اسلام اور مستشرقین
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَدَّ كَثيرٌ مِن أَهلِ الكِتـٰبِ لَو يَرُدّونَكُم مِن بَعدِ إيمـٰنِكُم كُفّارًا حَسَدًا مِن عِندِ أَنفُسِهِم مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُمُ الحَقُّ...﴿١٠٩﴾... سورة البقرة
ترجمہ بہت سے ہل کتاب اپنے دل کی جلن سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لا چکنے کے بعد تم کو پھر کا فر بنا دیں ۔حالانکہ ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے۔
پیشتر اس کے کہ قارئین کی خدمت میں لفظ "استشراق "یا مستشرقین کے معنی ومفہوم کے بارے میں لکھا جائے ۔مناسب معلوم ہو تا ہے کہ بالاختصاراس کے پس منظر اور دواعی واسباب پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جا ئے تا کہ اس کی حقیقت واصلیت پوری طرح واضح ہو جا ئے اور قارئین کرام اسےآسانی سے سمجھ سکیں ۔(وماتوفیقی الاباللہ )
دراصل "استشراق " دشمنان اسلام (یہود ونصاریٰ اور اہل کفر ) کا وہ مہلک اور خطرناک ترین ہتھیار ہے جسے وہ دین اسلام کی بیخ کئی اور مکمل سد باب کے لیے استعمال میں لاتے ہیں اور جس کی ابتداء چھٹی اور ساتویں صدی ہجری یعنی تقریباً بارہ اور تیرہ میلادی کو لڑی جانے والی پہلی صلیبی جنگوں کے مکمل خاتمے کے بعد ہوئی ان لڑائیوں میں عیسائی مشزیوں کو زبر دست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔اور وہ ایک طویل عرصہ تک مسلمان مجاہدین سے نبرد آزما ہونے کی جرات نہ کر سکے ۔اسلام اور کفر کی اسی عظیم تاریخی کشمکش کے دوران ایک معرکہ میں تثلیث کا عقیدہ رکھنے والوں (یعنی تین خداؤں کے باوجود کو ماننے والوں )نے ذلت آمیز شکست کھائی ۔اور فرانس کا بادشاہ"دولیس التاسع"گرفتارکر لیا گیا ۔اور ذلیل خوارہو کر مصر کے شہر "منصور ہ" کے زندان خانے میں جکڑدیا گیا جسے بعد میں اس کی قوم اور چیلوں چانٹوں نے بھاری فدیہ دے کر قید سے آزاد کرالیا۔ قید و بند کے اس عرصہ میں اس نے تنہائی میں پوری یکسوئی اور انہماک کے ساتھ اس المئے پر غور و خوض کیا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں اسے اور اس کی قوم کو جس ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑاہے اس کا بدلہ وہ کیونکر لے سکتا ہے۔ کیونکہ اسلحہ اور مادی وسائل کی فراوانی کے باوجود اب اس مسلمان قوم سے لڑنا اور اس کو عاجز کرنا ۔
ع،ایں خیال است و محال است وجنوں!کے مترادف تھا ۔
چنانچہ وہ اس نتیجہ پر پہنچا اور اپنی قوم سے یوں گویا ہوا "اگر تم چاہو کہ مسلمانوں سے میدان کارزار میں لڑ کر ان کو ہزیمت سے دو چار کر کے اس طرح اپنی شکست اور نقصانات کا ازالہ کر سکو تو یہ اونٹ کو سوئی کے ناکے میں سے گزارنے کے مترادف ہے۔اب تمہیں ان مادی ہتھیاروں کے بجا ئے فکری و نظری اسلحہ کی مدد سے لڑنا ہو گا ۔اس طرح تم مسلمانوں کو ان سے صحیح عقیدہ کی قوت سلب کر کے زیر کر لو گے۔تب وہ اصل ایمانی طاقت سے تہی دامن ہو کر ہی ہمیشہ کے لیے تمھاری غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دئیے جا سکیں گے۔
بس پھر کیاتھا عالم اسلام کے لیے اہل صلیب نئے سرے سے منظم ہو نا شروع ہوئے۔اب وہ مکمل تیاری کے ساتھ ایک طرف تو مادی جنگی اسلحہ سے لیس ہوئے اور دوسری طرف اس خطر ناک فکری "آلات حرب" سے مسلح ہوئے اور اس طرح وہ ایک بار پھر "غزوفکری "جنگ کے لیے پوری طرح مستعدتھے۔بعد ازاں چودھویں صدی ہجری کے وسط تک اس اصطلاح یعنی "الغزو الفکری "کا اطلاق ہر اس خطرناک مہم اور جستجو پرہونے لگا جس سے مقصود صرف اور صرف مسلمانوں کو ان کے حقیقی ایمان وابقان سے محروم اور روحانی قوتوں سے تہی دست کرنا تھا۔اور اب تک یہ فکری محاذ آرائی اپنے مقاصد کے حصول کے اعتبار سے نقطہ عروج پر ہے۔
لہٰذا انہی ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے دشمنان اسلام خاص طور پریہود ونصاریٰ اور دیگر اسلام دشمن قوتیں اس دن سے اب تلک اس کوشش میں سر گرداں ہیں کہ دین اسلام کو بمعہ اہل اسلام صفحہ ہستی سے مٹا دیا جا ئے یا اس کے نام لیواؤں سے وہ حقیقی ایمانی و روحانی طاقت چھین کر انہیں ہمیشہ کے لیے اپنا ذہنی غلام بنا کر بے یار مددگار چھوڑدیا جا ئے تاکہ وہ ذلیل و خوار اپنا کشکول ہمارے سامنے پھیلا نے پر مجبور ہو جائیں ۔دنیائے کفر کے وڈیرے ابلیس لعین کے اسی فرمان کو اقبال نے اپنے الفاظ میں یوں دھرایا ہے جو اس نے اپنے سیاسی فرزندوں کے نام جاری کیا۔
لاکر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں۔۔۔زنادیوں کو دہرکہن سے نکال دو!
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا۔۔۔روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بدن سے نکال دو!
فکر عر ب کودے کے فرنگی تخیلات۔۔۔اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو!
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج ۔۔۔ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو!
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو۔۔۔آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو!
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز ۔۔۔ایسے غزل سراکو چمن سے نکال دو!
شیطان ملعون کی اس صدا پر اس کے حواریوں اور مصاحبوں نے لبیک کہا ۔اور اس کے ہاں بڑا رتبہ اور عہد ہ پانے کے لیے متذکرہ جاری کردہ آرڈرپر عمر پیرا ہونے کے لیے کوئی لمحہ بھی فرد گزاشت نہیں کیا ۔ مسلمانوں کے باہمی اتحاد دیگا نگت کا شیرازہ بکھیر نے کے لیے طاغوتی قوتوں اور لادین عناصر نے خوب کھل کر پروپیگنڈہ کیا اور اہل ایمان کے خلاف فکری جنگ لڑتے ہو ئے ان کے درست عقیدہ اور آفاقی مذہب پر کاری ضربیں لگائیں ۔اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے:
"وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا"
ترجمہ : "اور کفار تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ تم کو پھیر دیں تمھارے دین سے اگر قابو پادیں "
یہ بات "اظہر من الشمس " ہے کہ اللہ کے ان دشمنوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جس کی وہ استطاعت رکھتے تھے اب ان کی یہ مسموم کا روائی ایک محدود علاقہ تک محصور نہیں رہی بلکہ پورے عالم اسلام کے خلاف علاقائی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک جہاں بھی انہیں اس شجرہ خبیثہ کا بیج بونے کے لیے منا سب اور موافق زمین اور آب و ہوا میسر آئی انھوں نے وہاں اپنا مستقل مستقر(ٹھکانا ) بنا یا اور اسلام کے خلا ف محاذ کھول دیا ۔چراغ مصلفوی اور شرار بولہبی کے مابین ہونے والی اس ہولناک لڑائی میں استعمال ہونے والا اسلحہ اورہتھیار زیادہ تر مادی اور حسی ہونے کے بجا ئے فکری اور معنوی تھے جن کی تفصیل کا احاطہ یہاں نوک قلم پر محال ہے۔ صرف اتنا بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ کے دین کے اعداءکی اسلحہ ساز فیکٹری کا نام "غزو فکری "یعنی" فکری معرکہ "ہے اور اس میں تیار ہونے والے مسموم آلات حرب اپنے خطرناک اور موذی ہیں کہ سائنسی ٹیکنالوجی کے اس دور میں "ایٹم بم"بھی نقصان کے اعتبار سے ان سے کہیں پیچھے ہے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں ۔
1۔الاستعمار :۔یعنی قوت اور تشدد کے بل بوتے پر اور دہشت گردی پھیلا کر غلبہ حاصل کرنا ۔
2۔التبشیر :۔جاہل اور پسماندہ لوگوں کو بہلاپسلا کر اور آئے دن سبز باغ دکھلا کر کفر کی طرف مائل کرنا ۔
3۔العمانیہ : (فصل الدین عن الدولہ ) یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ دین و دنیا دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ہردو کا آپس میں کو ئی تعلق یا رشتہ نہیں اس فکر کے سب سے بڑے داعی ترکی کے " ضیا ء کوکب اور مصطفیٰ کمال پاشا (اتاترک) "تھے ۔علاوہ ازیں تیونس میں خیر الدین تیونسی اور مصر میں رفاعہ فہطاوی ڈاکٹر طٰہ حسین اور علی عبدلرزاق جبکہ برصغیر میں سر سید احمد خاں تھے۔
4۔التغریب :۔مسلمانوں کو ان کے دین سے بیزارکرنا اور جدید تعلیم (مغربی تعلیم)سے روشناس کرانا "تغریب"کے بنیادی اہداف میں سے ہے ۔اس طرح مسلمانوں کی نئی نسل کو ارتقائے ذہنی اور مادی ترقی کے خوبصورت بول سنا کر اس نہج پر تربیت کرنا کہ وہ شریعت طاہرہ سے بالکل بیگانہ ہو کر مغربی تہذیب کے پجاری بن کے رہ جا ئے اور ایک وقت آئے کہ وہ دین حق سے بالکل خارج ہو کر کو ئی بھی کفر کا مذہب اختیار کر لیں۔
5۔الاستشراق :یہی اصطلا ح ہمارا موضوع بحث ہے ۔
تفاصیل آئندہ سطور میں ملا حظہ فرما ئیں ۔
مندرجہ بالا تمام وسائل بالواسطہ ہیں جبکہ بلا واسطہ ذرائع و وسائل اتنے زیادہ ہیں کہ شمار سے باہر ہیں چند ایک افادیت کے پیش نظر ذکر کئے جا تے ہیں ۔
1۔تشریعی لٹریچر اور دینی کتب و رسائل اور علمی مجلا ت پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کرنا تا کہ مسلمان ان سے حقیقی معنوں میں مستفید نہ ہو سکیں دشمنان اسلام کے اسی خوفناک منصوبے سے اقبال رحمۃ اللہ علیہ مسلمانان عالم کو خبردار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔ع
مٹا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
مگر وہ علم کی موتی کتابیں اپنے آباء کی۔۔۔!
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقین پیدا کر اےغافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارےجس کی گرد راہ ہو ں وہ آسماں تو ہے
2۔تعلیمی نصاب میں دخل اندازی یعنی اسلامی ممالک کے تعلیمی و ثقافتی اداروں میں غیر مہذب لٹریچر کو تعلیمی نصاب میں شامل کردینا جس سے قوم کے نو نہال بجائے اچھی تربیت پانے کے غیر فطری اور غیر شرعی بنیادوں پر پروان چڑھیں اور اس طرح سے وہ خود اپنے ملک و ملت کی تباہی و بر بادی کا مو جب بن جا ئیں ۔سچ ہے کہ جس کھیت کی فصل کو اس کی باڑہی اجاڑنے لگے ایسی فصل بیرونی حملہ آوروں سے کس طرح محفوظ رہ سکتی ہے اور جس کا نتیجہ آج ہم یقین کی آنکھ سے مسلمانوں کی زبوں حالی اور اسلامی ممالک کی اخلا قی و اقتصادی پستی کی شکل میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چرا غ سے!
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھلا یا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے !
3۔ذرائع ابلا غ پر کنٹرول یعنی شعبہ ہائےنشروا شاعت اور ذرائع ابلا غ پر فکری تسلط جماکر غیر شرعی اور حیا باختہ پروگرام نشر کرنا ان کو عام کرنا اور ان کے حصول کو آسان ترین بنا ناتاکہ ہر عام و خاص سہولت سے ان چیزوں کو پاسکے ۔موجودہ دور میں اس کا واضح مظہر ڈش انٹینا ہے۔جو ہر گھر کے لیے زینت اور ضروریات زندگی میں شمار ہو نے کا درجہ پا چکا ہے ۔اور اس کے مہلک اثرات اور ثمرات آج پوری مسلمان قوم کے کردارو اخلاق سے بخوبی عیاں ہیں ۔
4۔دینی قیادتوں اور تحریکوں کی اصل شکل مسخ کرنا یعنی اسلام کے نام پر اٹھنے والی تحریک کو ہر جائز و ناجائز طریقوں سے کچل دینا اسی طرح دینی قیادت کے سلسلے میں ابھرنے والی اعلیٰ شخصیات اور علمائے حق کو قتل و غارت اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا کر ان کا خاتمہ کرا دینا تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری!
علاوہ ازیں اسلام کے نام لیواؤں کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کر کے ان کے وقارکی دھجیاں اڑا کر عوام میں بے اثر کرنا اور عوام کو ان تحریکوں اور قیادتوں سے خوشنما عنوانات کے بل بوتے پر متنفر کرنا۔جس کی واضح مثال دور حاضر میں علماء کی ہرزہ سوائی اور ملا ئیت یا بنیا د پرستی کی اصطلا ح کا دور دورہ ہے۔
5۔اجتماعی زندگی میں خانہ جنگی یعنی معاشرتی اور عائلی زندگی میں لا متناہی کشمکش جس کی بدولت ایک مہذب اور جفاکش قوم اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار نہ لا سکنے کی وجہ سے متعدد معاشرتی مسائل و مصائب کا شکار ہو کر اپنی طبعی موت مر جا ئے یا پھر مستعمرین کی دست نگر بن کران کی غلا می کے طوق اپنی گردن میں پہن لے۔فرمان باری تعا لیٰ ہے۔
"وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ"
ترجمہ :اور ہر گز راضی نہ ہوں گے تجھ سے یہود ونصاریٰ جب تک کہ تو تابع نہ ہو ان کے دین کا ۔تو کہہ دے جو اللہ بتلا دے وہی راہ سیدھی ہے۔
قارئین کرام !مذکورہ بالا جملہ وسائل میں سے سب سے کا میاب ہتھکنڈہ اعداء دین کے ہاں موخرالذکر ہے یعنی مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں بگاڑ ،انتشار اور فساد ،تاکہ لوگ احساس محرومیت کا شکار ہو کر ایک دوسرے کا خون پینے لگ جا ئیں ہر اخلا قی برا ئی معاشرے میں سرایت کر جا ئے اور لوگ دین سے الگ ہوکر کفر کی گود میں جا گریں ،ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی عبادات کے طور طریقے جن کے ذریعے وہ اپنے حقیقی معبود اور پروردگا رکے ہاں سر خرو ہو کر دینی و دنیوی نعمتوں میں مالا مال ہو تے ہیں محض دنیوی تقالید اور رسم و رواج تک محدود ہو کر رہ جا ئیں ۔نام تو دینی شعائر کا ہو لیکن عملاً وہ کسی مہذب قوم کی رسم اور عادت کو فروغ دے رہے ہوں تا کہ شرعی عبادات کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی روحانی برکات وثمرات کو ختم کر کے ان کو صرف اسلامی سوسائٹی کی خالی اور بے جان مورتیاں بنا کر رک دیا جائے۔ اللہ کے دن کے دشمنوں کی اس غلیظ اور مہلک مہم میں ایک "مستشرق "بنیادی رول ادا کرتا ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ مسلمان بھا ئیوں کو ان کا بھی سیاہ چہرہ بے نقاب کر کے اس پر لگے زہریلے دھبوں کی ایک جھلک دکھا ئی جا ئے اللہ تعا لیٰ ہم تمام مسلمانان عالم کو ان کے شر سے محفوظ و مامون رکھے !آمین ۔
"استشراق"کا لغوی واصطلاحی معنی:۔
لفظ"استشراق" عربی زبان کی اصطلا ح ہے جس کا سہ حرفی مادہ ش۔ر۔ق(مشرق ) ہے "شرق" عربی زبان میں مشرقی سمت کو بھی کہا جا تا ہے جس طرح "غرب"مغربی جہت کے لیے استعمال ہو تا ہے اس کے علاوہ عربوں کے ہاں لفظ "شرق"کا اطلاق سورج پر بھی ہوا ہے کہا جا تا ہے (طلع الشرق من مشرقها)سورج مشرق سے طلوع ہوا اور "مشرق" اسی مادہ سے اسم مکان ہے یعنی سورج کے طلوع ہونے کی جگہ جیسے "مغرب سورج کے غروب ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔اللہ تعا لیٰ کے اس فرمان میں
"حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ"
ترجمہ: یہاں تک کہ جب پہنچا (ذوالقرمین ) سورج کے غروب ہونے کی جگہ تو اسے ایسے پایا کہ ایک کیچڑ کی ندی میں ڈوبرہا ہے اور ایک دوسرے مقام پر حق تعا لیٰ جل شانہ نے دونوں سمتوں کا ذکر کیا ہے ۔
"رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا"
ترجمہ (وہی مشرق و مغرب کا مالک (ہےاور )اس کے سوا کو ئی (حقیقی ) معبود نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز بنا ؤ ۔
اور "مشرقان "تشنیہ ہے مشرق سےاور اس سے مراد ہے ۔ مشرقا الصيف والشتاء یعنی موسم گرما اور سرما کا مشرق ارشاد باری تعا لیٰ ہے ۔
""رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ""
ترجمہ: وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک (ہے ) اور باب شرق یشرق (فعل .يفعل کے وزن پر)طلوع ہو نے کے معنی میں آتا ہے۔
جبکہ باب "اشرق یشرق (افعل .يفعل کےوزن پر) چمکنے اور روشن ہونے کے معنی میں آتا ہے۔کہا جا تا ہے (الشمس.اي طلعت الشمس اشرقت الشمس.اي أضاءت )یعنی سورج طلوع ہوااور روشن ہو گیا (أضاءت وأشرق وجه الرجل أي أضاء وتلألأ حُسنا )یعنی روشن ہو گیا آدمی کا چہرہ اور خوبصورتی کی وجہ سے دمکنے لگا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
"وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا"
ترجمہ :اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔
اور "استشراق" اسی مادہ سے باب استفعال ہے جس کا معنی ہے مشرقی ہونا یا بن جانا کہا جاسکتا ہے (استشرق فلان اي صار مستشرقا)کہ فلاں آدمی "مستشرق" بن گیا اور"مستشرق"اسی باب "استفعال " سے مستفعل "کے وزن پر اسم فاعل ہے۔
لفظ "استشراق"کی متذکرہ بالا لغوی تعریف کے ساتھ اس کا اصطلا حی مفہوم بھی کسی حد تک واضح ہو جا تا ہے اس اعتبار سے اہل مغرب کے ہاں یہ اصطلاح وسیع مفہوم کو متضمن ہے اور اس سے مراد وہ مکمل تعلیمی نصاب اور تدریسی کورس ہے جو مشرقی علوم (خاص طور پر دینی و شرعی علوم) پر مشتمل ہو اور اہل مشرق (خاص طور پر اہل اسلام ) کی تہذیب و تمدن اسلامی تاریخی احوال دن و مذہب ،ملک و ملت ،ان کے ہاں بولی جانے والی مروجہ زبانیں ان کی اجتماعی و معاشرتی زندگی کے جملہ اسرار اور وہ دھرتی جس پر وہ بستے ہیں اور وہ مرغزار جس کی زرعی پیداوار نیز زیر زمین مدفون خزانوں اور اس کی پشت پر تعمیر کردہ صنعتوں اور کار خانوں جن کی بدولت وہ اپنی معیشت کو مستحکم اور اقتصادی نطام کو مضبوط کرتے ہیں اور ان کی دفاعی و عسکری قوت جس کی بناء پر وہ دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے ہیں غرض یہ کہ ہر وہ مادی و روحانی قوت جس کو ایک مسلمان اپنے دین اور ملک و ملت کی بقاء اور استحکا م کے لیے صرف کرتا ہے ایک مستشرق ان سب کو ہمہ جہت سے بے نقاب کرتا ہے اور بغائر نظر ان کا مطالعہ کرتا ہے تا کہ اہل مشرق (مسلمانوں )کی حسی اور معنوی قوت کا کو ئی ایسا گو شہ نہ ہو جو اہل مغرب کی نظروں سے مخفی رہ سکے بالفاظ دیگر یہ مشرقی علوم پر مشتمل پورا لٹریچر عیسا ئی مشیزیوں (خاص کر مبشرین اور مستعمرین) کے لیے ایک مضبوط دفاعی پل کا کا م دیتا ہے جس کو عبور کر کے وہ مسلمانوں کی مجمع قوت پر کا ری ضرب لگا تے ہو ئے ان کو صفحہ ہستی سے مٹاڈالنے کے لیے کو شاں رہتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلا ف پوری استعداد سے فکری و نظری جنگ کے لیے ہر وقت چوکس رہتے ہیں ارشاد باری تعا لیٰ ہے۔
" لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا "
ترجمہ ؛ (اے اہل ایمان ) تمھارے مال و جان میں تمھا ری آزمائش کی جا ئے گی اور تم اہل کتاب (یہود ونصاریٰ ) سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں ایذاء کی باتیں سنوگے"
"استشراق"کی ابتداء اور تاریخی پس منظر:۔
دشمنان دین اسلام نے باقاعدہ اور منظم انداز سے اس کا استخدام کب کیا؟ یا اہل مغرب میں سے وہ کو ن عقبری مصنف تھا جو سب سے پہلے اس میدان میں کودا؟سردست اس بارے میں کو ئی حتمی تاریخ کا تعین نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ دسویں صدی (میلادی ) میں بعض عیسائی علماء (رہبان ) نے دینی علوم سیکھنے کی غرض سے "اندلس"کی طرف رخت سفر باندھا ۔اور مسلمان علماء و فضلاء کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کرتے ہوئے متعدد علوم (خاص طور پر فلسفہ طب اور ریاضیات ) میں متبحر ہوئے اس دوران قرآن کریم اور بے شمار دیگر عربی کتب کا لاطینی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔مذکورہ بالا ان تشنگان علم دین عیسائی علماء میں سے سر فہرست فرانس کا راہب "جریر دی اور الیاک"ہے جس نے اشیلیہ اور قرطبہ جیسے معروف شہروں میں دینی تعلیم پائی ۔یہاں تک کہ یو رپ کے تمام کبار علماء (رہبان ) سے عربی علوم و فنون علم ریاضیات وفلکیات میں بازی لے گیا۔ جسے بعد میں 999ھ کو رومی کلیساکے یورپ کا منصب سونپ دیا گیا اور عظیم"سلفسترثانی" کے نام سے مشہور ہوا یہ شخص 940ھ میں پیدا ہوا اور 1003ھ کو آنجہانی ہوگیا ۔
"سلفسترثانی" اور اس جیسے دیگر عیسائی علماء (رہبان ) دینی و عربی علوم وفنون میں مہارت تامہ حاصل کرنے کے بعد اپنے ممالک میں عظیم داعیان اور واعطین کی حیثیت سے کام کرنے لگے ۔اور پھر طرفہ یہ کہ ان دینی علوم میں متبحر راہبوں نے باقاعدہ عربی مدارس قائم کئے جن میں " مدرسہ بادوی العربیہ "نے کا فی شہرت پائی پھر اس طرفہ پر طرہ یہ کہ بے شمار یورپی مدارس اور جامعات میں عربی کتب اور دینی علوم پر مشتمل لٹریچر کو بطور نصاب کے پڑھایا جا نے لگا اور اس عرصہ میں لاتعدادعربی و ادبی کتب کا لا طینی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا ۔جبکہ مشہور مستشرق"رودی پارت"(RUDIPARET)کا کہنا ہے کہ مغرب میں عربی و دینی علوم کی تدریس کا اجرءتقریباً بارہویں صدی (میلا دی )میں ہوا جب پہلی مرتبہ پورے قرآن مجید کا لاطینی زبان میں ترجمہ شائع کیا گیا اور اسی صدی میں پہلی بڑی عربی ولاطینی لغت(DICTIONARY)کی کتاب منظر عام پر آئی ۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ استشراقی مہم مغربی ممالک میں ایک غیر منظم اور محدود افراد پر مشتمل تحریک کی شکل میں تیرہویں یا چودھویں صدی(میلادی) کے دورانیے میں ابھری اور مؤرخین میں سے محقق افراد کے نزدیک یہ تحریک باقاعدہ منظم انداز سے سولہویں صدی (میلادی ) کو منظر عام پر آئی اور یہ دور مغربی ممالک میں دینی و اصلاحی عہد کا دورکہلاتا ہے یہ بات مسلم ہے کہ استشراقی حرکت (مہم) اصل میں صلیبی جنگوں کے فیصلہ کن اختتام کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی تھی اس پورےعرصہ کے دوران مغربی عیسائی مشزیوں کےسر کردہ پوپوں اور پادریوں نے اور محققین نے دینی علوم اور خاص کر عربی زبان و ادب پر مکمل عبور حاصل کیا متعدد یورپی زبانوں میں قرآن کریم کتب احادیث اور دیگر اسلامی علمی ادبی اور فنی کتابوں کے کثرت سے تراجم شائع ہوئے۔ یہاں تک کہ اٹھارہویں صدی (میلادی) میں یہ طواغیت پوری قوت سے اسلام اور اہل اسلام کے حصار پر حملہ آور ہوئے یہ دور مسلمانوں کے انحطاط کا دور کہلاتا ہے برصغیر میں بھی برطانوی سامراج اور اسلام دشمن طاقتیں برسر اقتدارآگئیں اور مسلمان سلاطین دہلی کی صدیوں پرانی عظمت و سطوت اور شان و شوکت کو پیوند خاک کر دیا گیا۔
مسلمانوں کی شکست وریخت کے اس نازک دور میں "عیسائی تحریکوں "نے اہل اسلام کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی خاطر بھرپور فائدہ اٹھا یا تمام مغربی ممالک میں جگہ جگہ مراکز اور تعلیمی و فنی ادارے کھول دئیے گئے جہاں سے ایک مکمل سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان گنت مجلات اور دیگر اخبارات ورسائل کی یومیہ ہزاروں لاکھوں کے حساب سے اشاعت شروع ہوئی۔جن کا اصل ہدف دین حق اور حاملین دین تھے پھر اس مستزادیہ کہ اسلامی کتب خانوں سے بے شمار اسلامی تاریخی سرمایہ چرالیا گیا نہایت ارزاں قیمت پر خرید کر انہیں یورپی لائبریریوں کی زینت بنا یا گیا یہاں تک کہ لا محدوداسلامی نادر مخطوطات جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق انیسویں صدی عیسوی تک ڈھائی لاکھ کے قریب نبتی ہے دشمنان دین کے ناپاک اور ظالم ہاتھوں میں چلےگئے اور اس طرح ملت اسلامیہ سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیش قیمت علمی زیور سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوکر رہ گئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا۔۔!!
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔۔!!
باوجودیکہ"استشراقی مہم"آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل شروع ہوئی لیکن لفظ "مستشرق" (ORIENTALIST)کامفہوم یورپ میں اٹھارہویں صدی (میلادی) کے آخر میں ظاہرہوا ۔انگلستان میں اس کی آواز پہلی مرتبہ 1779ءمیں اور فرانس میں اس کی صدائے باز گشت1799ء میں سنی گئی اور بعد میں 1838ء کو لفظ "استشراق"(ORIENTALISM)فرانسیسی اکیڈامی کی قاموس (DICTIONARY)میں درج کرالیا گیا ۔ انیسویں صدی کے آخر میں پہلی فقید المثال "استشراقی کانفرنس "کا انعقاد پیرس میں ہوا اس کانفرنس میں کئی ایک نئے منصوبوں پر عمل در آمد کے لیے تجاویز پیش کی گئیں مختلف اسلامی و مشرقی علوم پر مشتمل موضوعات پر لیکچر دئیے گئے۔ماضی وحال میں حاصل ہونے والے نتا ئج کی روشنی میں آئندہ اسلام اور اہل اسلام کو اپنا تر نوالہ بنانے کے لیے نئے نشانات اور ہدف متعین کئے گئےاور یہ کانفرنس آج تلک ہر سال مختلف جگہوں میں منعقد کی جاتی ہے۔
لہٰذا ہم اختصار کے ساتھ ۔۔۔تاریخ کے آئینے میں ۔۔۔استشراقی تحریک کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔
1۔پہلامرحلہ:۔
صرف دینی علوم (اسلامی ورثہ ) اور عربی زبان و ادب کو سیکھنے اور ان میں کمال مہارت حاصل کرنے کا ہے۔
2۔دوسرا مرحلہ:۔
مستشرقین کا منظم ہو کر ایک باقاعدہ تحریک کی شکل میں صفحہ ہستی پر ظاہر ہونا۔
3۔تیسرا مرحلہ :۔
استشراقی تحریک کے عروج کادور جہاں اس تحریک کو چہار دانگ عالم میں شہرت ملی اور ببانگ دھل اس کی ترویج واشاعت کے لیے بڑے بڑےعلمی مراکز لائبریریوں اور تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جہاں سے لا تعداد رسائل و اخبارات اور دیگر روزنامے شائع ہوئے جو نہایت کم قیمت بلکہ بسااوقات بلا معاوضہ تقسیم کئے جاتے ۔مزید برآں عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ اس طرف رغبت دلانے کے لیے عظیم الشان عوامی جلسوں کا نفرنسوں اور تقریبات کا اہتمام کیا جا تا اور نمایاں کار کردگی کامظاہرہ کرنے والوں کو قیمتی تحائف اور حوصلہ افزائی کے انعامات وسرٹیفکیٹس دئیے جاتے۔
قارئین کرام!۔۔۔( الكفر ملة واحدة )کے مصداق پوری دنیا کی شیطانی قوتوں اور طاغوتی طاقتوں نے عیسائی راہبوں کی اس محنت وکاوش اور عمل پہیم کو بہت سراہا اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی ہچکولے کھاتی ہوئی فکری ارتقاء اور مادیت پرستی کے مہلک بھنور میں پھنسی ہوئی اس ناؤ کو غرق کرنے کے لیے پورا کفر مع فکری و مادی اسلحہ کے امڈآیا ۔اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ فر ما ن ہمیں اپنے فرائض کا احساس دلانے اور خواب غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہوگا ۔
"لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ"
ترجمہ : (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور (دوسرے کفار)مشرک ہیں۔"
حوالہ جات
۔اشارہ ہے خدائے بزرگ و برتر کے اس فرمان کی طرف وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَترجمہ :اور تم سر بلند رہو گے اگر تم حقیقی مومن ہو۔سورۃ آل عمران آیت:139۔
۔سورۃ البقرۃ آیت :217۔
۔سورۃ البقرۃآیت :12۔
۔سورۃ الکہف آیت :86۔
۔سورۃ المزمل آیت:9۔
۔سورۃ الرحمٰن آیت:17۔
۔دیکھئے عربی لغت کی کتاب "المعجم الوسیط "اور "مختار الصحاح "
۔سورۃ الزمر آیت: 69۔
۔ سورۃ آل عمران آیت: 186۔
۔"الاستشراق والخلفیہ الفکریہ للصراع الحضاری"مصنف ڈاکٹر محمود حمدی زقزوق:ص20۔
۔"مکسیم رودنسون"کے اقتباسات میں سے جس کو "شناخت وبوذورث"نے ترتیب دیا ہے اور ترجمہ "ڈاکٹر محمد زبیر سہوری "نے کیا ہے ج1ص78،(سلسلہ عالم المعرفۃ بالکویت1978ء)