قرآن کی متعدد قرآءات کو ثابت کرنے والی جملہ احادیث کی تخریج اور جائزہ

ایک زبان جب مختلف علاقوں اور قبائل میں پھیلی ہوتو بسااوقات اس کے بعض الفاظ کے استعمالات اور لہجوں میں اتنا فرق واقع ہو جا تا ہے کہ ایک جگہ کے رہنے والوں کے لیے دوسری جگہ والوں کے لہجوں میں بات کرنا بڑا مشکل محسوس ہو تا ہے جیسا کہ دہلی کی اردو اور لکھنؤکی اردو کا حال ہے ۔جب قرآن مجید دور نبوت کے مشہور قبائل ۔۔۔قریش ہذیل ،تمیم،ربعیہ ،ہوازن اور سعد بن بکر میں پھیلا تو ان کی زبان عربی میں کئی فرق پا ئے جاتے تھے ۔اللہ تعا لیٰ کی طرف سے قرآن مجید کو سات حروف (لغات ولہجات )میں اتارنے کی ایک اہم حکمت یہ بھی تھی کہ اس کے پہلے مخاطبین ایک ہی لہجے کے تکلف کا شکار نہ ہوں ۔البتہ بعد ازاں لوگوں کے مختلف انداز سے کلام حکیم کو پڑھنے سے مغالطے پیدا ہونے لگے۔تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام حروف کو یکجا جمع کرنے اور محفوظ رکھنے کا سر کا ری سطح پر اہتمام فر ما یا ۔اگرچہ رسم الخط میں قریش کے رویے کو ترجیح دی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی مطبوعہ قرآنوں میں کئی لفظوں کو اپنے حروف میں لکھ کر بعض حروف کے اوپردوسرا حرف بھی ڈال دیا جا تا ہے جس کا مقصد یہ ہےکہ اس حرف کی جگہ وہ بھی پڑھا جا سکتا ہے ۔جیسے "سورۃغاشیہ "کی آیت (لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ )میں "ص"کے اوپر "س"۔۔۔

چونکہ اس زمانہ میں عربی کتابت نقاط وحرکات سے خالی ہو تی تھی اس لیے ایک ہی نقش میں متنوع قرآءتوں کے سمونے کی گنجائش موجود تھی ،لیکن بعد میں جب لفظوں اور حرکتوں سے متنوع شکلوں کا فرق واضح ہو نے لگا ،توقرآن بھی علیحدہ علیحد ہ قرآءتوں میں شائع ہو نے لگے ۔اسی طرح دنیا کے مختلف خطوں میں مخصوص قرآءتیں رائج ہوئیں ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق (برصغیر پاک و ہند وسط ایشیا اور ایران و عراق سمیت مشرق اوسط ) میں جس طرح "قرآءت امام عاصم کوفی ۔۔۔بروایت حفص "مروج ہے۔ اسی طرح قرون وسطی کے مغرب (شمالی افریقہ تاندالس )میں "قرآءت امام نافع مدنی بروایت ورش "عام ہے۔ دنیا بھر میں ان دو قرآءتوں کے علاوہ دیگر قرآءت میں بھی قرآن مجید مشہور نشریاتی اداروں کی طرف سے مسلمان حکومتیں کے اہتمام میں چھپتے آرہے ہیں ۔یہ بھی واضح رہے کہ قرآن کریم میں کتابت کی بجا ئے اصل "تلاوت "ہے لہٰذا خلیفہ راشد رضوان اللہ عنھم اجمعین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ماہرین قرآءت کے ساتھ "مصحف امام "کی نقول مختلف جہات میں روانہ فرما ئی تھیں اور آج تک انہی قرآء کے حوالہ سے متعدد قرآءت کی متواتر روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ صرف محفوظ و مصئون ہیں بلکہ ہرزمانہ میں لاکھوں قاری اپنی مخصوص قرآءتوں میں ان کی تلاوت کرتے ہیں اور دوسروں کو حفظ کرانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں اس سلسلے میں علمی اور تحقیقی کام بھی بہت وسیع و عریض ہے۔

مغرب کے سیاسی اور فکری غلبے کے نتیجے میں جب مسلمانوں کے دین و ایمان سے متعلقہ علوم پر بھی مستشرقین نے یلغار کی ،تو انہیں "محمد" صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سیرت کا کمال اور قرآن کریم کی حفاظت کا اعجاز بہت کھٹکا ۔کیونکہ دنیا بھر میں "قرآن "کے علاوہ کسی الہامی کتاب کی اس طرح انتہا ئی حفاظت و قرآءت کا تو دعوی بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔چنانچہ بہت سوں نے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شبہات پھیلائے تو دوسروں نے قرآن کی قرآءتوں کو مختلف بتا کر اشکالات پیدا کرنے کی کوشش کی۔

حالانکہ قرآءت کا تنوع قرآن کے اعجاز ہی کا ایک پہلوہے۔ اس میں اختلاف کا تضاد ممکن ہی نہیں ۔

چونکہ دور حاضر مسلمانوں کے علمی انحطاط کے ساتھ ساتھ ایمان و عقیدہ کی کمزوری سے بھی دوچار ہے۔ لہٰذا بعض نام نہاد اہل علم ۔۔۔مغرب کے پھیلائے ہو ئے مشکوک و شبہات سے متاثر ہو نے سے اور انھوں نے ایک طرف جہاں آزادی تحقیق کے نام پر سنت و حدیث کا انکا ر کردیا ،یا سنت و حدیث کو الگ الگ کر کے استخفاف حدیث کا رویہ اپنایا ۔تو دوسری طرف قرآنی علوم کی وسعت سے ناواقفی کی بناء پر اپنے ملک میں را ئج قرآءت کے علاوہ دوسری متواتر قرآءتوں کا انکا ر کردیا۔ حالانکہ کتنی بڑی بوالحبی ہے کہ قرآن جیسی عالمگیر کتاب کو اپنے علاقہ تک مخصوص کر لیا جا ئے ۔تاہم ان سب کچھ کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے "ذکر" کی حفاظت کی ذمہ داری خودلی ہے چنانچہ ان فتنوں کےساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کی طرف سے اس کی حفاظت کے لیے ادنی سے اعلیٰ مساعی مسلسل ہو تی رہتی ہیں ،برصغیر پاک و ہند میں تجوید قرآءت کے سینکڑوں مدرسے کسی سر کاری سر پرستی کے بغیر تو یہ کا م کر ہی رہے ہیں علاوہ ازیں سرکاری اہتمام میں جامعہ ازھراور مدینہ یونیورسٹی کے "تجویدو قرآءت "کے شعبے خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں ۔

مجلس تحقیق الاسلامی (جس کا آرگن مجلہ محدث ہے) مذکورہ بالا فتنوں کے بارے میں بڑی حساس ہے۔ لہٰذا جہاں "محدث " کے ذریعے منکرین حدیث کے شبہات کے ازالے کے لیے علمی محاسبہ کا فریضہ انجا م دیتی رہتی ہے ۔وہاں قرآنی علوم (جن کا شاہکار متنوع قرآءتوں کا معجزہ ہے) کے تعارف کے لیے بھی کوشاں ہے۔اسی سلسلے کی ایک عملی شکل مجلس سے متعلقہ تعلیمی ادارے "جامعہ لاہور الاسلامیہ " کے زیر اہتمام مدینہ یونیورسٹی کی طرز چند سال قبل " کلیہ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیہ " کا اجراء کیا گیا ہے جہاں کتاب و سنت اور عربی لغت کے مروجہ علوم کے علاوہ علم قرآءت سے وابسۃ حملہ علوم القرآن کا تخصص کرایا جا تا ہے۔

زیرنظر مقالہ مدینہ یونیورسٹی کے شعبہ کلیہ القرآن کے سابق سر برا ہ شیخ عبد العزیز القاری (ابو مجاہد )کی محنت شاقہ کا ثمر ہے جس میں قرآن مجید کے سات حروف کے بارے میں وارداحادیث کی تحقیق سات حروف سے مراد ،ساتھ حروف کا مروجہ قرآءت سے تعلق وغیرہ ۔۔۔مباحث کو آئمہ و محدثین رحمۃ اللہ علیہ کی تائید سے پیش کیا گیا ہے۔جس کا پہلا حصہ جو اس سلسلے میں وارد ہو نے والی جملہ احادیث صحیحہ کی تحقیق پر مشتمل ہے۔ہدیہ قارئین ہے بقیہ دوحصے آئندہ ۔۔۔ان شاء اللہ !۔(ح۔م)

حدیث سبعہ احرف کا شمار چند اہم اور عظیم احادیث میں ہو تا ہے جملہ حفاظ حدیث اس کے متواتر ہو نے پر متفق ہیں آئمہ دین نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں مسلسل ذکر کیا ہے اور حدیث کی کو ئی کتاب بھی اس کے ذکر سے خالی نہیں ۔

زیر نظر حدیث کی تخریج کرنے والے محدثین عظام:۔

زیر نظرحدیث کی تخریج امام المحدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،مسلم رحمۃ اللہ علیہ ، ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن نیز عمل الوم واللیلہ میں ، امام ابو داؤدنے اپنی سنن میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مؤطا ء میں اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں کی ہے علاوہ ازیں ابو عبید القاسم بن سلام "فضائل القرآن " میں ابو داؤد الطیاسی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ابو یعلی رحمۃ اللہ علیہ اپنی اپنی مسانید میں اور عبد الرزاق اپنی مصنف میں اس کو روایت کرتے ہیں ۔امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ "الاوسط "اور "الکبیر "میں جبکہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ متعدد طرق سے مشکل الاثار " میں ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سنن "میں اور حاکم اپنی مستدرک "میں اس کو نقل کرتے ہیں ۔

اسی طرح حافظ ابن کثیر نے "فضائل القرآن " میں اس کے طرق کی تحقیق اور اس بارے میں وراد ہو نے والی جملہ احادیث کو شمار کیا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری"میں اور ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ الدنیوری نے مشکل القرآن میں حدیث سبعہ احرف کی مفصل تشریح و توضیح کی ہے۔

شیخ ابو الفضل عبد الرحمٰن بن احمد بن حسن بن بنداربن ابرا ہیم الرازی العجلی المقری (متوفی454ھ) نے ایک مستقل کتاب میں صرف اسی حدیث کی جملہ روایات جمع کرنے کے ساتھ ساتھ تفصیل سے ان کی شرح کی ہے ۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں۔ کہ ابو محمد عبدالرحمٰن بن اسمٰعیل المعروف "بابن شامہ"(متوفی 665ھ) نے بھی اسی حدیث پر ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے۔ابو مجاہد (صاحب مضمون ) کا کہنا ہے کہ مجھے بھی 400صفحات کے لگ بھگ دو جلدوں میں حافظ یوسف بن عبد الہادی کی ایک کتاب "ہدایۃ الانسان الی الاستغناء بالقرآن" ملاحظہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے جس میں ابن شامہ سے بکثرت اقوال اور تحقیقات مذکورہیں اور اس کتاب کے مصنف کے بقول "ابن شامہ کی" حدیث سبعہ احرف "پر ایک مستقل تصنیف ہے جو "امرشد " کے نام سے مو سوم ہے۔"

ابن شامہ کی اسی تصنیف کی طرف امام محمد بن جزری المقری (صاحب "الشر") نے بھی اشارہ کیا ہے ۔جیسا کہ اپنی کتاب میں حدیث الاحرف المسبع روایت کرنے کے بعد فرما تے ہیں کہ"علامہ ابن شامہ نے بھی اس کے بارے میں ایک جامع کتاب تالیف کی ہے حدیث الاحرف السبع پر مستقل تصنیف کرنے والوں میں خود ابن جزری کا نام نامی بھی شامل ہے قرآءت کی مشہور ترین کتاب "الشر" میں آپ نے ذکر کیا ہے کہ مجھے بھی اس حدیث کے طرق کے تتبع کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور ان طرق کو میں نے ایک مستقل جزمیں جمع کر دیا ہے۔

حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین :۔

حدیث "الاحرف السبع کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ہشام بن حکیم حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سلیمان بن صردالخزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو بکر انصاری ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بواسطہ ابی بن کعب ) سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو جہیم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد الرحمٰن بن عوف اور ام ایوب انصاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح عبد الرحمٰن بن عبد القاری اور مسوربن مخرمہ نے بھی بالواسطہ اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مجموعی تعداد22سے زائد ہے۔زیر نظر حدیث کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بے شمار تابعین اور آئمہ حدیث کی ان گنت تعداد نے متعدد اسانید و طرق سے روایت کیا ہے ۔ذیل میں ہر ایک صحابی سے روایت کرنے والے محدثین اور رواۃ کے اجمالی بیان کے ساتھ اس سے نقل ہو نے والی روایت کے متن و سند میں اختلا ف اور اس کے متعددطرق کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا تا ہے تاکہ جملہ واردشدہ احادیث متن اور سند کے اختلافات اور متعدد طرق کو ایک خاص ترتیب سے ذکر کردیا جا ئے جس سے قاری کے لیے آئندہ بھی ان سے استفادہ ممکن ہو سکے۔

حدیث عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ

تین طرق سے کتب احادیث میں مذکورہے۔

امام محمد بن شہاب زہر کے طریق سے جنہوں نے عروہ بن زبیر سے روایت کی ہے اور عروہ نے عبد الرحمٰن بن عبدالقاری اور مسور بن مخرمہ سے اس حدیث کا سماع کیا۔

جب امام زہری سے مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( امام دارالہجرہ) عقیل بن خالد معمر بن راشد الازوی یونس بن یزید مولیٰ معاویہ بن سفیان ۔عبد الرحمٰن بن عبد العزیز الانصاری فلیح بن سلیمان الخزعی اور شعیب بن حمزہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔2۔اسحٰق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ کے طریق سے جو کہ اس طرح ہے۔۔۔اسحق بن عبد اللہ عن ابیہ عن جدہ عن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

4۔عبید اللہ بن عمر کے طریق سے بروایت عبید اللہ بن عمرعن نافع عن ابن عمر عن عمربن الخطاب ۔

"ابن شہاب زہری" کے طریق سے متن حدیث :۔

اس حدیث کا متن صحیح بخاری میں مسور بن مخرمہ اور عبد الرحمٰن بن القاری کی سند سے یوں ہے۔

حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہشام بن حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سورہ فرقان پڑھتے ہو ئے سنا ۔

۔۔۔(عبد الرزاق سے بروایت معمر یہ منقول ہے کہ میں ہشام بن حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب سے گزرا جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں سورۃفرقان تلاوت کر رہے تھے)

میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرآءت کو جب غور سے سنا تو معلوم ہوا کہ وہ متعدد الفاظ اس طور قرآءت کر رہے ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں سکھائے تھے۔

۔۔۔(نسائی سے بروایت معمر یہ الفاظ منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حروف پر پڑھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں سکھائےتھے۔) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے ہشام کو نماز میں ہی (جھپٹ کر) روک لینے پر تیار ہوگیا ۔-

۔۔۔(مالک کی روایت میں ہے۔ میں قریب ہوا کہ اس کی طرف جلدی کروں)

حضرت عمر کہتے ہیں ۔میں نے بمشکل اپنے آپ کو اس فعل سے روکے رکھا حتیٰ کہ جیسے ہی ہشام نے سلام پھیرا تو میں ان کے لباس سے کھنچتے ہو ئے ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے چلا۔

۔۔۔(مالک کی روایت میں ہے۔ میں نے ان کو سلام پھیرنے تک کی مہلت دی اور معمر کے الفاظ میں ۔میں ان کو دیکھتا رہا حتیٰ کہ انھوں نے سلام پھیرلیا۔۔۔ابن عبید کی روایت میں ہے میں نے انہیں ان کے کپڑوں سے پکڑا )

پھر میں نے ہشام سے سوال کیا کہ آپ کو یہ سورہ مبارکہ اس طرز پر کس نے سکھا ئی ہے ( جس طرح میں نے ابھی آپ سے سنی ہے) انھوں نے جواب دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسے ہی سکھا یا ہے تو میں نے کہا کہ تم غلط بیانی کرتے ہو کیونکہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سورت اس طریقے پر نہیں پڑھائی جس پر میں نے تمھیں سناہے

۔۔۔(معمر اور یونس کی روایت میں: تم نے غلط کہا ہے۔۔۔"اللہ کی قسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی یہ سورت سکھائی ہے جو ابھی تم تلاوت کررہے تھے)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے چلا ۔(وہاں جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) میں نے کہا: مجھے اس شخص سے ایسے طریقہ پر سورہ فرقان سننے کا اتفاق ہوا ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ سورت نہیں پڑھائی ۔

نبی اکرم نے مجھے فرما یا :ہشام کو چھوڑدو،اور ہشام تم پڑھو !تب ہشام نے اسی طرح تلاوت کی جس طرح میں نے ہشام سے سنا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :" یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے۔"

۔۔۔(معمر اور یونس کی روایت میں اور مالک سے دومقام پر یہ الفاظ ہکذاانزلت)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھنے کا حکم دیا ۔میں نے اس طرز پر قرآءت کی جس پر آپ نے مجھے سکھایا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"اسی طرح (بھی ) نازل کی گئی ہے، یہ قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا ہے لہٰذا جو حرف تمھیں آسان معلوم ہو ۔اس پر قرآن کی تلاوت کرو"

۔۔۔(معمر کی روایت میں ہے ۔" تم ان سے پڑھو جو بھی تمھیں میسر ہو اور یونس کی روایت میں "ان سات حروف سے اس پر پڑھو جو تمہیں میسر ہو")

ابو عبید نے بروایت عقیل ان الفاظ کو مزید نقل کیا ہے کہ ابن شہاب نے سبعہ احرف کے بارے میں کہا کہ یہ سب قرآءت ایک ہی بات اور حکم ثابت کرتی ہیں جس میں ان قرآءتوں کے اختلاف کی وجہ سے معنی یا مراد میں کو ئی اختلاف واقع نہیں ہو تا ۔حدیث ابن عباس میں امام مسلم نے بھی ابن شہاب زہری سے یہ اضافہ نقل کیا ہے ۔"مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ یہ سات حروف ایک ہی حکم کو ثابت کرتے ہیں اور کسی شے کے حلال و حرام ہو نے میں باہم مختلف نہیں ہو تے "

"اسحق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ " رضی اللہ تعالیٰ عنہ "کے طریق سے متن حدیث:۔

ابن جریر کی روایت میں (جو کہ "عن اسحٰق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن ابیہ عن عن جدہ"کے طریق سے ہے) مذکورہے کہ ایک شخص نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس قرآءت کی تو آپ پر کچھ تغیرات کے ساتھ پڑھا ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ میں نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآءت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مجھے یہ تغیرات نہ بتلائے ۔راوی کہتے ہیں کہ دونوں اکرم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا کرتے ہو ئے پہنچ گئے ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ نے مجھے فلاں فلاں آیت نہیں پڑھائی تھی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ ہاں کیوں نہیں ۔راوی کہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں کچھ کھٹکنے لگا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ سے پہچان لیا لہٰذا آپ کے سینے پر تین مرتبہ ہاتھ مار کر کہا :شیطان کو اپنے سے دور کر! پھر فرمایا :قرآن (میں )یہ سب عین صواب ہے جب تک کہ تو رحمت کو عذاب اور عذاب کورحمت سے نہ تبدیل کرے۔

اس روایت کی اسناد صحیح ہیں اور یہ بتاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی وہی کچھ پیش آیا جو کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوا (جس کی تفصیل آگے ذکر ہو گی )اور اس زیادتی کو ماسوائے اسحق کے کسی نے ذکر نہیں کیا ۔

حدیث عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

ابو منہال سیار بن سلامہ روایت کرتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ۔ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منبر پر فرما یا : اللہ تعالیٰ اس آدمی کو یہ بات یاد دلائے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے اور سب کے سب حروف شفا دینے والے اور کفایت کرنے والے ہیں ۔"

سامعین میں سب حضرات کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ ان کی تعداد گنتی سے باہر ہو گئی ۔ان سب نے گواہی دی کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی الفاظ اپنی زبان مبارک سے ادا فرمائے تھے۔تب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ"میں بھی ان کے ساتھ گواہی دیتا ہوں "

اس روایت کو ابو یعلیٰ نے بھی اپنی مسند میں ابو منہال سے روایت کیا ہے جب کہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی نامعلوم ہے۔

ابو مجاہد (صاحب مضمون ) کہتے ہیں کہ یہ نامعلوم شخص ابو منہال اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مابین ہے کیونکہ ابو منہال کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا قات نہیں ۔

ابو منہال سیار بن سلامہ نے۔۔۔ابو برزہ اسلمی ،براء سلیطی ،اپنے والد ،ابو العالیہ عیاحی اور ابو مسلم الجرمی سے متعدد روایت نقل کی ہیں ۔اور ثقہ ہو نے کی وجہ سے اس کی روایات اور احادیث کتب ستہ میں بھی مو جود ہیں ۔

حدیث علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو ابو الفضل رازی نے "عاصم بن ابی الجود اس نے زربن جیش سے اس نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ " کے طریق سے روایت کیا ہےکہ حضرت علی ابن ابی طالب نے فر ما یا کہ اللہ کے رسول تمہیں حکم دیتے ہیں :کہ ویسے قرآءت کرو جیسے تمھیں سکھایاگیا ہے " ہرچند کہ یہ حدیث سبعہ حروف کے بارے صریح نہیں لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول ۔۔۔"ان تقرءوا"کا مفہوم یہ ہے کہ تم پڑھو (یعنی سات حروف سے) جس طرح تمھیں سکھا یا گیا ہے کیونکہ وجہ اختلاف ان کے مابین سبعہ حروف کے سلسلے میں ہی تھی ۔یہ حدیث احمد اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے ۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احادیث :۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تین احادیث درج ذیل پانچ طرق سے کتب حدیث میں مروی ہیں

طریق عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ ،سلیمان بن صردالخزاعی ،عبد اللہ بن عباس ،انس بن مالک، اور زربن حیش الاسدی ۔

حدیث اول :۔

اس حدیث کی تخریج کرنے والے آئمہ حدیث ان گنت ہیں جن میں سے معروف آئمہ کی اسانید ترتیب سے درج ذیل ہیں ۔

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے" اسمٰعیل (1)بن ابی خالد عن عبد اللہ بن عیسیٰ بن عبد الرحمٰن بن لیلیٰ عن جدہ" کی سند سے اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کیا ہے ۔ جبکہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے "معقل (2)بن عبید اللہ عن مکرمہ عن سعید بن جیر عن ابن عباس عن ابی " اور " حمید الطویل (3)عن انس عن ابی" کی اسناد سے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔

علاوہ ازیں اسی حدیث کو ابن جریر " عبید اللہ بن عمر (4)عن سیار ابی الحکم عن عبد الرحمٰن بن لیلیٰ مرفوعاً"،"عبید اللہ (5)بن عمر عن ابی لیلیٰ عن ابی "اور"وکیع (6) عن اسمٰعیل بن ابی خالد عن عبد اللہ بن عیسیٰ "کی تین مختلف سندوں سے روایت کرتے ہیں ۔اسی طرح ابن جریر نے اپنی روایت سے بھی (جو کہ محمد بن ابی لیلیٰ عن الحکم ابن ابی لیلیٰ (7) کے طریق سے ہے ) اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ مزید آں محمد بن فضیل (8) ابن نمیر (9) اور محمد بن یزید الواسطی (10) میں سے ہر ایک سے بطریق " اسمٰعیل بن ابی خالد عن عبد اللہ بن عیسیٰ "اس حدیث کی اپنی کتاب میں تخریج کی ہے اسی طرح ابن ابی عدی(11) اور محمد الزعفرانی (12) سے بھی بطریق " حمید الطویل انس عن ابی " یہ حدیث ابن جریر نے روایت کی ہے امام احمد (13) نے بھی حمید سے اس کو نقل کیا ہے ۔ ابو عبید (14) نے یحییٰ بن سعید (15) اور یزید بن ہارون عن حمید کی سندوں سے۔۔۔ابو عبید اور جریر ،دونوں نے بروایت "ابی اسحٰق السیعی (16)عن مقیر عبد ی عن سلیمان بن صردعن ابی" اور ابن جریر طیالسی اور بیہقی نے بروایت قتادہ (17) عن یحییٰ بن یعمر عن سلیمان کی اسانید سے اس حدیث کی اپنی اپنی کتابوں میں تخریج کی ہے ۔

پہلی سند سے حدیث اول کا متن :۔

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اس کی سند ذکر کرنے کے بعد ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا میں مسجد میں مو جو د تھا ۔

(بعض روایات میں " میں مسجد کی طرف گیا " کے الفاظ ہیں جب کہ دوسرے مقام میں ہے "میں مسجد میں داخل ہوا")کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز شروع کر دی ۔اس نے ایسے طریقے پر قرآن کی تلاوت کی۔ جس کی میں نے تردید کی۔ کچھ وقفے کے بعد ایک دوسرا شخص بھی داخل ہوا اور اس نے پہلے سے بھی مختلف قرآءت کی۔

جب ہم نے نماز ختم کر لی تو ہم سب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو ئے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس شخص نے ایسے طریقے پر قرآءت کی ہے جس کا میں نے اس پر انکا ر کیا ہے ۔پھر بعد میں یہ دوسرا شخص بھی مسجد میں داخل ہوا ہے اور اس نے پہلے سے بھی مختلف قرآءت کی ہے۔

(ابن جریر اور بیہقی کی روایات میں اس شخص کا نام "عبداللہ بن مسعود "

ذکر ہے جب کہ تیسرےشخص کا کو ئی ذکر نہیں ۔اسی طرح امام نسائی کی بروایت ابن عباس اور ابن جریر کی بروایت انس احادیث میں بھی یہی صورت ہے اور ممکن ہے کہ اختصار کے پیش نظر تیسرے شخص کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔

جس سورت کے بارے میں اختلاف ہوا۔روایات میں صراحت سے اس کانام سورہ نحل مذکورہے اور یہ صراحت عبید اللہ بن عمر عن ابن ابی لیلیٰ "وکیع عن اسمٰعیل اور ابن جریر عن محمد بن ابی لیلیٰ کی روایات میں مو جو د ہے جیساکہ ابن جریر میں ہے) ۔

حضرت ابی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو باری باری پڑھنے کا حکم دیا۔ان دونوں نے آپ کو سنایا اور آپ نے ان کی تحسین بھی کی۔یہ صورتحال دیکھ کر میرے نفس میں شک اور تکذیب کا گمان گزراجس کی شدت جاہلیت میں آپ کے بارے میں شک سے زیادہ تھی۔

۔۔۔(وکیع کی روایت میں ہے کہ میرے دل میں جاہلیت سے کہیں بڑھ کر شک اور تکذیب اثر انداز ہو گئی۔)

۔۔۔(عبید اللہ بن عمر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ۔میرے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا حتیٰ کہ اس کی شدت سے میرا چہرہ سرخ ہو گیا جبکہ ابن جریر والی ابو اسحٰق کی روایت میں ہے کہ ان دونوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ تم نےقرآن خوبصورت تلاوت کیا ہے ۔حضرت ابی کہتے ہیں کہ میں نے بھی یہ کہا کہ تم نے اچھا کیا تم نے اچھا کیا ہے)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میری کیفیت اور وسوسے کا خیال کیا تو میرےسینے پر ہاتھ مارا جس کی وجہ سے میرا پسینہ بہہ نکلا گو یا میں خوف کی وجہ سے اللہ کی طرف دیکھ رہاہوں ۔

۔۔۔(ابن جریر کے الفاظ میں :کہ میرا پسینہ بہہ نکلا میرا دل خوف سے بھر گیا۔۔۔وکیع کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تب میرے لیے دعا فر ما ئی کہ اللہ تعا لیٰ تجھ سے شیطان کو نامراد کر کے اس سے اپنی پناہ میں لے لے۔۔۔عبید اللہ بن عمر کی روایت میں ہے ۔یا اللہ ! اس سے شیطان کو نامراد فرما۔۔۔محمد بن فضیل کی روایت میں ہے کہ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے شیطان کے پیدا کردہ شک اور تکذیب سے اپنی پناہ میں داخل کرلے)

ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا :اللہ نے میری طرف (جبریل علیہ السلام کو) بھیجا تاکہ میں ایک طریقے پر قرآن پڑھوں تو میں نے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ میری امت کے لیے آسانی کی جا ئے ۔۔۔پھر جبریل علیہ السلام دوبارہ میرے پاس آئے اور مجھے دوطریقوں پر پڑھنے کی اجازت سنائی ۔میں نے انہیں وہی جواب دے کر پھر واپس کردیا تب وہ تیسری بار میرے پاس تشریف لائے اور مجھے سات حروف تک پڑھنے نوید سنائی اور کہا کہ ہر بار مجھے لوٹا نے کے عوض آپ کو سوال کی اجازت ہے ۔جس کو قبول کیا جا ئے گا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ سے دومرتبہ دعا مانگی کہ یا اللہ !میری امت کی مغفرت فرما اور ان کو بخش دے۔یاللہ !میری امت کو معاف فر ما اور تیسرے سوال کو میں نے اس دن کے لیے محفوظ کرلیا۔جس دن تمام مخلوق حتیٰ کہ ابرا ہیم علیہ السلام بھی میری طرف رجوع کریں گے۔

دیگر سندوں سے متن حدیث میں اختلاف

مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں ابن جریر کے ہاں "ابن بیان عن اسمٰعیل بن ابی خالد" کی سند سے بھی یہی الفاظ منقول میں جب کہ نسائی کے ہاں ابن معقل سے یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے ابی !یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے جو کہ سب شفاء دینے والے اور کفایت کرنے والے ہیں ۔

ابن جریر کے ہاں عبید اللہ بن عمر کی روایت سے یہ الفاظ ہیں کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا کہ اللہ تعا لیٰ آپ کو ایک حرف پر قرآن پڑھنے کا حکم دیتے میں میں نے کہا کہ یا اللہ !میری امت پر تخفیف کیجئے پھر دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعا لیٰ آپ کو ایک حرف پر ہی قرآن کی تلاوت کا حکم دیتے ہیں ۔میں نے دعا کی یااللہ! میری امت پر تخفیف فرما ئیے اس کے بعد وہ تیسری مرتبہ آیا اور اس نے وہی بات دہرائی میں نے پھر وہی دعاکی ۔بعد ازاں وہ چوتھی بار آیااور اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ ساتھ حروف پر قرآن پڑھیں اور آپ کے لیے ہربار لو ٹا نے پر ایک سوال کی اجازت ہے۔ میں نے کہا :یارب !میری امت کو بخش دے یااللہ ! میری امت کی مغفرت فرما اور تیسرے سوال کو میں نے قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کےلیے محفوظ کرلیا ہے۔ ۔۔۔ابن جریر ہی کے ہاں ابن فضیل کی روایت سے یہ الفاظ منقول ہیں :"اللہ تعا لیٰ نے مجھے ایک حرف پر قرآن کی تلاوت کا حکم دیا میں نے رب سے دعا کی کہ میری امت کے لیے آسانی کی جا ئے تو رب تبارک نے فر ما یا کہ تم دوحرفوں پر پڑھوں ۔اس کے بعد مجھے جنت کے سات دروازوں کی طرح سات حروف پر پڑھنے کا حکم ہوا جو کہ سب کا فی اور شا فی ہیں "۔

دیگر روایات سے اس حدیث کی تفصیل

نسائی نے" یحییٰ بن سعید عن حمید عن انس عن ابی "کی سند سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : میرے پاس جبریل علیہ السلام اور مکائیل آئے ۔۔۔جبریل علیہ السلام میرے دائیں جانب اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف بیٹھ گئے۔جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا کہ ایک حرف پر قرآن کی تلاوت کیجئے ۔مکائیل کہنے لگے کہ اس پر اضافہ کا مطالبہ کریں !حتیٰ کہ جبریل علیہ السلام سات حروف تک جاپہنچے جن میں سےہر حروف شافی اور کا فی ہے۔

۔۔۔ابن جریر نے" ابن ابی عدی والزعفرانی عن حمید " کے طریق سے اور طحاوی نے بھی عبد اللہ بن بکر السمی کے طریق سے یہی الفاظ نقل کئے ہیں ۔مگر "سیعی عن صقیر العبدی "کی روایت سے ابن جریر الفاظ نقل کرتے ہیں ۔میرے پاس دوفرشتے آئے اور ایک نے کہا کہ"ایک حرف پر قرآن کی تلاوت کریں ۔دوسرے نے اضافے کا مطالبہ کیا۔(یعنی یہ روایت فرشتوں کے ناموں کے بغیر منقول ہے)

۔۔۔وکیع کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ۔ میرے پاس جبریل آئے اور انھوں نے مجھے ایک حرف پر قرآن پڑھنے کا حکم دیا میں نے جواب دیا کہ میری امت ایک حرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات مرتبہ ایسے ہی کہا تب جبریل علیہ السلام نے مجھے سات حروف پر تلاوت کا حکم دیا اور مجھے ہربار لوٹا نے پر ایک سوال کی اجازت دی۔ انہی سوالوں میں سے ایک سوال کی اجازت کی وجہ سے تمام مخلوق حتیٰ کہ ابر اہیم علیہ السلام بھی میری طرف رجوع کریں گے۔

۔۔۔ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے قتادہ کی سند سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : اے ابی !مجھے قرآن پڑھایا گیا ،پھر پوچھا گیا :کیا ایک طریقہ پر یا دو طریقوں پر ؟تو جو فرشتہ میرے ساتھ تھا اس نے کہا کہ "دوحروف پر کہئے "پھر سوال ہوا کہ کیادو پر یاتین پر ؟ فرشتے نے مجھے کہا کہ کہئے "تین حروف پر حتیٰ کہ وہ وہ سات تک جا پہنچا جن میں سب کے سب شافی کافی ہیں ۔(اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیعا کو عزیزاً ،حکیماً کہیں تو جب تک آیت رحمت کو عذاب اور آیت عذاب کو رحمت سے نہ بدلیں گے ۔آپ کے لیے جائز ہے)

۔۔۔بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ غفور رحیم کو علیم حکیم ،سمیع علیم یا عزیز حکیم وغیرہ سے (تبدیل کرکے )کہہ سکتے۔ہیں ۔

خلاصہ بحث :مندرجہ بالاجملہ اختلافات اجمال اور تفصیل کے قبیل سے ہو نے کی وجہ سے حدیث کے لیے باعث ضرر نہیں ۔راویوں کے باہم حفظ میں متفادت ہو نے کی وجہ سے کچھ راوی اس بات کو تفصیل سے ذکر کر دیتے ہیں جس کو دوسرے مجمل روایت کر رہے ہو تے ہیں ۔جب کہ یہاں فی الوقع کو ئی تناقص نہیں ۔درحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی مرتبہ فرشتہ کی طرف رجوع کیا اور کیا سات قرآءت تیسری مرتبہ عطا ہو ئیں یا چوتھی مرتبہ ؟بعض روایات میں اس کو چوتھی مرتبہ ذکر کیا گیا ہے جب کہ دوسری روایات میں اختصار کے مد نظر تیسری مرتبہ بیان ہوا ہےاور ان سب تغیرات پر یہ اصول حاکم ہے کہ "ثقہ شخص کی زیادتی قابل قبول ہو نے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔یادرکھنے والے کی بات نہ یاد رکھنے والے پر مقدم ہے۔"

حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری حدیث :۔

امام مسلم ،ابو داؤد اور نسائی نے" مجاہد عن ابی لیلیٰ " کی روایت سے اس حدیث کی تخریج کی ہے علاوہ ازیں ابن جریر اور احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں متعدد طرق سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کو روایت کیا ہے ۔

مسلم رحمۃ اللہ علیہ سے متن حدیث:۔

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اس کی سند ذکر کرنے کے بعد ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی غفار کے محلات کے قریب تھے کہ آپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: اللہ تعا لیٰ کا حکم یہ ہےکہ آپ کی امت ایک حرف پر قرآن تلاوت کرے۔

۔۔۔(ابو داؤد نسائی اور ابن جریر کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ اپنی امت کو ایک حرف پر قرآن سکھائیے )

حضرت ابی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے بخشش اور مغفرت کی دعا کرتے ہوئے فرما یا کہ میری امت اس کی استطاعت نہیں رکھتی ۔

۔۔۔(ابن جریر کے الفاظ میں ہے ۔اللہ عزوجل سے میں مغفرت اور عافیت کا طالب ہوں بے شک وہ اس کی متحمل نہیں اور آپ اللہ سے تخفیف کا مطالبہ کریں )

آپ فرما تے ہیں : حضرت جبریل علیہ السلام دوبارہ میرے پاس آئے اور کہا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ کی امت دو طریقوں پر قرآن تلاوت کر سکتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوبارہ ) اللہ سے عافیت اور مغفرت طلب کرتے ہو ئے اپنی امت کے طاقت نہ رکھنے کا ذکر کیا۔ پھر وہ تیسری بار تشریف لا ئے اور کہنے لگے : اللہ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ امت محمد یہ تین حروف پر قرآن تلاوت کرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا: میں اللہ سے بخشش اور معافی کا سوال کرتا ہوں ۔میری امت اس کی بھی متحمل نہیں ۔ تب جبریل علیہ السلام آپ کے پاس چوتھی مرتبہ آئے اور کہا کہ اللہ کا حکم یہ ہے کہ آپ کی امت سات حروف تک قرآن پڑھ سکتی ہے۔ جس حرف پر بھی وہ پڑھے گی ،صحیح ہو گا

۔۔۔(ابن جریر کی ایک روایت میں ہےکہ جو بھی ان میں سے کسی طریقہ پرقرآءت کرے درست ہے)

حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تیسری حدیث:۔

امام ابو عیسیٰ الترمذی نے" عاصم بن مہدلہ المقری عن زربن حیش عن ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ "کی سند سے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ جب کہ طیالسی ابن جریر طحاوی اور احمد بھی "عاصم"سے ہی اس کو روایت کرتے ہیں ۔

سنن ترمذی سے متن حدیث:۔

سند ذکر کرنے کے بعد ترمذی ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبریل علیہ السلام سے ملا قات ہو ئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے جبریل علیہ السلام !مجھے ایسی امت کی طرف معبوث کیا گیا ہے ۔جو ان پڑھ ہیں ان میں بوڑھے ،عمر رسیدہ ،جوان مرد اور عورتیں اور مختلف لوگ ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ انھوں نے کبھی بھی کو ئی لکھی چیز نہیں پڑھی ۔

۔۔۔(طیالسی کے الفاظ میں ہے کہ سخت مزاج لوگ بھی ان میں ہیں ۔۔۔طحاوی کے الفاظ ہیں ۔ان میں عمر رسید ،پختہ عمر ،نوجوان ،خادم اور قریب المرگ لوگ بھی ہیں جنہیں کبھی کو ئی لکھی چیز پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا)

چنانچہ جبریل علیہ السلام نے جواب دیا ۔بلا شبہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے ۔

۔۔۔(ابن جریر کی روایت میں ہے کہ انہیں چاہیے کہ یہ سات طریقوں میں کسی ایک پر تلاوت کریں ۔طیالسی کی روایت میں اس مقام کا تذکرہ بھی ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جبریل علیہ السلام سے ملا قات ہو ئی"وہ مقام مراء کے پتھروں کے قریب تھا"المریٰ "کا لفظ الف مقصورہ کے ساتھ ہے جب کہ ابن جریر کی روایت میں "احجاز المراء یعنی الف ممدودہ کے ساتھ ہے جو کہ قباء جگہ ہے یا قباء کے قرب وجوار میں کو ئی مقام )

احادیث عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پانچ احادیث سات طرق سے مروی ہیں اور وہ سات طرق یہ ہیں ۔

طریق (1)نزال بن سبرہ (2)ابو الاحوص (3)فلفلہ جعفی (4)عمر بن ابی سلمہ (5)ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف (6)ابو وائل شقیق بن سلمہ اور (7)زربن حیش ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی حدیث:۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نزال بن سبرہ کے طریق سے جب کہ امام احمد بھی اسی نزال سے ہی دو وجوہ سے روایت کرتے ہیں ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے متن حدیث:۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ۔نزال کی سند سے اس حدیث کی روایت کے بعد کہتے ہیں کہ انھوں نے کہا میں نے عبد اللہ کو یہ کہتے ہو ئے سنا کہ میں نے ایک شخص کی تلاوت سنی جس نے ایک آیت اس طریقہ کے علاوہ تلاوت کی، جس کو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا ۔لہٰذا میں اس کے ہاتھ سے اس کو پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے چلا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار پر آپ نے فرمایا :"تم دونوں ہی خوب (تلاوت ) کرنے والے ہو۔"

شعبہ کہتے ہیں :میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ کہا تھا تم اختلاف مت کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ بھی آپس میں جھگڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو ئے۔

(امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں عفان عن شعبہ کے طریق سے بھی یہی الفاظ مروی ہیں جب کہ آپ سے ہی بروایت بہز ۔"ان الفاظ میں معمولی سا فرق وارد ہے کہ تم دونوں نے اچھا (فعل) کیا ہے اور اب اختلاف مت کرو)

دوسری حدیث :۔

ابن جریر نے "عاصم بن ابی النجود والقمری عن زربن حیش "دووجوہ سے حدیث روایت کی ہے ۔

وجہ اول :۔

"ابو بکر بن عیاش عن عاصم عن زربن حیش عن ابن مسعود "کی سند سے مروی ہے کہ ابن مسعود نے کہا :دو آدمیوں کا ایک سورہ کے بارے میں اختلاف ہو گیا ۔ایک کا کہناتھا کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی پڑھایا ہے اور دوسرا کہتا تھا کہ مجھے بھی ایسے ہی سکھایا گیا ہے ۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی ۔راوی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اس خبر سے متغیر ہو گیا۔ آپ کے قریب ایک شخص تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم ویسے ہی پڑھا کرو جیسے سکھائے گئے ہو۔میں نہیں جانتا کہ کیا انہیں اس جھگڑے کا حکم ہوا تھا یا اس کو انھوں نے اپنے پاس سے گھڑلیا تھا ۔بلا شبہ تم سے پہلے لو گ بھی اپنے انبیاء علیہ السلام کے بارے میں اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہو ئے"ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ سن کر ہم میں ہر شخص کھڑا ہو گیا اور وہ دوسروں کے طریقے کے علاوہ اپنے ہی طریقے پر تلاوت کر رہاتھا ۔

وجہ ثانی:۔

بروایت اعمش عن عاصم !اس میں پچھلی حدیث سے زیادہ تفصیل ہے سورۃ کانام اور آدمی کا نام بھی مذکورہے۔ابن مسعود کہتے ہیں ۔ہمارا سورہ فرقان کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ ہم نے 35آیات کہیں یا 36۔لہٰذا ہم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا۔ وہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ سے مصروف گفتگو پایا ۔راوی کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اختلاف کی بابت بتایا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سن کر چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسی اختلاف میں پڑکر تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں ۔ابن مسعود کہتے ہیں ۔پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کچھ کہاتب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں بتا یا کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں حکم فرماتے ہیں کہ تم ویسے ہی پڑھو جیسے تمھیں سکھایا گیا ہے۔"

ابو مجاہد (صاحب مضمون )کہتے ہیں ۔اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دو واقعات پیش آئے ۔ایک واقعہ تو ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ پیش آیا جس میں قرآءت میں اختلاف کا مسئلہ تھا اور وہ اختلاف سورۃ "نحل"میں تھا نزال بن سبرہ کی حدیث اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہےاور یہ وہی واقعہ ہے جس کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مشہور حدیث میں ذکر کیا ہے۔

جہاں تک زیر نظر حدیث کا تعلق ہے تو ایک اور شخص کے ساتھ ابن مسعود کے پیش آنے والے واقعہ کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اور اس حدیث میں محل اختلاف آیات کی تعداد ہے نہ کہ انداز تلاوت اور جس سورت میں یہاں دونوں کا اختلاف واقع ہوا وہ سورہ فرقان ہے۔

علاوہ ازیں زربن حیش سے روایت کردہ عاصم کی حدیث میں ابوبکر بن عیاش اور اعمش کی روایات کے مابین بھی کچھ اختلاف موجود ہے۔ اعمش کی روایت میں یہ ذکر ہے کہ۔۔۔"تم سے پہلے لوگ باہم اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہو گئے"۔۔۔ اس قول کے قائل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہ بتانے والے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں حکم فرماتے ہیں کہ ویسے ہی پڑھو جیسے تمھیں سکھا یا گیا ہے"جب کہ ابو بکر بن عیاش کی روایت میں ان دونوں اقوال کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ان کے نام کے ذکر کے بغیر) منسوب کیا گیا ہے ہماری را ئے میں دونوں روایتوں میں اعمش کی روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ ابو بکر اگر چہ "صدوق "ہیں لیکن انہیں کبھی غلطی بھی لگ جاتی ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احادیث میں جو کچھ آپ سے سبعہ احرف کے بارے میں مروی ہے وہ دراصل اسی حدیث میں پیش آنے والا واقعہ اور اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی ترجمانی کے سلسلے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قول سبعہ احرف کے بارے میں صریح تونہیں لیکن بہر حال اس کو متضمن ضرور ہے کیونکہ آپ کا قول " نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں حکم فرماتے ہیں کہ ویسے ہی پڑھو جیسے تم سکھائے گئے ہو۔"اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ بات ان سے اختلاف (قرآءت )کی نسبت سے کہی گئی ہے اور یہاں یہی اشارہ زیادہ واضح ہے۔

عبد اللہ بن مسعود کی تیسری حدیث:۔

ابن حبان نے ابو الاحوص کے طریق سے اس کی تخریج کی ہے ۔ اسی سند سے طبرانی اور بزار ،بھی روایت کرتے ہیں جب کہ ابن جریر نے الاحوص سے ہی ایسی دووجوہ سے اس کی تخریج کی ہے جن دونوں میں ضعف پایا جا تا ہے۔ چنانچہ ابو الاحوص نے کہا کہ عبد اللہ بن مسعود فرما تے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔" قرآن حدیث سات حروف پر نازل کیا گیا ہے ان میں ہر آیت کا ظاہر ی معنی بھی ہے اور باطنی بھی۔"

۔۔۔ابن جریر نے اس پر ان الفاظ کا اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ"ہر حرف کے لیے ابتدااور انتہا ہے۔"

۔۔۔طبرانی کی روایت میں ہے ۔" بلا شبہ قرآن میں کو ئی بھی "حرف "نہیں مگر اس کے واسطے "حد"ہے اور ہر حد کے لیے ابتداءہے ۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چوتھی حدیث:۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مندرجہ ذیل تین طرق سے مروی ہے۔

(1)طریق ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف (2)طریق عمر بن ابی سلمہ۔۔اور (3) فلفلہ جعفی کا طریق ۔

(1)طریق ابی سلمہ کی امام حاکم نے "عن سلمہ بن ابی سلمہ عب ابیہ عن ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ "کی صحیح سند سے تخریج کی ہے جب امام طحاوی نے دووجوہ یعنی (1)بروایت "عبد اللہ بن صالح حدیثی اللیث بن سعد قال حدیثی عقیل بن خالد عن ابن شہاب عن سلمہ" اور (2)حیوہ ابن شریح اخبرناخالد عن ابن شہاب ۔۔۔سے تخریج کی ہے ۔

(2) فلفلہ جعفی کی روایت امام احمد نے ذکر کی ہے ۔ ہیثمی کہتے ہیں کہ اس کی اسناد میں عثمان بن حسان العامری ایسا راوی ہے" جس کو ذکر کرنے کے بعد ابن ابی حاتم نے اس پر جرح کی ہے ،نہ ہی تو ثیق !جب کہ روایت کے باقی رجال ثقہ ہیں۔

(3)عمر بن ابی سلمہ کی روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس میں عمار بن مطرانتہائی ضعیف راوی ہے۔بعض نے اس کی تو ثیق بھی کی ہے۔

بروایت امام احاکم متن حدیث:۔

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:پہلی کتاب ایک طریق پر اور ایک ہی "حرف "پر نازل ہوئی تھی جب قرآن کریم سات طرق سے، سات حروف پر اس طرح نازل ہوا ہے کہ اس میں امرونہی اور حلال و حرام اور محکم و متشابہ اور امثال ہیں ۔لہٰذا تم اس کے حلال کئے ہو ئے کو حلال جانور اور اس کے حرام کئے ہو ئے کو حرام سمجھو ۔قرآن جو تمھیں حکم دیتا ہےوہی بجالاؤ ،اور جس سے روکتا ہے اس سے اجتناب کرو۔اور اس کی دی ہو ئی مثالوں سے عبرت پکڑو ۔قرآن کے محکم پر عمل کرو ۔متشابہ پر ایمان لاؤ اور اس امر کا قرار کرو کہ سبگ کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم اسی پر ایمان لا ئے ۔یہ ابو سلمہ کی روایت ہے)

۔۔۔فلفلہ جعفی کی روایت میں یہ ہے کہ مجھے مصاحف کے بارے میں پریشانی اور گھبراہٹ لا حق ہو ئی تو میں نے عبد اللہ بن مسعود کی طرف رجوع کیا ۔میں دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا ہم میں سے ایک نے کہا: اے عبد اللہ !ہم آپ کی ملا قات کے لیے آپ کے ہاں نہیں آئے ،بلکہ ہمارے آنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ہمیں اس خبر کی وضاحت فرمائیں ۔تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ تمھارے نبی پر قرآن سات طرق سے سات حروف پر نازل ہوا ہے جب کہ پہلی کتابیں ایک طریق سے ایک ہی حرف پر نازل ہو تی تھیں ۔

۔۔۔عمر بن ابی سلمہ کے طریق اور ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن کے طریق میں باہم کو ئی اختلاف نہیں ماسوائے اس کے کہ عمر نے آخرحدیث میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہےکہ بلاشبہ "یہ سب طریقے اللہ کی طرف سے ہی میں اور عقلمند لوگ ہی نصیحت پکڑتے ہیں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پانچویں حدیث:۔

ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے دو طرح سے شعبہ سے اس کو روایت کیا۔ایک سند میں توشعبہ،ابی اسحاق سے روایت کرتے ہیں۔اور وہ اس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سناہے۔جب کہ دوسری سند میں شعبہ،عبدالرحمان بن عابس سے روایت کرتے ہیں اس نے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی شاگرد سے نقل کیا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:تم میں سے جو بھی کسی ایک طریقہ پر قر اءت کرےتو پھر وہ کسی اور طریقے پر قراءت نہ کرے۔ اس سلسلے میں ایک طویل روایت بھی منقول ہے۔ جس کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے عبدالرحمان بن عابس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:کہ مجھے ہمدان کےایک شخص نے ایسےشخص سے حدیث بیان کی جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگردوں سے ہے۔اور اس کانام مجھے معلوم نہیں(اس حدیث کو ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے"زبید الیامی عن علقمہ النخعی عن ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند سے بھی ذکر کیا ہے)

اور اس حدیث میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ:

"یہ قر آن کریم متعدد قراءت پر نازل ہواہے۔اللہ کی قسم! دو شخصوں کے مابین ان قراءت کے بارے میں سخت جھگڑا ہوتارہا ہے۔(پھرجھگڑے کے واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا) کہ جب قرآن پڑھنے والے نے کہا تھا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسے ہی سکھایا اور(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی) کہاتھا:تو نے اچھا کیا ہے۔جب دوسرا پڑ ھتا ہے تو آپ اسے بھی کہتے ہیں۔کہ تم دونوں درست پڑھتے ہو۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:بلاشبہ یہ قرآن نہ تو(ان حروف سے) مختلف ہوتا ہے اور نہ اس میں کوئی ضعیف ہے۔اور بار بار لوٹانے سے متغیر بھی نہیں ہوتا۔لہذا جو بھی کسی ایک حرف پر قرآن کی تلاوت کرے تو اس کو بے رغبتی سےترک نہ کرے اور جوان جملہ حروف پر تلاوت کرتا ہوجنھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے تو وہ ان کو بے رغبتی سے نہ چھوڑے۔کیونکہ جس نے کسی ایک آیت کا انکار کیا تو گویا اس نے پورے قرآن کا انکار کیا۔اور ان قرآءتوں کا حال ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اعجل" کی جگہ مہیل" کہہ دے۔کیونکہ یہ دونوں لفظ قریب المعنی ہیں۔

اللہ کی قسم!اگر مجھے کسی ایسے شخص کا علم ہوجائے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے قرآن کا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو،تو میں اس سےتحصیل علم کروں،تاکہ اس کے علم سے میرے علم میں اضافہ ہوجائے۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید فرمایا:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہرسال رمضان المبارک میں قرآن کادور فرماتے،جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال میں نےدو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن تلاوت کیا۔اورآپ نے مجھے خوشخبری بھی دی تھی کہ تو ٹھیک پڑھتاہے۔ اور میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے 70سورتیں پڑھیں۔(جیسا کہ مسند احمد میں ہے)

ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:تم اس قرآن کے بارے میں باہم جھگڑا مت کرو کیونکہ قرآن کریم میں اختلاف نہیں اور نہ ہی معدوم ہوتاہے۔بار بار لوٹانے سے اور اس میں کوئی تبدیلی بھی لاحق نہیں ہوتی۔قرآن میں شریعت اسلامی ،حدود اور اس کے فرائض مذکور ہیں،لہذا نہ ہی شریعت اسلامیہ میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:

"مجھے اس بات کا علم تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہررمضان میں قرآن تلاوت کیاجاتا ہےحتیٰ کہ جس سال آپ کی وفات ہوئی تو آپ پر دو مرتبہ پڑھا گیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس سے فارغ ہوتے تو میں آپ کوقرآن سناتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صحیح پڑھنے کی خوشخبری دی۔لہذا جس نے میرے طریقے پر تلاوت کی تو وہ اس کو بے رغبتی سے ہر گز نہ ترک کرے اورجو شخص ان حروف میں سےکسی حرف پر تلاوت کرتاہے تو وہ ان سے بے رغبتی برتتے ہوئے ہر گز نہ چھوڑے کیونکہ جس نے ایک آیت کاانکا رکیا تو گویا وہ سب آیات کا منکر ہوا۔"

احادیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

آپ سے تین احادیث مروی ہیں:

حدیث اول:۔

ابن حبان نے اپنی صحیح میں"انس بن عیاض عن ابی سلمہ بن عبدالرحمان بن عوف عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ " کے طریق سے اس حدیث کی تخریج کی ہے۔کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قرآن مجید سات حروف پر نازل ہواہے۔اور تین مرتبہ یہ بھی کہا کہ قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔قرآن میں سے جس حکم کو تم سمجھ لو تو اس پر عمل کرو اور جس کو جانتے ہو قاصر رہو،اسے اپنے صاحب علم حضرات کی طرف لوٹادو"

(ابن جریر نے اور احمد نے بھی اپنی مسند میں اس حدیث کو روایت کیا ہے۔)

حدیث ثانی:۔

ابن جریر نے"محمد بن عمرو بن ابی سلمہ بن عبدالرحمان عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ " کے طریق سے اس کی تخریج کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قرآن کریم سات حروف پر نازل ہواہے۔"(جیسے) "علیم،حکیم"(کی جگہ) "غفور ورحیم"

امام احمد نے اسی حدیث کو دو سندوں سے محمد بن عمرو سے بیان کیا ہے ۔مگر ایک سند سے الفاظ"علیما" حکیما۔۔۔غفورارحیما"نصب کے ساتھ مروی ہیں۔

حدیث ثالث:۔

حافظ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے" محمد بن عجلان عن المقبری عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "کے طریق سے اس کو روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے اور تم ان میں(کسی پر بھی) تلاوت کرلو تو کوئی حرج نہیں۔لیکن قرآن میں رحمت کے ذکرکو عذاب سے اور عذاب کے ذکر کورحمت سے نہ بدلو۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن عجلان سے ایک دوسری وجہ سے بھی یہی حدیث روایت کی ہے۔

حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

آپ کی حدیث تمیمی نے روایت کی ہے ،جس کے الفاظ یہ ہیں:قرآن کریم سات حروف پر نازل کیا گیاہے۔جن میں سب کافی اورتسلی بخش ہیں(اس کو طبرانی نے ثقہ رواۃ سے روایت کیاہے)

حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

آ پ سے ایک حدیث "عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کے طریق سے وارد ہے،جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں عقیل اور یونس کی روایات سے نقل کیا ہے۔ یہ دونوں راوی ابن شہاب سے، جبکہ وہ عبیداللہ سے روایت کر تے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں انھیں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مجھے جبریل علیہ السلام نے قرآن ایک حرف پر سکھایا۔لیکن میں جبریل سے قرآءت میں زیادتی کاہمیشہ طالب رہا اور آپ بھی(حکم الٰہی سے) اس میں اضافہ فرماتے رہے۔پھر میں نے مذید اضافے کی خواہش کی تو آپ نے پھر اضافہ فرمادیا حتیٰ کہ بالآخر وہ اضافہ سات حروف تک پہنچ گیا"۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نےاس حدیث کویونس کی روایت سے نقل کیا ہے۔

ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اسی روایت کو عقیل سے خفیف لفظی اختلاف سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک حرف پر قرآن سکھایا۔میں ان سے اس میں اضافہ کا طالب رہا،حتیٰ انھوں نے اس میں اضافہ کردیا۔۔۔پھر میں نے مزید اضافے کا مطالبہ کردیا تو آپ نے اس میں اورزیادتی کردی۔حتیٰ کہ وہ زیادتی سات حروف تک جاپہنچی۔"

عبدالرزاق نے"مصنف" میں بھی اس حدیث کی تخریج کی ہے۔ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے "معمر عن ابن شہاب" کی سند سے روایت کیاہے۔ کہ ابن شہاب کہتے ہیں:مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ یہ سات قرآءت ایسے معاملے کے بارہ میں ہوتے ہیں جو کہ باہم حلال وحرام میں مختلف نہیں ہوتے۔

حدیث عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

عمرو بن العاص سے ایک ہی حدیث ان کے غلام "ابوقیس عبدالرحمان بن ثابت" کے طریق سے مروی ہے۔امام احمد نے اپنی مسند میں سے دو سندوں کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے۔پہلی روایت میں مخری کہتے ہیں کہ:

حدثنا یزید بن عبداللہ بن الھاد عن بسرین سعید عن ابی قیس مولی عمرو بن العاص عن بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ "آگے ابن العاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بلاشبہ قرآن کریم سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔جس حرف پر بھی تلاوت کرو گے تو صحت کوپاؤ گے۔خبردار! اس میں جھگڑا مت کرناکیونکہ قرآن میں اختلاف کرناکفر ہے۔

دوسری روایت میں کچھ تفصیل ہے۔۔۔ابوقیس مولی عمرو بن العاص نے کہاکہ عمرو بن عاص نے ایک آدمی کوسناجو قرآن کی ایک آیت تلاوت کرہاتھا۔تواس سے دریافت کیا کہ تمھیں ایسےکس نے سکھایا؟اس شخص نے جواب دیا"رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے"تو عمرو کہنے لگے"مجھے تو اس کے علاوہ دوسرے حرف پر سکھایا گیا ہے"تب وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ایک نے سوال کیا:" یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !فلاں فلاں آیت کیا ایسےہی ہے۔:"پھر وہ آیت پڑھ کر سنائی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا"ہاں ایسے ہی نازل ہوئی ہے۔"تب دوسرے نے آپ کووہی آیت دوبارہ مختلف طریقہ پر سنائی اور پوچھا"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ایسے نہیں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا"ایسے بھی نازل ہوئی ہے۔پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" بلاشبہ یہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔تم جس حرف پر تلاوت کرو گے تو بہتر ہی کرو گے اور اس کے بارےمیں جھگڑا نہ کرنا۔کیونکہ قرآن کے بارے میں جھگڑا کفرہے یاکفر کی علامت ہے"

حدیث حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

آپ سےبھی ایک ہی حدیث مروی ہے۔جس کو ابوعبیدنے "عاصم بن ابی النجود عن زر بن حیش عن حذیفہ کی سند سے روایت کیاہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میری جبریل سے "مراء پہاڑ کے نزدیک ملاقات ہوئی تو میں نے کہا"اے جبریل! مجھے ایک ان پڑھ امت کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔جس میں ایسے آدمی ،عورتیں،لڑکے،لڑکیاں اور ادھیڑ عمرشخص ہیں جنھوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔۔۔جبریل نے جواب دیاکہ"قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔"

اسی حدیث کوامام احمد نے بھی ربعی بن خراش کے طریق سے روایت کیا ہے کہ ربعی نے کہا:مجھے اس شخص نے حدیث بیان کی جس نے مجھ سےجھوٹ نہیں بولا(اس سے ان کی مراد "حذیفہ" تھے) کہ اس شخص نے کہا"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جبریل سے ملے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم "مراء" کےقریب تھے۔"توجبریل کہنے لگے:"آپ کی امت سات حروف پر قرآن تلاوت کرسکتی ہے ان میں سے جس کسی نے کسی ایک حرف پر پڑھا تو ایسے ویسے ہی پڑھنا چاہیےجیسےاس کو سکھایا گیا ہے اور اسے چھوڑے نہیں۔"

جبکہ مسند میں ہے کہ ابن مہدی نے کہا:" تیری امت میں ضعیف بھی ہیں تو جو کسی ایک طریقے پر قرآن پڑھے تو اس طریقہ سےبے رغبتی کرتے ہوئے دوسرے طریقے کی طرف رجوع نہ کرے۔"

(حضرت ابی بن کعب کی حدیث بھی اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ ذکر ہوچکی ہے)

حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

یہ حدیث حماد بن سلمہ نے"عن حمید عن انس عن عبادہ" کے طریق سے روایت کی ہے۔مگر ایک مرتبہ حماد اس حدیث کوعبادہ سے" مرفوع" روایت کرتے ہیں جب کہ دوسری مرتبہ عبادہ کے بعد ابی بن کعب کاواسطہ بھی شامل کرتے ہیں۔

امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کوان دو صحیح سندوں سے روایت کیاہے۔

"عن عفان بن مسلم قال حدثنا حماد بن سلمہ اخبرنا حمید عن انس بن مالک عن عبادہ"

اور ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صحیح سند سے اس کو روایت کیا ہے۔ جو کہ یہ ہے عن ابی الولید الطیالسی قال حدثنا حماد بن مسلم عن حمید عن انس عن عبادہ عن ابی بن کعب(جس میں آپ نے عبادہ بن صامت کے بعدحضرت ابی بن کعب کاواسطہ زیادہ کردیاہے۔)

سند اول میں عفان بن مسلم اور دوسری سند میں ابوالولید طیالسی،دونوں حماد بن سلمہ کے شاگرد ہیں اور ثقات ہونے کے ساتھ ساتھ حفظ سے بھی متصف ہیں۔لہذا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سندمیں یہ اضطراب حماد بن سلمہ کی طرف سے ہے۔کیونکہ حماد بھی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن وہم کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ آخر میں ان کاحافظہ بھی متاثر ہوگیاتھا۔

حدیث سلیمان بن سردالخزاعی:۔

ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ا س حدیث کو(جس کا ابھی ذکرگزرا ہے) انہوں نے بھی روایت کیا ہے لیکن اس کی صورت بھی یہی ہے کہ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کرتے ہوئے ابن ابی کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واسطہ شامل کردیا اوردوسری مرتبہ یہ واسطہ ذکر نہیں کیا۔

وضاحت کچھ یوں ہے کہ:

1۔ہمیں بعض ایسی صحیح روایات معلوم ہوئی ہیں جن میں"عن ابی اسحاق السیعی عن سلیمان عن ابی بن کعب"کی سند بیان کرنے کے بعد ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث نقل کی گئی ہے۔

ب۔کچھ دوسری اسانید سے بھی یہ سندثابت ہے"عن ہمام بنی یحییٰ عن قتادہ عن یحییٰ بن معمر عن سلیمان عن ابی"

ج۔اس کے بعد ہم نے 2 صحیح سندوں کے ساتھ یہ روایت پائی ہے کہ جس میں"عن شریک عن ابی اسحاق عن سلیمان(بغیر واسطہ ابی بن کعب کے) مذکور ہے۔

د۔پھر ہمیں ایسی روایات کا علم ہوا ہے جن میں عوام بن خوشب(جو ابو اسحاق سیعی سے روایت کر نے والوں میں سے ایک ہے) پر آکر سند مختلف ہوتی ہے۔اس طرح کہ جب اس سے اسحاق بن یوسف الازرق(اس کا شاگرد) روایت کرتا ہے تو ابی بن کعب کاواسطہ نہیں شامل کرتا ہے۔ اور جب یزید بن ہارون(عوام کا دوسرا شاگرد) عوام سے روایت کرتا ہے۔ تو ابی بن کعب کا بھی واسطہ ذکر کرتا ہے۔ جب کہ ازرق بھی ثقہ ہے۔اور یزید بھی عابد ،ثقہ اور مضبوط حافظہ کا مالک ہے۔

خلاصہ بحث:۔

اس تمام بحث سے جو بات معلوم ہوتی ہے۔وہ یہ ہے کہ سلمان بن صرف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حدیث روایت کی تو ایک مرتبہ واسطہ ذکرکیا جب کہ دوسری بار بلاواسطہ حدیث روایت کی اور قاعدہ یہ ہے صحابی کا ارسال کرناحدیث کے لیے نقصان دہ نہیں۔لہذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگردوں نے دونوں حالتوں میں آپ کی بیان کی ہوئی حدیث کو روایت کردیا۔

حدیث انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

آپ نے بھی ابی بن کعب کے واسطے سے حدیث بیان کی ہے آپ کی اس حدیث کو نسائی،ابو عبید ۔ابن جریر اوراحمد۔"تمام" نے حمید طویل کے طریق سے تخریج کیا ہے۔

حدیث ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

آپ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے توسط سے حدیث بیان کی ہے ۔اس بیان کردہ حدیث میں حروف سبعہ کے سلسلہ میں صراحت تو نہیں لیکن وہ حروف سبعہ کے معنی کو متضمن ہے۔اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ہشام کے مابین پیش آنے والے واقعہ(جس کی تفصیل ابتدائی احادیث میں گذر چکی ہے) کی طرف اشارہ ہے۔

حدیث ابو بکرہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

اس حدیث کو ابن جریر احمد طبرانی اور طحاوی نے اس سند سے روایت کیا ہے "عن علی بن زیدجدعان عن عبد الرحمٰن بن ابی بکرہ عن ابیہ "قال قال رسولا للہ صلی اللہ علیہ وسلم :

کہ جبریل علیہ السلام نے کہا" قرآن ایک حرف پر پڑھئے "۔۔۔تو میکائیل علیہ السلام کہنے لگے : اےجبریل علیہ السلام !اس پر اضافہ کیجئے۔جبریل علیہ السلام نے دو حرفوں پر تلاوت کی اجازت دے دی ۔حتیٰ کہ وہ چھ یا سات حروف تک جا پہنچےاور کہا کہ سب کا فی و شافی ہیں جب تک قاری عذاب کی آیت کو رحمت سے یارحمت کی آیت کو عذاب سے تبدیل نہ کرے ۔جیسے کو ئی "علم"کی جگہ "تعال"کہہ دے کہ دونوں یکساں معنی رکھتے ہیں ،یعنی "ادھرآؤ '(ابن جریر نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے )

جب کہ اس سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے اور مسلمنے اس حدیث کو اپنی کتاب میں متابعت کے طور پر ذکر کیا ہے۔

علامہ بیہقی ابو بکرہ کی اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ احمد اور طبرانی نے بھی اس کو یوں ہی ذکر کیا ہے اور اس میں بن زید بن جدعانراوی ہے،جو کہ سیُ الحفظ (کمزور حافظے والا ہے) اور اس کی متابعت ثابت ہے اور مسند احمد کے باقی رواۃ "صحیح " کے ہیں ۔

حدیث ابو جہیم بن الحرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

اس حدیث کی ابن جریر ابو عبید احمد اور طحاوی نے اسی طرح تخریج کی ہے کہ سب "یزید بن خصیفہ عن بسر عن سعید " کے طریق سے روایت کرتے ہیں سوائے ابو عبید کے !کیونکہ ابو عبید نے" یزید بن خصیفہ عن مسلم سعید مولی ابن الخصرمی" کی سند سے روایت کیا ہے۔ اور اس سند کے بعد کہا ہے کہ بعض دوسرے محدثین نے"یزید بن خصیفہ عن بشر بن سعید" کے طریق سے بھی روایت کی ہے۔یعنی بسر کی بجائے بشر ذکر کیا ہے۔

مجھے اس سلسلہ میں جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص نے ابو جہہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سماع حدیث کیا،وہ تو بسر بن سعید العابد المدنی ہے۔ اس کا شمار عظیم تابعین میں ہوتا ہے۔ اور اس نے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین (جن میں ابو جہیم بھی ہیں) سے احادیث روایت کی ہیں۔

جہاں تک مسلم بن سعید کا تعلق ہے۔تو میں اس کو نہیں جانتا عین ممکن ہےکہ ابو عبید کے شیخ(جن کا نام اسماعیل بن جعفر بن ابی کثیر الانصاری الزرقی ہے) نے اس راوی(یعنی مسلم بن سعید مولیٰ ابن الحضرمی) کے نام سے غلطی کی ہوجب کہ صحیح نام"بسر بن سعید العابد المدنی مولی ابن الحضرمی " ہے۔

بروایت ابن جریر۔حدیث ابی جہیم کے الفاظ یہ ہیں کہ دو آدمیوں کا قرآن کریم کی ایک آیت کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا۔ایک آدمی نے کہا:میں نے اس آیت کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سیکھا ہے(جس طرح کہ میں پڑھ رہا ہوں) جب کہ دوسرے کا بھی یہی کہتا تھا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کو ایسے سیکھا ہے۔لہذاان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔لہذا تم قرآن میں جھگڑا مت کرو کیونکہ اس میں جھگڑا کرناکفر ہے۔

حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

آپ سے دو مختلف روایات منقول ہیں ۔دونوں کے راوی حماد بن سلمہ ہیں۔

امام احمد نے اپنی مسند میں بایں سند آپ کی حدیث روایت کی ہے۔

قال حدثنا بهز حدثنا حماد بن سلمة اخبرنا قتادة عن الحسن بن سمرة

(اس سند کے بعد متن حدیث مذکورہے)

ہیثمی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو احمد بزار اور طبرانی نے" اپنی تینوں معاجم میں روایت کیا ہے۔ جب کہ احمد کے رجال اور طبرانی و بزار کی ایک ایک سند کے رجال صحیح کے رواۃ ہیں ۔پھر حضرت سمرہ سے حدیث بیان کی کہ انھوں نے کہا: بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کہا کرتے تھے کہ ویسےتلاوت کیا کرو جس طرح تم پڑھائے گئےہو۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : قرآن کریم بے شک تین حروف پر نازل ہوا ہے ۔تم اس میں اختلاف مت کرو کیونکہ یہ سب حروف برکت والے ہیں ۔ویسے ہی تلاوت کیا کرو جیسے سکھائے گئے ہو۔

۔۔۔ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا۔اس حدیث کو طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور بزار رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہےاور "ولاتحاجوافیہ کی بجائے "ولاتجافوا" کے الفاظ کر ہیں جب کہ دونوں کی سند یں ضعیف ہیں ۔ علاوہ ازیں ابو عبید نے بھی حدیث سمرہ"عن عفان عن حماد"کے طریق سے روایت کی ہیں لیکن اس میں "تین حروف "(قرآءت ) کے الفاظ ہیں ۔

واقعہ یہ ہے کہ اس روایت میں اشکال پایاجاتا ہےاور وہ اس طرح کہ یہ روایت "بہز عن حماد"کی روایت سے مختلف ہے۔ جبکہ بہز بن اسد العمی ثقہ اور ثبت راوی ہے بلکہ مجلی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ "حماد بن سلمہ سے روایت کرنے والوں میں یہ سب سے زیادہ قوت حافظہ سے متصف تھے"۔۔۔اسی طرح اس روایت کا راوی عفان بن مسلم بھی ثقہ ہے۔

لیکن اس کی یہ روایت شاذ ہے اور بہز کے اوثق ہونے کی بناء پر اس کی حدیث مقدم اور عفان کی یہ حدیث مرجوح قرار پائے گی ۔نیز عفان کی یہ روایت متواتر اور محفوظ احادیث کے خلاف ہونے کی بناء پر بھی مرجوح گردانی جائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ ذہبی نے بھی اس روایت کو "حماد "کی "منکرات "میں شمار کیا ہے۔

حدیث ام ایوب انصاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا :۔

ام ایوب کی حدیث سفیان بن عیینہ نے عبید اللہ بن ابی یزید کے واسطے سے روایت کی ہے ابن جریرنے سفیان سے دو صحیح وجوہ پر اس کی تخریج بھی کی ہے ۔ اور امام احمد نے بھی اپنی مسند میں انہی سے صحیح سند کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا ہے۔حافظ ابن کثیراحمد کی روایت ذکرکرنے کے بعد فرماتے ہیں ۔"یہ حدیث صحیح السند ہے " لیکن صاح ستہ والوں نے اسے درج نہیں کیا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے ۔جس پر بھی تم تلاوت کرو گے تو حق کو پہنچو گے۔"

مذکورہ بالااحادیث مقدسہ کے علاوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بھی "احادیث حروف سبعہ" مروی ہیں لیکن ان میں اکثر ضعیف اور سندردی سے منقول ہیں جیسا کہ ایسی ہی ایک حدیث طبرانی نے"عن عمر بن ابی سلمہ بن عبد الاسد"کی سندسے روایت کی ہے۔جس کے بارے میں ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا یہ ہے کہ اس سند میں عمار بن مطر ایک راوی ہے جو انتہائی ضعیف "ہے جب کہ بعض نے اس کو ثقہ بھی گردانا ہے۔ اسی طرح طبرانی نے ہی ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک روایت نقل کی ہے جس کے بارے میں ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس میں"میمون ابن حمزہ "ہے متروک "ہے۔

ابن جریر نے یزید بن راقم سے ضعیف ترین سند سے ایک حدیث روایت کی ہے لیکن اس سند میں عیسیٰ بن قرطاس ہے جو کہ "کذاب "ہے۔

ابو مجا ہد (صاحب مضمون) کہتے ہیں ۔یہ ہے وہ حدیث !!۔۔۔جو اہل علم میں"حدیث حروف سبعہ"کے نام سے معروف ہے تمام آئمہ اعلام (صحابہ کرام ،تابعین اور محدثین) کا اس حدیث کی روایت اور امت کے لیے نقل کرنے پر اتفاق و اجماع ہے۔ علاوہ ازیں اس حدیث کی مذکورہ اسانید اور روایت سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ حدیث سند اً"متواتر" ہے جس کو ہر طبقہ سے جمہور محدثین اور ہر زمانہ سے ایک جم غفیر نے روایت کیا ہے لہٰذا اس حدیث کے تواتر میں نہ کو ئی شک ہے اور نہ ہی کو ئی اضطراب !بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جملہ روایت (قطع نظر اس سے کہ صحیح ہوں یا ضعیف )"سبعہ "کے لفظ پر متفق و مجتمع ہیں اسی طرح تمام احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان "علی سبعہ احرف "کو بالاتفاق نقل کرتی ہیں ماسوائے سمرۃ بن جندب کی حدیث کے جو عفان بن حماد کے طریق سے روایت ہونے والی حدیث ہے جس کی تر دید بھی اپنے مقام پر گزرچکی ہے۔

ان تمام حقائق کے باوجود جب اس سلسلے میں وارد ہونے والی جملہ احادیث کا بغور بطالعہ کیا جا ئے تو ایسی کو ئی عبارت ہمیں دستیاب نہیں ہو تی جو"سبعہ احرف "کی ایسی کامل اور شافی تفسیر کردے جس سے نزاع ختم ہو اور اختلاف کے دروازے بندہو جائیں ۔لہٰذا مقصد کی تکمیل اور جواب کی تلاش و جستجو کے لیے اب ایسے علماء و محققین کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں جو استنباط معانی میں تدبر و تفکروقت نظر اور غور و خوض کی اعلی صلاحیتوں سے بہرہ ور رہیں ۔

جب معاملہ اس قدر عظیم ہو کہ اس حدیث کو مشکلات اور متشابہات میں بھی شمار کیا گیا ہے۔حتیٰ کہ ایک جماعت نے اس حدیث کے سمجھنے کو اور اس کے معانی و مفاہیم کے ادراک کے اہم کام کو اللہ تعا لیٰ کی طرف تضویض کیا ہے تو مجھ جیسے کمترین کی طرف سے یہ عزم درست معلوم ہو تا ہے کہ اس عظیم حدیث کے معانی و مدلول پر اس قدر غورو فکرکیا جا ئے کہ عقل و فہم اس کے مشابہ ہو نے کا انکار کر دے اور قوم مسلم اس کی جا مع مانع تفسیر کر کے ہو۔بایں وجہ کہ اس حدیث کا کتاب الٰہی سے گہرا تعلق ہے اور اپنے مدلول کے قابل قدر اور عالی مقام ہونے سے گہرا واسطہ ہے۔

ان جملہ مقاصد کا حصول ۔۔۔محل نزاع اختلاف اور اس کے اسباب کے بارے میں مستقیم رویہ روارکھے بغیر ناممکن ہے اس کے لیے محنت شاقہ اور مقصدسے لگن کے ساتھ ساتھ وقت نظر اور اقوال کے مابین تقابل میں گہرائی تک جانا بھی لازمی اور حتمی ہے کیونکہ "حدیث حروف سبعہ" اور اس موضوع کے بارے میں فقط بعض پہلوؤں پر روشنی ڈال دینا اور کچھ چھپےہوئے گوشے اجاگر کر دینا کا فی نہیں بلکہ تمام جو انب و اطراف کا احاطہ کر کے ہی اور تمام سوالات کے بارے میں مصائب را ئے دیکر ہی اس مقصد کو پا یا اور مفاہیم کو حل کیا جا سکتا ہے۔لہٰذا میں اللہ تعا لیٰ سے خصوصی ہدایت کا مطالبہ کروں کہ وہ مجھے اس بحث کو درج ذیل موضوعات اور نقاط پر مرکوز کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

1۔پہلا نقطہ یہ کہ حدیث سبعہ احرف سے متعلقہ جملہ روایات اور متن میں ثابت شدہ مختلف الفاظ کے درمیان موازنہ کیا جا ئے (جس کی تفصیل ذکر ہو چکی ہے)

2۔اس حدیث کے بارے میں تحقیق کرنے والے علماء کرام اور آئمہ عظام کے جملہ اقوال ان اقوال کا اس حدیث کی روایت اور متن پر انطباق اور ان کا باہمی تقابل اور موازنہ کرنا۔

3۔ان تمام اقوال کو موجود ہ قرآءت پر پیش کرنا جو کہ متواتر اور ہر لحاظ سے مکمل ہیں اور ان قرآءت اور روایات و اقوال کے مابین مقارنہ و موازنہ کرنا ۔

4۔آئمہ کے تمام اختلافات اور استنباطات کی روشنی میں "سبعہ حروف "سے کیامراد ہے؟اس پر تفصیلی بحث !علاوہ ازیں قرآءت پر وارد شدہ اعتراضات اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کی نشاندہی کی کو شش کرنا ۔


حوالہ جات و حواشی

[1] ۔تر جمة في غاية النهاية(361/1)

[1]۔ تر جمة في غاية النهاية(365/1)

[1]۔مجموع الفتاوي لابن قاسم (13/389)

[1] ۔1395ہجری میں یہ کتب"المرشد الوجیز الی علوم تتعلق بالقرآن العزیز" کے نام سے طبع ہوچکی ہے ۔نیز استاد طیار آلتی قولاج نے اس پر تحقیق فرمائی ہے جو کہ تاحال محفوظ ہے۔

[1] ۔النشر في ا لقرأءت العشر(1/19)

[1] ۔موطا میں صفحہ(201/1) پر۔۔۔علاوہ ازیں مسلم ،نسائی اور ابوعبیدہ نے فضائل القرآن میں جب کہ طحاوی نے مشکل الآثار میں اس کی تخریج کی ہے۔

[1] ۔اخرج روايته البخاري وابو عبيد والطحاوي

[1] ۔عبد الرزاق نے اپنی "مصنف "میں اس کی تخریج کی ہے مسلم نسائی اور ترمذی نے بھی عبدالرزاق سے ہی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔

[1]۔ اخرج روايته مسلم والنسائي وابن جرير وابو عبيدوالطحاوي        

[1]۔ اخرج روايته الطحاوي

[1]۔ اخرج روايته الطيالسي في مسنده

[1] ۔ اخرج روايته ابوعبيد

[1]۔ اخرج الحديث من طريقة ابن جرير في تفسيره(1/25)

[1] ۔ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس حدیث کو اپنے ہی طریق سے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں ضعف پایا جا تاہے۔جو کہ راوی عبداللہ بن میمون القدام کےبارے میں ہے کہ وہ متروک ہے۔

[1] ۔(تفسیر ابن جریر 3،1)

[1] ۔(17)مجمع الزوائد (102،8)

[1] ۔(18)کتاب الرازی فی الاحرف السبعہ  

[1] ۔فی صلاۃ المسافرین باب فضائل القرآن(571/1)

[1] ۔فی الافتاح باب جامع ماجاء فی القرآن (153/1)

[1] ۔فی مقدمۃ التفسیر (42/1)

[1] ۔(122/5)

[1] ۔ابو عبید فی فضائل القرآن (مخطوط)ق95،وابن جریر فی مقدمۃ التفسیر (32/1)

[1] ۔منحۃ المعبود (8،7/2)

[1] ۔السنن الکبری ۔

[1]۔اس روایت میں ابن جریر کے ہاں "ہشام بن سعد بن عبید اللہ "کی روایت سے یہ الفاظ غلط طورپر منقول ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ یہ فرما یا تھا :"اے رب مجھ سے تخفیف فرما!"جب کہ صحیح الفاظ یہ ہیں :"اے رب میری امت سے تخفیف فرما"جس طرح کہ معمر بن سلیمان بن عبید اللہ کی روایت اور اسی ہشام کی ایک اور روایت میں اس کی صراحت پا ئی جا تی ہے۔

[1] ۔امام مسلم نے مسافروں کی نماز کے سلسلے میں "باب فضائل القرآن"(56201)کے تحت نسائی نے اپنی سنن (15201)میں اور ابو داؤد نے بھی اپنی سنن (76/2)میں اس حدیث کو روایت کیا ہے۔

[1] ۔ابن جریر (40،39/1)

[1] ۔المسند 127/5)

[1] ۔مذکور ہ حدیث میں "اضاۃ بنی غفار "کے الفاظ ہیں جس میں"اضاۃ "بروزن حصاۃ ہے۔"اضاۃ "بنی غفار"مدینہ میں ایک مقام تھا ۔جب کہ بنی غفار کے مکانات بازار مدینہ کے مغربی طرف اور جھینہ کے پہاڑوں سے نازل سمت "بطحان "کے طرف تھے ۔(انہایہ لا بن الاثیر َ(5301)مشارق الانوار

(49/1)خلاصۃ الوفاء (514)

[1] ۔الترمذی (194/5)

[1] ۔منحۃ المعبود (8/2)

[1] ۔مقدمۃ التفسیر (35/1)

[1] ۔فی مشکل الاثار (182/4)

[1] ۔فی المسند (132/5)

[1]۔ وذکر ہ السمہودی فی دیار بنی عمرو بن عوف النظر (النھار یۃ لا بن الاسیر (343/1)و(خلاصۃ الوفاء 5/2)

[1] ۔في فضائل القرأن من الجامع الصحيح باب إقرءوا القرآن ما إئتلفت عليه قلوبكم. (6/244)

[1]۔ المسند (393/1)

[1] ۔فی مقدمۃ تفسیر ہ (23/1)

[1] ۔ابو نعیم نے اس حد تک فرمایا ہے کہ" ہمارے اساتذہ میں آپ سے زیادہ غلطی کھانے والا کو ئی نہ تھا "(میزان الاعتدال (500/4)

[1] ۔موارد الظمان :ص44)

[1] ۔مجمع الزوئد :152/7)

[1] ۔مجمع الزوائد : ( 152/7) ،والمطالب العالیہ: (285/3)

[1]۔فی مقدمۃ التفسیر : ( 33/1)

[1] ۔المستدرک: (553/1)

[1] ۔مشکل الاثار : (184/4)

[1] ۔المسند: (445/1)

[1]۔مجمع الزوئد : (153/7)

[1] ۔الجراح والتعدیل : ( 148/7)

[1] ۔اخرجه احمد:انظر مجمع الزوائد:(7/152) ولعل مقصودهم بالخبر الذي راعهم:احراق عثمان رضي الله عنه في المصاحف

[1] ۔تفسیر ابن جریر ط دار المعارف بمصر(51/1)

[1] ۔اس سند میں دو علتیں ہیں:اولاً تو راوی علی بن ابی اللبی ہے۔جس کے بارے میں نسائی اور ابو حاتم کاکہنا ہے کہ"متروک " ہے۔اوردوسری علت اس کا انقطاع سند ہے کیونکہ زبید الیامی کی علقمہ سے ملاقات نہیں۔۔۔اس طرح اس سے سابقہ روایات بھی منقطع ہیں۔کیونکہ ان کا مدار عبداللہ کے اصحاب سے کسی ایک پر ہے جس نام نامعلوم ہے۔جب کہ بعض نے"ہمدان" اس کا وقف بھی ذکر کیا ہے۔باوجود ان سب کے :معنی حدیث کے لیے شواہد موجود ہیں اورمتعدد الفاظ کی اصل"صحیح" میں ملتی ہے۔            

[1] ۔المسند:(1/405)

[1] ۔تفسیر ابن جریر:(1/51)

[1] ۔صحیح ابن حبان:(ص73)

[1] ۔تفسیر ابن جریر:(1/11)

[1] ۔المسند بتحقیق احمد شاکر:(10/146)

[1] ۔تفسیر ابن جریر:(1/22)

[1] ۔المسند:(2:332،440) وذکرہ الحشیمی وذادہ لفظا آخر(علیما حکیما غفورا رحیما)ثم قال:رواہ کلہ احمد باسناد ین ورجال احدھما رجال الصحیح ورواہ انزار بنحوہ(مجمع الزوائد 7:151)

[1] ۔تفسیر ابن جریر:(1:46)

[1] ۔مشکل الآثار:(4/181)

[1] ۔مجمع الزوائد (7:154)

[1] ۔صحیح البخاری :(فی کتاب التفسیر 6:227،وفی کتاب بدء الخلق 4:137) وفی کتاب الخصومات 3:160)

[1] ۔صحیح مسلم :(6:101)

[1] ۔تفسیر ابن جریر:(1/31)

[1] ۔المصنف(5:219)

[1] ۔صحیح مسلم(6:101)

[1] ۔انظر ترجمۃ فی تہذیب التہذیب:(12:207)

[1] ۔ھو عبداللہ بن جعفر بن عبدالرحمان بن المسور بن مخرمۃ ،انظر تقریب التہذیب(1:406)

[1] ۔المسند:(4:204)

[1] ۔المسند:(4:204) وقد اخرج ابو عبيد لقاسم بن سلام الحديث في فضائل القرأن فقال :ثنا عبد الله بن صالح عن الميث عن يذيد بن الهاد عن محمد بن ابراهيم عن بسر ابن سعيد فذكر محمد بن ابراهيم بين يذيد وبسره ولعله كذلك فيكون اسناد احمد منقطعين مع ان رجالهما ثقات

[1] ۔فضائل القرأن(مخطوط) (بالمكتبة الظاهرية بدمشق رقم 7616)واخرجه الطحاوي في مشكل الأثار من وجه أخر عن عاصم(4:181)

[1] ۔المسند:(5:385)

[1] ۔مشکل الآثار:(4:181)

[1] ۔تفسیر ابن جریر:(1:34)

[1] ۔عند ابی عبید فی فضائل القرآن،ومحمد بن منیع ذکرہ ابن کثیر فی فضائل القرآن

[1] ۔عند الطحاوی فی مشکل الآثار

[1] ۔عند الطحاوی وابن جریر

[1] ۔اخرجہ النسائی فی عمل الیوم واللیلۃ وذکرہ ابن کثیر فی فضائل:(ص61)

[1] ۔اخرجہ ابو عبید فی فضائلہ

[1] ۔سبق ذکرہ عند الکلام علی حدیث ابی بن کعب

[1] ۔ابن جریر:(1:25) وسبق عندالکلام علی حدیث عمر مع ہشام۔

[1] ۔ابن جریر : (43،1)

[1] ۔المسند ؛ ( 51،5)

[1] ۔مجمع الزوائد : (15،7)

[1] ۔مشکل الآثار: (191،4)

[1] ۔ مجمع الزوائد:(7:151)

[1] ۔تفسیر ابن جریر:(1/43)

[1] ۔فضائل القرآن (مخطوط)

[1] ۔المسند:(4/109)

[1] ۔مشکل الآثار:(4/181)

[1] ۔المسند:(5/16)

[1] ۔مجمع الزوائد:(7/152)

[1] ۔ میزان الاعتدال (594/1)۔۔۔حافظ ابن کثیر نے بہز اور عفان دونوں کی روایت سے"سبعہ احرف "کے الفاظ بھی ذکر کئے ہیں ۔اور ان الفاظ کو "مسند" کی طرف منسوب کیا ہے مسند میں "ثلاثہ احرف"کے الفاظ ہیں۔تواس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عین ممکن ہے ابن کثیر کو مسند کا کو ئی اور نسخہ دستیاب ہوا ہو۔(جس طرح کے حافظ ہیثمی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا )لہٰذا انھوں نے وہاں سے سبعہ کے الفاظ نقل کر کے ان کو "مسند" کی طرف منسوب کردیا۔ بہر طور اس روایت کا روایات متواتر ہ کی موجودگی میں کو ئی مقام نہیں ۔نیز اس میں دو علتیں پائی جا تی ہیں ۔

(1)حماد بن سلمہ اگرچہ ثقہ راوی ہے لیکن انہیں کبھی وہم بھی لا حق ہو جاتا ہے ۔ممکن ہے کہ یہ حدیث آپ کے وہم کی نذر ہو گئی ہو۔

(2)اس روایت میں قتادہ عنعنہ سے روایت کرتے ہیں جب کہ وہ "مدلس "راوی ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ مدلس راوی کا عنعنہ "قابل احتیاج نہیں ۔

[1] ۔تفسیر ابن جریر:(1/30)

[1]۔فضائل القرآن(ص61)