حدیث مصراۃ پر اعتراضات اوراس کے جوابات

حدیث مصراۃ اور ا بوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ :

ابو ہر یرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :

"لا تصروا الابل والغنم فمن ابتاعها بعد فانه بخير النظرين بعد ان يحلبها ان شاء امسك وان شاء ردها وصاح تمر"

ترجمہ: اونٹنی اور بھیڑ بکریوں کا دودھ روک کر نہ بیچو اگر کسی نے اسے خرید لیا تو دودھ دوہنے کے بعد اسے اختیار ہے چاہے رکھے یا اسے واپس کر دے اور ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے ۔

اعتراضات :

یہ حدیث قیاس کے خلا ف ہےاور غیر فقیہ کی خبر واحد ہے اسے متروک قرار دیا جا ئے گا ۔ ورنہ قیاس کا دروازہ بند ہو جا ئے گا ۔یہ حدیث ایک دوسری حدیث "الخراج بالضمان "کے خلا ف ہے جس سے واضح ہو تا ہے کہ چونکہ مضراۃ مشتری کی ضمان میں تھی لہٰذا دودھ بھی اسی کا یہ حدیث آیت ﴿وَإِن عاقَبتُم فَعاقِبوا بِمِثلِ ما عوقِبتُم ...﴿١٢٦﴾... سورةالنحل" کے خلاف ہے۔

جوابات :اولاً یہ حدیث صرف ایک صحابی سے مروی نہیں بلکہ اسے ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر دین عوف مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رجل مناصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی روایت کرتے ہیں اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس کے مطابق فتوی دیا ہے ۔چو نکہ عوضانہ دودھ میں ایک صاع کا تعین غیر قیاسی بات ہے اسی لیے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ مرفوع کے حکم میں ہے اب یہ کہنا کہ یہ غیر فقیہ (ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی روایت ہے ۔باطل ہے اس لیے کہ عیسیٰ بن ابان معتزلی اور اس کے خوشہ چینوں کے علاوہ اکا برامت باتفاق ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فقیہ ہو نا تسلیم کر چکے ہیں ۔ثانیاً حافظ ابن القیم ؒ لکھتے ہیں :بعض لو گ حدیث المصراۃ کو محض اس شبہ کی بناء پر رد کر دیتے ہیں کہ وہ اصول کے خلا ف ہے حالانکہ یہ باطل ہے کیونکہ صحیح حدیث شریعت کا ایک اصل ہے اس کا اصل کے منافی ہو نا بے معنی بات ہے امام ذہبیؒ فر ما تے ہیں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حفظ حدیث اور اداء حدیث میں سب سے فائق تھے انہوں نے حدیث المصراۃ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں روایت کی ہے ہم پر لا زم ہے کہ اس پر عمل کریں ۔اور یہ حدیث خود ایک اصل ہے اصل صرف دوہیں ۔اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سوا ہر چیز انہی کی طرف لو ٹائی جا ئے گی۔اس کے برعکس قیاس فرع ہے اصل کو فرع کے ساتھ رد کرنا باطل ہے ویسے یہ حدیث قیاس کے بھی موافق ہے۔

علامہ انور شاہ کا شمیری ؒ لکھتے ہیں یہ کہنا کہ حدیث مصراۃ ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غیر فقیہ کی روایت ہے اور ایسے راوی کی روایت جو قیاس کے خلا ف ہو غیر معتبر ہوتی ہے اور یہ حدیث قیاس کے خلا ف ہے کہ قیاس قلیل اور کثیر کا فرق کرتا ہے ۔نیز گا ئے اونٹنی اور بکری کے دودھ میں بھی فرق ہو تا ہے تو سب میں ایک صاع کیوں ؟یہ ساری بات اس لا ئق ہے کہ اس کو کتابوں سے خارج کر دیا جا ئے ۔یہ ضابط نہ تو امام ابو حنفیہؒ سے مروی ہے اور نہ ہی ابو یوسفؒ سے اور محمد ؒ سے باقی رہا حدیث مصراۃ کا حدیث الخراج بالضمان کے تضاد نہیں ہے امام شافعی ؒ فرماتے ہیں ۔حدیث الخراج بالضمان اور حدیث مصراۃ کا مضمون ایک ہی ہے البتہ حدیث مصراۃ میں ایک بات مزید ہے جو کہ الخراج بالضمان میں نہیں وہ یہ کہ بکری یا اونٹنی مصراۃ خرید نے والے نے وہ جا نور اور اس کا دودھ خریدا ہے دودھ اس میں اس طرح ہے جیسے کھجور کے درخت پرپھل ۔جب اسے نکال کر استعمال کر لیا ۔اور جانور عیب تصریہ کی وجہ سے واپس کرنا پڑا تو اس دودھ کے عوضانہ کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع مقرر فرمایا ہے دودھ کم تھا یازیادہ اس لیے کہ حدیث میں اونٹنی اور بکری کا نام لے کر آپ نے یہ بات ارشاد فر مائی ہے۔ اس سے معلوم ہوا یہ تعین شرعی ہے ۔اگر عیب تصریہ کی وجہ سے جانور واپس نہیں کرتا اور دودھ پی لیا اس کے بعد اور دودھ نکالا اور پی لیا ۔بعد ازاں کسی دیگر عیب کی وجہ سے اسے واپس کرنا پڑا تو یہ دودھ حدیث الخراج بالضمان کی بناء پر اس کے لیے حلال ہے اس کے عوضانہ میں کچھ نہیں دے گا ۔ البتہ تصریہ والے دودھ کے عوض میں ایک صاع ضرور دے گا ۔

علامہ انور شاہ کا شمیرؒ ی لکھتے ہیں طحاوی ؒ کا یہ جواب قوی نہیں ہے ۔اس لیے کہ حدیث مصراۃ میں زیادہ منفصلہ متولدہ مراد ہے اور الخراج بالضمان میں زیادہ غیر متولدہ لہٰذا ان میں کو ئی تضاد ہی نہیں ہے اسی طرح یہ حدیث آیت قرآن﴿وَإِن عاقَبتُم فَعاقِبوا بِمِثلِ ما عوقِبتُم ...﴿١٢٦﴾... سورةالنحل"

کے بھی منافی نہیں ہے اس لیے کہ آیت کا تعلق مظالم اور قصاص سے ہے امام مراغیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر بدلہ لینا چاہو تو برابری شرط ہے زیادتی نہ کرو کہ یہ ظلم ہے اور اگر تم ظلم معاف کر دو اور درگزر کرو تو یہ بہتر ہے کہ ظالموں کو اللہ تعا لیٰ خود سزا دیں گے ۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اگر تم قصاص لینا چاہتے ہو تو مثل پر اکتفا کرو زیادتی نہ کرو امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں مشرکین نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیر ہ شہدا کا مثلہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

«لئن اظفرنى الله بهم لامثلهن بضعفى ما مثلو بنا»

اگر اللہ نے مجھے ان پر غالب کیا تو میں ان کے کیئے مثلہ سے دو گنا مثلہ کروں گا ۔

اس پر یہ آیت نازل ہو ئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ۔(عربی) یعنی ہم صبر کرتے ہیں اس حدیث کے بارے میں امام شاہ ولی ؒ اللہ کی رائے بھی قابل مطالعہ ہے فر ما تے ہیں بیع میں گو یا شرط تھی کہ اس جا نور کا دودھ بہت زیادہ ہے اس لیے یہ صورت الخراج بالضمان کے ذیل میں نہیں آتی چونکہ خرچ کر لینے کے بعد دودھ کی مقدار اور قیمت کا تعین نہیں ہو سکتا تھا بالخصوص اس صورت میں جب لو گوں کے اخلاق برے ہو چکے ہوں اور دیہاتی ماحول میں تو ایسی صورت میں شرعاً کو ئی ایک بات متعین ہو نی ضروری تھی جس سے جھگڑا ختم کیا جا سکے چونکہ اونٹنی کے دودھ کا مزہ خراب ہو تا ہے اس لیے سستا ہو تا ہے جبکہ بکری کا دودھ اچھا ہو تا ہے اس لیے مہنگا ہو تا ہے لہٰذا ان کا حکم ایک ہی کردیا گیا کہ اس کے عوض ایک صاع کھجور ادا کر دیا جا ئے ۔بعض لو گوں نے جنہیں اس حدیث پر عمل کرنے کی تو فیق نہیں ہو ئی اپنی طرف سے ایک ضابطہ ایجاد کر لیا کہ جس حدیث کو راوی غیر فقیہ روایت کرے اور رائے دینے کا دروازہ بند ہو تا ہو تو اس حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔جبکہ یہ ضابطہ مذکورہ صورت پر منطبق ہی نہیں ہو تا بناء بریں اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی تخریج کیا ہے اور معترضین فقہاء احناف کے ہاں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقیہ صحابی ہیں بلکہ نر عم خویش ان کی فقہ کی بنا ء ہی ان کے اقوال پر ہے۔

دیگر یہ حدیث تقدیرا ت شرعیہ کے ذیل میں بھی آتی ہے جس میں خوبیوں کو عقل محسوس کر سکتی ہے مگر ان کی اصل حکمت کو راسخین فی العلم کے علا وہ کو ئی بھی نہیں جان سکتا ۔

ایک سوال :

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :

«من اتباع محفلة فهو بالخيار ثلاثة ايام فان ردها ردمهما مثل او مثلى لينها قمحا»

جو شخص محفلہ جا نور خرید لے تین دن تک اسے اختیار ہے اگر واپس کرنا چاہے تو اس کے دودھ کے ایک یا دو مثل گندم واپس کر لے ۔

اس حدیث میں محفلہ جا نور کے دودھ کی ایک مثل یا مثل گندم دینے کا حکم ہے ۔اور یہ حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلا ف ہے ان میں تطبیق کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔

جواب :

حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بالتفاق محدثین صحیح ہے جبکہ یہ روایت بالتفاق ضعیف اور مردود ہے۔ حافظ حجرؒ فر ما تے ہیں اس روایت کی سند ضعیف ہے ابن قدامہ ؒ فر ما تے ہیں یہ بہ اتفاق محدثین متروک الظاہر ہے ۔منذریؒ کہتے ہیں اس کی ابن ماجہؒ نے بھی تخریج کیا ہے خطابیؒ کہتے ہیں اس کی سند صحیح نہیں ہے اور ان کا کہنا درست ہے کہ اس کی سند میں جمیع بن عمیر ایک راوی "اكذب الناس"ہے ابن حبان ؒ فر ماتے ہیں یہ شخص رافضی تھا اور احادیث وضع کیا کرتا تھا "والله تعالى اعلى واعلم بالصواب"


حوالہ جات

1.صحیح بخاری ج 1ص 289 صحیح مسلم ج21ص3۔4۔5 موطا امام مالک ج2ص86مسند احمد ج2ص386۔

2۔متن الحافی ص149

3۔طحاوی

4۔اخرجہ ابو یعلی کمافی تحفۃ الاحوذی ج 2ص244

5۔سنن ابی داؤد واخرجہ الطبرانی کمافی التحفۃ

6۔اخرجہ اللبیہقی فی الخلافیات کذافی فتح الباری

7۔کمافی التحفۃ ج 2ص244۔

8۔خرجہ احمد باستاد صحیح التحفۃ ایضاً

9۔اعلام الموقین ص155

10۔العرف الشذی ص394۔

11۔سیراعلام النبلاء ج 3ص619۔

12۔العرف الشذی ص 394۔

13۔العرف الشذی 394،

14۔تفسیر المراغی ج 14ص162،

15۔التفسیر الکبیر ج19 ص 142،

16۔سنن ابی داؤد ج3ص384۔

17۔عون المعبوع ج3 ص285۔