مو لانا شمس الحق ڈیانوی ؒ عظیم آباد اور ا ُن کی خدمت حدیث
حدیث کی صیانت و حفاظت اور اُس کی ترقی وتر ویج اور اشاعت میں برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث نے جو گراں قدر علمی خدمات سر انجام دی ہیں وہ تاریخ اہلحدیث میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں فسیح الکل حضرت مولیٰنا سید محمد نذیر حسین محدث دہلویؒ (م1320ء)نے دہلی میں اور علامہ حسین بن محسن القاری یمانی (م1327ء)نے بھوپال میں حدیث کی نشرواشاعت میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے اس کی مثال برصغیر پاک وہند میں مشکل ہی سے ملے گی حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلویؒ نے 60سال تک دہلی میں درس حدیث دیا اور آپ سے بیشمار حضرات مستفیض ہو کر تحدیث کے مالک بنے اور بعض نے خدمت حدیث میں وہ کا ر ہائے نمایاں سر انجام دیئے جن کا تذکرہ ان شاء اللہ العزیز تا قیامت رہے گا۔مولوی ابو یحییٰ امام خاں نو شہروی ؒ (م1387ءلکھتے ہیں :
"سید عارف باللہ مولیٰنا عبد اللہ غزنوی آپ کے صاحبزادہ عالی السید مولیٰنا عبد الجبار غزنوی شیخ پنجاب مولیٰنا حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی مولیٰنا حافظ عبد اللہ محدث مبارک پوری صحب عون المعبود مولیٰنا شمس الحق ڈیانوی ؒ عظیم آبادی مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحب تحفۃ الا حوذی شرح جامع الترمذی مولیٰنا عبد العزیز رحیم آبادی مولانا شاہ عین الحق پھلواوری مولانا محمد حسین بٹالوی مولانا احمد اللہ پر تاب گڑھی مولانا محمد سعید بنارسی مولانا امیر حسن مولانا امیر احمد اور مولانا محمد بشیر ساکنین قصبہ سہوان یہ تمام حضرات مسند تدریس تھے اور ان سب حضرات نے حضرت شیخ الکل مولیٰنا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ؒ سے استفادہ کیا ۔
علامہ حسین بن محسن انصاری بھوپال میں حدیث کی نشرواشاعت میں مصروف عمل تھے ۔مولیٰنا سید ابو الحسن علی ندوی رقمطراز ہیں :شیخ حسین بن محسن کا باوجود اور ان کا درس ایک نعمت خدا وند ی تھا۔جس سے ہندو ستان اس وقت بلا ومغرب ویمن کا ہمسر بنا ہوا تھا ۔ اور اس نے ان جلیل القدر شیوخ حدیث کی یا د تازہ کر دی تھی جو اپنے خدا ادا حافظہ ۔۔۔۔اور کتب حدیث رجال پر عبور کامل کی بناء پر ایک زندہ کتب خانہ کی حیثیت رکھتے تھے ۔شیخ حسین بی یک واسطہ علامہ محمد بن علی الشوکانیؒ صاحب نیل الاوطار کے شاگردتھے اور اُن کی سند حدیث بہت عالی اور قلیل الو سائط سمجھی جا تی تھی یمن کے جلیل القدر اساتذہ حدیث کے تلمذ صحبت ،غیر معمولی حافظہ جو اہل عرب کی خصوصیت چلی آرہی ہے سالہا سال تک درس وتدریس کے مشغلے اور طویل مزاولت اور ان میں خصوصیات کی بناء پر جن کی ایمان و حکمت کی شہادت احادیث صحیحہ میں موجود ہے حدیث کا فن گو یا ان کے رگ و ریشہ میں سرا یت کر گیا تھا اور اس کے دفتر ان کے سینہ میں سما گئے تھے وہ ہندو ستان آئے تو علماء وفضلا ء (جن میں بہت سے صاحب درس و صاحب تصنیف بھی تھے )پر وانہ دار ہجو م کیا اور فن حدیث کی تکمیل کی اور اُن سے سندلی تلامذہ میں نواب صدیق حسن خاں مولانا محمد بشیر سہوانی مولانا شمس الحق ڈیانوی مولانا عبد اللہ غازی پوری مولانا عبد العزیز رحیم آبادی مولانا سلامت اللہ ہے راجپوری نواب و قار نوازجنگ مولوی وحید الزمان حیدر آبادی علامہ محمد طیب مکی شیخ ابو الخیر احمد مکی شیخ اسحاق عبد الرحمان نجدی خاص طور پر قابل ذکر ہیں علمائےاہلحدیث کی تدریسی وتصنیفی خدمات کا اعتراف علامہ سید سلیمان ندوی (م1373ھ)نے بھی کیا ہے سید صاحب مرحوم لکھتے ہیں :
"علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمت بھی قدر کے قابل ہے پچھلے عہد یں نواب صدیق حسن خاں مرحوم کے قلم ور مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی ؒ کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا ۔بھوپال ایک زمانہ تک علمائے حدیث کا مرکز رہا قنوج سہوان اور اعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کا م کر رہے تھے ۔شیخ حسین عرب یمنی ان سب کے سرخیل تھے اور دہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب کی مسند درس بچھی تھی اور جو درجوق طالبین حدیث مشرق ومغرب سے ان کی درس گاہ کا رخ کر رہے تھے ان کی درسگاہ سے جو نامور اُٹھے اُن میں ایک مولانا محمد ابراہیم آروی تھے جنھوں نے سب سے پہلے عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا ۔اور مدرسہ احمد یہ کی بنیاد ڈالی اس درسگاہ کے دوسرے نامور مولانا شمس الحق صاحب عون المعبود ہیں جنھوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کا مقصد قرار دیا اور اس میں وہ کامیاب ہو ئے اس درسگاہ کے تیسرے نامور مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری تھے جنھوں نے درس و تدریس کے ذریعہ خدمت کی اور کہا جا سکتا ہے کہ مولانا سید محمد نذیر حسین صاحبؒ کے بعد درس کا اتنا بڑا حلقہ شاگردوں کا مجمع اُن کے سوا کسی اور کو اُن کے شاگردوں میں نہیں ملا اس درس گاہ کے ایک اور نامور تربیت یافتہ ہمارے ضلع اعظم گڑھ میں مولانا عبد الرحمٰن مرحوم مبارک پوری تھے جنھوں نے تدریس وتحدیث کے ساتھ ساتھ جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی عربی لکھی۔" خدمت حدیث میں مولانا شمس الحق ڈیانوی نہایت ممتاز ہیں آپ نے جہاں ایک طرف حدیث کی تحریری خدمات سر انجام دیں ۔دوسری طرف حدیث کی نشرواشاعت کے سلسلہ میں حدیث کی کئی ایک کتابیں چھپوا کر شائع کیں اور اس کے ساتھ حدیث کی کئی نادر کتابیں اسلامی ممالک سے منگوا کر اپنے کتب خانہ کی زینت بنائیں ،
نام ونسب :
مولانا شمس الحق بن امیر علی 27/ذیقعد ہ 1273ھ(جولائی 1857ء)عظیم آباد پٹنہ میں میں پیدا ہو ئے ۔6سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہوا آپ کے اساتذہ میں مولانا محمد ابراہیم نگر نہوی (م1282ھ)مولانا لطف اللہ بہاری (م1294ھ)مولانا فضل اللہ لکھنوی (م1312ھ)مولانا بشیر الدین محدث قنوجی (م1296ھ)مولانا سید محمد نذیرحسین محدث دہلوی (م1320ھ)اور علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری یمانی (م1327ھ)کے نام ملتے ہیں ۔
درس و تدریس :
تکمیل تعلیم کے بعد ڈیانواں میں جامع ازہر کے نام سے ایک دینی درس گاہ قائم کی اور درس و تدریس کے ساتھ وعظ و تذکیر اور تصنیف وتا لیف میں ہمہ تم مصروف ہو ئے آپ کے تلامذہ کی فہرست بہت لمبی ہے ان میں چند مشہور لوگوں کے نام یہ ہیں :
مولانا احمد اللہ پر تاب گڑھی (م 1362ھ)مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی (م1318ھ )مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (م1369) مولانا عبد الحمید سوہدروی (م1330ھ) مولانا فضل اللہ مدراسی (م 1361ھ)مولانا شرف الحق ڈیانوی (م1326ھ)(آپ کے بھا ئی )مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی (م1960ء)(آپ کے صاحبزادہ) آپ کے درس میں اسلامی ممالک کے طلباء حاضر رہتے تھے مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (م1369ھ)لکھتے ہیں ۔کہ
"آپکے درس میں عرب وفارس کے طلباء بھی دیکھے گئے اور بہت لو گو ں نے آپ سے اکتساب فیض کیا مولانا سید عبد الحی الحسنی (م1241ھ)لکھتے ہیں :
"ثم رجع الى بلده وعكف على التدريس والتصنيف والتذكير وبذل جهده فى نصرة السنة والطريقة السلفية واشاعة كتب الحديث" "
آپ واپس اپنے وطن (ڈیانواں )پہنچے ۔درس و تدریس تصنیف وتالیف ااور تذکیر و وعظ میں مصروف ہو ئے اور اپنی ساری توجہ سنت کی حمایت اور کتب حدٰیث کی اشاعت کی طرف مبذول کی۔"
کتب حدیث کی اشاعت :
مولانا شمس الحق ڈیانویؒ کا شمار عظیم آباد کے روسامیں ہو تا تھا آپ کے والد مرحوم نے لا کھوں کی جا ئداد چھوڑی ۔چنانچہ آپ نے زر کثیر صرف کرکے حدیث تاریخ اور اسماء الرجا ل کی کتابیں کرائیں جن کی تفصیل یہ ہے :
1۔سنن دارقطنی : امام ابوالحسن درقطنی (م385ھ)
2۔تلخیص السنن : حافظ عبد العظیم منذری (م656ھ)
3۔خلق افعال والعباد : امام محمد بن اسمٰعیل بخاری (م 256ھ)
4کتاب العرش والعلو: حافظ شمس الد ین ذہبی (م847ھ)
5۔التاریخ الصغیر: امام محمد بن اسمٰعیل البخاری (م256ھ)
6۔کتاب الجعفاء والصغیر : امام محمد بن اسمٰعیل البخاری (م256ھ)
7۔کتاب الضعفاء وللتروکین : حافظ ابو الر حمٰن احمد بن شعیب نسائی (م303ھ)
8۔تہذیب السنن: حافظ ابن القیم الجوزی (م751ھ)
9۔کتاب الادب المفرد : امام محمد بن اسمٰعیل البخاری (م256ھ)
10۔التلخیص الجیر : حافظ حجر عسقلانی (م 852ھ)
مولانا شمس الحق مرحوم دائرۃ المارف العثمانیہ حیدر آباد وکن رکن تھے آپ کی تحریک سے دائرۃ المارف نے حافظ ابن عسقلانی (م852ھ) کی تہذیب التہذیب اور حافظ ذہبی (م847ھ)کی تذکرۃ الحفاظ شائع کیں ۔
کتب خانہ :
مولانا شمس الحق مرحوم کا کتب خانہ برصغیر پاک وہند میں ایک مثالی کتب خانہ تھا آپ نے زر کثیر صرف کر کے اسلامہ ممالک سے تفسیر و حدیث اسماء الرجال تاریخ اور دوسرے علوم اسلامیہ کی کتابیں منگوا کر اپنے کتب خانہ میں جمع کیں یہاں چند نایاب کتابوں کا تذکرہ دلچسی سے خالی نہ ہو گا ،
مسند ابو عوانہ:
ازامام ابو عوانہ اسفرائنی : (600ھ)کا مکتوبہ نسخہ تھا،اور اس پر حافظ ذہبی (م847ھ) کے دستخط تھے،
صحیح مسلم :
ازامام مسلم بن حجاج القشیری (م261ھ) امام شوکانی (م1250ھ)کے دستخط تھے ۔اور امام شوکانی نے (1240ھ)میں دستخط کئے تھے ۔
معالمہ السنن :
امام ابو سلیمان خطابی (م388ء سنن ابی داؤد کی قدیم شرح ہے (1351ھ) میں حلب سے شائع ہو چکی ہے علامہ رشید رضا مصری ایڈیٹر المنار(م1351ھ)نے اس کی تلاش کے لیے علامہ سید سلیمان ندوی (م1373ھ)کو لکھا سید صاحب نے اس کی تلاش شروع کی تو اس کی پہلی جلد مولانا ابو بکر شیث جون پوری (م1359ھ)کے کتب خانہ سے ملی مگر صرف ایک جلد اگرچہ مولانا شمس الحق ؒ کے پاس مکمل شروع موجود تھی بنارس کے ٹاؤن ہال میں 14/اپریل (1906ء)کو ندرۃ العلماء ہند کے زیر اہتمام جن نادر کتابوں کی نمائش کی گئی تھی اۃن میں فن حدیث کی بعض نہایت قدیم اور نایب کتابیں مولیٰنا شمس الحقؒ عظیم آبادی کے کتب خانے سے آئی تھیں ۔
علامہ شبلی نعمانی (م1322ھ)نے مندرجہ ذیل کتابوں کا ذکر کیا ہے ۔مسند عبد بن حمید الکسی مسند ابو عوانہ ،کشف الاستاذعن زوائد۔مسند البزارللہیثمی مصنف ابن ابی شیبہ امعرفہ السنن والآثار للبیہقی ،معالم السنن خطابی ،شرح سنن ابی داؤد ابن القیم ان کے علاوہ کئی اور نایاب کتابیں مولانا شمس الحق مرحوم کے کتب خانہ میں موجود تھیں
حدیث کی حمایت اور دینی حمیت :
مولانا شمس الحق مرحوم کی ساری زندگی حدیث کی صیانت و حفاظت اور اس کی ترقی و ترویج میں گزری ۔اور حدیث کے متعلق کسی قسم کی معمولی سی بھی مداہنت برداشت نہیں کرتے تھے مولانا شمس الحق مر حوم نے اس سلسلہ میں جو قابل قدر خدمات سر انجام دیں یا آپ کی تحریک پر دوسرے علمائے اہلحدیث نے حدیث کی صیانت و حفاظت اور اس کی نشرواشاعت وترقی وترویج میں عملی کا ر نامے سر انجام دیئے اس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
ڈاکٹر عمر کریم پنوی جو ایک جو ایک خالی حنفی بریلوی عالم تھے اُنھوں نےامام بخاری (م256ھ) اور اُن کی جلیل القدر تصنیف"الجامع البخاری " پر بے جا قسم کے اعتراض کئے اور چار جلدوں میں "الجروح علی البخاری "کے نام سے ایک کتاب لکھی ،مولانا شمس الحق مرحوم نے اس کا جواب اپنے تلمیذ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (م1369ھسے "حل مشکات بخارؒ کے نام سے چارجلدوں میں لکھوایا ۔اور مولوی عمر کریم کی دوسری ہفوات کا جواب بھی مولانا ابو القاسم بنارسی نے درج ذیل کتابوں کی صورت میں دیا ۔
الامرالمبرم،ما حمیم ،صراط مستقیم ،الریح القیم ،العرجون القدیم ،
مولانا شبلی نعمانی (م1332ء)نے" سیرۃ النعمان "لکھی "اس میں مولانا شبلی مرحوم ؒ نے ۔۔۔۔محدثین پر عموماً اور امام بخاریؒ پر خصوصاً تنقید کی مولانا شمس الحق مرحوم نے اس کا جواب ایک طرف تو مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (م1336ھ)سے "حسن البیان "کے نام سے لکھوایا اور دوسری طرف آپ نے مولانا عبد السلام مبارکپوری (م1342ھ) سے "سیرۃ البخاری "لکھوائی "سیرۃ البخاری " تو مولانا ڈیانوی مرحوم کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی ۔مگر دوسری کتابیں مولیٰنا شمس الحق مرحوم نے اپنے خرچ سے چھپوا کر شائع کیں ۔ مولانا ظہیر احسن شوق میموی (م12222ھ) کے فقہی رسائل کا جواب دینے کے لیے خصوصی طور پر مولانا شمس الحق مرحوم نے مولانا محمد سعید محدث بنارسی (م1322ھ) اور مولانا اور ابو المکارم محمد علی ہو تی (م1353ھ)کو تیا ر رکھا تھا ان حضرات نے مولانا شوق نمیوی مرحوم کے کئی رسائل کا تحقیقی جواب دیا تھا مثلاً:
اوقق العری باقامۃ الجمعہ فی القریٰ ،تالیف مولانا محمد سعید بنارسی ۔امذہب المختارفی الرد علی جامع الآثا ر ،تالیف مولانا ابو المکارم محمد علی ہو تی اور مولانا شمس الحق مرحوم نے خود مولوی محمد علی مرزا پوری حنفی کے رسالہ "القول المتین فی اخفاء التائین "کے جواب میں "الکام المبین فی الجہر بالتا ئین والرد علی القول المتین"لکھا جس میں تحقیق کا حق ادا کر دیا ۔
امام بخاریؒ سے متعلق ایک حنفی عالم نے "بعض التاس فی دفع الوسواس لکھی "جس میں انھوں نے امام ابو حنیفہ ؒپر امام بخاریؒ کے 64اعتراضات کا جواب دینے کا بیکار کو شش کی ۔مولیٰنا شمس الحق مرحوم ؒ نے اس کا محققانہ اور تحقیقی و علمی جواب "دفع الالتباس عن بعض الناس " کے نام سے دیا ۔
فضل وکمال :
مولانا شمس الحق ڈیا نویؒ مرحوم صاحب علم وفضل تھے ،ان کے علم وفضل وسعت نظر اور علمی تجرپر ان کی تصنیفات شاہد ہیں ،فن حدیث میں غیر معمولی اشتغال کی وجہ سے حدیث پر ان کو گہری بصیرت حاصل ہو گئی تھی وہ صحیح اضعیف راجح ،مرجوح ،مرفوع ،موقوف ،محفوظ ،معلل،متصل،منقطع اور حدیث کی دوسری تمام انواع واقسام کے درمیان نقد وتمیز کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے ان کی وسعت نظر اور تحقیق وتدقیق کا یہ حال تھا کہ اگر کسی کتاب میں کو ئی معمولی سی غلطی یا فرق واختلاف بھی ہو تا تو ان سے مخفی نہ رہتا فوراً اس کی تصحیح فر ما تے ۔علامہ شوکانی (م1250ھ) نے نیل الاوطار میں اس کے رجال کے اندر جو غلطیاں کی تھیں ۔اپنے ذاتی نسخے کے حاشیے میں آپ نے تصحیح کر دی تھی ۔
اخلاق وعادات :
مولانا شمس الحق مرحوم شریف الطبع ،متواضع اور ملنسار شخص تھے ،اس لیے ہر طبقہ و مسلک کے علماء سے اور ارباب کمال سے ان کے اچھے تعلقات تھے اور اہل علم سے محبت کرنے والے تھے
وفات:
مولانا شمس الحق نے 19ربیع الاول 1329ءبروز سہ شنبہ 56سال کی عمر میں انتقال کیا ۔ "انا لله وانا اليه راجعون"
خدمت حدیث میں مولانا شمس الحق عظیم آبادیؒ کی تصنیفات:
مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادیؒ نے حدیث کی حمایت ونصرت میں جو کتابیں تالیف کیں اُن کا مختصرًا تعارف درج ہے ۔اور ان کتابوں کے مطالعہ سے مولانا مرحوم کے تجرعلمی جامعیت ،وسعت نظر ،حدیث وفقہ میں بصیرت و مہارت کا اندازہ ہو تا ہے ۔
1۔غایۃالمقصود فی حل سنن ابی داؤد (عربی)
سنن ابی داؤد صحاح ستہ کا رکن عظیم ہے ،اور امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث لجستانی (م275ھ)کی تصنیف ہے اس کا درجہ صحیح بخاری و مسلم کے بعد بتایا جا تا ہے اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مسائل و احکام سے متعلق روایات ہیں ۔
غایتہ المقصود سنن ابی داؤد کی مبسوط اور جامع شرح ہے اور 32جلدوں میں مولانا شمس الحق مرحومؒ نے لکھی غایتہ المقصود کے شروع میں ایک طویل علمی تاریخی اور تحقیقی مقدمہ بھی ہے ،اس مقدمہ میں مولانا مرحومؒ نے تاریخ حدیث ،محبیت حدیث اور ائمہ حدیث کی خدمت پر سیرحاصل اور جامع تبصرہ فر ما یا ہے۔
غایتہ المقصود کی صرف ایک جلد 1305ھ میں مطبع انصاری دہلی سے مولانا تلطف حسینؒ عظیم آبادی (م1334ھ)کے اہتمام سے شائع ہوئی اس کے حاشیہ پر حافظ عبد العظیم منذری (م656ھ )کا تلخیص السنن اور علامہ ابن القیم (م751ھ)کی تہذیب السنن بھی شائع ہوئی ۔
2۔عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد(عربی) :
عون المعبود سنن ابی داؤد کی شرح ہے :اور 4جلدوں میں ہے یہ شرح غایتہ المقصود کا اختصار ہے مولانا شمس الحق مرحوم نے اس شرح کی تصنیف کے وقت سنن ابی داؤد کے 11نسخے اپنے پیش نظر رکھے جن میں 3مطبوع تھے اور 8غیر مطبوع ،اور ان 11نسخوں کا مقابلہ کر کے آپ نے سنن ابی داؤد کا ایک صحیح نسخہ تیار کیا اس کے علاوہ آپ نے حافظ مذی (742ھ)کی تحفۃ الاشراف ۔حافظ منذری (م756ھ)کی تلخیص سنن ابی داؤد امام ابو سلیمان خطابی (م388ھ)کی معالم السنن اور علامہ ابن اثیر جزری (م602ھ)کی جامع الاصول کو بھی پیش نظر رکھا ۔
مولانا شمس الحق مرحومؒ نے اس کی تالیف کے وقت ایک علمی بورڈ تشکیل دیا جس کے ارکان یہ تھے :
"مولانا اشرف الحق ڈیانوی (م1326ھ)مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری (م1353ھ)مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی (م1960مولانا عبد الجبار ڈیانوی مرحوم مولانا قاضی یوسف حسین خان پوری (م1353ھ)اور مولانا ابو یحییٰ محمد شاہجہان پوری (م1328ھ) یہ سب حضرات مولانا شمس الحق مرحوم کے معاون تھے، اور ان سب سے مولانا مرحوم نے اُن کی علمی استعداد کے مطابق کا م لیا ،مگر سب سے زیادہ اعتماد آپ کو مولیٰنا عبدالرحمٰن مبارک پوری (م1253ھ)پر تھا مولانا مبارک پوری مرحوم 4سال تک ڈیانواں میں مقیم رہے عون المعبود فاتیہ المقصود کی اہم خصوصیات آگئی ہیں دونوں میں محض رجال و تفصیل کا فرق ہے بعض مقامات پر بڑے طویل مباحث آگئے ہیں عون المعبود میں سنن ابی داؤد کی اسنیدومتون کی مشکلات کو حل کیا گیا ہے اور آپ کی یہ شرح نادر تحقیقات اور علمی نکات پر مشتمل ہے اور اس میں بیشمار لطیف و رفیق مسائل و مباحث کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ،
عون المعبود مختصر ہو نے کے باوجود بیشمار علمی نکات و فوائد پر مشتمل ہے علامہ محمد منیر ومشقی (م1269ھ)لکھتے ہیں :
"كل من جاء بعده من شيوخ الهند وغيره استمدوا من شرحه"
"مصنف کے بعد ہند و بیرون ہند کے تمام علماء نے اس شرح سے استفادہ کیا ہے ۔"
عون المعبود کی پہلی تین جلدیں 1318ھ/1901ءاور چوتھی جلد 1323ھ/1905ءمیں مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئیں ۔صفحات کی مجموعی تعداد 1900ہے چوتھی جلدکے آخر میں مولانا محمد بشیر سہوانی (م1326ھ) مولانا حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی (م1334ھ)اور علامہ حسین بن محسن انصاری یمانی (م1327ھ)کی تقاریظ بھی شامل ہیں ۔
3۔التعلیق المغنی علیٰ سنن الدارقطنی (عربی)
"سنن دارقطنی امام ابو الحسن علی بن عمر دار قطنی (م385ھ)کی تصنیف ہے صحاح ستہ کے بعد حدیث کی کتابیں شہرت و قبول اور شوق واعتبار سے ممتاز اور اہم مانی جا تی ہیں اُن میں سنن دارقطنی بھی شامل ہے۔
مولانا شمس الحق ڈیانوی مرحوم نے" التعلیق الغنی "کے نام سے سنن دارقطنی کی مختصر شرح اور تعلیق لکھی ۔
مولانا شمس الحق مرحوم لکھتے ہیں ۔
"اكتفى فيها على تنقيح بعض احاديثه وبيان علله وكشف بعض مطالبه على سبيل الايجاد والاختصار"
"میں اس میں بعض حدیثوں پر تنقید کر کے ان کی علتیں بیان کروں گا ۔اور مختصراً بعض کے مطالب بھی بیان کروں گا ۔چنانچہ مولانا شمس الحق مرحوم نے اس میں حدیثوں کی تحقیق و تنقید ان کے عللوصالح مطالب اور بعض مشکل مقامات کو حل کیا ہے اس کے علاوہ آپ نے ائمہ فقہ و اجتہاد کے مذاہب و مسالک راوی کے ناموں کنیتوں اور بلادواماکن کی وضاحت بھی کی ہے اور آپ نے لغوی و تفسیری مباحث پر بھی روشنی ڈالی ہے شروع میں آپ نے امام دارقطنی کا تعارف بھی کرا یا ہے "التعلیق المغنی "پہلی بار 1310ھ،1893ءمیں مطبع انصاری دہلی سے 554صفحات پر شائع ہوئی
4۔التعلیقات علی اسعاف المبطا ء برجال الموطا (عربی)
مؤطا امام مالک ؒ حدیث کی مشہور کتاب ہے اور اس کو "اول الکتب " کے نام سے یاد کیا جا تا ہے مؤطا امام مالکؒ کی مقبولیت اور ہر دلعزیز ی کا یہ عالم ہے کہ اس کو شارحین ومحشین کی ایک بڑی جماعت ہاتھ آئی ۔علامہ جلال الدین سیوطیؒ (م911ھ)نے مؤطا کے رجال کو جمع کیا اور اسعاف المؤطا کے نام سے ایک علمی کتاب تصنیف کی مولانا شمس الحق مرحوم ڈیانوی نے اس پر مختصراور مفید تعلیق لکھی اور اس میں مفید علمی اضافے بھی کئے ہیں اور ضبط اسماء وکنی اور القاب میں جہاں علامہ سیوطی سے تسا محات ہو ئے ہیں حواشی میں اُن کی تصحیح کی ہے ،یہ کتاب 1320ھ میں مطبع انصاری دہلی سے 50بڑے صفحات پر شائع ہوئی ۔
غیر مطبوعہ تصنیفات:
مولانا شمس الحق مرحوم ڈیانوی کی درج ذیل کتابیں جو آپ نے خدمت حدیث کے سلسلہ میں لکھیں ۔طبع نہیں ہو سکیں ۔ ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔
1۔فضل الباری شرح ثلاثیات البخاری (عربی)
مولانا شمس الحق مرحوم نے اس کتاب میں ان روایات کی تشریح کی ہے ،جن کو امام بخاری نے تین واسطوں سے ذکر کیا ہے حدیث کی الطلاح میں ان کو ثلاثیات کہاجا تا ہے ان کی تعداد مکر رات کے لحاظ سے 22اور بغیر تکرار کے 17ہے مولانا مرحوم کی یہ کتاب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی
2۔النجم الوحاج شرح مقدمہ الصحیح المسلم بن الحجاج (عربی)
کتب حدیث میں صحیح مسلم کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور اس کتا ب کو یہ شرف حاصل ہے کہ ہمیشہ اس کا نا م صحیح بخاری کے ساتھ لیا جا تا ہے امام مسلم (م261ھ)نے شروع میں ایک علمی و تحقیقی مقدمہ لکھا ہے جس میں جرح و تعدیل اور اصول حدیث کے بہترین علمی نکا ت بیان فر ما ئے ہیں مولانا ڈیانوی مرحوم نے "النجم الوہاج" کے نام سے اس کی شرح لکھی ہے مگر افسوس یہ علمی طبع نہیں ہو سکی اس کا قلمی نسخہ خدابخش لائبیری پٹنہ میں مو جو د ہے
3۔ہدا یۃ اللوذی بنکات الترمذی (عربی)
مولانا شمس الحق مرحوم نے اس کتاب میں جا مع الترمذی کے مشکل مقامات کی تشریح و تفصیل بیان فر ما ئی ہے درصال آپ کی یہ کتاب ایک علمی مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہے جس طرح آپ نے "غایۃ المقصود اور التعلیق المغنی" کے شروع میں طویل علمی وتحقیقی مقدمے لکھے تھے مولانا ڈیانوی مرحوم نے اپنی اس علمی کتاب کو سات فصلوں میں تقسیم کیا ہے ۔
(1)تراجم الامام الترمذی (2)فی الحال کتاب الجامع (3) فی فوائد شتی (4)تراجم شیوخ ترمذی (5)ذکر شروح جامع الترمذی (6)ترجمہ شیوخی الی المؤلف اخذت عنہم ہذالکتاب (7)اسناد الکتب عن رای المحدث ای المؤلف الترمذی ۔ مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری (م1353ھ)نے اپنے تصنیف مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں اس کتاب سے اتفعادہ کیا تھا اور ایک طویل اقتباس ابو عیسیٰ کنیت رکھنے کے جواز میں اس سے نقل کیا ہے ۔
4۔تعلیقات علیٰ سنن النسائی (عربی)
اس میں سنن نسائی کی بعض مشکلات کو حل کیا گیا ہے ۔
5۔جوابات الزامات الدارقطنی علی الصحیحین (عربی)
امام ابوالحسن دارقطنی (م385ھ) نے "کتاب الالزامات "اور"النتبع "کے نام سے لکھیں جن میں صحیحین (بخاری ومسلم ) پر بعض اعتراضات کئے ائمہ حدیث نے امام دارقطنی کے الزمات کے جواب دیئے ہیں ،
امام نووی (م676ھ)نے مقدمہ صحیح مسلم" اور حافظ ابن حجر (م752ھ) نے مقدمہ "فتح الباری " میں ان الزمات کا تفصیل سے جا ئز ہ لیا ہے مولانا شمس الحق مرحوم نے اس کتاب میں اما م دارقطنی کے الزامات واستدراک کا جواب دیا ہے ۔مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (م1369ھ)لکھتے ہیں کہ:
"مولانا شمس الحق ڈیانوی مرحوم نے امام دارقطنی کی کتاب "الزامات "اور"النتبع"پر جو استدراک لکھا ہے وہ قابل دیدا ور لا ئق مطالعہ ہے۔
مراجع ومصادر:
الریح العقیم محسم بناء عمرکریم ۔۔۔۔مولانا ابو اقاسم سیف بنارسی (م1369ھ)
النموذج من الاعمال الخیر یہ۔۔۔۔علامہ محمد منیر دمشقی (م1269ھ)
التعلیق المغنی علی السنن دارقطنی ۔۔۔۔مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی (م1369ھ)
الامرالمبر م۔۔۔۔۔۔مولاناابو القاسم سیف بنارسی (م1269ھ)
الحیاۃ بعد المماۃ ۔۔۔۔۔مولانا فضل حسین مظفر پوری (م1335ھ)
تراجم علمائے حدیث ہند ۔۔۔۔۔مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہری وی (م1966ء)
تذکرۃالمحدثین ۔۔۔۔۔۔مولانا ضیاء الدین صلاحی ایڈیٹر معارف اعظم گڑھ
حل مشکلات بخاری ۔۔۔۔۔۔مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (م1369ء)
حیات عبدالحیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا سید ابولحسن علی ندوی
حیات المحدث ۔۔۔۔۔۔مولانا محمد عزیز سلقی بہاری
سیرت البخاری ۔۔۔۔۔مولانا عبد السلام مبارک پوری (م1342ھ)
عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد ۔۔۔مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی (1339ھ)
غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ۔۔۔۔۔۔۔۔
مقالات شبلی ۔۔۔۔۔۔۔مولاناشبلی نعمانی (م1332ھ)
مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ۔۔۔۔۔۔مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری (م353)
نزہۃ الخواطر ۔۔۔۔۔۔۔مولاناسید عبد الحیٰ الحسنی (م1341ھ)
ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمت ۔۔۔۔۔مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی (م1966ء)
الفرقان لکھنؤ (شاہ ولی اللہ نمبر )۔۔۔مولانا محمد منظور نعمانی
اہلحدیث امرتسر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ثناء اللہ امرتسری (م1368ھ)
28/اپریل 1911ء۔۔۔۔۔۔۔31اکتوبر 1919ء
31اکتوبر 1914ء۔۔۔۔۔۔۔۔اپریل291923ء،
حوالہ جات
1۔ہندو ستا ن میں اہلحدیث کی علمی خدمات ص720،
2۔حیات عبد الحی ص70،79طبع کراچی ۔
3۔تراجم علما ئے حدیث ہند ج1ص36طبع دہلی
4۔اہلحدیث امرتسر31اکتوبر 1919ءص8،
5۔مقدمہ غایتہ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ص18۔10،
6۔حیات اہلحدیث ص262،
7۔اہلحدیث امرتسر 29اپریل 1923ءص11،
8۔نزہتہ الخواطرج8ص179،
9۔حیات اہلدیث ص28،
10۔اہلحدیث امرتسر 29،اپریل 1923ھ)ص11،
11۔حیات اہلحدیث 89،
12۔مقالات شبلی ج8 ص 11،
13۔الفرقان لکھنؤ شاہ ولی اللہ نمبر ص286۔
14۔اہلحدیث امرتسر28اپریل1911ءص4،
15۔اہلحدیث امرتسر31اکتوبر1919ءص9،
16۔الحیاۃ بعد الماۃ ص124،
17۔نزہتہ الخوا طرج8ص 179،
18۔الامرالمبرم ص 121،
19۔ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ص25،تذکرۃ المحدثین ج1ص301،
20۔تراجم علمائے اہلحدیث ہند ج1عون المعبود ج4ص553،
21۔عون المعبود ج1ص7،
22۔تقریظات عون المعبود ج4،
23۔تذکرہ محدثین ج2ص112،
24۔حیات المحدث ص90،
25۔سیرۃ البخاری ص247،
،حیات المحدث ص89سیرت البخاری ص414اہلحدیث امرتسر 31اکتوبر 1914ءہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ص44،
26۔سیرۃ البخاری ص428،
27۔مقد مۃ تحفۃ الاحوذی ص170،
28۔سیرۃ البخاری ص437،
29۔الریح القیم محسم بناء عمر کریمص21حل مشکلات بخاری ج1ص54،