شیخ القرا ء والمحدثین محمد بن الجزری رحمة اللہ علیہ

نام ونسب

آپ کا لقب شمس الدین اور کنیت ابو الخیر ہے۔ آپ کا ، آپ کے والد، دادا اور پردادا کا نام محمد تھا، سلسلہ نسب کچھ یوں ہے۔ قدوة المجھودین ، شیخ القراء والمحدثین، شمس الدین ابوالخیر محمد بن محمد بن محمد بن محمد بن علی بن یوسف الجزری الشافعی ، آپ زیادہ تر ابن الجزری کی عرفیت سے مشہور ہیں جو کہ جزیرہ ابن عمر سے نسبت رکھنے کے باعث ملی ۔ جزیرہ ابن عمر مشرق وسطی حدود شام میں موصل شہر کے شمال میں۔ جبل جودی کے قریب (جبل جودی جہاں نوح علیہ السلام کی کشتی آکر ٹھہری تھی) ایک علاقہ ہے جس کو نہرو جلہ ہلال کی طرح احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس جزیرہ کو آباد کرنے والے عبدالعزیز بن عمر بر تعیدی تھے۔ اسی لیے اس کو "جزیرہ ابن عمر" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چونکہ ابن جزری کے آباؤ اجداد اس جزیرہ کے رہنے والے تھے۔ لہذا اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے ابن جزری کہا جا تا ہے۔ الجزری کے علاوہ آپ کو " الشافعی" بھی کہتے ہیں۔ قاری رحیم بخش رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب العطایا الوھبیة کے صفحہ نمبر16پر فرماتے ہیں کہ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں:

1۔ ابن الجزری شافعی المذھب تھے۔ (2) نسب کی رو سے شافعی تھے یعنی آپ امام محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع (150 و204ہجری) کی اولاد میں سے ہیں۔

قاری محمد سلیمان اپنی کتاب "فوائد مرضیة " میں لکھتے ہیں کہ ابن الجزری بنو شافع کے قبیلہ سے تھے۔ لیکن آخری دونوں احتمال صحیح نہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ مذہبی انتساب ہے، چنانچہ ابن الجزری کے صاحبزادے نے بھی اس کی تصریح کی ہے کہ

"تاریخ کی اس مشہور حقیقت کا کون انکار کر سکتا ہے کہ ابن الجزری جلیل القدر علماء شافعیہ میں سے ہوئے ہیں۔ قیاس یہ چاہتا تھا کہ نسبت کو ملا کر مقلد کو شافع الشافعی کہا جاتا ، لیکن اختصار کےپیش نظر ایک نسبت کو حزف کر دیتے ہیں"

یہاں ایک باریک نکتہ ہے وہ پہ کہ وہابیہ کی نسبت تو حقیقی ہے( کہ خود محمد بن عبدالوہاب کی طرف ہے) اور شافعیہ کی مجازی ہے (جو کہ شافعی کے جد امجد کی طرف ہے) واللہ اعلم

ولادت با سعادت

آپ کے والد محترم کی شادی کو چالیس برس گذر چکے تھے لیکن وہ اولاد کی نعمت سے ہنوز محروم تھے۔ ایک مرتبہ وہ حج بیت اللہ کی غرض سے سر زمین حجاز پر موجود تھے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے گھر پر نگاہ پڑی تو ان کا دل بھر آیا۔ انہوں نے خانہ کعبہ کا طواف بڑی دلسوزی سے کیا۔ پھر وہ چاہ زم زم پر گئے۔ آپ زم زم پینے کے بعد انہوں نے ہاتھ اٹھا لیے ۔ ان کی دیرینہ دلی تمنا لفظوں میں ڈھل کر لبوں تک آ گئی اور پوری رقت سے دُعا کی:

" اے میرے رب مجھے نیک وصالح اولاد عطا فرما"

حج کے تمام مناسک سے فارغ ہ وکر وہ اپنے ملک واپس پہنچ گئے۔ چندماہ بعد رمضان المبارک کا مقدس مہینہ سایہ فگن ہوا۔ برکتوں او ر سعادتوں سے معمور اسی ماہ مبارک کی 25تاریخ751ہجری بروز ہفتہ نماز تراویح کے بعد (یعنی 26نمبر1350ء کو) دمشق کے ایک محلہ میں ایک بچہ نے جنم لیا۔ یہ بچہ اسی غمزدہ شخص کی دعاؤ ں کا نتیجہ تھا جو اپنی شادی کے بعد سے 40برس تک اولاد کی نعمت کا منظر تھا۔ اس وقت کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ محمد کے گھر پیدا ہونے والا بچہ کتنا بڑا قاری، عالم ،فقیہ او ر محدث بنے گا۔ آج دنیا اس کو ابن الجزری کے نام سے جانتی ہے۔

تعلیم

آپ رحمة اللہ علیہ کی ابتدائی تعلیم اسی شہر میں ہوئی۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے صرف 12برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا تھا۔ آپ رحمة اللہ علیہ ہر سال نماز تراویح میں قرآن سناتے تھے۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے فقہ شافعیہ کی پانچ مشہور کتابوں میں سے فقیہ ابو اسحاق ابراہیم شیرازی (م:476ھ/1083ء) کی کتاب"التنبيه" کو بھی حفظ کیا۔

ابن الجزری رحمةا للہ علیہ قرآن کریم کی مختلف قرآءات کے ماہر تھے۔ آپ رحمةا للہ علیہ نے پہلے (768ه/1367ء) میں قرآن مجید کی سات مشہور قراءات کا علم حاصل کیا۔ اس غرض سے آپ رحمةا للہ علیہ نے علامہ ابو عمرو عثمان الدانی رحمةا للہ علیہ(م444ھ/1052ء) کی مشہور کتاب "التیسیر" اور ابو محمد قاسم رحمةا للہ علیہ الشاطبی (م:590ھ/1194ء) کی "حرز الامانی ووجہ التھانی" جو کہ "شاطبیہ" کے نام سے مشہور ہے۔ شیخ تقی الدین عبدالرحمن بغدادی سے پڑھے۔ ساتوں قراءتوں کی مشق احمد بن الحسین الکغری(م774ھ/1372ء) کی مدد سے مکمل کی ۔ نیز شیخ القراء محمد بن احمد اللیسان (م776ھ/1374ء) سے فنی کتب کا علم بھی سیکھا او ر قرآء ات بھی پڑھیں۔

اس کے بعد ابن الجزری رحمةا للہ علیہ قرآن مجید کی چودہ قراء توں کی طرف مائل ہوئے او ر آپ رحمةا للہ علیہ نےشیخ عبدالوہاب بن یوسف اور شیخ احمد بن رجب بغدادی کی مدد سے الگ الگ 14قراء توں کی مشق کی اور ان سے اسناد حاصل کیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دمشق علم وفنون کا گہوار ہ تھا۔ لیکن ابن الجزری رحمةا للہ علیہ حصول علم کے شوق میں دیگر مقامات کی طرف سفر کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ(768ھ/1366ء) کو آپ رحمةا للہ علیہ اپنے وطن سے روانہ ہوئے۔ پہلے فریضہ حج ادا کیا۔ اس کے بعد مکہ، مدینہ ، قاہرہ ، اسکندریہ ، بطبک او ر دیگر شہروں میں نامور اساتذہ کی شاگردی اختیار کی۔

شیوخ

ابن الجزری نے تقریباََ چالیس مشائخ سے کسب فیض کیا۔ چنانچہ فقہ کا علم جمال الدین عبدالرحیم الاسنوی( م722ھ/1370ء) ، عمر بن رسلان (م805ھ/1402ء) اور ابو البقاء عبدالوہاب سبکی (م771ھ/1369ء) جیسے قابل فقہا ء کرام سے حاصل کیا۔ اصول فقہ اور معانی و بیان کی تعلیم علامہ عبداللہ بن سعد الدین (م782ھ/1380ء) اور دیگر اہل علم سے پائی۔

حدیث کا درس لینے کے لیے ابن الجزری رحمةا للہ علیہ نے شیخ ابو الثناء محمد بن خلیفہ (م767ھ/1365ء) بہاؤ الدین عبداللہ (م794ھ/1392ء) ،شہاب الدین احمد حنبلی(م777ھ/1375ء) ، شمس الدین محمد محب المقدسی (م789ھ/1387ء) اور ابن کثیر الدمشقی جیسے نامور حفاظ حدیث کے آگے زانوئے تلمذتہ کیا۔

اس کے علاوہ ابن الجزری رحمةا للہ علیہ نے فخر الدین البخاری (م690ھ/1291ء) ، حافظ شرف الدین عبدالمومن الدمیاطی (م705ھ/1305ء) اور شیخ شہاب الدین احمد الابرقوی (م701ھ/1301ء) کے نامور اساتذہ سے بھی احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی سماعت کی۔

حافظ الحدیث عمر بن حسن المراغی (م778ھ/1376ء) سے سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی کی سماعت کی۔ جبکہ شیخ صلاح الدین حنبلی (م780ھ/1378ء) سے طبرانی کی"المعجم الکبیر" او "مسند احمد" پڑھیں۔ علاوہ ازیں آپ کے شیوخ کی کافی تعداد ہے جن میں ابن عبدالکریم حنبلی اور بہادر الدین مامینی وغیرھما کا تذکرہ ملتا ہے۔ شیخ کبری زادہ فرماتے ہیں کہ "سمع الحديث من جماعة".

تعلیم و تعلم کے دوران پیش آمدہ حالات

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو فن قراءت سے خاص دلچسپی تھی۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے اس فن میں کمال حاصل کیا۔ آپ کےبعض اساتذہ نے آپ رحمة اللہ علیہ کو مشورہ دیا کہ علم قراءت بہت محنت چاہتا ہے ۔ اسی لیے اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کم ہے۔ آپ کو دیگر علوم سے بھی لگاؤ رکھنا چاہیے۔ چانچہ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ فرمائی اور باقاعدہ اسناد کے ساتھ ایک لاکھ احادیث حفظ کرلیں۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ صغر سنی میں ہی متعدد علوم کی تکمیل فرما چکے تھے۔ اور آپ رحمة اللہ علیہ کی غیر معمولی ذہانت، حافظہ اور علم سے گہری دلچسپی سے آپ رحمة اللہ علیہ کے اساتذہ بہت متاثر تھے۔ اب آپ رحمة اللہ علیہ کے اساتذہ نے آپ رحمة اللہ علیہ کو درس و تدریس ، افتاء او ر تحدیث (حدیث روایت کرنا) کی اجازت مرحمت فرمائی۔ امام سخاوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

اذن له غير واحد بالافتاء والتدريس والاقراء

"یعنی بہت سے مشائخ نے آپ کو افتاء درس و تدریس اور قراءت پڑھانے کی اجازت سے نوازا"

چنانچہ (774ھ/1372ء) کو حضرت عماد الدین ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے ،(778ھ/1376ء) کو ضیاء الدین القری رحمة اللہ علیہ اور (785ھ/1383ء) کو شیخ الاسلام البلقینی رحمة اللہ علیہ نے ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو درس دینے اور فتویٰ جاری کرنے کی اجازت عنایت فرمائی۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے چند برس تک دمشق کی جامع(مسجد) بنی امیہ میں قراءت کی تعلیم دی۔ اس غرض سے وہ قبہ نسرین (جگہ کا نام) کے نیچے اپنی نشست رکھا کر تے تھے۔ اس کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ کو دارالعلوم عادلیہ کا شیخ القراء مقرر کر دیا گیا۔ پھر آپ رحمة اللہ علیہ نے "دارالحدیث اشرفیہ " میں شیخ القراء کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ آپ رحمة اللہ علیہ شیخ اابن السلاء کی وفات کے بعد" تربة ام الصالح" کے شیخ القراء بنا دیےگئے۔ یہاں آکر آپ رحمة اللہ علیہ نے دارالقراء کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔ (بعض اسے دارالقرآن کہتے ہیں جو صحیح نہیں)

یہ وہ زمانہ تھا جب سر زمین مصر پر ملک الظاہر سیف الدین برقوق نے اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ برقوق ایک دیندار ، نیک دل، بہادر، اولوالعزم اور علم دوست حکمران تھے۔ انہوں ے 784ھ کے اواخر (یعنی 1383ء کے اوائل) میں مصر کا اقتدار سنبھالا تھا۔ انہوں نے ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو"جامع توتہ" کا خطیب مقرر کر دیا۔ (795ھ /1393ء ) میں آپ رحمة اللہ علیہ کو بیت المقدس کی الجامعة الصلاحیة میں امور تعلیم کا ناظم مقرر کیا گیا۔ (797ھ/1395ء) کو ایک اور اہم ذمہ داری آپ رحمة اللہ علیہ کی منتظر تھی۔ شام کے امیر التشمش نے آپ رحمة اللہ علیہ کو شام کا قاضی مقرر کر دیا۔ تا ہم یہ ذمہ داری ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوئی۔ اوقاف کے حسابات تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ سے امیر شام آپ رحمة اللہ علیہ سے ناخوش ہوگئے۔ آپ رحمة اللہ علیہ پر سختیاں کی گئیں اور آپ رحمة اللہ علیہ کا مال و متاع سب کچھ ضبط کر لیا گیا۔

ان نا مساعد حالات میں ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو انتہائی صدمہ سے دو چار ہونا پڑا۔ وہ عثمانی سلطنت کے حکمران با یزید اول کے پاس ان کے دارالحکومت برسہ (بروصہ) چلے گئے۔ با یزید جو کہ یلدرم (بجلی) کے لقب سے مشہور تھے، ایک بہادر اور علم پرور حکمران تھے۔ انہوں نے ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کی بہت عزت افزائی کی ۔ بڑے احترام سے اپنے پاس ٹھہرایا اور جب تک وہ حکمران رہے انہوں نے ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو برسہ (بروصہ ) سے کہیں اور جانے نہ دیا۔

بروسہ(بروصہ) میں ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے درس حدیث اور درس قراءت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے آپ رحمة اللہ علیہ کے علم سے کسب فیض کیا۔ خود عثمانی سلطنت کےبایزید یلدرم نے آپ رحمة اللہ علیہ سے دس قراءتوں کی تحصیل کی۔ لیکن اس کے بعد بد قسمتی سے امیر تیمور اور اس کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔

با یزید اول بلقان کے محاذ پر عیسائیوں کے خلاف جہاد میں مصروف تھے، لیکن اپنے حلیفوں کے ترغیب دلانے پر انہوں نے اناطولیہ (موجودہ ایشیائی ترکی) پر چڑھائی کر دی اور اس طرح امیر تیمور کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے جواب میں امیر تیمور نے سخت کاروائی کی۔

آخر 19ذی الحج (804ھ / 20جولائی 1402ء) کو انقرہ کے مضافات میں بڑی خونریز جنگ ہوئی۔ جس میں بایزید کے فوجیوں نے شکست کھائی۔ با یزید گرفتار ہو گئے اور امیر تیمور نے ان کے بہت احترام کا سلوک کیا۔ لین بایزید قید کی حالت میں 14شعبان (7805ھ/9مارچ1403ء) کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے (بعض مورخین کہتے ہیں کہ ان کی موت دمے کے مرض سے ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے خود کشی کی تھی۔ بہر کیف یہ بات طے شدہ ہے کہ بایزید جیسے بہادر سپہ سالا کو اپنی شکست کا غیر معمولی صدمہ پہنچا تھا۔

امیر تیمور کے عثمانی سلطنت کے دارلحکومت برستہ(بروصہ) پر قبضہ کر لینے کے بعد وہاں کی علمی شخصیات نےکہیں اور منتقل ہونے کا ارادہ کر لیا جن میں ابن الجزری رحمة اللہ علیہ بھی شامل تھے۔ لیکن آپ رحمة اللہ علیہ کو حراست میں لے کر امیر تیمور کے پاس حاضر کیا گیا۔ امیر تیمور علماء و فقہاء کی بہت عزت کرتے تھے۔ جب وہ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کے بے پنا ہ علم سے واقف ہوئے تو انہوں نے ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو اپنی محافل و مجالس میں شریک کرنا شروع کر دیا ۔ پھر جب امیر تیمور واپس ماورا ء النہر آئے تو ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو بھی اپنے ساتھ لے ائے۔

امیر تیمور ابن الجزری رحمة اللہ علیہ سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ جب امیر تیمور سمر قند پہنچے تو ایک شاندار دعوت کا انتظام کیا۔ اس دعوت میں مملکت کےسرکردہ علماء امراء اور فقراء نے شرکت کی۔ تیموری دعوتوں میں صفیں ہمیشہ حلقوں کی شکل میں بنائی جاتی تھیں۔ علماء وفضلاء کو دائیں جانب اور امراء کو بائیں جانب بٹھایا جا تاتھا۔ اس دعوت میں مشہور عالم، فقیہ، فلسفی اور ماہر لسانیات سید شریف جرجانی رحمة اللہ علیہ بھی مدعو تھے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر تقریباََ 50کتابیں تصنیف کی تھیں۔جو فقہ ، علم بلاغت ، منطق اور صرف ونحو کے متعلق تھیں۔ امیر تیمور نے سید شریف جرجانی رحمة اللہ علیہ کو ابن الجزری رحمة اللہ کے پیچھے جگہ دی۔ مہمانوں میں سے کسی ایک نے دریافت کیا کہ آپ نے سید شریف جرجانی رحمة اللہ علیہ کو ابن الجزری رحمة الہ علیہ کے عقب میں جگہ دی حالانکہ سید شریف جرجانی رحمة اللہ علیہ تو محفل میں سب سے آگے جگہ پانے کے حقدار ہیں، تو امیر تیمور نے بلا توقف یہ جواب دیا کہ

"میں بھلا ایسے شخص کو آگے جگہ کیوں نہ دوں جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم ہو اور جب اسے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی اشکال در پیش ہو تو اس حل کر لیتا ہو"

اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امیر تیمور ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کی کس قدر توقیر کرتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ تیمور نے اپنی زندگی کے آخری سانس تک ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو اپنے سے جدا نہیں ہونے دیا۔

امیر تیمور کی ہدایت پر ابن الجزری رحمة اللہ علیہ ماوارء النہر کے علاقہ کش اور پھر ثمر قند میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ آخر(807ھ/1404ء) میں امیر تیمور کا انتقال ہو گیا جس کے بعد ابن الجزری رحمة اللہ علیہ خراسان چلے گئے۔

خراسان سےابن الجزری رحمة اللہ علیہ ، ہرات ، یزد اور اصفہان ہوتے ہوئے رمضان المبارک 808ھ (فروری1406ء) کو شیراز پہنچے۔

"شیراز" میں وہ کچھ عرصہ درس دیتے رہے ۔ پھر شیراز کے حاکم پیر محمد نے ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو چیف جسٹس (قاضی القضاة) مقرر کر دیا۔ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ یہ عہدہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن حاکم کے اصرار اور مجبور کرنے پر یہ عہدہ قبولہ کر لیا اور خاصہ طویل عرصہ یہ فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ شیراز میں بھی آپ رحمة اللہ علیہ نے قراءت کی تعلیم دی اور حدیث کی ایک درس گاہ قائم کی جہاں سات یا دس قراءتوں کی تکمیل کے بعد طلباء کو اسناد جاری کی جاتی تھیں۔ "شیراز" کے باشندوں کو آپ رحمة اللہ علیہ سے بہت فیض حاصل ہوا۔ آپ رحمة اللہ علیہ کے ذریعے اس علاقہ میں علم قراءت اور حدیث کو بہت فروغ ملا۔

اشاعت علم کا یہ سلسلہ (822ھ/1419ء)تک جاری ہوا۔ اس کے بعد حاکم شیراز بعض وجوہ کی بناء بر گشتہ ہوگئے۔ اور ابن الجزری رحمة اللہ علیہ سے ان کے تعلقات کی نوعیت میں پہلی جیسی گرم جوشی نہ رہی۔(822ء/1419ء) میں ابن الجزری رحمةاللہ علیہ نےحج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا اور بصرہ کے راستے سر زمین حجاز روانہ ہو گئے۔ راستے میں آپ رحمة اللہ علیہ کے قافلے کو راہ زنوں نے لوٹ لیا۔ جبکہ آپ رحمة اللہ علیہ کے پاس مال ومتاع نام کی کوئی چیز نہ بچی۔

چنانچہ ان نامساعد حالات میں آپ رحمة اللہ علیہ اس سال فریضہ حج بھی ادا نہ کر سکے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے مدینہ منور ہ کے قریب قدیم بندرگاہ(منبیع)میں قیام فرمایا۔ ربیع الاول (823ھ/مارچ1420ء) میں آپ رحمة اللہ علیہ مدینہ منورہ پہنچے ۔ وہاں آپ رحمة اللہ علیہ نےدرس حدیث دیا۔ اس کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ مکہ مکرمہ تشریف ل گئے۔ اسی سال حج کا فریضہ ادا فرمایا۔ پھر آپ رحمة اللہ علیہ اپنی ازواج کے ساتھ بلاد عجم کی سیاحت کے لیے روانہ ہو گئے۔ دمشق سے ہوتے ہوئے آپ قاہرہ پہنچے ۔ یہاں اس وقت سلطان الاشرف حاکم تھے۔ انہوں نے آپ رحمة اللہ علیہ کے ساتھ بہت عزت و احترام کا سلوک کیا۔ قاہرہ میں آ پ رحمة اللہ علیہ تقریباََ دو ہفتے تک رہے۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کی قاہرہ آمدکی خبر پھیلتے ہی قاری حضرات آپ رحمة اللہ علیہ کی قیام گاہ پر پہنچ گئے اور زبردست ہجوم ہو گیا۔ ہر فرد آپ رحمة اللہ علیہ سے علم قراءت سیکھنے کا خواہاں تھا۔ قراء کا اتنا بڑا ازدھام تھا کہ آپ رحمة اللہ علیہ ہر ایک کے لیے فرداََ فرداََ قراء ت نہیں فرما سکتے تھے۔ چنانچہ آپ رحمة اللہ علیہ جمع کے سامنے (جن میں شار ح بخاری حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ بھی موجود تھے جو کہ ابھی جوان تھے) ایک آیت قرآنی کی تلاوت فرماتے اور پھر تمام قاری حضرات مل کر اس کو دھراتے تھے۔

قاہرہ میں ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے درس حدیث دیا اور مسند احمد و مسند شافعی کی تعلیم بھی دی۔ قاہرہ سے ابن الجزری رحمة اللہ علیہ یمن(Yemen) کے راستے ایک مرتبہ پھر حج کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوئے ۔ یمن میں آپ رحمة اللہ علیہ کی کتاب "الحصن والحصین" کا بہت شہرہ تھا۔ حتی کہ اہالیان یمن اس کا حوالہ دینا پسند کرتے تھے۔ جب آپ یمن واپس پہنچے تو بڑی تعداد میں آپ رحمة اللہ علیہ کے مداحوں او ر عقیدت مندوں نے آپ کی خدمت میں حاضری دی۔ آپ رحمة اللہ علیہ کی کتاب "الحصن والحصین " کی سماعت آپ رحمة اللہ علیہ سے جن لوگوں نے اس سے قبل کی تھی۔ ان میں اکثر انتقال کر چکے تھے۔ اب ان کے بیٹوں اور پوتوں نے آپ رحمة اللہ علیہ سے اس کتاب کی سماعت کی۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے کچھ دن مکہ مکرمہ دے عدن کو جانے والی شاہراہ پر واقع شہر زبید کی "مسجد الاشاعرہ " میں بھی حدیث کا درس دیا اور زبید کے علماء کرام نے آپ رحمة اللہ علیہ سے حدیث کی اجازت لی۔ یمن کے حاکم ملک المنصور بھی علم سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ بھی آپ رحمة اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوئے ۔ انہوں نے آپ رحمة اللہ علیہ کو صحیح مسلم سنائی اور حدیث کی روایت کی اجازت حاصل کی۔ نیز انہوں نے آپ رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں متعدد تحائف پیش کیے اور مکہ مکرمہ تک سفر کا اعلیٰ انظام کیا۔ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ ربیع الاول (828ھ/جنوری1415ء) کو مکہ مکرمہ پہنچے ۔ جہاں مسجد الحرام میں آپ رحمة اللہ علیہ نے مسند احمد کا درس دینا شروع کیا۔ اپنی عمر کے آخری ایام آپ رحمة اللہ علیہ نے شیراز ہی میں گزارے جہاں محلہ "اسکافین" میں آ پ کی قیام گاہ تھی۔ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ و واسطوں سے امام شاطبی رحمة اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ امام شاطبی رحمة اللہ علیہ (م590ھ/1194ء)اندلس کے صوبہ " بلنیہ " کے شہر شاطبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ رحمة اللہ علیہ ان تمام علوم کے ماہر تھے۔ جن کا تعلق قرآن مجید کی قراءت اور تفسیر سے ہے۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ حدیث کے علم میں بھی کامل تھے۔ آپ رحمة اللہ علیہ کو ایک لاکھ حدیث اپنی اسناد کے ساتھ حفظ تھیں۔ محدث طاؤسی لکھتے ہیں کہ

"وہ اعلیٰ روایت ، حفظ احادیث ، جرح و تعدیل ، قدیم اور بعد کے روایوں کی معرفت میں یکتا تھے۔ وہ صحیح البخاری ، صحیح المسلم اور سنن نسائی ، ابن ماجہ ، مسند دارمی ، مسند امام شافعی اور موطا امام مالک سے روایت کرتے تھے۔

تصنیفات

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ فن قرآءات اور حدیث کے علاوہ دیگر کئی علوم مثلاََ تاریخ، طبقات رجال، نحو اور صول فقہ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کو شعر وسخن سے بھی دلچسپی تھی۔ انہوں نے قرآن مجید کی قرات سے متعلق فن تجوید (یعنی حروف کو ان کے مخارج سے صحیح طو ر پر ادا کر کے پڑھنا یا حروف کا تلفظ کرنا) کے اصول اور قواعد کو اشعار کی شکل میں مرتب کیا۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے قرآءات متواتر ہ کے اختلاف کو بھی شعروں کا لباس پہنایا تا کہ یاد کرنے میں آسانی رہے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے صرف 18برس کی عمر میں علامہ شاطبی رحمة اللہ علیہ کے انداز کی ایک نظم لکھی جو دس قراء توں کے موضوع پر مشتمل تھی اور اس نظم کا نام " الھدایة فی تتمة العشر" رکھا۔ اس نظم کا وزن و قافیہ وہی ہے جو علامہ شاطبی رحمة اللہ علیہ کی مشہور نظم "شاطبیہ" میں استعمال ہوا ہ۔ شاطبیہ کا قافیہ حرف "ل" ہے۔ مورخین کے مطابق شاطبی رحمة اللہ علیہ کے انداز پر لکھنا نہایت مشکل کام ہے۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے مقدمة الجزریة کے نام پر ایک کتاب لکھی اور طیبة النشر میں سات اور دس قراء توں کے اختلاف کو ایک ہزار اشعار کی صورت میں نظم کیا ۔ نیز اصول حدیث میں بھی ایک نظم لکھی۔ علاوہ ازیں آپ رحمة اللہ علیہ نے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں بھی متعدد اشعار کہے۔ ایک مرتبہ آپ رحمة اللہ علیہ نے اپنے تلامذہ کو جب "شمائل ترمذی" کتاب کی تکمیل کروائی۔ تو فی البدیہہ دو اشعار کہے۔ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ، زبان و ادب میں بھی کمال رکھتے تھے۔ وہ نہایت فصیح زبان بولتے اور لکھتے تھے۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ زبان کی فصاحت کے ساتھ ساتھ خوبصورت چہرہ اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے۔ آپ رحمة اللہ علیہ کی صحت بھی بہت اچھی تھی،(824ھ/1421ء) کو جب آپ رحمة اللہ علیہ قاہرہ پہنچے تو آپ کی عمر تقریباََ 73 برس تھی۔ اس وقت گو کہ آپ رحمة اللہ علیہ کے سماعت میں قدرے فرق آگیا تھا۔ لیکن بصارت اس عمر میں بھی بالکل ٹھیک تھی۔ آپ رحمة اللہ علیہ اس وقت بھی باریک خط میں لکھا کرتے تھے۔ جس طرح جوانی کے زمانے میں لکھتے تھے۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے درس و تدریس کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تصنیف وتالیف کے لیے وقت نکالا اور 77سے زائد کتابیں لکھیں ، ان کتابوں میں سے چند درج ذیل ہیں:

تجوید وقراء ات کے موضوع پر :

1۔ "النشرقی القرآء ات العشر " قراء ت کے دس مختلف انداز پر نہایت مشہور کتاب ہے۔ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے یہ کتاب صرف 9 ماہ کے مختصر عرصہ میں تصنیف کی۔ پہلی بار یہ کتاب دمشق سے (1345ھ/1926ء) میں شائع ہوئی۔ مراد آباد سے قاری عبداللہ نے "توضیح النشر" کے نام سے اس کا ترجمہ بھی طبع کیا ہے۔

2۔ "تجبیر التیسیر فی القرآء ات العشر" علامہ عثمان بن سعید الدانی رحمة اللہ علیہ نے قرآن مجید کی ساتھ قراء ات کے متعلق ایک کتاب"التيسير" لکھی تھی۔ یہ کتاب سبعہ قرآء ات میں سب سے زیادہ قابل اعتماد اور مقبول کتاب ہے ، علامہ دانی رحمة اللہ علیہ جو قرطبہ کے رہنے والے تھے اور فقہ مالکیہ کے ماہر اور فن قراء ت کے امام تھے۔ انہوں نے 120کتابیں لکھیں جن میں سے 118کتابیں فن قراء ت سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان سب میں سے زیادہ شہرت "التیسیر " کو ملی ہے۔ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے اس کتاب پر تبصرہ لکھا اور مزید تین قراء توں کا اضافہ کر کے اس کا نام "تحبیر التیسیر " رکھ دیا۔

3۔ "طیبة النشرفی قرآءات العشر" یہ قرآن مجید کی دس قراء توں کے بارے ایک ہزار اشعار کی ایک نظم ہے۔ اس نظم کو ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے شعبان (799ھ/1865ء ) میں اور پھر (1307ھ/1889ء ) میں شائع ہوئی اس کا اردو ترجمہ قاری عبداللہ نے کیا جو مراد آباد سے شائع ہوا۔

4۔ "الدرة المضیة فی قرآء ات الائمة الثلاثة المرضیة" یہ بحر طویل میں 241اشعار کا عظیم مجموعہ ہے۔ جسے آپ رحمة اللہ علیہ نے (823ھ/1420ء ) میں مکمل فرمایا۔ یہ دراصل علامہ شاطبی رحمة اللہ علیہ کی مشہور کتاب "شاطبیہ " کی منظوم تکمیل ہے جوقراء تو کے دس مختلف انداز کے موضوع پر ہے۔ یہ کتاب قاہرہ سے (1285ھ/1868ء ) میں شائع ہوئی۔

5۔ "عایة المھرة فی الزیادة علی العشرة " یہ کتاب بارہ انداز کی قراءتوں کے موضوع پر ایک عظیم نظم ہے۔

6۔ "منجد المقرثین و مرشد الطالبین" اس کتاب میں حافظ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے حافظ ابو شامہ کی کتاب" المرشد الوجیز فی علوم القرآن العزیز" کا جواب دیا ہے اور اس کی تردید کی ہے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے اس کتاب میں یہ ثابت فرمایا ہے کہ دس قراءتوں کا سلسلہ متواتر قائم ہے اور اس کے راوی ہر زمانے میں کثرت سے موجود رہے ہیں۔یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔

7۔ "المقدمة الجزریة" فن تجوید پر ایک منظوم رسال ہے جو 109 اشعار پر مشتمل ہے یہ رسالہ مصر اور تبزیز سے شائع ہو چکا ہے اور اکثر مدارس تجوید میں شامل نصاب ہے۔

8۔ " التمھید فی علم التجوید" تلاوت کلام پاک پر یہ رسالہ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے (769ھ/1367ء) میں مکمل کیا۔

9۔ "مختصر طبقات القرآء المسمی بغایة النھایة " ابن الجزری نے ایک ہی موضوع پر جو کتابیں تالیف کیں ان میں یہ مختصر ترین ہے۔

10۔ "الھدایة الی معالم الروایة " تلاوت کلام حکیم پر 370اشعار کی ایک نظم ہے۔

11۔ "اصول القرآء ات " قرآء ات کے اصول پر ایک مختصر کتاب ہے۔

12۔ "اعانة المھرة فی زیادة العشرة" یہ دس قراء توں کے بعد کی قراء توں کے بارے میں ایک کتا ب ہے۔

3۔ "الغاز" فن قراءت کے اختلافات کو منظوم کلام میں بیان کیا ہے۔

14۔ " تقریب النشر" یہ النشر کی تلخیص ہے۔

15۔"شرح طیبة النشر" یہ طیبة النشر کی شرح اور مختصر حواشی پر مشتمل کتا ب ہے۔

16۔"العقد الثمین " یہ کتاب "الغاز " کی غیر منظوم شرح ہے۔

17"القرآء ات الشاذة" یہ شاطبیہ ک انداز میں قراءتوں کے موضوع پر ایک عظیم رسالہ ہے۔ غالباََ یہ وہی کتاب ہے جس می قرآن مجید کی قراءت کے 40مشکل مسائل پر بحر طویل میں ایک نظم کہی گئی۔ ان کے علاوہ فن قراءت می یہ کتب بھی متد اول ہیں۔

(18) اتحاف المهرة في تمتة العشرة (19) الاعلام في احكام الادغام (20) الاهتلاء الي معرفة الوقف والابتلاء (21) تحفه الاخوان في الخلف بين الشاطبية والعنوان (22) التذكاره في رواية ابان بن يزيد العطار (23) التقييد في الخرحف بين الشاطبية والتجريد (24) التوجيهات في اصول القرآءات (25) جامع الاسانيد في القرآءات (26) رسالة في الوقف علي الهمزة لحمزه وهشام(27) الفوائد المجمعة في زوائد الكتب الاربعة (28) المقدمه في ما علي قاري القرآن يعلمه (29) نهاية البهدر فيما زاد علي العشرة (30) هداية البررة في تتمة العشرة (31) هداية المهرة في ذكر الائمة العشرة المشتهرة (32) البيان في خط عثمان.

علوم حدیث پر :

1۔ " مقدمہ علم الحدیث " اصطلاحات حدیث پر ایک کتا ب ہے۔

2۔"عقد الالی فی الاحادیث المسلسلة العوالی " اس کتاب کو ابن الجزری نےشیراز میں (808ھ/ 1405ء ) میں مکمل فرمایا۔

3۔ "العوضیح فی شرح المصابیح" ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے مشہور محدث حسین بن مسعود الغراء البغوی رحمة اللہ علیہ (م 510یا516ھ/1116ءیا1122ء) کی کتاب " مصابیح السنة " کی شرح " التوضیح فی شرح المصابیح" کے عنوان سے لکھی۔ یہ کتاب ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے نویں صدی ہجری کے اوائل میں اس وقت تصنیف کی جب امیر تیمور آپ رحمة اللہ علیہ کو اپنے ساتھ ماروا ء النہر لے گئے تھے ۔ یہ شرح تین جلدوں میں ہے

4۔"الاربعین" اس کتاب میں نہایت صحیح ، جامع اور مختصر 40احادیث کو یکجا کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ (5) "الاولوية في احاديث الاولية" (6) "البداية في علوم الرواية" (7) تذكرة العلماء في اصول الحديث" (8) فية الحصن الحصين (9) الحصن الحصن.یہ دعاؤں میں پڑھنے کے لیے احادیث کا مجموعہ ہے۔ عبدالعلیم نوال سے اس کا ترجمہ کیا ہے جو کراچی سے شائع ہوا ہے۔ (10) عدة الحصن الحصن (11) القصد الحمد في رجال مسند احمد (12) المسند الاحمد فيما يتعلق بمسند احمد (13) المصعد الحمد في ختم مسند احمد (14) مفتاح الحصن الحصين (15) الهداية الي معالم الرواية (16) كفاية الالمعي في آية (يَـٰٓأَرْ‌ضُ ٱبْلَعِى)....قرآن مجید کی سورہ ہود کی آیت (يَـٰٓأَرْ‌ضُ ٱبْلَعِى) کی تفسیر اور اس کی وجوہ اعجاز کے بارے میں یہ کتاب ہے۔

تاریخ اور فضائل و مناقب نبوی کے بارے میں کتب

1۔"المولد الکبیر " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات و اطوار پر ایک رسالہ ہے۔

2۔"الجلال والتعظیم فی مقام ابراہیم" اس کتاب میں آپ رحمة اللہ علیہ نے مقام ابراہیم علیہ السلام کے فضائل درج فرمائے ہیں۔

3۔"ذات الشفاء فی سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم واخلفا" یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاءے راشدین رضی اللہ عنھم کی سیرت پر ایک طویل نظم ہے۔ جس میں عثمانی حکمران بایزید بلدرم کے عہد حکومت اور قسطنطنیہ پر ترکوں کی طرف سے محاصرے تک کی تاریخ اسلام بیان کی گئی ہے۔ یہ کتاب ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نےشیراز کے حاکم پیر محمد کی خواہش پر لکھی او ر اسے ذی الحج (798ھ/1396ء) میں مکمل فرمایا۔

4۔"الزھر الفائح" نیکی اور پاکبازی کی تلقین کرنے والی ایک کتا ب ہے۔

ان کے علاوہ یہ کتب بھی متد اول ہیں

(5) اسني المطالب في مناقب علي بن ابي طالب (6) تاريخ ابن الجوزي (7) التعريف بالمولد الشريف (8) ذيل طبقات القراء للذهبي (9) الرسالة البانية في حتي ابوي النبي صلي الله عليه وسلم (10) مختصر تاريخ الاسلام للذهبي (14) شيخة الجنيد بن احمد البلياني (15) نهاية الدرايات في اسماء رجال القرآءات"

دیگر متفرق کتب

1۔"الاصابة فی الوازم الکعابة " فن خطاطی پر ایک مختصر رسالہ ہے۔

2۔ہیت پر رجز میں 52اشعار۔ ان کے علاوہ یہ کتب بھی ملتی ہیں۔

(3) الابانة في العمرة من الجعرانة (4) احاسن المنن (5) الاعتراض المبدي لوهم التاج الكندي (6) التكريم في العمرة من التنعيم (7) تكملة ذيل التقييد لمعرفة رواة السنن والاسانيد (8) الجوهرة في النحو (منظومة) (9) حاشية علي الايضاح في المعاني والبيان لجلال الديني القزويني (10) الذيل علي مراة الزمان للنووي (11) الزهر الفائح في ذكر من تنزه عن الذنوب والقبائح (12) شرح الفية ابن مالك (13) شرح منهاج الاصول (14) عوالي القاضي ابننو (15) غاية المني في زيارة مني ( فضائل القرآن (17) مختار النصيحة بالادلة الصحيحة (18) منظومة في الملك (19) منظومة في لغز (20) وظيفة مسنونة.

ان کی تصانیف صرف اسی قدر نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی ہیں۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ ابن الجزری رحمة اللہ علیہ کتنے عظیم مصنف اور علم میں متجر انسان تھے۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ معاصرین کی نظر میں

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ عبادت کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ رحمة اللہ علیہ علوم وفنون میں متجر تھے۔ انہوں نے روز و شب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ ایک حصہ قراءت و حدیث کی تعلیم دیتے۔ دوسرے حصہ میں تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے اور تیسرے حصہ میں عبادت کرتے تھے۔ تمام عمر آپ رحمة اللہ علیہ کا یہی معمول رہا۔ آپ رحمة اللہ علیہ ہر ماہ پانچ روزے رکھتے تھے۔ سفر کی حالت میں بھی آپ رحمة اللہ علیہ نے شب بیداری اور تہجد ترک نہیں کیا۔

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نہایت حلیم، ملنسار ، نرم خو، اور شیریں کلام تھے۔ آپ رحمة اللہ علیہ کے مزاج میں انکسار اور فروتنی تھی۔ آپ رحمة اللہ علیہ جس سے بھی ملتے اخلاق سے اور حسن سلوک سے پیش آتے ۔ آپ رحمة اللہ علیہ خدا کے فضل س صاحب حیثیت تھے۔ اہل علم اور اہل احتیاج کے ساتھ ہمیشہ فیاضی کا سلوک فرماتے تھے۔ خصوصاََ اہل حجاز کے ساتھ احسان کا مظاہر کرتے تھے۔ علم قراءت میں خصوصاََ آپ رحمة اللہ علیہ کے دور سے لے کر آج تک کوئی آپ رحمة اللہ علیہ کا ہمسر نہیں ہوا۔

1۔" حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "انتهت اليه رياسة علم القرآءات في العالم "یعنی دنیا میں علم قراء ات کی ریاست آپ رحمة اللہ علیہ پر منتہی ہے۔

2۔ علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "قد تفرد بعلم القرآءات في جميع الدنيا "آپ علم قراء ات میں ساری دنیا میں منفرد تھے"

3۔" علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : "لا نظير له في القرآءات في الدنيا في زمانه وكان حافضا للحديث" یعنی آپ رحمة اللہ علیہ کے زمانے میں دنیا میں علم قراءت میں آپ رحمة اللہ علیہ کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ آپ رحمة اللہ علیہ حافظ الحدیث تھے۔

4۔"حضرت مولانا عبدالحی رحمة اللہ علیہ فرنگی میں لکھتے ہیں: کہ "واز مجدد دين صدي هشتم زين الدين عراقي وشمس الدين جزري وسراج الدين بلقيني "یعنی آٹھویں صدی کے مجد دین میں سے زین الدین عراقی، شمس الدین جزری اور سراج الدین بلقینی رحمة اللہ علیہ تھے۔

وفات

ابن الجزری رحمة اللہ علیہ نے علم دوست تیموری حکمران شاہ رخ کے دور حکومت میں 5ربیع الاول (833ھ/دسمبر1429ھ) کو شیراز میں اپنی قیام گاہ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے پیچھے پانچ بیٹے اور تین صاحبزادیاں چھوڑیں۔ سب سے بڑے بیٹے ابوالفتح محمد الجزری تھے، ان سے چھوٹے ابو بکر محمدا لجزری اور ان کے بعد ابوالخیر محمدا الجزری تھے۔ یہ تینوں بڑے جید محدث ،قاری اور فقیہ تھے۔ دیگر دو صاحبزادے ابوالبقاء اور ابوالفضل بھی قاری اور محدث تھے۔ صاحبزادیوں کے نام فاطمہ، عائشہ، اور سلمہ تھے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے اپنی صاحبزادیوں کو بھی حدیث اور قراءات کی تعلیم دی تھی۔ یہ تمام صاحبزادیاں فن تجوید کی ماہرہ ، بہترین قاریہ اور احادیث کی حافظ تھیں۔

آپ رحمة اللہ علیہ کی وفات کی اندو ہناک خبر پھیلتے ہی ہر طرف صف ماتم بچھ گئی۔ ہزاروں گریہ کناں عقیدت مندوں نے آپ رحمة اللہ علیہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ آپ رحمة اللہ علیہ کے شاگرد فرماتے ہیں کہ جب جنازہ اٹھایا گیا تو اتنا ہجوم تھا کہ علماء کرام ، حکومت کے اعلیٰ افیسران ، امراء و غرباء ، عام افراد سب ہی جنازے کو کندھا دینے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹتے تھے۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ کم از کم جنازہ کوایک مرتبہ چھو ہی لوں۔

آپ نے 82برس عمر پائی۔ آپ رحمة اللہ علیہ کو شیراز میں آپ کے مدرسہ دارالقراء میں سپرد خاک کیا گیا۔

تغمده الله برحمته وجزاه الله بالخيرات عنا وعن جميع المسلمين آمین

مراجع و مصادر

1۔ خصوصی مقالہ " ابن الجزری" مولانا محمد عبدالعلیم چشتی

2۔ بستان المحدثین شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی / مولانا عبدالسمیع

3۔ جغرافیہ خلافت مشرقی محمد عنایت اللہ / جی لی اسٹرینج

4۔ ترکان عثمان ڈاکٹر محمد صابر

5۔ ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ثروت صولت

6/ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام

7۔ دائریہ معارف اسلامیہ

8۔ تاریخ سے ایک ورق ۔کلیم چغتائی

9۔ مقدمة الجزریة مع متن تحفة الاطفال لابن لاجزری

10 التمھید فی علم التجوید لابن الجزری

11۔ الجواہرا النقیة فی شرح المقدمة الجزریة قاری اظہار احمد تھانوی

12۔ العطایا الواھبیة فی شرح المقدمة الجزریة قاری رحیم بخش پانی پتی

13۔ التحفة المرضیة فی شرح المقدمة الجزریة مفتی محمد عاشق الہیٰ بلند شہری