عقیدہ سے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ کے مجمل اصول

ڈاکٹر ناصر بن عبد الکریم العقل حفظہ اللہ کی شخصیت بلاد عرب میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔آں محترم عقیدہ پر تخصیص کی حیثیت سے خاصے معروف ہیں ۔بلا شبہ اس موضوع پر پوری بصیرت رکھتے ہیں ۔کئی کتب کے مؤلف اور محقق بھی ہیں ۔

پیش نظر کتابچہ بھی آپ کی مشہور تصنیف کا اردو ترجمہ ہے جو کہ اہل السنت والجماعت کے عقائد سے متعلق ہیں ۔مؤلف کے بقول "اسلاف کے بنیادی عقائد کے اصول و قواعد کو سلیس عبارت اور واضح اسلوب بیان کی صورت میں پیش کرنے کی ضرورت اور بہت سے قارئین (عوام و طلباء دونوں) کی خواہش واصرار پراسے مرتب کیا گیا ہے۔ اس کی ترتیب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ آئمہ سے ماثور شرح الفاظ کابقدر امکان التزام کیا جائے ۔"

یہ کتابچہ موضوع بحث کی تفصیلات،تعاریف دلائل ،اسماء ونقول اور حواشی ،جو کہ بعض اوقات ضروری بھی ہو تے ہیں ۔سے یکسر خالی ہے تاکہ ایک عام قاری کے لیے ان مباحث کو سمجھنا بارگراں ثابت نہ ہو۔۔میری خواہش تھی کہ اس مختصر کتابچہ میں تمام ضروری مواد سماجائے ۔لہٰذا یہ کتابچہ اس راہ میں تخصیص کرنے والے دوسرے اصحاب قلم و تحقیق کے لیے ایک نشان راہ اور خاکہ کی حیثیت کا حامل ہو گا ،ان شاء اللہ تعا لیٰ ۔

جن چار علماء نے اس کتاب پر نظر ثانی کی ہے (یعنی شیخ عبد الرحمٰن البراک ،شیخ ڈاکٹرحمزہ الفعر،شیخ عبد اللہ بن محمد الغنیمان اور شیخ ڈاکٹر سفر بن عبد الرحمٰن الحوالی حفظہ اللہ ) وہ بھی عقائد کے متعلق انتہائی جید اور مشہور عرب اساتذہ میں شمار کئے جاتے ہیں ۔لہٰذا کتاب ہذا کی صحت ،اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔

فرقہ ناجیہ کے عقائد کے چند منتخب مباحث کے متعلق ڈاکٹر صاحب کا یہ رسالہ اگرچہ مختصر ہے لیکن" بقامت کہتر و بقیمت بہتر" کا مصداق ہے چنانچہ اردوداں طبقہ کے استفادہ نیز منہج اہل السنت والجماعت کی خدمت کے پیش نظر اس کتابچہ کو اردو قالب میں پیش کیا جا رہا ہے۔

دعاہے کہ اللہ عزوجل ہم سب کو صحیح دینی عقیدہ کی دولت سے نوازے ہمارے درمیان داعیان حق کی تعداد میں اضافہ فرما ئے۔مسلمانوں کے ارباب حل و عقد نیز علماء کو جملہ اسباب شرک کے ازالہ اور اصلاح عقائد کے لیے جہدوسعی کرنے کی تو فیق عطا فرمائے،مؤلف کتاب اورمترجم کی اس کو شش کو شرف قبولیت بخشے اور خالص ایمان پر ہم سب کا خاتمہ بالخیر عطا فرمائے ،آمین بلا شبہ اللہ تعا لیٰ بڑاسننے والا نہایت قریب ہے۔

طالب الدعوت

غازی عزیر

لغوی اعتبار سے "عقیدہ" ،"عقد" سے مشتق ہے جو عہد وپیمان ،توثیق احکام اور سختی کے ساتھ ارتباط یعنی جڑجانے سے عبارت ہے۔

اصطلاحاًاس کے معنی یہ ہیں کہ ایسا پختہ ایمان جس میں معتقد کو کسی شک و شبہ کی کو ئی گنجائش باقی نہ رہے۔

اسلامی عقیدہ کا مطلب:۔

اقرار تو حید واطاعت کی مستحق ذات یعنی اللہ تعالیٰ پر اس کے فرشتوں پر اس کی طرف سے نازل کردہ کتابوں پر اس کے بھیجے گئے رسولوں پر آخرت کے دن پر ،قضاء قدرپر،تمام ثابت شدہ غیبی امور پر اور تمام اخبار واحادیث اور قطعیات پر ۔۔۔خواہ علمی ہوں یا عملی ،پختہ مکمل اور غیر متزلزل ایمان لانا۔

سلف:

امت مسلمہ میں سے صحابہ کرام تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین اور باسعادت وبافضیلت اولین دور (قرون ثلاثہ) کے ہدایت یافتہ تمام آئمہ کو "اسلاف"میں شمار کیا جا تا ہے"اسلاف"س،"سلف "کی جمع ہے جن لوگوں نے ان"اسلاف " کی پیروی کی اور ان کے ہی نقوش قدم پر چلے ۔ہر دور میں ان کو اسی نسبت سے "سلفی"کہا جاتا رہا ہے۔

اہل السنت والجماعت :۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس راستہ کو اختیار کیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین چلے اور قائم تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع اور اس کے ساتھ تمسک یعنی چمٹے رہنے کی وجہ سے ان کو "اہلسنت" کہا گیا اور "والجماعت "اس لیے کہ وہ لوگ حق پر جمع ہوئے ۔دین کے معاملہ میں کسی تفرقہ میں نہ پڑے آئمہ حق پر انھوں نے اجتماع کیا۔ ان سے خروج کو کسی طرح درست نہ سمجھا اوراسلاف امت کی اجماع کی اتباع بھی کی۔

چونکہ یہ لو گ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے والے اور آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر پروانہ وار نثار ہو نے والے ہیں ۔لہٰذا ان کو "اہل حدیث"،"اہل الاثر"اور "اہل الاتباع " کے القاب سے یاد کیا جا تا ہے اسی گروہ کو" الطائفہ المنصورۃ "اور"افرقہ الناجیہ " کے نام سے بھی پکار ا گیا ہے۔

"ماخذ عقیدہ کے متعلق چند اصول وقواعد اور استدلال "

1۔بلاشبہ قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت اور سلف وصالحین کا اجماع عقیدہ کے مصادر ہیں ۔

2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر صحیح اور ثابت سنت کا قبول کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے خواہ وہ بطریق آحادہی کیوں نہ مروی ہو۔

3۔قرآن و سنت کے معانی کے تعین کے سلسلے میں واضح نصوص سلف صالحین نیز ان کے راستہ پر چلنے والے آئمہ ہدایت کے فہم کو ہی مرجع قرار دیا جائے گا۔محض لغوی احتمالات کے باعث اس ثابت شدہ مفہوم کی مخالفت نہ کی جا ئے گی۔

4۔دین کے تمام اصول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ہی نہایت واضح طور پر بیان فرما دئیےتھے۔لہٰذا کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے اور اسے دین کا جزو سمجھے ۔

5۔اللہ تعا لیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو ظاہری وباطنی طور پر برضاورغبت اس طرح تسلیم کرنا کہ شخصی قیاس ،انسانی ذوق کشف و الہام اور کسی بزرگ یا ایام یا فقیہ کے قول وغیرہ میں سے کو ئی چیز بھی کتاب اللہ اور صحیح سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

6۔عقل صریح ہمیشہ نقل صحیح(صحیح حدیث) کے موافق ہی ہوتی ہے۔یہ ناممکن ہے کہ کتاب و سنت جیسی دوقطعی چیزوں میں باہم کبھی کو ئی تعارض یا اختلاف پایا جا ئے لہٰذا اگر کسی مقام پر تعارض کا وہم ہوتو وہاں عقل کو نہیں بلکہ نقل (یعنی حدیث) کو ترجیح دی جا ئے گی۔

7۔عقیدہ کے متعلق شرعی الفاظ کا التزام و اہتمام ہی ضروری ہے اس سلسلہ میں بدعی اور خود ساختہ الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے جو مجمل الفاظ خطاء وصواب دونوں معانی کے محتمل ہوں ان کے معانی کے بارے میں تحقیق واستفسار کیا جا ئے اور ان معانی میں سے جو معنی شرعی لفظ کے ساتھ ثابت ہوں وہی حق ہے۔پس اسے بلاتر دو قبول کیا جائے اور جو معنی باطل ہواسے رد کر دیا جا ئے۔

8۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت (یعنی لغزشوں اور خطاؤں سے پاک ہونا) قطعی طور پر ثابت ہے۔ امت مسلمہ بھی بحیثیت مجموعی گمراہی پر اتفاق کر لینے سے معصوم ہے۔ جہاں تک امت کے افراد کا تعلق ہے تو کوئی فرد بھی انفرادی طور پر معصوم نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی دینی معاملہ میں آئمہ وغیرہ کے مابین کو ئی اختلاف پایا جائے تو ایسی صورت میں رہنمائی کے لیے صرف کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہیےاور جو قول پر مبنی برخطاء ہواسےمجتہد امت کی اجتہادی خطاء پر محمول کرنا چاہیے۔

9۔امت میں بہت سے پابند شریعت متقی اور اللہ کے برگزیدہ بندے ایسے بھی ہو تے ہیں کہ گاہے بگا ہےاللہ تعالیٰ ان کو بعض چیزوں کا الہام فرمادیتا ہے۔رویا ءصالحہ بھی برحق ہیں اور ان کا شمار اجزاء نبوت میں ہو تا ہے۔اسی طرح فراست صادقہ بھی برحق ہے اور اس کا تعلق کرامات و مبشرات سے ہےبشرطیکہ وہ شریعت سے مطابقت رکھتی ہو۔ لیکن ان چیزوں کو عقیدہ یا شریعت سازی کے لیے ہر گز مصدرو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ہے۔

10۔دین کے معاملہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنا یا جھگڑنا قابل مذمت ہےلیکن شائستگی کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنا مشروع ہے۔ دینی احکام کی وجوہ وغیرہ کی کھوج لگانا بھی درست نہیں ہے بلکہ فقط ان کی اطاعت ضروری ہے۔انسان کو جن چیزوں کا علم نہیں دیا گیا ہے ان کے بارے میں غور و حوض سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہیے اور ان امور کے علم کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپرد کردینا چا ہیے۔

11۔جس طرح اعتقاد و تقریر کے متعلق منہج وحی کو اپنانا لا زم ہے،اسی طرح کسی برائی کو رد کرنے کے بارے میں بھی وحی کے طریقہ کو ہی اپنانا لا زم ہے چنانچہ ایک بدعت کو کسی دوسری بدعت سے رد نہیں کیا جا ئے گا اور نہ ہی غلو کے مقابلہ میں افراط و تفریط سے یا اس کے بر عکس کو ئی کا م لیا جائے گا۔

12۔دین میں ہر نو ایجاد بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔

اعتقادی توحید کا علمی پہلو

1۔اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ اور صفات کی حقیقت :الفاظ نصوص کے معانی اور اس کے مدلول پر ایمان کےساتھ اللہ تعالیٰ کے جو نام اور صفات خوداللہ عزوجل کی اپنی نازل کردہ کتاب یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں ان سب کامماثلت ومشابہت اور بلا قیاس کیفیت،اثبات کرنا اور تمام نقائص وعیوب کے ساتھ جن چیزوں کی اللہ تعالیٰ نے خود یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرمائی ہے بلاتحریف وتعطیل ان سب کا انکار کرناجیسا کہ اللہ عزوجل کاارشاد ہے:

" لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ"(الشوریٰ:11)

" اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے والا ہے"

2۔اللہ عزوجل کے اسماء اور صفات کے متعلق کسی قسم کی مماثلت ومشابہت یا تعطیل کفر ہے۔اور تحریف کے جسے بدعتی لوگ"تاویل" کہتے ہیں میں کچھ تحریفات مبینہ،موجب کفر ہوتی ہیں مثال کے طور پر باطنی تاویلات۔کچھ تحریفات گمراہی وبدعات کی موجب بنتی ہیں۔مثال کے طور پر بعض صفات کی انکاری تاویلات۔۔۔اور کچھ تحریفات مبنی برخطا ہوتی ہیں۔

3۔وحدت الوجود(فنافی اللہ) کا نظریہ اور یہ اعتقاد کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کس شئی کے اندرحلول کرجاتا ہے یا اس کے ساتھ متحد ہوجاتاہے۔صریح کفر کی باتیں ہیں۔

4۔فرشتوں پر اجمالی طور پر ایمان رکھنا۔جہاں تک ان کے ناموں صفات اور مضوضہ کاموں کی نوعیت اورتفصیلات کا تعلق ہے تو اس ضمن میں صرف انہی چیزوں پر ایمان لانا جو صحیح دلائل سے ثابت ہیں اور اس علم سے ماخوذ ہیں جن کا،منجانب اللہ عزوجل ہم کو مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔

5۔اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام آسمانی کتب پر ایمان لانا اوراس پر کہ ان تمام کتب منزلہ میں سب سے افضل اور سب کی ناسخ کتاب"قرآن کریم" ہے۔کیونکہ اس سے قبل جو بھی کتب نازل کی گئی تھیں ان میں مرورزمانہ کے ساتھ تحریف ہوچکی ہے۔لہذا کسی سابقہ کتاب کی نہیں بلکہ لازماً صرف قرآن کی اتباع ہی کی جائے گی۔

6۔اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء علیہ السلام اور رسولوں صلوات اللہ وسلامہ علیہم پر ایمان لانا اور ان کے متعلق یہ یقین وایمان رکھنا کہ تمام انبیاء علیہ السلام بشر تھے اور ہر بشر سےافضل تھے۔انبیاء علیہ السلام کے متعلق اگر کوئی شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے تو وہ کفر کامرتکب ہوگا۔

اگر ان انبیا علیہ السلام ء میں سے کسی کے متعلق معیناً کوئی صحیح دلیل وارد ہے تو اس پر بیعنہ یقین و ایمان ضروری ہے۔اس کے علاوہ تمام انبیاء علیہ السلام پر اجمالا ایمان لانا اور اس بات کو تسیم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء میں سے سب سے افضل اور آخری نبی تھے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء علیہ السلام کو تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔

7۔اس بات پر ایمان لانا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نزو ل وحی کاسلسلہ منقطع ہوچکاہے۔اور یہ کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء علیہ السلام والمرسلین تھے۔۔۔جو شخص اسکے خلاف اعتقاد رکھے وہ مرتکب کفر ہے۔

8۔آخرت کے دن پر اور اس کے بارے میں جو صحیح اخبار واحادیث وارد ہیں یا جو پیشگی شرائط اور نشانیاں بیان کی گئی ہیں ان سب پر ایمان لانا۔

9۔قضاء وقدر پر ایمان۔ خواہ خیر ہو یا شر سب کے منجانب اللہ ہونے پر اس طرح یقین وایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اس کے وجود پزیر ہونے سے قبل اس کو جانتا تھا اور یہ کہ لوح محفوظ میں ایسا ہونا ہی لکھا جاچکاتھا۔جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ویسا ہی ہوتاہے۔ جو کچھ اللہ نہیں چاہتا ہرگزویسا نہیں ہوتا۔پس کوئی بھی چیز اس کی رضا کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہی ہر شے کو پیدا کرنے والا ہے۔ اور وہی جو کچھ چاہتاہے اسے پورے طور پر کرسکتا ہے۔

10۔غیب کی چیزوں مثلاً عرش الٰہی ،کرسی،جنت،جہنم،عذاب قبر،نعیم قبر،صراط مستقیم اور میزان وغیرہ میں سے جن چیزوں کے متعلق صحیح دلائل موجود ہیں ان سب پر بلا تاویل ایمان لانا۔

11۔قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیگر انبیاء علیہ السلام ،ملائکہ،اور صالحین وغیرہ کی شفاعت کریں گے،اس پر ایمان لانا،جس کی تفصیل صحیح دلائل میں مذکور ہے۔

12۔قیامت کے دن محشر اور جنت میں مومنوں کو اپنے رب کا دیدارنصیب ہوناحق اور یقینی امر ہے۔جس نے اس امر کا انکار کیا یا اس کی تاویل کی،وہ گمراہ ہے۔اور سیدھی راہ سے منحرف ہے۔یہ دیدار الٰہی اس دنیاوی زندگی میں کسی شخص کو بھی نصیب نہیں ہوسکتا۔

13۔اولیاء وصالحین کی کرامات حق ہیں۔لیکن ہر خارق عادت چیز کرامت نہیں ہوتی بلکہ شیاطین ومبلغین کی جانب سے کی جانے والی شعدہ بازی بھی ہوسکتی ہے۔لہذا کسی خارق عادت فعل کے کرامت ہونے یا نہ ہونے کافیصلہ کتاب وسنت سے اس کی موافقت یا عدم موافقت کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔

14۔تمام مومنین اولیاء الرحمان ہوتے ہیں اور ہر مومن اپنے ایمان کی مقدار کے مطابق ہی درجہ ولایت کا حامل ہوتا ہے۔

"مطلوب ارادی توحید(توحید اُلُوہیت)"

1۔اللہ تعالیٰ واحد اور تنہا ہے۔نہ ربوبیت والوہیت میں اس کا کوئی شریک ہے۔اور نہ اس کے اسماء وصفات میں ۔وہ دو جہاں کا رب ہے۔اور صرف اسی کی ذات ہر طرح کی بندگی وعبادت کی مستحق ہے۔

2۔عبادت کی اقسام دعاء اوراستغاثہ(فریاد کرنا) استعانت(مددچاہنا) نذرونیاز،ذبیحہ،توکل،خوف،التجاء،اور محبت وغیرہ میں سے کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کےعلا وہ کسی مقرب فرشتہ یانبی مرسل یا اللہ کے کسی نیک بندے یا کسی بزرگ،ولی وغیرہ کے لیے بجا لانا صریحاً شرک ہے خواہ اس کا مقصد ومنشاء کچھ بھی ہو۔

3۔عبادت کے اصول میں سے ایک اہم بات یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اس کی لگن و محبت اس کے تقویٰ وخوف اور عاجزی والتجا سب کے ساتھ کی جاتی ہے۔عبادت کے ان لازمی اجزاء میں سے اگر صرف ایک یادو چیزوں کا ہی اہتمام کیا جائے تو یہ گمراہی کا سبب ہوگا چنانچہ بعض علماء کاقول ہے کہ:

"جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف حب(یعنی الفت ومحبت) کے ساتھ کی تو وہ نرا "زندیق" ہے۔جس نے صرف اللہ کے ڈر وخوف کے ساتھ کی تو وہ"حروری" ہے۔اور جس نے صرف عاجزی والتجاء کے ساتھ کی تو وہ"مرجئی" ہے۔"

4۔تسلیم ورضا اور مطلق اطاعت فقط اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی جائز ہے۔

اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے مراد اس کے رب والٰہ ہونے کے ساتھ اس کے حکم ہونے پر بھی ایمان لانا لازم ہے۔پس اس کے حکم وفرمان میں کوئی دوسرا اس کا شریک وسہیم نہیں ہوسکتا۔جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی اس کو دین بنا لینا یا طاغوت کو حکم تسلیم کرنا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے علاوہ کسی دوسری شریعت کی پیروی کرنا یا شریعت محمدی میں کچھ ردوبدل کرنا کفر ہے۔جس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ کوئی فرد اس دائرہ شریعت سے خروج کا مجاز ہے تو بلاشبہ وہ کفر کا مرتکب ہوا۔

5۔اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ کسی دوسری چیز کے مطابق فیصلہ کر نا "کفراکبر" ہے۔

صریح کفر کے علاوہ کفر کی چند صورتیں یہ بھی ہوسکتی ہیں:

اولا:اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی بجائے کسی دوسری شریعت کا التزام یا اس کے مطابق تحکیم کو جائز سمجھنا۔

ثانیاً:شریعت الٰہی کے التزام کے باوجود کسی خاص واقعہ یا موقع پر اپنی نفسانی خواہش کے زیر اثر شریعت الٰہی سے عدول کرنا۔

6۔دین کی ہر تقسیم باطل ہے۔مثال کے طور پر دین کو ظاہر وباطن(حقیقت) یا شریعت وطریقت میں منقسم کرنا اور یہ گمان کرنا کہ حقیقت دین(باطن) سے صرف ایک مخصوص طبقہ ہی واقف ہوتا ہے۔اور شریعت(جو ظاہری عبادات اوراحکام سے عبارت ہے) عام انسانوں کے لیے لازم ہے۔جبکہ خواص اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں یا اسی طرح سیاست وغیرہ کو دین سے جدا سمجھنا۔

اس بارے میں فیصلہ کن شے صرف شریعت الٰہی سے مطابقت ہے۔حقیقت "یا سیاست" وغیرہ میں سے جو چیز بھی احکام شریعت کے خلاف ہو وہ بحسب شدت اختلاف یا تو کفر ہوگی یاگمراہی۔

7۔غیب کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے متعلق یہ اعتقاد رکھنا کہ فلاں علم غیب رکھتاہے۔کفر ہے۔لیکن اس بات پر ایمان ویقین رکھنا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ا پنے بعض رسولوں کو بعض غیبی امور سے مطلع فرمایا تھا۔

8۔نجومیوں اور کاہنوں کی صداقت کا اعتقاد ر کھنا کفر ہے۔اور ان کے پاس آمدورفت اور نشست وبرخاست رکھنا گناہ کبیرہ ہے۔

9۔قرآن کریم میں انسان کو جس"وسیلہ" کا حکم دیا گیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کاتقرب حاصل ہوتا ہے ۔چنانچہ اس کا اختیار کرنامشروع اطاعت ہے۔عموماً وسیلہ کی تین قسمیں ہوتی ہیں:

الف۔شرعی وسیلہ:ایسا وسیلہ جو اللہ تعالیٰ سے اس کے اسماء الحسنیٰ یا اس کی صفات کا واسطہ دے کر،یامتوسل(وسیلہ اختیار کرنے والے) کے اپنے نیک اعمال کو بطور وسیلہ بناکر،یا کسی زندہ صالح شخص کی دعا کے ذریعہ اختیار کیا جائے۔

ب۔بدعی وسیلہ:اللہ تعالیٰ سے ایسا وسیلہ اختیار کرنا جو شریعت میں قطعاً مذکور نہیں مثلاً انبیاء علیہ السلام ،یا بزرگوں اور صالحین کی ذات یاان کے مرتبہ یا ان کے حق یا ان کی حرمت وغیرہ میں سے کسی چیز کا واسطہ دے کروسیلہ اختیار کرنا مثال کے طور پر یوں کہا جائے کہ اے اللہ! مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل شفاعت عنایت فرما وغیرہ۔

ج۔شرکیہ وسیلہ:عبادت میں فوت شدہ لوگوں کو واسطہ یا وسیلہ بنانا اور ان سے دعا،یا اپنی حاجت روائی اور استعانت(مدد) وغیرہ طلب کرنا۔

10۔برکت"صر ف اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوتی ہے۔اللہ عزوجل اپنی جس مخلوق میں چاہتا ہے برکت عطافرمادیتاہے۔یہاں"برکت" سے مراد خیر کی کثرت وزیادتی یا اس کا ثبوت ولزوم ہے۔

کسی چیز کامتبرک ہونا بلا کسی د لیل شرعی کے ثابت نہیں ہوتا۔

زمانہ میں برکت ہر "شب قدر" کو حاصل ہے۔مقامات میں بابرکت صرف تین مساجد (بیت اللہ،مسجدنبوی،اور مسجد اقصیٰ) اشیاء میں برکت۔"چاہ زمزم" کا پانی۔۔۔اعمال میں ہر عمل صالح مبارک اور اشخاص میں انبیاء علیہ السلام کی ذات مبارک ہیں۔

کسی شخص کی ذات یا اسکے آثارسے تبرک حاصل کرناشرعاً جائز نہیں ہے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت اورآپ کے آثار مبارکہ کے کیوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورآثار کے سوا کسی اور سے تبرک حاصل کرنے کے متعلق شریعت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس چیز کا سلسلہ بھی منقطع ہوچکاہے۔

11۔تبرک یعنی برکت حاصل کرنے کا تعلق امور توقیفیہ سے ہے۔لہذا جس چیزکے بارے میں کوئی ٹھوس دلیل موجود نہ ہو اس سے حصول تبرک جائز نہیں ہے۔

12۔قبروں کی زیارت اور ان کے پاس لوگوں کے افعال عموما تین طرح کے ہوتے ہیں،جوحسب ذیل ہیں:

الف۔مشروع:آخرت کی یاد تازہ کرنے اہل قبور پر سلامتی بھیجنے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کے لیے قبروں کی زیارت کرنامشروع ہے۔

ب۔بدعی:زیارت کی یہ قسم کمال توحید کے منافی بلکہ شرک کے وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ ہے۔اس زیارت کامقصد ان قبروں کے پاس اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا یا ان قبروں سے برکات حاصل کرنا یاثواب بخشنا یا ان کو پختہ بنوا کر ان پر عالیشان گنبد،قبے اور مزارات تعمیر کروانا یا ان پر چراغ ولوبان یااگر بتی جلانا،یا ان پر چادریں اور چڑھاوے چڑھانا یا ان کو سجدہ گاہ بنالینا اوران کی طرف عازم سفر ہونا وغیرہ جیسے بدعتی کام ہوتے ہیں۔جن کے متعلق یا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح طور پر ممانعت ثابت ہے۔ یا پھر شریعت میں سرےسے ان کی کوئی اصل موجود نہیں ہے۔

ج۔شرکیہ:زیارت کی یہ قسم توحید کے قطعاً منافی ہے۔اس طرح کی زیارتوں میں عبادت کی مختلف اقسام شامل ہوتی ہیں۔اوران عبادات کو صاحب قبر کے لیے بجا لایاجاتا ہے۔ مثال کے طور پر زائر کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی د وسرے سے دعا کرنا یا صاحب قبر سے مدد چاہنا اور فریاد کرنا یاقبر کے اطراف مثل طواف بیت اللہ کے چکر لگانا یاصاحب قبربزرگ کے نام کی قربانی کرنا اور ان کی نذر ماننا وغیرہ۔

چونکہ اصولاً جو حکم مقاصد کا ہوتا ہے۔وہی حکم اس کے ذرائع وسائل کا بھی ہوتا ہے لہذا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کے ہر ذریعہ اور دین میں ہر بدعت(نوایجاد) کے راستہ کو مسدود کرنا اشد ضروری ہے۔کیونکہ دین میں ہر نئی بات بلاشبہ بدعت ہے۔اورہر بدعت گمراہی ہے۔

"ایمان"

1۔ایمان"قول وعمل" کے مجموعہ کانام ہے جس میں طاعت ومعصیت کے اعتبار سے کمی وبیشی واقع ہوتی ہے۔

"قول سے مراد دل اور زبان کاقول ہے۔دل کے قول" کامطلب یہ ہوتا ہے کہ صدق دل سے اس کایقین واعتقاد رکھنا اور اس کی تصدیق بھی کرنا۔زبان کے قول کامطلب زبانی اقرار ہوتا ہے۔

اسی طرح عمل سےمراد دل ،زبان،اوراعضائے جسمانی سب کامشترکہ عمل ہے۔دل کے عمل کامطلب تسلیم اخلاص،اذعان(عاجزی وفرمانبرداری میں سر تسلیم خم کرنا ) اور نیک وصالح عمل کے لیے اس کا ارارہ کرنا ہے۔"اعضائے جسمانی کے عمل"کامطلب یہ ہے کہ جن چیزوں یا حکم دیا گیا ہے۔ان پر اعضائے جسمانی کے ذریعے عمل کرنا اور جن چیزوں سے منع فرمایا گیا ہے انہیں ترک کردینا۔

2۔جوشخص عمل کو ایمان سے جدا سمجھتا ہے وہ مرجئی ہے اور جوشخص ایمانیات میں کوئی ایسی چیز داخل کرتا ہے جس کا تعلق اس سے نہیں،تو بلاشبہ وہ بدعتی ہے۔

3۔جو شخص بالشھادتین اپنےایمان کا اعلان واقرار نہ کرے اس پر دنیا وآخرت ہر دو جگہ نہ تو ایمان ثابت ہوتاہے۔اور نہ ہی اس کا حکم۔

4۔اسلام اور ایمان دو شرعی اصطلاحیں ہیں جن کے مابین عموم وخصوص کاتعلق ہے اسلام کی نسبت سے تمام اہل قبلہ کو ،مسلمین کہا جاتا ہے۔

5۔گناہ کبیرہ کا مرتکب دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔بلکہ دنیا میں اس کی حیثیت ایک ناقص الایمان مومن کی سی ہوتی ہے۔اور آخرت میں اس کے معاملہ کااللہ عزوجل کی مشئیت کے تحت فیصلہ ہوگا۔اگر اللہ تعالیٰ اسے بخشنا چاہے گا تو بخش دے گا ورنہ دردناک عذاب میں مبتلا کردے گا۔

تمام موحدین بہرحال جنت میں جائیں گے۔ اگر ان میں سے کسی کو بعض اعمال بد کے سبب عذاب جہنم میں مبتلا کیابھی گیا تو وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا بلک اپنی مقررہ سزا بھگت کر بالآخر جنت میں داخل کردیاجائے گا۔

6۔اہل قبلہ میں سے کسی معین شخص کو قطعی طور پر جنتی یاجہنمی قرار دیناجائز نہیں ہے تاوقت یہ کہ اس کے متعلق کوئی شرعی نص ثابت نہ ہو۔

7۔شرعی الفاظ میں کفر کی دو قسمیں ہیں:

الف۔کفر اکبر:اس کا مرتکب ملت سے خارج ہوجاتا ہے ۔

ب۔کفر اصغر:اس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا۔کفر کی اس قسم کو بعض اوقات کفر عملی بھی کہا جاتا ہے۔

8۔تکفیر ایک شرعی حکم ہے جوکہ کتاب وسنت کی طرف لوٹتاہے۔لہذا کسی مسلمان کی تکفیر اس کے کسی ایسے قول یا فعل کے باعث کرنا جائز نہیں ہے کہ جس کے باعث کفر ہونے پر کوئی شرعی دلیل دلالت نہ کرتی ہو۔کسی شخص کے کسی قول یا فعل پر محض کفر کے حکم کا اطلاق کردینے سے اس کے موجب کفر ہونے کا ثبوت لازم نہیں آتا جب تک اس کے متعلق تمام مقررہ شرائط کی خوب چھان بین نہ کرلی جائے۔اور جملہ موانع کا دفیعہ بھی نہ ہوجائے۔چونکہ دینی احکام میں سے تکفیر ایک نہایت پر خطر اور نازک حکم ہے۔لہذا کسی مسلمان کی تکفیر میں جلد بازی سے حتیٰ الامکان بچنا چاہیے کہ اس کے لیے انتہائی تحقیق،ثبت،احتیاط،پرہیز اورواضح دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔

قرآن کریم اور کلام

1۔قرآن مجید اللہ تعالیٰ کاکلام ہے۔(یعنی اس کے حروف ومعنی دونوں) یہ غیر مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی سب سے افضل،آخری،مکمل،محفوظ،سابق کتابوں پر نگراں،انکی تصدیق کرنے والی،لوگوں کے درمیان فیصل،دلوں کے لیے باعث شفاء،ہر معاملہ کے لیے عقدہ کشاء اور اہل ایمان کے لیے سرتاپا ہدایت ورحمت والی کتاب ہے۔

اللہ عزوجل کی جانب سے اس کی ابتداءہوئی اور اسی کی طرف آخر کار اسے لوٹنا ہے۔اس کا خود معجزہ ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی شریعت کی صداقت کی دلیل ہے۔روزقیامت تک اللہ تعالیٰ کا یہ کلام ہر طرح کی تحریف وترمیم یاتنقیص واضافہ سے محفوظ ہے۔

2۔اللہ عزوجل جس سےچاہتاہے جب چاہتاہے اور جس طرح چاہتا ہے کلام فرماتا ہے۔باری تعالیٰ کا کلام فرمانا حروف وصوت ہر دو اعتبار سے ایک ناقابل انکا رحقیقت ہے۔ہم اس کی کیفیت سےغیر واقف اور لاعلم ہیں۔لیکن اس بارے میں غور وخوض نہیں کیاکرتے۔

3۔کلام اللہ کے متعلق ایسا سوچنا یا کہنا یہ ایک معنوی تعبیر ہے یا یہ کہ قرآن کریم حکایت ہے یا تعبیر وشرح ہے یا مجازی وغیرحقیقی ہے یااس جیسے دوسرے تمام خیالات اصلاً دین سے انحراف اور زیغ وضلال پر مبنی ہیں بلکہ کفر بھی ہوسکتے ہیں۔

4۔جو شخص قرآن کی کسی بھی چیز کا منکر ہو یااس میں نقص یا زیادتی یا تحریف کادعویٰ کرے وہ کافر ہے۔

5۔قرآن مجید کی تفسیر سلف وصالحین کے معلوم ومعروف طریقہ پر ہی کرنا ضروری ہے۔محض قیاسات یا اپنی رائے یا شخصی ذوق کے مطابق اس کی تفسیر کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی منشاء کے متعلق ایک ایسی بات کہنے کے مترادف ہے۔کہ جس کاقائل کوئی علم نہیں ہے۔بلاشبہ یہ ایک بڑی جسارت ہے۔

اسی طرح قرآن کریم کی آیات کی باطنی تاویلات یا ان کے مثل کوئی دوسری تاویل پیش کرنابھی کفرہے۔

قضاء وقدر

ٍ1۔اچھی وبری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر ایمان رکھنے کاتعلق"ارکان ایمان" سے ہے ۔اس میں مندرجہ ذیل امور شامل ہیں:

تقدیر اور اسکے مراتب(یعنی علم کتاب،مشئیت،اور خلق) کی تمام نصوص پر ایمان اور اس بات پر بھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلوں کو نہیں لوٹاتا اور نہ ہی اپنے حکم سے پیچھے ہٹتا ہے۔

2۔کتاب وسنت میں مذکور "ارادہ"اور "امر" کی دو قسمیں ہیں:

الف۔ارادہ کو نیہ قدریہ بمعنی مشئیت الٰہی اور امر کونی قدری

ب۔ارادہ شرعیہ(جس کے لیےرضاومحبت لازم ہے) اور امر شرعی

نوٹ:مخلوق میں بھی ارادہ اور مشئیت موجود ہے۔لیکن مخلوق کا ا رادہ اور اس کی مشئیت خالق کے ارادہ اور مشئیت کے تابع ہوتی ہے۔

3۔بندوں کو ہدایت عطا فرمانا یا گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل دینا صرف اللہ تعالیٰ کے ہی قبضہ قدرت میں ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بعض بندوں کو اپنے فضل وکرم سےہدایت عطا فرمائی ہے۔اور بعض کوگمراہی کے لیے عدلاً مقررومحقق کردیا ہے۔

4۔تمام بندے اور ان کے افعال اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ان سب کاخالق حقیقی اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔پس اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کے افعال کا بھی پیدا کرنے والاہے۔انسان تو در اصل ان افعال کا محض فاعل ہوتا ہے۔

5۔اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت کے پوشیدہ ہونے کے اثبات اور اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے دنیاوی اسباب کی تاثیر کا اثبات۔

6۔انسانوں کی تخلیق سے قبل ہی ان کی انتہاء عمر،ان کی قسمت ان کا رزق اور ان کی سعادت ونیک بختی نیز شقاوت وبدبختی سب کچھ منجانب اللہ لکھی جاچکی ہیں۔

7۔تکالیف اور مصائب کو مقدر کانوشتہ کہا جاسکتاہے۔لیکن بداعمالیوں عیوب اور سیاہ کاریوں کو مقدر کا نوشتہ سمجھ کر دلیل بنانا ہر گز جائز نہیں ہے۔ان افعال بد سے توبہ کرنی چاہیے۔اور اس کے فاعل کولعنت وملامت بھی کرنی چاہیے۔

8۔دنیاوی ذرائع اسباب کو اپنانے سے قطع تعلق کرلینا "شرک فی التوحید" ہے۔شریعت میں تمام اسباب سے بالکلیہ اعراض کرنے کو مذموم بتایا گیا ہے۔اسباب کی تاثیر کاانکار کرنا شریعت اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا اسباب ظاہری کو اپنانے کے قطعاً منافی نہیں ہے۔

"جماعت وامامت"

1۔اس باب میں "الجماعت " سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور روز قیامت تک نہایت عمدگی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے اور ان کے آثار کو سختی سے پکڑنے والے لو گ ہیں درحقیقت یہی ایک گروہ نجات پانے والے (فرقہ ناجیہ ) ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو اس نجات یافتہ گروہ کے نقوش پر چلنے کا التزام و اہتمام کرےوہ "جماعت"میں شامل ہے اگرچہ کہ بعض جزئیات میں خطاء کامرتکب بھی ہو جائے۔

2۔دین میں تفرقہ اندازی اور مسلمانوں کے مابین فتنہ انگیزی کی قطعاً گنجائش نہیں ہے ۔اگرمسلمانوں کے مابین کسی بارے میں کو ئی اختلاف پیدا ہو جا ئے تو انہیں چاہیے کہ اس اختلافی معاملہ کو کتاب اللہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سلف صالحین کے آثار کی طرف لوٹا ئیں اوران چیزوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہو ئے اپنے اختلافات کا خاتمہ کریں ۔

3۔جو شخص جماعت سے خروج کرے اسے نصیحت کرنا دعوت دینا بطریق احسن اس سے بحث و مباحثہ کرنا اور اس پر دلیل قائم کرنا ضروری ہےتاکہ اس پر اپنی غلطی واضح ہو جا ئے۔

پس اگروہ تائب ہو جا ئے تو بہت خوب ورنہ شرعاً جس سزا کا وہ مستحق ہے اسے سزادی جائے۔

4۔ہر انسان پر کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت سے جو چیزیں ثابت ہیں ان سب کی اتباع ضروری قراردی جائے ۔عام مسلمانوں کو گہرے معانی اور دقیق (باریک)معاملات میں الجھا کر خواہ مخواہ ان کا امتحان لینا جائز نہیں ہے۔

5۔تمام تر مسلمانوں کےمتعلق ایک اصول یہ ہے کہ انہیں باعتبار قصد و اعتقاد ہر نقص سے پاک اور بے عیب سمجھا جا ئے وقتیکہ اس حسن ظن کے خلاف کوئی قطعی چیز ظاہر ہو جا ئے۔

ایک دوسرااصول یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے کلام کو اچھے معانی و محمل پر ہی محمول کرنا چاہیے لیکن جب قائل کا عناداور سوء قصد ظاہر ہو جا ئے تو اسکی بےجاتاویلات کا تکلف کرنا جائز ہے۔

6۔اہل قبیلہ میں سے جو گروہ دائرہ سنت سے خارج ہے اس کے لیے ہلاکت اور جہنم کی وعید ہے، ان کا حکم بھی عام اہل وعید جیسا ہی ہے۔ان دونوں میں فرق صرف اس قدرہے کہ اول الذکر طبقہ باطنی طور پر کافر ہوتا ہے اور اہل وعید ظاہری طور پر بھی کافر ہوتے ہیں ۔

اسی طرح اسلام سے خارج گروہ کے لوگ بھی فی الجملہ کفار ہیں لہٰذا ان کا حکم بھی وہی ہے جو مرتد ین کا ہے۔

7۔جمعہ اور جماعت اسلام کے عظیم ظاہری شعائر ہیں ۔مسلمانوں میں کسی مستورالحال (یعنی وہ شخص جس کے حالات و کوائف پوشیدہ ہوں) کے پیچھے نماز پڑھنا درست وصحیح ہے ۔محض امام کے احوال سے لاعلمی کے باعث اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا بدعت ہے۔

8۔اگر کسی امام سے بدعات یافسق وفجور کا ظہور ہوتو اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس اس امام کے علاوہ کوئی دوسرا امام موجود نہ ہو تو بدعتی اور فاسق و فاجر امام کے پیچھے پڑھی گئی نماز بھی درست ہو گی ۔دوسرے امام کی مو جو دگی میں بدعتی امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے والا مقتدی گناہگار ہو گا الایہ کہ اس کے اس فعل کا مقصد کسی بڑے فساد کو دفع کرنا ہو۔اگر کسی مقام پر صرف اس جیسے ہی بدعتی اور فاسق و فاجر لوگ رہتے ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ شرپسند موجود ہوں اور ان میں اللہ کا کو ئی صالح بند نہ ملے تو ایسے کسی بھی امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ۔جماعت کو ترک کرنا بہر صورت جائز نہیں ہے۔

9۔"امامت کبریٰ "یا تو اس امت کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے یا پھر امت کے اصحاب حل وعقد کی بیعت سے ۔جو امیر غلبہ پایاجائے یہاں تک کہ اس کے متعلق عام استصواب یااتفاق رائے ہو جا ئے تو معروف اور مناصحت (یعنی خیر خواہی) کے کا موں میں اس کی اطاعت واجب ہے اور اس سے خروج کرنا حرام ہے جب تک کہ اعلانیہ طور پر اس سے ارتکاب کفر کا اظہار نہ ہو۔

10۔فرائض میں سے نماز، حج،اور جہاد کو آئمہ مسلمین (یعنی امیر وقت ) کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے اگرچہ کہ وہ ظالم ہی ہوں ۔

11۔ مسلمانوں کے مابین دنیا داری جاہلی حمیت اور نسل پرستی کی خاطر قتل وغا تگری کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ایسا کرنا ایک بڑا بلکہ بدترین گناہ کبیرہ ہے البتہ بدعتی اور حد سے تجاوز کرنے والے ظالموں نیز ان کے ہم جنس و ہمنوا سرکشوں کو قتل کرنا جا ئز ہے۔ بشرطیکہ ان کے شرو فساد کا دفیعہ اس سے کم کسی طور پر ممکن نہ ہو ۔ایسی صورت میں مسلمانوں کو حسب مصلحت اور حسب حالات موثر اور مفید اقدام کرنے چاہئیں ۔تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عدول اور انبیاء علیہ السلام کے بعد اس امت کے سب سے افضل و برتر انسان تھے ان کے ایمان و فضیلت کی شہادت دینا اصل قطعی ہے جو کہ ضرورت دین یعنی معتمد علیہ ذرائع سے معلوم ہے۔ ان سے محبت رکھنا دین و ایمان کی علامت اور ان سے بغض و عناد رکھنا کفر و نفاق کی نشانی ہے۔ ان کے مابین جو مشاجرت واقع ہوئی اس سے چشم پوشی کرنا اور ایسی باتیں جن سے ان کی ردوقدح ہوتی ہویا ان کی قدرو منزلت پر حرف آتاہو۔ان پر غور و حوض کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر باقی عشرہ مبشرہ اور اصحاب بدر وغیرہ ۔اولالذکر چاروں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے ان کی خلافت حسب ترتیب ثابت ہے۔

13۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آل بیت کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات (یعنی ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا )کی تعظیم و قدردانی نیز ان کے فضائل کی معرفت آئمہ سلف علمائے سنت اور عمدگی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں کی محبت اور بدعات و نفسانی خواہشات کے تابع لوگوں سے کنارہ کشی کرنا بھی جزو دین ہے۔

14۔جہاد فی سبیل اللہ اسلام کی ایک بلند ترین چوٹی بلکہ اُوج کمال ہے مسلمانوں پر یہ فریضہ تاقیامت اسی طرح جاری رہے گا ۔

15۔امر بالمعروف (بھلی باتوں کا حکم دینا )اور نہی عن المنکر (بری باتوں سے روکنا ) اسلام کے عظیم ترین شعائر میں سے ہے ۔یہ دونوں چیزیں اہل اسلام کی جماعت کے نظم حفظ اور بقاء کی ضامن ہیں ۔حسب طاقت ومصلحت معتبرہ ان پر عمل واجب ہے۔

"اہل سنت والجماعت کی اہم خصوصیات اوران کی سمت راہ"

اہل قبلہ میں سے فقط اہل سنت والجماعت کا گروہ ہی"فرقہ ناجیہ" اور طائفہ منصورہ ہے۔یہ گروہ عام مسلمانوں سے علیحدہ اور بعض امتیازی خصوصیات کا حامل ہے۔ان کی سمت راہ اور بعض وہ خصوصیات جو انہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز بناتی ہیں حسب ذیل ہیں:۔

1۔کتاب اللہ کاخصوصی اہتمام:۔

یہ لوگ کتاب اللہ کو حفظ وتلاوت کرنے نیز اس کی تفسیر بیان کرنے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ساتھ ہی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت وفہم احادیث کے مابین صحیح وسقیم کی تمیز اور عمل کے ساتھ علم کی اتباع کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔کیونکہ قرآن اورحدیث دونوں ہی دین کے یکساں اور بنیادی مصادروماخذ ہیں۔

2۔یہ لوگ دین کے رنگ میں پوری طرح رنگے ہوئے ہوتے ہیں کتاب اللہ کی ہر ہر چیز پر ان کا ایمان ہوتا ہے۔ یہ لوگ نصوص الوعد،نصوص الوعید ،نصوص الاثبات اور نصوص تنزیہ غرض تمام نصوص پرمکمل ایمان رکھتے ہیں۔

یہ لوگ جس طرح علم وعبادت ،قوت ورحمت اور عمل بالاسباب وزھد کے مابین جمع وتعلق قائم کرتے ہیں اسی طرح ایمان بقدر اللہ،اور بندہ کے ا رادہ منشاء نیزفعل کے اثبات کے مابین بھی جمع واتحاد قائم رکھتے ہیں۔

3۔یہ لوگ دین میں اس اتباع کے قائل ہیں۔نو ایجاد چیزوں سے کنارہ کش رہتے ہیں اجتماعیت ان کا شیوہ ہے۔دین میں تفرقہ بازی اور اختلافات سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

4۔علم وعمل کے میدان میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے منہج پر چلنے والوں اور ان کے مقتدی عدول ائمہ ہدایت کی پیروی کرنا ان کی شمع ہدایت سے روشنی اخذ کرنا اوراس سبیل المومنین کے تمام مخالفین سے اجتناب کرنا ان کاطریقہ ہے۔

5۔توسط:اعتقاد کے بارے میں یہ لوگ انتہاپسند،غالی اور افراط وتفریط کرنے والے فرقوں کے برخلاف میانہ روی اختیار کرتے ہیں اوراعمال وسلوک کے بارے میں بھی حد سے تجاوز کرنے والوں کی پیروی کی بجائے متوسط روش کو ترجیح دیتے ہیں۔

6۔ان لوگوں کے دل میں یہ جذبہ شدت کے ساتھ موجز ن ہوتاہے۔کہ تمام مسلمانوں کو حق پر جمع کریں اور ان کی صفوں کو توحید اور اتباع کے نام پر ایک لڑی میں پرو دیں۔اور ان کےتمام آپسی اختلافات ونزاعات کو دور کردیں۔

اصول دین کے بارے میں وہ امت کے دوسرے فرقوں سے"اہل سنت والجماعت" کےلقب کے سواء اور کوئی امتیاز روانہیں رکھتے ۔نہ ان سے دوستی ومہربانی کا تعلق رکھتے ہیں اور نہ دشمنی کا۔ان سے ان کاربط وتعلق تو فقط قرآن و سنت کا ہوتا ہے۔

7۔اللہ کی طرف بلانا،معروف چیزوں کا حکم د ینا،منکرات سے ر وکنا،اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،سنت کے احیاء اور تجدید دین کے عمل کی دعوت دینا۔غرض ہر چھوٹےبڑے معاملہ میں اللہ کی شریعت اور اس کے حکم کو نافذ وقائم کرنا۔اس گروہ کا طرہ امتیاز ہے ۔

8۔انصاف و عدل:یہ لوگ کسی نفس یا گروہ کے حقوق کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حقوق کی محافظت کرنے والے ہوتے ہیں لہذا ا پنے تابع فرماں لوگوں کےمعاملہ میں شدت وغلوسے قطعاً کام نہیں لیتے اپنے مخالفین اور دشمنوں پر ظلم وستم کو روا نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے محسنوں کے احسانات اور مہربانیوں کو کبھی فراموش کرتے ہیں بلکہ ہمیشہ ان کے ممنون احسان رہتے ہیں خواہ وہ محسن کوئی بھی ہو۔

9۔زمانہ اور قطعات ارضی کے بعد کے علی الرغم افہام وتفہیم میں موافقت اور مختلف النوع مواقف میں مشابہت ان کا خاصہ ہے جو کہ صرف وحدت مصدر اور منہج تلقی کا ہی ثمرہ ہے۔

10۔انسانوں کے ساتھ احسان،رحمدلی،اور حسن اخلاق کا تعلق رکھنا ان کی علامت ہے۔

11۔ان کا نصیحت کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اس کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق امراء مسلمین اور عوام سب کے لیے یکساں ہوتا ہے۔

12۔مسلمانوں کے معاملات اور ان کی نصرت کااہتمام کرنا ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی تکالیف کو رفع کرنے یا روکنے کی سعی کرنا۔ان کی پہچان ہے۔