں :
"امام بخاریؒ ذہانت میں بیمثال اور علم میں کا مل اور تقویٰ و عبادت میں منفردتھے"امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :
"هو الحافظ وامام اهل الحديث فى زمانه" (10)
ابن رجاءؒ کہتے ہیں :
"هو اية من آيات الله تمشى فى الارض" (11)
آپ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں جو روئے زمین پر رواں دواں ہے۔"
اسحاق بن راہوایہؒ فر ما تے ہیں :
"هو ابصر منى" (12)
ابن السبلی ؒ نے طبقات میں آپ رحمہ اللہ کو امام المسلمین وقدوۃ الموحدین کے القاب سے یاد کیا ہے (13)
مولانا عبد الحیٰ لکھنوی ؒ نے بھی کھلے دل سے امام بخاریؒ کی شان کا اعتراف کیا ہے ۔(14)الفاس کہتے ہیں :
"كل حديث لايعرفه البخارى فليس بحديث" (15)
امام دارمی ؒ فر ما تے ہیں :کہ بخاریؒ فن حدیث میں بہت زیادہ بصیرت رکھتے تھے خدا کی مخلوق میں سب سے بڑھ کر سمجھدار تھے ۔اللہ تعا لیٰ کے ادامرو نواہی کو انھوں نے خوب سمجھا ۔"(16)
امام بخاریؒ کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے ضروری مراجع :
نام لؤلف ۔کتاب ۔کل صفحات واجزاء۔مکان الطبع وتاریخ ۔
خطیب بغدادیؒ ۔تاریخ بغداد ۔4/2،31،مصر 1349ھ،
وفات 463ھ،
ابن خلکان ؒ ، وفیات الاعیان ،3/،331،329،مصر 1367ھ
وفات 681 ھ،
الحافظ الذہبیؒ ۔تذکرۃ الحفاظ ۔556،555/2الہند۔حیدر آباد
وفات 748ھ
نام مؤلف ۔کتاب۔ کل صٖفحات واجزاء۔مکان الطبع وتاریخ
ابن السبکی ؒ۔ الطبقات الشا قیعۃ۔228۔202/2،مصر 1383ھ
وفات 771ھ،الکبریٰ
ابن کثیر ؒ ۔البدایہ والنہایہ 27۔24/11۔مطبعۃ البعادات مصر
وفات 774 ھ
ابن حجر العسقلانی ؒ۔تہذیب التہذیب۔56۔47/9،حیدر آباد ۔1326ھ،
وفات 852ھ
صدیق حسن خاں ؒ ۔التاج المکلل۔ص108۔106،الہند ۔1382ھ
وفات 1308ھ
الزرکلی ۔الاعلام ۔259۔258/6،مصر ۔1347ھ
الجا مع الصحیح للبخاری
پو رانام:
"الجامع الصحيح المسند المختصر من امور رسول الله صلي الله عليه وسلم وايامه"
الجامع کی خوبی :
امام حاکم نیشا پو ریؒ لکھتے ہیں کہ جس طرح امام بخاریؒ احادیث کے ضبط و حفظ اور جمع و معرفت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے اسی طرح تصنیف کے معا ملہ میں بھی یکتا ئے روز گا ر تھے فر ما تے ہیں ۔
"ولو قلت انى لم ارتصينف احد يشبه تصنيفه فى الحسن والمبالغة لم اكن بالغت"
امام بخاریؒ نے خود فر ما یا کہ محدث یگا نہ اسحٰق بن راہویہ ؒ نے میری تصنیف کردہ کتاب ؒ تاریخ کو ملا حظہ فر ما یا تو اس قدر خوش ہو ئے کہ اسے امیر وقت عبد اللہ بن طا ہر کے سامنے پیش کرتے ہو ئے کہا :
"الا اريك سحرا"
"کیا میں آپ کو ایک باکمال جادو نگا ر کی جا دوگر ی نہ دکھا ؤں ۔
بلا شک و شبہ تاریخ صغیر و کبیر اگر سحر بخاریؒ ہے تو تصنیف الجامع الصحیح بجائے خود ان کی کرامت ہے ۔
"مضت الدهور وما اتين بمثله"
"ولقد اتى فعجزن عن نظرآئه"
مؤلفات تو امام صاحب کی بہت زیادہ ہیں ۔مثلا تاریخ صغیر و کبیر ،تاریخ اوسط کے علاوہ خلق افعال العباد ،کتاب الضعفا ء کتاب الہیہ ،کتاب الکنی 7الادب المفرد جزء رفع الیدین جزء القرات وغیرہ مگر جو خوبی کمال صحت و تہذیب الجامع الصحیح کو حاصل ہے وہ ان کی کسی اور تصنیف کو حاصل نہ ہو ئی (19)اسی لیے الجامع الصحیح کے متعلق یہ مقولہ مشہور ہے:
"اصح الكتب بعد كتاب الله"
یعنی کتاب اللہ کے بعد صحیح البخاری کا مقام ہے (20)
امام ذہبیؒ نے الجامع کے متعلق لکھا ہے :
"اما الجامع للبخارى فاجل كتب الاسلام وافضلها بعد كتاب الله"
حافظ ابن کثیر ؒنے ان الفاظ سے خراج تحسین پیش کیا ہے:
"ليستقى بقرأته الغمام واجمع على قبوله وصحته ما فيه اهل الاسلام" (22)
"یعنی ابرو سحاب اس سے اپنی پیاس بجھا تے ہیں اور اہل اسلام کا اس کی صحت و پذایرئی پر مکمل اتفاق ہے ۔"احتیاط کا یہ عالم تھا کہ امام محمد اسمٰعیل ؒ خود فر ما تے ہیں :"میں نے کتاب الجامع الصحیح میں کو ئی حدیث اس وقت تک درج نہیں کی جب تک کہ لکھنے سے پہلے غسل کرکے دوگان ادا نہ کر لیا ہو۔اور اس کی صحت کا یقین نہ ہو گیا ہو، کتاب کی تصنیف کا آغاز بیت الحرام میں ہوا۔اورابو ابوتر اجم مسجد نبوی میں منبر اور روضہ اقدس کے درمیان لکھے ۔"(23)
امام بخاریؒ کے دل میں اس بلند پایہ تالیف کا خیال کیونکر پیدا ہوا ۔اس کو انھوں نے خود بیان کیا ہے :
"میں اپنے استاد اسحٰق بن راہویہؒ کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کے تلامذہ میں ایک صاحب نے یابروایت دیگر خود انھوں نے کہا اگرکو ئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن کے بارے میں ایک مختصر مگر صحیح کتاب ترتیب دے دے تو یہ بہت اچھا ہو گا ۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ عمل کرنے والوں کے لیے اس میں آسانی پیدا ہو جا ئے گی ،وہ بغیر فقہاء و مجہتدین کی منت پذیری کے حقیقت حال کو جا ن سکیں گے ،"
میں نے جب یہ تجویز سنی تو دل کو ایسی بھائی کہ اس کے نتیجے میں میں نے اس جامع اور صحیح کتاب کو مرتب کر ڈالا ۔(24)
امام ہمامؒ نے جب اپنی اس معرکۃ الآرا تصنیف کو امام احمد ؒ ،ابن معینؒ اور ابن المدینی ؒ ایسے جہاندیدہ فن کے روبرو کیا تو انھوں نے اس کی تو ثیق کی (25)اور اتنے بڑے ذخیرہ حدیث میں چار ایسی احادیث کی نشا ندہی کی جو اُن کے نقطہ نظر سے صحت کے اعلیٰ معیار پر پو ری نہیں اترتی تھیں اور ان چار حدیثوں کے بارے میں بھی عقیلی کی یہ رائے ہے کہ شرائط صحت کے عین مطابق ہیں ،
"القول فيها قول البخارى"(26)
شروط صحیح البخاریؒ :
1۔سب ناقلین ورداۃ حدیث صحابی تک ثقہ ہوں اور اُن کی ثقاہت پر اتفاق ہو۔
2۔سلسلہ روایت متصل ہو، منقطع نہ ہو۔
3۔اگر معنعن روایت ہو تو راوی کا اپنے شیخ ست لقاء ضور ثابت ہو نا چاہیے
4۔اس حدیث کی صحت اور مقبولیت پر امام بخاریؒ سے پہلے کے محدثین کا اتفاق ہو ،یا امام بخاریؒ کے مفاصرین کا اتفاق ہو ۔
5۔علت و شذوذ سے خالی ہو۔
شروحات :
"الجامع الصحیح "اپنے دامن علم میں کس درجہ و سعتیں لیے ہو ئے ہےاور فقہاء و محدثین کے حلقوں میں اس کی قبولیت و پزیرائی کا کیا عالم ہے ؟اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بقول صاحب کشف الظنون 82ائمہ فن نے اس کی شروع رقم فر ما ئیں جن میں زیادہ اہم چار ہیں :
1۔فتح الباری: احمد بن حجر العسقلانی ؒ رالمتوفی 852ھ) اس میں علامہ مو صوف نے بطریق محدثین رجال لغت اور تطبیق احادیث و آثار میں تحقیق وکاوش کے شاہکار پیش کیے ہیں ۔تازہ ایڈیشن میں اس کی سولہ جلدیں ہیں اور 17اویں جلد اس کا مقدمہ ہے ۔جس کا نام ہدی الساری ہے ۔
(ب)عمدۃ القادی۔علامہ بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد العینی (855ھ)
اس کے اندر علامہ عینی نے بھی مذکورہ بالا پہلوؤں کے علاوہ فقہی مسائل پر بھی بحث کی ہے ،
(ج)التنقیح ۔بدر الدین الزرکشی (794ھ)
مختصر مگر جامع شرح ہے ،
(د)التوشیح علی الجامع الصحیح :
عبد الرحمٰن بن ابی بکرؒ السیوطی کی ہے،
الجامع الصحیح للبخاریؒ و مسلم ؒ کا مقابلہ (28)
1۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح کے اندر 430سے کچھ زائد سے روایت کی ہے۔ اس تعداد میں صرف اسی80راویوں کے متعلق علماء نے کلام کیا ہے ۔لیکن مسلمؒ کے خاص راوی 620ہیں ان میں 160روایوں پر علماء نے کلام کیا ہے۔
2۔الصحیح بخاری کے جن راویوں پر جرح کی ہے ان سے امام بخاریؒ نے بہت کم روایت کی ہے اس کے برعکس صحیح مسلم کے کہ اس میں ان کی مرویات بکثرت ہیں ۔3۔صحیحین میں مجروحین زیادہ تر وہ لو گ ہیں جن کا شمار امام بخاریؒ کے شیوخ میں ہو تا ہے اور مؤلف کو چونکہ ان کی مرویات کے متعلق انشراح حاصل تھا بنابریں وہ اُن سے روایت لا تے ہیں لیکن صحیح مسلم میں ایسے رواۃ تبع تابعین وغیر سے ہیں جن کو صحیح طور پر جانچنا مشکل ہے۔
4۔امام بخاریؒ اول طبقہ سے اصولاً اور دوسرے طبقوں سے ضمناً روایت کرتے ہیں۔بالفاظ دیگر امام بخاریؒ دوسرے طبقوں سے استشہادًا روایت کرتے ہیں ۔مگر امام مسلمؒ طبقہ ثابیہ سے بھی اصلاً روایت کرتے ہیں ۔
5۔امام مسلمؒ معنعن والی روایت میں اتصال کے لیے صرف معاصرت کو کافی سمجھتے ہیں مگر امام بخاریؒ معاصرت کے ساتھ لقاء کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔
6۔ائمہ حدیث کا اس پر اتفاق پے کہ جلالت قدر میں امام بخاریؒ کا مرتبہ امام مسلمؒ سے بہت بلند ہے اس پر مستزاویہ آپ امام مسلمؒ کے استاد ہیں اور صناعت حدیث میں زیادہ ماہر ہیں اسی لیے امام دارقطنی ؒ نے کہا کہ امام بخاریؒ نہ ہو تے امام مسلمؒ فن حدیث میں اتنی شہرت حاصل نہ کرتے ۔
7۔صحت و قوت کے التزام کے ساتھ امام نے صحیح بخاریؒ کے ابواب و نزاجم میں جن فوائد فقیہ نوادر حکمیہ اور قائق استدلال واستبناط کا اظہار کیا ہے یہ انہی کا حصہ ہے اس میں کو ئی دوسرا شریک وسہیم نہیں اسی حقیقت کو علماء حدیث نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔"فقه البخارى فى تراجمه"اس کے برعکس امام مسلمؒ الجامع اس خوبی سے خالی ہے ۔
8۔علماء نے الجامع الصحیح للبخاری وصحیح مسلم کی تمام حدیثوں میں سے (210)احادیث پر کلام کیا ہے ان میں صرف اسی 80احادیث بلکہ اس سے بھی کم حدیثیں بخاریؒ کی ہیں اور (130)حدیثیں مسلمؒ کی ہیں ۔
9۔بخاری اور مسلم میں ایک بڑا نازک فرق ادبی حیثیت کا بھی ہے ایک حیثیت کے مضمون کو دونوں کتابوں میں دیکھئے بخاری کی طرز ادا نشست الفاظ سلامت بیان جس قدر پسندیدہ اور اعلیٰ ہو گی اس کی نظیر مسلم میں کم ہی ملے گی ۔اور صحیح بخاری میں مضامین کے اعتبار سے تنو ع اور جا معیت پائی جا تی ہے یعنی جہاں اس میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کیا گیا ہے وہاں آثار صحابہ غریب القرآن اور ارباب سیر کے طریق پر خصوصیات احوال و قائع پر بھی روشنی ڈالی گئی ۔
حوالہ جا ت:
1۔خطیب بغدادی :تاریخ بغداد (مصر،1349ھ)،2/4،
ابن حجرالعسقلانی :تہذیب التہذیب (حیدر آباد ،ہند ،1326ھ)9/48،
2۔خطیب بغدادی :تاریخ بغداد 2/4
3۔الذہبی :تذکرہ الحفاظ (حیدر آباد ،ہند )2/555،
4۔تذکرہ الحفاظ :2/555،655ومقدمہ فتح الباری ،ص465،
5۔مقدمہ فتح الباری ،ص375،
ابن خلکان :وفیات الاعیان (مصر۔1367ھ)3/329،331،
6۔تہذیب التہذیب ۔5719،والبدایہ والنہایۃ 11/26،
ابن السبکی : الطبقات الثانیۃ الکبری (مصر،1383ھ)2/773،
7۔تذکرہ الحفاظ :7/556تہذیب التہذیب ،5719،
البدایہ والنہایۃ 11/26،
8۔تہذیب التہذیب :9/53،
9۔تذکرۃالحفاظ :2/556،
10۔البدایہ والنہایۃ ،11/24،
11۔۔۔۔،11/26،
12۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
13۔الطبقات الشافعیۃ ،2/212،
14۔مولانا عبد الحی لکھنوی :ظفر الا مانی فی مختصر الجر جانی (عظیم آباد ۔ لکھنؤ ص238)
15۔ابن کثیر :البدایہ والنہایۃ ،11/26،
16۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
17۔مقدمہ فتح الباری ،ص572،
18۔۔۔۔۔۔۔ص570،
19۔الزر کلی : الاعلام ،6/258،259،
عبد السلام بستوی : سیر ۃ النبی ،اہلحدیث اکیڈمی لا ہور )ص171،180،
20۔مقدمہ فتح الباری ،ص 9مقدمہ ابن الصلاح ،ص 7،
21۔تذکرۃ الحفاظ :8/556،
22۔البدایہ والنہایۃ 26،2581،
23۔مقد مہ فتح الباری ،ص 49،
24۔مقدمہ فتح الباری ،ص49،
25۔امام محمد بن اسماعیل : جزئ رفع الیدین (لاہور ۔13۔9ھ)ص5،
26۔مقدمہ فتح الباری ص78،5تہذیب التہذیب ،9/54،
27۔سیوطی :تدریب الراوی (المکتبہ العلمیۃ المدینۃ المنوررۃ ،1392ھ)1/130)
عبد السلام بستوی :سرۃ البخاری ،340،مابعد ھا
28۔تدریب الراوی ،1/98۔91،
عبد ہ الفلاح : صحاح سقہ اور ان کے مؤلفین (دلائل پور) ص47،46،