اسلام میں قانون سازی کیا اور کیوں؟
مفتی اکبر شیخ محمد بن ابراہیم بن عبدالطیف کی شخصیت عالم عرب میں محتاج تعارف نہیں۔دینی علوم میں جو آپ کامقام ومرتبہ ہے ۔ اس کے تعارف کی چنداں ضرورت نہیں۔آپ مملکت سعودی عرب کے مایہ ناز محقق عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتے تھے،سرکاری عہدہ کے کے لحاظ سے مفتی اعظم اور علم وتحقیق کے اعتبار سے امام کے درجہ پر فائز رہے ہیں۔
زیر نظر مقالہ میں آپ نے دورحاضر کی ایک اہم غلطی کی جانب اشارہ کیا ہے کہ غیر مسلم ممالک کی دیکھا دیکھی اسلامی ممالک بھی شریعت کی دستور سازی اور قانونی دفعہ بندی کے درپے ہیں۔موصوف کا نظر اس بارے میں یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے دستور حیات صرف وحی الٰہی(کتاب وسنت) ہے ،جوایک مسلمان کی زندگی کا نصب العین پختہ طرز عمل،باہمی تنازعات میں فیصلہ کن رائے اور سیاسی معاملات میں ایک کامیاب رہنما ہے۔قرآن کی رُو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو "حکم" تسلیم نہ کرنا۔اسلام کے واضح اصولوں سے انحراف اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔پیغام الٰہی کو اس کی اصل صورت میں ہی نافذ کردینے سے ہی ہم ان برکتوں کے حقدار ہوتے ہیں،جن کا ہمیں قرآن مجید نے وعدہ دیا ہے۔قرآن وحدیث سے احکام وقوانین اخذ کرکے دفعہ وار قانون کی شکل دینا،ہمیں ان مصلحتوں اور رعایتوں سے دستبردار کردیتا ہے۔جو قرآن وحدیث اپنے انداز بیان،طرز استدلال جامعت اور کلام الٰہی ہونے کے ناطے اپنے میں سموئے ہوئے ہے۔
ان خدائی الفاظ میں جو ہمہ گیر یت اور جامعیت پائی جاتی ہے اور جس انداز پر یہ ا پنے مدلول کی وضاحت کرکے دلوں پر اثرآفرینی کا سماں پیدا کر تے ہیں۔وہ صرف اسی کا خاصہ ہے حتیٰ کہ اس کا ترجمہ"کجا یہ کہ اس سے قوانین اخذ کرنا"بھی ان اوصاف کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
نیز علماء اسلام نے اس کلام کو ا پنی محنتوں اور کاوشوں کا اس قدر مرکز بنایا کہ اس کے ایک ایک حرف اور ایک ایک شوشے سے بے شمار مسائل اخذ کیے اور مفہوم قرآنی کی وضاحت کے لیے بیسیوں علم ایجادکرڈالے۔لہذا اس کے احکام کے اگر اس کلام کے اسلوب میں ہی رہنے دیا جائے تو اس کے اصول وقانون میں متعدد وسعتیں اورمصالح ایسی ہیں جو اس کے انداز بیان سے ہی ثابت ہوجاتی ہیں۔حتیٰ کہ ان احکام کی استثنائی صورتیں اور رعایات کی نشان دہی بھی ممکن ہوجاتی ہے۔
لیکن جب یہ چیز مخلوق کے الفاظ میں ڈھل جائے و موقع ومحل کی مناسبت سے قانون جس اطلاق کامتقاضی ہوتا ہے۔اس سے ہمیں ہاتھ دھونا پڑتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ قرآن اورحدیث (وحی الٰہی ) کی طرف سے رجوع کا حکم ہے نہ کہ ان سے ماخوذ احکام کی طرف!
اسی لیے صحیح الفکر علماء کا ہمیشہ یہ طرز عمل رہا ہے کہ خودساختہ قانون سازی تو کجا اسلامی قانون کو بھی اس کےمنبع وماخذ میں ہی رہنے دینا چاہیے۔اور اگر کبھی اس کومرتب ومدون کرنے کی اشد ضرورت بھی پڑے تو ہر قانون کو اس کے اصل ماخذ کے تناظر میں دیکھ کرہی ہمیشہ فیصلہ کرنا چاہیے۔
اس کتابچہ میں جہاں اس نکتہ پر دلائل دیے گئے ہیں وہاں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ "غیر ماانزال اللہ" سے فیصلہ کروانا محض گمراہی اور اللہ کے دین سے بدظنی ہے۔اعاذناللہ منہ۔۔۔اس مضمون متعدد آیات سے اصولی اورتحقیق بحث کرتے ہوئے اپنے اس نقطہ نظر کا موصوف نے اثبات کیا ہے۔درج ذیل آپ کی تصنیف"تحکیم القرآن" کااردو ترجمہ ہے۔یہ کتابچہ ہزاروں کی تعداد میں متعدد مرتبہ اہل خیر حضرات کے تعاون سے شائع ہوچکاہے۔اردو طبقہ کے افادہ کے لیے"مجلس التحقیق اسلامی" کی طرف سے اس کا ترجمہ کیاگیا ہے جو کہ نذر قارئین ہے(ح۔م)
کفر کی عظیم تر اورواضح اقسام میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ خود ساختہ قوانین کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ جبریل علیہ السلام منزل الٰہی اوامرونواہی کے ہم پلہ قرار دے دیا جائے۔جن قوانین کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد سے نازل کیا تھا تاکہ انسانوں کو ان کی زبان میں ہدایت دی جائے۔ان قوانین کی بنیاد پر دو جھگڑا کرنے والوں میں فیصلہ کیا جائے اور باطل کی تردید کے ساتھ ساتھ میزان حق کا کام دے سکیں۔آیت کریمہ ہے:
""فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ""
"کہ اگر تمہارا کسی معاملے میں جھگڑا ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طر لوٹا دو۔اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوکیونکہ یہ بہتر اورانجام کار کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے۔"(سورہ نساء:59)
اللہ تعالیٰ نے ا ُن لوگوں کو ایمان سے خارج قرار دیاہے جو کسی باہمی تنازعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو "حکم" تسلیم نہیں کرتے اور قرآن مجید میں ایمان سے یہ خروج،حروف نفی کی تکرار اورقسم اٹھانے کی بناء پر انتہائی موکد ہے کہ:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورہ نساء:65)
"اے نبی! تیرے رب کی قسم یہ لوگ کبھی ایمان والے نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو اپنے جھگڑوں میں حکم تسلیم نہ کرلیں بایں طور کہ آپ کے فیصلے پر دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اور آپ کے فیصلے کو دل وجان سے تسلیم کرلیں۔"
اس آیت میں اللہ عزوجل نے مجرد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تسلیم کرنا کافی نہیں جانابلکہ ان الفاظ کے ساتھ کھلے دل سےتسلیم کرنے کو بھی مشروط کیا ہے کہ:
ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ "حرج" کے معنی تنگی کے ہیں۔لہذا اس آیت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو بلا کسی دلی قلق واضطراب کے قبول کرنا ایمان کالازمی تقاضاہے۔
مذکورہ بالا آیات میں مزید غور وفکر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اس قدر تاکید بھی مفہوم الٰہی کی کما حقہ وضاحت نہیں کررہی ،بلکہ مقصد کی تکمیل کے لیے آخر میں لفظ تسلیماً کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور تسلیم کے معنی ہیں۔
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح بحد کمال مطاع سمجھنا کہ نفس میں اس کے متعلق کوئی کھٹکا باقی نہ رہے اور انسان دل وجان سے اسکی حقانیت تسلیم کرے"
لہذا معلوم ہوا کہ (وَسَلِّمُوا) کے ساتھ( تَسْلِيمًا) کی قید بھی اس لئے لائی گئی ہے کہ فقط تسلیم کرناکافی نہیں بلکہ"تسلیم مطلق لازمی ہے۔
یہاں تک تودوسری آیت کی مختصراً وضاحت تھی۔اگر پہلی آیت کے مفہوم کا بھی جائز لیاجائے تو اس میں:
اللہ کے فرمان:
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِمیں نکرہ۔ شَيْءٍ ۔۔شرط فَإِن تَنَازَعْتُمْ کے سیاق میں ہے۔جو کہ عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔حاصل یہ ہواکہ تنازع کی کیسی ہی جنس کیوں نہ ہو اس کواللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانالازمی اور حتمی ہے۔مزید برآں ان الفاظ میں دیکھئے کہ اللہ جل شانہ نے کس انداز میں اس کو ایمان باللہ والیوم الاآخرہ کے لیے لازمہ قرار دیا ہے کہ:
إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
پھر ارشاد ہوتا ہے کہذَٰلِكَ خَيْرٌ!!یہی بہتر ہے۔وہ چیز جس پر خدائے عزوجل خیر کا اطلاق فرمادیں اس کا شر ہونا محال ہے اور وہ لازماً خیر ہی ہوسکتا ہے۔
"وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا" کی تاکید بھی یہ بتاتی ہے کہ دنیا اورآخرت میں انجام کے لحاظ سے یہی سب سے بہتر ہے پس(بمطابق وحی الٰہی) "عندالنزاع" غیر رسول کی طرف جانا محض شر۔۔۔اورایسا کرنےوالے کے لیے دنیا وآخرت میں فقط بُرا انجام ہے۔
جب کہ منافقین اسکے برعکس یہ کہہ کر اپنی ذہنی کجی اور خواہشات نفسانی کی ترجمانی کررہے ہیں کہإِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا
"کہ ہمارا تو اس فعل سے نیکی اور حالات کے مطابق چلنے کا ارادہ ہوتا ہے۔"
إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ"بلاشبہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں"
مذکورہ بالا آیات ان تمام لوگوں کے خلاف حجت ہیں جو اسلام میں انسانی قانون سازی کی یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ یہ دورحاضر کی ضرورت ہے۔بخدا یہ فقط شیطان کا ان کی عقلوں کو دھوکا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے(کتاب وسنت) پر صرف بدظنی،ان کے بیان کے ناقص!سمجھنے اور عند التنازع عوام الناس کے لیے ناکافی سمجھنے کے مترادف ہے ۔اوران کے لیے آخرت میں اللہ کی طرف سے صرف اور صرف بُرا انجام ہوگا۔
آیت ثانیہ میں اللہ کے فرمانفِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ میں بھی عموم ہے کیونکہ عربی گرامر میں اسم موصول کابمعہ صلہ آنا عموم کے صیغوں سے ہے اور اس کی عمومیت اجناس وانواع کو شامل ہے ۔جہاں اس میں دنیا کے معاملات(بشمول قانون سازی) آجاتے ہیں۔وہاں کتاب اللہ کی اتباع(کی ہر معاملہ میں لازمی ہونے) کی صراحت بھی ہے۔
مختصراً۔۔۔یہ کہ اللہ کی کتاب"قرآن مجید" ان تمام لوگوں کوایمان سے خارج بتاتی ہے۔جو فیصلہ کے لیے کسی دوسری طرف نظر بھی کرتے ہیں۔سورہ نساء میں ارشاد ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (سورہ نساء:60)
ترجمہ:۔"ان لوگوں میں آپ کی کیا رائے ہے جو اپنے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور گزشتہ انبیاء علیہ السلام و رسل پر نازل شدہ وحی پر ایمان کا تو دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ باہمی نزاعات "طاغوت" سے حل کروائیں۔جبکہ(اللہ عزوجل کی طر ف سے) انہیں طاغوت سے دوری کا حکم دیاگیا ہے۔اور شیطان تو انھیں دور کی گمراہی اور ضلالت میں مبتلا کرناچاہتا ہے۔"
فرمان الٰہی يَزْعُمُونَمیں ان کے دعوائے ایمانی کی تکذیب موجود ہے۔بلاشبہ"غیر الوحی" سے فیصلہ کی خواہش اور ایمان۔۔۔ایک نفس میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے اور یہ دونوں باہم نقیض ہوتے ہوئے ایک د وسرے کی نفی کرتے ہیں۔
لفظ"طاغوت" طغیان بمعنی حد سے متجاوز ہونا۔۔۔سے ماخوذ ہے۔سو ہر وہ شخص جو وحی کے علاوہ کسی اور سے فیصلہ کروائے یا کرے تو درحقیقت وہ طاغوت سے فیصلہ کروانے کامرتکب ہوا ہے بایں وجہ کہ ہر فرد پر صرف اور صرف"بما جاء به النبي"سے فیصلہ کروانا لازمی ہے۔نہ کہ اس کے برعکس!جو شخص بھی اسکے برخلاف کرے گا تو اس کا طغیان شک وشبہ سے بالاتر ہے اور وہ حدود اللہ سے متجاوز ہوگا۔
ان آیات کا ایک ایک لفظ قانون سازوں کے دعوؤں کو باطل ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مقصد اللہ کی مرادکےعین برعکس ہے ۔شرعاً ان آیات سے جو مقصود ہےاور جس بات کا ہمیں پابند بنایاگیا ہے،وہ تو ہے طاغوت سے انکار،نہ کہ طاغوت(غیر الوحی) کو حاکم تسلیم کرلینا!!
" فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ"
"ان ظالم لوگوں نے(اپنے مقصد کےلیے) اللہ کے فرمان کو ہی بدل ڈالا جو کہ انہیں کہا نہ گیا تھا"آیت کریمہ:
"وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا"
کےالفاظ بھی ان کی گمراہی پر کیسی بین دلالت کررہے ہیں۔غورفرمائیے کہ آیت کی اس وضاحت کے باوجود کہ شیطانی ارادہ بھی یہی ہے،یہ قانون ساز اپنے طرز عمل کو موجب ہدایت سمجھتے ہیں اور اس زعمکے ساتھ اپنے آپ کو شیطانی راستوں سے دور سمجھتے ہیں کہ اس میں ہی انسان کی فلاح ہے۔"
افسوس کہ شیطانی مقصد کی تکمیل کو یہ لوگ انسانی فلاح اور رحمانی مراد سمجھ رہے ہیں۔بخدا آل عدنان کےسردار صلی اللہ علیہ وسلم سید المرسلین اس لیے مبعوث نہیں کیے گئے تھے کہ ان کے پیروکار ان کے بعد ان کی دی ہوئی ہدایت ورہنمائی کو پس پشت ڈال دیں۔لہذا اللہ تعالیٰ بھی اس قبیل کے نظریات کا انکار کر تے ہوئے ان کو امور جاہلیت پر استمرار قرار دیتے ہوئے اور یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ"اللہ کے سواکوئی بہترین حکم دینے والا نہیں"فرماتے کہ:
"أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ "
"کیا یہ دور جاہلیت کا حکم تلاش کرتے ہیں اور یقین رکھنے والی قوم کے لیے اللہ کے سوا کوئی بلحاظ حکم بہترین نہیں ہے۔"
اس آیت کے معانی میں غور فرمایئے کہ اس بات پر کیسی صاف اور واضح دلالت کررہی ہے کہ حکم کی یہ تقسیم فقط تثویب اور اللہ کے احکام کے بعد بھی امور جاہلیت پر استمرار ہے ۔یہ آیت واضح کررہی ہے کہ یہ لوگ اہل جاہلیت کے زمرے میں ہیں۔چاہےتو انکار کردیں اور چاہیں تو جاہلیت پر رہیں ۔بلکہ اگر یہ اسی طرز عمل پر مصر رہتے ہیں تو یہ اپنی دلیل کے لحاظ سے زیادہ جھوٹے اور اپنے طورطریقے کے اعتبار سے ان(اہل جاہلیت) سے بھی بدتر ہیں۔کیونکہ ان کے لیے تو دور جاہلیت میں ان کے جاہلی احکام کے متبادل کوئی بہتر شے بھی سامنے نہ تھی جس کو وہ اختیار کرکے فلاح کادامن تھامتے۔جبکہ یہ توفقط قانون سازوں کی بدقسمتی ہے کہ خدائی پیغام اور منزلہ احکام کی موجودگی میں خود بھی اس سے محروم ہوتے ہوئے عوام کو بھی ناکام ونامراد کرنا چاہتے ہیں۔
بلاشبہ الٰہی قوانین کی موجودگی میں انکو ناکافی سمجھتے ہوئے قانون سازی کا یہ طرزعمل اپنانا تناقض کاآئینہ دار ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ نبی اکرم اور کتاب الٰہی پرایمان کے دعوے دار ہیں د وسری طرف ان میں موجود احکام سے پہلوتہی برتتےہوئے کو ئی درمیانی راستہ نکالنے میں کوشاں ہیں۔اورایسا طرز فکر اور رویہ رکھنے والوں کے بارے میں ہی اللہ کا یہ فرمان ہے:
" أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا "
"یہی لوگ پکے اور سچے کافر ہیں اور کفار کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب تیار کررکھا ہے۔"
توجہ کریں کہ آیت ان کے ذہنی فریب اوراپنے آپ کو دھوکہ دینے کاان الفاظ کے ساتھ کس طرح پردہ چاک کرتی ہے:
"وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ"
"کہ یقین رکھنے والی قوم کے لیے اللہ کے علاوہ کوئی بہترین حکم دینے والا نہیں ۔"
یہاں یقین رکھنے والوں کی شرط خصوصی طور پر ذکر اس لئے کی گئی ہے کہ اللہ کے حکم پر مطمئن ہوجانا اور اسے کافی سمجھنا صاحب ایمان لوگوں کی ہی علامت ہے ۔جو لوگ پختہ ارادہ اورذات باری تعالیٰ پر مکمل یقین سے متصف نہیں،وہی وحی الٰہی کو حکم سمجھتے،
(نوٹ:پانچ لائنیں پی ڈی ایف کے صفحہ نمبر143 پر مٹی ہوئی ہیں)
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے۔کہ تاتاریوں پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے سیاسی امور میں ان قوانین پر عمل کرناشروع کردیا جن کو ان کے سردار چنگیز خان نے یہودی،عیسائی،اوراسلامی شریعتوں سے اخذ کرکے ایک کتاب کی صورت میں مدون کردیاتھا۔اس خود ساختہ قانون میں بے شمار احکام ایسے تھے جن کی بنیاد خواہشات اور انسانی غوروفکر تھا۔بعدازاں یہ قوانین اس کے متبعین کے لیے شرعی کے درجہ پر فائز ہوگئے۔جن کو وہ کتاب اللہ اور سنت مقدسہ علی صاحبا الصلواۃ والسلام پر مقدم رکھتے تھے۔جو کہ عین غیر اسلامی رویہ تھا۔لہذا جو بھی اس رویے اور طرز عمل کو اپنائے گا توایسا شخص بلاشبہ کافر اورواجب القتل ہوگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ"
"کیا یہ جاہلیت کے احکام چاہتے ہوئےاللہ کے احکام سے منہ پھیرتے ہیں جب کہ اس شخص کے لئے اللہ سے بہتر کوئی حکم دینے والا نہیں جس نے اللہ کی شریعت کو تھاما اور ایمان ویقین سے متصف ہوا،اور اس نے جان لیا کہ اللہ ہی احکام الحاکمین اور والدہ سے زیادہ اپنی مخلوق پر شفقت کرنے والا ہے۔اللہ ہرشےپر قادر علم رکھنے والا اورتمام مخلوق میں انصاف کرنے والا ہے۔"
قبل ازیں اللہ جل وعلانےنبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایاکہ"آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مابین اللہ کی طرف سے نازل شدہ(شریعت)کے ذریعے فیصلہ کریں اور حق کے آچکنے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔(سورہ مائدہ:48) مزید خطاب ہوا کہ
"آپ ان کے مابین اس سے فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور ان کی خواہشات کی تابعداری نہ کریں اور اس بات سےبچے رہیں کہ یہ منزل من اللہ میں فتنہ بپا کردیں گے۔(سورہ مائدہ:49)
اللہ تعالیٰ نے یہود کے مابین فیصلہ کرنے یانہ کرنے کا آپ کو اختیار دیتے ہوئے فرمایاکہ:
"اگر یہود آ پ کے پاس فیصلہ کروانے کی نیت سے آئیں تو آپ کو فیصلہ کردینے یا
(نوٹ:پی ڈیف صفحہ نمبر 144 کی آخری لائنیں مٹی ہوئی ہیں)
اگر آپ اعراض کریں گے تو وہ ہرگز آپ کو نقصان نہیں پہنچاسکتے اور اگر فیصلہ فرمائیں گے تو عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔"
قسط عدل کے معنی دیتاہے اور حقیق عدل یہی ہے کہ حکم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہو۔ان کے علاوہ کا حکم ظلم وزیادتی کفروگمراہی اور فسق وفجور کےعلاوہ کچھ نہیں ۔اسی لیے بعد میں یہ بھی کہا گیا:
" وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ "
" وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ "
" وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ "
کہ جو(بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ ) سے فیصلہ نہ کرے تو یہی لوگ کافر ہیں۔۔۔ظالم ہیں۔۔۔اوریہی لوگ فاسق ہیں۔!
ملاحظہ کیجئے کہ کس طور اللہ جل شانہ نے غیر اللہ کے ساتھ فیصلہ کرنے والوں کو کافر،ظالم اورفاسق ہونے سےتعبیر کیا ہے اور یہ محال ہے کہ خدائے باری تعالیٰ کسی کو کافر کہیں اور وہ کافر نہ ہو۔بلاشبہ مطلقاً کافر ہے اور کفر عملی واعتقادی دونوں اس میں پائے جاتے ہیں۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں(بروایت طاؤس وغیرہ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمنقول ہے کہ"حاکم بغیر اللہ" پر کفر کی ہر دو قسم کا اطلاق ہے یا تو کفر اعتقادی ہے، جو ملت سے خروج کاموجب ہے وگرنہ کفر عملی کا مرتکب ہے جو اسلام سے خروج کو لازمی نہیں کرتا۔
کفر اعتقادی کی متعدد اقسام ہیں جن میں پہلی صورت یہ ہے کہ۔۔۔غیر ماانزل اللہ سے فیصلہ کرنے والا اللہ اور رسول کے حکم کے حق ہونے کا ہی انکار کردے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جوروایت ہے اس کا بھی یہ مفہوم ہے اوراسی کو ہی ابن جریر نےاختیار کیا ہے کہ یہ اللہ کی شریعت کے انکار کو مستلزم ہے۔اہل علم کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں اور متفق علیہ اصولوں کی روشنی میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جو شخص دین کی کسی اصل یامتفق علیہ فرع کا انکار کرے یاجو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اسکے کسی ایک حرف کا بھی انکار کرے تو وہ ایسا کافر ہے جو خارج عن الملہ ہے۔
دوسری صورت یہ ہے۔۔۔کہ غیرما انزل اللہ" سے فیصلہ کرنے والا حکم الٰہی کےحق ہونے کاتو منکر نہ ہو لیکن وہ غیراللہ کےحکم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم سے مطلقاً احسن،اکمل اور تنازعات میں زیادہ جامع فیصلہ کرنے والا گردانتا ہویاپھر جدید پیش آمدہ مسائل کی نسبت سے زیادہ بہتر سمجھتا ہو جو کہ حوادث زمانہ اور تغیراحوال کے باعث وقوع پزیزہوئے ہیں۔تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی کفر ہے۔کیونکہ اس صورت میں مخلوق کے فیصلوں کو(جوذہانت کی) وسعت اورعقلوں کی کاوش سے وجود میں آئے ہیں) عظیم صاحب حکمت اور بزرگ وبرترہستی کے فیصلوں پر فوقیت دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اللہ عزوجل کا فیصلہ اور حکم ۔۔۔اختلاف زمان،تبدیلی حالات اور جدید پیش آمدہ مسائل کی وجہ سے کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتا۔اور اسلام کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایسامعاملہ نہیں جو وقوع پزیر ہوتو ہونے والا ہو لیکن کتاب وسنت میں واضح یااشاراتی الفاظ میں اس کا فیصلہ نہ مل سکے۔جس آدمی نے اس نکتے کا ادراک کرلیا تو یہ اس کی خوش قسمتی اور جو ا پنی بدنصیبی کے باعث اس کو سمجھ نہ سکے تو اس کی جہالت کاوبال اسی پر ہے۔جہاں تک تبدیلی حالات وواقعات میں فتویٰ کی تبدیلی کا تعلق ہے۔تو اس سے علماء کی مراد وہ نہیں جو کم عقل،احکام اور ان کی وجوہات سےناواقف لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ نفسانی خواہشات،غلط دنیاوی اغراض وتصورات کے جو فیصلہ قریب تر ہوتو اس کا فیصلہ دے دیاجائے اور آئندہ اگر کوئی دلی میلان یاخواہش دوسرے فیصلہ سے پوری ہورہی تب اس کو اختیار کرلیاجائے۔اسی غلط مراد کو اخذ کرنے کانتیجہ یہ ہے کہ یہ صورتحال اب عام ہوچکی ہے کہ پہلےخواہشات اور مقاصد متعین کرلیے جاتے ہیں بعدازاں نصوص کومن مانی تاویلات کے ساتھ موڑ توڑ کراپنے مقاصد کی تائید میں پیش کردیا جاتا ہے اور اس میں جہاں تک ممکن ہو نصوص میں تحریف و تاویل سے بھی کام نکالا جاتا ہے۔
تغیر زمان واحکامات اور حوادث زمانہ کے باعث فتویٰ میں جو تغیر ہوتا ہے علماء کی اس سے مراد در حقیقت یہ ہے کہ ہر واقعہ میں اس شے کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ کونسا فتویٰ ایسا ہے جو اصول شرعیہ ،وجوہات،معتبرہ،اور مصالح دینیہ کے زیادہ قرس قیاس ہے اور دینی مقاصد کی زیادہ پاسداری کرتا ہے۔جبکہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ارباب قوانین صیغہ اس راہ اور منہج سے ہٹ کر فقط وہی فیصلہ دیتےہیں۔جو ان کے ارادے اورخواہش کے قریب تر ہو۔عدالتوں میں بھی عملاً ایسے ہی ہوتا ہے اور متعدد وواقعات اس پر شاہد عدل ہیں۔
اعتقادی کفر کی تیسری قسم یہ ہے کہ خود ساختہ قوانین کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین کےاحسن سمجھنے کا اعتقاد تو نہ رکھا جائے۔لیکن دونوں کو یکساں باور کیاجائے۔تو یہ صورت بھی ایسے کفر کے مرتکب ہونے میں پہلی دو کے مساوی ہے جو کہ اس کے ملت سے خروج کا سبب ہے کیونکہ ایسا عقیدہ خالق ومخلوق کے مابین مساوات کا متقاضی کرتاہے اور یہ برابری واضح اور صریح طور پر اس قول ربانی(اور دیگر اس کی ہم معنی آیات)کے خلاف ہے کہ:
"لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ "
یعنی"اسکے مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔یہ آیت اور اس جیسی دیگر بےشمارآ یات فقط رب کے اکمل ہونے نقائص سے منزہ ہونے اور ذاتی ،صفاتی وفعلی لحاظ سے اس کو مخلوق کی مشابہت سے ماروا سمجھنے پر دلالت کرتی ہیں۔اس کےساتھ ساتھ مخلوق کے مابین فیصلہ کرنے میں بھی صرف رب کو ہی حکم بتاتی ہیں۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے احکامات کو "غیر ماانزل اللہ" کے مساوی بھی نہ سمجھے۔چہ جائیکہ وہ ان خود ساختہ قوانین کی افضلیت کاعقیدہ رکھنے والا ہو۔لیکن وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےواضح احکامات کے باوجود مخلوق سے فیصلہ لینے کو جائز گردانتا ہو تو ایسا شخص بھی انہی وعیدوں کاحق دار ہے۔جس پر اس کے پیش روصادق آئے جس کی وجہ سے یہ ہے کہ نصوص صحیحہ بصراحت اس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ"غیر ماانزل اللہ" سے فیصلہ کرنا حرام ہے جب کہ یہ شخص اس کے جواز کا اعتقاد رکھتاہے۔
کفر اعتقادی کی پانچویں قسم ایسی ہے جو کہ سب سے زیادہ منشائے شریعت کے خلاف اور دین سے کھلم کھلا بغاوت کا اظہار ہے اور احکام الٰہی سے خود سری اس کی بنیاد ہے اور وہ یہ ہے کہ عین شرعی عدالتوں کے مساوی ایسی عدالتیں قائم کی جائیں جن کاقانون مختلف شریعتوں سے اخذ شدہ اور مختلف ممالک مثلا فرانس،برطانیہ،امریکہ وغیرہ کے قوانین سے ماخوذ ہو اور اس قانون میں ایسے گروہوں اور جماعتوں کے قوانین سے بھی مدد لی گئی ہو،جو اپنے آپ کو شریعت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں باقاعدہ نظام کے تحت ایسی عدالتوں کو وجود میں لانا جو ہر اعتبار سے شرعی عدالتوں کے ہم پلہ ہوں۔جس طرح عدالت شرعی کی تشکیل،نوع بندی اور قوت نافذہ ہوتی ہے بعینہ اسی طرز پر انسانی خود ساختہ قوانین کی عدالتیں قائم کردی جائیں اورجس طرح شرعی عدالتوں کے مراجع ومصادر احکام(جو کہ فقط کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوتے ہیں۔اسی طرح ان کے بھی باقاعدہ مصادر ہوں جن میں سے چندایک اوپرذکر کیے گئے ہیں۔
موجودہ دور میں عالم اسلام میں اس طرح کی مکمل ہیت وصورت پانے والی مستقل عدالتیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔جن میں عوامی فیصلے ہوتےہیں اور لوگ غیر مسلموں کی دیکھا دیکھی ان کے تحت اپنے فیصلے کرواتے ہیں،ان عدالتوں میں جج حضرات اپنے قانون کے مطابق خلاف شریعت فیصلے صادر کرتے ہیں۔اور ان فیصلوں کی پیروی کی جاتی ہے ان کو مانا اور اپنی زندگیوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔
اس سے بڑھ کر کفر کیا ہوسکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننے اور واحد مُطاع ہونے کی گواہی کے ساتھ ساتھ یہ تمام کام برضا ورغبت انجام دیاجائے۔اس سے بڑا نفاق اور قول وعمل کاتضاد اور کیا ہوگا؟ایسے تمام اصحاب اس کے باوجود بڑے فخر سے اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں جب کہ قرآن وسنت میں اس طرز عمل کی حرمت سے متعلق ان مذکورہ بالادلائل کے علاوہ بے شمار اور ان گنت دلائل ہیں جو اصحاب علم میں معروف اور لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔جن کے تفصیلی ذکر کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہوسکتا۔
اے صاحب بصیرت اورعقل وفہم سے آراستہ مسلمانو! تمہاراضمیرتمھیں اس بات کی کیسے اجازت دیتا ہے کہ تم پر تم سے بھی کم تر انسانوں کے احکام وافکار مسلط کردیے جائیں جن کےفیصلوں میں غلطی کا امکان موجود ہے۔بلکہ صحیح کے مقابلوں میں غلطیوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔بلاشبہ اسلامی عقیدہ تو یہ ہے کہ کوئی قانون بھی اس وقت تک کامل اور صحیح نہیں ہوسکتا جب تک اللہ کی شریعت اور احکام سے اس میں مدد نہ لی جائے۔تم کیسے گوارا کرتے ہو کہ تمہارے اموال جانوں اور اولاد میں فیصلوں کا حق غیر کے پاس ہو۔تمہاری عزتیں اور تمہاری بہن ،بیٹیوں اور بیویوں کے فیصلے غیر کے قانون کے زیر سایہ ہوں۔ کیاتم نے انھیں کھلا حق دے رکھا ہے کہ تمہارے جملہ حقوق رہن سہن اور تمہارے طور طریقوں میں تم جیسے انسان ہی من مانے فیصلے کرتے پھریں ،اللہ کے قوانین کے برعکس! اور تم اس اللہ بزرگ وبرتر کے قوانین کو پس پشت ڈال دو جس نے تمھیں پیدا کیا اور وہی تمہاری بہتری کو سب سے زیادہ سمجھنے والا ہے ۔جس کے احکامات میں غلطی کاکوئی امکان نہیں اور جس میں باطل کاشائبہ تک نہیں(باطل کو پر مارنے کی ان میں مجال نہیں) وہ احکام تو اس مقدس ہستی کے نازل کیے ہوئے ہیں جو تعریف کی ہوئی اور حکمت ودانائی سےبھر پور ہے۔
انسانوں کااللہ کے سامنے اس کے قوانین کے آگے سر تسلیم خم کرنا تو عین عبادت برحق ہے۔کیونکہ ان کی تخلیق کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک کے مطیع ہوں اور اس کی عبادت کرتے ہوئے مخلوق کی فرمانبرداری کے مرتکب نہ ہوں۔
اسی لیے لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ پیروی،تابعداری اور اطاعت فقط اس رب کے احکامات کی کریں جو کہ علم وحکمت والا اور شفقت ورحم سے متصف ہے۔نہ کہ اس کی مخلوق کی جو کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والی اور ایسی جہالت کی حامل ہے۔جس میں اس کے شکوک وشبہات اور خواہشات اس کو ہلاک کرسکتے ہیں اور یہ کم علمی ان پر غفلت کے پردے ظلمات کی اندھیر تاریکیاں اور دلوں کی شقاوت مسلط کرسکتی ہے۔
پس سمجھ دار صاحب فہم وفراست اصحاب کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اپنے جیسوں کی اطاعت وبندگی سے بچائیں اور اس حکم کو قبول کرنے سے پرہیز کریں جو خواہشات اور اغراض نفسانی کا حاصل ہے۔غلطیوں اور خطاؤں کا مجموعہ ہے اور فقط انسانی مشاہدہ وتجربہ کی پیداوار ہے۔
اور ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ قانون خود ساختہ۔۔۔قرآن کے ان واضح الفاظ کی صراحت سے "کفر" کے ہم پلہ ہے کہ:
"وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ "
جو لوگ ماانزل اللہ کے ساتھ فیصلے نہیں کرتے تو بلاشبہ ہو کافر ہیں۔ہمیں چاہیے کہ مروجہ عدالتی نظام سے چھٹکارا پاتے ہوئے اپنے آپ کومسلمان کہلانے کا حق اداکریں۔غیر مسلموں کی غلامی سے جہاں اپنے آپ کو نکالیں وہاں ان کے فکری تسلط اور غلبہ سے بھی مسلمانوں کو نجات دلوائیں۔
اعتقادی کفر کی چھٹی اور آخری قسم یہ ہے کہ ان روایات اور لگے بندھے اصولوں سے فیصلہ کئے جائیں جو کسی قبیلہ کی روایات کےطور پر یا امراء وروساء کےطرز عمل اور عادات کے طور پر معروف ہوں۔یعنی اپنے آباؤاجداد اور ان کی عادات واطوار(جو کہ "سلومہم" کے نام سے معروف ہیں اور ان تک موروثی طور تک پہنچی ہیں) کو فیصلے میں اثر انداز کیا جائے اور نزاعات میں ان کو حاکم مانا جائے۔تو یہ انداز بھی جاہلیت کےاطوار پر بقاء واستمرار اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے اعراض اور بے رغبتی کےمترادف ہے بایں ہمہ وجہ یہ بھی حرام ہے۔
مختصراً۔۔۔مذکورہ بالا اقسام اور ان کی وضاحت سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ ہماری بہتری فلاح اور خیر،فقط ہمارے خالق کے نازل کردہ قانون میں ہے۔جو جہاں نقائص وعیوب سے(اللہ وحدہ لاشریک سے منسوب ہونے کی وجہ سے) منزہ ہے۔وہاں فطرت سے قریب تر اور فیصلوں میں معتدل طرز عمل کا حامل ہے۔مسلمانوں اورتمام دنیا کی بھلائی کا دارومدار صرف اور صرف قانون الٰہی پر عمل کرنے سے ہی ہے۔قرآن کی شہادت کافی ہے کہ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا اور ان تمام سے بڑھ کر کہ غیر اللہ سے فیصلہ کروانا دین سے اخراج اور اللہ کی نافرمانی پر منتج ہوتا ہے۔شیطان کےمکروفریب اور گناہ سےبچنے کی قوت فقط اللہ کی نصرت سے ہی ممکن ہے اور نصرت کی ہی ایک صورت یہ ہے۔ کہ جرائم ومسائل پر قابو پانے کےلیے اللہ نے خود قانون نازل کردیا،تاکہ لوگ شیطان کی پیدا کردہ گمراہی سے دور رہ سکیں۔
غیر ماانزل اللہ سے فیصلہ کرنیوالوں کے کفر کی دوسری قسم ہے کفر عملی اس کفر کا مرتکب دین وملت سے خارج نہیں ہوتا۔جہاں تک اس آیت کاتعلق ہے۔
"وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ "
تو اس کفر کی وضاحت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول میں یوں گزر چکی ہے کہ ایسا شخص یاتو کفر اعتقادی کامرتکب ہے۔ وگرنہ کفر عملی کاحامل ہے۔یہاں ہم اس آیت کی دلالت کو دوسری قسم پر محمول کریں گے کہ یہ اس کفر عملی کا مرتکب ہے جو کفر صغیر(کفر دون کفر) کے معنی میں ہے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہی ایک د وسرے قول میں ہے کہ یہ وہ کفر نہیں جس کی طرف مسلمان قتال کے لیے جاتے ہیں اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی خواہشات اور آرزوں کے زیر اثر غیر ماانزل اللہ سے فیصلہ کروائے باوجود اس کے کہ اس کا اعتقاد یہی ہوکہ حکم اور فیصلہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی زیادہ بہتر ہے۔اور وہ شخص حق کےترک پر ا پنے آپ کو ملامت کرنے والا ہو،اور اپنے نفس کی خطاء کا بھی اعتراف کرتا ہو۔
کفر کی یہ صورت اگرچہ اس کو ملت سے تو خارج نہیں کرتی لیکن یہ بڑے بڑے گناہوں(جیسے زناء،شراب،چوری اورجھوٹی قسم) میں سے سب سے بڑے گناہ اور معصیت کا ارتکاب ہے۔اوریہ ایسی معصیت ہے جس کو اللہ جل شانہ نے اپنی کتاب میں "کفر" سے موسوم کیا ہے اور کسی گناہ کو کفر سے تعبیر کرنا اس کو ان تمام گناہوں سے بڑھا دیتی ہے۔جن کو کفر سے تعبیر نہیں کیا گیا۔
آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ سب مسلمانوں کو اپنی کتاب سے برجا ورغبت فیصلہ کرنے پر اکھٹا فرمائے۔بلاشبہ وہی کارساز اور اس پر قادر ہے۔آمین!