ترجمان القرآن

﴿وَإِذ أَخَذنا ميثـٰقَكُم لا تَسفِكونَ دِماءَكُم وَلا تُخرِ‌جونَ أَنفُسَكُم مِن دِيـٰرِ‌كُم ثُمَّ أَقرَ‌ر‌تُم وَأَنتُم تَشهَدونَ ﴿٨٤﴾... سورة البقرة

"اورجب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت وخون نہ کرنا اور اپنے آ آپ کو اپنے وطن سے نہ نکالنا پھر تم نے اس کا اقرار بھی کرلیا اور تم اس پر گواہ ہو۔"

﴿ثُمَّ أَنتُم هـٰؤُلاءِ تَقتُلونَ أَنفُسَكُم وَتُخرِ‌جونَ فَر‌يقًا مِنكُم مِن دِيـٰرِ‌هِم تَظـٰهَر‌ونَ عَلَيهِم بِالإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ وَإِن يَأتوكُم أُسـٰر‌ىٰ تُفـٰدوهُم وَهُوَ مُحَرَّ‌مٌ عَلَيكُم إِخر‌اجُهُم أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِتـٰبِ وَتَكفُر‌ونَ بِبَعضٍ فَما جَزاءُ مَن يَفعَلُ ذ‌ٰلِكَ مِنكُم إِلّا خِزىٌ فِى الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا وَيَومَ القِيـٰمَةِ يُرَ‌دّونَ إِلىٰ أَشَدِّ العَذابِ وَمَا اللَّهُ بِغـٰفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ ﴿٨٥﴾... سورة البقرة

" لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اورآپس کے ایک فرقے کو جلا وطن بھی کیا اور گناه اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف دوسرے کی طرفداری کی، ہاں جب وه قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تو تم نے ان کے فدیے دیئے، لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا (اس کا کچھ خیال نہ کیا) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے دن سخت عذاب کی مار، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بےخبر نہیں"

یہودیوں کی ریشہ دوانیاں:۔

ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے اوس اورخزرج سے لڑتے تھے۔یہ دونوں قبیلے زمانہ جاہلیت میں بت پرست تھے،اور باہم برسرپیکار رہتے تھے۔مدینے میں یہودیوں کے تین قبیلے۔1۔بنی قینقاع۔2۔بنی نضیر۔3۔بنی قریظہ آباد تھے۔

بنی قینقاع اور بنی نضیر ،خزرج کے حلیف تھے اور بنی قریظہ"اوس" کے طرفدار تھے۔جب لڑائی ہوتی تو ہر قبیلہ اپنے حلیف کے ساتھ دشمن سے لڑائی کرتا۔یہودی اپنے دشمن یہودی کو مقابلے میں قتل کردیتا جب کہ ان کی شریعت کے مطابق یہودی کا یہودی کو قتل کرنا حرام تھا۔لیکن وہ اپنے ہم مذہبوں کو قتل کرڈالتے،مال لوٹ لیتے اور پھر قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑاتے۔اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ"تم توراۃ کے بعض حصوں کومانتے ہو اور بعض کا انکار کر تے ہو۔حالانکہ تمہارا عہدتو یہ تھاکہ نہ ہی کسی کو قتل کریں گے ،نہ کسی کو گھر سے نکالیں گے اور نہ کسی کے خلاف جنگ کریں گے۔جیسے قرآن میں ہے:

فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ(البقرہ:54)

"تو اپنےپیدا کرنے والے کے آگے توبہ کرو اوراپنے آپ کو ہلاک کرڈالو تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے حق میں یہی بہتر ہے"

ان کے لئے یہ سزا اس لیے تجویزکی گئی کیونکہ افراد ملت ایک جسم کے مانند ہوتے ہیں اور ان کا باہمی کشت وخون بہت بڑے فساد کی ابتدا ہوا کرتاہے۔جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"اہل ایمان کی مثال پیارو محبت۔دوستی اور باہم رحم کرنے میں ایک جسم کی مانند ہے جب ایک عضو بیمار ہوتو سارا بدن بخار اوربیداری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔"

آیت نمبر۔86۔

أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ (البقرہ:86)

"یہ وه لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، ان کے نہ تو عذاب ہلکے ہوں گے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی"(البقرہ:86)

ان آیات میں یہود کی مذمت ہے کہ جس توراۃ کو صحیح مانتے ہیں اسی کی مخالفت کر تے ہیں۔اس لئے نہ ان کی توراۃ اور نہ ان کی نقل پر کچھ اعتماد ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک،آپ کی بعثت،مکے سے نکلنا اور ہجرت وغیرہ سے متعلق جو کچھ توراۃ میں پہلے لکھا ہوا تھا وہ سب توراۃ سے انہوں نے غائب کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو پیغمبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی اطلاع دے گئے تھے یہودیوں نے اسے بھی چھپا لیا۔اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ اس کی سزا دنیا میں ذلت ورسوائی اورآخرت میں سخت ترین عذاب کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے؟

"فتح البیان" میں ہے کہ دنیا میں رسوائی یوں ہوئی کہ قتل ہوئے ،قیدی بنے،ذلیل وخوار ہوئے۔جزیہ دینا پڑا،وطن سے نکالے گئے،بنی قریظہ قتل ہوئے قید کئے گئے اور بنو نضیر شام کی سرزمین ،اریحا"اور"اذرعات" کی طرف ہجرت پر مجبور کئے گئے۔آخرت کا عذاب الگ ہے۔گویا دونوں جہانوں کی ذلت وخواری انکامقدر ٹھری۔

آیت نمبر۔87۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ(البقرہ:87)

" ہم نے (حضرت) موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے (حضرت) عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی۔ لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وه چیزلائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلادیا اور بعض کو قتل بھی کرڈالا"

کتاب سے مراد یہاں توراۃ ہے جس میں تحریف کی،اس کے احکامات کی خلاف ورزی کی، حضرت (لفظ مٹا ہوا ہے) کے بعد آنے والے انبیاء علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی شریعت کے بارے میں حکم دیتے رہے جیسے قرآن میں ہے:

"إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّـهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ"(المائدۃ:44)

" ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت ونور ہے، یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیا (علیہم السلام) اور اہل اللہ اور علما فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا۔ اور وه اس پر اقراری گواه تھے"

سدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:کفینا کے معنی ہیں"ابتغا" بعض نے کہا"روفنا"۔۔۔جب کہ دونوں کامطلب ایک ہے۔جیسے فرمایا:

(ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَىٰ ۖ)(مومنون:44)"پھر ہم پیہم اور مسلسل اپنے پیغمبر بھیجتے رہے۔"

بنی اسرائیل کے انبیاء علیہ السلام کا اختتام حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہوا۔ان کے بعض احکام توراۃ کے خلاف بھی تھے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزات دیے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ مردے کو زندہ کرتے"مٹی سے پرندہ بناتے،اسمیں پھونک مار کر زندہ کردیتے،بیمار کو تندرست کرتے اور روح القدس ان کی مدد میں رہتے،یہ سب شان وشوکت اسی لیے تھی کہ بنی اسرائیل انکو سچا جانیں۔لیکن بنی اسرائیل توراۃ کے بعض احکام کی مخالفت کی وجہ سے ان کے دشمن بن گئے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھٹلانے لگے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں یوں ہے:

"اور میں اس لیے بھی آیا ہوں کہ بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں ان کو تمہارے لیے حلال کردوں اور میں تمہارے پروردگار کی طرف سے معجزہ لے کر آیا ہوں۔"

غرض یہ کہ بنی اسرائیل کا سلوک انبیا علیہ السلام کے ساتھ بہت براتھا۔یہودیوں کی یہ خصلت امُتِ مسلمہ میں بھی بڑھ رہی ہے۔اس لیے کہ آج مسلمانوں میں بھی جو آدمی اہل بدعت ورائے سے یہ کہتاہے کہ تم قرآن وحدیث پر چلو تو کچھ لوگ اس کی عزت وآبرو کے دشمن ہوجاتے ہیں ۔الغرض یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سچ ثابت ہورہا ہے کہ تم یہود ونصاریٰ کے قدم بقدم چلو گے۔

(ف)

صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ کی ایک جماعت نے فرمایا کہ روح القدس سے مراد جبرائیل ہیں۔اسلیے کہ قرآن میں ہے:

نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ (شعراء:194)

"اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے ہے(یعنی اس نے) تمہارےدل پر القاء کیا ہے) تاکہ تم(لوگوں کو)نصیحت کرتے رہو۔"

بخاری شریف میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( اللَّهُمَّ أَيِّدْ حَسَّانَ بِرُوحِ الْقُدُسِ )"اےاللہ! جبرائیل کے ذریعے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی مدد فرما)بعض روایات میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان سے فرمایا:

اهْجُهُمْ أَوْ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيلُ مَعَكَ "

"ان کو ہجو کہو یا ان کی ہجو کا جواب دو،جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔"

فیض روح القدس اربازندد فرماید

دیگراں ہم بکتد آنچا مسیحا میکرد

شہر بن حوشب نے کہاکچھ یہودیوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا"ہمیں روح کا حال بتائیے۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمھیں اللہ اور اللہ کے ایام کی قسم ہے بنی اسرائیل میں سے تم جانتے ہو کہ روح سے مراد "جبرائیل علیہ السلام " ہی۔یہودیوں نے اس بات کو تسلیم کیا۔صحیح ابن حبان میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت ہے:

" عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ "إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِي رُوعِي أَنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَكْمِلَ رِزْقَهَا ، أَلا فَاتَّقُوا اللَّهَ ، وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ "

ترجمہ۔بے شک جبرائیل علیہ السلام نے میرے اندر یہ بات ڈال دی کہ کوئی نفس اپنا رزق مکمل کیے بغیر فوت نہیں ہوگا پس تم اللہ سے ڈرو اور تلاش رزق کا اچھا یعنی حلال طریقہ اختیار کرو۔"

ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہی قول راحج ہے۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اقوال ہیں۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا روح القدس وہ اسم اعظم ہے۔جس کے ذریعے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر تے تھے۔کسی نے کہا روح فرشتوں کامحافظ ہے۔ربیع بن انس نے کہا"قدس" سے مراد اللہ تبارک وتعالیٰ ہے۔مجاہد وحسن رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا:قدس اللہ پاک ہے اور روح جبرائیل علیہ السلام ہیں۔

صدائے شہپر جبرائیل عشق ہرساعت

زجنبش دل پر اضطراب مے شنوم

سدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا"قدس"برکت کے معنی میں ہے۔۔۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:پاکیزگی کے معنی میں ہے۔کسی نے کہا روح "انجیل" ہے جس طرح قرآن بھی"روح" ہے مثلاً اللہ نے فرمایا:

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا(شوریٰ :52)

"اوراس طرح ہم نے اپنے حکم سے تمہاری طرف روح القدس کے ذریعے سے(قرآن) بھیجا ہے۔"لیکن ان جملہ اقوال میں سے سب سے پہلا قول ہی صحیح ہے۔اس لیے کہ:

" إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ"(المائدۃ:110)

"وہ وقت یاد کیجئے کہ جب ہم نے روح القدس سے آپ کی مدد کی"

فرما کر اللہ عزوجل نے بعد میں "انجیل"وغیرہ کا ذکر کیا۔پس اگر روح سے مراد انجیل ہوگی تو قرآن میں نے فائدہ تکرار لازم آئے گی۔

زمخشری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:قدس روح کی صفت ہے یعنی روح مقدسہ۔۔۔گویاخود نفس مطہرہ سے عیسیٰ علیہ السلام مراد ہیں۔مگر درست پکی بات وہی ہے جس کا زکر سب سے پہلا ہوا۔

(ف)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد پیغمبروں کا لگاتارآنا بطور بیعت(اتباع) تھا نہ کہ بطریق استقلال(مستقل)۔۔۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک متواتر انبیاء علیہ السلام آتے رہے۔شریعت ایک ہی تھی سب انبیاء علیہ السلام تورات کی طرف بلاتے تھے،جیسے شموئل،الیاس،منشائیل،الیسع،یونس،زکریا،یحییٰ،شعیا،حزقیل،داود،سلیمان،ارمیا اورعیسیٰ۔اللہ نے ان انبیا علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت سے چن لیاتھا اور ان سب سے یہ اقرار لیا گیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور امتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اپنی امتوں کو پہنچادو۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو معجزات دیے گئے،ان کا ذکر سورہ آل عمران اور سورہ المائدہ میں ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام سریانی زبان میں حزقیل ایشوع ہے۔مریم علیہ السلام کے معنی"خدمت گزار" کے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے گھر بیت المقدس کی خادمہ تھیں۔عبرانی زبان میں مریم علیہ السلام کے معنی وہ عورت جو کسی مرد سے لگاؤ نہ کرے۔سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تجیر میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک ہزار نو سو پچیس برس گزرے تھے۔

آیت نمبر۔88۔

"وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ "(البقرہ:88)

" اور کہتے ہیں ہمارے دل پردے میں ہیں۔۔۔(نہیں) بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کررکھی ہے۔پس یہ تھوڑے ہیں جو ایمان لاتے ہیں۔"

یہودی اپنی توراۃ میں کہتے تھے۔ہمارے دلوں پر پردہ ہے یعنی اپنے دین کے علاوہ کسی دوسرے دین کی بات ہم پر اثر نہیں کرتی۔اللہ نے فرمایا جب حق بات اثرنہ کرے تو یہ لعنت کا نشان ہے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے"غلاف" سے مراد"کچھ نہ سمجھنا"لیا ہے یا دلوں پر مہر لگنا بتایا ہے ۔سُدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا"پردہ پڑ گیا" کے معنی قرآن کی اس آیت کے مانند ہے۔

"وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ "(فصلت:5)

"اور کہنے لگے جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہواس سے ہمارے دل پردوں میں ہیں۔"

اس کو ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے راجح بتایا ہے۔حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے:

"دل چارطرح کے ہوتے ہیں۔ان میں ایک "اغلف" ہے،جس پر اللہ کا غضب ہو۔یہ کافر کا دل ہوتاہے۔"حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:یہ خیر سے دور اور طہارت سے عاری ہوتا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:یہودیوں نے کہا ہمارے دل بہرے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے اور وہ اس علم کے محتاج نہیں۔اس قول کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی،جسے سورہ النساء میں فرمایا:

"وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّـهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا "(سورۃ النساء:155)

ترجمہ:"اور یہ کہنے کے سبب کہ"ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں"اللہ نے ان کو مردود کردیا۔بس ان کے دلوں پر اللہ نے ان کے کفر کے سبب پردے ڈال دیے اور ان کے دلوں پر مہر لگادی تو اب یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں"۔

یعنی ایمان لانے والے تھوڑے ہیں۔کافر ومنکر بہت زیادہ ہیں،یا ان کاایمان تھوڑا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام آخرت،ثواب اور عذاب کے بارے میں جو بتاتے تھے اس کو تو یہ یہودی مانتے ہیں لیکن جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس کو نہیں مانتے ۔لہذا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا انکار کرے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا انہیں کیافائدہ دے سکتا ہے۔بعض نے کہا"قلیل" سے مراد کچھ بھی ایمان نہیں لاتے۔یعنی سب کے سب ہی منکر ہورہے ہیں۔جیسے عربی محاورہ ہے:

""مَنْ زَنَى بِأَرْضٍ قَلَّمَا تُنْبِت أَيْ لَا تُنْبِت شَيْئًا حَكَاهُ .""

"یعنی جس جگہ پر حرام کاری ہوتی ہے وہاں کسی طرح کی پیداوار نہیں ہوتی"

آیت نمبر۔89:۔

""وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِينَ ""(البقرہ:89)

"اور جب اللہ کی طرف سے ان کے پاس کتاب(قرآن) آئی جو ان کی کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے۔اور وہ پہلے کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے تو جس چیز کو وہ خوب پہچانتے تھے جب وہ ان کے پاس آپہنچی تو وہ اسکے منکر ہوگئے پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو"

یہود جب کافروں کاغلبہ دیکھتے تو دعا مانگتے کہ نبی آخر الزماں جلد پیدا ہوں۔جب وہ آئے تو خود ہی انکے نکر ہو بیٹھے۔کتاب سے یہاں مراد"قرآن مجید" ہے یہ قرآن توراۃ کو سچ بتاتا ہے۔محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ نے نقل کیا ہے کہ یہ آیت انصار اور ان یہود کے بارےمیں اتری ہے۔وہ یہود جو انصار کے ہمسایہ تھے،انصار کہتے ہیں :ہم مدت تک زمانہ جاہلیت میں یہود پر غالب رہے ۔ہم مشرک تھے اور وہ اہل کتاب! وہ کہا کرتے تھے کہ عنقریب ایک نبی آنے والا ہے ہم اسکے ہمرا ہ مل کر تمھیں عاد اور ارم کی طرح قتل کریں گے۔جب اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قر یش سے ظاہر کیا اور ہم نے ان کی پیروی اختیار کی تو یہودی منکر ہوگئے۔اس آیت کا یہی مطلب ہے کہ پہچاننے کے باوجود کفر اختیار کیا۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب یہودیوں نے دیکھا کہ یہ پیغمبر یہود میں سے نہیں آئے تو انہوں نے حسد کیا ورنہ بقول ابو العالیہ یوں کہاکرتے تھے"اے اللہ! اس نبی کو بھیج جسے ہم اپنے ہاں(توراۃ میں) لکھا ہواپاتے ہیں۔تاکہ ہم اس کے ساتھ مل کر مشرکین کو عذاب دیں اور قتل کریں۔

(ف)

اس آیت سے یہ نتیجہ نکلا کہ حق کو پہچان کرنا ماننا لعنت کا موجب ہوتا ہے یہ بڑے خوف کا مقام ہے جس کو لوگوں نے ہلکا سمجھ لیا ہے ۔قرآن وحدیث کی اتباع فرض ہے۔اس فرضیت کو سارے مسلمانوں نے اس دن سے پہچان رکھا ہے جس دن سے قرآن اترا اور سنت میسر آئی مگر اکثر لوگ اس حق پر نہیں چلتے۔جاہل لوگ دین میں تقلید کو واجب مانتے ہیں۔رائے اور قیاس پر عمل کرتے ہیں۔یہ بھی یہودیت کا ایک شعبہ ہے جو امت کے بعض افراد نے اپنا لیا ہے۔کیونکہ اصل تقلید یہود سے ہی نکلی ہے۔جس طرح قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے۔

آیت نمبر۔90:۔

""بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ "" (البقرہ90)

" بہت بری ہے وه چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا، وه ان کا کفر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شده چیز کے ساتھ محض اس بات سے جل کر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل اپنے جس بنده پر چاہا نازل فرمایا، اس کے باعث یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے اور ان کافروں کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے"

مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:یہود نے حق کے بدلے میں باطل خریدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کوچھپایا۔سدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قرآن کاانکار کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ونصرت سےبیگانہ رہے اور یہ سب کچھ اس حسد اور بغض کی وجہ سے کیا کہ اللہ کا کلام ان پر کیوں نازل ہوا؟اس سے بڑھ کر اور کیا حسد ہوگا؟

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اللہ کا غضب ایک اس وجہ سے ہواکہ انہوں نے تورات کو ضائع کیا اوردوسرا غضب اس لیےہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ابو العالیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا پہلا غضب یہ ہے کہ انجیل وعیسیٰ علیہ السلام کو نہ مانا۔دوسرا یہ کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کیا۔یہی قول عکرمہ اور قتادہ رحمہم اللہ کا بھی ہے۔سدی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا:پہلا غضب بچھڑے کے پوجنے پر تھا اوردوسرا غضب انکار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ذلت۔۔۔عذاب اس لیے مقرر ہوا کہ اسکا سبب کفر،حسد اور بغض تھا۔جبکہ بغاوت اور حسد کامنشا در اصل تکبر ہوتا ہے اس لیے تکبر کے مقابلے پر ان کے لیے اہانت یارسوائی اور ذلت وار بننے کا عذاب تجویز ہوا جیسے اللہ نے فرمایا:

" إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ" (مومن:60)

"جو لوگ میری عبادات سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے۔"

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے"عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ" سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی مانند اٹھائے جائیں گے ہر طرح کی ذلت وخواری ان پر مسلط ہوگی اور یہاں تک کہ جہنم میں بولس نامی قیدخانے میں داخل ہوں گے۔سب سے بڑی آگ ان پر سوار ہوگی اور دوزخیوں کانچوڑا نکو پلایا جائے گا۔

آیت نمبر۔91:۔

""وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗقُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّـهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"" (البقرہ:91)

"اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر اتاری گئی اس پر ہمارا ایمان ہے۔ حالانکہ اس کے بعد والی کے ساتھ جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے، کفر کرتے ہیں، اچھا ان سے یہ تو دریافت کریں کہ اگر تمہارا ایمان پہلی کتابوں پر ہے تو پھر تم نے اگلے انبیا کو کیوں قتل کیا؟"

خطاب یہود ونصاریٰ سے ہے کیونکہ یہ کہتے تھے کہ ہمیں صرف توراۃ وانجیل پر ایمان لانا کافی ہے ہم قرآن کو نہیں مانتے حالانکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن تورات اورانجیل کی تصدیق کرتاہے۔سو جب قرآن ان کا مصداق ٹھہرا توا ن پر حجت قائم ہوگئی۔اسی لیے اللہ نے فرمایا:

""الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ""

(سورہ بقرہ:146)

"جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتا ب دی تھی،وہ ان پیغمبروں کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے تھے۔"

پھر اللہ نے ان کو چیلنج دیا کہ اگر تمہارا یہ دعویٰ(کہ تم تورات وانجیل پر ایمان رکھتے ہو) سچا ہوتا تو تم انبیا علیہ السلام کو کیوں قتل کرتے؟آخر وہ بھی تو یہی کہتے تھے کہ تورات سچی کتاب ہے اور تمھیں ان پیغمبروں کی سچائی بھی معلوم ہوگئی۔پس کیا تمہارا انبیاء علیہ السلام کو قتل کرنا بغاوت عناد اور تکبر نہ تھا؟معلوم یہ ہوا کہ تم صرف اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہو۔جیسے اللہ نے فرمایا:

أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ(البقرہ:87)

" لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وه چیزلائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلادیا اور بعض کو قتل بھی کرڈالا"

سدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ نے اس آ یت میں انہیں قتل انبیاء علیہ السلام پر عار دلائی ہے۔"فتح البیان" میں ہے کہ یہ خطاب اگرچہ بظاہرحاضرین کو ہے مگر مراد انکے اسلاف ہیں۔کیونکہ جب ان کے فعل پر ر اضی ہوئے تو گویا ان کی طرح ہی ہوئے معلوم ہوا کہ معصیت پر راضی ہونے والا معصیت کرنے والے کے مصداق ہے۔

آیت نمبر۔92:۔

""وَلَقَدْ جَاءَكُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ (البقرہ:92)

" تمہارے پاس تو موسیٰ یہی دلیلیں لے کر آئے لیکن تم نے پھر بھی بچھڑا پوجا تم ہو ہی ظالم "

"بینات" سے ایسے واضح دلائل اور قاطع براہین مراد ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ کا رسول ثابت کرتی ہیں اور اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ان نشانیوں میں طوفاں ،ٹڈی دل،مینڈک،خون کا برسنا،حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصاء،من وسلویٰ،بادل کاسایہ کرنا،سمندر کا پھٹ جانا اور پتھر سے بارہ چشموں کاجاری ہونا وغیرہ تھیں۔اس کےعلاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر گئے اور یہود نے بچھڑے کو معبود بنا لیا،جیسے اللہ نے فرمالیا:

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ(الاعراف:148)

"اور قوم موسیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا۔وہ ایک جسم تھا جس میں بیل کی آواز نکلتی تھی۔"

آیت نمبر۔93:۔

""وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"" (البقرہ:93)

" جب ہم نے تم سے وعده لیا اور تم پر طور کو کھڑا کردیا (اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور سنو! تو انہوں نے کہا، ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت (گویا) پلا دی گئی بسبب ان کے کفر کے۔ ان سے کہہ دیجیئے کہ تمہارا ایمان تمہیں برا حکم دے رہا ہے، اگر تم مومن ہو "

اس آیت کی تفسیر پہلے گزرچکی ہے(دیکھئے آیت نمبر۔63) اللہ ان کی خطاؤں کو گن گن کر جتلاتا ہے۔حدیث ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے کہ کسی چیز کی محبت تجھ کو اندھا اور بہرہ کردیتی ہے۔(رواہ احمد)

سدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچھڑے کو لے کرذبح کیا اس کو ریتی سے رگڑ کراسکے براد لے کودریا میں پھینک دیا۔اس دن جوکچھ دریا میں بہتا تھا کچھ نہ کچھ حصہ اس بچھڑے کا جا ملا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اس کا پانی پیو۔چنانچہ سب نے پانی پیا اور جس کے دل میں بچھڑے کی محبت تھی،اس کی مونچھوں پر سونے کا اثر ظاہر ہوا۔یہ مطلب ہے اس آیت کا کہ وہ اپنے دلوں میں اس کی محبت پلائے گئے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جس نے وہ پانی پیا اور وہ بچھڑے سےمحبت کرتا تھا اس کا چہرہ سونے کی مانند زرد ہوگیا۔سعید بن جبیر نے کہا ان کے چہرے زعفران کی مانند ہوگئے۔قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا کہ بچھڑے کی عبادت کرنے والے جس آدمی نے وہ پانی پیا اور وہ دیوانہ ہوگیا۔پھر فرمایاکہ یہاں حقیقی معنی مقصود نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کےلب ورخسار پر اثر ظاہر ہوا حالانکہ یہاں مذکور یہ امر ہے کہ ان کے دل میں اس کی محبت گھس گئی تھی۔تب اللہ نے فرمایا کہ باوجود اس شرک اور اعمال قبیحہ کے تم ایمان کےمدعی کیسےبنتے ہو؟یعنی درحقیت تم مومن نہیں ہو اس لیے کہ ایمان ا س طرح بچھڑے کی پوجا کا حکم نہیں دیتا اور نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کا حکم دیتاہے۔

آیت نمبر۔94۔95۔96:۔

قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّـهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٩٤﴾ وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ﴿٩٥﴾ وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (البقرۃ:94۔95۔96)

"آپ کہہ دیجیئے کہ اگر آخرت کا گھر صرف تمہارے ہی لئے ہے، اللہ کے نزدیک اور کسی کے لئے نہیں، تو آو اپنی سچائی کےثبوت میں موت طلب کرو (94) لیکن اپنی کرتوتوں کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی موت نہیں مانگیں گے اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے (95)بلکہ سب سے زیاده دنیا کی زندگی کا حریص اے نبی! آپ انہیں کو پائیں گے۔ یہ حرص زندگی میں مشرکوں سے بھی زیاده ہیں ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے، گویا یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں چھڑا سکتا، اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو بخوبی دیکھ رہا ہے"

تشریح:۔

یہود ونصاریٰ کہتے تھے کہ جنت میں ہمارے سواکوئی نہ جائے گا ہمیں ہر گز عذاب نہ ہوگا اللہ نے فرمایا:"اگرتم یقیناً جنتی ہو تو مرنے سے کیوں ڈرتے ہو؟" ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:"اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کہیں کہ موت کی دعا کرو۔انہوں نے یہ بات نہ مانی(اس لیے کہ جھوٹے تھے) اگرایک دن بھی وہ دعا کرتے تو کوئی یہودی روئے زمین پر باقی نہ رہتا۔" ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ اگر یہودی موت کی آرزو کرتے تو سب مر جاتے اور اپنی جگہ دوزخ میں دیکھ لیتے اور جو لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کرنے نکلے تھے تو ان کے اہل وعیال اورمال میں سے کچھ نہ بچتا۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہی بہتر ہے یہ آیت سورہ جمعہ میں اس طرح آئی ہے:

""قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّـهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٦﴾ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ﴿٧﴾ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ""(الجمعۃ۔6۔7۔8)

"کہہ دیجئے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو دوسرے لوگوں کے سوا تو تم موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو(6) یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہ کریں گے بوجہ ان اعمال کے جو اپنے آگے اپنے ہاتھوں بھیج رکھے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے(7) کہہ دیجئے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وه تو تمہیں پہنچ کر رہے گی پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وه تمہیں تمہارے کیے ہوئے تمام کام بتلا دے گا "

غرض یہ کہ جب ان لعنتیوں(یہودونصاریٰ) نے یہ گمان کیاکہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں اور جب یہ کہا کہ کوئی شخص یہودی یا عیسائی بنے بغیر جنت میں نہیں جائے گا تو انہیں مباہلہ کی دعوت دی گئی اور جھوٹے فریق کے خلاف بددعا کرنے کے لیے بلایا گیا تو وہ بھاگ نکلے اور سب نے جان لیا کہ وہی ظالم ہیں کیونکہ اگر انہیں اپنے سچے ہونے پر یقین تھا تو انہوں نے پیش قدمی کیوں نہ کی اور جب انہوں نے مقابلے کی دعوت قبول نہ کی تو معلوم ہوا کہ وہ جھوٹے اوردغا باز ہیں۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ ویسی ہی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے وفد کو جو عیسائی تھے جب مباہلے کے لیے بلایا،تو مباہلے کی آیت قرآن میں ا تری۔وفد کے ارکان نے آپس میں کہا کہ اگر تم نے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کیا تو توم میں سے کوئی ایک بھی باقی نہ رہے گا۔ناچار جزیہ دینے پر صلح کرلی۔اس سے ملتی جلتی وہ آیت بھی ہے جس میں مشرکین مکہ کو خطاب کیاگیا:

""قُلْ مَن كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ مَدًّا ۚ ""(مریم:75)

"کہہ دو کہ جو شخص گمراہی میں پڑا ہواہے اللہ اس کو آہستہ آہستہ مہلت دیے جاتا ہے،یعنی ہم میں اور تم میں سے جو کوئی گمراہ ہوگا اللہ اس کی گمراہی کو زیادہ کرے گا۔"ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلہ صفات الٰہی میں منکرین صفات سے مباہلہ کرنا چاہا مگر وہ تیار نہ ہوئے۔اسی طرح ایک اور اہل علم جماعت نے اہل بدعت وضلالت سے مباہلہ کاارادہ کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ اہل باطل وضلال کو ہمیشہ شکست دیتاہے کوئی مباہلے پر راضی نہ ہوا۔

یہ مباہلہ ہر زمانے میں قیامت تک مخالفین حق اور ناصرین باطل کے خلاف ہوسکتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہ تھا۔بعض نے کہا کہ وہ معاملہ مباہلہ نہ تھا۔ابن جریر بھی اس طر ف گئے ہیں لیکن ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا وہ گفتگو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے مطابق مباہلہ ہی تھا،اسی لیے یہودونصاریٰ میدان سے بھاگ نکلے کیونکہ ان کو اپنے کذب وافتراء اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کے چھپانے کا علم تھا اور جانتے تھے کہ مباہلہ میں جھوٹے کی تباہی ہوتی ہے۔اس مقام پر مباہلے کا نام تمنی۔اس لیے رکھا ہے کہ ہر حق پرست یہ چاہتاہے کہ اللہ جھوٹےمناظرکرنے والے کو ہلاک کردے۔خصوصاً جب اس کے مقابل کے پاس بیان حق اور ظہورصدق پر کوئی دلیل موجود نہ ہو۔وہ مباہلہ موت کے ساتھ تھا۔اس لیے کہ ان کو جینا بہت عزیز تھا اور جانتے تھے کہ مرنے کے بعد انجام بد ہوگا۔اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ وہ ہرگز ایسی تمنانہ کریں گے ان کو تو اُمید ہے کہ ہزار برس جئیں گے ایسی لمبی عمر ملے کے عاقبت کے عذاب سے بچ جائیں کیونکہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافروں کے لیے جنت کے مترادف ہے۔

ان کی حرص اس معاملے میں مشرکوں سے بھی زیادہ تھی ۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:یہاں مشرکین سے مراد عجمی لوگ ہیں اسی طرح حاکم ثوری سے بھی یہی روایت کیا ہے اور سند کو صحیح بتایا ہے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:" أَحْرَصَ النَّاسِ "سے مراد منافق ہیں،اور وہ اہل شرک سے بھی زیادہ حریص تھے،ہر یہودی ہر مجوسی یہ چاہتا ہے کہ ہزار برس زندہ رہے ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:یہ فارسی کاقول ہے۔

"ہزار سال بزی یاہزار سال نوروزیا محصر جان بزی۔"

مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:ان کو ساری عمر گناہ کرنامحبوب ہے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:ان کو یہ جینا عذاب سے نجات نہ دے گا اس لیے کہ مشرک کو مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کی امید نہیں ہے وہ چاہتا ہے کہ جتنی عمرزندہ رہے وہی غنیمت ہے ۔یہودی جانتا ہے کہ آخرت میں سوائے خواری اور رسوائی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا اس لیے لمبی زندگی پسند کرتاہے۔یہ وہی یہودی ہیں جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے دشمن تھے۔الغرض جس طرح ابلیس کو کفر کے سبب لمبی عمر سے کچھ فائدہ نہیں اسی طرح یہ بھی لمبی زندگی سے اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔

آیت نمبر۔97:۔

"قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ"

"(اے نبی!) آپ کہہ دیجیئے کہ جو جبریل کا دشمن ہو جس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے، جو پیغام ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والا اور مومنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے"

""مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّـهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ""

"جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے"

تشریح:۔

یہود نے یہ اعتراض کیا کہ یہ کلام جبرائیل لاتا ہے اور وہ ہمارا دشمن ہے ۔کئی بار ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب کرگیا ہے۔اگر اس کلام کو لانے والا کوئی اور فرشتہ ہوتا تو ہم مان لیتے ،اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"فرشتے جو کچھ کرتے ہیں،وہ اللہ کےحکم سے کرتے ہیں۔جو کوئی ان سے دشمنی رکھے گا،بے شک اللہ اس کا دشمن ہوگا۔"ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا :مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری۔وہ جبرائیل علیہ السلام کو اپنا دشمن اور میکائیل کوا پنا دوست خیال کرتے تھے۔اس میں اختلاف ہے کہ یہ بات انہوں نے کس طرح کی؟بعض کا خیال ہے کہ ان کا رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت کے معاملے میں مناظرہ ہوا۔اس موقع پر یہ گفتگو پیش آئی۔تفسیرابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے اس مناظرے کی تفصیلات موجود ہیں۔

عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ ے کہا"جبر"اور"میک" ۔۔۔"عبد" کے معنوں میں آتے ہیں اور"ئیل"کا معنی"اللہ" ہے بعض نے کہا"ئیل" کے معنی"عبد" کے ہیں باقی کلمات کے معنی"اللہ" ہیں۔اس لیے کہ لفظ"ئیل" کسی جگہ نہیں بدلتا۔جیسے عبداللہ ،عبدالرحمان،عبدالمالک،عبدالسلام عبدالکافی،عبدالجلیل وغیرہ۔ان سب اسماء میں لفظ"عبد" موجود ہے۔مضاف الیہ بدلا گیا ہے۔

عربی کی علاوہ باقی زبانوں میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے۔مضاف بعد میں آتا ہے۔سو اسی طرح یہ نام بھی"جبرائیل"میکائیل" اسرائیل"ہیں۔بعض نے کہا یہ گفتگو اس مناظرے میں ہوئی جو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور یہود کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا تھا۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں یہ مناظرہ لکھا ہے۔

آیت کامطلب یہ ہے کہ جبرائیل روح الامین ہیں۔اللہ کی طرف سے ذکر حکیم لے کر آئے،اللہ کے پیامبر فرشتوں میں سے ایک پیامبر ہیں جس نے اللہ کے کسی ایک پیامبر کو دشمن ٹھہرایا گویا اس نے سارے رسولوں سے دشمنی کی۔جس طرح ایک رسول پر ایمان لانے سے سب سے رسولوں پر ایمان لانا لازم آتا ہے۔اسی طرح ایک رسول کے انکار سے سب دلوں رسولوں کے انکارہوجاتا ہے۔جس طرح اللہ نے فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا (النساء:150)

"جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راه نکالیں"

اس آیت میں اللہ نے بعض پر ایمان لانے اور بعض سے انکار کرنے پر خالص کفر کاحکم لگایا ہے۔اسی طرح جبرائیل کا دشمن ۔۔۔اللہ کا دشمن ہے اس لیے کہ فرشتے اپنی طرف سے کچھ نہیں لاتے اور نہ ہی اپنی طرف سے وحی لے کر آتے ہیں بلکہ صرف اللہ کے حکم سے اترتے ہیں اور اس کا کلام لاتے ہیں،فرمایا:

""وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ""(مریم:64)

اور فرشتوں نے پیغمبر کو جواب دیا کہ"ہم تمہارے پروردگار کے حکم کے سوا نہیں اتر سکتے"

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (١٩٢) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (١٩٣) عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ (الشعراء:192)

ترجمہ:"اور یہ قرآن اللہ پروردگار عالم کا اتارا ہواہے ۔اس کوامانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔(یعنی اس نے) تمہارے دل پر القا کیا ہے تاکہ لوگوں کی نصیحت کرتے رہو"

بخاری شریف میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے کہ:

"" مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ ""

"جس نے میرے کسی دوست کو دشمن جانا وہ میرے خلاف لڑائی کے لیے نکلا"

قرآن مجید سب کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔سرتاپا باعث ہدایت ہے ۔خاص طور پر مومنین کے لیے باعث بشارت ہے اور جنت کی نوید دیتا ہے۔فرمایا:

قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ (فصلت۔44)

ترجمہ" کہہ دو کہ جو ایمان لاتے ہیں ان کے لیے(یہ) ہدایت اورشفاء ہے۔"

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ (بنی اسرائیل۔82)

"یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔"

لفظ"رسل" فرشتوں اور انسانوں دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔جیسے قرآن مجیدمیں ہے:

اللَّـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ (الحج:75)

"اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے اورانسانوں میںسے بھی"

جبرائیل اور میکائیل کا علیحدہ ذکر صرف اس لیے کیاکہ انہیں کی مددمقصود تھی۔جبرائیل انبیاء علیہ السلام کی طرف اللہ کے سفیر اوروکیل ہیں،میکائیل کو اس لیے شامل کیا کہ یہود ان کواپنا دوست کہتے تھے۔ لہذا اللہ نے یہ بات واضح کردی کہ ایک دشمنی بعینہ دوسرے کی دشمنی ہے بلکہ خود اللہ کی دشمنی کے مترادف ہے۔میکائیل بھی بعض اوقات پیغمبروں کے پاس آتے رہے ہیں۔شروع شروع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے لیکن جبرائیل کا آنا جانا اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ وحی لاناان کی ڈیوٹی ہے۔میکائیل پانی اور پیداوار پر موکل ہیں۔جس طرح اسرافیل قیامت کے دن صور پھونکنے کے لیے متعین ہیں۔صحیح حدیث میں ہے کہ جب آپ تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے:

((اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ))

بعض سلف نے لکھاہے کہ جبرائیل کا نام فرشتوں میں اللہ کا "خادم" ہے۔سلیمان دارانی نے کہا کہ یہ حدیث مجھے سارے مجموعے سے زیادہ پسندآئی،علی بن حسین نے کہ کہ جس نام میں "ئیل" ہے اس نام کامرجع اللہ ہے۔اس آیت میں جبرائیل علیہ السلام کی قدرومنزلت اور رفعت شان کی دلیل ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہود کی دشمنی ان سے بلا وجہ تھی،کیونکہ ان سے تو سوائے محبت کے اور کوئی کام نہیں ہوا۔ان کا آنا اللہ کے حکم سے ہوا،اپنی مرضی سے وہ یہ کلام نہیں لائے۔"علی قلبک" میں دل کا ذکر اس لیے کہا کہ دل جگہ ہے عقل وعلم کی خزانہ ہے حافظے کا اور گھر ہے رب کی معرفت کا ۔کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس آیت میں"ملائکہ" کو "رسل" پرمقدم فرمایا،جس طرح اللہ کو سب سے پہلے ذکر فرمایا جس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبروں کی دعوت کتابوں کے اترنے کے سبب تھی اور کتابیں فرشتوں کے ذریعے نازل ہوئی ہیں اور فرشتوں کا آناجانا اللہ کے حکم سے ہے،اس لیے یہ ترتیب اختیار فرمائی۔

آیت نمبر۔99تا 103:۔

""وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ ﴿٩٩﴾ أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم ۚبَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٠٠﴾ وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّـهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٠١﴾وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚوَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿١٠٢﴾ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ خَيْرٌ ۖ لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ""

"اور یقیناً ہم نے آپ کی طرف روشن دلیلیں بھیجی ہیں جن کا انکار سوائے بدکاروں کے کوئی نہیں کرتا (99) یہ لوگ جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں توان کی ایک نہ ایک جماعت اسے توڑ دیتی ہے، بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے خالی ہیں (100) جب کبھی ان کے پاس اللہ کا کوئی رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا، ان اہل کتاب کے ایک فرقہ نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا، گویا جانتے ہی نہ تھے (101) اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین (حضرت) سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وه لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے، اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پرجو اتارا گیا تھا، وه دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وه سیکھتے جس سے خاوند وبیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وه بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، یہ لوگ وه سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچا سکے، اور وه بالیقین جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور وه بدترین چیز ہے جس کے بدلے وه اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے (102) اگر یہ لوگ صاحب ایمان متقی بن جاتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین ثواب انہیں ملتا، اگر یہ جانتے ہوتے "

تشریح:۔

یہود نے اپنے دین وکتاب کا علم چھوڑ دیا اور جادو کے اعمال کی تلاش میں کھو گئے۔واضح رہے جادو لوگوں میں دو طرف سے آیا ہے ۔ایک حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں کہ آدمی اورشیطان ملے جلے رہتے تھے۔لہذا ان شیطانوں سے سیکھا ،لیکن یہود اس جادو کی حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف نسبت کرتے تھے،یہود کا خیال تھا کہ حضرت سلیمان جو انسانوں اور جنوں پر حکومت کرتے تھے تو درا صل وہ جادو کے زریعے تھی۔پس اللہ نے واضح کردیا کہ جادو کفر کا کام ہے۔اور یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا کا م نہیں ہے ۔لیکن ان کے عہد میں شیطانوں نےلوگوں کوسکھایا ہے۔

دوسرا ہاروت اور ماروت کی طرف سے جو دو فرشتے تھے ۔بابل میں انسانوں کی صورت میں رہتے تھے جادو کو علم جانتے تھے جو ان سے جادو سیکھنے جاتا وہ انہیں سمجھاتے کہ اس سے ایمان جاتا رہے گا،اسکے باوجود اگر کوئی اصرار کرتا تووہ جادو سکھا دیتے کیونکہ اللہ کو انسانوں کی آزمائش مقصود تھی۔پس اللہ نے فرمایا کہ جادو ایسے علوم کاآخرت میں کچھ فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے۔دنیامیں بھی جادو باعث ضرر ہے۔جادو میں بھی اللہ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔اس کی بجائے اگر وہ دین اور کتاب کاعلم سیکھتے تو اللہ کے ہاں بہترین اجر پاتے۔

ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نےکہا کہ یہ واضح آیات ہیں جن میں یہود کے ان مخفی علوم کا ذکر ہے جن کو سوائے علمائے یہود کے کوئی نہ جانتا تھا۔انہوں نے ان آیتوں کو تحریف کرڈالا۔ اللہ نے قرآن میں اسے ظاہر کردیا۔سو اللہ نے جسے فطرت سلیم عطا کی ہے۔وہ جانتا ہے کہ یہ باتیں جو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں سب سچی ہیں۔کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کے نزدیک اُمی تھے مگر جو بات ان کی کتاب سے کہتے تھے ٹھیک کہتے تھے جب یہود کو یہ بات یاد دلائی گئی کہ تم سے میری مدد اور مجھ پرایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے تو جواب میں جھوٹے بولتے اور کہتے واللہ ہم سے اس بابت کوئی عہد نہیں لیا گیا۔ان کی اسی عادت کی بنیاد پر کہ آج عہد کیا اور کل توڑدیا۔جس پیغمبر کی صفت ان کی اپنی کتاب میں درج تھی اسکی تکذیب بھی انہوں نے کردی ۔جیسے اللہ نے فرمایا:

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ (الاعراف:157)

ترجمہ:"وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی(جو نبی اُمی ہیں) پیروی کرتے ہیں جن کے اوصاف کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں"

اس جگہ یہ فرمایا کہ انہوں نے اللہ کی کتاب یعنی توراۃ کو ایسا الگ کردیا کہ گویا اسے جانتے پہچانتے بھی نہیں۔اس کے بدلے جادو کرنا اختیار کیا۔چنانچہ لبید بن عاصم(یہودی ملعون) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کردیا،شفاء بخشی،یہ واقعہ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مفصل آیا ہے۔سدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہود نے توراۃ سے انکا مقابلہ کیا توراۃ کو قرآن کے موافق پایا ناچار اسے چھوڑ کر"آصف کی کتاب" اور ہاروت اور ماروت کے جادو کو لے آئے۔وہ کتاب اور جادو قرآن کے موافق نہ تھے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ کچھ نہیں جانتے بڑے بھولے بنتے ہیں۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔جب حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت جاتی رہی تو جن وانس میں سے کچھ لوگ مرتد ہوکر شھوات کے تابع ہوگئے۔

جب اللہ نے سلطنت دوبارہ عطاکی توحضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کی کتابیں اور جادو کا سارا سارا سلسلہ ختم کرکے اپنی کرسی کے نیچے گاڑ دیا۔جب کچھ دیر بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کا انتقال ہوا تو بعض جن وانس نے ان کتابوں کو نکال کرکہا کہ یہ وہ کتاب ہے جو اللہ کی طرف سے حضرت سلیمان علیہ السلام پر اتری تھی۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے ہم سے چھپایا تھا پھر اسے اپنا دین ٹھہرایا اور جو شہوات شیطانوں نے شروع کی تھیں ،جیسے باجہ ،کھیل،تماشا،اسکو بطور دین اختیار کیا۔آصف حضرت سلیمان علیہ السلام کا کاتب تھا،اسم اعظم جانتاتھا۔ہر چیز کا حکم حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبان سے لکھتا پڑھتا تھا۔پھر اس کو سلیمان علیہ السلام کی کرسی کےنیچے دفن کردیتا۔جب آپ فوت ہوگئے تو شیطانوں نے اس کتاب کو نکال کراسی میں جادو اور کفر کا اضافہ کیا اور لوگوں سے کہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اسی پر عمل کرتے تھے۔جاہل لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کو گالیاں دینے لگے اور بعض نے انہیں کافر کہا،علماء خاموش تھے اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ سلیمان کفر سے بری ہیں حقیقت میں کافر وہی شیطان تھے۔

دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ جب حضرت سلیمان بیت الخلاءجاتے یاکسی بیوی کے پا س رہتے تو اپنی انگوٹھی"جرادۃ"نامی بیوی کے حوالے کرجاتے،جب اللہ نے چاہا کہ ان کی آزمائش کرے ،تو ایک دن جب وہ اپنی انگوٹھی جرادۃ کو دے کر گئے ہی تھے کہ شیطان ان کی صورت بن کرآیا اورجرادۃ سے انگوٹھی لے کر پہن لی۔سارے شیاطین جن وانس اس جن کے تابع ہوگئے۔جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے آکر انگوٹھی مانگی تو جرادۃ نے کہا تو سلیمان علیہ السلام نہیں ہے،انہوں نے سمجھ لیا کہ میں آزمائش میں مبتلا کردیا گیا ہوں۔ انہی ایام میں شیاطین نے جادو اور کفر لکھ لکھاکر ان کی کرسی کے نیچے گاڑ دیا، پھر ان کی وفات کے بعد نکال کر یہ کہنا شروع کردیا کہ سلیمان علیہ السلام انھی کتابوں کے سبب(جن میں جادو ،منتر ہے) سب پر غالب تھے۔

لوگوں نے سلیمان علیہ السلام کو کافر کہا،بیزاری کااظہار کیا ان کتابوں کو یہودنے حاصل کیاتھا یہاں تک کہ اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی:

""وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا""

ابن اسحاق نے کہا شیطانوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کو جاننے کے بعد طرح طرح کے جادو ،ٹونے،ٹوٹکے لکھ ڈالے کہ جو کوئی ایسا کرنا چاہے تو وہ یوں کرے اور ویسا کرنا چاہیے تو وہ کرے۔اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی کی مانند مہر لگائی اور شروع میں لکھایا کہ:

"هذا ما كتب آصف بن برخيا الصديق للملك سليمان بن داود من ذخائر كنوز العلم"

پھر اسےکرسی کے نیچے دفن کردیا۔اس کے بعد میں آنے والے بنی اسرائیل نے اسے نکال کر لوگوں میں پھیلا دیا اور کہا کہ سلیمان علیہ السلام اس کی بدولت حکومت کرتے تھے ۔اس ضمن میں اور بھی بہت سے روایتیں ہیں۔

حسن بصری کہتے ہیں :جس چیز کی شیطان تلاوت کرتے تھے اس میں ایک تہائی شعر،ایک تہائی جادو اور ایک تہائی کہانت تھی۔اس سے معلوم ہوا کہ براشعر اور بری نظم ۔جادو اور کہانت کی مانند ہے۔جیسے وہ اشعار جو شراب اور عشق پرستی،زنا کاری کی مدح میں ہیں۔اور جو سماء،غناء،کفر وفسق،اعضائے معشوق کی مدح میں آئے ہیں۔یہ جادو حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے پہلے بھی تھا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ ان سے پہلے تھا ان کا جادوگروں سے مقابلہ ہوا تھا اسی طرح صالح علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا:

( إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ)

صالح علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے تھے۔اس سے ثابت ہوا کہ جادو ایک حقیقت رکھتا ہے۔یہ بات نہیں کہ محض بے اصل ہو۔اس بارے میں یہی آیت نص قطعی ہے۔اگرچہ جادو کاسیکھنا سکھانا گناہ کبیرہ ہے۔

قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ"ماانزل" میں ما"نافیہ ہے۔یعنی نہ سلیمان علیہ السلام نے کفر کیا اور نہ فرشتوں نے جادو۔لیکن شیاطین"بابل" میں لوگوں کو جادوسکھایا کرتے تھے۔اس صورت میں ملکین سے مراد جبرائیل ومیکائیل علیہ السلام ہوں گے۔کیونکہ یہودی جادوگروں کو یہ زعم تھا کہ اللہ نے انہیں کے ذریعے سے سلیمان علیہ السلام پر جادو اتارا تھا اسی لیے اللہ نے انہیں کی تکذیب فرمائی کہ نہ یہ دونوں فرشتے جادو لائے نہ سلیمان علیہ السلام نےکفر کیا بلکہ یہ جادو توشیاطین کاکام ہے ۔بعض نے کہا ملکین سے مراد داود وسلیمان علیہ السلام ہیں۔

مگر ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف"ما" کے نافیہ ہونے کا انکار کیا بلکہ"ما"کو بمعنی "الذی" ٹھہرایا ہے اور ملکین سے ہاروت وماروت مراد لیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ نے ان کو زمین پر اتارا۔انہیں جادو کی تعلیم کی اجازت دی۔بندوں کا امتحان لینا منظور تھا یہ فرشتے اس تعلیم کے لیے اللہ کے حکم کے تابع تھے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مسلک نہایت غریب ہے۔اس سے زیادہ غریب بات یہ ہے کہ ہاروت وماروت جنوں کے دو قبیلے تھے۔جسے ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا۔اکثر سلف کا مسلک یہ ہے کہ یہ دونوں فرشتے آسمان سے زمین پر آئے تھے۔حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے کہ جب آدم علیہ السلام زمین پر اتارے گئے تو فرشتوں نے کہا اے رب! تو زمین پر مفسد اور سفاک کو بھیجتا ہے۔حالانکہ ہم تیری تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں۔اللہ نے فرمایا جو مجھے معلوم ہے وہ تم نہیں جانتے،فرشتوں نے کہا ہم بنی آدم سے زیادہ مطیع اور فرمانبردار ہیں۔فرمایا تم میں سے دو فرشتے آئیں میں انھیں زمین پر بھیجتا ہوں اور دیکھتا ہوں وہ کیا کرتے ہیں؟

کہاہاروت اور ماروت حاضر ہیں۔انکو زمین پر اتارا۔زہرہ نامی ایک عورت کو ایک بہت ہی اچھی صورت میں ظاہر کیا انہوں نے اس سے زنا کرنا چاہا ،اس نے کہا شرک کرو فرشتے نہ مانے۔اس نے کہا اس بچے کو قتل کرو وہ پھر بھی نہ مانے تب اس نے کہا یہ شراب کا پیالہ پی لو سو وہ دونوں پی گئے،نشے میں آکر دونوں نے اس سے زنا بھی کیا،بچے کو بھی مار ڈالا،جب ہوش میں آئے تو عورت نے کہا ،لو میں نے تم سے سب کام کروالیے جو تم نہ کرنا چاہتے تھے۔ان دونوں کو اختیار دیا گیا کہ دنیا کا عذاب لے لو یا آخرت کا۔انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کیا(یہ حدیث امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے معہ سارے طرق نقل کرکے اس کی سند ورفع میں بڑی گفتگو کی ہے۔

اولاً یہ لکھا ہے کہ:

"ذكر الحديث الوارد في ذلك إن صح سنده ورفعه"

پھر مختلف طریقوں کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:

""فدار الحديث ورجع إلى نقل كعب الأحبار عن كتب بني إسرائيل ""

پھر جو آثار صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ اس مقدمے میں آئے ہیں ابن کثیر نے ان کو بھی ذکر کیا ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے۔زہرہ اہل فارس میں سے ایک حسین عورت تھی،جس سے ہاروت وماروت نے زنا کیا۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ زہرہ کو ایک پارسی عورت کی شکل میں ان کے پاس اتارا گیا وہ اس سے برائی میں مبتلا ہوگئے۔زہرہ کو"بے دخت" کہتے ہیں یہی قول ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ہے۔

ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ زہرہ کاایک خوبصورت عورت کی شکل میں نازل ہونا سخت غریب ہے۔اس سے تو وہ قول قریب تر معلوم ہوتا ہے جو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ یہ واقعہ حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانے میں واقع ہوا تھا اس زمانے میں ایک نہایت خوبصورت عورت تھی جس طرح ستاروں میں "زہرہ" ہے۔یہ فرشتے شراب پی کراس سے برائی میں مبتلا ہوگئے۔

""فَهَذَا أَقْرَب مَا رُوِيَ فِي شَأْن الزُّهَرَة ""

قتادہ نے فرمایا:وہ ایک عورت تھی ۔اپنے شوہر کا جھگڑا لے کر آئی یہ اس کے حسن پر فریفتہ ہوگئے تو اس کا نام عربی زبان میں "زہرہ" نبطی میں بیدخت،فارسی میں "اناہید" تھا۔ وہ اسم اعظم سیکھ کر آسمان پر اُڑ گئی اور ستارہ بن کر رہ گئی۔ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اس سرخ ستارے کو دیکھتے تو لعنت کرتے اور فرماتے کہ اس نے ہاروت وماروت کو فتنے میں مبتلا کیا۔حاصل کلام یہ ہے کہ ہاروت وماروت کا قصہ ایک جماعت تابعین رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے۔متاخرین اور موجودہ مفسرین نے بڑی لمبی چوڑی تفصیل دی ہے۔لیکن سب کا مرجع اسرائیلیات ہیں۔اس سارے قصے میں کوئی حدیث مرفوع صحیح متصل الاسناد اور صادق ومصدوق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتی ہے۔قرآن کے ظاہر سیاق میں اجمالی طور پر ذکر ہے۔اس کی شرح اور تفصیل نہیں ملتی۔اس لیے جس قدر قرآن میں آیا ہے اس پر اللہ کے حکم کے مطابق ہم ایمان رکھتے ہیں،باقی اللہ جانے اور اس کاعلم ۔تفسیر فتح البیان میں بھی اس ضمن میں مفسرین کے اقوال کو جمع کیاگیا ہے۔اقوال کے ذکر کے بعد صاحب کتاب نے زہرۃ کامسخ ہوکر ستارہ بن جانا ہاروت وماروت کابطور آزمائش کے آنا پھر مصیبت میں گرفتار ہوجاناثابت کیاہے۔پھر یہ کہا کہ یہ سب امور اللہ کی قدرت میں داخل ہیں۔اس کی قدرت سے کچھ باہر نہیں ہے۔ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند سے ایک قصہ ایسی عورت کالکھا ہے جو بابل سے جادو سیکھ کر ایمان کھو کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئی تھی۔یہ قصہ تفسیر ابن کثیر میں موجود ہے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس قصے سے یہ استدلال کیاہے کہ جادو گر کو بڑے بڑے سرداروں کے دلوں پر قدرت ہوتی ہے۔مگر دوسروں نے کہا ایسا نہیں ہے۔یہ مجرد ایک تخیل ہے۔جیسے قرآن میں ہے:

" سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ" (الاعراف:116)

ترجمہ:۔ جب انہوں نے جادو کی چیزیں ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔اور لاٹھیوں اور رسیوں کے سانپ بنا کر انہیں ڈرادیا اور بڑا بھاری جادو دکھایا"اسی طرح

يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ (طہٰ:66)

ترجمہ: ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسیٰ علیہ السلام کےخیال میں ایسے آنے لگیں کہ وہ(میدان میں) ان کے جادو کی وجہ سے ادھر اُدھر دوڑتی ہیں۔"

اس سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ بابل جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے۔عراق کا بابل ہے نہ کہ بابل"دینا وند" حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہی قول ہے بلکہ حدیث مرفوع کے حوالے سے بابل کو معلون کہاہے۔وہاں نمازعصر کا وقت آگیا تھا۔انہوں نے وہاں نماز نہ پڑھی علیحدہ دور ہوکر پڑھی۔معلوم ہوا کہ جس طرح دیار ثمود میں بغیر روتے ہوئے جانے سے منع کیا۔اسی طرح ارض بابل میں نماز پڑھنے کو مکروہ فرمایا ہے۔جغرافیہ والے کہتے ہیں کہ بابل اقلیم"عراق" سےہے۔بحر محیط(اوقیانوس) سے اس کی دوری ستر درجے پر ہے۔یہ اس طول بلد ہے۔جب کہ اس کا ارض بلد وسط عرض سے جانب جنوب خط استوی کے مقابلے میں بتیس درجے ہے۔

فتح البیان میں لکھا ہے کہ بابل ایک زمین کا نام ہے۔یہ شہر سوادعراق میں سے یا کوفہ کی سرزمین میں ہے۔ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی قول ہے۔بعض نے کہا جبل"دماوند" یا"نہاوند" یا"محصیین" یا "مغرب" کا ہے۔بابل کا نام بابل اس لیے ہواکہ اس جگہ"تبلبل السنہ" خلائق کی زبانوں میں تفرقہ پڑ گیا تھا۔اہل علم نے اس بات سے استدلال بھی کیا ہے کہ جادو کاسیکھناکفر ہے۔حدیث عبداللہ میں ہے کہ جو آدمی کسی جادو گر یا کاہن کے پاس آیا اور پھر اسے سچا جانا تو اس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا۔بزار نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔حاکم نے بھی اس کی اسناد کو صحیح مانا ہے۔

جادو سیکھ کر عموماً جادو گر میاں بیوی میں جدائی ڈالتے ہیں۔حالانکہ یہ رشتہ اُلفت ومحبت کاہے۔سو یہ کام شیطانوں کا ہے۔صحیح مسلم میں ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا آیا ہے کہ شیطان اپنا تخت پانی پر رکھ کر اپنا لشکر بھیجتاہے۔بنی آدم کو اغوا کرنے کے لیے شیطان کے قریب سب سے زیادہ مرتبے والا اور سب سے بڑا فتنہ انگیز وہ آدمی ہوتا ہے۔جو اسے آکر یہ بات کہتاہے کہ میں نے فلاں شخص کو نہ چھوڑ حتیٰ کہ اس کی بیوی سے اسے جدا کردیا۔شیطان اس کو پاس بلا کر اپنے گلے لگاتا ہے۔کہتا ہے کہ تو بہت اچھاہے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ در اصل میاں بیوی کے درمیان تفریق کاسبب وہ خیال ہوتاہے جومیاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی بدصورتی یا بدخلقی وغیرہ کی بابت آتا ہے۔یا دوسرے نکاح یا کسی اور دشمنی کے سبب پیدا ہوتا ہے۔فتح البیان میں ہے کہ اللہ نے تغریق کو جادوگروں کی طرف منسوب کیا ہے۔جادو کو فرقت کا سبب جاناہے۔اور یہ اس بات پر دلیل بھی ہے کہ جادو کا اثر دلوں میں حسد وبغض جمع وفرقت اور قرب وبعد کے ساتھ ہوتا ہے۔ایک گروہ نے کہا جادو گر کو فقط اسی تفرقے پر قدرت ہوتی ہے۔اس لیے کہ اللہ نے اتنا ہی فرمایا ہے۔اگر زیادہ قدرت ہوتی تو جادو کی مذمت کےضمن میں اس کا ضرور ذکر فرمایا ہوتا۔دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ جادوگر کو اس سے زیادہ قدرت ہوتی ہے۔یہاں فقط غالب تاثیر کا ذکر کیا گیا ہے۔پھر فرمایا کہ جادو سیکھنے میں سوائے اس کے کہ جادو گر کو نقصان ہو کوئی فائدہ نہیں۔ابو السعود کہتے ہیں۔جس چیز کی آفات سے امن نہ ہو اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔جیسے فلسفہ کا علم سیکھنا۔کہ انجام کار گمراہی ہے۔

(ف)

یہ بات کہ جادو گرا للہ کی اجازت اور حکم کے بغیر ضرر نہیں پہنچا سکتا۔اس کا مطلب حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بیان کیا ہے کہ جس پر اللہ چاہے جادو کومسلط کردے جس پر نہ چاہے مسلط نہ کرے۔جادو گر کو کیا قدرت کہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی کاکچھ بگاڑ سکے۔سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یعنی اللہ کے حکم سے ہی جادو اثر کرتاہے۔محمد بن اسحاق نے کہا:جادو تب ہی اثر کرتا ہے جب کہ اللہ کسی کو جادوگر کے ارادے کے سپرد کردے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اور سدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"خلاق کے معنی نصیب اور حصے کے ہیں۔حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"دین" ہیں۔یعنی جادو گر بے نصیب اور بے دین ہوتا ہے۔"وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا " کے الفاظ سے جادوگر کے کافر ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ایک جماعت کا یہی قول ہے۔

بعض نے کہا جادو گر کافر نہیں ہوتا۔لیکن اس کی سزا اور حد یہ ہے کہ اس کی گردن اڑادی جائے۔یہ قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے۔امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے معتزلہ سے نقل کیاہے۔ کہ وہ جادو گر کے وجود کے منکر ہیں بلکہ کبھی تو جادو کے وجود کا احترام کرنے والے کو کافر بھی کہہ دیتے ہیں۔اہل سنت کے نزدیک جادوگر کا ہوا میں اڑنا،آدمی کو گدھا بنادینا،گدھے کوانسان کردکھانا سب ممکن ہیں۔اس کامطلب یہ ہواکہ جس وقت جادوگر اپنا منتر پڑھتااور کلمات معینہ کہتا ہے۔ کہ اللہ اس وقت اس چیز کو پیدا کردیتاہے۔ جبکہ یہ بات نہیں ہے کہ اس کام میں موثر فلک یا نجوم ہوں۔جس طرح فلاسفہ ،منجمین،اور صائبین کاکہناہے ۔پھر اس آیت کے الفاظ"وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ"سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ جادو اللہ کے پیدا کرنے سے واقع ہوتاہے۔جس طرح کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیاتھا۔امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا جادو کا سیکھنا کچھ بڑی بات نہیں ایک علم شریف ہے۔جادو کا علم نہ ہوتو معجزہ اور جادو میں کوئی شخص کیونکر فرق کرسکتا ہے۔لیکن ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بہت اچھے طریقے سے اس قول کی تردید کی ہے۔

جس میں کچھ دلائل یہ ہیں کہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ اور تمام ائمہ مسلمین جن کو جادو کا علم تو نہ آتا تھا لیکن وہ معجزات کو بخوبی جانتے اور پہچانتے تھے۔پھر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ابو عبداللہ رازی سے(بحوالہ کتاب"سرمکتوم") جادو کی آٹھ قسمیں بیان کی ہیں اور ان میں کلام کیا ہے اس کے بعد"کتاب الاشراف علی مذاہب الاشراف"تالیف وزیر بن ھیرہ سے یہ روایت کی ہے کہ سب کا س بات پر اجماع ہے کہ جادو کی حقیقت ہے۔مگر ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جادو کو حقیقت نہیں سمجھتے جادو کا سیکھنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،کےنزدیک سبب کفر ہے۔اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جادو کے استعمال سے انسان لائق قتل ٹھہرتاہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فی الفور قتل نہ کیا جائے ہاں اگر دوبارہ دوبارہ یہ کام کرے تو پھر قتل کیا جائے۔

رہی یہ بات کہ جادوگر کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہیں؟تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قبول نہیں ہوگی جب کہ باقی تینوں ائمہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قبول ہوتی ہے۔ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے وہب سے نقل کیا ہے کہ جس مرد کو عورت سے جادو کرکے کسی نے باندھ دیاہوتو سات پتے بیری کے لے کر انہیں دو پتھروں کے درمیان کوٹ کر پانی میں ملائیں،آیۃالکرسی پڑھ کر جادو زدہ کو تین گھونٹ اس کے پلائیں اور باقی پانی سے غسل کرادیں۔ان شاءاللہ جادو کا اثر جاتا رہے گا۔یہ عمل جادو کے باب میں بہت مستند ہے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جادوکے دور کرنے کاسب سے زیادہ اچھا طریقہ وہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص اس کودور کرنے کے لیےاتارا۔یعنی معوذتین! حدیث میں آتا ہے کہ جس آدمی نے بھی ان دو سورتوں کی پناہ پکڑی اسے شفاء نصیب ہوگئی اور آیۃ الکرسی شیطان کو دور کردیتی ہے۔