پارلیمنٹ اور تعبیر شریعت

(گزشتہ سے پیوستہ)
4۔ اب ہم چوتھے نکتے کی طرف آتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں مختلف فقہی نمائندوں کی حیثیت، یا ماہرینِ قانون و شریعت کی کونسل کے اختیارات کیا ہونے چاہئیں؟ اس سلسلہ میں یہ بنیادی بات اگرچہ فیصلہ طلب ہے کہ قانون ساز پارلیمنٹ کی اسلامی حکومت میں کیا حیثیت ہے؟ لیکن چونکہ ہم یہ پہلے واضح کر چکے ہیں کہ اسلامی حکومت کا دستور قرآن کریم ہوتا ہے، جس کی واحد ابدی تعبیر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی محفوظ و مصئون موجود ہے۔ لہذا اب پارلیمنٹ کے بارے میں قانون سزی کی جو بھی بحث ہو گی، وہ قواعد و ضوابط (ByeLaws)یا انسدادی اور تعزیری احکام وغیرہ تک محدود ہو گی چنانچہ فی الوقت ہم اس بحث سے قطع نظر، کہ پارلیمنٹ کو خلیفہ کے قائم مقام ٹھہرایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ علی سبیل التنزل پارلیمنٹ کو خلافت اور شوریٰ ہی کی حیثیت دے کر گفتگو کرتے ہیں۔
اسلامی سیاست کا یہ امتیازی پہلو ہے کہ یہاں بنیادی دستور، اور اس کی تعبیر کا بھی مسئلہ چودہ صدیاں قبل ہی طے پا چکا ہے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے "خاتم النبیین" ہونے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تا قیامت کسی بھی نبی یا رسول کی گنجائش موجود نہ ہونے کی بناء پر نہ صرف اس دستور اور اس کی تعبیر کی تنسیخ کا سوال ختم ہو چکا ہے، بلکہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ... ٣﴾ ... المائدة  قرآنی کے تحت اس میں ترمیم و اضافہ کا جواز بھی خارج از امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تا قیامت قائم ہونے والی ہر اسلامی حکومت کا کتاب و سنت خود بخود دستور بن جاتا ہے اور جو یہ اور جو حکومت کتاب و سنت کی دستوری حیثیت تسلیم نہیں کرتی، وہ اسلامی کہلانے کی حقدار نہیں ہوتی۔ پس خلافت کا منصب، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد صرف اس شخصی خلاء کو پُر کرنے کی حد تک محدود ہے جو تدبیر و انتظام کے میدان سے متعلق ہے، چنانچہ خود خلیفہ کا یہ اختیار کہ وہ انتظام و انصرام کرے اور تدبیری اقدامات بھی بجا لائے، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ تاہم خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے یہ اقدامات خود شریعت نہیں ہیں، ہاں ان کی حیثیت ہمارے لئے ایک تاریخی سرمایہ کی ہے۔۔۔شریعت اور تاریخ کا یہ فرق ملحوظ نہ رکھنے کی بناء پر ہی اس بارے میں یہ افراط و تفریط ہوئی ہے کہ متاخرین اصحابِ مذاہب نے جب سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ایسے اقدامات کو بھی شریعت کی سی ابدی حیثیت دے دی تو اس کے ردِ عمل کے طور پر جدید دانشوروں نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تاریخی مقام دینا شروع کر دیا۔ حالانکہ جہاں پہلی صورت میں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو، جو  ابدی اسوہ حسنہ کی حامل ہے، سابقہ نظائر میں ایسی نظیر کا درجہ دینا غلط ہے کہ جس کا تسلسل خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم بلکہ بعد کے خلفاء کے نظائر کی بھی صورت میں قائم رہے، کیونکہ یہ نبوت کا تسلسل ہو گا۔۔۔وہاں دوسری صورت میں "مرکزِ ملت"[1] کا نظریہ بھی گمراہ کن ہے۔ کہ جس کے تحت سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جملہ خلفاء کے تاریخی نظائر کے برابر حیثیت دے دی گئی ہے۔ گویا اس نظریہ کے موجد کے نزدیک رسول کا معنیٰ حکمران ہے۔ اور یوں اس نظریہ کا یہ لازمہ بھی رسالت کا تاقیامت تسلسل ہے۔۔۔اس ذہن نے مشہور مستشرق جوزف شاخت کے افکار کی تعمیل میں "سنتِ اجماع" کا نظریہ پیش کیا ہے۔ جس میں شخصی رائے جب عوام الناس میں مقبول ہو جائے تو وہ بھی "سنت" کہلاتی ہے۔ گویا اس طرح مجددانہ اجتہادات کو نام نہاد "اجماع" کی حیثیت سے سنت قرار دینے کا حربہ اختیار کیا گیا ہے تاکہ سنت کے پسندیدہ لفظ سے من مانے اقدامات کو اسلامی باور کرایا جا سکے۔ اسے وہ "سنتِ جاریہ" سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حکمرانوں کی بجائے معاشروں کو شریعت سازی کا اختیار دینے کے مترادف ہے۔ چنانچہ یہ نظریہ بھی "مرکزِ ملت" ہی کے افکار کی بازگشت ہے۔۔۔پھر تعجب ہے کہ آج بعض سنی دانشور بھی اسی نظریہ "سنتِ اجماع" یا "تعاملِ مسلمین" کے نام سے سنت کی تعریف میں توسیع کر کے حکمرانوں کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسالت و خلافت کی یکجائی کے اول الذکر نظریہ کی مخصوص جھلک شیعہ کے ہاں صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ ان کے ائمہ مذہبی راہنمائی کے ساتھ ساتھ بالقوۃ (Dejure)حکمران بھی تھے۔ لہذا ان کے نزدیک ان ائمہ کی روایت و درایت سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ہو کر دین و رسالت کا حصہ متصور ہوتی ہے۔۔۔لیکن سنی فقہاء کے نزدیک رسالت اور حکومت کا منصب فکری اعتبار سے علیحدہ علیحدہ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تو باقی ہے اور رہے گی۔ لیکن حکومت میں خلافت کا سلسلہ چل رہا ہے۔ خلیفہ کا کام صرف تدبیر و انتظام ہے، رسالت میں اس کا دخل نہیں۔ تاہم تدبیر و انتظام اور سیاستِ ملکی میں وہ اس طریقِ کار کا پابند ہے جو تعلیماتِ رسالت میں حکومت کے لئے طے ہو چکا ہے۔ کیونکہ حکومت کے رسالت سے الگ ہو جانے کے باوجود حکومت ان اصول و ضوابط کی پابند ہوتی ہے۔ جو کتاب و سنت میں اس شعبہ حیات کے لئے دئیے گئے ہیں۔۔۔اور یہی معنیٰ اسلام کے کامل ضابطہ حیات ہونے کے ہیں۔
رسالت اور خلافت و حکومت کی اطاعت کے فرق کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس قدر ملحوظ رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شرابی کی سزا اسی کوڑے کر دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں چالیس کوڑے تھی۔ اسی تبدیلی کی بناء پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص چالیس پر، چالیس مزید کوڑے کھاتا ہوا مر گیا تو اس کا خون بہا دیا جائے گا۔۔۔ظاہر ہے اگر یہ اقدام (زیادتی سزا) شریعت ہوتا تو نفاذِ حدود میں خون بہا کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
اسی سلسلہ کی دوسری مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے دی جا سکتی ہے۔ جو آپ رضی اللہ عنہ نے کتابیہ (یہود و نصاریٰ کی عورتوں) سے نکاح کی ممانعت کے بارے میں جاری کیا تھا اور جس پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن پھر کچھ عرصہ بعد خود انہوں نے اپنی کتابیہ منکوحہ کو طلاق بھی دے دی۔۔۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اس طرزِ عمل کی جو وضاحت پیش فرمائی، وہ درج ذیل سطور سے ظاہر ہے:
"قال (عمر) للذین تزوجوا من نساء  أهل الكتاب : طلقوهن فطلقوهن إلا حذيفة فقال له عمر : طلقها  قال تشهد أنها حرام ؟ قال هى خمرة قال قد علمت أنها خمرة ولكنها لى حلال: فلما كان بعد طلقها   فقيل له ألا طلقها حين أمرك عمر  قال كرهت  أن يرى الناس أنى ركبت أمرا لا ينبغى لى-"
"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کتابیہ عورتوں سے نکاح کرنے والوں کو حکم دیا کہ ان عورتوں کو طلاق دے دی جائے تو سوائے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے سب نے طلاق دے دی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں (تاکیدا) فرمایا کہ "اسے (اپنی بیوی کو) طلاق دے دیں۔" حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، "کیا آپ اس کے حرام ہونے کی گواہی دیتے ہیں؟" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "وہ مکارہ ہے، اسے طلاق دے دیں۔" حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ (زور دے کر) فرمایا، کیا آپ اس کے حرام ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (پھر وہی) جواب دیا کہ "وہ مکارہ ہے۔" حضرت حزیفہ بولے، "یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ وہ مکارہ ہے تاہم وہ میرے لئے حلال ہے" (بات ختم ہو گئی) لیکن کچھ عرصہ بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے از خود اسے طلاق دے دی۔ لوگوں نے پوچھا، آپ نے یہ طلاق اس وقت کیوں نہ دی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو حکم دیا تھا؟" حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ "میں اسے بُرا سمجھتا تھا، لوگ مجھے وہ کام کرتا دیکھیں جو (شرعی طور پر) مجھے لائق (لازم) نہ تھا۔"
ان واقعات سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ خلیفہ راشد بھی نہ تو شریعتِ محمدی میں تبدیلی کر سکتا ہے نہ اپنی تعبیرِ شریعت ہی میں دوسروں کو پابند بنا سکتا ہے۔ پہلی مثال حدود میں تعزیر جمع کر کے بظاہر شریعت کی تبدیلی کی ہے، تو دوسری مثال قرآنی حکم﴿ وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ... ٢٢١﴾...البقرة کی ایسی تعبیر کی جو کتابیہ عورت کو بھی شامل ہے۔۔۔واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معارضہ کے وقت اس دور کے اہل کتاب کا مشرک ہونا واضح بھی کیا تھا۔
معلوم ہوا کہ تدبیری معاملات میں انتظامی اختیارات کے علاوہ اگر اجتہادی پہلو سے شرعی احکام کا سوال سامنے آئے تو اولی الامر کی مشروط اطاعت کی بناء پر، اُن کے اجتہاد کی پابندی لازمی نہیں ہوتی۔۔۔فقہاء نے اطاعتِ اولی الامر والی مشہور آیتِ قرآنی کے آخری حصہ سے بھی یہ استدلال کیا ہے۔۔۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ ... ٥٩﴾...النساء "کسی بھی معاملے میں اگر (رعایا کا باہمی یا اولی الامر سے اختلاف و) نزاع پیدا ہو جائے تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو۔۔۔"
عربی گرائمر کی رو سے "شیئی" نکرہ حرفِ شرط کے تحت وارد ہوا ہے، جو ایسی صورت میں عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی کوئی بھی معاملہ خواہ شرعی ہو یا تدبیری، اگر اختلاف و نزاع کی صورت اختیار کرے تو اس کا فیصلہ کتاب و سنت سے ہو گا۔۔۔گویا تدبیری معاملات میں اجتہادی اختلافات کو کتاب و سنت سے حل کیا جائے گا۔
حاصل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا دائرہ کار صرف مباہات تک محدود ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
" و كانت الأئمة بعد النبى يستشيرون الأمناء من أهل العلم فى الأمر المباحة ليأخذوا بأسهها فإذا أو ضح الكتاب و السنة لم يتعدوه إلى غيره"(صحيح بخارى ج 2 ص 1095)
کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء صرف مباح امور میں اصحابِ علم و امانت سے مشورہ لیا کرتے تھے، تاکہ آسان ترین صورت اختیار کر سکیں۔ پس اگر کتاب اللہ یا سنتِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وضاحت موجود ہوتی تو کسی دوسری جانب (ہرگز) نہ دیکھتے تھے۔"
۔۔۔اور اباحت کا بھی ایک پہلو چونکہ شرعی حکم ہونے کا ہے، اس لئے اس پر نگرانی کتاب و سنت کی رہنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اولی الامر کی اطاعت مشروط ہوتی ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت کے لیے جنگِ بدر کے قیدیوں کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔۔۔ جنگی تدابیر میں اولی الامر کو اجازت ہے کہ وہ مشورہ کے بعد کوئی سی بھی تدبیر اختیار کر لیں۔ لہذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کے بعد اساریٰ بدر کو فدیہ لے کر رہا کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ لیکن قرآن مجید نے اس مباح امر میں بھی ایک شرعی حکم سے ہٹ جانے کی بناء پر سرزنش کی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ عذاب دکھایا (جو اس فیصلہ کی بناء پر ہم پر مسلط ہو سکتا تھا) اور اگر وہ عذاب آ جاتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ (جن کا مشورہ ان قیدیوں کے قتل کا تھا) کے سوا کوئی نہ بچتا۔" (صحیح بخاری)
اس واقعہ سے متعلق قرآن کریم میں ہے:
﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ... ٦٧﴾...الأنفال کہ "نبی کی شان کے یہ لائق نہیں کہ اس کے قیدی (باقی) رہیں، یہاں تک کہ وہ زمین میں ابھی طرح خوں ریزی نہ کر لے، تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو، جبکہ اللہ تعالیٰ (تمہارے لئے) آخرت چاہتا ہے۔"
مقصد یہ ہے کہ شوریٰ یا پارلیمنٹ میں بنیادی دستور (کتاب و سنت) کے علاوہ دوسرے امور ہی زیرِ غورکیوں نہ ہوں، کتاب و سنت کے ماہرین کی پھر بھی ضرورت ہے۔ اس لئے اس بارے میں جن حضرات نے ارکانِ شوریٰ کے نمائندہ ہونے پر زور دیا ہے، تدبیری امور کی حد تک اس کی اہمیت تسلیم ہے۔ کیونکہ تدبیر وہی کامیاب ہوتی ہے جس پر تدبیر سے متعلقہ رعایا کا اعتماد حاصل ہو۔۔۔ ﴿وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ ... ٣٨﴾... الشورى کے قرآنی حکم کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ تاہم ان تدبیری امور میں شرعی احکام کی مطابقت کی جو شرط ہے، اس کے لئے ماہرینِ شریعت کی نگرانی لازمی ہے۔ شرعی امور کی نگرانی کسی الیکشن اور سلیکشن کے بغیر بھی علمائے دین پر فرضِ کفایہ ہے مگر پارلیمنٹ خود اپنے اوپر اگر کچھ ماہرینِ شریعت و قانون کو نگران بنانا چاہے تو موجودہ حکومتی ڈھانچہ کے ایوانِ بالا (سینٹ) میں انہیں اسی طرح لایا جا سکتا ہے جس طرح ٹیکنو کریٹس کو لیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہر چیز کی اہمیت اس کی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لئے ماہرینِ شریعت کی حیثیت و وقار کو اسی نسبت سے ملحوظ رکھا جائے گا۔ اور زبانی تجاویز سے زیادہ عملا ان کی اہمیت کا احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کے ساتھ مشاورتی کونسل یا نظریاتی کونسل کا جو آئینی مقام ہے وہ بالکل غیر مؤثر ہے۔البتہ ایک مسئلہ ہماری سمجھ سے بالا ہے کہ پاکستان کا آئینی بنیادی طور پر ان معنوں میں سیکولر ہے کہ قومی یا صوبائی نمائندگی میں مسلمانوں کی فرقہ واریت کی بنیاد پر نہ تو انتخابات ہوتے ہیں اور نہ ہی مختلف مسالک کو مسلکی بنیاد پر یہ سیٹیں تقسیم ہوتی ہیں۔ جبکہ نظریاتی کونسل میں تاثر دیا جاتا ہے کہ یہاں مسالک کو نمائندگی دی گئی ہے، باوجودیکہ اس کے لئے نہ کوئی قانونی ضابطہ ہے اور نہ عملا ہی یہاں متناسب نمائندگی کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔۔۔نتیجتا بعض فرقوں کی شکایات بھی سننے میں آتی رہتی ہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔۔۔اب اگر پارلیمنٹ میں بھی فقہ کی بنیاد پر نمائندگی کا تصور قبول کر لیا جائے تو پورا ملک سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ قانونی طور پر مذہبی انتشار کا بھی شکار ہو جائے گا۔ اگرچہ ملک میں فرقہ واریت کا دور دورہ ہے، تاہم اسے قانونی جواز بخشنا خطرناک ہو گا۔
دستور کی سیکولر حیثیت کے بارے میں ہم آئندہ پانچویں نکتے کے ضمن میں بحث کریں گے۔ ان شاءاللہ                         (مدیر)


[1] مسٹر غلام احمد پرویز کا یہ نظریہ "مرکز ملت" اب معروف ہے۔