اگست 1993ء

"مکروہ اوقات میں تحیۃ المسجد کا حکم"

ہفت روزہ "الاعتصام"لاہور مجریہ یکم جنوری 1993ء میں شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ مدنی کافتویٰ بعنوان"مکروہ اوقات میں تحیۃ المسجد پڑھنے کاجواز" شائع ہواتھا۔جس پر جامعہ عربیہ(حنفیہ) گوجرانوالہ کے ایک فاضل مدرس مولانا محمد امیر نواز نے تعاقب فرمایا ہے جس میں انہوں نے احناف کے اس موقف کو ترجیح دینے کی بھر پور کوشش کی ہے کہ مکروہ اوقات میں تحیۃ المسجد پڑھنا درست نہیں ہے۔

جبکہ احناف کےمسائل کی تحقیق میں اس رویے کے برعکس ہم مسائل کو اس نظر سے نہیں دیکھتے کہ کس امام کی رائے کو فوقیت مل رہی ہے۔بلکہ ہم تمام اکابر فقہاء کابرابر احترام رکھتے ہوئے ان کی آراء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر پیش کرتے ہیں جس کی رائے اقرب اورمناسب نظر آئے قبول کرلیتے ہیں۔اسی اُصول کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ بالا مسئلہ میں حافظ محمد اسحاق زاہد نے اپنی تحقیق ے لاگ پیش کی ہے جو ایک مستقبل مضمون ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ الحدیث کے فتوی کی وضاحت بھی ہے۔

واضح رہے کہ حافظ صاحب موصوف کی وضاحت پیش کرنے سے قبل مولانا محمد امیر نواز صاحب کاتعارف ہم بعینہ دے رہے ہیں تاکہ ان کے شبہات مکمل طور پر سامنے آجائیں (ادارہ)

تعاقب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا محمد امیر نوازصاحب

جنوری کے پہلے ہفتے کا رسالہ"الاعتصام" لاہور کامطالعہ کیا۔احکام ومسائل میں سے اس مسئلہ سے کافی حد تک اضطراب محسوس ہواکہ تحیۃ المسجد کے نوافل مکروہ اوقات میں بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔اس سلسلےمیں معذرت کے ساتھ چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔

مکروہ اوقات سے مراد وہ اوقات ہیں جن میں نماز پڑھنے کی ممانعت حدیثوں میں صراحتہ وارد ہوئی ہے۔میری مراد سورج کے طلوع ہونے کاوقت نصف النہار اور وقت غروب ہے۔حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

سمعت عمرو بن عبسة ، يقول : قلت يا رسول الله : هل من ساعة أقرب من الأخرى ؟ وهل ساعة يتقى ذكرها ؟ قال : [ ص: 23 ] نعم ، إن أقرب ما يكون الرب من العبد جوف الليل الآخر ، فإن استطعت أن تكون ممن يذكر الله في تلك الساعة فكن ، فإن الصلاة مشهودة محضورة إلى طلوع الشمس ، فإنها تطلع بين قرني شيطان ، وهي ساعة صلاة الكفار ، فدع الصلاة حتى ترتفع الشمس قيد رمح ، ويذهب شعاعها ، ثم الصلاة مشهودة محضورة حتى تعتدل الشمس اعتدال الرمح نصف النهار ، فإنها ساعة تفتح فيها أبواب جهنم وتسجر ، فدع الصلاة حتى يفيء الفيء ، ثم الصلاة محضورة مشهودة حتى تغيب الشمس ، فإنها تغيب بين قرني شيطان ، وهي صلاة الكفار .

ترجمہ:۔ عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سورج طلع ہوتا ہے تو وہ شیطان کےدو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتاہے۔اور یہ کافروں کی عبادت کا وقت ہے۔ لہذا اس وقت نماز چھوڑدو یہاں تک کہ بلند ہوجائے اور اس کی شعائیں(نظر کوخیرہ کریں) چلی جائیں پھر نمازحاضر کی گئی ہے۔(نمازحلال ہے)نصف النہار تک پھر ایک ایسا وقت ہے جس میں جہنم کے راستے کھول دیے جاتے ہیں اور وہ گرم کی جاتی ہے۔اور نماز چھوڑ دو یہاں تک کہ سایہ پھر آئے۔پھر نماز حاضر ہے غروب آفتاب تک کیونکہ وہ غروب ہوتا ہے۔ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان اور وہ کافروں کی عبادت کا وقت ہے۔(شرح معانی الآثار باب مواقیت الصلوٰۃ صفحہ91 جلد نمبر1)

یہ حدیث تمام کتب صحاح میں تھوڑے بہت لفظی فرق کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔اسکے علاوہ اس سلسلے میں بکثرت احادیث اورآثارصحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ وارد ہوئے ہیں جنھیں بخوف طوالت نظر انداز کیا جاتا ہے۔

شیطان کےدو سینگوں کامفہوم شارحین حدیث نےیہ بیان فرمایا ہے کہ ان اوقات میں سورج کا پجاری سور ج کو سجدہ کرتا ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے" ساعة صلاة الكفار "فرمایا ہے۔نصف النہار کو"جہنم" گرم کی جاتی ہے۔یعنی اس وقت مشرک پھر مشرک پھر شرک کرتا ہے تو بھڑک اٹھتی ہے۔

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ مذکورۃ الصدر تینوں اوقات میں کوئی نماز بھی جائز نہیں۔کیافرض وقتی کیا فرض قضاء،نفل،نمازجنازہ یا دفن جنازہ(علی اختلاف الاقوال) وغیرہ۔ہاں بعض محدثین وفقہاء نے بعض دوسری احادیث سے استدلال کرکے اس دن کی نماز عصر کی ادائیگی کی اجازت دی ہے۔

جب ہر قسم کی نماز منع ہے تو تحیۃ المسجد کے نفل بھی منع ہیں۔سبب اور انشاء کو یہاں کچھ دخل نہیں۔یہ خود ساختہ اصول ہی جن میں غلطی کا امکان بہرحال ہے۔

البتہ بعض کراہتیں اسباب کی بناء پر بھی ہوتی ہیں مثلاً1۔خطبہ جمعہ کے وقت نماز اور گفتگو مکروہ ہے۔کراہت کاسبب استماع خطبہ ہے۔2۔جماعت کھڑی ہوتو الگ کوئی نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ کراہت کاسبب جماعت المسلمین میں افتراق کاشائبہ ہے۔3۔فجر کی نماز کے بعد کوئی نفل مکروہ ہے(حدیث کے ورود کے علاوہ) سبب کراہت قرب طلوع ہے۔4۔عصر کی نماز کے بعد نفل نماز مکروہ ہے(حدیث کے ورود کےعلاوہ) سبب کراہت قرب غروب ہے۔کیونکہ کسی چیز کے قریب جانے سے اندیشہ ہے۔کہ اس چیز میں مبتلا ہوجائے جیسے روزہ کی حالت میں بیوی سے بو س وکنار جو ان آدمی کے لیے مکروہ ہے۔علاوہ ازیں متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

باقی رہی سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ غطفانی والی حدیث کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماتھے کہ سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ آکر بیٹھ گئے توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دو ر کعتیں پڑھنے سے پہلے بیٹھ گئے ہو۔دو رکعتیں پڑھو اور پھر بیٹھو۔اس کی کوئی ایسی توجیہ ضرور کی جائے گی کہ یہ حدیث ان احادیث کے مطابق ہوجائے جن میں بطور خاص استماع خطبہ اور انصات(خاموشی) کی تاکید آئی ہے۔ان ممکنہ توجہیات میں سے چند ایک یہ ہیں:

توجہیات:۔

1۔دوران خطبہ تحیۃ المسجد پڑھنے کاحکم دیناخطبہ کاحصہ تھا کہ دوران خطبہ نماز تحیۃالمسجد کی تعلیم دی۔

2۔ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کے دوران خطبہ روک دیا ہو۔

3۔ابتداء پر بھی محمول کیاجاسکتاہے کہ بعد میں استماع وانصات کی تاکید فرما دی۔والعلم عند الله وعلمه اتم(محمد امیر نواز مدرس جامعہ عربیہ گوجرانوالہ)

ازالہ شبھات

تحیۃ المسجد کا حکم:۔

مسجد میں داخل ہوکر اس میں بیٹھنے سے قبل دو رکعات بطورتحیہ المسجد پڑھنا سنت ہے۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

" وهي سُنَّة بإجماع المسلمين، "

یعنی "تحیۃ المسجد کے سنت ہونے پر مسلمانوں کااتفاق ہے۔"

اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ بھی اس اجماع امت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

" وَاتَّفَقَ أَئِمَّة الْفَتْوَى عَلَى أَنَّ الْأَمْر فِي ذَلِكَ لِلنَّدْبِ, "

یعنی فتویٰ دینے والے تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ حدیث:

" فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ "

میں صیغہ امر استحباب کے لیے ہے"۔۔۔لیکن یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اس سنت کی تاکید اسی طرح ہے۔جس طرح وتر اور فجر کی دو سنتوں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اہل ظاہر۔ اور کچھ متاخرین علماء تحیۃ المسجد کے پڑھنے کو واجب کہتے ہیں۔امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ذیربحث مسئلہ میں فریقین کے دلائل کا مناقشہ کرنے کے بعدکہتے ہیں:

"فإذا عرفت هذا لاحَ لك أن الظاهر ما ذهب إليه أهل الظاهر من الوجوب ."

یعنی:آپ جب دلائل وبراہین پڑھ چکے تو آپ کے لیے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ اہل ظاہر کاتحیۃ المسجد کو واجب کہنے کا موقف راجح ہے"اورامام صنعانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

"وقررنا أيضا أن وجوبهما هو الظاهر لكثرة الأوامر الواردة به"

یعنی"ہم نے یہ بات ثابت کردی ہے۔(ایک اور کتاب میں) کہ تحیۃ المسجد کی دو رکعات کاوجوب ہی راجح ہے۔کیونکہ اس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےاوامر بکثرت وارد ہیں"

وہ احادیث جنھیں سامنے رکھ کر علماءکرام نے تحیۃ المسجد کو سنت موکدہ کہا ہے ان میں سے بعض پیش خدمت ہیں۔

1۔ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں) لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے،میں مسجد میں داخل ہواتو لوگوں کے ساتھ میں بھی بیٹھ گیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مَا مَنَعَكَ أَنْ تَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ"

یعنی"بیٹھنے سے قبل دو رکعات پڑھنے سے تمھیں کس چیز نے روکا؟میں نے جوابا"کہا:(چونکہ) آپ اور لوگ بیٹھے ہوئے تھے(تو میں بھی بیٹھ گیا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

""إذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ " ، فَلا يَجْلِسْ حتى يركع ركعتين""

یعنی"تم میں سے کوئی ایک جب مسجد میں داخل ہو تو اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعات نہ پڑھ لے"

ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یوں ہیں:

"إذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قبلَ أنْ يجلسَ"

یعنی" تم میں سے کوئی ایک جب مسجد میں داخل ہوتو بیٹھنے سے پہلے وہ دو رکعات پڑھ لے۔"

اورتیسری روایت میں آتاہے:

"أَعْطُوا الْمَسَاجِدَ حَقَّهَا " یعنی"مساجد کو ان کا حق دو"آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مساجد کا حق کیا ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: رَكْعَتَانِ قَبْلَ أَنْ تَجْلِسَ " .یعنی"بیٹھنے سے پہلے دو رکعات کا پڑھنا۔"

پہلی روایت میں تحیۃ المسجد پڑھنے سے پہلے بیٹھنے سے نہی ہے اور دوسری وتیسری روایت میں بیٹھنے سے پہلے تحیۃ المسجد کے پڑھنے کا امر(حکم) ہے،اسے واجب قرار دینے والے علماء کاکہنا ہے کہ نہی کاصیغہ تحیۃالمسجد پڑھنے سے قبل مسجد میں بیٹھنے کی حرمت کا تقاضا کر تا ہے۔جبکہ امر کا صیغہ مسجدمیں بیٹھنے سے قبل تحیۃ المسجد کے پڑھنے کے وجوب پر دلالت کرتاہے۔لیکن راجح یہ ہے کہ نہی کا صیغہ کراہت پر اور امر کاصیغہ تاکید پر محمول ہوگا کیونکہ بقول اما م نووی رحمۃ اللہ علیہ وحافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تحیۃ المسجد کے سنت ہونے پر مسلمانوں کااجماع ہے۔اور یہی وہ قرینہ ہے۔جس کی بناء پر صیغہ امر کووجوب سے استحباب کی طرف پھیرا جاسکتا ہے۔

2۔جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ دے رہے تھے،سلیک الغطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھڑے ہوکر دورکعات پڑھنے کا حکم دیا۔(متفق علیہ)

ذرا اندازہ کیجئے کہ خطبہ جمعہ جسے بغور سننا ازحد ضروری بلکہ دوران خطبہ بات کرنے والے شخص کو خاموش رہنے کا حکم بھی لغو و بے ہودہ ہے۔کےدوران بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحیہ المسجد پڑھنے کا حکم دیا یہ حکم اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ نماز تحیۃ المسجد کس قدر موکد اور اہمیت کی حامل ہے!!

نماز کے مکروہ اوقات:۔

"مکروہ اوقات" سے مراد وہ پانچ اوقات ہیں جن میں نماز پڑھنا غیر درست ہوتا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

وَمُحَصِّلُ مَا وَرَدَ مِنَ الْأَخْبَارِ فِي تَعْيِينِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي تُكْرَهُ فِيهَا الصَّلَاةُ أَنَّهَا خَمْسَةٌ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا وَبَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَبَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَعِنْدَ الِاسْتِوَاءِ "

یعنی" وہ اوقات جن میں نماز مکروہ ہوتی ہے۔ان کی تعین میں وارد ہونے والی تمام احادیث کاحاصل یہ ہے کہ وہ اوقات پانچ ہیں جو کہ یہ ہیں۔

1۔طلوع شمس کے وقت ۔2۔غروب شمس کے وقت۔3۔استواء شمس کے وقت ۔4۔فجر کی نماز کے بعد طلوع شمس تک۔5۔عصر کی نماز کے بعد غروب شمس تک۔"

مذکورہ مکروہ اوقات کے بارے میں مروی بعض احادیث درج ذیل ہیں:

1۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ"میرے پاس(میرے) پسندیدہ آدمیوں(جن میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں) نے شہادت دی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے بعد سورج کے نکلنے تک اور عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا"

2۔عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ "تین گھڑیاں ایسی ہیں جن میں نماز پڑھنے اور اموات کو دفنانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا:

1۔جب سورج طلوع ہوتاہے۔یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے۔

2۔جب سورج آسمان کے بالکل وسط میں ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ(مغرب کی طرف) مائل ہوجائے۔

3۔جب سورج غروب ہونے لگتا ہے۔"

بالکل اسی معنی میں مگر ذرا تفصیل کے ساتھ عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک حدیث مرفوعاً صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے جسے بخوف طوالت ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔

مکروہ اوقات میں نماز کا حکم:۔

فرض نمازیں بربنائے شرعی عذر اگر ان مکروہ اوقات میں ادا یا قضا کرنی پڑیں توشرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔حدیث:

"" من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها""

کا عموم سابقہ احادیث نہی کی تخصیص کرتاہے اور اسی طرح حدیث:

""مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ""

بھی اس بات پر واضح طور پردلالت کرتی ہے کہ طلوع شمس اور غروب شمس(جو کہ ممنوع اوقات میں سے ہیں) کے وقت فجر وعصر کی نمازیں(اگر شرعی عذر کی بناء پر اس وقت تک متاخر ہوجائیں تو) پڑھی جاسکتی ہیں،اس پر امت کا اجماع ہے۔سوائے فجر کے،کہ اس میں حنفیہ اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نماز فجر کی ادائیگی کے دوران طلوع شمس کی صورت میں نماز باطل ہوجائے گی۔اور اس کا رد بعد میں آئے گا۔ان شاءاللہ۔

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ نہی تمام نمازوں کو شامل نہیں ہے بلکہ کچھ نمازیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔

ہاں! جان بوجھ کر طلوع شمس یا غروب شمس تک فجر وعصر کی نمازوں کو موخر نہیں کرنا چاہیے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لاَ يَتَحَرَّى أَحَدُكُمْ فَيُصَلِّي عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَلاَ عِنْدَ غُرُوبِهَا»

یعنی"تم میں سے کوئی ایک نماز کے لئے طلوع شمس اور غروب شمس کاجان بوجھ کر قصد نہ کرے"

یہ تو تھامکروہ اوقات میں فرض نمازوں کے پڑھنے کا حکم،رہی نفل نمازیں تو کیا انہیں نماز کے مکروہ اوقات میں پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں علماء کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔لیکن جب کسی امام یا بزرگ کی شخصی اور اندھی تقلید کو چھوڑ دیا جائے اور پھر مختلف دلائل وبراہین کے درمیان منصفانہ موازنہ کیا جائے تویہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔کہ ہرسببی نماز جیسے تحیۃ المسجد ،نماز جنازہ اور نماز کسوف وغیرہ کو ان مکروہ اوقات میں پڑھا جاسکتاہے۔

علماء کے درمیان اختلافات کی در اصل وجہ یہ ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں دو عمومات احادیث باہم متعارض ہیں،ایک طرف مکروہ اوقات میں مطلق نماز سے روکا گیا ہے۔

لاَ صَلاَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ ، وَلاَ صَلاَةَ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ

اسی طرح

""ثَلاثُ سَاعَاتٍ نَهَانَا رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُصَلِّي فِيهِنَّ,""

اور دوسری طرف بلا تقید وتخصیص تمام اوقات میں تحیۃ المسجد کے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے:

""إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ""

گویا چند مخصوص اوقات میں تمام نمازوں سے نہی میں جو عموم ہے،وہ اور تمام اوقات میں تحیۃ المسجد کے پڑھنے کے حکم میں جو عموم ہے۔دونوں ایک دوسرے کے معارض ہیں۔

ان عمومات میں سے ہر ایک کو اگر اس کے عموم پر ہی باقی رکھا جائے تو مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہوجاتاہے۔ اور اسکا کوئی حل نہیں ہو پاتا اور اگر ان میں سے ایک کی تخصیص کی جائے تو ان دونوں میں سے کون اس کے لیے اولیٰ ہے۔۔۔؟اور کیا تخصیص بلا دلیل اور خارجی مرجح کے ہوگی۔؟یا اس کے لیے کسی خارجی دلیل و قرینے کا ہونا ضروری ہوگا؟

شافعیہ کہتے ہیں کہ احادیث نہی میں جو عموم ہے۔ وہ باقی نہیں رہا ہے۔اس لیے نہی تمام نمازوں کو شامل نہیں۔جبکہ ذوات الاسباب نمازوں کاعموم باقی ہے۔ اس لیے وہ نہی سے مستثنیٰ ہوجائیں گی۔اور احناف کا کہنا ہے کہ نہی والی احادیث میں جو عموم آیاہے۔وہ باقی ہے۔اسلیے ممنوع اوقات میں تمام نفل نمازیں(سوائے نماز جنازہ کے) نہیں پڑھی جا جاسکتیں۔

کیا تخصیص بلا دلیل جائز ہے؟

فقہاء اور اصولیوں کے ہاں یہ اصول مسلمہ ہے:

""لا يثبت التخصيص إلا بدليل""

کہ تخصیص بلا دلیل ثابت نہیں ہوتی،اب جبکہ زیر بحث متنازعہ مسئلہ میں دو ایسے عموم باہم متعارض ہیں جو صحت وقوت کے اعتبار سے بالکل مساوی وبرابر ہیں۔توایسے مشکل وپیچیدہ مقام میں انصاف پسندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ دونوں عمومات میں سے کسی ایک کی تخصیص بلا دلیل ومرجح نہ کی جاتی۔یہی وجہ ہے کہ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے محقق عالم دونوں عمومات میں سے کسی ایک کو دوسرے پر جب ترجیح نہیں دے پائے تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ"تخصیص کے لیے دونوں میں سے کوئی ایک عموم دوسرے پر اولیت نہیں رکھتالہذا اس مسئلہ میں توقف ہی متعین ہے۔یہاں تک کہ کسی خارجی امر سے ترجیح واقع ہوجائے۔

پھر ضرورت سے زیادہ احتیاط برتتے ہوئے کہتے ہیں۔

"والأولى للمتورع ترك دخول المساجد في أوقات الكراهة .اهـ."

یعنی متقی پرہیز گار کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اوقات کراہت میں مساجد میں داخل ہی نہ ہو۔"کیونکہ جب وہ داخل ہی نہ ہوگا تو تحیۃ المسجد کی نوبت ہی نہیں آئے گی،دوسری جگہ کہتے ہیں:

"وينبغي للمتحري لدينه تجنب دخول المساجد فيها فإن دخل لحاجة فلا يقعد"

یعنی پہلے تو مکروہ اوقات میں دخول مساجد سے پرہیز واجتناب ہی اولی ہے۔اگر کوئی شخص کسی ضرورت کے لیے ان اوقات میں مساجد میں داخل ہوجائے تو وہ ان میں نہ بیٹھے،کیونکہ تحیۃ المسجد کے پڑھنے کاحکم مسجد میں بیٹھنے سے معلق ہے۔(قبلَ أنْ يجلسَ) جب داخل ہونےوالا بیٹھے گا ہی نہیں تو تحیۃ المسجد کی نوبت کیونکرآئے گی؟

تخصیص کس عموم کی اور مخصص کون؟

مکروہ اوقات میں مطلق نماز سے نہی میں جو عموم ہے،اسے باقی رکھ کر تحیۃالمسجد اور دیگر نوافل کو ان اوقات میں غیر درست قرار دینا دعویٰ بلا دلیل ہے۔کیونکہ اس طرح ایک عموم کی احادیث:

"إذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ "

کی احادیث نہی سے تخصیص کردی جاتی ہے اور اس کے لیے کوئی خارجی مرجح یا قرینہ نہیں ہے۔جبکہ تحیۃ المسجد ودیگر سببی نوافل کے پڑھنے کے حکم میں جو عموم ہے اسے باقی رکھ کر احادیث نہی کے عموم کی تخصیص کردینا اصح الاقوال اور اقرب الی الصواب ہے کیونکہ اس تخصیص کے لیے دلائل موجود ہیں جو د رج ذیل ہیں۔

1۔ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعات پڑھیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا تھا۔میں نے ایک لڑکی کو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں استفسار کے لیے بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جن دو رکعات کے بارے میں تم نے سوال کیا ہے۔وہ در اصل ظہر کے بعد والی دو سنتیں ہیں ،قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگوں نے مجھے مشغول کردیا تھا۔اس لیے میں انہیں پہلے نہیں پڑھ سکا تھا اور اب میں پڑھ رہا ہوں۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے فوائد ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"أن الصلاة التي لها سبب لا تكرهفي وقت النهى وإنما يكره ما لا سبب لها وهذا الحديث هو عمدة أصحابنا في المسألة وليس لنا أصح دلالة منه ، ودلالته ظاهرة"

یعنی حدیث کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ سببی نماز ممنوع اوقات میں مکروہ نہیں،ہاں غیر سببی نماز مکروہ ہے اور یہی حدیث اس مسئلہ میں شافعہ کی سب سے بڑی دلیل ہے"

اگر یہ کہا جائے کہ عصر کے بعد نماز پڑھنا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے تو اس کاتفصیلی جواب بعد میں آئے گا،ان کے علاوہ،اجمالی جواب یہ ہے کہ یہ فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں ،البتہ اس پر مداوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔

2۔سلیک الغطفانی کی حدیث سابقہ سطور میں گزر چکی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطبہ جمعہ کے دوران تحیۃ المسجد کے پڑھنے کا حکم دیا تھا۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ تمام اوقات میں تحیۃ المسجد پڑھنا موکد ہے۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی حالت میں تحیۃ المسجد کو نہیں چھوڑا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ جمعہ کے دوران داخل ہونے والے صحابی کو دو رکعات پڑھنے کا حکم دیا حالانکہ دوران خطبہ نماز ممنوع اور استماع واجب تھا۔ اگر تحیۃ المسجد کو کسی حالت میں چھوڑا جاسکتا ہوتو تو اسے اب(حالت خطبہ میں) چھوڑ دیاجاتا،باوجود یہ کہ صحابی مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھ گیا تھا اور تحیۃ المسجد تو بیٹھنےسے پہلے مشروع ہے اور وہ صحابی تحیۃ المسجد کے حکم سے تھا بھی جاہل لیکن خطبہ روک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے تحیۃ المسجد کے پڑھنے کا حکم دینا اس کے موکد ہونے پر دال ہے اور اس بات پر بھی کہ اسے کسی بھی حالت میں کسی بھی وقت نہیں چھوڑا جاسکتا"پھر کہتے ہیں:

""فَلَوْلَا شِدَّةُ الِاهْتِمَامِ بِالتَّحِيَّةِ فِي جَمِيعِ الْأَوْقَاتِ لَمَا اهْتَمَّ هَذَا الِاهْتِمَامَ""

یعنی "اگر تمام اوقات میں تحیۃ المسجد کی شدید اہمیت وتاکید نہ ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم (دوران خطبہ) اس کااس قدر اہتمام نہ کرتے"

اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے فوائد ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وفي هذا الحديث من الفوائد غير ما تقدم جواز صلاة التحية في الأوقات

یعنی حدیث کے سابقہ فوائد کے علاوہ اس میں مکروہ اوقات میں تحیۃ المسجد کے پڑھنے کاجواز بھی ہے کیونکہ یہ استماع خطبہ کے امر کے باوجود دوران خطبہ جب ساقط نہیں ہوا تو باقی اوقات میں بالاولیٰ ساقط نہیں ہوگا"

کیا حدیث سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔احادیث انصات واستماع خطبہ سے متعارض ہے؟

احناف کے ہاں دوران خطبہ تحیۃ المسجد کاپڑھنا درست نہیں ہے۔ان کا کہناہے کہ جب استماع خطبہ واجب اور اثنائے خطبہ انصات ضروری ہے بلکہ کلام کرنے والے شخص کو خاموشی کا حکم دینا بھی لغو وبے حودہ ہے تو تحیۃ المسجد کے پڑھنے کا جواز کیونکر ہوگا؟

یہی وجہ ہے کہ (دیگر احناف علماء کی طرح) فاضل مضمون نگار بھی کہتے ہیں کہ"اس(حدیث سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی ایسی توجیہ کرنی ضروری ہوگی کہ یہ حدیث ان احادیث کے مطابق ہوجائے جن میں بطور خاص استماع اور انصات(خاموشی) کی تاکید آئی ہے۔"

پہلی بات تو یہ ہے کہ قصہ سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور وجوب استماع خطبہ کےبارے میں وارد ہونے والی احادیث کے درمیان تعارض ہے ہی نہیں کہ جس کو دور کرنے کے لیے واقعہ سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توجیہات یا تاویلات کرنا ضروری ہوگیا ہو۔یہ تو احادیث کو ا پنی قائم کردہ آراء کے مطابق ڈھالنے کے لیے صرف اور صرف سینہ زوری اور ضد ہے۔ورنہ حقیقت تو بالکل واضح ہے کہ وہ معارضہ،جس کے نتیجے میں دو متعارض دلیلوں سے ایک کو ساقط کرنا یا اس کی تاویلات کرنا لازم آئے،اس وقت قائم ہوتا ہے جب دونوں کے درمیان وجہ تطبیق ممکن نہ ہو۔جبکہ یہاں تو بقول حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ جمع بین الادلہ"ممکن ہے اور وہ اس طرح ہےکہ:

1۔آیت:

" وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ"

میں صرف قراءت قرآن کے وقت استماع وانصات کا حکم ہے جبکہ خطبہ سارے کاسارا قرآن نہیں ہوتا اور خطیب جب کسی آیت قرآنیہ کی تلاوت کرے گا تو اسے سننا اور وقت خاموش ہوجانا بھی کم ازکم اس شخص کے لیے واجب نہیں ہوگا جو عین تلاوت کے وقت مسجد میں داخل ہوگا کیونکہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد اس کے لیے استماع خطبہ نہیں بلکہ تحیۃ المسجد کو پڑھنا لازم ہوگا۔جیسا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

""إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ ، وَلْيَتَجَوَّزْ فيهما""

2۔پھر جن احادیث میں اثنائے خطبہ استماع وانصات کا حکم دیا گیا ہے ان میں انصات سے مرادیہ ہے کہ مکالمہ مع الغیر نہ ہویہ مراد ہر گز نہیں ہے کہ مستمع استماع وانصات کے ساتھ ساتھ ذکر اللہ بھی نہ کرے۔خصوصاً تحیۃ المسجد بھی نہ پڑھے کہ جس میں مکالمہ مع الغیر ہوتا ہی نہیں۔

3۔جو حضرات انصات کامعنی مطلق خاموشی کرکے قراءت اور انصات کے درمیان منافات قائم کرتے ہیں وہ اس حقیقت سے بالکل ناواقف ہیں کہ انصات اورقراءت کااجتماع ممکن ہے۔

اس کی پہلی دلیل تو صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاآنحضور سے یہ سوال ہے:

""يَا رَسُولَ اللَّهِ إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ "

" کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قراءت کے درمیان اپنی خاموشی میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟"

تو حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ انصات(خاموشی) اور قراءت کااجتماع ممکن ہے ناممکن نہیں۔۔۔

دوسری دلیل خود فقہ حنفی کی کتب ہیں جن میں جہاں یہ لکھاہے کہ دوران خطبہ استماع وانصات واجب ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ خطیب جب:

""يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا""

"پڑھے تو سامعین کو آہستہ سے درود وسلام پڑھنا چاہیے۔علامہ ابن ھمام کہتے ہیں۔

""عن أبي يوسف: يَنبغي أن يُصلِّي في نفسه؛ لأنَّ ذلك ممَّا لا يَشغله عن سماع الخُطبة، فكان إحرازًا للفضيلتين، وهو الصوابُ""

یعنی"امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ مستمع اپنے دل ہی میں درود پڑھ لے کیونکہ یہ چیز اسے سماع خطبہ سے مشغول نہیں کرے گی اور اس سے دونوں فضیلتیں(استماع خطبہ اور درود پڑھنے کی) حاصل ہوجائیں گی اور یہ بات درست ہے۔"

حدیث سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاویلات اور ان کارد:۔

پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ احناف سلیک الغطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث کی کچھ تاویلات کرتے ہیں تاکہ وہ ان احادیث کے مطابق ہوجائے جن میں استماع وانصات کا حکم دیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں دس تاویلات نقل کی ہیں جن میں صرف تین پر ہمارے مضمون نگار نے اکتفا کیا ہے:

پہلی تاویل:۔

بقول مضمون نگار دوران خطبہ تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم دینا خطبہ کاحصہ تھا کہ دوران خطبہ نماز تحیۃ المسجد کی تعلیم دی"

اس کاجواب یہ ہے کہ صحابی سلیک الغطفانی کو تحیۃ المسجد کے پڑھنے کا حکم دینا خطبہ جمعہ کا حصہ تھا کیونکہ یہ حکم اگرخطبہ جمعہ کا حصہ ہوتا تو اس سے ہر خطیب کے لیے یہ لازم ہوجاتا کہ وہ مسجد میں ہر داخل ہونے والے پر نظر رکھے اورجو شخص داخل ہونے کے بعد تحیہ المسجد نہ پڑھے اسے اس کا حکم دے اور یہ کام کم از کم حنفی خطیب کے لیے بہت مشکل ہوگا کیونکہ ان کا خطاب اردو میں اور خطبہ عربی میں ہوتاہے۔چنانچہ عربی میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے تحیۃ المسجد نہ پڑھنے والے سے اردو میں ہمکلام ہونا یقیناً ان کے لیے ناممکن ہوگا۔بلکہ اسے وہ حرام سمجھیں گے کہ دوران خطبہ کسی سے گفتگو کریں ۔چنانچہ جب بات چیت کرنا حرام ہوگا توتحیۃ المسجد کی تعلیم دینا خطبہ جمعہ کا حصہ کیونکر بنےگا؟

اگر یہ مان لیا جائے کہ صحابی کو دو رکعات کا حکم دینا خطبہ ہی کا ایک حصہ تھا تو اس سے یہ کب لازم آتا ہے۔کہ اثنائے خطبہ میں تحیۃ المسجد کو نہ پڑھا جائے؟یہ تو اس طرح ہےجیسے کوئی یہ کہے کہ فاتحہ چونکہ نماز کا حصہ ہے۔اس لیے اسے نماز میں نہ پڑھا جائے،ایسا شخص مخبوط الحواس نہیں کہلائے گاتو کیاکہلائے گا۔

تحیۃ المسجد کی تعلیم دینا اگر خطبہ جمعہ کا حصہ ہے۔تو اس سے یقینی طور پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ دوران خطبہ تحیہ المسجد پڑھنا لازم ہے۔

دوسری تاویل:۔

ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کے دوران خطبہ روک دیا ہو۔اس تاویل کی تائید کے لیے سنن دارقطنی کی یہ روایت پیش کیا جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

""وَأَمْسَكَ عَنِ الْخُطْبَةِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ ""

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے رک گئے یہاں تک کہ سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز سے فارغ ہوگئے۔

لیکن بقول خود امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ یہ روایت سلیمان تیمی سے مرسل یا معضل ہے پھر اگر اس کو صحیح بھی مان لیاجائے تو اس سے مسجد میں داخل ہونے والے کسی شخص کی وجہ سے خطبہ جمعہ کو روک لینے کا جواز لازم آئے گا حالانکہ حنفیہ کے نزدیک اس کا جواز نہیں ہے۔

امام ابن خذیمہ نے اپنی صحیح میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان یہ ہے:

ترجمہ:۔باب اس امر کی دلیل میں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ روک کر اسے دو رکعات پڑھنے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ جاری رکھا بخلاف ان بعض الناس کے جنھوں نے گہری نظر سے حدیث کا مطالعہ نہیں کیا۔(صحیح ابن خذیمہ(3/167)

تیسری تاویل:۔

سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسجد میں داخل ہوئے تو ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ شروع ہی نہیں کیا تھا۔۔۔اس تاویل کے لئے مسلم میں مروی ان الفاظ کو بطور دلیل پیش کیا جاتاہے:

""ورسولُ اللَّه صلى الله عليه وسلم قَاعِدٌ علَى الْمِنْبَرِ ""

لیکن اس کا جواب تو یہ ہے کہ بیٹھنے سے مراد ابتدا میں بیٹھنا ہی نہیں بلکہ اس سےدو خطبوں کے درمیان بیٹھنا بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی نےاس سے مراد مجازی طور پر کھڑ اہونا لیا ہو اگر دونو باتوں کو ناقابل تسلیم مانا جائے تو کہنا پڑے گا کہ یہ روایت شاذ ہے۔کیونکہ اس سے اصح روایات(جو بکثرت وارد ہیں) اس بات پر متفق ہیں کہ سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے داخل ہونے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشادفرمارہے تھے۔

پھر دوسری اور تیسری تاویل کے درمیان منافات بھی ہے کیونکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خطبہ شروع کرکے روک بھی لیا گیا ہو اور اسے ابھی شروع بھی نہ کیا گیا ہو؟؟

یہ تھا ان تاویلات کا کسی قدر مفصل رد۔۔۔اور حقیقت یہ ہے کہ نصوص شرعیہ کو ا پنی یا ا پنے امام کی رائے کے مطابق ڈھالنے کی بجائے جب اپنے آپ کو شرعی دلائل کے سامنے سر تسلیم خم کرلیاجائے اور مذہبی تعصب اور تقلید اعمی کو پرے پھینکتے ہوئے دلائل کے درمیان جب انتہائی منصفانہ موازنہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ مضمون نگار کی طرف سے پیش کی جانے والی یہ تین تاویلات ہی نہیں باقی وہ تمام تاویلات بھی ناقابل اعتبار ہیں۔جنھیں احناف علماء نے سلیک الغطفانی کی حدیث کو رد کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔

اسی لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔

""وهذه الأجوبة التي قد قدمناها تندفع من أصلها بعموم قوله - صلى الله عليه وسلم - في حديث أبي قتادة إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتى يصلي ركعتين ""

یعنی وہ تمام تاویلات جنھیں ہم نے سابقہ سطور میں نقل کردیا ہے بالکل مردود ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے عموم کے ساتھ کہ"تم میں سے کوئی جب بھی(اور جس وقت بھی) مسجد میں داخل ہو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعات نہ پڑھ لے۔"چنانچہ جب حدیث عام ہے تو دوران خطبہ تحیۃ المسجد کے پڑھ لینے میں آخر کیا حرج ہے؟

اور خود بعض احناف علماء نے اس حقیقت کااعتراف کیاہے کہ اثنائے خطبہ تحیۃ المسجد پڑھ لینا چاہیے۔شیخ ابو الحسن سندھی(محشی کتب حدیث) ابن ماجہ کے حاشیہ پر فرماتے ہیں:

""ثم الحديث ظاهرافي جواز الركعتين حال الخطبة للداخل في تلك الحالة""

"یعنی یہ حدیث اس بات کے لئے بین دلیل ہے کہ عین خطبہ کی حالت میں داخل ہونے والے کے لئے دو کعات پڑھ لینا جائز ہے۔"

اور شاہ ولی اللہ دھلوی کہتے ہیں"جب کوئی شخص امام کے خطبہ کے دوران(مسجد میں) آئے تو دو رکعات پڑھ لے اور ان میں تخفیف کرے تاکہ سنت پر عمل ہوجائے اور خطبے کا احترام بھی باقی رہے۔۔۔پھر کہتے ہیں"اس مسئلہ میں اپنے اہل بلد(ہندوستان) کے طریقے(خطبہ جمعہ کے دوران تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھ جانا) سے دھوکہ نہ کھانا کیونکہ حدیث سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحیح ثابت ہے اور اس کی اتباع لازم ہے"

اثنائے خطبہ وجوب تحیۃ المسجدپر ناقابل تاویل نص:۔

حدیث:

""إذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلا يَجْلِسْ حَتَّى يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ ""

کے عموم سے دوران خطبہ مسجد میں داخل ہونے والے کے لیے وجوب تحیۃ المسجد کاحکم اخذ نہ کیاجائے تب بھی ایک ایسی واضح اور صریح نص موجودہے۔جس میں بالخصوص اثنائے خطبہ تحیۃ المسجد کے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور جس کی قطعی طور پر کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔۔۔

جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

""إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ ، وَلْيَتَجَوَّزْ فيهما""

یعنی" تم میں سے کوئی ایک جب امام کےخطبہ کے دوران(مسجد میں) آئے تو اسے چاہیے کہ وہ دو رکعات پڑھے اور ان میں اختصار کرے(تاکہ بعد میں خطبہ سن سکے)۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

وهذا نص لا يتطرق إليه تأويل ، ولا أظن عالما يبلغه هذا اللفظ صحيحا فيخالفه

یعنی"(اس مسئلہ میں) یہ (حدیث جابر) ایسی نص ہے کہ کوئی تاویل اس کے قریب تک نہیں جاسکتی اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی عالم کے پاس یہ صحیح نص پہنچے اور پھر وہ اس کی مخالفت کرے۔۔۔لیکن ہمارے علماء ان واضح نصوص کو دیکھ کر،سمجھ کراور سب کچھ جان کر بھی باطل تاویلات پہ ڈٹے رہتے ہیں اور فقہاء کے اقوال(وہ جو نص شرعیہ کے صراحتاً مخالف ہوتے ہیں ) کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

""وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّـهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ ""

3۔مکروہ اوقات میں سے ایک وقت کراہت فجر کی نماز کے بعد طلوع شمس تک کا ہے جس طرح عصر کے بعد اورخطبہ جمعہ کے دوران سببی نوافل کے پڑھنے کاجواز ملتا ہے ۔( كما تقلم)اسی طرح فجر کے بعد بھی سببی نوافل کی ادائیگی کے لیے نص موجود ہے۔

قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باجماعت ادا کی،پھر دو سنتیں (جنھیں میں فرض سے پہلے نہیں پڑھ سکا تھا) پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا" أصَلاَتَانِ معاً؟"۔۔۔کیا(ایک فرض نماز کے وقت میں)دو(فرض) نمازیں اکھٹی؟؟میں نے جوابا"کہا کہ میں(پہلی) دو سنتیں نہیں پڑھ سکا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" فلااذن "یعنی"تب کوئی حرج نہیں۔۔۔دیگرکچھ روایات میں" فَلَمْ يَقُلْ لَهُ شَيْئًا "اور" فلم ينكر عليه. "کے الفاظ بھی آتے ہیں۔۔۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح عصر کی نماز کے بعدظہر کی دو سنتوں کو قضا کیا جاسکتا ہے اسی طرح بربنائے شرعی عذرچھوڑی جانے والی پہلی سنتوں کو نماز فجر کے بعد اور طلوع شمس سے پہلے ادا کیا جاسکتا ہے۔جب ان دونوں ممنوع اوقات میں قضاء الفوائت جائز ہے۔تو دیگر سببی نمازیں مثل تحیۃ المسجد وغیرہ بھی تمام اوقات کراہت میں پڑھی جاسکتی ہیں۔

اگر یہ کہاجائے کہ فجر کی دو سنتیں اگر پہلے نہ پڑھی جاسکیں توا نہیں طلوع شمس کے بعد ادا کرنے کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"" مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيْ الفَجْرِ، فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَمَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ ""

یعنی" جو شخص فجر کی دو(سنتوں) کو (فرض نماز سے پہلے) نہ پڑھ سکے،اسے چاہیے کہ وہ انہیں طلوع شمس کے بعد پڑھے"

تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلوع شمس کے بعد دو سنتیں کے پڑھنے کا حکم اس شخص کے لیے ہے جو انہیں طلوع شمس سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو،جس طرح کہ اسی حدیث کی ایک دوسری روایت اس بارے میں بالکل واضح اور صریح ہے اور جس کے الفاظ یوں ہیں:

"من لم يصلي ركعتي الفجر حتي تطلع الشمس فليصلهما"

یعنی"جو فجر کی دو سنتوں کو طلوع شمس تک نہ پڑھ سکا ہو،وہ انہیں(طلوع شمس کے بعد) پڑھ لے"

4۔حدیث: "" من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها"" اور حدیث مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الصلواة الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ ۔۔۔الخ" کے تحت جب فرائض کو مکروہ اوقات میں پڑھا جاسکتا ہے ،تو سببی نوافل کو ان اوقات میں پڑھنا بالاولی درست ہوگا۔واللہ اعلم

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف:۔

سابقہ سطور میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے چند اقتباسات گزر چکے ہیں(مکروہ اوقات میں سببی نمازوں کے پڑھنے کے جواز کے بارے میں)۔۔۔اب ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔موصوف کہتے ہیں:

"تمام ذوات الاسباب نمازیں(جیسے تحیۃ المسجد اور نماز کسوف وغیرہ) مکروہ اوقات میں جائز ہیں،یہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے اور یہی راجح ہے چند وجوہات کی بناء پر:۔

1۔تحیۃ المسجد کے پڑھنے کے حکم صحیحین میں موجود ہے۔اور اس میں وہ عموم ہے جس سے کوئی صورت مخصوص نہیں کی گئی جبکہ نہی والی احادیث میں وہ عموم ہے جو خاص کردیاگیا ہے،لہذا عام غیر مخصوص کو عام مخصوص پر ترجیح دی جائے گی۔

2۔اثنائے خطبہ جمعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلیک الغطفانی کو تحیۃ المسجد کا حکم دیا حالانکہ استماع خطبہ کا حکم دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا نماز پڑھنے سے بھی منع کیا ہوا تھا۔لہذا جب اس وقت تحیۃ المسجد کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم دیا۔دیگر اوقات کراہت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بالاولیٰ ہوگا۔

3۔نہی سے بعض نمازوں جیسے فجر اور عصر کی استثناء ثابت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اوقات نہی میں کچھ نمازیں ممنوع اور کچھ نمازیں(جیسے فوائت اور سببی نوافل) مشروع ہوتی ہیں۔

4۔عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ طلوع وغروب شمس کے وقت نماز پڑھنے سے نہی صرف سد ذرائع شرک کےلیے ہے کیونکہ اس وقت مشرکین سورج کی پوجا کرتے ہیں۔گویامشرکین کے ساتھ مشابہت کے اندیشے کے پیش نظر مسلمانوں کو ان اوقات میں نماز سے ر وکا گیا،جبکہ ذوات الاسباب نمازوں میں وہ مصلحت ہوتی ہے جو ان اوقات میں نماز پڑھنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مفسدہ پر ترجیح واولیت رکھتی ہے لہذا اس مصلحت کومقدم کرنا مناسب ہے۔ کیونکہ ذوات الاسباب کو پڑھنے والا شخص انہیں مطلقاً نہیں بلکہ اسباب کی بناء پر پڑھتا ہے اس لیے مشابہت اس صورت میں ممتنع ہوجاتی ہے۔

5۔عصر کے بعد ظہر کی دوسنتوں کو قضا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے۔دوسری طرف تحیۃ المسجدکے پڑھنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم فوت ہونے والی سنتوں کی قضاء سے اقویٰ ہے لہذا ممنوع اوقات میں جب ایک سنت کو قضا کرنا درست ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنابالاولیٰ درست ہوگا۔ کیونکہ قضاء سنن کے بارے میں عموماً اور قضائے سنت ظہر کے بارے میں خصوصاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم نہیں،صرف سنن پر مداومت(ہمیشگی) ثابت ہے۔جب مداومت والے عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع والے وقت میں قضا کیا تو جس عمل کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو حکم دیا اس پر ممنوع وقت میں عمل پیرا ہونا بالاولیٰ موکد ہوگا۔"

کیا عصر کے بعد کا وقت مطلقاً مکروہ ہے؟

اوقات کراہت میں سے ایک وقت عصر کی نماز کے بعد غروب شمس تک کا ہے:

""لاَ صَلاَةَ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ""

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد کا وقت مطلقاً مکروہ نہیں ہے۔بلکہ یہ خاص ہے اصفرار شمس(سورج کے زرد ہونے) سے لے کرغروب شمس تک کے وقت کے ساتھ۔۔۔گویا نماز عصر کے بعد جب تک سورج زرد نہ ہو،اس وقت تک مطلق نماز جائزہے،یہی وجہ ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( جو کہ نماز عصر کے بعد کے وقت کو مطلقاً مکروہ سمجھتے تھے بلکہ جس شخص کو اس وقت میں نماز پڑھتا ہوا دیکھتے اسے مارتے) کو واہم قراردیا اور کہا:

""إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ أَنْ يَتَحَرَّاهَا طُلُوعَ الشَّمْسِ أَوْ غُرُوبَهَا انْتَهَى ""

یعنی"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توطلوع وغروب شمس کے اوقات کا جان بوجھ کر قصد کرنے سے منع فرمایا"(نہ یہ کہ مطلقاً منع کیا)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ بات اصل میں اس لیے کہی تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ان کے سامنے نماز ظہر کے بعد دو رکعات پڑھنے پر ہمیشگی کرتے تھے،کہتی ہیں:

""مَا تَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ العَصْرِ عِنْدِي قَطُّ ""

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ"عصر کے بعد دو رکعات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مداومت سے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ سمجھا کہ عصر کے بعد غروب شمس تک نماز پڑھنے سے جونہی ہے وہ شخص ہے اس شخص کے ساتھ جو سورج کے زرد ہونے کے بعد اس کے غروب کے قریب قریب نماز پڑھنے کا جان بوجھ کرقصدکرے،نہ یہ کہ نہی مطلقاً ہے۔اسی لیے وہ خود بھی عصر کے بعد نفل نماز پڑھا کرتی تھیں اور اسی بات کاوہ فتویٰ دیاکر تی تھیں"

لیکن عصر کے بعد دو رکعات پر مواظبت اور ہمیشگی کو اکثر علماء جیسے حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ او رمتاخرین میں سے شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ وغیرھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں شمار کرتے ہیں۔لہذا یہ کہناپڑے گا کہ کم ازکم اس دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے تک مطلق نماز جائز ہے۔یقیناً اس کے لیے واضح اور صریح نص کی ضرورت ہے جو "لاَ صَلاَةَ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ "کے عموم کو اصفرار شمس سے غروب آفتاب تک کے وقت کے ساتھ خالص کردے۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ:

"أن النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الصلاة بعد العصر إلا والشمس مرتفعة"

یعنی"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا الا یہ کہ سورج بلند ہو(تو تب علی الاطلاق نماز جائز ہے)

حافط ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

"" فَدَلَّ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِالْبَعْدِيَّةِ لَيْسَ عَلَى عُمُومِهِ وَإِنَّمَا الْمُرَادُ وَقْتُ الطُّلُوعِ وَوَقْتُ الْغُرُوبِ وَمَا قَارَبَهَا""

یعنی"حدیث علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر دال ہے کہ لاَ صَلاَةَ بَعْدَ العَصْرِ ۔۔۔الخ"اپنے عموم پر نہیں بلکہ اس سے مراد طلوع وغروب اور ان کے قریب قریب کا وقت ہے"

یہی مذہب امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہتے ہیں:

""وصح عن النفس ليس الا عن القصد بالصلوةاذا اصفرت وضالت الغروب فقط""

یعنی" یہ بات صحیح ثابت ہے کہ(عصر کے بعد) نماز سے انہی صرف اس وقت ہے جب کوئی شخص سورج کے زرد ہونے اور اس کے غروب کے لیے جھکنے کے وقت نماز کا قصد کرے"

اور یہ موقف ہے محدث العصر علامہ البانی حفظہ اللہ کا۔موصوف علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

""وما دل عليه الحديث من جواز الصلاة ولو نفلا بعد صلاة العصر وقبل اصفرار الشمس هو الذي ينبغي الاعتماد عليه في هذه المسألة ""

یعنی"حدیث کی جو دلالت ہے کہ نماز عصر کے بعد اور سورج کے زرد ہونے سے پہلے کوئی نماز خواہ وہ نفل ہی کیوں نہ ہو،جائز ہے اس مسئلہ میں اسی پر اعتماد کرناچاہیے۔"۔۔۔پھر دوسری جگہ پر کہتے ہیں کہ"فقہ کی کتب میں یہ جو مشہور ہے کہ عصر کے بعدنماز مطلقاً ممنوع ہے اگرچہ سورج بلند اور صاف وسفید کیوں نہ ہویہ(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی) احادیث کے بالکل مخالف ہے کیونکہ یہ احادیث نہی والی احادیث کومقید(یا مخصص) کردیتی ہیں"

مضمون نگار کے کچھ اورشبہات اور ان کے جوابات:۔

1۔فاضل مضمون نگار عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث( جس میں اوقات کراہت کو بیان کیاگیا ہے) کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں"اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ مذکورۃ الصدر تینوں اوقات میں کوئی نماز بھی جائز نہیں۔ہاں محدثین وفقہاءنے بعض دوسری احادیث سے استدلال کرکے اس دن کی نماز عصر کی ادائیگی کی اجازت دی ہے"

تو گزارش ہے کہ جب اندھی تقلید کابھوت سر پر سوار ہو اور اس کا بندھن گلے میں پڑا ہواہوتو حدیث کا فقط اتناحصہ نظر آتاہے جو ا پنے مطلب وموقف کی تائید کرتا ہو اور اس سے اپنے مخصوص اہداف ومقاصد پورے ہوتے ہوں۔اورحدیث کے اس حصے سے عمداً پھیر لی جاتی ہے جو اپنے امام کے قول کے مخالف ہو۔

حقیقت۔۔۔جسے آپ بھی تقلیداور ذہنی تعصب کی قیود سے آزاد ہوکر حقیقت ہی کہیں گے۔یہ ہے کہ جس حدیث سےاستدلال کرکے آپ کے "محدثین وفقہاء" نےاس دن کی نماز کی عصر کی ادائیگی کی اجازت دی ہے اسی حدیث کا پہلا حصہ یہ ہے۔

"مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ "

یعنی"جس نے طلوع آفتاب سے پہلے صبح کی رکعت کو پالیا،اس نے پوری نماز فجر کو پالیا"

لیکن آپ نے اس سے صرف نظر کرکے درج بالا طریقے کے مطابق پڑھی جانے والی فجر کی نماز کو باطل اور عصر کی نماز کو جائز قرار دیا۔۔۔

أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ؟؟

2۔صاحب مضمون لکھتے ہیں کہ"بعض کراہتیں اسباب کی بناء پر ہوتی ہیں"۔۔۔اس کے بعد اس کی انہوں نے چار مثالیں ذکر کی ہیں۔جن میں سے پہلی تیسری اور چوتھی مثالوں کا الگ الگ جواب سابقہ سطور میں دے دیا گیا ہے۔دوسری مثال دیتے ہوئے رقم طراز ہیں "جماعت کھڑی ہوتو الگ کوئی بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے کراہت کاسبب جماعت المسلمین میں افتراق کا شائبہ ہے"

تو گزارش ہے کہ آپ سب سے پہلے اس بات کو حنفی فقہ کے آئینے میں دیکھیں کہ آپ کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے؟

حدیث:

""إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة ""

تو یہی کہتی ہے کہ فرض کی جماعت کھڑی ہوجائے تو باقی تمام نمازوں کو پڑھناحرام ہوگا،لیکن آپ کی فقہ حنفی کہتی ہے کہ جب تک نماز فجر کی دوسری رکعت کے رکوع میں ملنے کا یقین ہو،اس وقت تک مسجدسے باہر(یا مسجد کے ایک کونے میں) فجر کی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔۔۔اور آپ کی مساجد اس کی واضح تصویر پیش کرتی ہیں،کہ جب جماعت کھڑی ہوچکی ہوتی ہے اس وقت احناف بھائی مسجد کے اندر(صفوں کے پیچھے کھڑے) سنتیں پڑھنےمیں الگ مصروف ہوتے ہیں تو کیا اس وقت جماعت المسلمین کے افتراق کا شائبہ نہیں ہوتا؟

إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ

وصلي الله عليه وسلم علي محمد وِأله وصحبه اجمعين


حوالہ و حواشی

۔المنہاج فی شرح مسلم ابن الحجاج(5/226)مغنی المحتاج(1/223)

۔فتح الباری۔۔۔ باب إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ۔۔۔(1/640)

۔وتر اور فجر کی دو سنتوں کی تاکید اس قدر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سفر میں بھی نہیں چھوڑا،حالانکہ سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازوں میں قصر کرتے اور وتر اور فجر کی دو سنتوں کے سوا باقی سنن اور نوافل نہیں پڑھتے تھے،نوافل میں صرف ان دوکااہتمام کرنا ان کے لیے موکد ہونے کی دلیل ہے۔

۔داود ظاہری تحیۃ المسجد کے وجوب کے قائل ہیں۔اورامام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ظاہری ہونے کے باوجود تحیۃ المسجد کو نفل نمازوں میں شما ر کرکے اسے موکد سمجھتے ہیں۔فرض یا واجب نہیں،اپنی مشہور کتاب "المحلی" میں کہتے ہیں:الا ان الوتر اوكدا لتطوع.... ثُمَّ أَوْكَدُهَا بَعْدَ الْوِتْرِ صَلاةُ الضُّحَى وَرَكْعَتَانِ عِنْدَ دُخُولِ الْمَسْجِدِ))........ لان رسول الله صلي الله عليه وسلم امر بهذا فما امر به عليه السلام فهو اوكدا مما لم بامربه"یعنی "نفل نمازوں میں سے زیادہ موکد وتر کی نماز ہے۔پھر چاشت کی نماز اور مسجد میں داخل ہوکر دورکعتوں کے پڑھنے کا درجہ ہے۔کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نمازوں کاحکم دیاہے۔ اور جن نمازوں کاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے وہ زیادہ موکد ہیں بنسبت ان نمازوں کے جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم نہیں دیا۔(المحلی2/231)

۔نیل الاوطار(3/69)

۔سبل السلام(1/267)

۔مسلم(5/225 مع شرح النووی)

۔بخاری(1/640 مع الفتح) مسلم(5/225 مع شرح النووی)

۔رواہ ابن ابی شیبہ کمافی فتح الباری۔۔۔(المرجع السابق)

۔فتح الباری(1/75 الصلوۃ باب من لم یکرہ الصلوۃ الا بعد العصر والفجر)نیز دیکھئے شرح النووی(6/110)

۔بخاری(2/69 فتح الباری) مسلم(111/6 مع شرح النووی)

۔مسلم(6/114 مع شرح النووی)

۔یعنی" جو شخص کسی (فرض) نماز سے سوجائے یااسے بھول جائے تو جونہی(بیدار ہو یا) اسے وہ نماز یاد آجائے تو نماز پڑھ لے"

۔یعنی" جس نے طلوع شمس سے پہلے صبح کی ایک رکعت کو پالیا،اس نے(پوری نماز) کو پالیا اور جس نے غروب شمس سے پہلے عصر کی ایک رکعت کو پالیا،اس نے پوری عصر کی نمازکو پالیا"

۔فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (23/178)

۔بخاری(2/73 مع الفتح)

۔نیل الاوطار(3/89)

۔نیل الاوطار(3/69)

۔السیل الجرار(1/189)

۔متفق علیہ۔صحیح بخاری(2/76)۔۔۔مع الفتح)صحیح مسلم(6/131۔مع شرح النووی)

۔شرح النووی علی مسلم(حوالہ سابقہ)

۔شرح النووی علی مسلم(5/226،6/164،165)

۔فتح الباری(2/478)

۔فتح الباری(2/475)

۔فتح القدیر(1/365) اسی سے ملتی جلتی عبارات دیگر کتب حنفیہ میں بھی موجود ہیں۔دیکھئے:شرح وقایہ (1/175) اور کفایہ(1/64) وغیرھما

۔دیکھئے فتح الباری(2/477)

۔فتح الباری (3/477)

۔حاشیہ ابن ماجہ(1/343)

۔حجۃ اللہ بالغہ (2/22)

۔مسلم کتاب الجمعۃ باب التحیۃ والامام یخطب(6/164)

۔شرح النووی لمسلم(حوالہ سابقہ)

۔رواہ تر مذی وابوداود وابن ماجہ وابن ابی شیبہ وابن حبان وابوخزیمہ والحاکم۔۔۔یہ حدیث چونکہ احناف کے خلاف ہے اس لیے ملا علی قاری نے اسے ضعیف کہا ہے حالانکہ اس کی صحیح اسانید موجود ہیں،ابن حبان،الحاکم ابوخزیمہ،ابن حزم،العراقی اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ وغیرھم اور معاصرین میں سے شیخ البانی نے اس حدیث کی تصیح کی ہے۔دیکھئے:تحفۃ الاحوذی(1/324۔329)اور صحیح سنن التر مذی وصحیح ابن ماجہ حدیث نمبر(1151) للبانی ۔

۔رواہ الترمذی(2/287۔تحقیق احمد شاکر) واسنادہ صحیح کما قال الالبانی فی الصحیہ(61)

۔مستدرک حاکم(1/247/306) قال الحاکم:صحیح علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی

۔مجموع فتاویٰ(23/191۔199)

۔مسلم(6/112۔۔مع شرح النووی)

۔مسلم (6/119مع شرح النووی)

۔بخاری "باب ما یصلی بعد العصر من الفوائت ونحوھا"(2/77 الفتح)

۔فتح الباری(2/79)

۔زادالمعاد(1/308)

۔فتح الباری(2/77)

۔حاشیہ فتح الباری(حوالہ سابقہ)

۔ابو داود(1/200) نسائی(1/97) البیہقی(2/458)احمد(1/129) اس حدیث کو ابن حزم نے المحلی(3/31) العراقی نے طرح الثریب(2/187) اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری(2/76) میں صحیح کہا ہے اور ایک روایت جسے ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نےاس کو سند کوحسن کہا ہے،میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں:"" لا تُصَلّوا بعد الصّبْحِ ولا بعدَ العَصْرِ إلا أن تكونَ الشَّمْسُ نَقِيَّةً""

۔فتح الباری(2/74)

۔المحلی(3/36)

۔سلسلہ صحیحہ (1/344)

۔سلسلہ صحیحہ(1/561)