صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے صحائف حدیث
علما متقدمین نے حدیث کی شرعی تعریف یوں کی ہے کہ
"اس کا اطلاق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر پر ہوتا ہے"۔
مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"کہاں حدیث کی یہ مدرسی اور مذہبی تعریف اور کہاں میرا یہ دعویٰ کہ حدیث مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ انسانیت کے اہم ترین انقلابی عہد کی تاریخ کا معتبر ترین ذخیرہ ہے"
مولانا اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی کتاب کے نام سے استشہاد کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی مشہور زمانہ صحیح بخاری کا رکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
"امام بخاری کی کتاب آج تو صرف بخاری شریف کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن یہ اس کتاب کا اصل نام نہیں۔ بلکہ حضرت امام رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب کا نام الجامع الصحيح المسند المختصر من امور رسول الله صلي الله عليه وسلم و سننه ويامه رکھا ہے۔ اس میں امورو ایام کے الفاظ قابل غور ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کی صحیح تعریف امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ان تمام امور کو حاوی ہے جن کا کسی نہ کسی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق ہو۔ آگے "ایام" کے لفظ نے تو اس تعریف کو اور بھی وسیع کر دیا ہے۔ یعنی وہی بات جو میں نے عرض کی تھی کہ فن حدیث دراصل اسی عہد اور زمانے کی تاریخ ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عالم پر اثر انداز ہونے والی ہمہ گی ہستی انسانیت کو قدرت کی طرف سے عطا ہوئی۔ بہرکیف اگر اصطلاحی جھگڑوں سے الگ ہو کر پھل سے درخت کو پہچاننے کے اصول کو مدنظر رکھا جائے تو حدیث کے موجودہ ذخیرہ پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد بھی ایک معمولی آدمی اس بات کا اندازہ کر سکتا ہے کہ حدیث کی صحیح حقیقت اور اس کی واقعی تعریف وہی ہو سکتی ہے جس کی طرف امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب کے نام میں اشارہ فرمایا ہے۔ اور جس کی میں نے تشریح کی ہے"
مولانا مرحوم نے حدیث کو تاریخ کا معتبر ترین ذخیرہ کہا ہے اور یہ نظریہ دیا ہے کہ عہد رسالت میں حدیث کو قلم بند کیا جاتا تھا۔ محض زبانی حفظ پر تکیہ نہیں کیا جاتا تھا اور کئی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم کو بطور مثال پیش کرتے ہیں جن کے پاس حدیث کے صحائف موجود تھے تاکہ ان منکرین حدیث اور مستشرقین کا علمی رد کیا جا سکے جو حدیث کو "شریعت اسلامی" کا دوسرا ماخذ ماننے سے انکاری ہیں اور یہ پراپیگنڈہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ حدیث تیسری صدی ہجری تک سینہ بہ سینہ یا زبانی روایات کا مجموعہ رہی ہے۔ اس میں لفظی و معنوی تحریف ہو چکی ہے۔ مولانا مرحوم اپنی اس مخلصانہ کوشش میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ بعد میں آپ کے شاگرد رشید ڈاکٹر حمید اللہ نے "صحیفہ ہمام بن منبہ" شائع کر کے آپ کے دعویٰ پر ٹھوس انداز میں مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ راقم نے مولانا مرحوم کی اس سعی بلیغ کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ زیر نظر مضمون اس پر اضافہ کی ایک ادنیٰ سی کاوش ہے۔ ذیل میں ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ صحیفہ سے کیا مراد ہے؟
صحیفہ
اس کی جمع صحف اور صھائف ہے۔ ہر وہ چیز جس پر کچھ لکھا گیا ہو صحیفہ، کہلاتا ہے۔ اسی مناسبت سے ورق کی ایک جانب یعنی صفحہ کو بھی صحیفہ کہتے ہیں۔ جدید عربی میں صحیفہ جریدہ یا اخبار کو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ قرآن پاک، حدیث نبوی اور عربی ادب میں کئی ایک معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلا نامہ اعمال، خط، مکتوب، حکم نامہ، فرمان نیز کتب سماویہ کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔
قرآن کریم میں بصورت جمع یہ لفظ آٹھ مرتبہ استعمال ہوا ہے بصورت واحد کہیں نہیں آیا۔
ایک جگہ مطلق تحریر، خط یا مکتوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿بَل يُريدُ كُلُّ امرِئٍ مِنهُم أَن يُؤتىٰ صُحُفًا مُنَشَّرَةً ﴿٥٢﴾... سورةالمدثر
"ان میں سے ہر آدمی یہ چاہے گا کہ وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائے گا جب تک اسے کھلا ہوا مکتوب نہ دیا جائے"
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت ﴿١٠﴾... سورة التكوير
"اور جب نامہ اعمال کھولے جائیں گے"
یہ لفظ دو مرتبہ قرآن کریم اور اس کی آیات مطہرہ کے لئے استعمال ہوا ہے:
حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿فى صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ ﴿١٣﴾ مَرفوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ ﴿١٤﴾ بِأَيدى سَفَرَةٍ ﴿١٥﴾ كِرامٍ بَرَرَةٍ ﴿١٦﴾... سورة عبس
"(یہ قرآن) قابل ادب ورقوں میں (لکھا ہوا) جو بلند مقام پر رکھے ہوئے (اور) پاک ہیں (ایسے) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار اور نیکوکار ہیں"
ایک اور جگہ یوں ارشاد ہوا:
﴿رَسولٌ مِنَ اللَّهِ يَتلوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً ﴿٢﴾ فيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ ﴿٣﴾... سورة البينة
"خدا کے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم) جو پاک اوراق پڑھتے ہیں۔ جن میں مستحکم (آیتیں) لکھی ہوئی ہیں۔"
چار مرتبہ یہ لفظ قرآن کریم میں گزشتہ انبیائے کرام کے مقدس صحیفوں اور کتابوں کے بارے میں آیا ہے۔ دو مرتبہ الصحف الاولي کے نام سے آیا ہے۔ دو مرتبہ "صحف موسیٰ و ابراھیم" اور "صحف ابراهيم و موسيٰ" کی شکل میں آیا ہے۔
عربی ادب میں صحيفة المتلمس کا تذکرہ ملتا ہے۔ جو ایک تلمیح یا ضرب المثل کے طور پر مستعمل ہوا ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ عيينه بن حصن اور اقرع بن حابس کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک مکتوب دے کر اپنی اپنی قوم کی طرف روانہ کرنا چاہا۔ عيينه بن حصن نے تو اسے اپنی پگڑی میں باندھ لیا مگر اقرع بن حابس نے کہا:
" يا محمد صلي الله عليه وسلم اتراني حاملا الي قومي كتابا لا ادري ما فيه كصحيفة المتلمس
" اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی قوم کی طرف جو خط لے کر جا رہا ہوں مجھے نہیں معلوم اس میں کیا ہے۔ کہیں یہ متلمس کے صحیفہ کی طرح تو نہیں ہے"
راقم الحروف نے اپنے اس مقالے میں "صحیفہ" سے مراد وہ دستاویز یا تحریر لی ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل یا تقریر موجود ہو۔ یہ تحریر ایک صفحہ کی بھی ہو سکتی ہے اور کئی صفحات پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ اس میں بے شمار احادیث موجود ہوں بلکہ اگر اس میں ایک ہی حدیث موجود ہو تو ہم نے اسے بھی صحیفہ ہی شمار کیا ہے۔ تفصیل آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیے ۔ وما توفيقي الا بالله
صحائف صحابہ رضی اللہ عنھم
1۔ ابوامامہ الباھلی، صدی بن عجلان رضی اللہ عنہ (10ق ھ تا 81 ھ)
آپ علم حدیث کی کتابت کیا کرتے تھے۔ حسن بن جابر نے ابو امامہ الباھلی رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
کیا علم حدیث کو قلمبند کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں
پروفیسر محمد الاعظمی فرماتے ہیں کہ غالب گمان یہ ہے کہ قاسم شامی آپ سے احادیث نبویہ لکھا کرتے تھے۔
2۔ ابو ایوب انصاری، خالد بن زید رضی اللہ عنہ (المتوفی 52ھ)
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجے کو کچھ احادیث نبویہ لکھ کر بھیجی تھیں۔ مسند احمد بن حنبل میں ایک راوی بیان کرتے ہیں کہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے بھتیجے نے میری طرف خط لکھا کہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سنیں۔
ایوب بن خالد بن ایوب اپنے دادا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ایک سو بارہ احادیث روایت کیا کرتے تھے۔
پروفیسر اعظمی فرماتے ہیں کہ غالب گمان یہ ہے کہ یہ ایک "صحیفہ" تھا لیکن صحیفہ قلمبندکرنے والے کا نام ہمیں معلوم نہیں۔
3۔ ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ (50ق ھ تا 13ھ)
بے شمار محققین نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کتابت حدیث پر دلائل پیش کئے ہیں۔ امام حاکم رحمة اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت بیان کی ہے:
"میرے والد صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سو احادیث جمع کی تھیں۔ ایک رات آپ رضی اللہ عنہ نے بڑے اضطراب میں گزاری مجھے اس کا بہت دکھ ہوا۔ میں نے والد صاحب سے پوچھا۔ کیا آپ کسی تکلیف کی وجہ سے کروٹیں بدل رہے ہیں، یا آپ کو کوئی صدمہ پہنچا ہے۔ جب صبح ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے بیٹا! تمہارے پاس جو احادیث ہیں، وہ لے آؤ۔ میں انہیں لائی تو آپ رضی اللہ عنہ نے آگ منگوا کر انہیں جلا دیا۔ میں نے کہا، آپ نے انہیں کیوں جلایا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: مجھے ڈر ہوا کہ یہ احادیث میرے پاس ہوں اور میں اسی حال میں مر جاؤں۔ ان میں ایسی احادیث بھی ہیں جو کسی ایسے شخص سے مروی ہیں جس کو میں ایماندار اور ثقہ خیال کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے اس نے صحیح بیان نہ کی ہوں اور میں آگے اسے نقل کر دوں جو کہ بہت بڑا گناہ ہے"
امام ذہبی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: یہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم حاکم کی اس روایت پر حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ "مسند صدیق" کے تحت لکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کچھ احادیث باقی رہ گئی ہوں جو مجھے نہیں ملیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہوتا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر پوشیدہ نہ رہتی اور وہ کہتے کہ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرتا ہوں، میں نہیں جانتا شاید میں اس حدیث کو حرف بہ حرف نہیں بیان کر سکتا۔
اسی روایت کو مدنظر رکھ کر ابوریہ نے احادیث کی عدم کتابت پر دلیل پکڑی ہے۔ جو کہ صحیح نہیں ہے۔ جس کی وجوہات یہ ہیں:
1۔ اس حدیث پر بڑے بڑے علمائے حدیث نے تنقید کر کے اسے ضعیف قرار دیا ہے مثلا امام ذہبی رحمة اللہ علیہ، ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اور دوسرے لوگ۔
اس کتاب میں ابن کثیر رحمة اللہ علیہ کا کلام نقل کر کے جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں (یہ حدیث اس طریقے سے غریب ہے۔ علی بن صالح غیر معروف ہے) ابوریہ کے دلائل کے لئے ملاحظہ ہو۔ "الاضواء علي السنة المحمدية" (ص23تا24) یہاں اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس روایت کو بغدادی رحمة اللہ علیہ نے "تقييد العلم" میں ذکر کیا ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔
2۔ اس کی سند میں علی بن صالح ہے جو کہ غیر معروف ہے۔ المعلمی کہتے ہیں: اس سند میں مزید ایسے لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں تنقید کی جاتی ہے۔
3۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی "کتابت حدیث" صحیح روایات سے ثابت ہے اور آپ رضی اللہ عنہ نے یہ احادیث دوسروں کو بھی عطا کی ہیں جیسا کہ عنقریب بحث ہو گی۔
4۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب تھے۔ جب انہوں نے احادیث جمع کرنے کا ارادہ کیا تو انہیں اپنے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین کسی واسطے کی ضرورت نہیں تھی۔ پھر مزید یہ کہ اگر کوئی روایت صحیح ہو تو اس کا لکھنا تو زیادہ ضروری تھا۔ نہ کہ ترک کر دینا۔ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کتابت حدیث سے مطلق منع فرماتے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لکھتے ہی کیوں؟ لطف کی بات یہ ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کی احادیث کا صحیفہ ہو اور انہیں معمولی سا بھی علم نہ ہو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے سے منع فرمایا ہے۔ کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے جو لکھی ہوئی احادیث جلائی ہیں وہ اس وجہ سے نہیں جلائیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لکھنے سے منع فرمایا تھا، بلکہ کسی غلطی میں مبتلا ہو جانے کے خوف سے آپ رضی اللہ عنہ نے یہ قدم اٹھایا۔ لہذا اس روایت کی بنا پر کتابت کی ممانعت پر استدلال پکڑنا صحیح نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنھم کو احادیث لکھتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ جیسا کہ امام احمد رحمة اللہ علیہ نے عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن عاص کی حدیث بیان کی ہے کہ راشد الحبراني رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن العاص کے پاس آیا اور ان سے کہا جو کچھ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، ہمیں بیان کرو۔ تو انہوں نے میرے سامنے ایک صحیفہ رکھ دیا اور کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے املاء کرایا ہے۔ میں نے اس کو پڑھا، اس میں لکھا تھا:
"ان ابابكر الصديق قال: يا رسول الله علمني ما اقول اذا اصبحت واذا امسيت فقال له
"اے اللہ جل شانہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بتائیں کہ میں صبح اور شام کیا پڑھا کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:......"
غالب گمان یہ ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن العاص نے یہ دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے املاء کی ہو گی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت سامنے بیٹھے ہوں گے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بحرین کے گورنر انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو صحیفہ لکھا جس میں صدقہ کے فرائض تھے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر عائد کئے تھے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسی صحیفے کی نقل تھی جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کے بارے میں لکھوایا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بحرین کی طرف بھیجا تو میرے لئے یہ وثیقہ لکھا:
"بسم الله الرحمن الرحيم،هذه فريضه الصدقة التي فرض رسول الله صلي الله عليه وسلم علي المسلمين"
اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی طرف خطبے (خطوط) بھیجے جن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث تھیں
4۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ الثقفی نفیع بن مسروح (المتوفی 51ھ)
ان کا ایک بیٹا سجستان کا قاضی تھا۔ اس کی طرف آپ نے کچھ خطوط لکھے۔ ان میں وہ احادیث تھیں جن میں قضاة کے بارے میں احکامات تھے۔
5۔ ابو رافع مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (المتوفی 40ھ سے قبل)
ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن ہشام کہتے ہیں کہ ابو رافع رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک صحیفہ دیا۔ جس میں نماز کے شروع کرنے کے بارے میں احکامات تھے۔
جن لوگوں نے آپ سے احادیث لکھیں، ان میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں سلمی کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تختیاں ہین جن پر وہ افعال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو رافع رضی اللہ عنہ سے سن کر لکھ رہے تھے۔
6۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، سعد بن مالک رضی اللہ عنہ (المتوفی:74ھ)
آپ سے آپ کے شاگرد تدوین حدیث کی ممانعت بیان کرتے ہیں۔
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا تكتبوا عني ومن كتب عني غيرالقرآن فليمحه..."
لیکن ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے احادیث نبویہ اپنے لئے لکھی تھیں۔ کیونکہ خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ نے "تقييد العلم" میں آپ کا یہ قول نقل کیا ہے:
"ما كنا نكتب شيئا غيرالقرآن والتشهد"
اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ نے کچھ احادیث نبویہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھی تھیں۔ ابونضرة کہتے ہیں: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: خریدوفروخت کیسے ہونی چاہیے؟ تو انہوں نے کہا: ہاتھوں ہاتھ ہونی چاہیے۔ میں نے کہا : اچھا، تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کوئی حرج نہیں۔ اس کے بعد ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ملا اور ابن عباس طما کی بات بتائی تو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کی طرف لکھوں گا کہ وہ آپ کو ایسا فتویٰ نہ دیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جو چیز بھی لکھیں گے وہ حدیث رسول ہی ہو گی۔
7۔ ابوشاہ (یمن کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ)
جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے۔ دوران خطبہ یمن کا ایک آدمی ابوشاہ کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مجھے لکھ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اكتبوا لابي شاه" ابوشاہ کو یہ چیزیں لکھ دو"۔
8۔ ابوموسیٰ الاشعری، عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ (المتوفی 42ھ)
بیان کیا جاتا ہے کہ آپ احادیث نبویہ کی کتابت کیا کرتے تھے اور پھر اپنے شاگردوں کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ نے اسے شاگرد کی احادیث کو معارضہ کرتے وقت متا دیا تھا۔ لیکن ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف ایک خط لکھا تھا جس میں احادیث نبویہ بھی تھیں۔ جب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بصرہ آئے تو انہوں نے ابوموسیٰ کی طرف خط لکھا تھا جس کے جواب میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے لکھا۔ "ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يمشي..."
محمد الاعظمی کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے اس کے علاوہ ملاحظہ ہو: "جامع الاصول في احاديث الرسول" ج8، ص:47، البیہقی، السنن الکبریٰ ج1،ص:93
9۔ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ الدوسی (19ق ھ تا59ھ)
آپ رضی اللہ عنہ بہت بڑے امام، مجتہد، حافظ حدیث اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم صحابی تھے۔ آپ کو یمانی بھی کہا جاتا ہے اور صحابہ کرام میں ثقہ محدث کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے حق میں حافظہ کی دعا کی تھی۔
ابتدا میں آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی کتاب نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
"حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ سوائے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو کے۔ کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے احادیث لکھا کرتے تھے اور دل میں محفوظ رکھتے تھے۔ لیکن میں دل میں محفوظ رکھتا تھا۔ ہاتھ سے نہیں لکھتا تھا"
ایک بار آپ نے فرمایا: "ان ابا هريرة لا يكتم ولا يكتسب" ابوھریرہ نہ چھپاتا ہے نہ لکھتا ہے، لیکن زندگی کے آخری ایام میں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس بہت سی کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔ فضل بن حسن بن عمرو بن امیة الضمری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ:
"میں نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے احادیث بیان کیں تو ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں نہ مانا۔ میں نے کہا یہ حدیثیں تو میں نے آپ رضی اللہ عنہ سے سنی ہیں،۔ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو نے مجھ سے سنی ہیں تو یہ میرے پاس لکھی ہوئی ہوں گی، اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی کتابیں مجھے دکھائیں، ان میں یہ حدیث بھی مل گئی، کہنے لگے میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اگر یہ حدیث میں نے بیان کی ہے تو میرے پاس لکھی ہوئی موجود ہو گی۔"
ابن عبدالبر رحمة اللہ علیہ نے اس روایت پر اعتراض کیا ہے کہ یہ روایت پہلی روایت کے خلاف ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو لکھا کرتے تھے اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نہیں لکھا کرتے تھے۔
کیونکہ اہل حدیث کے نزدیک سند کے لحاظ سے نہ لکھنے والی حدیث زیادہ بہتر ہے ۔ لیکن ہمارے نزدیک ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو حیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی احادیث لکھا کرتے تھے اور اس وقت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نہیں لکھتے تھے۔ لیکن بعد میں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیثیں لکھ کر محفوظ کر لی ہوں گی۔ کیونکہ شاید انہوں نے یہ سمجھا ہو کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ حافظہ کمزور ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح دونوں روایات میں تطبیق ممکن ہے۔
یہاں ایک اور روایت بھی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس کتب احادیث تھیں۔ بشیر رحمة اللہ علیہ بن نھیک کہتے ہیں میں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آتا تھا، ان سے کتابیں لیتا تھا، ان کو نقل کر کے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو سناتا تھا۔ پھر میں کہتا: کیا میں نے یہ آپ سے سن لی ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہاں۔ اس روایت کی سند میں بھی لوگوں نے اعتراض کیا ہے۔ لیکن بشیر رحمة اللہ علیہ بن نھیک نے واقعی ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے احادیث لکھی ہیں اور اپنے لئے ایک مجموعہ تیار کیا اور پھر انہیں آگے بیان کرنے کے لئے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے اجازت بھی لی۔ یہ بات کئی طرق سے ثابت ہے۔ جیسا کہ عنقریب دیکھیں گے۔
جن لوگوں کے پاس ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے لکھی ہوئی احادیث تھیں، وہ درج ذیل ہیں:
(i)ابوصالح السمان: آپ کے پاس ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک نسخہ تھا۔ ابن جوزی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: بخاری نے سہیل بن صالح کی روایت ترک کر دی ہے، کیونکہ یہ اپنےباپ سے "سماع صحیفہ" کے بارے میں مشکوک ہے۔ امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے ان پر اعتماد کیا ہے۔ کبھی تو یہ اپنے بھائی "عن اخيه عن ابيه" سے روایت کرتے ہیں اور کبھی عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن دینار سے روایت کرتے ہیں اور کبھی "عن الاعمش عن ابيه" سے روایت کرتے ہیں۔ اگر ان کی "سماع صحیفہ" کے بارے میں حقیقت ہوتی تو وہ سب کا سب اپنے باپ سے ہی روایت کرتے۔ مگر وہ کئی آدمیوں سے روایت کرتے ہیں۔
ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ حضرات جن کے بارے میں کلام کیا گیا ہے اور بخاری رحمة اللہ علیہ ان کی روایات بیان کرنے میں منفرد ہیں، ان کی احادیث کثرت سے تخریج نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان میں سے کسی کے پاس کوئی بڑا نسخہ تھا، جس کو وہ تمام کا تمام یا اکثر بیان کرتے۔ مگر وہ عکرمة عن ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سلسلہ سے بیان ہوا ہے۔ بخلاف امام مسلم رحمة اللہ علیہ کے انہوں نے ان کے نسخے کا اکثر و بیشتر حصہ روایت کیا ہے۔ جیسے "ابوزبیر عن جابر" کا نسخہ اور "سہیل عن ابیہ" کا نسخہ۔
ان تمام روایات سے اس بات پر استدلال ہوتا ہے کہ ابو صالح رحمة اللہ علیہ کے پاس ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہوا ایک صحیفہ موجود تھا۔
اعمش رحمة اللہ علیہ نے ابو صالح رحمة اللہ علیہ سے ایک ہزار احادیث روایت کی ہیں۔ جن کو انہوں نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا۔ اعمش رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابراھیم (متوفی 96ھ) حدیث کے زرگر تھے۔ میں ان کے پاس حدیث لے کر آتا تو جو حدیثیں ابو صالح عن ابی ھریرہ کے طریق سے مروی ہوتیں، وہ انہیں لکھ لیتا۔
(ii)بشیر بن نھیک: بشیر رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک کتاب لکھی تھی جب میں ان سے الوداع ہونے لگا تو میں نے کہا: اے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ میں نے آپ سے کتاب لکھی ہے۔ کیا میں آپ سے روایت کروں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں مجھ سے روایت کرو۔
(iii) سعید المقبری: ابن عجلان رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ سعید مقبری ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت کرتے تھے اور اپنے باپ کے وسیلہ سے بھی ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے اور کبھی "عن رجل عن ابي هريرة" بھی روایت کرتے تھے۔ چونکہ اس آدمی کا نام ان کے ذہن میں خلط ملط ہو گیا تھا، اس لئے وہ براہ راست ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کر دیتے تھے۔
ابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اس قصے پر یہ کہہ کر تعلیق لگائی ہے کہ یہ کوئی سقم نہیں جس سے کوئی راوی کمزور ہو جائے۔ کیونکہ تمام صحیفہ فی نفسہ صحیح ہے۔
(iv) عبدالعزیزی بن مروان: عبدالعزیزی رحمة اللہ علیہ نے کثیر بن مرة الحضرمی رحمة اللہ علیہ کو خط لکھا کہ تم نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث سنی ہیں، وہ لکھ کر بھیجو۔ مگر ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث مت بھیجنا کیونکہ وہ میرے پاس لکھی ہوئی موجود ہیں۔
(v) عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن ھرمز: انہوں نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی بعض روایات تمیم الجیشانی کی طرف لکھ کر بھیجیں۔
(vi) عبیداللہ رحمة اللہ علیہ بن موھب القرشی: عبیداللہ کے بیٹے یحییٰ اپنے باپ کے وسیلہ سے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا ایک نسخہ بیان کرتے تھے۔ نسخے کا اکثر حصہ ٹھیک نہیں تھا۔ انہوں نے اپنا صحیفہ یحییٰ القطان کو دیا تھا مگر وہ اس سے روایت نہیں کرتے تھے۔
(vii) عقبہ رحمة اللہ علیہ بن ابی الحسناء: امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب "المیزان" میں ان کا ترجمہ بیان کر کے لکھتے ہیں:
"حدثنا فرقد ابن الحجاج،سمعت عقبة بن ابي الحسناء سمعت ابا هريرة يقول ،قلت وهذه نسخة حسنة وقعت لي وغالب احاديثها محفوظة..."
"میں نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا... پھر میں نے کہا یہ خوبصورت نسخہ آپ کا مجھے ملا ہے۔ اور اس کی اکثر احادیث محفوظ تھیں"
(viii) محمد رحمة اللہ علیہ بن سیرین: علی ابن المدینی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میرے پاس محمد رحمة اللہ علیہ بن سیرین کے خاندان کا ایک آدمی آیا، اس کے پاس محمد رحمة اللہ علیہ بن سیرین کا وہ نسخہ تھا جو انہوں نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے لکھا تھا۔ اس نسخہ کی ابتدا میں یہ درج تھا۔
"هذا ما حدثنا ابوهريرة، قال ابوالقاسم كذا وقال ابوالقاسم كذا"
یہ نسخہ ایک پرانے ورقہ پر تھا اور یہ یحییٰ رحمة اللہ علیہ بن سیرین کے پاس تھا۔ کیونکہ وہ اپنے پاس کوئی کتاب رکھنا پسند نہیں کرتے تھے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل نیچے یہ لکھتے تھے۔ "هذا حديث ابي هريرة" اور دونوں فقروں کے درمیان فاصلہ رکھتے تھے، پھر کہتے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح کہا۔ علی ابن المدینی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: ہر "دسویں حدیث کے بعد اس کے اردگرد نقطے ڈالے ہوتے تھے"۔
(ix) مروان رحمة اللہ علیہ بن الحکم: مروان کا کاتب ابو الزعيزعه کہتا ہے کہ مروان نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اس سے حدیثیں پوچھنے لگا اور مجھے ایک پردے کے پیچھے بٹھا دیا۔ میں بھی ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیثیں لکھتا رہا۔ جب ایک سال گزر گیا تو اس نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو پھر بلایا اور مجھے پردے کے پیچھے بٹھا کر ان احادیث کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے ان احادیث پر نہ زیادتی کی اور نہ کمی کی، نہ کسی کو آگے کیا اور نہ پیچھے کیا۔
(x) ھمام رحمة اللہ علیہ بن منبہ: آپ کے پاس ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا ایک صحیفہ تھا۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے اس کی تحقیق کر کے کئی بار چھپوایا ہے۔ اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ دمشق سے یہ نسخہ الجمع العلمي العربي نے شائع کیا۔
10۔ ابوھند الداری رضی للہ عنہ
آپ سے امام مکحول نے احادیث لکھی ہیں۔
11۔ ابی بن کعب بن قیس الانصاری رضی اللہ عنہ (المتوفی 22ھ)
آپ صحابہ رضی اللہ عنہ میں سب سے بڑے قاری بلکہ سید القراء تھے۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ آپ کی بڑی تکریم کرتے تھے، آپ کا رعب مانتے تھے اور آپ سے فتویٰ طلب کیا کرتے تھے۔ جب آپ فوت ہوئے تو کہا "اليوم مات سيد المسلمين"
آپ سے ابوالعالیہ رحمة اللہ علیہ رفیع بن مہران روایت کرتے ہیں نیز ایک بہت بڑا نسخہ تفسیر میں بھی روایت کرتے ہیں۔
12۔ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (المتوفیہ 40ھ کے بعد)
آپ پہلے جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی بیوی تھیں۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ سے شادی کی۔ ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ ابن ابی طالب سے شادی کی اور سب سے اولاد ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس بھی ایک صحیفہ تھا۔ جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث تھیں۔
13۔ اسید ابن حضیر الانصاری رضی اللہ عنہ (المتوفی 21-20ھ)
آپ مروان رحمة اللہ علیہ بن حکم کی خلافت میں فوت ہوئے۔ آپ نے احادیث نبویہ لکھیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے قضایا بھی لکھے اور انہیں مروان کی طرف بھیجا۔ مسند احمد میں ذکر ہے کہ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ یمامہ کے گورنر تھے۔ مروان نے ان کی طرف خط لکھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حکم بھیجا ہے کہ جس آدمی کی کوئی چیز چوری ہو گئی ہو اور جب وہ چوری پکڑ لی جائے تو اس کی قیمت کا وہ حقدار ہو گا۔ اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر کہتے ہیں میں نے مروان کی طرف لکھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ دیا تھا اور یہی فیصلہ ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔
17۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ (10ق ھ تا 93ھ)
آپ بہت بڑے امام، مفتی اور قاری تھے۔ محدث اور راویة الاسلام ہیں۔ آپ کی کنیت، ابوحمزہ الانصاری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نذر کیا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی، آپ نے نہ کبھی مجھے مارا، نہ برا بھلا کہا۔ اور نہ میرے سامنے ناپسندیدگی کا کبھی اظہار کیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کی کتابت بہت اچھی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو بحرین کی طرف صدقات اکٹھا کرنے کی خاطر بھیجا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ بہت عرصہ تک حیات رہے۔ حتیٰ کہ پہلی صدی ہجری کے آخر میں وفات پائی۔ اس دور میں اصحاب رسول کا ایک چھوٹا سا گروہ موجود تھا۔ لہذا آپ رضی اللہ عنہ کے شاگردون کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ امام ذہبی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ "التہذیب" کے مصنف نے دو سو انسانوں کا ذکر کیا ہے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اور تقریبا 150ھ کے بعد تک حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ثقہ اصحاب موجود رہے اور ایک سو نوے (190ھ) تک آپ رضی اللہ عنہ کے ضعیف اصحاب زندہ رہے۔ اس کے بعد ایسے لوگ رہے جن کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور ان کی احادیث پھینک دی جائیں گی جیسے ابراہیم بن ہدبی اور دینار ابومکیس، خراش بن عبداللہ اور موسیٰ الطویل۔ یہ حضرات دو سو ہجری کے بعد کچھ مدت زندہ رہے۔ مگر ان کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائےگا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی اولاد کو بھی حدیث کی کتابت پر ترغیب دیا کرتے تھے۔ ثمامہ بن عبداللہ کہتے ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں سے کہا کرتے تھے اے بیٹو!
"علم کو کتابت کے ذریعے مقید کر لو"
آپ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے" کہ ہم اس شخص کے علم کو علم نہیں سمجھتے جو اس کو لکھتا نہیں" آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ وہ عتبان رضی اللہ عنہ بن مالک کی احادیث لکھا کرے۔آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے محمود رضی اللہ عنہ بن الربیع نے عتبان رضی اللہ عنہ بن مالک سے حدیث بیان کی۔ جب میں مدینہ آیا تو عتبان سے ملا۔ میں نے پوچھا: آپ کی فلاں حدیث مجھے ملی ہے... حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے یہ حدیث بہت پسند آئی۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اسے لکھ لو۔ اس نے لکھ لی۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس بہت سی کتابیں تھیں۔ ابوعمرو رحمة اللہ علیہ بن ھبرہ کہتے ہیں جب حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک حدیث بیان کرنے بیٹھتے اور لوگ آپ رضی اللہ عنہ پر ہجوم کر آتے تو پھر اپنی کتابیں لے آتے اور انہیں سامنے ڈال کر کہتے یہ وہ احادیث ہیں جو میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں اور لکھی ہیں اور پھر ان کے سامنے پیش بھی کی ہیں۔ امام ذہبی رحمة اللہ علیہ اس کے بارے میں کہتے ہیں: "یہ بات صحت سے بہت دور ہے"۔
آپ رضی اللہ عنہ اپنے شاگردوں کو حدیثیں املاء کراتے تھے اور وہ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں احادیث لکھا کرتے تھے۔ ابن سنان رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم اہل انبار نے ایک وفد بنایا اور واسط میں حجاج رحمة اللہ علیہ بن یوسف سے ملے تاکہ اس کے گورنر ابن الرفیل کے ظلم کی شکایات بیان کریں۔ میں اس کے دفتر میں داخل ہوا تو ایک شیخ کو دیکھا اور لوگ اس کے اردگرد بیٹھ کر احادیث لکھ رہے تھے۔ میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ انس رضی اللہ عنہ بن مالک ہیں۔
وہ اصحاب جن کے پاس حضرت انس رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی احادیث تھیں:
1۔ "واسط" میں آپ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تھی۔
2۔ انس رحمة اللہ علیہ بن سیرین، آپ فرماتے ہیں: مجھے انس رضی اللہ عنہ بن مالک نے بلوایا۔ میں نے کچھ دیر کر دی، پھر انہوں نے پیغام بھجوایا تو میں ان کے پاس آیا انہوں نے کہا: میرا یقین ہے کہ اگر میں تمہیں حکم دوں کہ تم اس پتھر کو چبا ڈالو صرف میری رضا کی خاطر تو تم ضرور ایسا کرو گے۔ میں نے تمہارے لئے اپنا ایک خاص عمل پسند کیا ہے۔ تم اسے ناپسند کر رہے ہو، میں تمہارے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنتیں لکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: مجھے لکھ دیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے لکھ دیں۔
3۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ بن انس: آپ کے پاس حضرت انس رضی اللہ عنہ کی "کتاب الصدقات" تھی۔
4۔ حمید الطویل رحمة اللہ علیہ: الجماز نے خالد بن الحارث سے حدیث لکھنا چاہی، چنانچہ وہ "حمید" کی کتاب جو انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے لکھی تھی، لکھواتے تھے۔
5۔ سلیمان التیمی رحمة اللہ علیہ: احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: کہ یحییٰ رحمة اللہ علیہ بن سعید ان کے حالات بیان نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تیمی کا نسخہ ضائع ہو گیا ہے۔
6۔ عبدالملک رحمة اللہ علیہ بن عمیر: ان کے پاس بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی چودہ احادیث لکھی ہوئی تھیں۔
7۔ کثیر رحمة اللہ علیہ بن سلیم الراوی: جبارة رحمة اللہ علیہ بن مغلس الحمانی، کثیر رحمة اللہ علیہ بن سلیم کا ایک نسخہ روایت کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے لکھا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی غیر ثقہ نسخے:
1۔ ابان رحمة اللہ علیہ بن ابی عیاش: ان کے پاس حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ایک نسخہ تھا۔
2۔ ابراھیم رحمة اللہ علیہ بن ھدبہ: حاکم رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضر بن ابان الھاشمی روایت کرتے ہیں: ہم سے ابوھدبہ ابراھیم بن ھدبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک نسخہ روایت کرتے ہیں اور یہ نسخہ ہمارے پاس اسی سند سے مروی ہے۔
3۔ خالد رحمة اللہ علیہ بن عبید البصری: ابن حبان رحمة اللہ علیہ "کتاب الضعفاء" میں کہتے ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک موضوع نسخہ مروی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔
4۔ خراش رحمة اللہ علیہ بن عبداللہ: یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک کے خادم تھے۔ ان کے پاس بھی آپ رضی اللہ عنہ کا ایک نسخہ تھا۔
5۔ دینار رحمة اللہ علیہ بن عبداللہ الاھوازی: آپ کے پاس حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ایک نسخہ تھا۔
6۔ الزبیر بن عدی: آپ ثقہ راوی ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایات بیان کرتے ہیں، لیکن انہی سے بشیر بن الحسین ایک موضوع نسخہ روایت کرتے ہیں۔ ابن حبان رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں:
"اس نسخہ میں تقریبا ایک سو پچاس احادیث تھیں"۔
پروفیسر محمد اعظمی کہتے ہیں: "یہ نسخہ مکتبہ ظاہری، دمشق میں محفوظ تھا۔ میں نے اپنے ایک مضمون میں اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے"
7۔ عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن دینار: ان کے پاس حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ایک بہت بڑا نسخہ تھا۔
8۔ العلاء رحمة اللہ علیہ بن زید: ابن حبان رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ :" یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک موضوع نسخہ روایت کرتے ہیں"
9۔ موسی رحمة اللہ علیہ بن عبداللہ الطویل: ان کے پاس بھی ایک موضوع نسخہ تھا۔
15۔ البراء بن عاذب رضی اللہ عنہ (المتوفی:72ھ)
آپ رضی اللہ عنہ کے شاگرد آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں احادیث لکھا کرتے تھے۔ وکیع رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں:
"میرے والد صاحب عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن حنش سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب کے شاگردوں کو دیکھا کہ وہ ان کے پاس سرکنڈوں سے اپنی ہتھیلیوں پر احادیث لکھ رہے تھے"۔
16۔ جابر بن سمرة رضی اللہ عنہ (المتوفی:74ھ)
آپ رضی اللہ عنہ نے احادیث نبویہ لکھیں اور انہیں عامر رضی اللہ عنہ بن سد کی طرف بھیجا۔ یہ عامر رضی اللہ عنہ بن سعد بن ابی وقاص ہیں، کہتے ہیں: میں نے جابر رضی اللہ عنہ بن سمرة کی طرف اپنے غلام نافع کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ جو کچھ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، وہ مجھے بھی بتائیں تو انہوں نے میری طرف احادیث لکھ کر بھیجیں۔
17۔ جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ (16ق ھ تا 78ھ)
آپ رضی اللہ عنہ بہت بڑے امام، فقیہ اور اپنے عہد میں مدینہ کے مفتی تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ علم نافع حاصل کیا تھا۔ آپ مدینہ میں فوت ہونے والے آخری صحابی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ابتدائی مولفین حدیث سے ہیں۔ حج کے بارے میں آپ نے ایک چھوٹا سا "منسک" لکھا تھا۔ جس کو امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے مکمل طور پر نقل کر دیا ہے۔
وہ لوگ جن کے پاس آپ رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی احادیث تھیں
1۔ ابوسفیان رحمة اللہ علیہ: وکیع کہتے ہیں میں نے شعبہ رحمة اللہ علیہ سے سنا: وہ کہتے تھے کہ ابو سفیان جو جابر سے روایات بیان کرتے ہیں وہ ایک صحیفہ سے ہیں۔ ابو سفیان رحمة اللہ علیہ کی جابر رضی اللہ عنہ سے سماعت کو امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے پختہ قرار دیا ہے۔
2۔ الجعد رحمة اللہ علیہ بن دینار، ابو عثمان: بخاری رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ قتادہ، ابوبشر اور جعد ابوعثمان رحمة اللہ علیہ، سلیمان بن قیس کی کتاب روایت کرتے ہیں۔ جو کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے لکھی تھی۔
3۔ الحسن البصری رحمة اللہ علیہ: ابو حاتم رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: حسن بصری رحمة اللہ علیہ جابر سے کتاب روایت کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو پایا تھا۔
4۔ سلیمان رحمة اللہ علیہ بن قیس الیشکری: آپ 70ھ اور 80ھ کے درمیان فوت ہوئے۔
سلیمان رحمة اللہ علیہ بن حرب کہتے ہیں: کہ سلیمان رحمة اللہ علیہ الیشکری ایک سال مکہ میں ٹھہرے اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کے پاس رہے۔ ان سے ایک صحیفہ لکھا۔ آپ بہت جلد فوت ہو گئے تھے۔ لیکن صحیفہ آپ کی اولاد کے پاس موجود رہا۔ ہمام بن یحییٰ رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: سلیمان الیشکری کی والدہ نے سلیمان کا نسخہ پیش کیا۔ وہ ثابت ، قتادہ، ابوبشر، حسن اور مطرف کے سامنے پڑھا گیا۔ ان سب نے اس کو مکمل روایت کیا ہے۔ لیکن ثابت نے اس سے صرف ایک حدیث روایت کی ہے۔
5۔ عامر شعبی رحمة اللہ علیہ: ابو حاتم رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: سلیمان الیشکری نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مجلس اختیار کی۔ آپ سے احادیث سنیں اور ان کو ایک صحیفہ میں لکھا۔ جب ان کی وفات ہوئی تو یہ صحیفہ ان کی بیوی کے پاس موجود تھا اور یہی صحیفہ ابوالزبیر رحمة اللہ علیہ، سفیان اور الشعبی رحمة اللہ علیہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اسی طرح قتادہ رحمة اللہ علیہ نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
6۔ عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن عقیل:آپ کہتے ہیں: میں، محمد بن علی ابو جعفر اور محمد بن الحنفیہ سب جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کے پاس جایا کرتے تھے۔ ہم ان سے "سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم" اور "صلوة رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کے باے میں احادیث پوچھا کرتے تھے۔ ہم وہ احادیث لکھ لیتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ سے علم حدیث سیکھتے بھی تھے۔
7۔ عطاء رحمة اللہ علیہ بن ابی رباح: آپ کے پاس بھی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی احادیث لکھی ہوئی موجود تھیں۔
8۔ قتادہ رحمة اللہ علیہ: آپ رحمة اللہ علیہ کے پاس بھی جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی احادیث موجود تھیں۔
9۔ مجاہد رحمة اللہ علیہ: ابن سعد رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: کہ علمائے حدیث بیان کرتے ہیں کہ مجاہد رحمة اللہ علیہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے صحیفہ سے روایات بیان کرتے تھے۔
10۔ مطرف رحمة اللہ علیہ: سلیمان رحمة اللہ علیہ بن قیس الیشکری کے حوالے میں آپ کا ذکر آ چکا ہے۔
11۔ محمد رحمة اللہ علیہ بن الحنفیہ: آپ کا حوالہ عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن عقیل کے تحت آ چکا ہے۔
12۔ محمد رحمة اللہ علیہ بن علی ابوجعفر: آپ کا ذرک بھی عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن عقیل کے تحت آ چکا ہے۔
13۔ محمد رحمة اللہ علیہ بن مسلم الزبیر: امام لیث رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں میں ابوالزبیر کے پاس آیا تو اس نے مجھے دو کتابیں دیں۔ میں نے اس سے پوچھا کیا یہ سب تو نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنی ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ اس میں کچھ احادیث وہ ہیں جو میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو ان سے نہیں سنیں۔ تو انہوں نے دونوں قسم کی احادیث کو واضح طور پر فرق کر کے بتایا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ امام لیث رحمة اللہ علیہ ابوالزبیر رحمة اللہ علیہ کے پاس آئے۔ انہوں نے کچھ کتابین نکال کر دکھائیں۔ لیث رحمة اللہ علیہ نے پوچھا کہ یہ سب تو نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنی ہیں؟ اس نے کہا دوسروں سے بھی سنی ہیں۔۔ لیث رحمة اللہ علیہ نے کہا مجھے جابر رضی اللہ عنہ والی احادیث بتائیں تو انہوں نے ایک صحیفہ نکال کر دیا۔
14۔ وھب رحمة اللہ علیہ بن منبہ: آپ سے آپ کا بیٹا معقل روایت کرتا ہے۔ امام یحییٰ رحمة اللہ علیہ ابن معین انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ آدمی سچا تھا اور جو صحیفہ یہ وھب رحمة اللہ علیہ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا روایت کرتا ہے وہ کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ تو کوئی کتاب انہیں کہیں اور سے ملی تھی کیونکہ وھب رحمة اللہ علیہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا۔ لیکن پروفیسر محمد اعظمی بیان کرتے ہیں کہ ابن خزیمہ رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں یہ بیان کیا ہے کہ وھب رحمة اللہ علیہ کا سماع حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
18۔ جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ (المتوفی:54ھ)
او اسحاق رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ آرمینیا کی طرف بھیجے گئے لشکر میں تھے۔ وہاں انہیں سخت بے سروسامانی اور بھوک نے آن لیا۔ تو حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا: اني سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: من لم يرحم الناس لا يرهمه الله عزوجل، قال فارسل اليه...
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر بھی رحم نہیں کرتا۔ یہ پڑھ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں ضروریات زندگی ارسال کیں"۔
19۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ (3ھ تا 50ھ)
آپ رضی اللہ عنہ ان لوگوں کو جو احادیث حفظ نہیں کر سکتے تھے، لکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔ محمد رحمة اللہ علیہ بن ابان کہتے ہیں: حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو کہا: تم علم حاصل کرو! آج تم قوم کے نونہال ہو کل کو ان کے بزرگ بنو گے۔ تم میں سے جو حفظ نہیں کر سکتا وہ لکھ لیا کرے۔ حضرت (پی ڈی ایف صفحہ 34) کے پاس اپنے والد محترم کے فتاویٰ ایک صحیفہ میں لکھے ہوئے موجود تھے۔ پروفیسر اعظمی کہتے ہیں ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس صحیفہ میں احادیث تھیں یا صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ تھے۔
عبدالرحمٰن رحمة اللہ علیہ بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے "خیار بیع"کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایک بڑا صندوق منگوایا، اس سے ایک زرد رنگ کا صحیفہ نکالا جس میں "خیار بیع" کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول درج تھا۔
20۔ رافع بن خدیج الانصاری رضی اللہ عنہ (12ق ھ تا 74ھ)
آپ رضی اللہ عنہ کے پاس چمڑے پر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھی ہوئی تھیں۔ نافع رحمة اللہ علیہ بن جبیر کہتے ہیں ایک بار مروان نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ اس میں مکہ اور اس کی حرمت کا ذکر کیا تو رافع رضی اللہ عنہ بن خدیج نے با آواز بلند کہا اگر مکہ حرم ہے تو مدینہ حرم ہے۔ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا ہے۔ اور وہ ہمارےپاس خولانی چمڑے میں لکھا ہوا موجود ہے۔ اشارہ بنو امیہ کے "محاصرہ" کی طرف ہے۔
21۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ (المتوفی 66ھ)
آپ نے بھی احادیث نبویہ لکھیں اور انہیں انس بن مالک کی طرف لکھ کر بھیجا۔ یہ اس عہد کی بات ہے جب حرہ پہاڑی کا بنو امیہ نے محاصرہ کیا تھا۔ جس میں آپ کے بچے اور خاندان ہلاک ہو گئے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ زید کی طرف تعزیت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"میں آپ کو اللہ کی طرف سے بشارت دیتا ہوں۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: "اللهم اغفرلانصار ولابناء الانصار"
" اے اللہ انصار اور انصار کے بیٹوں کی بخشش فرما"
22۔زید بن ثابت الانصاری رضی اللہ عنہ (المتوفی:45ھ)
آپ رضی اللہ عنہ بہت بڑے قاری قرآن، فرائض کے ماہر اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو قرآن جمع کرنے کے لئے نامزد کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی کڑی تحقیق کی اور اس کے جمع کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کیا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کو المصحف کی کتابت کے لئے مقرر کیا۔ کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت زید رضی اللہ عنہ کے حفظ، دین اور امانت پر مکمل بھروسہ تھا۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ مدینہ تشریف لائے تو مجھے حکم دیا کہ تم یہودیوں کی زبان سیکھو! کیونکہ میں یہودیوں کی خط و کتابت پر بھروسہ نہیں کرتا۔ چنانچہ میں نے آدھا مہینہ سے بھی کم عرصہ میں یہ زبان سیکھ لی۔
آپ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ احادیث نبویہ کی کتابت کو معارضہ کے لئے پیش کرتے تھے۔ مطلب رحمة اللہ علیہ بن عبداللہ بن حنطب کہتے ہیں کہ ایک بار زید بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ انہوں نے حدیث کے بارے میں پوچھا اور ایک آدمی کو لکھنے کا حکم دیا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ہم کوئی حدیث نہ لکھیں اور اسے مٹا دیا۔ لیکن یاد رہے کہ مطلب کا زید سے سماع نہیں ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ مروان نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بٹھایا اور ایک پردے کے پیچھے چند لوگوں کو بٹھا دیا۔ مروان حضرت زید رضی اللہ عنہ سے حدیثیں سنتا رہا اور پردے کے پیچھے والے لوگ لکھتے رہے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی ان پر نظر پڑ گئی۔ تو انہوں نے کہا! اے مروان! میری طرف سے معذرت ہو۔ میں تو اپنی رائے سے کہتا ہوں (یعنی میرے نزدیک جو حدیث صحیح ہے، وہ بیان کر رہا ہوں) اور ممکن ہے کہ یہ لکھنے والوں کی آراء سے مطابقت نہ رکھے۔ پروفیسر اعظمی کہتے ہیں کہ ہم اس توجیہ کو قبول نہیں کرتے اور اس سے یہ ثابت نہیں ہو تاکہ جس طرح انہوں نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھیں اسی طرح اپنی آرا بھی لکھی ہوں گی۔
لیکن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطاب کے لئے دادا کی میراث کے متعلق احادیث لکھی تھیں۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب ان کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے دادا کی میراث کے بارے میں رائے دو۔ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں خدا کی قسم! ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ وحی تو نہیں ہے کہ جس میں ہم کمی بیشی کر رہے ہیں، یہ تو ایسی چیز ہے جس میں صرف تمہاری رائے مطلوب ہے۔ اگر تمہاری رائے بہتر ہو تو میں تمہارا ساتھ دوں، ورنہ آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے رائے دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پھر ان کے پاس آئے تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کو اپنی رائے لکھ دیتا ہوں۔ چنانچہ پالان کے ایک حصے پر انہوں نے لکھ دیا۔
فرائض پر لکھی جانے والی یہ پہلی دستاویز تھی۔ جعفر رحمة اللہ علیہ بن برقان کہتے ہیں: میں نے زہری رحمة اللہ علیہ سے سنا: اگر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یہ فرائض نہ لکھتے تو یہ لوگوں سے ختم ہو جاتے نیز حضرت قبیصہ رضی اللہ عنہ حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرائض روایت کرتے ہیں۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بیٹے خارجہ آپ رضی اللہ عنہ سے ایک کتاب روایت کرتے ہیں۔ اور یہی کتاب ابن خیر الاشبیلی کی مرویات میں سے ہے۔ ابن خیر رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: زید بن ثابت کی کتاب "الفرائض" مجھ سے ابوبکر... عن خارجة بن زيد بن ثابت عن ابيه زيد بن ثابت کی سند سے مجھ سے پہنچی ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ طبرانی کی المعجم الکبیر میں محفوظ ہے۔
وہ لوگ جن کے پاس حضرت زید رضی اللہ عنہ کی احادیث لکھی ہوئی موجود تھیں
(1)ابوقلابہ رضی اللہ عنہ: جریر رحمة اللہ علیہ نے ایوب کو ابوقلابہ کی کتاب سنائی۔ اس میں لکھا تھا:
"ان زيد بن ثابت كان يرقي" (زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے)
(i)کثیر رحمة اللہ علیہ بن الصلت: حضرت قتادہ رحمة اللہ علیہ حضرت کثیر رحمة اللہ علیہ بن الصلت سے روایت کرتے ہیں کہ وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سامنے احادیث لکھا کرتے تھے۔
(ii) کثیر رحمة اللہ علیہ بن افلح: کثیر رحمة اللہ علیہ بن افلح کہتے ہیں: "كنا نكتب عند زيد بن ثابت رضي الله عنه"
(ہم زید بن ثابت کے پاس حدیث لکھا کرتے تھے)
23۔ سبيعة الاسلمية رضي الله عنه
یہ سعد رضی اللہ عنہ بن خولہ کی بیوی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات کرتی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بعض تابعین رحمة اللہ علیھم کے لئے حدیثیں لکھیں۔ جن تابعین نے آپ رضی اللہ عنہ سے حدیثیں لکھیں ان میں ایک عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن عتبہ ہیں۔ عامر رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: كتبت سبيعة الاسلمية الي عبدالله بن عتبه تروي عن النبي صلي الله عليه وسلم...
"سبيعة الاسلمية رضي الله عنها نے عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن عتبہ کی طرف نبی پاک کی طرف سے احادیث لکھیں"
2۔ عمر رحمة اللہ علیہ بن عباللہ رحمة اللہ علیہ بن ارقام: ابن شہاب رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں، مجھ سے عبیداللہ رحمة اللہ علیہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ اس کے باپ نے عمر رحمة اللہ علیہ بن عبداللہ بن الارقم الزہری کی طرف خط لکھا کہ وہ سبیعة رضی اللہ عنہا بنت الحارث الاسلمیہ کے پاس جائے اور ان سے احادیث لکھے اور وہ جوابات بھی لکھے جو انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کر کے پوچھتے تھے۔ عمرو بن عبداللہ بن ارقام نے عبداللہ بن عتبہ کی طرف لکھا: ان سبيعة بنت الحارث اخبرته..." سبیعة رضی اللہ عنہا بنت الحارث نے ان کو خبر دی"
3۔ عمرو رحمة اللہ علیہ بن عتبہ: آپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہا سے کتاب روایت کرتے ہیں۔
4۔ مسروق رحمة اللہ علیہ: مسروق اور عمرو رحمة اللہ علیہ نے سبیعہ رضی اللہ عنہا بنت الحارث کی طرف خط لکھا اور اس کے بارے میں پوچھا تو سبیعہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کی طرف جواب لکھا۔
24۔ سعد بن عبادہ الانصاری۔ سید الخزرج رضی اللہ عنہ (المتوفی 15ھ)
آپ رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت میں بھی کاتب تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس بھی احادیث کی کتابیں تھیں۔ جنہیں آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان والے روایت کرتے تھے۔ ابن حبان رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: اسماعیل بن عمرو بن شرجیل بن سعد بن سعد بن عبادة الانصاری الخزرجی، یہ سعید بن عمرو کے بھائی تھے۔ اور سعد بن عبادة الانصاری رضی اللہ عنہ کی اچھی اچھی کتابیں رکھتے تھے۔
امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اپنی "مسند" میں ذکر کرتے ہیں کہ "اسماعیل بن عمرو بن قیس بن سعد بن عبادة عن ابیه" انہوں نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی کتابوں میں دیکھا: ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قضي باليمين مع الشاهد" (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ کے ساتھ قسم لے کرفیصلہ دیا)
25۔ سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ (المتوفی: 32ھ)
آپ نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی طرف احادیث نبویہ لکھ کر بھیجی تھیں۔
26۔ السائب بن یزید رضی اللہ عنہ (2ھ تا92ھ)
یحییٰ رحمة اللہ علیہ بن سعید جو سائب کا شاگرد تھا، نے حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی احادیث لکھ کر ابن لھیعة رحمة اللہ علیہ کی طرف بھیجیں۔ ابن لھیعة رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یحییٰ رحمة اللہ علیہ بن سعید نے میری طرف خط لکھا کہ انہوں نے سائب رضی اللہ عنہ بن یزید سے احادیث لکھی ہیں۔
27۔ سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ (المتوفی:59ھ)
آپ رضی اللہ عنہ نے کتابی شکل میں احادیث نبویہ کو جمع کیا اور وہ رسالہ جو بہت سی احادیث پر مشتمل تھا اپنے بیٹےکی طرف بھیجا۔ ابن سیرین نے اس رسالے کی بہت تعریف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
"في رسالة سمرة الي بنيه علم كثير"
(سمرہ رضی اللہ عنہ نے جو رسالہ اپنے بیٹوں کی طرف لکھا اس میں بہت زیادہ علم ہے)
جن لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے احادیث لکھیں
(i)الحسن البصری رحمة اللہ علیہ: آپ ان سے ایک بڑا نسخہ روایت کرتے ہیں۔ علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے یا کہ نہیں، لیکن اس بات میں اختلاف نہیں کہ حسن رحمة اللہ علیہ بصری سمرہ رضی اللہ عنہ سے ایک کتاب یا صحیفہ روایت کرتے ہیں۔ ان کے صحیفہ کا ذکر کئی بار آیا ہے۔ یحییٰ رحمة اللہ علیہ بن سعید القطان کہتے ہیں: "في احاديث سمرة التي يرويها الحسن عنه سمعنا انها من كتاب" (سمرہ رضی اللہ عنہ کی وہ احادیث جن کو حسن رحمة اللہ علیہ روایت کرتے ہیں، ہم نے سنا ہے وہ ایک کتاب سے تھیں)
ابن عون رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: "میں نے حسن رحمة اللہ علیہ کے پاس سمرة رضی اللہ عنہ کی کتاب دیکھی ہے اور میں نے اس کو ان کے سامنے پڑھا بھی ہے"
امام نسائی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: حسن رحمة اللہ علیہ سمرہ رضی اللہ عنہ کی کتاب سے روایت کرتے ہیں نیز حسن رحمة اللہ علیہ نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے صرف عقیقہ کی احادیث سنی ہیں۔
طبرانی کی "المعجم الکبیر" میں اس کتاب کا ایک حصہ محفوظ ہے۔
2۔ سلمان رحمة اللہ علیہ بن سمرة: ان کی طرف ان کے باپ نے ایک رسالہ لکھا "سنن ابوداؤد" میں اور دوسری کتابوں میں ہمیں ان کا ذکر ملتا ہے۔ خبیب رحمة اللہ علیہ روایت کرتے ہیں:
"عن سلمان بن سمرة عن ابيه سمرة انه كتب الي ابنه: اما بعد فان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يامرنا...
"سلمان بن سمرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف لکھا: امام بعد! بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو حکم دیا کرتے تھے۔
طبرانی کی المعجم الکبیر میں اس رسالے کا ایک جزو محفوظ ہے۔
3۔ محمد رحمة اللہ علیہ بن سیرین: آپ سمرہ رضی اللہ عنہ کے رسالہ کی بہت زیادہ تعریف کیا کرتے تھے۔
پروفیسر الاعظمی فرماتے ہیں: لیکن ہمیں یہ پتہ نہیں کہ ان کے سامنے پہلے والا رسالہ تھا یا کوئی اور لیکن اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وہ سمرہ رضی اللہ عنہ کے رسالہ کو ضرور جانتے تھے۔
28۔ سہل بن سعد الساعدی الانصاری رضی اللہ عنہ (9ق ھ تا 91ھ)
آپ سے آپ کا بیٹا عباس رحمة اللہ علیہ، زہری رحمة اللہ علیہ اور ابوحازم رحمة اللہ علیہ بن دینار روایت کرتے ہیں۔ ابوحازم رحمة اللہ علیہ نے سہل بن الساعدی رضی اللہ عنہ سے سنی ہوئی احادیث جمع کی تھیں۔
29۔ شداد بن اوس بن ثابت الانصاری رحمة اللہ علیہ (17ق ھ تا 58ھ)
ابودرداء رضی اللہ عنہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: "ہر امت کا ایک فقیہ ہوتا ہے اور اس امت کا فقیہ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ہے۔"
آپ رضی اللہ عنہ نے بعض نوجوانوں کو احادیث لکھوائی تھیں۔ عبدالاعلیٰ رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے کوئی بات کی۔ ہم ہنس پڑے... ہم نے کہا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے۔ جونہی آپ کوئی بات کہتے ہیں، ہم ہنسے بغیر نہیں رہتے (غالبا آپ رضی اللہ عنہ کی زبان میں لکنت تھی) شداد رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں ایک حدیث زاد راہ کے طور پر دیتا ہوں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضر میں ہمیں یہ حدیث سکھایا کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں لکھوائی اور ہم نے لکھی۔ "اللهم اني اسئلك..."
30۔ شمغون الاذدی الانصاری، ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ (نزیل دمشق)
آپ رضی اللہ عنہ اہل دمشق کے بڑے علماء میں سے تھے۔ آپ پہلے انسان ہیں جنہوں نے بڑے بڑے رجسٹر لکھے اور اس میں مدرج اور مقلوب احادیث لکھیں۔ بنی سعد کے مولیٰ "عروة الاعمی" کہتے ہیں: ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ جب سمندر پر سوار ہوتے تھے تو آپ کے پاس بڑے بڑے صحف ہوتے تھے۔
31۔ الضحاک بن سفیان الکلابی رضی اللہ عنہ ( )
ان کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ تم اشیم الضبانی کی عورت کو اس کی دیت میں سے ورثہ دو۔ یہی حدیث ضحاک رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو لکھی۔ سعید رحمة اللہ علیہ بن مسیب کہتے تھے: کہ دیت ورثہ کے لئے ہے۔ خاوند کی دیت میں سے عورت کو کچھ نہیں ملے گا۔ یہاں تک کہ ضحاک رضی اللہ عنہ بن سفیان نے انہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث لکھ کر بھیجی: "ان النبي صلي الله عليه وسلم ورث امراة اشيم الضباني من دية زوجها"
32۔ الضحاک بن قیس الکلابی رضی اللہ عنہ (64 یا 65 ھ میں شہید ہوئے)
ضحاک رضی اللہ عنہ نے ایک رسالہ قیس رحمة اللہ علیہ بن الہثیم کی طرف لکھا اور اس میں بعض احادیث تحریر کیں۔ حسن رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: ضحاک رضی اللہ عنہ بن قیس نے یزید بن معاویہ کی وفات کے وقت قیس رحمة اللہ علیہ بن الہثیم کو خط لکھا "سلام عليك اما بعد فاني سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم..."
امام احمد رحمة اللہ علیہ بن حنبل نے اپنی "مسند" میں ضحاک رضی اللہ عنہ کی یہی ایک حدیث نقل کی ہے۔
33۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (المتوفیہ 58ھ)
آپ رضی اللہ عنہا نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ پاکیزہ اور مبارک علم روایت کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا کی مسانید کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے۔ ہشام رحمة اللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مجلس اختیار کی۔ میں نے آپ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر آیات کا شان نزول جاننے والا نہیں دیکھا۔ فرائض ، سنت اور شعر کا آپ سے بڑھ کو کوئی عالم نہیں پایا۔ "ایام عرب" اور انساب کا آپ رضی اللہ عنہا سے بڑا راوی نہیں دیکھا۔ قضاء اور طب کا بھی آپ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی ماہر نہیں ملا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے علم کے بارے میں امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے بہترین بات کہی ہے:
" لا اعلم في امة محمد صلي الله عليه وسلم، بل ولا في النساء مطلقا امراة اعلم منها..."
"میں نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ تمام جہانوں کی عورتوں میں آپ رضی اللہ عنہا سے بڑی علم والی عورت نہیں دیکھی"
اس میں شک نہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا قراءت جانتی تھیں، کتابت بھی جانتی تھیں، نیز لوگ اپنے مشکل مسائل آپ رضی اللہ عنہا کی طرف لکھتے تھے۔ اور آپ رضی اللہ عنہا ان کے جوابات لکھ کر بھیجتی تھیں۔
وہ لوگ جن کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث لکھی ہوئی تھیں
1۔ زیاد رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان: زیاد نے امور حج کے بارے میں کچھ سوالات آپ رضی اللہ عنہا کو لکھ کر بھیجے تھے اور آپ رضی اللہ عنہا نے ان کا جواب لکھ کر بھیجا تھا۔
2۔ عروہ رضی اللہ عنہ بن زبیر: "ہشام بن عروة عن ابیہ" روایت بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے بیٹے مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو میری احادیث لکھتا ہے۔ پھر ان کو دوبارہ لکھتا ہے۔ میں نے آپ رضی اللہ عنہا سے کہا: جب میں آپ رضی اللہ عنہا سے کوئی چیز سنتا ہوں تو پھر کسی اور کے سامنے بیان کر کے دوبارہ سنتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا تمہیں معانی میں کوئی اختلاف نظر آتا ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ حضرت عائشہ نے کہا: پھر لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
3۔ معاویہ بن ابی سفیان: امام الشعبی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں خط لکھا کہ آپ نے جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس میں سے کچھ لکھ کر بھیجیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے انہیں حدیثیں لکھ کر بھیجیں۔ اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے کہنے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مناقب عثمان رضی اللہ عنہ پر احادیث لکھ کر بھیجیں۔
34۔ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ (المتوفی 86ھ)
آپ رضی اللہ عنہ کوفہ میں وفات پانے والے آخری صحابی ہیں۔
جن لوگوں کے پاس آپ رضی اللہ عنہ کی احادیث لکھی ہوئی تھیں
1۔ سالم رحمة اللہ علیہ بن ابی امیہ التیمی: آپ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ابی اوفی سے ایک کتاب روایت کرتے ہیں۔ اور یہی سالم رحمة اللہ علیہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ابی اوفی کے کاتب بھی تھے۔
2۔ سالم رحمة اللہ علیہ بن ابی امیہ کا ایک دوست: ابوحیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں ایک شیخ سے سنا ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ابی اوفی نے عبداللہ کی طرف خط لکھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب حروری خوارج سے جنگ لڑی جا رہی تھی۔ میں نے اس کے کاتب سے جو میرا دوست تھا، کہا: کہ یہ چیز مجھے لکھ دو۔ تو اس نے ایسا ہی کیا۔ " ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يقول..."
3۔ عمر رحمة اللہ علیہ بن عبیداللہ: ان کی طرف عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ابی اوفی نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھیں۔
35۔ عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ (2ھ تا 73ھ)
آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے قاضی عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن عتبہ بن مسعود کی طرف ایک خط لکھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی۔
36۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (3ق ھ تا 68ھ)
آپ رضی اللہ عنہ حبرالامة، فقیہ العصر اور امام المفسرین ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: جب کبھی مجھے پتہ چلتا کہ فلاں صحابی کے پاس حدیث ہے تو میں اس کے دروازے پر آتا اور اگر وہ دوپہر کو سو رہا ہوتا تو میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر لیٹ جاتا۔ ہوائیں گردوغبار اٹھا کر میرے اوپر ڈالتیں، پھر وہ صحابی نکلتا، مجھ سے کہتا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد! آپ یہاں کیسے تشریف لائے؟ آپ مجھے پیغام بھیج دیتے میں خود آپ کے پاس آتا۔ میں کہتا نہیں! تیرے پاس آنے کا میرا حق بنتا ہے کہ تجھ سے آ کر حدیث پوچھوں۔ آپ رضی اللہ عنہ کسی ایک آدمی سے حدیث سن کر مطمئن نہیں ہوتے تھے بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: "اني كنت لاسال عن الامر والواحد ثلاثين من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم" (میں کسی ایک حدیث کے بارے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس تیس صحابہ رضی اللہ عنہم سے تحقیق کرتا تھا)
سلمی رضی اللہ عنہا (آپ رضی اللہ عنہ کی بیوی) کہتی ہیں: " میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تختیاں دیکھیں، جن پر وہ ابو رافع رضی اللہ عنہ سے افعال رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھا کرتے تھے۔
محمد مصطفیٰ الاعظمی کہتے ہیں: کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے غلاموں سے بھی کتابت کروایا کرتے تھے۔
ابن حجر رحمة اللہ علیہ الاصابة میں کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہ ابو رافع رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تھے اور پوچھتے کہ فلاں دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا کام کیا تھا؟ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان چیزوں کو لکھنے والا بھی ہوتا تھا۔
آپ رضی اللہ عنہ کی یہ عادت تھی کہ نماز پڑھنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کے غلام آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھ جاتے، جب کسی قرآن کی آیات کی بارے میں کوئی چیز معلوم نہ ہوتی، اسے نوٹ کر لیتے۔ پھر دوسرے اصحاب رسول سے پتہ کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اس جلالت علمی کا تذکرہ موسی رحمة اللہ علیہ بن عقبہ نے یوں کیا ہے:
"وضع عندنا كريب (مولي ابن عباس توفي98ھ) حمل بعير او عدل بعير من كتب ابن عباس...." (ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مولی کریب رحمة اللہ علیہ (متوفی 98ھ)نے ہمارے سامنے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اتنی کتابیں رکھیں جو ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر تھیں....)
الھذیل کہتے ہیں کہ اہل کوفہ نے مجھے کچھ مسائل دئیے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ان کا حل پوچھوں۔ چنانچہ میرے صحیفہ میں جتنے سوالات تھے، ان سب کا جواب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: "قيدو العلم بالكتاب"
آپ رضی اللہ عنہ کبھی کبھار اپنے شاگردوں کے لئے خود لکھا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگرد ابن رحمة اللہ علیہ ابی ملکیہ کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قضایا لکھے۔ جہاں تک اپنے شاگردوں کو احادیث لکھ کر دینے کا تعلق ہے تو اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو اپنی کتابیں بھی پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ آخری عمر میں آپ رضی اللہ عنہ کی نظر کمزور ہو گئی تھی تو کسی آدمی کو بلاتے اور وہ آپ رضی اللہ عنہ کی کتابوں سے پڑھ کر سناتا۔
جن لوگوں کے پاس آپ رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی احادیث موجود تھیں
1۔ ابن ابی ملیکة: ان کا حوالہ اوپر آ چکا ہے۔ ایک جگہ یہ خود فرماتے ہیں: "(پی ڈی ایف صفحہ 41) (میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا تو انہوں نے مجھے لکھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا)
2۔ الحکم رحمة اللہ علیہ بن مقسم: آپ رحمة اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صرف چار احادیث سنی ہیں اور باقی تمام کی تمام ان کی کتاب سے روایت کی ہیں۔
3۔ سعید رحمة اللہ علیہ بن جبیر: آپ کہتے ہیں، میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی تختیوں پر احادیث لکھتا تھا۔ جب وہ بھر جاتیں تو پھر اپنے جوتے پر لکھتا تھا۔
4۔ علی رحمة اللہ علیہ بن عبداللہ بن عباس: آپ کے پاس بھی ابن عباس کی احادیث لکھی تھیں۔
5۔ عکرمہ رحمة اللہ علیہ:نے نزول قرآن کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی تفسیر بیان کی ہے۔
6۔ عمرو رحمة اللہ علیہ بن دینار: آپ فرماتے ہیں میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھتا نہیں تھا (شاگردوں کے ہجوم کی وجہ سے) میں کھڑے کھڑے آپ رضی اللہ عنہ کی احادیث لکھا کرتا تھا۔
7۔ کریب رحمة اللہ علیہ: ان کا حوالہ اوپر ہو چکا ہے۔ علی رحمة اللہ علیہ بن عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ جب میں حدیث لکھنے کا ارادہ کرتا تو کریب کو لکھتا کہ مجھے فلاں فلاں صحیفہ بھیج دو۔ وہ اس کے کئی نسخے تیار کرتا اور ایک مجھے بھیج دیتا۔
8۔ مجاہد رحمة اللہ علیہ: ابن رحمة اللہ علیہ ابی ملیکہ کہتے ہیں، میں نے مجاہد رحمة اللہ علیہ کو دیکھا کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے قرآن کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کی تختیاں بھی ہوتی تھیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اسے کہتے، اسے لکھتے رہو، حتیٰ کہ وہ ساری تفسیر لکھ لیتا۔
9۔ نجدة رحمة اللہ علیہ الحروری: یزید رحمة اللہ علیہ بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ رحمة اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا جس میں چند مسائل تھے۔ جب ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خط پڑھا، میں دیکھ رہا تھا: آپ رضی اللہ عنہ نے اس خط کا جواب لکھا۔
37۔ عبداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما (10ق ھ تا 74ھ)
آپ رضی اللہ عنہ بہت بڑے فڑے فقیہ اور علم و عمل میں "علم" کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھا کرتے تھے۔ اور انہیں رسائل میں جمع کرتے تھے۔ ابراہیم رحمة اللہ علیہ الصائخ کہتے ہیں: حدیث میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بے شمار کتابیں تھیں جنہیں وہ دیکھا کرتے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کتاب "الصدقہ" کا بھی نسخہ تھا اور فی الحقیقت یہ نسخہ"صدقات نبوی" کے نسخوں میں سے ایک تھا۔ امام لیث رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ نافع رحمة اللہ علیہ نے کہا کہ میں نے یہ نسخہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے کئی بار پیش کیا۔
جن لوگوں کے پاس آپ رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی احادیث تھیں
1۔ جمیل رحمة اللہ علیہ بن زید الطائی: آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت مدینہ گئے اور وہاں ادھر ادھر سے آپ رضی اللہ عنہ کی احادیث اکٹھی کیں۔
2۔ سعید رحمة اللہ علیہ بن جبیر: آپ فرماتے ہیں: میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف آیا جایا کرتا تھا۔ میں دونوں سے حدیثیں سنتا اور پالان کے وسط میں لکھ لیتا۔ پھر سواری سے اتر کر کاغذ میں لکھ لیتا تھا۔
3۔ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ بن مروان: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کچھ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھ کر بھیجی تھیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ رضی اللہ عنہ گورنر بنے تھے۔
4۔ عبدالملک رحمة اللہ علیہ بن مروان: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے عہدہ سنبھالنے پر ان کو بھی احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھ کر بھیجیں۔
5۔ عبیداللہ رضی اللہ عنہ بن عمر: ان کے پاس بھی اپنے بھائی کی احادیث لکھی ہوئی تھیں۔
6۔ عمر رحمة اللہ علیہ بن عبیداللہ: آپ عمر بن عبیداللہ بن معمر ہیں۔ آپ فارس کے گورنر تھے۔ آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو نماز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے خط لکھا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا:
"ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان اذا خرج..."
7۔ نافع رحمة اللہ علیہ مولی ابن عمر: "مسند احمد بن حنبل" میں حدیث آئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ محرم (احرام والے) آدمی کو قمیص نہیں پہننی چاہیے اور نہ ایسا کپڑا جس میں ورس لگا ہوا ہو۔ ابن عون رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ نافع رحمة اللہ علیہ کی کتاب میں موجود ہے۔ ابن عون نافع کے شاگرد ہیں۔
امام ذہبی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ واقدی نے علماء کی ایک جماعت سے یہ بیان کیا ہے کہ نافع رحمة اللہ علیہ کی کتاب جو اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ ایک صحیفہ سے تھی اور ہم نے اسے پڑھا ہے۔
8۔ عبیداللہ رحمة اللہ علیہ بن معمر: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے شام میں اپنے اس دوست کو بھی احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ارسال کیں۔ انہوں نے خط لکھ کر پوچھا تھا: "ہم شام میں ٹھر چکے ہیں، ہمیں دشمن کا بھی کوئی خطرہ نہیں، ہم پر سات برس بیت ہو چکے ہیں، ہمارے بچے بھی ہو گئے ہیں، ہم نماز کتنی پڑھا کریں؟
آپ نے جواب میں لکھا تم دو رکعات نماز پڑھا کرو" یعنی قصر کیا کرو۔
38۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما (27ق ھ تا 63ھ)
آپ رضی اللہ عنہ بہت بڑے امام، حبر، عابد اور زاہد صحابی تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے، میں سب سے کم عمر تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار"
"جس آدمی نے مجھ پر قصدا جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے"
جب صحابہ رضی اللہ عنہم باہر نکلے تو میں نے کہا: اس حدیث کے سننے کے بعد بھی تم لوگ حدیثیں بیان کرتے یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہنس پڑے اور کہنے لگے۔ اے بھتیجے! جو کچھ ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے سب ایک کتاب میں محفوظ ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی کتابت بھی بہت اچھی تھی اسی واقعہ سے آپ رضی اللہ عنہ کو بھی "تقید حدیث" کا شوق پیدا ہوا اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا شروع کر دیں۔آپ رضی اللہ عنہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں : میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے جو چیز بھی سنتا، اسے لکھ لیتا تھا، تاکہ وہ محفوظ ہو جائے۔ قریش نے مجھے منع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غصہ میں ہوتے ہیں اور کبھی خوش ہوتے ہیں۔ تم ان کی ہر چیز کیوں لکھتے ہو؟ چنانچہ میں نے کتابت حدیث چھوڑ دی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اكتب فوالذي نفسي بيده ماخرج مني الا حق"...
"تم لکھو، اس اللہ کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میرے منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا"
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس احادیث نہیں تھیں۔ البتہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں، کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے جس صحیفہ میں یہ احادیث قلمبند کی تھیں، اس کا نام "الصحيفة الصادقة" تھا اور یہ صحیفہ انہیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیزتھا۔
امام مجاہد رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں ایک بار عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ میں نے ان کے بستر کے نیچے سے ایک صحیفہ اٹھایا، لیکن انہوں نے مجھے اٹھانے سے منع کر دیا۔ میں نے پوچھا، آپ مجھے کس چیز سے منع کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا اس "صادقہ" سے۔ یہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ میرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور کوئی نہیں تھا۔ جب یہ "صحیفہ" ، اللہ کی کتاب اور "الوھط" کی زمین میرے پاس ہے تو پھر مجھے دنیا میں کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔
امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے ایک روایت بیان کی ہے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر چیز لکھا کرتے تھے"۔ امام ذہبی رحمة اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن اور غریب ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے سعد رحمة اللہ علیہ بن عفیر روایت کرتے ہیں۔
ابوراشد الحبرانی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: میں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن عاص کے پاس آیا۔ تو میں نے ان سے کہا: ہمیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کریں۔ تو انہوں نے ہمارے سامنے ایک صحیفہ دال دیا۔ اور کہا: یہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا ہے۔ میں نے اس میں دیکھا تو اس میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے صبح اور شام کے لئے کوئی وظیفہ سکھائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" يا ابابكر قل: اللهم فاطر السموات..."
تاریخ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فتاوی بھی جمع کئے تھے۔ عمرو رحمة اللہ علیہ بن شعیب کہتے ہیں کہ ہم نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی کتاب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ پایا:
"اذا عبث المعتوه بامراته، امرو ليه ان يطلق"
" جب کوئی بے وقوف آدمی اپنی بیوی سے فضول لڑائی جھگڑا کرے تو اس کا ولی اسے طلاق دینے کا حکم دے"
ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن العاص نے احادیث نبویہ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا ہوا تھا۔ ابوقبیل رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: ہم عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن العاص کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قسطنطنیہ اوور روم میں سے پہلے کون سا شہر فتح ہو گا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک صندوق منگوایا۔ جس پر حلقے پڑے ہوئےتھے۔ اس سے کتاب نکالی اور اس سے پڑھ کر کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تھا کہ قسطنطنیہ اور روم میں سے پہلا شہر کون سا فتح ہو گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "ہرقل کا شہر پہلے فتح ہو گا" بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ "ادعیہ ماثورہ" بھی لکھا کرتے تھے۔اور انہیں بچوں کی گردن میں تعویذ بنا کر لٹکایا کرتے تھے۔
عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن یزید کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو کے پاس بیٹھے تھے۔ کہنے لگے کیا میں تمہیں ایسے کلمات سکھاؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکھایا کرتے تھے؟ پھر انہوں نے ہمارے سامنے ایک بڑا قرطاس نکالا۔ اس میں لکھا تھا: (اللهم فاطر السموات...)
آپ رضی اللہ عنہ سریانی زبان بھی جانتے تھے۔ شریک رحمة اللہ علیہ بن خلیفہ کہتے ہیں:
"رايت عبدالله بن عمرو يقرا بالسريانية"
"میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو سریانی زبان میں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے"
آپ رضی اللہ عنہ کو اہل کتاب کی ساری کتابیں بھی ملی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ ان پر بھی نظر رکھا کرتے تھے۔ گویا "تقابل ادیان" کا مطالعہ کرتے تھے اور ان کتابوں سے معلومات بھی روایت کیا کرتے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی تالیفات
حدیث کے صحائف کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ نے مغازی پر بھی کتاب لکھی تھی۔ ظاہر ہے س مغازی میں بھی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وافر حصہ موجود ہو گا۔
آپ رضی اللہ عنہ اپنے شاگردوں کو احادیث لکھوایا کرتے تھے۔ ابوسبرة رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کے بارے میں پوچھا کرتا تھا۔ جب اس نے ابوبرزہ رضی اللہ عنہ، البراء بن عازب رضی اللہ عنہ اور عائذ رضی اللہ عنہ بن عمرو اور ایک دوسرے آدمی سے پتہ کیا تو ان سب کو جھٹلانے لگا۔ ابو سبرة رحمة اللہ علیہ نے کہا: اچھا میں آپ کو ایک ایسی حدیث سناتا ہوں جس میں اس مسئلہ کی تسلی و تشفی ہو جائے گی۔ تمہارے باپ نے مجھے کچھ مال دے کر معاویہ کی طرف بھیجا تھا۔ تو مجھے وہاں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن العاص ملے، انہوں نے جو کچھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا مجھے لکھوایا۔ یہ میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ نہ کوئی حرف زیادہ کیا ہے اور نہ کم کیا ہے...." عبیداللہ نے کہا اس سے بڑھ کر زیادہ صحیح حدیث حوض کے بارے میں، میں نے نہیں سنی۔ چنانچہ اس کی اس نے تصدیق کی اور "صحیفہ" کو لے کر اپنے پاس چھپا لیا"
جن لوگوں کے پاس آپ کی احادیث لکھی ہوئی تھیں
1۔ ابوسبرة رحمة اللہ علیہ: اوپر ان کا ذکر آچکا ہے۔
2۔ شعیب رحمة اللہ علیہ بن محمد بن عبداللہ بن عمرو: علی رحمة اللہ علیہ بن المدینی، عمرو رحمة اللہ علیہ بن شعیب کے بارے میں لکھتے ہیں جو کچھ ان سے ایوب رحمة اللہ علیہ اور ابن جریج رحمة اللہ علیہ روایت کریں وہ سب کا سب صحیح ہے اور اگر "عمرو عن ابیہ عن جدہ" روایت کرے تو وہ اس کتاب سے ہے جو انہیں ملی تھی۔ اور وہ ضعیف ہے۔ لیکن یحییٰ رحمة اللہ علیہ بن معین کہتے ہیں عمرو ثقہ راوی ہے۔ ایسی کوئی بات غلط نہیں لہذا جو کتاب "عن ابیہ عن جدہ" ہے وہ بھی صحیح ہے۔
امام ابو عیسی الترمذی رحمة اللہ علیہ کہتے ہین عمرو رحمة اللہ علیہ بن شعیب کو محج اس لئے ضعیف قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے دادا کے صحیفے سے روایات بیان کرتا تھا۔
3۔ شفی بن ماتع: آپ رحمة اللہ علیہ کے پاس بھی عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن العاص کی احادیث لکھی ہوئی تھیں۔
4۔ عبدالرحمٰن: ۔۔۔ پروفیسر الاعظمی فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ پتہ نہیں کہ یہ عبدالرحمٰن رحمة اللہ علیہ بن سلمی ہیں یا کوئی اور آدمی ہے۔
5۔ عبدالرحمٰن رحمة اللہ علیہ بن سلمة الجمحی: یہ کہتے ہیں: میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن العاص سے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنی ہیں اور انہیں لکھا بھی ہے۔ جب میں نے حفظ کر لیں تو انہیں مٹا دیا۔
6۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو کے کاتب
7۔ عبداللہ رحمة اللہ علیہ بن رباح الانصاری
39۔ عبداللہ بن مسعود الھذلی رضی اللہ عنہ (المتوفی:32ھ)
آپ رضی اللہ عنہ سابقون الاولون میں سے ہیں۔ بہترین فقیہ اور قاری قرآن ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب نے آپ کو کوفہ کا معلم اور وزیر بنا کر بھیجا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اہل کوفہ کو خط لکھا تھا "میں تمہاری طرف عمار رضی اللہ عنہ کو امیر اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کو معلم اور وزیر بنا کر بھیج رہا ہوں۔ یہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بہترین انسان ہیں۔ ان کے احکام سنو اور ان کی پیروی کرو۔ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو تمہارے پاس بھیجنے میں اپنی ذات پر خاص ترجیح دی ہے" آپ رضی اللہ عنہ احادیث نبویہ کی کتابت کی اجازت دیا کرتے تھے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں زیادہ احادیث نہیں لکھتے تھے۔ البتہ التشہد اور "الاستخارہ" لکھتے تھے۔
معن رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمن رحمة اللہ علیہ بن عبداللہ بن مسعود نے میرے لئے کتاب نکالی اور قسم کھا کر کہا: یہ ان کے والد کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہے۔
یہاں دوسری روایات بھی ملتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عبدالرحمٰن رحمة اللہ علیہ کے پاس اور بھی نسخے تھے یا اپنے والد سے انہوں نے احادیث لکھی تھیں۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود نے اپنے شاگردوں کے لکھے ہوئے نسخے پانی سے دھو ڈالے تھے۔ ان روایات کے سب سے بڑے راوی ابو عبید رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جن نسخوں کو عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود نے دھو ڈالا یا مٹا ڈالا تھا، وہ اہل کتاب سے حاصل کئے گئے تھے۔ اسی لئے ان کو دیکھنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود ناپسند فرماتے تھے۔
40۔ عتبان بن مالک الانصاری رضی اللہ عنہ (آپ رضی اللہ عنہ عہد معاویہ میں فوت ہوئے)
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے محمود رحمة اللہ علیہ بن الربیع سے ان کے استاد عتبان رضی اللہ عنہ کی کوئی حدیث سنانے کو کہا محمود رحمة اللہ علیہ بن الربیع کہتے ہیں: میں مدینہ آیا وہاں میری ملاقات عتبان رضی اللہ عنہ بن مالک سے ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ کی ایک حدیث مجھے پہنچی ہے۔ تو انہوں نے کہا میری نظریں کچھ کم ہو گئی تھیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر آ کر نماز پڑھیں۔ چنانچہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "لا يشهداحد انه لا اله الا الله واني رسول الله فيدخل النار" حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے یہ حدیث بہت پسند آئی۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا: اسے لکھ لو۔ چنانچہ اس نے لکھ لیا۔
41۔ علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب (23ق ھ-40ھ)
آپ رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا ایک ٹکڑا منگوایا اور اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لکھوانا شروع کیا۔ اس چمڑے کا اگلا اور پچھلا حصہ لکھتے لکھتے بھر گیا۔
آپ رضی اللہ عنہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحیفہ لکھا ہوا تھا جسے اپنی تلوار کے نیام میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔ اس میں درج تھا: "المسلمون تتكا فادمائهم..." اس صحیفہ کا ذکر بہت سے راویوں نے کیا ہے۔ ان سب کا لب لباب یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کا خون قصاص، غیر اللہ کے ذبیحہ کی ممناعت، نبی کی حرمت والی جگہ، "اسنان الابل" اور فرائض و صدقات تھے۔ جن راویوں نے یہ صحیفہ روایت کیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:
(i)ابوجحیفة (ii)ابوالطفیل (iii) الاشتر (iv) التیمی (v) جاریہ بن قدامہ (vi) الحارث بن سوید (vii) طارق بن شہاب (viii) قیس بن عباد۔
اس صحیفہ کی تفصیل کے لئے درج ذیل "کتب حدیث" کا مطالعہ کریں:
بخاری: "کتاب العلم" حدیث نمبر 39، "کتاب جزیہ" حدیث نمبر 10، "کتاب الفرائض" حدیث نمبر 21، "کتاب الاعتصام" حدیث نمبر 5، "کتاب الدیات" حدیث نمبر 14، ۔۔۔۔ صحیح مسلم: "کتاب الحج" حدیث 467 "کتاب العتق" حدیث نمبر 20)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدقات کے بارے میں بھی آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزیں ایک اور صحیفہ میں لکھی تھیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے شاگردوں کو علم حدیث کی کتابت کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: ایک درہم کے بدلے کون علم خریدے گا، حارث الاعور نے ایک درہم میں صحیفہ خریدا اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس میں بے شمار علم لکھوایا۔
فتاوی علی رضی اللہ عنہ کی تدوین
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فقہی آراء اور فتاوی کو ابتدائی دور میں ہی لکھ دیا گیا تھا۔ بلکہ آپ ط کی زندگی ہی میں یہ کام ہو گیا تھا۔ ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے منگوائے۔ کچھ لکھتے رہے اور کچھ چھوڑتے رہے۔
طاؤس رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: میرے پاس ابن عباس رضی اللہ عنہ آئے۔ ان کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے لکھے ہوئے تھے تو ان میں سے کچھ کو مٹا ڈالا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بصرہ سے خط لکھا کہ میرے پاس ایک دادا اور چھ بھائی آئے ہیں (میراث کا مسئلہ تھا) تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب لکھ کر بھیجا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھی آپ رضی اللہ عنہ کی فقہی آراء کا ایک صحیفہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی فقہی آراء کے ایک تیسرے صحیفے کا بھی نام ملتا ہے۔ جو حجر رحمة اللہ علیہ بن علی بن جبلہ کے پاس تھا۔
وہ لوگ جن کے پاس آپ رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی احادیث موجود تھیں
(i)الحارث الاعور رحمة اللہ علیہ
(ii) حجر رحمة اللہ علیہ بن عدی بن جبلہ
(iii) حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ
(iv) خلاس بن عمرو الھجری رحمة اللہ علیہ۔ آپ کے بارے میں ابوالولید رحمة اللہ علیہ الباجی کہتے ہیں:
"وقعت عليه الصحف عن علي"
(مجھے ان کے پاس سے علی رضی اللہ عنہ کے صحیفے ملے ہیں) اسی طرح امام احمد رحمة اللہ علیہ بن حنبل کہتے ہیں: "روايته عن علي كتاب"
(آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کتاب روایت کی ہے)
(v) عامر الشعبی رحمة اللہ علیہ: شعبہ رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عامر رحمة اللہ علیہ اور عطاء رحمة اللہ علیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو کچھ روایت کرتے ہیں وہ ایک کتاب سے ہے۔
(vi) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
(v) عطاء رحمة اللہ علیہ بن ابی رباح
(viii) مجاہد رحمة اللہ علیہ: شعبہ رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں "مجاہد عن علی" جو روایت آتی ہے، وہ ایک کتاب سے ہے۔
42۔ عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب (40ق ھ—23ھ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ روایات ایسی مروی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ "کتابت حدیث" کو سختی سے ناپسند فرماتے تھے۔ ان تمام روایات پر پروفیسر الاعظمی نے سیر حاصل بھث کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ایسی تمام روایات منقطع، ضعیف یا ساقط ہیں، بلکہ ایک روایت یہ آتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات کم بیان کریں اور وہ احادیث بیان کریں جن کا تعلق اعمال سے ہے۔"
پروفیسر الاعظمی نے ا روایات کا لب لباب یہ نکالا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سختی کی اصل وجہ یہ تھی کہ آپ رحمة اللہ علیہ احادیث کے بارے میں تشبت کے قائل تھے، تاکہ جو حدیث بیان کی جائے وہ ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سنت کی تبلیغ میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ سرکاری خطبات میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم لکھا کرتے تھے تاکہ مسلمان اس پر عمل کریں۔ ایک بار آپ رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن مرقد کو آذربائیجان کے علاقہ میں خط لکھا: "ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال لا يلبس الحرير في الدنيا الا..." "دنیا میں ریشم وہی پہنے گا جو..."
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو خط لکھا جس میں یہ درج تھا:
"ان النبي صلي الله عليه وسلم قال: الله و رسوله له مولي من لا مولي له"
" اللہ جل شانہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے مولیٰ ہیں جس کا کوئی مولیٰ نہیں"
تاریخ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقات کے بارے میں ایک رسالہ قلمبند کیا تھا اور حضرت نافع رحمة اللہ علیہ نے یہی رسالہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو پڑھ کر سنایا۔
43۔ عمرو بن حزم الانصاری رضی اللہ عنہ (آپ رضی اللہ عنہ 50ھ کے بعد فوت ہوئے)
آپ رضی اللہ عنہ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کا گورنر بنایا تھا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو ایک کتاب لکھوا کر دی تھی جس میں طہارت، صلوة، غنیمت، صدقہ، جراحت اور دیت وغیرہ کے احکامات درج تھے۔ بعد کے عہد میں عطاء رحمة اللہ علیہ بن ابی رباح نے یہ کتاب پڑھی تھی۔
عمرو رضی اللہ عنہ بن حزم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط بھی جمع کئے تھے۔ خطوط کا یہ مجموعہ آپ رضی اللہ عنہ سے آپ رضی اللہ عنہ کا بیٹا بھی روایت کرتا ہے۔ یہی خطوط ابن طولون کی کتاب "اعلام السائلین عن کتب سید المرسلین"کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رسائل کو جمع کرنے کی اور لوگوں نے بھی کوششیں کی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رسائل بمعہ جوابات موجود تھے۔ اسی طرح حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے بھی "رسائل نبی" کو جمع کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان میں سے بعض کا ذکر ابن زنجویہ کی کتاب "الاموال" میں ملتا ہے۔
44۔ فاطمة الزھراء رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (المتوفیہ:11ھ)
آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک صحیفہ تھا۔ جس میں آپ رضی اللہ عنہ کی وصیت لکھی ہوئی تھی۔ اس میں "احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم" بھی موجود تھیں۔ قاسم رحمة اللہ علیہ بن فضل کہتے ہیں ہم سے محمد رحمة اللہ علیہ بن علی بیان کرتے ہیں کہ میری طرف عمر بن عبدالعزیزی رحمة اللہ علیہ نے خط لکھا کہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہ کی وصیت کو نقل کر کے ان کی طرف بھیجوں۔
45۔ فاطمة بنت قیس رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہ کی احادیث کو ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت قیس نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں درج تھا۔ "كنت عند رجل..."
46۔ محمد بن مسلمة الانصاری رضی اللہ عنہ (31ق ھ-46ھ)
آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی تلوار کی نیام میں سے ایک صحیفہ ملا۔ جس میں "احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم" درج تھیں۔
47۔معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ (20ق ھ-18ھ)
آپ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا اور صدقات وغیرہ کے بارے میں آپ رضی اللہ عنہ کو ایک کتاب لکھوا کر دی۔ موسی رحمة اللہ علیہ بن طلحہ کے پاس حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ نسخہ موجود تھا۔ اسی طرح ابن عائذ کے پاس بھی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا صحیفہ موجود تھا۔
48۔ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (المتوفی 60ھ)
آپ رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فن تنقیط (الرقش) سیکھا تھا۔
حضرت معاویہ ط نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے کچھ چیزیں لکھئے جو آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں لکھ کر بھیجیں۔ اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ کو خط لکھا کہ انہیں احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھ کر بھیجیں تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف لکھیں۔
ایک بار آپ رضی اللہ عنہ نے مروان کو خط لکھا جس میں احادیث نبویہ کا ذکر تھا۔
تاریخ اسلام میں آپ رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تاریخ کی تدوین کرائی۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے "الجرھمی" کو دعوت دی اور اس کے ساتھ ایک گفتگو کرنے والا بلایا۔ اور اپنے دفتر والوں کو اور کاتبوں کو حکم دیا کہ ان کے پاس بیٹھ کر واقعات کو کتابوں میں لکھیں۔
49۔ مغیرة بن شعبہ رضی اللہ عنہ (المتوفی 50ھ)
مغریہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا کاتب دارد کہتا ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ایک خط لکھوایا۔ جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا اس میں درج تھا:
" ان النبي صلي الله عليه وسلم كان يقول..."
50۔ ام المومنین میمونہ بنت الحارث الہلالیہ رضی اللہ عنہا (المتوفیہ 51ھ)
آپ رضی اللہ عنہ سے آپ رضی اللہ عنہ کے شاگرد عطاء رحمة اللہ علیہ بن یسار نے احادیث لکھیں۔ عطاء رحمة اللہ علیہ بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا ہر نماز کے وقت انسان موزوں پر مسح کرے اور انہیں نہ اتارے؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
51۔ نعمان بن بشیر الانصاری رضی اللہ عنہ (2ھ-65ھ)
آپ رضی اللہ عنہ کے پاس بھی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھی ہوئی موجود تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قیس بن الہثیم کو خظ لکھا جس میں احادیث نبویہ بھی موجود تھیں۔
اسی طرح آپ نے الضحاک رضی اللہ عنہ بن قیس کو خط لکھا جس میں احادیث نبویہ تھیں۔ نعمان رضی اللہ عنہ بن بشیر کے کاتب کا نام حبیب رحمة اللہ علیہ بن سالم تھا۔ انہوں نے نعمان رضی اللہ عنہ کی احادیث کو لکھ کر یزید رحمة اللہ علیہ بن نعمان بن بشیر کی طرف بھیجا تھا۔ اسی طرح حبیب رحمة اللہ علیہ بن سالم نے نعمان رضی اللہ عنہ بن بشیر کی لکھی ہوئی احادیث قتادہ رحمة اللہ علیہ کی طرف بھی بھیجی تھیں۔
52 واثلة بن الاسقع رضی اللہ عنہ (22ق ھ—83ھ)
آپ رضی اللہ عنہ اپنے شاگردوں کو احادیث لکھوایا کرتے تھے۔ معروف رحمة اللہ علیہ الخیاط کہتے ہیں:
"رايت واثلة بن الاسقع يملي عليهم الاحاديث"
" میں نے "واثلةبن الاسقع کو دیکھا، وہ اپنے شاگردوں کو احادیث لکھوایا کرتے تھے"
53۔ یزید بن عمرو الاصم رضی اللہ عنہ
میمون رحمة اللہ علیہ بن مہران کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے میری طرف خط لکھا کہ یزید رضی اللہ عنہ سے خط لکھ کر پوچھو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے کس حالت میں نکاح کیا تھا؟ یزید رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا: "نكحها حلالا"
"یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کے تمام فرائض سے فارغ ہو گئے تھے تب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا۔"
حوالہ جات
ابن سعد محمد کاتب الواقدی۔ الطبقات الکبریٰ ج7/ص132 دار صادر بیروت 1376ھ / 1957ء
الاعظمی ذاکٹر محمد مصطفیٰ۔ "دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ" ص92/جامعة الریاض 1396ھ
احمد بن حنبل ۔ "مسند احمد" ج5/ص413، تحقیق احمد محمد شاکر قاہرہ 1313ھ/1949ء / دار صادر بیروت حاشیہ منتخب کنز العمال
ایضا ج5/ص423
دراسات ص92
ذھبی شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الحافظ / "تذکرة الحفاظ" ج1/ص5 حیدرآباد دکن 1375ھ/ 1955ء مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:...گیلانی مناظر احسن۔ تدوین حدیث ص285، ادارہ مجلس علمی کراچی 1956ء/ 1357ھ / الخطیب محمد عجاج/ "السنة قبل التدوین" ص309-310 مکتبة وھبہ قاہرہ 1383ھ/ 1963ء / حمید اللہ ڈاکٹر محمد۔ "صحیفة ھمام بن منبة" ص129 الطبقة الاولی دمشق 1372ھ
الھندی علی المتقی علاء الدین / "جنز العمال فی السنن والاقوال" ج10/ص174 الطبقة الاولی، حیدرآباد دکن 1382ھ/1962ء
"تذکرة الحفاظ" ج1/ص5/"جزل العمال" ج10 /ص175
المعلمی عبدالرحمان بن یحیی الیمانی "الانوار لکاشفة" ص38 / القاھرة 1378ھ۔
مسند احمد ج2/ص196
بخاری محمد بن اسماعیل۔ "الجامعی الصحیح" کتاب الزکاة /باب زکاة الغجم۔۔۔ ابن حجر احمد بن علی العسقلانی۔ "فتح الباری" ج3/ص317 حدیث نمبر 1454 تحقیقی محمد فواد عبدالباقی دار نشر الکتب الاسلامیة 2۔ شارع شیش محل لاہور 1401ھ/1981ء
ایضا
مالک بن انس الامام۔ "الموطا" ج1/ص5 قاھرة 1370ھ / تحقیق محمد فواد عبدالباقی
مسند احمد 55/ص36
ابن عبدالبر ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد۔ "الاستیعاب فی معرفة الاصحاب"، ج4/ص1656-1657 صحابی نمبر:2948 تحقیقی علی محمد البجاری مکتبة نھضة الفضالة مصر
خطیب بغدادی احؐد ابوبکر/ "الکفایة فی علوم الروایة" ص330-331/حیدر آباد دکن 1357ھ
"الطبقات الکبریٰ" ج2/ص371، خطیب بغدادی۔" تقیید العلم" ص91-92 تحقیقی ڈاکٹر یوسف العش، دمشق 1949ء
تقیید العلم ص36-38
مسلم بن الحجاج القشریری۔ "صحیح مسلم" کتاب الزھد / "باب التژبت فی الحدیث وحکم کتابة العلم" حدیث 72 فواد عبدالباقی
"تقیید العلم" ص93
"مسند احمد" ج3/ص60
بخاری۔ کتاب اللقطة / باب کیف تعرف لقطة اھل مکة / حدیث 2434-6880۔ ابن حضر العسقلانی۔ "الاصابة فی تمییز الصحابة" ج4/ ص101۔ اس کے حاشیے پر "الاستعیاب فی اسماء الاصحاب" چھپی ہے۔ المکتبة التجاریة الکبری مصر 1358ھ 1939ء
الرامھرمزی حسن بن خلاد ابو محمد / "المحدث الفاصل بین الراوی والواعی" ص36 دار الفکر بیروت 1391ھ تحقیق محمد عجاج الخطیب
"مسند احمد" ج4/ص396-414
"دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ" ص96
بخاری ۔ کتاب العلم / باب حفظ العلم / حدیث 119 فتح الباری ج/ص315
"مسند احمد" ج2/ص403
"دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ" ص96 بحوالہ کتاب العلم لابی خیشمة زھیر بن حرب
ابن عبدالبر ابو عمر یوسف بن عبداللہ۔ "جامع بیان العلم و فضلہ" ج1 / ص74 / الالمفبة المنیریة / قاہرہ 1346ھ
فتح الباری ج1/ص215
"دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ" ص97 بحوالہ "شرح العلل" ابن رجب
ابن الجوزی عبدالرحمان ابو الفرج۔ "الموضوعات" ج1 /ص34 "المکتبة السلفیة مدینہ منورة الطبعة الاولیٰ 1386ھ / 1966ء تحقیق عبدالرحمٰن محمد عثمان
ابن حجر۔ "ھدی الساری مقدمہ فتح الباری" ص23،الجزاء الاول القاھرة 1383ھ / 1964ء
علی بن الجعد ابوالحسن۔ "مسند" ص80-بحوالہ "دراسات فی الحدیث النبوی" ص98
احمد بن حنبل ۔" العلل و معرفة الرجال" ج1 / ص140 تحقیق قوج پیکیت انقرہ 1963
"الطبقات الکبریٰ" ج7/ص233
ابن حجر۔ "تہذیب التہذیب" ج4/ص38 حیدر آباد دکن 1325ھ / الطبعة الاولیٰ
ایضا
"الطبقات الکبریٰ ج7/ص448
"مسند احمد" ج2/ص531
تہذیب التہذیب ج11ص253
ذھبی۔ "میزان الاعتدال فی نقد الرجال" ج2/ص204/الطبعة الاولی 1325ھ مطبة السعادة بجوار محافظة مصر۔ تصحیح السید محمد بدر الدین الحبلی النطافی
"دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ" ص99
ذھبی۔ "سیر اعلام النبلاء" ج2/ص431-432۔ تحقیقی ابراھیم الابیاری دار المعارف۔ مصر ۔۔۔ابن کثیر عماد الدین ابوالفداء اسماعیل۔"البدایة والنہایة" / ج8 / ص106 دار ابن کثیر بیروت۔
"دارسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ" ص99
ابن حجر۔ "الاصابة فی تمییز الصحابة" ج4/ص209 / صحابی نمبر:1194 الکمتبة التجاریة الکبریٰ / مصر 1358ھ / 1939۔ علی حاشتیھا الاستعیاب
"تذکرة الحفاظ" ج1/ص17
ذھبی محمد حسین۔ "التفسیر والمفسرون" ج1/ص115 دار الکتب الحدثیة قاہرة 1381ھ / 1961ء
یعقوبی احمد بن ابی یعقوب بن جعفر بن وھب ابن واضح۔ تاریخ ج2/ص65-101 ۔ دار صادر / دار بیروت 1379ھ/1960ء
"مسند احمد" ج4/ص226
"سیر اعلام النبلاء" ج3/ص265
ایضا ص265
ایضا ص266
ایضا ص265-266
"الطبقات الکبریٰ" ج7/ص22
"تقیید العلم" ص96
مسلم۔ صحیح کتاب الایمان / باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنة / حدیث نمبر 57
"تقیید العلم" ص15-96
"میزان الاعتدا؛" ج3/ص18 تحقیق البجادی / قاہرة 1382ھ /1963ء
خطیب بغدادی۔ "تاریخ بغداد" ج8/ص259/دارالکتاب العربی بیروت / تصحیح محمد حامد الفقی
ایضا
ابو عبیدہ قاسم بن سلام۔ "کتاب الاموال" ص532-533 / تصحیح محمد حامد الفقی / المکتبة الاثریة جامع مسجد اہل حدیث باغ والی سانگلہ ہل، پاکستان۔۔۔ وتحقیق محمد خلیل ہراس ص474/مسئلہ نمبر 1656/دارالعلم للطباعة والنشر قاہرة 1401ھ/1981ء
"الکفایة" ص331
"دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ" ص102
"تہذیب التہذیب" ج4/ص202
"دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ" / ص102
"تہذیب التہذیب" ج2/ص57
"دراسات فی الحدیث النبوی و تایخ تدوینہ" / ص221
الحاکم ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ النیشا بوری۔ "معرفة علوم الحدیث" / ص9/ تحقیق معظم حسین قاہرہ، 1973ء
"تہذیب التہذیب" ج3/ ص105
"دراسات" ص103
ایضا
"میزان الاعتدال" / ج1/ص329/ تصحیح محمد بدر الدین النعانی الحلبی
"دراسات" ص103
"معرفة علوم الحدیث" ص10
"تہذیب التہذیب" 58/ص183
"معرفة علوم الحدیث" ص10
"العلل و معرفة الرجال" ج1/ص142
"مسند احمد" ج5/ص89
"تذکرة الحفاظ" ج1/ص43
"تہذیب التہذیب" ج2/ص268
"تذکرة الحفاظ" ج1/ص43
"الکفایة" ص355
ترمذی محمد بن عیسی بن سورة / شرح العلل / ص142 مع سنن دہلی
بخاری۔ "التاریخ الصغری" / ص93 الہ آباد پند 1325ھ
"تہذیب التہذیب" ج2/ص268
"تہذیب التہذیب" ج4/ص215/ مسند احمد ج3/ص332
"الکفایة" ص354
"تہذیب التہذیب" ج4/ص215
"تقیید العلم" ص104
"مسند احمد" ج2/ص326/بخاری کتاب البیوع باب بیع المتیة والاصنام
"تہذیب التہذیب" ج8/ص353
"الطبقات الکبریٰ" ج5/ص344
ابن حجر۔ "طبقات المدلسین" ص21 قاہرہ/1323ھ
"تہذیب التہذیب" ج9/ص442-443
ایضا ج1/ص316
"دراسات" ص106
"مسند احمد" ج4/ص361
"الکفایة" ص229
"دراسات" ص107
"العلل و معرفة الرجال" ج1/ص104
"مسند احمد" ج4/ص141
"تہذیب التہذیب" ج3/ص394
"تذکرة الحفاظ" ج1/ص30-31۔ بخاری کتاب فضائل القرآن "باب جمع القرآن" اور "السجستانی" کی "المصاحف" بھی ملاحظہ ہو۔
"الطبقات الکبریٰ" ج2/ص358-359۔۔۔ الحاکم ابو عبداللہ النیسا بوری۔ "المستدرک علی الصحیحین" / ج1/ص75۔ اس کے ذیل میں ذہبی۔۔۔ کی التلخیص چھپی ہے۔ دارالکتاب العربی بیروت
"تقیید العلم" ص35
"سیر اعلام النبلاء" ج2/ص313
"دراسات" ص108
"الدارقطنی" علی بن عمر/سنن ج4/ص93-94۔ اس کے ذیل پر ابوالطیب محمد شمس الحق۔۔۔ عظیم آبادی کی "التعلیق المغنی" چھپی ہے۔ تحقیق سید عبداللہ ہاشم، دارالمحاسن للطباعة۔۔۔/قاہرہ 1966ء-1386ھ
"سیر اعلام النبلاء"ج،1/ص312،
"العلل و معرفة الرجال" ج1/ص236
"دراسات" ص108، اسکے علاوہ البیہقی ابوبکر احمد بن الحسین ابن علی کی "السنن الکبریٰ"۔۔۔ج6/ص247 میں بھی موجود ہے۔ محمد امین دمج بیروت اور اس کے ساتھ "الجواہر النقی"۔۔۔ چھپی ہے۔
ایضا ص109
ایضا ص109
"تقیید العلم" ص102
"تہذیب التہذیب" ج12/ص424
"الکفایة" ص337
بخاری۔ صحیح کتاب المغازی/باب10/ حدیث3991
"تہذیب التہذٰب" ج8/ص75
"ابن ماجہ" محمد بن یزید الربعی۔ سنن ابواب الطلاق/باب الحامل المتوفی عنھا زوجھا اذا وضعت ۔۔۔ حلت للازواج
"الطبقات الکبریٰ" 3/ص613
"دراسات" ص110 بحوالہ مشاھیر علماء الامصار
"مسند احمد" ج5/ص285
"میزان الاعتدال" ج4/ص546 تحقیق البجاری
"الاموال" ص393-395
"تہذیب التہذیب" ج4/ص236-237۔ "الاصابة" ج2/ص77-78
"الاصابة" ج2/ص269
"الطبقات الکبریٰ"
"العلل و معرفة الرجال" ج1/ص147
"دراسات" ص111
ایضا
ابوداؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی/سنن ابی داؤد حدیث 456/تحقیق محمد محی الدین/۔۔۔ الطبعة الثانیة / قاہرہ 1356ھ
"دراسات" ص111
"تہذیب التہذیب" ج4/ص252
"دراسات" ص112
"تہذیب التہذیب" ج4/ص252
"تہذیب التہذیب" ج6/ص333
"سیر اعلام النبلاء" ج2/ص331
"سیر اعلام النبلاء" ج2/ص331-333
"الاصابة" ج2/ص153-154 صحابی نمبر 3921
ایضا
شافعی محمد بن ادریس / "الرسالة" ص426/ تحقیق احمد شاکر / الطبقة الاولیٰ۔۔ قاہرہ 1358ھ / 1940ء
"ابن ماجہ" ابواب الدیات باب المیراث من الدیة
"مسند احمد" ج3/ص453
"سیر اعلام النبلاء" ج2/ص98
ایضا ج2/ص101
ایضا ج2/ص128-129
ایضا ج2/ص101
"مسند احمد" ج2/ص87
"مسلم" کتاب الحج، باب استحباب بعث الھدی الی الحرم لمن لا یدیر الذھاب بنفسہ۔۔۔ واستحباب تقلدہ وفتل القلائد
ایضا
"الکفایة" ص205
"الحمیدی" ابو بکر عبداللہ بن الزبیر۔ "مسند" ج1/ص129/ تحقیق حبیب الرحمٰن الاعظمی/۔۔۔ المجلس العلمی کراچی 1382ھ / 1963ء الطبعة الاولیٰ
"مسند احمد" ج6/ص87
ابن الاثیر عزالدین ابوالحسن علی بن محمد بن عبدالکریم الجزری "اسد الغابة۔۔۔ فی معرفة الصحابة" ج3/ص121 "المکتبة الاسلامیة" شارع البوذر جمہری طہران 1377ھ
"تہذیب التہذیب" ج3/ص431/ج5/ص151
ابن حجر "فتح الباری" ج6/ص45/ "کتاب الجھاد" باب الصبر عندالقتال، تحقیق فواد عبدالباقی
"مسند احمد" ج4/ص353-354
"الکفایة" ص336-337
"مسند احمد: ج4/ص4
"سیر اعلام النبلاء" ج3/ص230۔ "الاصابة" ج2/ص331-332
"سیر اعلام النبلاء" ج3/ص231
"الطبقات الکبریٰ" ج2/ص371
"دراسات" ص116
"الاصابة" ج2/ص332
"دراسات" ص116
"الطبقات الکبریٰ ج5/ص216
ایضا ج6/ص79
"العلل و معرفة الرجال" ج1/ص42
"مسلم" مقدمة ص10/ نور محمد کارخانہ تجارت کتب، آرام باغ کراچی 1375ھ/1956ء۔۔۔ "الطبعة الثانیة"
"مسند احمد " ج1/ص224-248-249
"الکفایة" ص263
"مسند احمد" ج1/ص243-351
ج2/ص138 لکھنؤ ھند سخاوی علی بن محمد بن عبدالصمد/ "فتح المغیث شرح الفیة الحدیث"
"العلل و معرفة الرجال" ج1/ص50
"الطبقات الکبریٰ ج5/ص216
ابن ندیم محمد بن اسحاق "الفہرست" ص57/"المکتبة التجاریة الکبریٰ" مصر 1348ھ
"دراسات" ص118
"الطبقات الکبریٰ" ج5/ص216
"التفسیر والمفسرون"
"الاصابة" ج2/ص234
"مسند احمد" ج2/ص45-90
"سیر اعلام النبلاء" ج3/ص160
"الاموال" ص393
بخاری۔ "التاریخ الکبیر" الجزء الاول من القسم 2/ص214-215/الطبعة الاولیٰ، حیدرآباد۔۔۔ دکن 1362ھ
"تقیید العلم"ص103
"مسند احمد" ج2/ص152
"دراسات" ص120
"دراسات" ص121
"مسند احمد" ج2/ص45
ایضا، ج2/ص29
ذھبی، "تاریخ الاسلام" (پی ڈی ایف صفحہ 58) /مکتبة القدوسی/قاھرة 1367ھ
"الاصابة ج2/ص433 "مسند احمد" ج2/(پی ڈی ایف صفحہ 58)
"سیر اعلام النبلاء" ج3/ص53
الھیثمی نورالدین ابوبکر "مجمع الزوائد و منبع الفوائد" ج1/ص151-152الطبعة الثانیة/۔۔۔ دارالکتاب العربی بیروت 1967ء
"مسند احمد" ج2/ص12
"سیر اعلام النبلاء" ج3/ص58
"تقیید العلم" ص84/ "سیر اعلام النبلاء" ج3/ص58
"تقیید العلم" ص84/ "سیر اعلام النبلاء" ج3/ص58
ذھبی "تاریخ الاسلام" ج3/ص38
"مسند احمد" ج2/ص196
"الدارقطنی" ج4/ص65
ایضا
"مسند احمد" ج2/ص176
بخاری۔ "کتاب خلق افعال العباد" حدیث نمبر 57
"دراسات" ص123
"الطبقات الکبریٰ" ج7/ص495
"تذکرة الحفاظ" ج1/ص42
"دراسات" ص124
"مسند احمد" ج2/ص162-163
"میزان الاعتدال" ج3/ص265
ایضا، ص266
ترمذی محمد بن عیسی بن سورة/"سنن ترمذی" ج2/ص140/تحقیق احمد شاکر و آخرین/۔۔۔ "الطبعة الاولیٰ" مصر 1356ھ/ "میزان الاعتدال" ج3/ص266
المقریزی "خفط" ج2/ص332/بولاق 1270ھ
"فتح المغیث" ص216/ج2
"دراسات" ص125
ایضا
"مسند احمد" ج2/ص183
ایضا، ج2/ص192
"تذکرة الحفاظ" ج1/ص14
"العلل و معرفة الرجال" ج1/ص323
"جامع بیان العلم" ج1/ص72
بخاری۔ "القراءة خلف الامام" حدیث نمبر 12 (دراسات" ص127)
"دراسات" ص126
"مسلم" کتاب الایمان/ باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنة
"دراسات" ص127
"الاموال" ص185
"مسند احؐد" ج1/ص79،81،118،119،151
ایضا ج1/ص141
"الطبقات الکبریٰ" ج6/ص116
"مسلم" مقدمة ص10
"الداری" ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمان/سنن "الداری" کتاب الفرائض باب قول علی رضی اللہ عنہ فی الجد۔۔۔ ج2/ص256 تحقیق سید عبداللہ ہاشم یمانی، مدینہ منورة 1386ھ / 1966ء
"العلل و معرفة الرجال" ج1/ص104
"الطبقات الکبریٰ" ج6/ص154
ایضا ج6/ص116-154
"العلل و معرفة الرجال" ج1/ص104
"دراسات" ص130/ بحوالة ابوالولید باجی
"میزان الاعتدال" ج1/ص658
"رازی" ابن ابی حاتم محمد بن ادریس / تقدمة الجرح والتعدیل" ج1/ص130، الطبعة الاولیٰ، حیدر آباد دکن، 1271ھ / 1952ء
"مسلم" مقدمة ص10
"تقدمہ" ص130
"دراسات" ص131
"البدایة والنھایة" ج8/ص107
"دراسات" ص131-135
"مسند احمد" ج1/ص328-361
"الاموال" ص393
"الاستیعاب" صحابی نمبر 1902
"الحدث الفاصل" ج1/ص58
ابن طولون، محمد بن علی بن محمد الحنفی۔ "اعلام السائلین عن کتب سید المرسلین"۔۔۔ ص48-52 "مطبة القدسی" دمشق
الزیلعی جمال الدین ابو محمد عبداللہ بن یوسف "نصب الرایة لاحادیث الھدایة"۔۔۔ ج4/ص420۔۔۔ "الطبعة الاولی" مع حاشیہ "بغیة الالمعی" "المجلس العلمی ذھابیل" ھند 1357ھ /1938ء
"الاموال" ص68
"تقیید العلم" ص99
"مسند احمد" ج6/ص413
"المحدث الفاصل" ج1/ص56
حمید اللہ محمد ڈاکٹر محمد "الوثائق السیاسیة" رقم 106/ ص179/ "الطبعة الثانیة" دارالارشاد،۔۔۔ بیروت 1389ھ / 1949ء
"مسند احمد" ج5/ص228
"المحدث الفاصل" ج1/ص56
"دراسات" ص141
"حمیدی مسند" ج1/ص29
بخاری۔ صحیح کتاب الاذان / باب الذکر بعد الصلوة / حدیث نمبر 844
"مسند احمد" ج4/ص94
"دراسات" ص141
"مسند احمد" ج4/ص245-247-249
ایضا ج6/ص333
"تہذیب التہذیب" ج10/ص448
"دراسات" ص142
"مسند احمد ج4/ص273-276
"سیر اعلام النبلاء" ج3/ص259
"الاصابة" ج3/ص641۔۔۔۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیں عبدالحئی الکتانی کی کتاب " التاتیب الاداریة" ج2/ص114 تا 238۔ حسن جعنا بیروت)