فتنہ انکار حدیث کے جدید رُوپ

الحمد لله وحده والصلاة والسلام عى من لا نبى بعده، اما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم

﴿إِنَّ الَّذينَ يَكفُرونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُريدونَ أَن يُفَرِّقوا بَينَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقولونَ نُؤمِنُ بِبَعضٍ وَنَكفُرُ بِبَعضٍ وَيُريدونَ أَن يَتَّخِذوا بَينَ ذ‌ٰلِكَ سَبيلًا ﴿١٥٠﴾ أُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِرونَ حَقًّا وَأَعتَدنا لِلكـٰفِرينَ عَذابًا مُهينًا ﴿١٥١﴾ وَالَّذينَ ءامَنوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَم يُفَرِّقوا بَينَ أَحَدٍ مِنهُم أُولـٰئِكَ سَوفَ يُؤتيهِم أُجورَهُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿١٥٢﴾... سورة النساء

ترجمہ : جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور رسولوں کے درمیان فرق ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں ۔بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور اپنے طور پر درمیان کی اک راہ نکالنی چاہتے ہیں ۔وہ بلا شبہ کافر ہیں اور کافروں کےلیے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔اور جو لو گ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ان میں سے کسی میں فرق نہ کیا (یعنی سب کو تسلیم کیا ) ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان کی نیکیوں کے صلے عطا فر مائے گا ۔اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

جس کلمہ سے کو ئی شخص "کفر" سے " اسلام "میں داخل ہو جا تا ہے وہ

لا اله الا الله محمد رسول الله

ہے جس کا سادہ سا مفہوم اللہ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ہے ۔ بلاغت کا یہ قاعدہ ہے کہ جب دوجملوں میں مغوی اتصال کا مل ہو تو حرف عطف نہیں لا تے ۔چنانچہ کلمہ طیبہ کے دونوں جملوں میں اسی مغوی اتصال کی بناء پر ۔

" لا اله الا الله محمد رسول الله "

کے درمیان "داؤد"وغیرہ نہیں ہے۔ کیونکہ توحید سے مراداگر صرف اللہ کی عبادت ہے تو رسالت (محمدیہ) سے مراد عبادت کا وہی پیغام اور طریق کا ہے ۔جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ امت کو حاصل ہوا ۔۔۔ یہی مغوی ربط کلام حق کی جان ہے ۔چنانچہ متشرقین اور ان کی مغوی اولاد کی یہی کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تفریق پیدا کریں ۔اگرچہ اب اس تفریق کے لیے سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ نئے سے نئے حربے اختیار کیے جا رہے ہیں ۔۔۔تاہم یہ فتنہ بہت پُرانا ہے۔ جس کا خلاصہ قرآن کریم کی مذکوہ بالا تین آیات میں بیان ہوا ہے۔

ایسے فتنہ کے جدید رُوپوں کے انکشاف کے لیے ان آیات میں در پیش کردہ "تفریق "کی وضاحت ضروری ہے ۔لیکن اس سے قبل "اتصال کامل" کی بجائے "اتحاد کامل" کے افراط والے پہلو کا ذکر مناسب ہو گا ۔کہ ایک نام نہاد "نابغہ عصر" نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی حاکمیت ۔SOVERIGNTYمیں شریک (حصہ دار) بنا دیا ہے۔ جبکہ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے ۔﴿وَلا يُشرِكُ فى حُكمِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾... سورةالكهف

اللہ کسی کو اپنی حاکمیت میں حصہ دار نہیں بناتا ۔حاکمیت کی سیاسی اصطلاح دین میں توحید کے نام سے معروف ہے ۔گویا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تفریق کا مقصد یہ نہیں ہو سکتا کہ دونوں کو ذات و صفات یا حاکمیت وغیرہ میں ایک قرار دیا جا ئے ۔جیسے کہ بعض مفتریوں کا یہ کہنا ہے ۔

وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر!
اتر پڑا مدینہ میں مصطفیٰ ہو کر!


مذکورہ بالاآیات میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جس تفریق کی مذمت ہو رہی ہے وہ اطاعت میں تفریق نہیں ہونی چاہیے ۔یہی معنی ہے اس ارشاد الٰہی کا کہ ۔ ﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ... ﴿٨٠﴾... سورة النساء

جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی ۔قرآن مجید میں اطاعت کے مسئلہ میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو کامل ہم آہنگی جا بجا پیش ہوئی ہے اس کی تشریح حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یوں وارد ہے ۔

«الا وانى اوتيت القرآن ومثله ومعه»

ترجمہ :خبردار !بے شک مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دی گئی ہے۔"

حاصل یہ کہ قرآن و حدیث باہم اس طرح مربوط ہیں کہ ان کو جُدا کرنا ایک فتنہ ہے۔کیونکہ دونوں وحی ہیں اور یہ وحی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے۔ جس طرح قرآن اتراہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ہمارے لیے اللہ کا "کلام " ہے اسی طرح حدیث جو اخلاق و کردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اللہ کی نگرانی و عصمت میں اُمت کے لیے پیش ہوئی ہے ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے کہنے پر اللہ کی "مراد" ہے گویا ایک قرآن مدینہ میں اترتا تھا اور ایک مدینہ منورہ کی گلیوں میں چلتا پھرتا تھا۔لہٰذا دین کی جس بات کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جا ئے وہ وحی ہوتی ہے اس کی مخالفت قرآنی وحی کی مخالفت کی طرح ہوتی ہے۔اور یہی وہ فتنہ ہے جس سے آگاہی ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿فَليَحذَرِ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِهِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾... سورة النور

ترجمہ جولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ چھوڑ کر چلتے میں ان کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جا ئیں یاان پر تکلیف دینے والا عذاب نازل ہوجائے

واضح رہے کہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اطاعت میں تفریق کا فتنہ ہر دور میں روپ بدلتا رہا ہے ۔چونکہ قرآن کے الفاظ میں تحریف کا فتنہ عربوں میں منہ کی کھا چکا ہے اس لیے عجمیوں میں اس کا بنیادی بگاڑ قرآن کی من مانی تاویل وتعبیرہے جودراصل منصب رسالت کا ایک طرح کا انکارہے ۔

برصغیر میں اس فتنہ کا پہلاروپ اکبر کا "دین الٰہی "تھا چونکہ وہ حکومت کی قوت کی وجہ سے دین کی جبری تعبیر کی صورت میں تھا اس لیے وہ قوت میں اضملال کے ساتھ ہی نیچے آگرا لیکن ۔«الناس على دين ملوكهم»

کے مقولے کے مطابق اس کے اثرات موجود رہے۔پاکستان میں مسٹر غلام احمد پرویز کا فکر اسی کی صدائے باز گشت ہے جیسے مسٹر پرویز نے "تجدید رسالت " کے طور پر حکومت وقت کو "مرکزی اتھارٹی "قرار دے کر لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے پروردہ لوگوں میں پھیلا کر ناموری حاصل کی ۔

جبکہ تحریک آزادی ہند کے دوران مرزا غلام قادیانی نے "تجدید نبوت "کا من گھڑت تصور پیش کرکے خود مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا وہ بھی اسلام کی تعبیر نوہی کا چکر تھا ۔

لہٰذا اس فتنہ کا جدید روپ "تعبیر نو"کے نام پر ہے مگر مرزا غلام احمد قادیانی کی جرات کی داد دینی ہو گی کہ اس نے علمائے دین کے رُو بُرو سب کچھ سنا سنایا اور خود بھی جی بھر کر اُمت مسلمہ کو گا لیاں دیں ۔تا ہم دین و شریعت کی تعبیر کا اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھینا نہیں خواہ تعبیر نو کے لیے اُسے خودنبوت ورسالت کا دعویٰ کرنا پڑا ہو۔لیکن تعبیر نو کے دوسرے رُوپوں میں یہ جرات نہیں کہ وہ نبوت ورسالت کا دعویٰ کریں ۔اگرچہ جس انداز پر وہ قرآن کی من مانی تعبیروں پر حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی "سنت "کو اپنی خواہشات کی بھنیٹ چڑھا رہے ہیں وہ اس سے بھی بڑی جسارت ہے۔

اس فتنہ کا صل نکتہ "تعبیر "ہے جس کے مترادف "بیان "تبیین "اور "تبیان "کے الفاظ قرآن میں استعمال ہو ئے ہیں ۔یہ صرف اور صرف نبی کا منصب ہے کہ وہ قرآن کی تعبیر کرے کیونکہ حتمی مراد الٰہی کا اسے ہی علم ہو تا ہے ۔باقی رہی اُمت تو اس کا کام عمل کے لیے اللہ کا کلام جس کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث سے متعین ہو چکی ہے کا صرف فہم ہے تعبیر دین نہیں ۔علمائے دین جو غیر منصوص مسائل میں شریعت کی منشاء کی تسریح وتطبیق کرتے ہیں اس کا تعلق "اجتہاد "سے ہے وہ اس وقت زیر بحث نہیں بلکہ اُمت میں مختلف تعبیروں کا جو چکر چلا ہے اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن سے سنت وحدیث کا تعلق بیان کا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے۔

﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم...﴿٤٤﴾... سورةالنحل

اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کتاب نازل کی تاکہ جو ارشادات لوگوں پر تدریج سے نازل ہو رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنے اقوال و کردار سے کھول کربیان کرتے ہیں ،

علماء کے اجتہادات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کا اساسی فر ق یہ ہے کہ اجتہاد میں خطاء وصواب دونوں کا احتمال ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان وحی ہوتا ہے ۔اور علماء کے اجتہادات وحی نہیں ہوتے ،یہی وجہ ہے کہ جس طرح تلاوت قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعا لیٰ پر ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان وتعبیر کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے ۔

﴿إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُرءانَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذا قَرَأنـٰهُ فَاتَّبِع قُرءانَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ﴿١٩﴾... سورةالقيامة

بے شک اس قرآن کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمے ہے جب ہم جب ہم اسے پڑھا کریں تو تم اس کی تلاوت کا پیچھا کرو پھر اس کا بیان یعنی معا نی تفصیل پیش کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے۔اسی بنا ءپر اجتہاد میں اختلاف ہو سکتا ہے ائمہ دین کے اختلافات اس پر شاہد ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کا نہ اختلاف داخلی ممکن ہے اور نہ خارجی یعنی صحیح حدیث سنت ثابتہ سے ٹکرا سکتی ہے نہ قرآن معارض ہو سکتی ہے ۔کیونکہ دونوں وحی ہیں قرآن کریم میں ہے۔

﴿وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيكَ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ ...﴿١١٣﴾... سورةالنساء

یعنی اللہ تعا لیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب وحکمت دونوں نازل فر ما ئی ہیں ۔

امام شافعیؒ نے "حکمت "کی تفسیر "سنت"سے کی ہے۔

مسٹر غلام احمد پرویز کی حدیث کو قرآن سے ٹکرانے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اس کے نزدیک وہ وحی نہیں لیکن جو لوگ الفاظ قرآن کےعلاوہ حدیث کو وحی مانتے ہیں اُن کی یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ وہ حدیث قرآن سے الگ کر کے پھر اس کو قرآن پر پیش کرتے ہیں یعنی ایک وحی کو دوسری وحی پر پیش کرتے ہیں کتنی تعجب انگیز ہے یہ بات کہ اللہ تعا لیٰ نے بیان قرآن (سنت وحدیث )کی ذمہ داری تو قبول کر لی لیکن اتنی اہم بات کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پرکھنے کے لیے قرآن پر پیش کرو اس کا ذکر کہیں قرآن میں نہیں کیا بلکہ قرآن کا سیاق اسے رد کرتا ہے :جب کہ

﴿أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم...﴿٥٩﴾... سورة النساء

"اے ایمان والو!اللہ اور اس کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرو۔ اور جو تم میں صاحب حکومت ہیں ان کی بھی۔ "

کہنے کے بعد اولی الام (حکام )سے اختلاف ونزاع کا ذکر کر کے اسے دور کرنے کا طریق خود بتا یا :

﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ...﴿٥٩﴾... سورة النساء

یعنی اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی طرف رجوع کرو حکام سے اختلاف ایک سیاسی معاملہ ہے اسے تو قرآن نے پیش کر دیا لیکن قرآن و حدیث (جو اصل دین اور وحی ہیں ) کے مابین اختلاف کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ دونوں کو برابر معیار ٹھہرا کر اختلافات کو ان پر پیش کرنے کا حکم دیا اسی طرح دوسری جگہ ہے:

﴿وَمَا اختَلَفتُم فيهِ مِن شَىءٍ فَحُكمُهُ إِلَى اللَّهِ...﴿١٠﴾... سورةالشورى

تم میں جو اخٹلاف پڑے ،اس کا فیصلہ اللہ کی وحی سے کرو افلاطونیت کے نئے دعویداروں کو غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ حدیث کے وحی ہونے کے قائل ہیں تو بڑا تعجب ہے کہ حدیث وحی ہو کر خود معیار نہیں بلکہ اس پر بھی قرآن حاکم ہے تو پھر ایسے معیار کو ذکر کرنے ہی کی اللہ تعا لیٰ کو کیا ضرورت تھی۔جس کو پھر کسی دوسرے معیار پر پرکھنا ضروری ہو ۔گو یا یہ محض ایک دھوکہ ہے یہ حدیث وسنت کو وحی یا معیار مانتے ہیں حالانکہ ان لو گوں کے نزدیک ان کی اپنی عقل معیار ہے جسے وہ قرآن کے نام پر پیش کرتے ہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی معیار سے جا نچتے ہیں ۔حالانکہ سنت وحدیث کی حیثیت قرآن کے بیان کی ہے ۔کسی بیان کو اجمال سے پرکھا نہیں کرتے ۔بلکہ مبین مجمل کی مراد ہو تی ہے یہی وجہ ہے کہ امام شافعیؒ قرآن کا حدیث سے نسخ مانتے ہیں نہ حدیث کا قرآن سے کیو نکہ دونوں کا تعلق اجمال و بیان کا ہے ۔ناسخ و منسوخ کا نہیں آپؒ ہی کا قول ہے ۔

"نزل القرآن جملة حتى بينها الرسول"

یعنی قرآن مجمل نازل ہوا ہے جس کی تبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے ۔

یہ بات نوٹ رہے کہ کس بھی فتنہ کو ابتداءمیں سہارے کی ضرورت ہو تی ہے چنانچہ عیسائیت کے مشہور مسلک "اشراق " 1کے دعویدار پہلے مولانا مودودی مرحوم کا سہارا لیتے رہے اور اب ائمہ محدثین پر تہمت لگا رہے ہیں کہ وہ بھی سنت وحدیث کو قرآن یا عقل پر پیش کرنے کا طریقہ اپناتے تھے حالانکہ انہیں چیلنج دیا گیا کہ وہ ایک حدیث ایسی دکھا دیں جسے محدثین نے سنداً صحیح کہہ کر قرآن پر پرکھا ہو اور پھر اس کے قرآن سے ٹکرا نے کی وجہ سے رد کر دیا ہو عقل کو اتھا رٹی قراردے کر صحیح حدیث کو اُس پر پیش کیا ہو اصحاب الحدیث کا متعزلہ اور جہمیہ کے مقابلہ میں مشہور مسلک ہے کہ وہ عقل پر شریعت کو حاکم بناتے ہیں بلکہ وہ اُسے عقل صریح مانتے ہی نہیں جو نقل صحیح کے موافق نہ ہو اسی مسلک کو ثابت کرنے کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے جسے اسلامی یونیورسٹی ریاض نے گیارہ ضخیم جلدوں میں شائع کیا ہے اس کا نا م ۔

"درء تعارض العقل والنقل يا موافقه صريح المعقول يصيحح المنقول"

دکھ اس بات کا ہے کہ فتنہ انکار حدیث کے جدید بہروپیے اب مرزا غلام احمدقادیانی کا یہ طریقہ کا ر اپنا رہے ہیں کہ اصطلاحات کے معنی بھی اپنی طرف سے گھڑ لیے جا ئیں تا کہ جب مشکل درپیش ہوتو کہہ دیا جا ئے کہ نبی و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد یہ ہے یا حدیث و سنت کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے وغیرہ وغیرہ مرزا غلام احمد قادیانی نے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مزعومہ وحی پر پیش کرنے کااصول اپنایا تو اُسے سنت وحدیث کی محدثانہ اصطلاحات کے نئے معانی تلاش کرنے پڑے ۔اسی طرح یہ بروپئےدعوی تو محدثین کے دفن کو ارتقاء دینے کا کرتے ہیں لیکن ان کی سنت وحدیث کی اصطلاحات کی تعریف خود گھڑتے ہیں حالانکہ ایک دفعہ اصطلاح مقررہونے کے بعد اس کے معانی بدلے نہیں جا سکتے اسی طرح فن کا ارتقاء اس فن کی مہارت کے بعد مزید بصیرت سے ہی ممکن ہے مگر جو شخص حدیث و رجال کی مبادیات سے بھی ناواقف ہو اور خود اس کا اعتراف بھی کرتا ہو وہ سارے محدثین کے طریق کار کے منافی ان جلیل القدر محدثین مالکؒ و بخاری ؒ کی تحقیق شدہ صحیح احادیث پر تیشہ زنی شروع کردے اسے جہالت کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟

فن طب کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں ہی ماہرین طب ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں ۔اگر کسی شخص نے طب میں مہارت تو حاصل نہ کی ہو محض اپنے قیاس سے طیببوں کی غلطیاں نکالنے بیٹھ جا ئے تو اس سے بڑی حماقت کیا ہو سکتی ہے محدثین جب تحقیق حدیث میں اختلاف کرتے ہیں تو وہ فن کے اصولوں کی روشنی میں اختلاف کرتے تھے جس پر وہ اہل علم سے داد تحسین حاصل کرتے تھے ۔ (عبد القدوس سلفی)


نوٹ:

1۔عیسا ئیوں میں " اشراق" ایک مکتب فکر ہے جس کا نقطہ نظر روحانیت کی عقلی تعبیر ہے لہٰذا وہ شریعت کی تعبیر عقل سے کرتے ہیں مسلمانوں میں "اخوان الصفاء " گروہ کو اسی مسلک کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے مو جو دہ افلاطونیت کے دعویدار اسی انداز پر آگے بڑھ رہے ہیں ۔