ترجمان القرآن

سورۃا لفا تحہ


نام:

حدیث ابوہریر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آیا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا

﴿ الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿٢﴾... سورةالفاتحة

اُم القرآن ام الکتاب سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے ۔ اس کو فاتحہ اس لیے کہتے ہیں کہ کتابت میں ترتیب کے اعتبار سے قرآن میں سب سے پہلے یہی سورت آتی ہے نماز کی قرات بھی اسی سے شروع ہو تی ہے اس سورۃ کو "سورۃ حمد "بھی کہتے ہیں ایک نام "صلوٰۃ "بھی ہے حدیث قدسی میں ہے۔

"قسمت الصلاة بينى ونين عيدى نصفين"

"میں نے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نماز (سورۃفاتحہ) کو دوحصوںمیں تقسیم کر دیا ہے ۔"

اس حدیث میں صلوٰۃ سے مراد یہی سورۃ مبارک ہے اس لئے کہ یہ سورۃ نماز کی شرط ہے اس کی تلا وت کے بغیر نماز نہیں ہو تی ۔اس کا ایک نام "شفا ء "بھی ہے حدیث ابی سعید میں مرفوعاً اور تقریباً اسی طرح دارمی میں بھی آیا ہے ۔"فاتحہ الکتاب ہر زہر سے شفاء ہے۔دوسری روایت میں اس کو "رقية" فر ما یا ہے ایک شخص نے ایک سانپ کے کا ٹے ہو ئے پر اس کو پڑھنا تھا ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا تجھے کیسے معلوم ہوا کہ یہ "رقبہ "(زہر کا علا ج )ہے ؟

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو " اساس القرآن "کہا کرتے تھے ۔

"بسم الله الرحمن الرحيم"

کو "اساس الفاتحہ " بتلاتے تھے ۔

یہ سورۃ مکۃالمکرمہ میں اتری ۔بعض صحابہ کرا م رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا کہ یہ سورۃ دوبار نازل ہوئی ایک بار مکۃ الکرمہ میں اور دوسری با ر مدینہ منورہ میں ۔بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ آدھی مکہ میں نازل اور آدھی مدینہ میں نازل ہوئی ۔پہلا قول زیادہ صحیح ہے اسی قول کو بغویؒ اور بیضادیؒ نے صحیح تر قرار دیا سب سورتوں کے نام اور سب سورتوں اور آیتوں کی تر تیب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح منقول ہے جس طرح آج کل قرآن مجید میں ہے ۔

"سورۃ "قرآن مجید کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں ۔کبھی کسی سورۃ کا ایک ہی نام ہو تا ہے اور کبھی اس کے کئی نام ہو تے ہیں جیسے سورۃ فاتحہ کے بہت سے نام ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے مصحف میں سورتوں کے نام نہیں لکھے تھے یہ ایجاد حجاج نے کی ہے سورۃ فاتحہ میں پچیس کلمے اور ایک سوتیرہ حروف ہیں ،

فضا ئل :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سعید بن معلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فر مایا کہ میں تجھے مسجد سے باہر جا نے سے پہلے قرآن کی ایک بہت بڑی سورۃ سکھاؤں گا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سورۃ فاتحہ سکھائی اور فر مایا :

" یہی "وہ سبع المثانی اور قرآن عظیم " ہے جو مجھے دیا گیا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فر ما یا :کیا تو چاہتا ہے کہ میں تجھے ایک ایسی سورۃ سکھادوں جو نہ تو رات وا نجیل میں ہے نہ زبور و فرقان میں پھر فر ما یا وہ یہی سورۃ فاتحہ ہے ۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے حدیث عبد اللہ بن جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اسے بڑی خیر والی سورۃ قرار دیا ہے ۔ اگرچہ یو ں سارا ہی اللہ کا کلام فضیلت والا ہے بلکہ "نور على نور"ہے لیکن اکثر علماء نے یہی کہا ہے کہ بعض سورتوں کو بعض پر فضیلت حاصل ہے ۔

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے کہ جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و نا تمام رہی ۔کسی نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ ہم تو امام کے پیچھے ہو تے ہیں ۔تو حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم اپنے جی میں پڑھو ۔میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فر ما تے سنا ہے ۔

"اللہ عز و جل کہتا ہے میں نے سورۃ فاتحہ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دونصف نصف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔"

میرے بندے کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے مانگا جب اُس نے کہا ۔﴿ الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿٢﴾... سورةالفاتحة

"اللہ نے فر ما یا میرے بندے نے میری تعریف کی جب کہا ۔﴿لرَّحمـٰنِ الرَّحيمِ ﴿٣اللہ نے فر ما یا میرے بندے نے میری ثناء کی جب ۔﴿ مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ ﴿٤ فر ما یا میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ اور کبھی یوں فر ما یا میرے بندے نے اپنے آپ کو میرے سپرد کردیا جب کہا "﴿إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ ﴿٥ فرما یایہ میرے اور میرے بندے کے درمیان "عہد" ہے اور بندے کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے مانگا ۔جب کہا ،﴿اهدِنَا الصِّر‌ٰطَ المُستَقيمَ ﴿٦ فر ما یا ،یہ میرے بندے کے لیے ہے اور بندے کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے مانگا ۔ ترمذی ؒ نے اسے صحیح ٹھہرا یا ہے اور نسائی کے الفاظ یوں ہیں "آدھی سورت میرے لیے اور آدھی میرے بندے کے لیے ۔"اور بندے کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے مانگا ۔ابو زرعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس روایت کو صحیح کہا ۔امام احمد ؒ اس کے راوی ہیں ۔ حدیث ابی سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سعید بن منصور رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بیہقی ؒ کے ہاں اس سورۃ کو ہر بیماری کے لیے شفاء کہا ہے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں دارمی ؒ اور بیہقی ؒ کے ہاں ہر بیماری کی دوافر ما یا ہے ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیؑل تشریف رکھتے تھے۔کہ اچانک اوپر سے ایک آواز سنائی دی ۔جبرائیلؑنے آسمان کی طرف آنکھ اٹھا کر کہا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج تک پہلے کبھی نہ کھلا تھا اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دو نوروں کی بشارت ہو جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے اور اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے ۔ایک "فاتحہ الکتاب "دوسرا "خواتیم سروۃ بقرہ (آخری آیات ) ان کا جو حرف بھی آپ پڑھیں گے تو وہ نور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جا ئے گا ۔

مسائل:

امام ابو حنیفہ ؒ کا مذہب یہ ہے کہ نماز میں سورۃ کا پڑھنا کچھ متعین (ضروری نہیں ہے بلکہ جو آدمی قرآن مجید سے جس جگہ سے بھی کچھ پڑھے گا تو نماز ہو جا تی ہے باقی تین آئمہ کرام اور جمہور علماء کے نزدیک اس سورٹ کا پڑھنا لا زمی ہے اور اس کی تلا وت کے بغیر نماز نہیں ہو تی ،اس لیے حدیث عبادہ بن الصامت میں مرفوعاً آیا ہے :

"اس شخص کی نما ز نہیں ہو تی جس نے فاتحہ نہ پڑھی ۔" حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ: "جس نماز میں " ام القرآن نہ پڑھی گئی ہو وہ نماز مکمل نہیں ہو تی ۔

اس کو ابن خزیمہ ؒ اور ابن حبان ؒ نے اپنی صحیح میں بھی روایت کیا ہے ۔ابن کثیر ؒ کہتے ہیں اس باب میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں یہی مذہب ظاہر سنت کے عین موافق ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقتدی بھی سورۃ فاتحہ پڑھے ورنہ اس کی نماز بھی ادا نہ ہو گی اس مسئلہ میں اگر چہ دو تین قول ہیں مگر صحیح قول یہی ہے کہ مقتدی پر بھی سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اس قول کی دلیلیں بہت صحیح اور صاف ہیں جو لو گ واجب نہیں سمجھتے اُن کی دلیلیں قوی اور غالب نہیں بلکہ ضعیف اور حنیف ہیں ۔

استعاذہ:

جمہور علما ء کے نزدیک قرات (تلاوت ) سے پہلے ۔"اعوذ بالله من الشيطان الرجيم"پڑھنا سنت ہے ۔دلیل یہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا : ﴿ فَإِذا قَرَأتَ القُرءانَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطـٰنِ الرَّجيمِ ﴿٩٨﴾... سورةالنحل

"اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیاطین مردود سے پنا ہ مانگ لیا کرو ۔"

اس قرار میں بندے کی طرف سے اس کے ضعف اور عجز کا قرار ہے اور اللہ تعا لیٰ کے تکا لیف کو دور کرنے پر قدرت کا اظہار بھی ہے،ابن کثیرؒ نے کہا ہے "استعاذہ "کے لطائف میں سے ایک یہ با ت ہے کہ اس کے ذریعے سے منہ پا ک ہو جا تا ہے جو "لغو"اور "رفث "منہ سے نکلتا ہے اس سے طہارت حاصل ہو جا تی ہے ۔مطلق استعاذہ کا حکم قرآن مجید میں صرف تین جگہوں پر آیا ہے :

﴿ وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطـٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٢٠٠﴾... سورةالاعراف"اور اگر شیطان کی طرف سے تمھا راے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہو تو اللہ سے پناہ مانگو بیشک وہ سننے والا اور سب کچھ جا ننے والا ہے ۔"

﴿ وَقُل رَبِّ أَعوذُ بِكَ مِن هَمَز‌ٰتِ الشَّيـٰطينِ ﴿٩٧ وَأَعوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحضُرونِ ﴿٩٨ ... سورة المؤمنون

"اور کہو کہ اے پروردیگا ر میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے پروردیگار اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آموجود ہو ں ۔"تیسری جگہ بھا ئے "انه سميع عليم" کے"انه هو السميع العليم

فر ما یا ۔اس معنی میں کو ئی چوتھی آیت نہیں آئی اس اختلا ف میں کہ اسعاذے کے لیے کو نسا لفظ پسند یدہ ہے کچھ فائدہ نہیں جو لفظ قرآن پاک اور حدیث میں آچکا ہے کفایت کرتا ہے ۔ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نما ز کے لیے اٹھتے تو فرماتے :

"اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه"

اہل سنن نے اس کو روایت کیا ہے ۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روا یت میں یو ں آیا ہے :" اعوذ بالله من الشيطان الرجيم"

دوسری روایت میں الفاظ یو ں ہیں :

"اللهم انى اعوذبك من الشيطان الرجيم"

ایک اثر ضعیف و منقطع میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے "استعيذ بالله السيمع العليم من الشيطان الرجيم"

کے الفاظ آئے ہیں ۔

غرض لفظ سے کو ئی اَعُوذُ کہے گا کفایت کرتا ہے خواہ اُونچی آواز سے یا چپکے پڑھے ۔

شیطان :

شیطان اسے کہتے ہیں جس کی طبیعت بشر کی طبیعت سے دور ہو،اپنے فسق و فجور کے سبب ہر نیکی سے بے نیاز ہو ۔پھر ہر متمر د سرکش کو خواہ وہ جن ہو یا انسان یا کو ئی حیوان "شیطان "کہتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے فر ما یا:

﴿ وَكَذ‌ٰلِكَ جَعَلنا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيـٰطينَ الإِنسِ وَالجِنِّ يوحى بَعضُهُم إِلىٰ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا... ﴿١١٢﴾... سورةالأنعام

اور اسی طرح ہم نے شیطان سیرت انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا وہ دھو کا دینے کے لیے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے رہتے تھے ۔"

معلوم ہوا شیطانوں کا کا م یہ ہے کہ فریب دینے کے لیے جھوٹی باتیں گھڑکر ایک دوسرے سے کہتے ہیں ۔مسند احمدؒ میں ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :"اے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !اُلو جن وانس کے شیاطین سے اللہ کی پناہ مانگ ۔"انھوں نے عرض کیا کہ کیا انسانوں میں بھی شیاطین ہو تے ہیں "؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"ہاں ۔"

مسلم شریف میں ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری روایت ہے جس میں کا لے کتے کو شیطان فر ما یا ہے ۔"رجيم" کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ لو گو ں کو اپنی وسوسہ اندازی سے "رجيم " کرتا ہے فاسد خیالات کے جال میں پھانستا ہے ۔دوسرا یہ کہ وہ خود خیر سے مطرود ،مردود اور مرجوم ہے جس طرح اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا :

﴿وَجَعَلنـٰها رُجومًا لِلشَّيـٰطينِ ... ﴿٥﴾... سورةالملك"اور ان کو شیطان کے مارنے کا آلہ بنایا ۔ (جاری ہے)


حوالہ جات

1۔روا ہ الترمزی

2۔بخاری ۔احمد

3۔ابوداؤد نسائی

4۔احمد نسائی

5۔مسلم ،نسائی ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے ۔

6۔مسلم نسائی

7۔بخاری مسلمtarjman-ul-quaran