حدیث أطلبوا العلم و لو كان بالصين پر تعاقب کا جواب

(ماہنامہ محدث کے دو (2) قریب شماروں[1] میں راقم الحروف کا ایک مضمون زیرعنوان "حدیث، " أطلبوا العلم ولو بالصین" بالاقساط شائع ہوا تھا۔ مضمون ہذا پر عصرِ حاضر کے ایک فاضل محقق محترم جناب ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب (پیرس) حفظہ اللہ نے حدیث، " أطلبوا العلم ولو بالصین" (کے اسانید) کی تحقیق" کے عنوان کے تحت تعاقب فرمایا ہے جو ماہنامہ "محدث" لاہور کے تازہ شمارہ [2]میں شائع ہوا ہے۔ ذیل میں آں محترم کے اس تعاقب کے بعض پہلو کو، جو قابل جواب یا وضاحت طلب محسوس ہوئے ہیں انہیں ترتیب دے کر پیش کر رہا ہوں)
اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ فاضل تعاقب نگار محترمی ڈاکٹر صاحب نے تعاقب کا عنوان اس طرح مقرر فرمایا ہے: "حدیث " أطلبوا العلم ولو بالصین"  (کے اسانید) کی تحقیق" مگر پورے تعاقب کو پڑھ کر راقم کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کیونکہ پورے تعاقب میں حدیث مذکورہ کی اسانید کی تحقیق تو کجا سرے سے کہیں ان کا تذکرہ تک موجود نہیں ہے اور نہ ہی آں محترم نے راقم الحروف کے سابقہ مضمون کی کسی عبارت یا روایت پر کوئی نقد و جرح یا بحث کی ہے۔ البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آں محترم نے اپنے تعاقب کی پوری عمارت چند شبہات احتمالات اور مفروضوں کی بنیاد پر کھڑی کی ہے اور انہیں اسانید کی تحقیق سے ممنون کیا ہے۔ اس کی وضاحت ان شاءاللہ آگے پیش کی جائے گی۔ کاش محترم ڈاکٹر صاحب زیر مطالعہ حدیث پر کوئی ٹھوس علمی بحث پیش فرماتے یا ان نقائص کی نشاندہی فرماتے۔ جو آں محترم نے راقم الحروف کے سابقہ مضمون میں محسوس فرمائیں۔
فی الحال مختصرا یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ فنِ حدیث میں "سند" اور "اسناد" کی اصطلاح سے عموما محدثین کی مراد کیا ہوتی ہے۔ تاکہ یہ احتمال باقی نہ رہے کہ فاضل ڈاکٹر صاحب نے اپنے تعاقب میں جن چند شبہات و قرائن کو بیان فرمایا ہے یا جن کی بنیاد پر اس حدیث کی تصحیح فرمانا ان کا مقصود ہے۔ ان پر حدیث کی اصطلاح "اسناد" کا اطلاق ہوتا ہے۔
علامہ بدر ابن جماعہ رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے "طریق المتن کی خبر کو سند کہتے ہیں۔"[3]
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ابن جماعہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل فرماتے ہیں: طریق المتن کی اخبار کا نام سند اس لیے ہے کہ حفاظِ حدیث کسی حدیث کی صحت اور ضعف کے لیے اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ کسی حدیث کا اس کا قائل کی طرف رفع ہونا اسناد ہے۔ طیبی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: معنوی اعتبار سے یہ دونوں اصطلاحیں آپس میں متقارب ہیں یعنی صحتِ حدیث اور اس کے ضعف کے لیے حفاظ کا ان پر اعتماد کرنا۔ ابن جماعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: محدثین سند اور اسناد ایک ہی چیز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔"[4]
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نکبۃ الفکر فی مصطلح اہل الاثر" کے ایک مقام پر "طُرق روایت" کو ہی "اسانید"[5] سے تعبیر فرماتے ہیں۔ پھر تھوڑا آگے چل کر "اسناد" کی تعریف میں فرماتے ہیں: " هو الطريق الموصلة  إلى المتن"[6]
شیخ مصطفیٰ امین فرماتے ہیں: "محدثین کے نزدیک متن کے لیے موصولہ طریق کی معرفت سند کہلاتی ہے۔ یعنی حدیث بیان کرنے والے راویوں کا طُرق۔۔۔اور اسناد کی تعریف طریق المتن کی حکایت[7] ہے۔"
شیخ عزالدین بلیق فرماتے ہیں: "سند وہ سلسلہ، رواۃ ہے کہ جن کے طریقہ سے کوئی حدیث پہنچتی[8] ہے۔
مولانا عبدالرحمن عبیداللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں: "طریق المتن کی حکایت کو اسناد کہتے ہیں۔ اس سے مراد رفعِ حدیث اور قائل کی طرف اس کی نسبت کرنا ہے۔
سند اصطلاحا متنِ حدیث تک پہنچنے کا طریق ہے یعنی ان رجال کا سلسلہ جو متن تک پہنچتے ہوں۔ اس کا نام سند اس لیے رکھا گیا ہے کہ محدث کسی حدیث کی صحت اور ضعف کے لیے اس سلسلہ پر اعتماد کرتے ہیں۔ پس سند کا معنی رواۃ الحدیث اور اسناد کا معنی فعل الرواۃ ہے اور اسناد کا اطلاق سند پر بھی ہوتا ہے۔ الخ[9]
دائرۃ المعارف الاسلامیہ میں "سند" کو "البرهان علی صحۃ الروایة" بتایا گیا ہے۔[10]
اصطلاحاتِ "سند" و "اسناد" کی مذکورہ بالا تعریف کی روشنی میں محترم ڈاکٹر صاحب کے پورے تعاقب کو پڑھ ڈالیے اور بتائیے کہ آں محترم نے کس طریق المتن کی حکایت و خبر یا کس طریق موصلہ الی المتن یا کس سلسلہ رواۃ کی تحقیق فرمائی ہے؟ اگر جواب نفی میں ہو تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس عنوان اور تعاقب کے مندرجات میں کس درجہ مطابقت پائی جاتی ہے؟
"عنوان" پر تبصرہ کے بعد اب ہم محترم ڈاکتر صاحب کے تعاقب کی طرف توجہ کرتے ہیں تعاقب شروع کرتے ہوئے آں محترم فرماتے ہیں:
"مذکورہ مقالے کا لبِ لباب یہ ہے کہ اس حدیث کے اسانید میں بعض راوی ناقابلِ اعتبار ہیں اس لیے یہ حدیث قابلِ رد ہے۔[11]
اس سلسلہ میں فقط یہ عرض کرنا ہے کہ صحتِ حدیث کو پرکھنے کا یہ معیار کوئی نیا، انوکھا اور راقم الحروف کی ایجاد نہیں ہے بلکہ اولین فقہائے حدیث و محققین کے دور سے رائج ہے۔ مشہور کلیہ ہے کہ "کسی حدیث کی تصحیح کا دارومدار تصحیح حدیث کے اوصافِ مقتضیہ کے وجود مثلا رواۃ کی عدالت، ضبط، اتقان، اتصالِ سند اور علل و شذوذ سے اس کی سلامتی وغیرہ پر مبنی ہوتا ہے۔ پس اگر کسی روایت کے تمام رواۃ ضبط و عدالت اور دوسری تمام صفات کے عالی مقام پر فائز ہوں تو وہ روایت عند المحدثین "اصح" کہلاتی ہے۔الخ[12]
محدثین کے اِسی متفقہ اصول کے پیشِ نظر راقم نے سابقہ مضمون کی تحقیق کے دوران یہ کوشش کی تھی کہ رواۃ کی عدالت، ضبط، اتقان، اتصالِ سند اور دیگر علل کی پوری چھان بین کی جائے تاکہ قطعی طور پر ان روایات پر کوئی حکم لگایا جا سکے۔
تیسرا معروضہ محترم ڈاکٹر صاحب کی اس عبارت:
"علم جرح و تعدیل مسلمانوں کی ایک قابلِ فخر اور بے مثل ایجاد ہے اور اسی کے ذریعہ سے صحیح واقعہ اور من گھڑت افسانے میں امتیاز ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اس علم کی کتابوں کے قابلِ احترام مؤلفوں نے کبھی معصومیت کا ادعاء نہیں فرمایا۔ وہ اپنی رائے اور تاثر کا ذکر کرتے ہیں اور ان میں سے شخص کے متعلق بعض وقت اختلاف رائے بھی ہوتا ہے، اس سے تلخ تجربے بھی ہوتے ہیں، الخ۔"[13]
۔۔ کی وضاحت میں ہے کہ بلاشبہ کتب علم جرح و تعدیل کے قابلِ احترام مؤلفوں نے نہ کبھی معصومیت کا دعویٰ کیا تھا اور نہ ہی ان کی کتب میں فقط ان جارحین و معدلین کی اپنی شخصی "رائے اور تاثر" کا ذکر موجود ہے بلکہ تمام اصحاب نظر جانتے ہیں کہ جرح و تعدیل کی اصل بنیاد امورِ محسوسہ یعنی مشاہدات اور مسموعات پر ہے۔ ان مشاہدات و مسموعات کی روشنی ہی میں جارحین و معدلین کسی راوی کے متعلق کسی عصبیت، ضقد و محابات اور لومہ لائم کے خوف کے بغیر غایت درجہ ورع و امانت کے ساتھ اپنا فیصلہ اور حکم صادر کرتے ہیں۔ اتصالِ سند، توثیق الرواۃ، ان کا ضابط القلب اور جید الحافظہ ہونا، راوی و مروی عنہ کی معاصرت اور آپس میں ان کی لقاء و سماع وغیرہ کی تحقیق محض جارحین و معدلین کی شخصی رائے اور تاثر کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ نیز رواۃ کی نسبت ان جارحین و معدلین نے جو کچھ ثقہ، ثبت، صدوق، شیخ، حافط، ضابط، عادل، جید الحدیث، حسن الحدیث، صدوق لہ، اوہام، مقارب الحدیث، صالح الحدیث، لاباس بہ، مامون، خیار، متقب، حجۃ، مضطرب الحدیث، سیئی الحفظ، واہم، مجہول، مستور، لاتعرف، ساقط، واہ، ہالک، لایساوی شئیا، لا یساوی فلسا، ضعفوہ، ترکوہ، متساہل، لیس بشئی، منکر الحدیث، کذاب، دجال، رکن الکذب، متروک، وضاع، ذاہب الحدیث، سارق الحدیث، لیس بثقۃ، لا یحتج بہ، لیس بحجۃ، لیس بذاک، فیہ مقال وغیرہ الفاظ جرح و تعدیل درج کئے ہیں۔ ان تمام کی بنیاد حسِ تجربیات، مسموعات اور مشاہدات پر ہے نہ کہ محض شخصی رائے، ذاتی تاثر یا قیاس و تخمین اور ظن وغیرہ پر
معترض محترم ڈاکٹر صاحب کے اقوال:
"اور ان میں کسی شخص کے متعلق بعض وقت اختلاف رائے بھی ہوتا ہے، اس سے تلخ تجربے بھی ہوتے ہیں۔"
۔۔ کے سلسلہ میں یہ عرض کرتا ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل کے درمیان بعض اوقات جو اختلاف رائے نظر آتا ہے وہ صرف شخصی "رائے اور تاثر' یا قیاس و اجتہاد کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی راوی کے حالات میں تبدیلی واقع ہونے، کبھی راوی کے احوال کی معرفت کے ذرائع مختلف ہونے اور کبھی جارحین و معدلین کی شرائط و معیار جدا ہونے کے سبب ہوتا ہے۔ اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی ایک امام نے جب کسی راوی کے متعلق معلومات جمع کیں تو وہ راوی اپنی سابقہ حالت بدل چکا تھا، لہذا اس امام نے اس پر جرح کر ڈالی۔ مثلا پہلے کوئی راوی قوی حافظہ اور ضبط کا مالک تھا لیکن بیماری یا کبر سنی یا کسی حادثہ کے باعث بعد میں اس کا حافظہ کمزور ہو گیا۔ اختلاف رائے کی دوسری وجہ جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ کسی امام کو کسی راوی کا مفصل حال معلوم نہ ہو سکا۔ جہاں تک معلوم ہوا اس میں کوئی امر قادح نہ تھا۔ لہذا اس نے اس راوی کی تعدیل درج کی مگر کسی دوسرے امام نے جب اس کے متعلق دوسرے ذرائع سے معلومات جمع کیں اور اس کے حالات کی تحقیق کی تو اس راوی میں کچھ قابلِ جرح باتیں پائیں۔ پس آخر الذکر امام نے اس پر جرح درج کی۔ اختلاف رائے کا تیسرا سبب یہ ہے کہ بعض اوقات کسی امام کے متساہل، متسامح، معتدل اور متشدد ہونے کی بنا پر بھی کسی ایک راوی کے متعلق مختلف اقوال ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ توثیق المجہولین کے معاملہ میں بہت زیادہ متساہل[14]، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ، متسامح، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، دارقطنی اور ابن عدی معتدل اور ابوحاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ انتہائی متشدد اور محتاط رویہ کے لیے مشہور ہیں۔[15] یہ تساہل، تسامح، اعتدال اور تشدد ان جارحین و معدلین کے اپنے اپنے معیار و شرائط جدا ہونے کے سبب ہے۔ لیکن آئمہِ جرح و تعدیل کے ان اختلافات یا تعارض کو رفع کرنے کے لیے محدثین کے پاس جرح مفسر و مبہم، تعدیل مفسر و مبہم اور اطلاع علی منہج الجارح والمعدل وغیرہ کے رہنما اصول موجود ہیں۔ جن سے ایسے تعارض کی حالت میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے کہ کن حالات میں اقوالِ جرح کو ترجیح دی جائے اور کب اقوالِ تعدیل کو۔ مزید تفصیلات کے لیے الخلاصۃ فی اصول الحدیث للطیبی رحمۃ اللہ علیہ، دائرۃ المعارف ترتیب محمد فرید وجدی، تدریب الراوی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ، مختصر فی علمِ رجال الاثر از عبدالوہاب عبدالطیف رحمۃ اللہ علیہ، قاعدۃ الجرح والتعدیل للسبکی رحمۃ اللہ علیہ، التقیید والایضاح للعراقی رحمۃ اللہ علیہ، قواعد التحدیث از محمد جمال الدین قاسمی رحمۃ اللہ علیہ اور رفع التکمیل فی الجرح والتعدیل از عبدالحئی لکھنوی[16] وغیرہ کی مراجعت مفید ہو گی۔
آئمہ جرح و تعدیل کے اقوال کی تفسیر اور ان کے مابین تعارض کو رفع کرنے کے لیے جو اصول وضع کئے گئے ہیں ان کو دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان اختلاف سے صرف وہی شخص گھبرا سکتا ہے یا اسی کو تلخ تجربات کا سامنا ہو سکتا ہے جسے حدیث، اصولِ حدیث اور علم الروایۃ وغیرہ سے بہت سطحی شُدبُد ہو۔ خدا ہی جانے محترم ڈاکٹر صاحب کو "محترم سیرتِ نگار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق" کیسا تلخ "تجربہ" پیش آ چکا ہے۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ قطعی درست ہے کہ علم جرح و تعدیل "کسی حدیث کی صحت کو جاننے کے متعدد وسائل میں سے ایک "مگر انتہائی اہم اور بنیادی وسیلہ ہے، "واحد وسیلہ نہیں" ہے۔
چوتھی بات محترم ڈاکٹر صاحب سے ان جملوں کے متعلق یہ عرض کرنی ہے:
"مذکورہ عنوان پیاری حدیث کی اگر ساری معلوم روایتیں ایک ہی صحابی سے منسوب ملتیں اور وہ ساری کی ساری ایک ہی ناکارہ راوی کے توسط سے ہم تک پہنچی ہوتیں تو بات الگ ہوتی لیکن زیربحث حدیث ایک نہیں کم از کم چھ سات صحابیوں سے مروی ہے۔ گویا عام حالتوں میں اسے حدیث صحیح ہی نہیں حدیث متواتر کہا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اسانید کے مطعون راویوں کے متعلق جرح یا اعتراض کے درجات میں تفاوت بھی ہے، یوں بھی جھوٹے سے جھوٹا شخص بھی سو فی صد جھوٹ نہیں بولتا۔ کراما کاتبین ہی جانتے ہیں کہ پیدائش سے لے کر اب تک میں کتنی بار جھوٹ بول چکا ہوں۔ لیکن جب جب اللہ نے توفیق دی تو میں سچ بھی بولتا رہا ہوں۔ الخ"[17]
یہ سچ ہے کہ زیرِ بحث عنوان کے تحت وارد ہونے والی روایت کا معنی و مفہوم بظاہر بہت دلکش (بلکہ محترم ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں "پیاری حدیث") اور قرین قیاس معلوم ہوتا ہے اور اس کی تمام معلوم روایتیں بھی کسی ایک صحابی سے منسوب نہیں بلکہ سات مختلف صحابیوں (حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ابن عمر، علی، جابر، ابن مسعود، ابوسعید اور ابن عباس رضی اللہ عنہم) سے مروی ہیں جن میں سے سولہ (16) طرقِ روایات حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، چار طرق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، تین طرق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور ایک ایک طریق حضرت ابن مسعود، جابر، ابن عباس اور ابو سعید رضی اللہ عنہم سے منسوب ہیں۔ پھر یہ ساری کی ساری روایات ہم تک کسی ایک ہی ناکارہ راوی کے توسط سے نہیں پہنچی ہیں بلکہ اکثر طرق میں الگ الگ مجروح رواۃ موجود ہیں اور ان پر جرح کے درجات میں تفاوت بھی ہے لیکن کسی حدیث کا متعدد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونا یا متعدد رواۃ کے توسط سے یا بکثرتِ طرق ہم تک پہنچنا اس حدیث کی صحت کا معیار نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی حدیث صرف ایک صحابی سے مروی ہو مگر صحت کے معیار پر پوری اترتی ہو تو محض صحابی کے تفرد کی بناء پر اس حدیث کی صحت متاثر نہ ہو گی۔[18] اسی طرح کسی ناقابل احتجاج حدیث کی نسبت کئی صحابہ کی جانب کر دینے سے وہ صحیح نہیں بن جاتی۔ قدیم اصولیین و محدثین میں سے غالبا کوئی بھی محترم ڈاکٹر صاحب کے بیان کردہ صحت حدیث کے اس انوکھے معیار سے واقف نہ ہو گا۔
اس حدیث کے متواتر نہ ہونے کی بحث تو ان شاءاللہ آگے پیش کی جائے گی۔ فی الحال یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ حدیث صحیح اور متواتر تو کجا، حَسن کے درجہ تک بھی نہیں پہنچتی اگرچہ محترم ڈاکٹر صاحب عام حالات میں اس کے صحیح ہی نہیں بلکہ متواتر ہونے کے قائل ہیں۔ شاید ڈاکٹر صاحب محترم نے اس سلسلہ میں محمد بن جعفر الکتانی اور جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال پر تکیہ کیا ہے۔ شیخ محمد بن جعفر الکتانی رحمۃ اللہ علیہ نے "نظم المتناثر من الحدیث المتواتر" میں اس حدیث کو کثرتِ طرق کی بناء پر "متواتر" شمار کیا ہے۔[19] اسی طرح علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"حافظ مزی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اس حدیث کی روایت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اس کو آں رحمہ اللہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دوسری دو حدیثوں کے ساتھ مشافہۃ سنا تھا اور ان سب کے طُرق حسن کے رتبہ کو پہنچتے ہیں۔ میں (یعنی سیوطی رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں کہ میرے نزدیک یہ صحیح کے رتبہ کو پہنچتی ہے۔ کیونکہ میں اس کے تقریبا پچاس طرق سے واقف ہوں۔ جنہیں میں نے ایک علیحدہ جزء میں جمع کر دیا ہے۔"[20]
مولانا ابوالحسنات عبدالحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"فی الجملہ اس حدیث کی اسانید بہت زیادہ ہیں۔ حتیٰ کہ حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو احادیثِ متواترہ میں شمار کیا ہے۔"[21]
شیخ احمد الغاری حنفی مرحوم نے بھی اپنی کتاب "اتحاف ذوی الفضائل المشتہرۃ" اور "المسیہم بطرق حدیث طلب العلم فریضۃ علی کل مسل" میں اس حدیث کے جملہ طرق کے مجموعہ کو رتبہ صحیح لغیرہ تک پہنچایا ہے۔[22]
لیکن حق بات یہ ہے کہ کتانی رحمۃ اللہ علیہ کا اس کو "متواتر" بیان کرنا یا سیوطی رحمۃ اللہ علیہ، غمازی رحمۃ اللہ علیہ، لکھنوی اور ڈاکٹر صاحب وغیرہ کا اس کو "صحیح" کے رتبہ تک رفع کرنا محض کثرتِ طرق کی بنیاد پر ہے، کسی صحیح اور قابلِ احتجاج طریق کی بناء پر نہیں ہے۔ بعض علماء بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث متعدد حسن لذاتہ طرق کے ساتھ وارد ہو تو اس کا ہر طرق دوسرے طریق کے لیے تقویت کا باعث ہوتا ہے اور ان سب کا مجموعہ اس قوت کی بناء پر درجہ حسن سے ترقی کر کے صحیح کے ساتھ ملحق ہو جاتا ہے مگر وہ حدیث عین صحیح نہیں بن جاتی۔[23] اسی طرح بعض علماء فرماتے ہیں اگر کوئی ضعیف حدیث متعدد طرق سے وارد ہو ان کا مجموعہ بوجہ اعتضاد ضعف کے درجہ سے ترقی کر کے حسن کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے۔[24] لیکن یہ کوئی متفقہ کلیہ نہیں بلکہ محلِ نزاع ہے۔ جس کی تفصیل ہم نے اپنے زیرِ ترتیب مضمون بعنوان "ضعیف حدیث اور اس کی شرعی حیثیت" میں درج کی ہے۔
خلاصہ یہ کہ اصل مطبوعہ مضمون میں پیش کئے گئے ستائیس (27) طرق میں سے ایک طریق بھی درجہ "حسن" کو نہیں پہنچتا، لہذا اعتضادِ طرق کے سبب اس کو "صحیح لغیرہ کے رتبہ تک رفع کرنا خارج از امکان ہوا۔ اب اگر محترم ڈاکٹر صاحب دعویٰ صحت و تواتر سے نیچے اتر کر اس کے تمام ضعیف طرق کے مجموعہ سے زیر مطالعہ حدیث کی صرف "تحسین" ہی فرمایا چاہیں تو وہ بھی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے بیشتر طُرق میں کذاب، متروک الحدیث، وضاع، منکر الحدیث اور مجہول رواۃ موجود ہیں۔ اگر اس کے کسی طریق میں ضعف کی نوعیت قریب متحمل ہوتی یا اس روایت کا کوئی صالح شاہد طرق موجود ہوتا تو بات بن سکتی تھی۔ لیکن ایسے شدید مجروح رواۃ والے خود کتنے ہی طرق کیوں نہ مل جائیں وہ ایک دوسرے کے لئے تقویت و اعتضاد کا باعث ہرگز نہیں بن سکتے بلکہ کسی بھی حدیث کے ضعف کو مزید موکد کرتے ہیں یا عام حالات میں ایسے طرق کا مجموعہ کسی حدیث کو "منکر" اور " لا أصل له" بنا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ قول: "لیکن زیر بحث حدیث ایک نہیں کم از کم چھ سات صحابیوں سے مروی ہے گویا عام حالتوں میں اُسے صحیح ہی نہیں حدیثِ متواتر کہا جا سکتا ہے۔" بھی انتہائی قابلِ گرفت ہے کیونکہ کسی حدیث کا محج چھ، سات صحابیوں سے مروی یا منسوب ہونا اس کے "متواتر" ہونے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو کسی حدیث کے متواتر ہونے کے لیے کوئی عدد معین ہی نہیں ہے۔۔۔بعض علماء نے چار، بعض نے پانچ، بعض نے کم از کم دس، بعض نے چالیس، بعض نے ستر اور بعض نے اس سے بھی زیادہ رجال کی شرط بیان کی ہے[25] لیکن علمائے تحقیق کے نزدیک کسی روایت کو "متواتر" کہنے کے لیے صرف ان اعداد پر اعتماد کرنے کے بجائے ان تمام شرائط پر پورا اترنا لازم ہے جو محدثین کرام نے اس سلسلے میں مقرر فرمائی ہیں۔ ذیل میں "متواتر" حدیث کی تعریف اور اس کی شرائط بیان کی جاتی ہیں تاکہ ان کی روشنی میں محترم ڈاکٹر صاحب کے قول کی صداقت کو پرکھا جا سکے۔
شیخ عزالدین بلیق فرماتے ہیں: "وہ روایت جسے " جمع عن جمع" روایت کیا گیا ہو اور عقل کے نزدیک سب کا باتفاق جھوٹ بولنا محال ہو، الخ۔"[26]
شیخ عبدالرحمن عبیداللہ رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"اصطلاحا متواتر وہ روایت ہے جس کو ہم نے کثیر جماعت سے نقل کیا ہو اور عقل ان سب کا باتفاق جھوٹ بولنا اباء کرتی ہو۔ نیز ان کی خبر مشاہدات یا مسموعات میں سے کسی محسوس شئے سے متعلق ہو مثلا یہ کہا جائے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے سنا۔ تواتر کی چار شرطیں ہیں۔ اول یہ کہ اس کو کثیر تعداد نے بلا حصر روایت کیا ہو، دوم یہ کہ ابتداء سے انتہاء تک ہر طبقہ سند کے رواۃ نے اس کو روایت کیا ہو، سوم یہ کہ عقل کے نزدیک ان تمام رواۃ کا کذب پر متفق ہونا محال ہو اور چہارم یہ کہ ان کی خبر باعتبارِ حس (مشاہدہ یا سماع) انتہائی مستند ہو۔"[27]
اور علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ "متواتر" کی شرائط بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
"رواۃ کی کثیر تعداد کہ عقل کے نزدیک ان سب کا کذب پرمتفق ہونا محال ہو، اس کو ابتداء سے انتہاء تک (ہر طبقہ رواۃ نے) روایت کیا ہو، وہ حس کی انتہاء تک مستند ہو وغیرہ" الخ[28]
اب قارئین کرام خود فیصلہ فرمائیں کہ کیا محترم ڈاکٹر صاحب کا مذکورہ بالا قول "تواتر" کی چاروں شرائط پر پورا اترتا ہے؟ اگر پہلی تین شرائط پر پورا اترنا تسلیم کر بھی لیا جائے تو چوتھی شرط یعنی خبر کا مستند ہونا بہرحال اس راہ میں ایک بڑی کاوٹ ہے۔
جہاں تک زیرِ مطالعہ حدیث کے مختلف طرق میں موجود مجروح راویوں پر جرح کے درجات میں تفاوت ہونے کا سوال ہے تو اس سلسلہ میں یہ وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ سابقہ مضمون کے بیان کردہ جملہ طرق میں پچاس سے زیادہ مجروح رواۃ موجود ہیں۔ جن میں سے اکثر یعنی بیس (20) سے زیادہ رواۃ پر "کذب"، "وضاع"، "منکر الحدیث" اور "متروک الحدیث" جیسے سنگین حکم عائد کئے گئے ہیں، ان میں سے آٹھ رواۃ کو ائمہ جرح و تعدیل نے "مجہول" اور باقی کو "ضعیف، "مطعون"، "لیس بشئی"، "لیس بثقۃ" اور "لیس بحجۃ" وغیرہ قرار دیا ہے۔ پھر رواۃ پر جرح کے مراتب میں تفاوت ہونا کسی حدیث کی صحت کی دلیل تو نہیں ہوتا۔
اب فاضل تعاقب نگار محترم ڈاکٹر صاحب کے اگلے قول:
"یوں بھی جھوٹے سے جھوٹا شخص بھی سو فی صد جھوٹ نہیں بولتا۔ کراما کاتبین ہی جانتے ہیں کہ پیدائش سے لے کر اب تک میں کتنی بار جھوٹ بول چکا ہوں لیکن جب جب اللہ نے توفیق دی تو میں سچ بھی بولتا رہا ہوں۔"
۔۔پر تبصرہ پیش خدمت ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی یہ بات ہمیں تسلیم ہے کہ جھوٹے سے جھوٹا شخص بھی سو فی صد جھوٹ نہیں بولتا۔" لیکن محض اس خیال کی بنیاد پر کسی کذاب یا متہم بالکذب اور وضاع راوی کی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ محدثین اور اصولیین کے متفقہ فیصلہ اور اصولِ حدیث کے کلیہ کے قطعا خلاف ہے۔
حدیث نبوی میں عمدا جھوٹ بولنا اللہ کے دین میں ایک بڑی جسارت اور تمام انسانوں کے مصالح کے خلاف ہے۔ اس بناء پر تمام فقہائے حدیث نے اس معاملہ میں انتہائی شدت اختیار کی ہے حتیٰ کہ بعض نے ایسے شخص کو واجب القتل تک بتایا ہے۔ بعض محدثین کے کاذب کے تائب ہو جانے کے بعد بھی اس کی خبر کو قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ابوالمظفر سمعانی المروزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"جو شخص کسی ایک خبر میں کذب بیانی کرے اس کی پچھلی تمام احادیث کو بھی ساقط کرنا واجب ہے۔"[29]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"فاسق کے تائب ہونے کے بعد اس کی روایت قبول کی جاتی ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں کذب بیانی کرنے والے کی روایت توبہ کے بعد بھی قبول نہیں کی جاتی۔ جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، ابوبکر الحمیدی، شیخ البخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ابوبکر الصیر فی الشافی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔صیرنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن رواۃ کی خبر کو ہم نے کذب کی بناء پر ساقط کیا ہے ہم ان کی توبہ کے بعد بھی ان کو قبول نہیں کرتے۔" الخ[30]
شیخ عزی الدین بلیق فرماتے ہیں:
"اہل علم حضرات کا اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والوں سے کوئی حدیث نہ لی جائے۔"
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بھی ان علماء کے ساتھ متفق نظر آتے ہیں جن کے نزدیک:[31]
"اگر کوئی شخص حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدا جھوٹ بولے تو واجب القتل ہے۔"
ان ہی علمائے حدیث میں حضرت مُرہ ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی شمار ہوتا ہے جنہوں نے حارث الاعور کی گردن قلم کرنے کے لیے ایک بار اپنی شمشیر میان سے باہر سونت لی تھی۔[32]
جہاں تک محترم ڈاکٹر صاحب کے اس قول:
"کراما کاتبین ہی جانتے ہیں کہ پیدائش سے لے کر اب تک میں کتنی بار جھوٹ بول چکا ہوں۔ لیکن جب جب اللہ نے توفیق دی تو سچ بھی بولتا رہا ہوں۔"
۔۔کا تعلق ہے محترم ڈاکٹر صاحب! مجھے یہ کہنے کی جسارت پر معاف فرمائیں کہ شریعت مطہرہ ہم تک نہ آپ کے واسطے سے پہنچی ہے اور نہ ہی آپ ہمارے لیے ذریعہ علم پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں کہ کبھی کبھار عمدا یا بالاکراہ جھوٹ اور بتوفیقِ الہیٰ سچ بھی بولنے سے شریعت میں خلل اور پلیدگی واقع ہوتی ہو۔ یہ تو اسی صورت میں ممکن تھا کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث اپنے طریق اسناد کے ساتھ روایت کرنے کا شرف حاصل ہوتا۔ مجھ، آپ یا کسی اور کے برخلاف رواۃِ حدیث کے کذب کی نوعیت بہت سنگین ہوتی ہے۔ کہ ان کے ذریعہ ہی ہم تک علمِ حدیث نبوی پہنچا ہے۔ اگر ان کے کذب کی نوعیت کو ہم اپنے، آپ کے یا کسی اور شخص کے مساوی سمجھ لیں تو نتیجۃ ہمارا سارے کا سارا ذخیرہ احادیث مشکوک و مشتبہ ہو کر رہ جائے گا، پھر جو چیز مشکوک و مشتبہ ہو وہ یقینی علم کا ذریعہ کس طرح ہو سکتی ہے اور جو چیز غیر یقینی ہو وہ شریعت کیونکر ہو سکتی ہے، لہذا منطقی اعتبار سے انکار حدیث لازم آیا، نعوذ باللہ من ذلک۔ (جاری ہے)


[1] ماہنامہ محدث لاہور جلد 18، عدد شمارہ 10-12 بمطابق شوال تا ذوالحجہ سئہ 1408ھ
[2] ایضا، جلد نمبر 19، عدد شمارہ نمبر 1-2، بمطابق محرم و صفر سئہ 1409ھ ص 90-93
[3] تدریب الراوی شرح تقریب الننوی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ج1، ص 41، طبع دارالکتب العلمیہ بیروت سئہ 1979ء
[4] ایضا ص 41-42 وکذا فی قواعد التحدیث للقاسمی رحمۃ اللہ علیہ ص 202
[5] متن نخبۃ الفکر لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مع سبل السلام ج4 ص 228 طبع دار الاحیاء التراث العربی، بیروت سئہ 1960ء
[6] ایضا جلد 4 ص 230
[7] محاضرات فی علوم الحدیث للشیخ مصطفیٰ امین، جلد نمبر 1 ص 17 طبع سوم، مطبع دارالتالیف بالمانیہ مصر
[8] مقدمہ منہاج الصالحین للشیخ غرالدین طبیق ص 53 طبع دارالفتح بیروت سئہ 1978ء
[9] تحفہ اہل الفکر فی مصطلح اہل الاثر للشیخ عبدالرحمن ص 26 طبع مکتبہ رحمانیہ اعظم گڑھ سئہ 1982ء
[10] دائرۃ المعارف الاسلامیہ (عربی) ج نمبر8 ص 331
[11] ماہنامہ محدث ج19 عدد 1-2 ص 90
[12] حاشیہ برمقدمہ تحفۃ الاحوذی لابی الفضل المبارکفوری رحمۃ اللہ علیہ ص 160 طبع نشر السنۃ، ملتان (تبصرف یسیر)
[13] تفصیل کے لئے التنکیل بما فی تانیب الکوثری للشیخ عبدالرحمن معلمی الیمانی رحمۃ اللہ علیہ ج1، ص 66، تعلیق الشیخ الیمانی رحمۃ اللہ علیہ علی الفوائد المجموعۃ ص 107، 485، مقالات الکوثری رحمۃ اللہ علیہ ص 65، 309، لسان المیزان لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ج 1 ص 14، مقدمہ کتاب الثقات لابن حبان رحمۃ اللہ علیہ، ج1 ص 13، الانوار الکاشفۃ للیمانی، ص68، جرح و تعدیل لابی لبابہ حسین ص 168، رسالۃ المستطرفۃ للکتانی رحمۃ اللہ علیہ ص 110، رد علی التعقیب الحثیث ص 18-21، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی ج1 ص 32-33 اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی ج2 ص 182، 219، وغیرہ ملاحظہ فرمائیں
[14]
[15] تفصیل کے لیے اعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ مع علم التاریخ عندالمسلمین ص167، 721 اور فتح المغیث للسخاوی رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 325 وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
[16] الخلاصۃ فی اصول الحدیث للطیبی رحمۃ اللہ علیہ ص 57، دائرۃ المعارف ترتیب محمد فرید وجدی ج3 ص 375، تدریب الراوی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 305-315، مختصر فی علم رجال الاثر للشیخ عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ ص 54، قاعدۃ الجرح والتعدیل  للسبکی رحمۃ اللہ علیہ ص 5-6، التقیید والایضاح للعراقی رحمۃ اللہ علیہ ص 138، قواعد التحدیث للقاسمی ط ص 188-190، الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل للکنوی رحمۃ اللہ علیہ ص 99۔
[17] ماہنامہ محدث ج19، عدد 1-2 ص 90-91
[18] تفصیل کے لئے اعلام الموقعین لابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ص 160، قواعد التحدیث للقاسمی رحمۃ اللہ علیہ ص99، تدریب الراوی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 67 اور مقدمہ منہاج الصالحین للشیخ غرالدین طبیق ص 48 وغیرہ ملاحظہ فرمائیں
[19] نظم المتناثرین من الحدیث المتواتر  للکتانی ص 27
[20] تبییض الصحیفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ص 7۔
[21] ظفر الامانی للکنوی رحمۃ اللہ علیہ ص 93
[22] اتحاف ذوی الفضائل المشتہرہ للغماری رحمۃ اللہ علیہ ص 5-6
[23] کذا فی قواعد التحدیث للقاسمی رحمۃ اللہ علیہ ص 102-103
[24] تدریب الراوی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 58، فتح المغیث للسخاوی رحمۃ اللہ علیہ بحوالہ قواعد التحدیث للقاسمی رحمۃ اللہ علیہ ص 109-110، مرقاۃ المفاتیح للقاری رحمۃ اللہ علیہ بحوالہ مقدمہ تحفۃ الاحوذی للمبارکفوی رحمۃ اللہ علیہ ص 54، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ المصابیح لابی الوزیر محدث دہلوی ج1 ص 4 وغیرہ۔
[25] تدریب الراوی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 176-178
[26] مقدمہ منہاج الصالحین للشیخ عزالدین طبیق ص 48 و کذا فی تدریب الراوی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 176-180
[27] تحفۃ اہل الفکر فی مصطلح اہل الاثر للشیخ عبدالرحمن ص 7-8
[28] متن نخبۃ الفکر فی مصطلح اہل الاثر لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مع سبل السلام ج نمبر 4 ص 228
[29] التقیید والایضاح للعراقی رحمۃ اللہ علیہ ص 151، تدریب الراوی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ج1، ص 330، الباعث الحثیث لابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بتحقیق استاذ احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ ص 101
[30] التقریب للنووی رحمۃ اللہ علیہ مع تدریب الراوی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 329-330
[31] باعث الحثیث لابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بتحقیق احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ ص 102
[32] مقدمہ صحیح مسلم ج1، ص 19