حدیث معلق اورصحیح بخاری

اثنائے تدریس میں کتب صحاح ستہ کے متعلق بعض فنی اور اصولی مباحث جمع ہوتے رہے جو ایک مسودہ کی صورت مین مستقل کتاب کی شکل اختیار کر چکے ہیں اب خیال آتا ہے کہ اگر ان مباحث کو مقالات کی شکل میں شائع کر دیا جا ئے تو یہ مواد محفوظ ہو سکتا ہےاور آئندہ بھی اس سے استفادہ ممکن ہو سکے گا ۔(راقم الحروف )

حدیث معلق کے معنی :۔

محدثین کی اصطلاح میں معلق حدیث اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے مبداء اسناد سے ایک یازیادہ رواۃ کو حذف کر کے حدیث کی نسبت من فوق المحذوف کی طرف کر دی گئی ہو۔

اس میں "مبداء اسناد سے حذف"کی قید سے منقطع ،مرسل،مقطوع اور معفل وغیرہ خارج ہوجاتی ہےکیونکہ ان کے مبداء اسناد سے حذف نہیں ہوتا بلکہ درمیان یا آخر سند سے راوی ساقط ہوتا ہے

ملا علی القاری نے شرح نخبہ کے حواشی اور شرح الشرح میں حذف کے ساتھ علی التوالی کی قید بھی ذکر کی ہے مگر دوسرے علماء نے اس کی تصریح نہیں کی ہاں مبداء اسناد کی قید ضروری ہے بلکہ متقدمین کے نزدیک تومن فوق المحذوف کی طرف نسبت بالجزم کا ہو نا بھی ضروری ہے کیونکہ تعلیق بالتمریض کو وہ معلق نہیں کہتے ۔علامہ صنعانی لکھتے ہیں کہ میں تعلیق کے لفظ کو ایسی روایت جس میں سند کے راوی وسط یاآخر سے محذوف ہوں پر استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی اس روایت پر جس میں نسبت بالجزم نہ ہو ۔ ہاں متاخرین نے غیر مجزوم پر بھی تعلیق کا لفظ استعمال کیا ہے جن میں حافظ کبیر ابو الحجاج یوسف بن الزکی کی المزی بھی شامل ہیں وہ اپنی کتاب تحفۃ الاشراف میں صحیح بخاری میں اس نوع کی حدیث پر تعلیق کا لفظ بولتے ہیں مثلاً"باب مس الحریر میں غیرلبس"میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔

"ويروى فيه عن الزبيدي عن الزهري عن أنس عن النبي. صلي الله عليه وسلم"

اس کوالاطراف میں ذکر کرنے کے بعد اس پر (رخ العباس تعلیقاً)کہا ہے (خت)

تعلیق کی صورتیں :۔

پھر اگرشروع سے پوری اسناد حذف کردی جائے اور مصنف "قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "کہہ دے یارجال اسناد سے صرف صحابی کا ذکر کرے (جیسے "قال ابن عمر" رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ابن الصلاح نے بعض سے نقل کیا ہے کہ یہ بھی تعلیق ہے۔ چنانچہ مقدمہ میں لکھتے ہیں ۔ کہ تعلیق کا لفظ میں نے اس روایت پر استعمال ہوتا پایا ہے جس میں ابتداء سند سے ایک یازیادہ راوی حذف ہوں حتیٰ کہ بعض کے ہاں جس کی پوری سند محذوف ہو۔ جیسے کہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا ۔یاابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یاسعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔وغیرہ لیکن حافظ مزی نے"الاطراف "میں اس قسم کے اقوال کو تعلیق میں شامل نہیں کیا اور نہ ان پر (خت) کی علامت لگا ئی ہے۔

لفظ تعلیق کی اصطلاح :۔

سب سےپہلے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں اس قسم کی احادیث کو تعلیق کا نام دیا اور پھر اس کے بعد مغاربہ نے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی اتباع کی۔ حافظ ابن الصلاح نے اس طرف ایسے اشارہ کیا ہے کہ تعلیق (ایسی روایت ہے) جسے حمیدی صاحب الجمع بین الصحیحین اور مغاربہ وغیرہ صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی احادیث میں بیان کرتے کہ ۔۔۔جو مقطوع السند ہو اور اس اصطلاح کو امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے قبل استعمال کیا ہے۔

حدیث معلق کا حکم:۔

معلق حدیث کے محذوف رواۃ چونکہ مجہول ہوتے ہیں اس لیے تا آں وقت اس پر رود قبول کا حکم نہیں لگا سکتے ۔جب تک وہ رواۃ سامنے نہ آجائیں اور قوت و ضعف کے لحاظ سے ان کے درجات کو متعین نہ کرلیا جائے کیونکہ تعدیل علی الابہام جمھورکے نزدیک مقبول نہیں ہے۔ہاں اگر وہ روایت کسی ایسی کتاب میں ہو جس کے مصنف نے یہ التزام کیا ہو کہ وہ"فقط ایسے رواۃ کو حذف کریں گے جو کہ ثقہ ہوں"توعلماء نے اس نوع کی تعالیق میں خصوصی منہج اختیار کیا ہے۔چنانچہ حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں ۔

التعليق الذي يذكره أبو عبد الله الحميدي ، صاحب ( الجمع بين الصحيحين ) وغيره من المغاربة ، في أحاديث من صحيح البخاري قطع إسنادها - وقد استعمله الدارقطني من قبل - : صورته صورة الانقطاع ، وليس حكمه حكمه ، ولا خارجا ما وجد ذلك فيه منه من قبيل الصحيح إلى قبيل الضعيف ، وذلك لما عرف من شرطه وحكمه

لیکن یہ اس تعلیق کا حکم ہے بصیغہ جزم ہو اور اس کے رجال ،رجال صحیح ہوں تو اس کی صحت کا حکم لگا یا جا ئےگا کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اگر بالجزم بیان کیا ہے تو اس کی صحت ثابت ہونے کے بغیرنہیں کیا ،ابن الوزیر کے الفاظ ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بالجزم نسبت اس وقت ہی فرماتے ہیں جبکہ وہ آپ کے نزدیک صحیح ہو۔

اس پرامیرصنعانی لکھتے ہیں کہ یہ محض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر حسن ظن ہے ورنہ یہ صحت کی دلیل ہے۔۔۔اس باب میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ صحیح ہے۔وہ لکھتے ہیں ۔

"اور ایسی روایت پر صحت کا حکم لگایا جائے گا جس کے محذوف رواۃ عدالت اور ضبط میں معروف ہوں بایں طور کہ کسی اور طریق سے امام صاحب ان کا نام یا کنیت یا لقب ظاہر کر دیں۔"

دوسری صورت یہ ہے کہ جب کوئی حدیث صحیح ہو اور امام بخاری کی شرط پر نہ ہو اور المحذوف پر صحت کا حکم ہو تا ہےجیسے کتاب الغسل میں ہے۔

وقال بَهْزٌ عن أبيه عن جده عن النبى صلى الله عليه وسلم

حالانکہ بہز عن ابیہ عن جدۃ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر نہیں ہے۔۔۔کماصرح بہ الحافظ ۔یہی وجہ ہے کہ علامہ حمیدی نے ایسی روایات کو الجمع بین الصحیحین میں ذکر نہیں کیا۔

علاوہ ازیں جب جد بہز معاویہ بن حیرہ کی حدیث کو کتاب النکاح میں معلق کیا تو اسی بناپرجزم نہیں کیا بلکہ بصغیہ تمریض ذکر کیا ہے۔

تعالیق اور صحیح بخاری :۔

صحیحین میں مسند احادیث کے علاوہ تعالیق بھی مذکورہیں تاہم صحیح مسلم کے مقابلہ میں صحیح بخاری میں تعالیق کی تعداد بہت زیادہ ہے اس کے بر عکس صحیح مسلم میں حوالہ بہت زیادہ ہے اور صحیح بخاری میں حوالہ بہت کم ہے اور یہ کثرت وقلت دونوں کتابوں کے مقصد میں اختلاف کی وجہ سے ہےامام مسلم نے اسناد اور اختلاف طرق کے بیان کو مقصد بنایا جو فن حدیث میں اہمیت اور افادیت کا حامل ہے اس لیے وہ ہر حدیث میں طرق اسانید اور ان میں اختلاف کو ملحوظ رکھتے ہیں اور مثلہ یا نحوہ کہہ کر متن حدیث کا احالہ کر دیتے ہیں ۔

لیکن امام بخاری نے چونکہ اپنی صحیح کی بنیاد فقہ الحدیث پر رکھی ہے اس لیے وہ طرق اسانید اور اختلاف رواۃ کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے بلکہ جس مقام پر ایسی ضرورت محسوس کرتے ہیں اسناد کو مختصراًیا تعلیقاًذکر کر دیتے ہیں ۔اس لیے الجامع الصحیح میں تعالیق بکثرت جمع ہو گئی ہیں ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

صحیح بخاری میں کل تعالیق ایک ہزار تین سواکتالیس ہیں جن میں اکثر وہ ہیں جو مولف نے دوسرے مقام پر مو صولاًذکر دی ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مصنف کی شرط پر ہیں ۔بقیہ ایک سو ساٹھ روایات وہ ہیں جو تعلیقاًہی مذکورہیں اور مولف نے کسی دوسرے مقام پر ان کو مسنداً یا موصولاً ذکر نہیں کیا۔

قسم اول کی تعلیق پر بحث کرتے ہو ئے شارح رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری اپنی عادت اور قاعدہ کے مطابق مکرر حدیث نہیں لا تے اور اگر کسی ایک ہی حدیث سے متعدد مسائل کا استخراج کرنا مقصود ہوتا ہے اور مختلف تراجم کے تحت لانا ضروری ہوتا ہے تو حدیث کی اسناد میں تغایر یا متن حدیث میں اختصار کر لیتے ہیں تاکہ وہ حدیث بعینہ اسناد متن کے ساتھ مکررنہ آئے بلکہ اس سے کبھی کو ئی قاعدہ خفیہ یافائدہ حدیثیہ حاصل ہو جا ئے ۔اسی مقصدکے پیش نظر کبھی متن حدیث کی تقطیع کر لیتے ہیں اور ہر جملہ کو متعلقہ ترجمۃ الباب کے تحت لے آتے ہیں اور کبھی اسی حدیث کو دوسرےطریق سے لے آتے ہیں لیکن اگر کوئی حدیث ایک ہی طریق سے مروی ہے اور اس کے متن میں بھی اختصار یا تقطیع ممکن نہیں تو تعلیق کر دیتے ہیں اور اسناد سے بعض رواۃ کو حذف کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں بہر حال احادیث مرفوعہ جو دوسری جگہ موصولاً مذکور ہیں ان کو معلق ذکر کرنے کی یہ ایک وجہ ہے۔ ورنہ ان کو تعلیقاً ذکر کرنے کی دیگر وجوہ بھی ہو سکتی ہیں ۔كما سياتي

تکرار حدیث کی بحث:۔

ہم نے بتا یا ہے کہ امام بخاری جب بھی کو ئی مکررحدیث لاتے ہیں توکسی فائدہ حدیثیہ یاقاعدہ خفیہ کے تحت لا تے ہیں اور یہ مصنف کی ایسی خوبی ہے جس میں کو ئی دوسرا شریک نہیں ہے اور تکرار حدیث میں چونکہ طرق و الفاظ حدیث کا بھی تکرار ہوتا ہے اس لیے ضعۃ الاسناد کا بھی تدارک ہو جا تا ہے ۔لیکن غور سے دیکھا جا ئے تو یہ تکرار نہیں ہے اور امام بخاری تکرار سے گریزاں ہیں چنانچہ کتاب الحج باب تعجیل الوقوف میں الصحیح کے بعض نسخوں میں امام سے مروی ہے۔

"ابو عبد اللہ نے کہا کہ اس باب میں مالک عن ابن شہاب کی روایت بھی آتی ہےلیکن میں بوجہ تکرار دوبارہ ذکر سے گریزاں ہوں "

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کے تحت لکھتے ہیں ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مولف قصداً کسی حدیث کو باسنادہ و متنہ دوبارہ نہیں لا تے اور اگر کہیں ایسا ہوا ہے تو یہ شاذ نادر ہے اور مولف کے قصد کو اس میں دخل نہیں ہے۔علامہ قسطلانی نے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر سے قلیل کی نشان دہی کی ہے اور لکھا ہے کہ 21احادیث میں امام بخاری نے اس قاعدہ کی مخالفت کی ہے اور ان کو ایک ہی اسناد اور متن کے ساتھ مکرر لا ئے ہیں بلکہ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر ایک حدیث کا اضافہ کیا ہے۔ بعض علماء نے مذکورہ احادیث کے علاوہ ایک اور حدیث کی بھی نشان دہی کی ہے جو نفس سند و متن کے ساتھدوجگہوں پر مکرر آئی ہے وہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں 13جگہوں میں لا ئے ہیں مگر ہر جگہ سند یا متن میں تغایر کے ساتھ لا ئے ہیں ۔صرف دو جگہوں میں بعینہ اعادہ کیا ہے اور اسناد و متن میں کو ئی تغایر نہیں ہے۔

حدیث عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

وہ حدیث عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے (مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينِ صَبْرٍ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ)الخ کہ امام بخاری اس حدیث کو 13مقالات پر لائے ہیں ۔

(1) ابواب الترب باب الخصومة في البر واسناده حدثنا عبدان عن ابي حمزة عن الاعمش عن شقيق عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلي الله عليه وسلم

(2) باب كلام الخصوم بعضهم في بعض حدثنا محمد أخبرنا أبو معاوية عن الأعمش مطولا

(3)في الرهن. باب إذا اختلف الراهن والمرتهن :عن قتيبة بن سعيد حدثنا جرير(الخ)موقوفا

(4) وفي الشهادات باب سوال الحاكم المدعي:اخرجه بنفس الطريق في باب كلام الخصوم ونفس اللفظ ايضا

(5) وفي الشهادات باب اليمين علي المدعي عليه:رواه معلقاما يناسب الترجمة

(6)في الباب السابق وروي الحديث بسنده حدثنا عثمان بن ابي شيبة هكذا بدون التصريح بالرفع

(7)باب يحلف المدعي عليه وعلق فيها جملة منه يعني وقال النبي صلي الله عليه وسلم شاهداك اويمينه حدثنا موسي بن اسماعيل حدثنا عبد الواحد عن الاعمش(الخ)

(8)وفيها ايضا باب قول الله(إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ.....الأية) حدثنا بشر بن خالد ثنا محمد بن جعفر عن شعبة عن سليمان الاعمش

(9)اخرجه في كتاب التفسير تحت الأية المذكور حدثنا حجاج بن منهال ثنا ابو عوانة عن الاعمش

(10)وفي الايمان والنذور باب عهد الله وقال محمد بن بشار ثناابن عدي عن سليمان مختصرا

(11)وفيه ايضا تحت الأية المذكورة حدثنا موسي بن اسماعيل ثنا ابوعوانة

(12)واخرجه في الاحكام باب الحكم في البر حدثنا اسحاق بن نصرثنا عبد الرزاق مختصرا بلفظ جديد

(13)اخرجه في أخر جامعه باب وجوه يومئذ ناضرة حدثنا الحميدي

چنانچہ امام بخاری نے اس حدیث سے تیرہ احکام اخذ کئے ہیں اور صرف دوجگہوں پر (43)میں بعینہ مکرر سنداً ومتناً اعادہ کیا ہے ۔اور وہ 22احادیث جن کی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے نشان دہی کی ہے۔مقدمہ شرح قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ میں مذکور ہیں ۔ دوسری قسم کی تعا لیق جو الصحیح میں تعلیقاً ہی مذکورہیں ان کی دوصورتیں ہیں یعنی یاتو بصیغہ جزم مذکور ہیں اور یابصغیہ تمریض!

(الف)اگر بصیغہ جزم ہیں تو معلق عن تک صحیح ہیں لیکن محذوف رواۃ پر بحث کے بعد اس کی صحت یا عدم صحت کا حکم لگا یا جا ئے گا۔اور اگر رواۃ الصحیح کی شرط پر ہوں تو التحاق بشرط ہو گا ورنہ نہیں۔

پھر جو ملتحق بشرط ہو اس کی تعلیق کے دوسبب ہیں۔

1۔اس کے ہم معنی کوئی دوسری روایت موصولامذکورہوتی ہے تو اس کو مختصراً بصیغہ تعلیق ذکر کر دیتے ہیں مثلاًکتاب الجزیہ میں باب

إِذَا قَالُوا : صَبَأْنَا ، وَلَمْ يَقُولُوا : أَسْلَمْنَا

تحت صباناًکے متعلق موصول روایت ذکر کرنے کی بجائے ابن عمر کی مختصر اور معلق روایت ذکر کر دی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کوباب میں موصول ذکر نہیں کیا بلکہ صرف طرف حدیث ذکر کرنے پر ہی اکتفاکیا ہے جس میں یہ الفاظ موجود تھے یعنی خالد کے قصہ میں ابن عمر کی حدیث میں

(2)مولف کی وہ روایت مسموع نہیں ہو تی بلکہ مذاکرہ یا اجازہ کے طور پر اخذ کی ہو تی ہے اس لیے صیغہ تحدیث یااخبار کی بجائے تعلیقاً لے آتے ہیں تاکہ اصول کے ساتھ اشتباہ نہ ہو۔مثلاً کتاب الصلاۃ میں۔

باب الجمع في السفر بين المغرب والعشاء

حدثنا علي بن عبد الله قال حدثنا سفيان قال سمعت الزهري عن سالم عن أبيه قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يجمع بين المغرب والعشاء إذا جد به السير وقال إبراهيم بن طهمان عن الحسين المعلم عن يحيى بن أبي كثير عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما

حافظ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر صحیح ہے اور ہم نے احمد بن حفص نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ عن ابراہیم کے طریق سے اس کو روایت کیا ہے ۔جبکہ احمد اور اس کا باپ اورجو ان سے اوپر رواۃہیں ان سب سے احتجاج لیتے ہو ئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ان سے احادیث لی ہیں ۔ دوسری مثال :کتاب الوکالۃ میں ۔

(حديث مرفوع) وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو : ثنا عَوْفٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : " وَكَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو صحیح بخاری میں متعدد مواقع پر لا ئے ہیں مثلاً کتاب الخلق باب صفۃ ابلیس و کتاب فضائل القرآن باب فضل سورۃ البقرہ وغیرہ۔

مگر کسی جگہ بھی موصولاًذکر نہیں کی۔ حالانکہ عثمان بن الہیشم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ سے ہیں اور ان سے بہت سی احادیث کا سماع بھی حاصل ہے لیکن اس حدیث کی روایت میں کسی جگہ بھی سماع کی تصریح نہیں کی۔

پس اس حدیث کو تعلیقاً ذکر کرنے کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ شیخ سے اس کاسماع حاصل نہیں ہے یا شیخ سے مذاکرۃً اخذ کی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایسی روایات اپنے مشائخ سے"قال" کے لفظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ۔ دوسری قسم تعلیق جازم کی یہ ہے کہ وہ حدیث صحیح کی شرط پر نہیں ہوتی خواہ نفس الامرمیں وہ حدیث صحیح ہی کیوں نہ ہو جیسے کتاب الغسل میں

باب من اغتسل عُريانا وحده فى الخلوة ومن تستَّر فَالتَّسَتُّرُ أفضل وقال بَهْزٌ عن أبيه عن جده عن النبى صلى الله عليه وسلم (الله أَحَقُّ أن يُسْتَحْيَا منه من الناس

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ مشہور حدیث ہے اور اصحاب سنن اربعہ نے بہز کی احادیث میں اس کو وارد کیا ہے۔جبکہ بہز اور ان کے والد کی ایک جماعت نے تو ثیق کی ہے اور بیشترآئمہ نے احادیث بہز کو صحیح گردانا ہے۔ اس نوع کی دوسری حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہے۔

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ "

یہ ایسی حدیث ہے جو امام مسلم نے بطریق خالد بن سلمہ عن عبد اللہ الہبی عن عروۃ عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ذکر کی ہے اور خالد مشکلم فیہ ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر نہیں ہے اور تیسری قسم تعلیق جازم کی وہ حدیث ہے جو انتطاع کی وجہ سے ضعیف ہو تی ہے۔مثلاً کتاب الزکاۃ "باب العرض فی الزکاۃ "میں ہے۔

وقال طاوس قال معاذ رضي الله عنه لأهل اليمن ائتوني بعرض ثياب

یہ طاؤس تک چونکہ صحت کی ساتھ ثابت ہے اس لیے مولف نے بصیغہ جزم ذکر کیا ہے لیکن طاؤس کو معاذ سے سماع حاصل نہیں اس لیے منقطع ہے اور امام نے اس کو معلق کر دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس پر مزید لکھتے ہیں ۔

اس سے دھوکا نہیں ہونا چاہیے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اگر کسی حدیث کو تعلیق جازم کے ساتھ روایت کریں تو ان کے نزدیک یہ روایت صحیح ہوتی ہے۔کیونکہ اس قسم کی تعلیق تو(الي من علقة)تک صحت کا فائدہ دیتی ہے باقی اسناد بحالہ رہتی ہے تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس کو معرض احتجاج میں پیش کرنا اس کی قوت کا مقتضی ہے گویا دوسری حدیث سے اس کو تقویت حاصل ہو گئی ہے جو اس باب میں مذکورہیں۔

" قال فلان " کا حکم :۔

اب یہاں پر ان رویات کے حکم کو جاننا ضروری ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیوخ سے قال فلان یاذکر فلاں وغیرہ الفاظ سے ذکر کی ہیں کہ کیا یہ تعلیق ہے؟یا تدلیس ہے یا عنعنہ ؟شیخ الاسلام شرح النخبہ میں لکھتے ہیں کہ معلق کی صورتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سے حدیث لی ہو اس کو حذف کرکےاس سے اوپر کی طرف نسبت کر دی جا ئے۔پس اگر وہ اوپر والا راوی بھی اس مصنف کا شیخ ہے تو تب اس کو تعلیق کہنے میں اختلاف ہے۔اس میں تصحیح مذہب یہ ہے کہ اگر نص واستقراء کے ذریعے ثابت ہو جائے کہ ایسا کرنے والا "مدتس"ہے تو حدیث کا معاملہ مکمل !وگرنہ یہ تعلیق ہو گی ۔ عراقی نے ابن مندہ سے نقل کیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا الصحیح میں (قال لنا فلان)کہنا اجازہ ہے اور (قال فلان)تدلیس ۔۔۔یہی حال امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

علامہ عراقی لکھتے ہیں کہ یہ بے معنی اور غلط بات ہے اور کسی نے بھی اس بات میں ابن مندہ کی موافقت نہیں کی اس کے بطلان کے لیےیہی کافی ہے کہ اس نے بخاری کے ساتھ مسلم کو بھی ضم کر دیا ہے حالانکہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی الصحیح میں مقدمہ کے بعد کسی شیخ سے(قال فلان)کی ساتھ روایت نہیں کی بلکہ تمام روایات تصریح کے ساتھ ہیں ۔ ہاں کبھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنے بعض شیوخ سے(قال فلان)کے ساتھ روایت کرتے ہیں حالانکہ اس روایت میں ان کے درمیان واسطہ ہوتا ہے تو یہ تدلیس نہیں ہےاور نہ ہی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مدلس تھے بلکہ یہ تعلیق ہے جو ایک اصطلاحی طریق ہے اور اس کے کچھ اسباب و بواعث ہیں جن کے پیش نظر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تعلیقاً ذکر کر دیتے ہیں ۔

قال فلان وذكر فلان اوقال لي فلان يا ذكر لنافلان

میں حافظ ابن الصلاح کا کلام اختلاف کی صورت اختیار کر گیا ہے اور شارحین نے بھی نے بھی مختلف آراء ذکر کی ہیں حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں ۔

(قال فلان بھی عن )کے حکم میں ہے یعنی یہ مجہول ہے لیکن آگے چل کر لکھتے ہیں

"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (قال القعنبي)وغیرہ کے صیغے کے ساتھ جو اپنے شیوخ سے ذکر کرتے ہیں یہ سب تعالیق میں شامل ہے۔"

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔چنانچہ ہدی الساری میں لکھتے ہیں ۔

ان کا حکم بھی دوسری تعالیق کا ہے تاہم صیغہ جزم ہو نے کی وجہ سے مفید الصحہ ہے اور ساتھ ہی یہ احتمال ہے کہ انھوں نے اپنے شیخ سے سنا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مولف اپنی صحیح میں قال فلان کے ساتھ اپنے شیخ سے روایت کرتے ہیں اور پھر اسی روایت کو دوسرے مقام پر اسی شیخ سے بالواسطہ ذکر کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہے کہ شیخ سے اس خاص کی روایت کا سماع حاصل نہیں ہے۔مثلاً:باب صلاۃ اللیل میں زید بن ثابت والی حدیث ذکر کی ہے (ان رسول الله صلي الله عليه وسلم اتخذ حجرة قال عفان حدثنا وهب)پھر اسی عفان کی روایت کو کتاب الاعتصام میں مسند اًذکر کیا ہے عن اسحاق عن عفان بہ۔۔۔اس پر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اور یہ چند ایک ایسے مقامات سے ہیں جن سے یہ دلیل لی جاتی ہے کہ بخاری بسااوقات ایسے شیوخ سے بھی معلقاً روایت کرتے ہیں جن سے سماع حاصل نہیں ۔ اسی طرح التاریخ الکبیر میں بعض شیوخ سے تعلیقاً ذکر کرتے ہیں اور پھر تصریح کرتے ہیں کہ اس سے سماع حاصل نہیں۔مثلاً حضرت معاویہ کے ترجمہ میں ہے (قال إبراهيم بن موسى - فيما حدثوني عنه)حالانکہ ابرا ہیم بن موسیٰ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ میں سے ہیں اس لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔نہ تو یہ قاعدہ مطردہے کہ "قال فلان"عدم سماع پر محمول ہے اور نہ ہی تمام اس قسم کی روایات کو سماع پر حمل کرسکتے ہیں۔ ابن مندہ وغیرہ نے الزام لگایا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ قال فلان میں تدلیس کرتے ہیں لیکن علماء نے اس کی تردید کی ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مدلس نہ تھے ۔ابن ابی حاتم کا بیان ہے کہ ایک حدیث کے متعلق جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے یہ ذکر ہوا تو انھوں نے فرمایا :

اے ابو فلاں !کیا تو مجھے مدلس گمان کرتا ہے جبکہ میں نے تو دس ہزار احادیث اس بناء پر چھوڑدیں کہ مجھے ان میں ترددتھا ۔ یعنی انھوں نے اتنا بڑا ذخیرہ حدیث محض (لي فيه نظر)کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے تو تدلیس مذموم کا ارتکاب کیسے کر سکتے ہیں؟

اب رہے دوسرے صیغے یعنی (قال لي فلان ذكر لي فلان)وغیرہ جن میں "لی"یا"لنا" کا لفظ زیادہ کرتے ہیں ۔علامہ کرمانی لکھتے ہیں مذاکرہ پر محمول ہیں اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو حدیث مذاکرۃً اخذ کرتے ہیں اس کے اداکے لیے یہ صیغہ اختیارکرتے ہیں تاکہ دونوں میں اشتباہ نہ رہے جعفر بن حمد ان بھی تقریباً اسی کے قائل ہیں لیکن حافظ کا دعویٰ ہے کہ یہ اتصال پر محمول ہیں چنانچہ "مایذ کرفی المنالہ" کے تحت لکھتے ہیں ۔یہ دعوی مردود اور بلادلیل ہے میں نے بخاری میں متعدد مواضع پر پایا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ "الجامع "میں "قال لی" کہنے کے بعد جامع کے علاوہ کسی کتاب میں اسے ہی "حدثنا" بھی کہہ دیتے ہیں جبکہ اجازہ میں آپ "حدثنا"نہیں کہا کرتے پس یہ دلیل ہے کہ یہ سماع پر محمول ہے۔

مثلاً:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ باب(باب مكث الإمام في مصلاه)"قال لناآدم"کے تحت لکھتے ہیں یہ روایت موصول ہے ۔"قال لنا" کے ساتھ تعبیر کی وجہ اس کا موقوف ہونا ہے اس کو مذاکرہ یا مناولہ پر حمل کرنا صحیح نہیں ہے۔

اسی طرح کتاب التعیرمیں حدثناابراہیم بن موسی کے صیغہ سے ایک روایت ذکر کی ہے مگر کتاب الایمان والنذورمیں اسی روایت کو قال لی ابراہیم بن موسیٰ کے صیغہ سے روایت کیا ہے،اسی طرح التاریخ الکبیر میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو قال لی عبدان سے ذکر کیا ہے۔

لیکن کتاب الصوم میں اسی روایت کو حدثنا عبدان سے درج کیا ہے۔

علی ہذا القیاس (كتاب الجنائز » باب ما جاء في قاتل النفس)کے تحت (كان برجل خراج فقتله)والی حدیث کو قال حجاج بن المنهال حدثنا جرير بن حازم الخ

روایت کیا ہے حالانکہ حجاج بن منہال سے متعدد حدیثیں سنی ہیں پھر دوسرے مقام پر (باب ما ذكر عن بني إسرائيل)میں حدثنا محمد حدثنا حجاج بن منہال بالواسطہ ذکرکیا ہے۔معلوم ہوا یہ حدیث حجاج سے مسموع نہیں ہے۔

اس سے ثابت ہواکہ (قال فلان)تعلیق ہے اگر دوسرے مقام پر سماع کا ذکر ہو تو اتصال پر محمول ہو گی۔لیکن اس کے برعکس اگر کسی دوسرے مقام پر بالواسطہ روایت ہو تو تعلیق پر محمول ہو گی۔

اسماعیلی اپنی کتاب "المدخل الی المستخرج علی البخاری "میں لکھتے ہیں

وكثير ما يقول البخاري قال فلان وقال فلان عن فلان

تویہاں پر تحدیث کی تصریح نہ کر نیکی چند وجوہ ہو سکتی ہیں ؟

1۔کسی روایت کو علو کے ساتھ نہیں سنا ہوتا لیکن اس مروی عنہ سے ثقات اس کو روایت کرتے ہیں تو امام بخاری دوسرے ثقات سے اس کی صحت اور شھرت کی بنا پر (قال فلان)کہہ دیتے ہیں ۔

2۔دوسری جگہ بالتحدیث بیان کی ہوتی ہے لہذا اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔

3۔وہ روایت ایسے راوی سے سنی ہوتی ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر نہیں ہوتا تو اس کو (قال فلان)سے روایت کر دیتے ہیں ۔

4۔متابعت واستشہاد کے موقع پر ذکر کرتے ہیں ۔نہ کہ بطور احتجاج اور جو روایات معرض استشہادو متابعت ہوتی ہیں ان میں تسا مح ہو سکتا ہے۔

5۔محض کسی دوسری روایت سے وہم کو دور کرنے کے لیے تعلیقاً ذکر کرتے ہیں ورنہ احتجاج مقصود نہیں ہو تا مثلاً :سفیان ثوری کے طریق سے عن حمید عن انس روایت ہے لیکن یحییٰ بن ایوب کے طریق سے "عن حميد سَمِعْتُ أَنَسًا

ہے تو یحییٰ بن ایوب کےطریق کو ذکر کر کے حمید دھم تدلیس کو دور کر دیا ہے مگر یحییٰ چونکہ امام کی شرط پر نہیں ہے اس لیے اس طریق کو متابعۃًذکر کیا ہے۔حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں ۔کہ:

متاخرین مغاربہ سے مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ قال لی فلان کو تعلیق پر حمل کرتے ہیں یعنی کہ یہ بظاہر متصل ہے اور اصل میں منقطع ہے۔

دراصل (قال فلان اور قال لي فلان)میں فرق ہے کیونکہ (قال لي فلان)میں سماع کی تصریح ہے اور (قال فلان)میں یہ تصریح نہیں ہے۔

ابو جعفر ابن حمدان کا اس کو عرض مناولہ پر حمل کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ الصحیح میں جو روایات قال لی فلان سے مروی ہیں غیر صحیح میں ان کو حدثناسے روایت کیا ہے۔باب امامۃ المفتون والمبتدع (فتح الباری ج2 ص330)

قال ابو عبد الله وقال لنا محمد بن يوسف حدثنا الاوزاعي...الخ

بعض نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ صیغہ اس روایت میں استعمال کرتے ہیں جو بطور مذاکرہ اخذ کی ہو تی ہیں اور بعض نے اس کو عرض مناولہ یا اجازہ پر محمول کیا ہے اور بعض نے کہا ہے اس قسم کی روایات (من حيث اللفظ)متصل ہوتی ہے مگر (من حيث المعني)منقطع ۔۔۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

میری تتبع اور استقراء اس کے خلاف ہے اور ایسی روایت متصل ہوتی ہے لیکن "قال لنا"سے اس وقت تعبیر کرتے ہیں ۔"جب کوئی متن موقوف ہو یااس میں کوئی راوی امام کی شرط پر نہ ہویہاں پر متن موقوف ہے اور اسماعیلی نے محمد بن یحییٰ کے واسطہ سے اس کو موصولاً ذکر کیا ہے۔"

اس میں عبید اللہ بن عدی بن خیار تابعی کبیر ہے جس کا شمار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں ہو تا ہے کیونکہ یہ عہد نبوی میں تولد ہو چکا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ماں کی طرف سے اس کے اقارب میں تھے۔

ہم پہلے بیان کر آئے میں کہ جب کو ئی حدیث معروف عن الثقات ہوتی ہے تو اس کی شہرت کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے تعلیقاً ذکر کر دیتے ہیں ۔اور اسناد کی ضرورت نہیں سمجھتے تاہم یہ تعلیق بالجزم ہوتی ہے اس لیے یہ تعلیق حدیث کی صحت واتصال پر اثر انداز نہیں ہوتی۔صحیح بخاری میں حدیث المعازف بھی اسی قبیل سے ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاشریہ"باب فیمن "یستحل الخمرؤ یسمعه بغیر اسمعه " میں ذکر کی ہے۔

وقال هشام بن عمار: حدثنا صدقة بن خالد: حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر: حدثنا عطية بن قيس الكلابي: حدثنا عبد الرحمن بن غنم الأشعري قال: حدثني أبو عامر أو أبو مالك الأشعري -والله ما كذبني- سمع النبي صلي الله عليه وسلم يقول: «ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف. ولينزلن أقوام إلى جنب علم، يروح عليه بسارحة لهم. يأتيهم -يعني الفقير- لحاجة، فيقولوا ارجع إلينا غداً. فيبيتهم الله، ويضع العلم، ويمسخ آخرين قردة وخنازير إلى يوم القيامة)

ابن حزم نے "المحلی"میں اس حدیث پر دواعتراض کئے ہیں ۔

(الف) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ہشام بن عمار کے مابین انقطاع ہے۔

(ب)صحابی کے نام میں تردواور شک ہے۔

ان دو جوہ کی بنا پر یہ حدیث قابل احتجاج نہیں ہے لہٰذا معازف حرام نہیں ہیں ۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

اولاً تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بصیغہ جزم بیان کیا ہے اور جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بصغیہ جزم تعلیق کریں تو اسی حدیث کے متعلق ایسا کرتے ہیں جو صالح للقبول ہوتی ہے۔ خصوصاً جبکہ اس حدیث کو احتجاج کے طور پر بھی ذکر کریں ۔ اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں حفاظ حدیث کے ہاں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ احادیث جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بصیغہ جزم تعلیقاً ذکر کرتے ہیں تو جس تک معلق ہوئی ہیں وہاں تک صحیح ہوتی ہیں اگرچہ وہ آپ کے شیوخ سے بھی نہ ہوں اور پھر جب بعض حافظ کی روایت سے کوئی حدیث جہاں تک تعلیق ہوئی ہے۔

موصول پالی جا ئے صحت کی شرط کے ساتھ تو آئندہ کے لیے اشکال ختم ہو جاتا ہے۔

اور پھر حافظ نے نو(9)حفاظ کے واسعہ سے ہشام بن عمار سے اسی حدیث کا متصلاًروایت ہونا ذکر کیا ہے العجم الکبیر للطبرانی ،المستخرج لابی نعیم ،سنن ابی داؤد اور صحیح ابن حبان وغیرہ کتب سے اسانید متصلہ کے ساتھ روایت جمع کی ہیں اور آخر میں لکھا ہے کہ یہ حدیث ہے جس میں کو ئی علت نہیں اورنہ ہی کوئی طعن ہے۔اور دوسرے اعتراضات کے جواب میں لکھتے ہیں ۔

جہاں تک صحابی کی کنیت میں اختلاف کا تعلق ہے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بلا تفریق عادل ہیں اور ہم نے ابن حبان سے روایت کیاہے کہ انھوں نے اپنی صحیح میں کہا کہ انھوں نے ابو مالک اور ابو عامرسے سنا وہ کہہ رہے تھے۔۔۔پھر ان دونوں سے مکمل ذکر کیا پس میرے پاس اس معاملے میں شواہد بھی ہیں بوجہ طوالت ان کے ذکر کو ترک کرتا ہوں ۔ یہاں تک ہم نے ان تعالیق سے بحث کی ہے۔جو صحیح البخاری میں بصیغہ جزم مذکور ہیں ۔اور دوسری جگہ متصلاً مروی نہیں ہیں ۔اب ہم ان تعالیق کا جا ئز لیتے ہیں جو مولف نے بصیغہ تمریض بیان کی ہیں ۔

صحیح بخاری میں جو احادیث معلق بصیغہ تمریض ہیں ان کی چند صورتیں ہیں ،

(الف) بعض وہ ہیں جو ملتحق بشرطہ ہیں اور روایت بالمعنی کیوجہ سے ان کو بصیغہ تمریض ذکر کیا ہے۔

(ب)ان میں بعض احادیث صحیح ہیں گو امام کی شرط پر نہیں ہیں کیونکہ یا تو ان کے رجال رجالُ الصحیح نہیں ہیں اور یامؤلف کے نزدیک ان میں کو ئی علت پائی جا تی ہے۔

(ج)بعض ان میں سے "حسن"ہیں ۔

(د)اور بعض ضعیف ہیں جن میں بعض تو وہ ہیں جن کے ضعف کا کسی دوسری وجہ سے جبر ہو گیاہے۔مثلاً معمول بہاہو نے کی وجہ سے ان کو قوت حاصل ہو گئی ہے۔

اور کچھ دوسری ہیں جن کے ضعف کا جبر نہیں ہوا بلکہ بحا لھا ضعیف ہیں ایسی احادیث کے ضعف کی مؤلف نے خود تصریح کر دی ہے جیسا کہ امثلہ سے واضح ہو گا ۔چنانچہ اب ہم ان کی امثلہ پیش کرتے ہیں ۔

(الف) وہ تعلیق ممترض جس کی اسناد صحیح ہے لیکن شرط بخاری پر نہیں ہے کیونکہ اس کے بعض رجال شرط صحیح پر نہیں ہیں مثلاً کتاب الصلاۃ"باب الجمع بین الصورتین فی الرکعہ"میں ہے۔

"وَيُذْكَرُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ: "قَرَأَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- الْمُؤْمِنُونَ فِي الصُّبْحِ، حَتَّى إِذَا جَاءَ ذِكْرُ مُوسَى وَهَارُونَ أَوْ ذِكْرُ عِيسَى أَخَذَتْهُ سَعْلَةٌ فَرَكَعَ"

یہ حدیث صحیح ہے اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی الصحیح میں اس کو :من طریق محمد بن عباد بن جعفر عن ابی سلمہ بن سفیان و عبداللہ بن عمرو القاری و عبد اللہ بن المسیب ثلاثتہم عن عبد اللہ بن السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ موصولاً"روایت کیا ہے۔ اور اس حدیث کی یہ اسناد ایسی ہے جس کے ساتھ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الصحیح میں کو ئی حدیث ذکر نہیں کی کیونکہ یہ معلل ہونے کی وجہ سے امام کی شرط پر نہیں ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ وجہ تعلیل بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔"ابن جریج پر اس کی اسناد میں اختلاف ہے۔

ابن عیینہ نے عنہ عن ابن ابی ملیکہ عن عبد اللہ بن السائب روایت کی ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے اور ابو عاصم النیل نے عنہ عن محمد بن عباد عن ابی سلمہ بن سفیان اور سفیان بن ابی سلمہ عن ابن السائب روایت کی ہے ۔اس اختلاف کی بنا پر مؤلف نے اس کو معلق بصیغہ تمریض ذکر کیا ہے حالانکہ اس کی اسناد قابل حجت ہے۔ اور یہ صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث ہے۔ لیکن بظاہر ایسا معلوم ہو تا ہے کہ شرط پر نہ ہو نے کی وجہ سے تعلیقاً روایت کی ہے نہ کہ محض اسناد میں اختلاف کیوجہ سے۔۔۔

کیونکہ صحیح بخاری میں بعض احادیث وہ بھی ہیں جن کی اسانید میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے لیکن مؤلف نے راجح طریق سے اس کو ذکر کر دیا ہے۔مثلاً عبد اللہ بن مسعود کی حدیث جس میں ہے أتيت النبي صلى الله عليه وسلم بحجرين وروثة کہ اس اسناد میں سخت اختلاف ہے ۔لیکن مؤلف نے طریق راجحہ کے ساتھ اس کو الصحیح میں روایت کیا ہے۔

(ب)اور کتاب الصوم "باب من مات وعلیہ صوم "میں ہے۔

وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، وَمُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، وَسَلَمَةِ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، وَعَطَاءٍ ، وَمُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

کہ اس حدیث کے اسناد میں اختلاف ہے جو اضطراب کی حد تک پہنچا ہوا ہے اور پھر حدیث کو اس سیاق میں ذکر کرنے میں ابو خالد الاحمر متفرد ہے اور بہت سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے جن میں یحییٰ بن سعید ،ابو معاویہ ،شعبہ ، عبد اللہ بن نمیر ،عبشربن قاسم اور عبیدۃ بن حمید خاص طورپر قابل ذکر ہیں ۔یہ سب اس پر متفق ہیں کہ اس روایت میں مسلم البطین کا شیخ سعید بن جیر ہے۔ابوخالد الاحمر نے عن مسلم البطین عن ثلاثہ (سعید بن جیر،عطاء مجاہد)روایت کی ہے لہٰذا ابو خالد الاحمرکی یہ روایت شاذ ہے چنانچہ ابن خذیمہ نے بھی اپنی صحیح میں ابو خالد الاحمر کے طریق سے روایت کے بعد لکھا ہے۔

وقال ابوبكر لم يقل احد عن الحكم وسلمة بم كهيل الاهو

اصحاب سنن میں سے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابو خالد الاحمر کے طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے دیکھئے :تحفۃ الاشراف (415/4حدیث نمبر 5513)اور ابو داؤد میں من طریق یحییٰ وابی معاویہ عن الاعمش عن مسلم البطین عن سعید بن جیر مرفوعاً مذکورہے۔ جبکہ نسائی میں من طریق شعبہ عن الاعمش ہے پس اصحاب سنن میں سے صرف ترمذی اور ابن ماجہ نے ابو خالد الاحمر کے طریق سے روایت کی ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اس حدیث کے اسناد و متن میں اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے۔

(1) حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ

(2) قَالَ سُلَيْمَانُ : فَقَالَ الْحَكَمُ وَسَلَمَةُ وَنَحْنُ جَمِيعًا جُلُوسٌ ، حِينَ حَدَّثَ مُسْلِمٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَا : سَمِعْنَا مُجَاهِدًا يَذْكُرُ هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

(3) وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، وَمُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، وَسَلَمَةِ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، وَعَطَاءٍ ، وَمُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ

(4) وَقَالَ يَحْيَى ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ

(5) وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ

(6) وَقَالَ أَبُو حَرِيزٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَاتَتْ أُمِّي وَعَلَيْهَا صَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا .

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

متن حدیث میں سائل(سائلہ)اور مسئول عنہ (صوم وحج کا اختلاف حدیث سے استدلال پر اثرانداز نہیں ہو سکتا کیونکہ سائل کی غرض یہ ہے کہ کیا میت کی طرف سے صوم ،حج وغیرہ (عبادات بدنیہ )ادا ہو سکتے ہیں یا نہیں اور ان عبادات کا ادا کرنا ولی پر واجب ہے یا نہیں ؟اور پھر اس میں اضطراب و اختلا ف بھی نہیں ہے کیونکہ دراصل یہ دوقصے ہیں ۔نذرصوم کے متعلق سائلہ خثیمہ ہے جیسا کہ ابو حریز کی روایت میں مذکورہےاور نذر حج کے متعلق سائلہ (لفظ مٹا ہوا ہے) ہے اور صحیح مسلم میں ہے کہ ایک عورت نے نذر صوم و حج دونوں کے متعلق سوال کیا۔

اور اسناد میں اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ اعمش نے ایک ہی مجلس میں اپنے شیوخ ثلاثہ سے اس حدیث کا سماع کیا۔اولاًعن مسلم البطین عن سعید بن جیر سے اور پھر عن الحکم وسلمہ عن مجاہد سے وقد خالف زائدۃ فی ذالک ابو الاحمرلانہ روی عن الاعمش عن شیوخہ الثلاثہ عن ثلاثہ شیوخ۔۔۔جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان ہر چھ نے ان تین میں سےہر ایک سے یہ حدیث سنی ہے اور ممکن ہے کہ لف و نشر مرتب ہو۔اس لیے حاٖفظ نے ابو خالد الاحمرکی۔ روایت کو شاذقرار دیا ہے اور یذکر بصیغہ تمریض کے بیان کرنے کی یہ مثال ذکر کی ہے ۔اس سے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ بالا عبارت کی وضاحت ہو جا تی ہے۔

(ج)تعلیق ممرض جس کی اسناد حسن ہو۔

قوله في الزكوة:ويذكر عن سالم عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلي الله عليه وسلم(لا يُفرَّق بين مجتمع ولا يُجمع بين مفترِّق)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ابو داؤد مسند احمد ،ترمذی اور مستدرک حاکم میں "من طریق سفیان بن حسین عن الزھری عن سالم عن ابیہ موصولاً مروی ہے۔تاہم سفیان بن حسین زھری سے روایت میں ضعیف ہے سفیان بن حسین سے احفظ رواۃ نے زھری سے مرسلا روایت کی ہے چنانچہ حاکم نے من طریق یونس بن یزید عن الزھری مرسلاروایت کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس حدیث کو سفیان بن حسین عن زہری کی روایت کی بنا پر تقویت حاصل ہو ئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھا یا پس میں اس کو بعینہ یاد رکھا اور میری یہ را ئے نہیں کہ ابن عمر نے ان سے حدیث بیان کی ہے۔

اسناد میں اس علت کی وجہ سے امام بخاری نے اسے بصیغہ تمریض ذکر کیا ہے لیکن حضرت ابو بکر الصدیق کی حدیث اس کی شاہد بن سکتی ہے جس سے سفیان بن حسین کی روایت کو قوت حاصل ہو جا تی ہے اور یہ حدیث حسن ہو جا تی ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ "النکت " میں مزید لکھتے ہیں ۔ سفیان بن حسین عن الزھری شیخین کی شرط پر نہیں ہے کیونکہ اس کا سماع زھری سے ضعیف ہے ہاں دوسرے شیوخ سے اس کی روایت صحیحین کی شرط پرہے۔

اور کتاب السیوع "باب الکیل علی البائع والمعطی "میں ہے ۔

"ويذكر عن عثمان رضي الله تعالى عنه أن النبي قال له إذا بعت فكل وإذا ابتعت فاكتل"

یہ حدیث مسند احمد مسند البزار اور ابن ماجہ میں من طریق ابن الحیہ عن موسیٰ بن ودوان عن المسیب عنہ بہ مذکور ہے۔ ابن لحیہ ضعیف ہے لیکن دارقطنی کی روایت جو کہ من طریق عبد اللہ بن مغیرہ المصر عن عن منقد مولی سراقہ عن عثمان سے تقویت حاصل ہو تی ہے اور منقد کی وجہ سے یہ اسناد حسن ہو گئی ہے۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔ پس اس اسناد نے دوسری اسناد کو قومی تر کر دیا ہے اور "یہ حسن ہو گئی ہے۔

یہ دونوں امثلہ اس تعلیق ممرض کی ہیں جس کی اسناد حسن ہے۔

(د)اب ہم اس تعلیق ممترض کو ذکر کرتے ہیں جس کی اسناد ضعیف ہے تاہم کسی دوسرے امر سے اس کے ضعف کا جبر ہو گیا ہے۔

ويذكرأن النبي، صلى الله عليه وسلم، (قَضَى بِالدَّيْنِ قبل الْوَصِيَّة)

یہ حدیث ترمذی وغیرہ میں ابی اسحاق السیعی عن الحارث عن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکور ہے امام ترمذی اس کی روایت کے بعد لکھتے ہیں کہ ہم اس حدیث کو حدیث ابو اسحاق عن الحارث عن علی کے ماسوا نہیں جانتے اور بعض اہل علم نے حارث کے بارے میں کلام کیا ہے اور عام اہل علم کا اس حدیث پر عمل رہا ہے۔پس اس عامۃ اھل العلم کے اس پر عمل کی وجہ سے اسے تقویت حاصل ہو گئی۔چنانچہ حافظ لکھتے ہیں ۔

فاعتضد الحديث بعمل عامة اهل العلم باجماع علي طبقة

نیز حافظ "فتح الباری "لکھتے ہیں۔ کہ اس کی اسناد ضعیف ہے لیکن ترمذی کے قول "کہ اہل علم کا اس پر تعامل ہے" کی بنا پر امام بخاری نے بوجہ اعتضاد عمل اہل العلم اس پر اعتماد کیا ہے ۔وگرنہ صحیح بخاری میں مقام حجت پر ضعیف حدیث کو ذکر کرنا بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت نہیں ہے۔

اور کبھی کو ئی روایت صحیح ہو تی ہے مگر اس میں ذیادتی "شاذۃ" ہو تی ہے تو اس کو معلق بصیغہ تمریض بیان کرتے ہیں مثلاً:

باب فِي أُضْحِيَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ وَيُذْكَرُ سَمِينَيْنِ.

اس باب میں حدیث مسند جو آدم عن شعبہ عن عبد العزیز بن صہیب ہے اس میں "سمینین"کا لفظ نہیں ہے۔صرف صحیح ابن عوانہ میں "من طریق حجاج بن محمد عن شعبہ عن قتادۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ "یہ لفظ مذکور ہے۔

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ، سَمِينَيْنِ

اس بنا پر مصنف نے اس کو بصیغہ تمریض ذکر کیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔ کہ شعبہ سے ایک جماعت نے "سمینین"کے لفظ کے بغیر روایت کی ہے اور اس کی اسناد صحیح ہے گویا کہ اس کو بوجہ شذوذ صیغہ تمریض سے بیان کیا گیا ہے۔اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس تعلیق ممرض سے چوری والی روایت کی طرف اشارہ کیا ہوجو کہ من طریق ابی سلمہ عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اوابی ہریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ المصنف عبد الرزاق میں ہے اور حافظ ابن حزم نے اسے "المحلی"میں ذکر کیا ہے۔ اور اس کی تصحیح کی ہے اور سنن ابن ماجہ میں من طریق ثوری عن عبد اللہ بن محمد بن عقیل عن ابی سلمہ مذکورہے۔اس کی اسناد بن محمد نے "عنہ عنی علی بن الحسین حدثنی رافع "بیان کی ہے اور شریک القاضی و عبید اللہ بن عمرو نے ابن عقیل سے زھیر کی متابعت کی ہے۔

(1)کبھی مدلس راوی کے وہم تدلیس کو دور کرنا اور اس کے سماع کو ثابت کرنا مقصود ہو تا ہے مثلاً

(1)کتاب الایمان میں حضرت انس کی حدیث يخرج من النار من قال لا اله الا الله جو ہشام عن قتادۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکورہے اس میں قتادہ مدلس ہے اور وہ "عن"کے ساتھ روایت کر رہا ہے۔مولف نے اس کے بعد قال ابان حدثنا قتاده حدثنا انس رضي الله عنه روایت ذکر کر کے قتادہ سے تدلیس کےوھم کو دور کردیا ہے اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سماع ثابت کر دیا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

"مصنف کے یہاں اس حدیث کو معلق ذکر کرنے کے دو فائدے ہیں ۔اولاً قتادہ کی حضرت انس سے تحدیث کی تصریح !کیونکہ وہ مدلس ہے اور جب تک مدلس کا سماع ثابت نہ ہو اس کی عنعنہ والی روایت مقبول نہیں ہو تی۔ثانیا "من خیر" کی جگہ "من الایمان" کو ذکر کر کے یہ واضح کیا ہے کہ یہاں "خیر"سے مراد "ایمان "ہے"

پھر اگر مصنف اصالتہً ہی ابان کی روایت لے آتے تو تدلیس کے وھم سے تو بچ جاتے مگر ایک تو دوسرافائدہ حاصل نہ ہو تا اور پھر ابان اگرچہ مقبول ہےمگر ہشام اس سے احفظ اور اتقن ہے لہٰذا اس مصلحت کے پیش نظر ہشام کی روایت کو اصالتہً لانا قرین قیاس تھا ۔پس ان دونوں مصلحتوں کے پیش نظر مولف نے یہ ترتیب اختیار کی ہے۔ كتاب السلم...باب السلم الي اجل معلوم

من طريق ابي تعيم حدثنا سفيان عن ابن ابي نجيح عن عبد الله بن كثير عن المنهال عن ابن عباس رضي الله عنه قال قدم النبي صلي الله عليه وسلم المدينةوهم يسلفون...الحديث

اس کے بعد مصنف نے "وقال عبد اللہ بن الولید حدثنا سفیان حدثنا ابن ابی نجیح ۔۔۔تعلیقاً ذکرکیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مصنف کا اس جگہ تعلیق سے مقصد تحدیث کی وضاحت ہے کیونکہ اس سے پہلے یہ روایت عیینہ سے مذکور ہے ۔

خصوصاً جبکہ سفیان ثوری تدلیس کے ساتھ مصنف ہے۔ ۔

(3)كتاب الصوم بَابُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَمْ يُفْطِرْ عِنْدَهُمْ

اولاً حدیث خالد بن الحارث ثنا حمید عن انس ذکر کی ہے کہ (دخل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اور اس کے عقب میں حدیث ابن مریم

وَقَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ سَمِعْتُ أَنَسًا تعليقاً

ذکر کی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں "اس تعلیق کا فائدہ حمید کا انس سے اس حدیث میں سماع کو بیان کرنا ہے کیونکہ بسااوقات حمید انس سے تدلیس میں بھی مشہور ہیں ۔یہ تین امثلہ دفع تدلیس اور بیان التصریح بالتحدیث کی ہے ۔

(2)کبھی تعلیق سے مقصود ایک محدث کی دوسرے سے لقاء کو ثابت کرنا ہو تا ہے جبکہ ان کی باہم لقاء میں بظاہر بُعد ہو۔مثلاً کتاب الفتن ۔۔۔"باب ذکر الدجال "میں ہے۔

سعيد بن ابراهيم بن عبد الرحمن عن ابيه عن ابي بكرة قال لايدخل المدينة...الخ

اس کے بعد

وقال ابن اسحاق عن صالح بن ابراهيم عن ابيه قال قدمت البصرة فقال لي ابو بكرة

تعلیقاًذکر کیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں "اس مقام پر تعلیق ابرا ہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف کے حضرت ابو بکرہ سے سماع کو ثابت کرنے کا فائدہ دے رہی ہے کیونکہ وہ بصرہ میں حضرت عمر کے دور میں تشریف لا ئے تھے حتیٰ کہ وفات پائی ۔" (3)بعض اوقات اس سے مقصود اس بات کی تصریح ہوتی ہے کہ یہ رب العالمین سے روایت شدہ ہے۔ مولف نے کتاب التوحید"باب روایۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن ربہ" میں بطریق یحییٰ عن التیمی عن انس بن مالک عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔

قال ربما ذكر النبي صلي الله عليه وسلم اذا تقرب العبد...الحديث

پھر اس کے بعد

وقال معتمر سمعت ابي قال سمعت انسا عن النبي صلي الله عليه وسلم يرويه عن ربه عزوجل

ذکر کیا ہے۔حافظ لکھتےہیں کہ اس جگہ تعلیق سے مقصود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ عزوجل سے روایت کی صراحت کرنا ہے اور امام مسلم وغیرہ نے اس حدیث کو موصول ذکر کیا ہے (4)کبھی تعلیق سے مقصد کسی مرفوع روایت سے اس کے موقوف ہو نے کے وہم کو دور کرنا ہو تا ہے جیسا کہ "کتاب الاعتصام والسنہ "میں حدیث

سعيد بن ميناء عن جابر بن عبد الله قال:جاءت ملائكة الي النبي صلي الله عليه وسلم

اس سیاق میں حدیث کے مو قوف ہو نے کا وہم ہو تاہے چنانچہ مولف نے اس کے بعد

وتابعه قتيبة عن ليث بن خالد عن سعيد بن ابي هلال عن جابر قال خرج علينا النبي صلي الله عليه وسلم

لاکراس کےمو قوف ہو نے کا وہم دورکر دیا۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا معلقاً ذکر کرنے سے اس آدمی کے وہم کو دور کرنا مقصود ہے جو سعید بن مینا کی حدیث کو موقوف خیال کرتا ہے کیونکہ اس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہونے کی تصریح نہ کی گئی تھی پس آپ نے صراحت رفع کے لیے اس صیغہ کو استعمال کیا ہے۔ (5)کبھی تعلیق سے کسی روایت کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔مثلاً

(1) كتاب فرض الخمس » باب ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يعطي المؤلفة قلوبهم (57) حدثنا أبو أسامة قال حدثنا هشام بن عروة قال أخبرني أبي عن أسماء بنت أبي قالت: وكنت أنقل النّوى... الحديث

(2) أَنَّ فِي رِوَايَة أَبِي ضَمْرَة تَعْيِين الْأَرْض الْمَذْكُورَة وَأَنَّهَا كَانَتْ مِمَّا أَفَاءَ اللَّه عَلَى رَسُوله مِنْ أَمْوَال بَنِي النَّضِير فَأَقْطَعَ الزُّبَيْر مِنْهَا، وَبِذَلِكَ يَرْتَفِع اِسْتِشْكَال الْخَطَّابِيِّ حَيْثُ قَالَ: لَا أَدْرِي كَيْفَ أَقْطَعَ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْض الْمَدِينَة وَأَهْلهَا قَدْ أَسْلَمُوا

(6)اور کبھی روایت بالمعنی کی وجہ سے بصیغہ تمریض ذکر کر دیتے ہیں ۔مثلاباب الرقیہ بفاتحہ الکتاب میں ہے۔

ويذكر عن ابن عباس عن النبي صلي الله عليه وسلم

حافظ "فتح الباری " میں لکھتے ہیں ۔ یہاں پربعض نے اعتراض کیاہےکہ حضرت ابن عباس سے یہ حدیث تو امام بخاری نے صحیح بخاری میں اور اس کے بعد باب الشروط فی الرقیہ بفاتحہ الکتاب میں مسنداًروایت کی ہے جو امام کی شرط پر ہے۔پھر یہاں پر بصیغہ تمریض اس کی طرف کیوں اشارہ کیا ہے اور پھر مولف نے " کتاب الاجارہ ۔۔۔"باب ماء یعطی فی الرقیہ بفاتحہ الکتاب "میں اس حدیث کا ایک جملہ إنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتم عَلَيْهِ أَجْراَ كِتَاب الله تعلیقاً بصیغہ جزم ذکر کیا ہے ۔پس یہ کہنا صحیح نہیں ہےکہ جو حدیث صحیح ہو تی ہے اور امام بخاری کی شرط پر نہیں ہوتی اس کو بصیغہ تمریض ذکر کر دیتے ہیں

اس کے جواب میں علامہ عراقی شیخ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ "علوم الحدیث" میں لکھتے ہیں کہ جب امام بخاری روایت بالمعنی کریں تو تمریض کے صیغہ سے بیان کرتے ہیں پس اب قاعدہ پر کوئی اعتراض نہیں رہتا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی تائید کرتے ہیں کہ بلا شبہ ابن عباس کی خبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک رقیہ بفاتحہ الکتاب کی کو ئی صراحت نہیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریرات سے ہے فلہذا یہ نسبت معنویت کی حامل ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ مولف کے سامنے" رقیہ بفاتحہ الکتاب"کے متعلق کو ئی دوسری صریح حدیث ہو جو مولف کی شرط پر نہ ہو اس لیے اسے بصیغہ تمریض ذکر کر دیا ہو۔۔۔واللہ اعلم۔

(7)کسی حدیث کی اسناد میں تفردیا غرابت کیوجہ اس کو بصیغہ تمریض ذکر کر دیتے ہیں مثلاً"باب مس الحریر من غیر لبس " میں ہے

ويروي عن الزبيدي عن الزهري عن انس عن النبي صلي الله عليه وسلم

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے حضرت انس والی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جو طبرانی کی المعجم الکبیر میں "من طریق عبد اللہ بن سالم الممصی عن الزبیدی عن االزھری عن انس " مذکورہے"

قال انس اهدي للنبي صلي الله عليه وسلم حلة من استبرق ذكره بطوله وفيه قصة مناديل سعد

امام دارقطنی "الافراد "میں فرما تے ہیں کہ " زبیدی سے عبد اللہ بن سالم کے ماسوا کسی نے روایت نہیں کی"

اور حافظ اس پر اضافہ کرتے ہیں کہ اس حدیث کی غرابت اور ابن سالم کے تفرد کے باعث امام مولف نے اس تمریض کے صیغہ سے بیان کیا ہے ۔اور یہی زیادہ واضح بات ہے۔

مزی کا وہم:۔

علامہ مزی نے الاطراف میں سے تعلیق ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس سے مراد حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں ہے۔

أنه رأى على أم كلثوم بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - برد حرير سيراء "

حالانکہ یہ حدیث مراد نہیں ہے کیونکہ اگر یہی حدیث مراد ہو تی تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بصیغہ جزم تعلیق کرتے۔

لأنه صحيح مشهور عن الزبيدي. وقد أخرجه البخاري من حديث شعيب عن الزهري في باب الحرير للنساء

اس کی تا ئید اس بات سے بھی ہو تی ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب کتاب المناقب میں براءبن عازب کی حدیث بیان کی تو اس کے بعد رواۃ الزھری عن انس کہدیا اور جب انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زھری کی یہ حدیث معلق کی تو بعینہ بن عازب کی اسی حدیث کو مسنداًبیان کر دیا ۔ جس سے واضح ہو تا ہے کہ امام بخاری کی مراد حدیث ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ۔۔۔واللہ اعلم۔

(8)بسااوقات کسی راوی کے قابل حجت ہو نے میں اختلاف کے باعث تمریض کے صیغہ سے ذکرکر دیتے ہیں ۔کتاب الصلوۃ میں اس کی مثال ہے کہ

ما يجوز من البصاق والنفخ في الصلاة (64)

وَيُذْكَرُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَمْرٍو: نَفَخَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي سُجُودِهِ

یہ طویل حدیث کی ایک طرف ہے جو مسند احمد (159/2)ابن خزیمہ (321/2) اور ابن حبان (اموارو"157) میں عن عطاء بن السائب عن أبيه عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما

فتح الباری اور تغلیق میں اس حدیث کے طرق ذکر کرنے کے بعد حافظ لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے بصیغہ تمریض اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ عطاء بن السائب قابل حجت ہو نے میں مختلف فیہ ہے اور آخر عمر میں مختلط ہو گیا تھا ۔جبکہ ثوری نے ان سے قبل ازاختلاط روایت لی ہے اور عطاء کا باپ امام بخاری کی شرط پر نہیں ہے۔

اب ہم اس تعلیق ممرض کی مثال بیان کرتے ہیں جو درجہ ضعف میں ہےاور کسی امر آخر سے اس کا جبر نہیں ہوا جیسا کہ کتاب الصلاۃمیں ہے۔

ويذكر عن أبي هريرة رفعه: لا يتطوع الإمام في مكانه ولم يصح"

اس سے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو ابو داؤد میں "من طریق لیث بن ابی سلیم عن الحجاج بن عبید عن ابرا ہیم بن اسماعیل عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "مرفوعاً مذکور ہے۔اس کی اسناد میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے اور وہ اس روایت میں متفرد ہے اور پھر حجاج بن عبید اور ابرہیم بن اسماعیل دونوں مجھول ہیں ان وجوہ کی بنا پر امام بخاری نے اس کے ضعف کی تصریح کر دی ہے۔ نیز حافظ ابن حجر لکھتے ہیں

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس کو " وَلم يَصح " کہنا اس کی اسناد کے ضعف اور مضطرب ہونے کی وجہ سے ہے ۔ایک تولیث بن ابی سلیم ضعیف ہے اور دوسرے اس پر اختلاف ۔۔۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ کبیر میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ثابت شدہ نہیں اور اسی باب میں اس معنی کی حامل مغیرہ بن شعبہ سے حدیث بھی آتی ہے (رواۃ ابو داؤدو اسناد ہ منقطع )

گو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مغیرہ والی دونوں روایات صحیح نہیں ہیں ۔دوسری مثال "کتاب الھدیہ" وَيذكر عَن ابْن عَبَّاس ان جُلَسَاؤُهُ شركاؤه وَلم يَصح

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

مسند عبدین حمید اور حلیہ ابی نعیم میں یہ حدیث "من طریق مندل بن علی عن ابن جریج عن عمرو بن دینار عن ابن رباس "مرفوعاً موصولاً مذکورہے اور مندل بن علی ضعیف ہے۔اصل روایت عمرو بن دینار عن ابن عباس موقوفاً محفوظ ہے۔ جیسا کہ مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ عبد لرزاق سے مرفوعاً روایت کیا گیا ہے اور یہ ان سے ثابت نہیں ہے۔

حافظ فتح الباری میں لکھتے ہیں ۔ کہ عبد الرزاق کا اس روایت کو مرفوعاً یا موقوفاً بیان کرنے میں اختلاف پایا گیا ہے ان سے مشہور موقوفاًہی ہے اور دونوں روایتوں سے صحیح تر بھی یہی ہے۔ عبد الرزاق والی روایت عن محمد بن مسلم الطائفی عن عمرو بن دینار ہے طائفی بھی متکلم فیہ ہے تا ہم مندل سے کچھ بہتر ہے۔فی الجملہ یہ روایت موقوفاً صحیح ہے اور ابو حاتم رازی نے کہا ہے"ان رفعہ منکر"عقیلی نے اس کے رفع کا انکارکیا ہے ۔

یہاں تک تمام مباحث کا تعلق مرفوع حدیث تھا ۔جس کا خلا صہ یہ ہے کہ صحیح بخاری میں احادیث مرفوعہ معلقہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو دوسرے مقام پر موصولاًمذکور ہیں اور دوسری وہ جو تعلیقاً ہی مذکور ہیں اس کے بعد حافظ ابن حجر نے ان احادیث کی تعلیق کے اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ جو احادیث تعلیقاً ہی مذکور ہیں ان کی دو قسمیں ہیں ۔

(الف) معلق بصیغہ جزم

(ب)معلق بصیغہ تمریض

پھر ان کے احکام بیان کرنے کے بعد ان کی امثلہ بیان کی ہیں

تعلیق جازم ۔۔۔جوامام کی شرط پر ہے اس کی دو مثالیں ذکر کی ہیں ۔

(الف ) وقال إبراهيم بن طهمان: عن الحسين المعلم، عن يحيى بن أبي كثير، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين صلاة الظهر والعصر

(ب) وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو حَدَّثَنَا عَوْفٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ

اور لکھا ہے کہ اس کے ضمن میں وہ روایات بھی آجاتی ہیں جن کی کل اسناد حذف کر کے "قال ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال النبی "کہا گیا ہے وهي علي شرطه ولم يخرجه في موضع اخرکتاب الصیام میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت (لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك ذکر کی ہے جو کہ اصل حدیث "عن الاعرج عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "ہے پھر اس کے بعد وہ تعلیق جازم ذکر کی ہے جو نفس الامر میں صحیح ہے لیکن امام کی شرط پر نہیں ہے۔ اس کی مثال میں بہز بن حکیم کی مرفوع حدیث ذکر کی ہے جس میں ہے۔

فَاَللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحَيَا مِنْهُ پھر اس تعلیق جازم کی مثال بیان کی ہے جس میں انقطاع کے سبب سے ضعیف پایا جا تا ہے جیسے۔قال طاوس .قال معاذ تعلیق جازم کے بعد تعلیق ممرض کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔

1۔جو صحیح الاسناد ہیں لیکن مؤلف کی شرط پر نہیں ہیں ۔

2۔جو حسن الاسناد ہیں ۔

3۔جو ضعیف الاسناد ہیں ۔

پھر بیان کیا کہ ضعیف الاسناد دو قسم پر ہیں ایک وہ جس کے ضعف کا جبر ہو گیا ہو اور دوم وہ جس کے ضعف کا جبر نہ ہوا ہو اور ان میں سے ہر ایک کی دو دو مثالیں ذکر کی ہیں ۔

آثار موقوفہ:۔

احادیث مرفوعہ کے بعد اب ہم موقوفہ سے بحث کرتے ہیں جو الجامع الصحیح میں تعلیقاًمذکور ہیں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جو آثار صحت سے ثابت ہیں ان کو بالجزم ذکر کرتے ہیں خواہ مؤلف کی شرط پر نہ ہوں اور جن میں ضعف وانقطاع پا یا جا تا ہےان کو بصیغہ تمریض ذکر کرتے ہیں ۔

پھر جب کو اثر دویادوسے زیادہ اشخاص سے معلق ہو اور ان میں بعض سے صحت کے ساتھ ثابت ہو مگر دوسروں سے ضعف کے ساتھ تو سب کی طرف صیغہ تمریض سے نسبت کرتے ہیں ۔

امثال :۔

مذکور ہ بالا تو زیع و تقسیم کا تعلق ان احادیث و آثار سے ہے جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آثار کے قائلین کی طرف بالتصریح منسوب ہوں ۔لیکن جس اثر کو اس کے قائل کی طرف نسبت نہیں کیا گیا یا حدیث کے کسی جملہ پر ترجمہ قائم کیا گیا ہے اور اس کے حدیث ہو نے کی تصریح نہیں ہے تو ان میں اکثر تو صحیح ہیں اور کچھ ضعیف بھی ہیں مثلاً:

باب اثنان فما فوقهما جماعة کہ یہ حدیث ضعیف کے الفاظ ہیں ۔

حافظ لکھتے ہیں کہ:"یہ ترجمہ الباب کے الفاظ دراصل حدیث کے الفاظ ہیں جو کہ ضعیف طرق سے مروی ہے"

اس کے بعد حافظ نے اس کے متعدد مخارج بیان کئے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں ۔

وقد يذكر بصيغة التمريض لضعف الاسناد الي بعضهم كما في كتاب الوصايا والوقف "باب قول الله تعالي(مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ) ويذكر ان شريحا وعمر بن عبد العزيز وطاوسا وعطاء اجاز وااقرار المريض بدين"

حافظ نے فتح الباری میں ان تعالیق کی تخریج کی ہے اور لکھا ہے کہ جہاں تک شریح کا قول ہے تو اس کی اسنادمیں جابرالجعفی ہے جو کہ ضعیف ہے اور طاؤس کے قول میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے اور عطاء کا قول کا جہاں تک معاملہ ہے تو اس کی اسناد کے رجال ثقہ ہیں ۔پھر اس کے بعد حافظ لکھتے ہیں

اسی ضعیف اسناد کی بنا پر امام مؤلف نے جزم کے صیغہ سے نقل نہیں کیا

واللہ اعلم ۔حافظ لکھتے ہیں کہ اس قسم کی احادیث تعالیق میں شامل نہیں ہیں صحیح کی دراست کے لیے ان کو الگ مستقل جزء میں جمع کرنے اور بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ اور تعا لیق پربحث سے اندازاہوتا ہے کہ احادیث احکام پر امام بخاری کی نظر کس قدر گہری اور ان کی معرفت کا دائرہ کس قدر وسیع ترتھا ۔


حوالہ و حواشی

۔مقدمہ ابن صلاح ص20توضح الافکارج1ص134۔

۔توضیح الافکار۔

۔دیکھئے تحفۃ الاشراف حدیث (راقم 1533) و فتح الباری ج12ص407(سیاتی البحث علی ھذاالنطق)

۔مقدمہ ابن اصلاح ص611،20،والتغلیق ج 2ص18۔المنہج الحدیث فی علوم الحدیث ۔

۔شرح نخبۃالفکر ص18۔

۔المقدمہ ص61۔

۔اس پر بحث آرہی ہے۔

۔ھدی الساری ج2 ص 187و منہج ذوی النظر ص23الحافظ فی رسالۃ سماہ "التوفیق ولہ کتاب آخر جمع فیہ جمیع تعالیق والمتابعات باسانید ہ سماہ تغلیق ثم اختصرہ حذف الاسانید سما ہ"التوافیق الی وصل المحم من التعلیق ۔

۔ھدی الساری ص28والنکت ج1ص325 وتوضیح الا فکار(142)

۔ھدی الساری ج1 ص10۔

۔مقدمہ قسطلانی شرح بخاری 33۔32والرقم صحیح شرح مقدمہ القسطلانی بتوضیحات ولم یطع

۔مقدمہ قسطلانی۔

۔راجع فتح الباری 84/7والتغلیق ج3ص482۔

۔فتح الباری ج3ص234۔233۔

۔النکت ج1ص327۔

۔النکت ج1 ص327۔328۔التغلیق 295/3۔

۔ابو داؤدفی کتاب الحمام باب ماجاء فی الشعری والترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی حفظ العورۃ وقال عقبہ ،"ھذا حدیث حسن "وابن ماجہ فی کتاب النکاح باب التسترعند الجماع ۔

۔باب مقتضی الحائض المناسک کلھا۔

۔بخار ی مع الفتح 54/4۔

۔فتح الباری کتاب الزکوۃ ۔

۔شرح نخبہ الفکر ص17۔

۔النکت للعراقی ص34۔

۔المنہج الحدیث فی علوم الحدیث عترض 144۔

۔التغلیق ج2ص302۔

۔التاریخ الکبیر ج2 ص327۔

۔مقدمہ فتح الباری ص17والتغلیق ج2 ص304۔

۔تاریخ بغداد 25/2۔

۔فتح الباری ج12ص154۔

۔التغلیق 22ج5۔

۔فتح الباری ج2 ص398۔

۔صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراۃ فی الصحیح علاوہ ازیں مسند احمد ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ روایت موجود ہے۔تحفۃ الاشراف 346/4۔

۔النظر فتح الباری ج1 ص268قال الحافظ:وقد اعلہ قوم بالا ضطراب وقد ذکر الدارقطنی الاختلاف فیہ علی ابی اسحاق فی کتاب العلل لکن روایہ زھیرھذہ حجۃعند البخاری لمتابعہ یوسف عن ابی اسحاق و تابعحما شریک القاضی وزکریا بن ابی زائد ہ تابع ابااسحاق عن عبد الرحمٰن لیث بن ابی سلیم انتھی مختصراً

۔فتح الباری۔

۔امرجع السابق والنکت ج1 ص336۔

۔کتاب الزکوۃ"باب لا یجمع بین مفترق ولا یفرق بین مجتمع "فتح الباری ج4 ص56والنکت ج1 ص337۔ابو داؤد مسند احمد (15/2)والحاکم (392/1)والترمذی۔

۔النظر المرجع السابق

۔ج1 ص314۔

۔فتح الباری 344/4۔

۔مسند احمد (63/1) ابن ماجہ باب بیع المجازفۃ

۔النکت ج1 ص339۔

۔الوصایاباب قولہ تعالیٰ "من بعدوصیۃ بھااددین"

۔کتاب الفرائض باب ماجاء فی میراث الاخوۃ وابن ماجہ کتاب الوصیا باب الوصیہ قبل الدین و مسند احمد (79/1)

۔فتح الباری 306/6والنکت ج1 ص340۔

۔ج6ص306۔

۔راجع فتح الباری

۔المصنف عبد الرزاق 374۔

۔المحلی 52۔51/8۔

۔سنن ابن ماجہ باب اضاحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

۔مسند احمد 8،391/6واسناد ھما حسن کمافی مجمع الزوائد 22/4۔

۔النظر فتح الباری ج1 ص12 وعمدۃ القاری 299/1

۔فتح الباری ج5 ص241 وعمدۃ القاری 59/10۔

۔فتح البار ی ج5 ص341و عمدۃ القاری 59/10۔

۔فتح الباری ج16ص207۔

۔فتح الباری ج17ص294۔

۔اخرجہ مسلم فی کتاب الذکر والدعاء

۔فتح الباری 250۔249/13۔وقال الترمذی و ھذا مرسل لان سعید بن ابی حلال لم یدرک جابراً

۔فتح الباری ج7 ص63الاطراف فی الحمس (5،19)حدیث رقم 5275وقد روی ھذا الحدیث من غیروجہ باسناد واصح من ھذا و روایہ سعد مرسل فاشاربالتعلیق الی ارسالہ ۔

۔ فتح الباری ج12 ص307۔

۔فتح الباری ج12ص407۔

۔ راجع الاطراف رقم 1533۔

۔رواۃ ابو داؤد ج4ص89والنسائی ۔

۔فتح الباری ج13ص416۔

۔راجع فتح الباری ج121ص407والغلیق ج5ص63۔

۔النظر فتح البار ج3ص23 والغلیق ج2 ص447۔

۔بخاری باب مکث امام فی مصلاہ بعد السلام فتح الباری ج3ص479۔

۔النکت ج1ص341۔

۔المرجع السابق ۔

۔صحیح بخاری باب من اھدی کہ حدیہ وعند جلساء وفھواحق بہ (فتح الباری 6ص96۔

۔النکت ج1 ص342۔

۔فتح البار ی ج5ص155والنکت ص342۔

۔ کتاب الصیام باب السواک الرطب للصائم

۔النکت علی ابن الصلاح

۔فتح الباری ج3 ص282۔

۔التغلیق ج3ص17والفتح 304/6۔

۔تو ضیح الافکار 143/1والنکت علی ابن الصلاح ج1ص343۔