مدارس اہل حدیث کنونشن
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے متنوع شعبوں کو متحرک اور مستحکم کرنے کےلیے مرکزی کابینہ نے پاکستان بھر کےمدارس کا کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اورمورخہ 13مارچ 1996 بروز بدھ صبح 10بجے مقام مرکزی دفتر106راوی روڈ لاہور دینی مدارس کا رابطہ اجلاس زیر صدارت شیخ الحدیث مولانا عبداللہ صاحب (گوجر انوالہ) منعقد ہو۔ جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ کواتین کے مدارس کو الگ منظم کیا جائے۔ چنانچہ مورخہ11اپریل1996ء خواتین مدارس کا کنونشن 99جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع ہوا، جس میں اہم فیصلے ہوئے۔ دونوں کنونشنوں میں پاکستان بھر کے مدارس کے نمائندہ حضرات(پی ڈی ایف صفحہ 115) الحدیث دانش وروں اور علماء نے شرکت کی۔ پہلے کنونشن کی کاروائی سطو ر ذیل میں پیش خدمت ہے ۔(اداراہ)
محترم جناب پروفیسر ساجد میر صاحب، امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان
نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے اجلاس اس سے قبل محدود پیمانے پر منعقد ہوتے رہے ہیں جس میں چند مخصوص مشائخ شرکت کرتے رہے ہیں۔ لیکن آج کے اجتماع کو وسیع المیعاد بنایا گیا ہے۔ اس اجلاس میں تمام مدارس کے شیوخ الحدیث ، اساتذہ اور منتظمین کو مدعو کیا گیا ہے۔ میں جناب حافظ عبدالرحمن مدنی کے مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان میں متحرک کرادار کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ مدنی صاحب ایک متجر عالم اور اسلامی دانشور ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر متنوع عملہ میدانوں میں بھی متحرک ہیں۔ ہمارے ان سے بہتر توقعات وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جناب مولانا عبدالرحمن مدنی صاحب جو کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ناظم تعلیمات ہیں، نے مدارس کےرابطے کو وسعت دی ہے۔ دینی مدارس کے شیوخ الحدیث ، اساتذہ اور منتظمین کے روابط کو گہرا ، موثر بنانے کے لیے آپ سب حضرات کے باہمی غور وفکر اور مشاورت کی ضرورت ہے۔
اب تک جو مشاہدہ اور تجربہ ہے کے مطابق مسلک اہلحدیث کی اشاعت میں دینی مدارس کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ مدارس جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، نے علماء اور مبلغین پیدا کیے۔ جنہوں نے کتاب وسنت کی نشرواشاعت کی اور ہمارے عملی زندگی کی پیش آمد مشککلات کو دور کیا۔ہمارے وہ مقامی تنظمیں خراج تحسین کی مستحق ہیں جنہوں نے دور افتاء دیہاتوں میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہم ان مشائخ الحدیث ، اساتذہ اور منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جنہوں نے مسلک اہل حدیث ہم تک پہنچایا اور ہمیں افرادی قوت کے ساتھ ساتھ علمی اور عملی قوت بھی فراہم کی۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ طالب علم کے لیے پانی کی مچھلیاں اور پرندے دعا کرتے ہیں لیکن ہمیں دعا کے علاوہ اس پہلو پر بھی سوچنا ہو گا کہ ہم ان کی اخلاقی، مادی اور علمی لحاظ سے کیا مدد کر سکتے ہیں۔ تا کہ ان کی خدمات کو زیادہ موثر اور بہتر طرےقے سے کار آمد بنایاجا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دینی مدارس اور جماعتی تنظیم کا آپس میں رابطہ ہونا چاہیے۔ رابطہ ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے ۔یہ یک طرفہ فعل نہیں ہے۔ جب تک دونوں طر ف سے زیادہ رغبت اور کوشش نہ ہو گی، اس وقت تک ہم اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ یہ بھی کہا کہ ہمیں اعتراف ہے کہ انفرادی کوشش اہمیت رکھتی ہے ، لیکن اجتماعی کوشش کے فوائد اس سے بہت زیادہ ہیں۔ کیونکہ اسے تائید الہیٰ حاصل ہوتی ہے۔ اجتماع کی روح یہ ہے کہ اداروں کے اندر اجتماعی سوچ پیدا کی جائے۔ ہمیں اپنے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے، مستقبل میں ہمیں ان مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط سائبان کی ضرورت ہے۔ وہ سائبان صرف جامعت ہی فراہم کرسکتی ہے۔ اگر جماعت کمزور اور قلیل الوسائل ہو تب بھی سائبان ہے۔ لیکن اگر جماعت مضبوط اور کثیر الوسائل ہو تو پھر زیادہ اچھے طریقے سے سائیاب فراہم کر سکتی ہے۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ جب بڑے بڑے مدارس کو بھی سائبان کی ضرورت ہو گی۔ لیکن وقت آنے سے پہلے ہمیں اس کا احساس کرنا چاہیے۔ بے شک اصل حفاظت کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس وقت دینی ادراوں پر کڑا وقت ہے اس لیے ہمیں حفاظتی چھتری یعنی جماعت کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے ، جتنا ہمار ا آپ میں رابطہ مضبوط ہو گا۔ اتنی ہی زیادہ مسلک اہلحدیث کی اشاعت اور پھیلاؤ ہو گا۔جس سے جماعت مضبوط اور منظم ہو گی، اسی رابطے سے بہترین تعلیمی مقاصد حاصل ہو گے۔
پروفیسر ساجد میر صاحب نے کہا کہ مثلاََ ہمارے بڑے بڑے جامعات ہیں جس میں خدمت خلق، شفاخانے، تعمیر مساجد اور تبلیغ کے شعبے بھی ہیں۔ بلاشبہ تبلیغ سے مسلک کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔اشاعت اور خدمت خلق کا کام بھی اچھے طریقے سے ہو رہا ہے، لیکن تنقیدی نگاہ رکھنے والے دوسری جماعتوں والے اس بات کا جائزہ لیتے ہوئے کہ مسلک اہلحدیث کی اپنے ملک میں طاقت کیا ہے، صرف ایک ادارے کی کارگردگی کو نہ دیکھیں گے بلکہ پوری جماعت کے کام کو مد نظر رکھیں گے۔ اس لیے جماعت خواہ انتہائی کمزور ہو یا برائے نام ہو لیکن ان کے ساتھ منسلک ہونے سے دوسری حکومتون اور جماعتوں کی نظر میں ہمارا وزن بڑھے گا جس سے ہماری قوت اور تعداد میں اضافہ ہو گا۔
اس وقت ہمارے ملک میں دینی اداروں کے لیے فضاء کو نا ساز گار بنایا جا رہا ہے، پاکستان میں سوائے ایک حکومت کے باقی جتنی بھی حکومتیں بر سر اقتدار آئیں انہوں نے دینی اداروں کے حالات کو بگاڑ اہے، چنانچہ موجودہ حکومت دینی اداروں کے ماحول کو ناساز گار بنانے کے لیے بڑی تیزی اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ دینی اداروں کو منظم طریقے سے بد نام کیا جا رہا ہے، کچھ عرصے سے ان اداروں کی مالی امداد بھی بند کر دی گئی ہے۔ دین اداروں کو دہشت گردی اور فرقہ واریت کے اڈے قرار دیا جا رہا ہے ، ان تمام اقدامات کے باوجود اللہ تعالیٰ ان اداروں کی حفاظت فرمائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے روسی ریاستوں کے دورہ کے دوران حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی قبر پر دعا کی اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات کر کے حالات معلوم کیے ، وہاں پر آزادی سے قبل اسلامی تعلیم حاصل کرنا، عربی اور فارسی چڑھنا جرم تھا حتی کہ بخاری شریف کا ایک ورق بھی اپنے پاس رکھنے والے کو پابند سلاسل کر دیا جاتا تھا، وہاں پر مساجد کو شراب خانے اور مدارس کو اصطبل بنایا گیا ، مذہبی تعلیم پر مکمل پابندی تھی، وہاں علماء نے دینی رحجان رکھنے والے مالدار افراد سے رابطہ کیا۔ ان سے مالی تعاون کی بجائے ان کے گھروں کے تہ خانوں کو دین کی شمع روشن کرنے کے لیے خفیہ طریقے سے استعمال کیا، پولیس سے چھپ کر دینی علم حاصل کرنے والے طلباء کو کسی ایک شہر میں کسی مالدار آمدی کے گھر کے تہہ خانہ میں جمع کیا جاتا اور ہاں انہیں دینی تعلیم دی جاتی تھی اور پھر وہاں پر آئندہ اجتماع کے لیے کسی دوسرے شہر اور جگہ کا پتہ دیا جاتا تھا، طلباء سے فیس وصول کرنے کی بجائے ان سے وعدہ لیا جاتا تھا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے دین کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنا ہے، وہاں ایک شخص اپنے شاگردوں کو قبرستان میں لے جاتا تھا، عام لوگو یہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ لوگ کسی قبر پر فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل ہمارے ملک میں ان روسی ریاستوں سے بہت حالات بہتر ہیں۔ اور اگر کوئی مشکلات پیش آرہی ہیں، تو ان شاء اللہ آئندہ حکومتوں کے دور میں حالات سازگار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین کے پھیلاؤ کا کام بڑی تیزی سے ہو گا۔
محترم جناب عبدالرحمن صاحب مدنی ، نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےے اجلاس کی نوعیت اور اہمیت کے بارے میں وضاحت فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ پاکستان بھر میں جامعات اور دینی مدارس کے معنوی اور مادی معیار کو کس طر ح بلند کیا جائے اور تمام مدارس کی آپس میں کس طرح ہم آہنگی پیدا کی جائے اور اہلحدیث کے مدارس سے فارغ التحصیل علماء کے وقار کو کس طرح بلند کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ پاکستان میں اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے لیے مدارس کو فارغ التحصیل علماء کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
ہمارے ملک میں جو دین نظام تعلیم درس نظامی کے نام سے رائج ہے وہ ہم نے وسط ایشیا سے افغانستان اور ایران کے راستے بر صغیر میں داخل ہونےوالے مشائخ و ملوک سے حاصل کیا تھا۔ اب افغانستان کے حالات بد ل چکے ہیں وہ عالم اسلام میں اپنی سابقہ اہمیت سے محروم ہو چکا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے اس نظام تعلیم کو عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک سے ہم آہنگ کرنا چاہیے ، اہل عرب اس بات کو تسلیم کرتے رہے ہیں کہ برصغیر نے علم حدیث کی بہت خدمت کی ہے ۔ ہمیں بالخصوص یہ بھی غور کرنا ہے کہ وفاق المدارس السلفیہ کو عالم اسلام میں کس طرح تسلیم کرایا جائے ۔ ویسے بھی عرب ممالک میں ابھی تک اسلامی تعلیم کی بڑی اہمیت ہے۔ہمارے تعلیمی پروگرام کو بھی علمی تعاون و سر پرستی کی ضرورت ہے۔ ان سب باتوں پر مرکزی کابینہ غور کرے گی، اس کے علاوہ مشائخ الحدیث ، اہل علم اور دانشوروں کے مشوروں سے استفادہ کیا جائے گا۔
محترم ناظم تعلیمات نےکنونشن کی طرف سے اس بارہ میں مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں۔
1۔ پاکستان میں قائم شدہ تمام دینی مدارس کے کوائف جمع کے جائیں۔
2۔ شعبہ تعلیمات کی طرف سے جو فارم فراہم کیا گیا ہے۔ اس کو پر کر کے جلد مرکزی دفتر میں بھیجا جائے۔
3۔ تمام مدارس کے کوائف کا جائزہ لینے کے لیےایک مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں مندرجہ ذیل ضوابط ملحوظ رکھ جائیں ۔
ا۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کی مرکزی کابینہ کے کم از کم تین عہدیدار اس میں شامل ہوں۔
ب) بڑے مدارس (جن میں طلباء کی تعداد تقریباََ 500ہو )میں سے دس مدارس کمیٹی کے مستقل رکن ہوں۔ جن میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے صدر مقام کا کوئی ایک مدرسہ ضرور شامل ہو۔
ج) مزید 10متوسط مدارس (جن میں طلباء کی تعداد تقریباَََ 300ہو) بھی اس کے رکن ہوں۔ ہر سال ایسے مدارس کو نمائندگی دینے کا فیصلہ سالانہ اجتماع میں کیا جائے۔
د) مکتب الدعوۃ (اسلام آباد) ، موسۃ الحرمین(ریاض ) اور وفاق المدارس کو نمائندہ دی جائے ، یعنی وفاق المدارس سلفیہ کے کے مدیر اور ناظم امتحانات بطور عہدہ رکن ہونگے۔
ھ) مرکزی جمعیت اہلحدیث کی معاصر دیگر اہلحدیث تنظیموں کے معاصر کو بھی نمائندگی دی جائے۔
و) خواتین کے مدارس کی علیحدہ تنظیم بنائی جائے۔ جو ناظم تعلیمات کی نگرانی میں کام کرے۔
4) مذکورہ کمیٹی اس بات کا جائزہ لے گی کہ جن دینی مدارس کی مالی حالت کمزور ہے، مرکز ان کے ساتھ کس حد تک تعاون کر سکتا ہے۔
5) سعودی عرب کی یونیورسٹیاں جو پاکستان میں عربی زبان و شریعت کو رس کرواتی ہیں وہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کےک زیر اہتمام ہو۔
بعد ازاں مرکزی کابینہ نے ان تجاویز کی منظوری دی اور فیصلہ ہو اکہ اس سلسلے میں محترم امیر صاحب اور محترم ناظم اعلیٰ صاحب خود بھی رابطے کریں گے اور مدارس کے دورے بھی کریں گے۔
مندرجہ بالا ضوابطہ کی روشنی میں درج ذیل مدارس اور اداروں کو نمائندہ دے کر کمیٹی تشکیل دی گئی۔
ا۔ جامعہ سلفیہ (فیصل آباد ) ، جامعہ محمدیہ (گوجرانوالہ)، جامعہ تعلیم الاسلام (مامو کانجن)، جامعہ لاہور الاسلامیہ(جامعہ رحمانیہ) ، جامعہ سلفیہ دعوۃ الحق (کوئٹہ) ، جامعہ ستاریہ(کراچی)،، جامعہ اثریہ(پشاور) جامعہ ابی بکر الاسلامیہ (کراچی ) ، درالعلوم (غوازی) ، جامعہ علمیہ(سرگودھا) جامعہ البخاری(پشاور)،
ب) جامعہ علوم اثریہ (جہلم )، جامعہ الاسلامیہ (گوجرانوالہ) ، دارلحدیث (اوکاڑہ) ، مرکز ابن القاسم (ملتان) ، جامعہ اہل حدیث (لاہور)، جامعہ سلفیہ(اسلام آباد) ، جامعہ ابراہیمیہ(سیالکوٹ)، جامعہاہلحدیث(خان پور) ، جامعہ عزیزیہ(ساہیوال)، جامعہ سلفیہ(میر پور ، کشمیر)
پروفیسر یٰسین ظفر صاحب (جامعہ سلفیہ فیصل آباد)
نے کہا کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے تحت وفاق المدارس کا ادارہ قائم ہوا جس سے اچھے نتائج نکلے۔ اب جہاں تک ہمارے دینی مدارس کا عرب ممالک کے ساتھ ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنے کا سوال ہے تو یہ امر قابل توجہ ہے کہ عرب ممالک میں تمام ادارے حکومت کی طرف سے قائم کردہ ہیں اور حکومت ان کو مادی وسائل مہیا کرتی ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں دینی اداروں کی پرائیویٹ حیثیت ہے لہذا ہمیں غور وفکر کے بعد کوئی لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ انہوں نے تجویز دی کہ دینی مدارس کے اساتذہ کو مرکز کے تحت ایک ریفریشر کورس کرایا جائے۔ جس میں مسلک اہلحدیث کے نامور ماہر تعلیم لیکچر دیں۔ مدرسین کو جدید طریقہ تعلیم سے روشناس کرایا جائے ت اکہ وہ اپنے اپنے مدارس میں جا کر بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔
مولانا محمد نواز ضیاء (فیروز ٹواں شیخو پورہ)
نے کہا کہ مدارس میں طلباء کی سیرت پر خاص توجہ دی جائے ۔ ہفتہ وار بز م ادب کا انعقاد ہو ۔ مرکز کے تحت خصوصی تربیت کا اہتمام کیا جائے ۔ذہنوں کی نشونمااچھے طریقے سے کی جائے اور خلوص سے کام کرنے کی ترغیب دی جائے ۔جن لوگوں کا مقصد مدارس کے نام پر چندہ اکٹھا کرنا ہے ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ زکوۃمرکزی دفتر میں جمع کی جائے ۔باقاعدگی کے ساتھ جلسوں کا پروگرام رکھا جائے ۔نیز درس نظامی کا انتظام خود مرکز لے ۔اس کے تبلیغی پروگرام کے منصوبے بھی بنائے جائیں۔
مولانا محمد رمضان(شور کوٹ)
نے کہا کے نظام تعلیمات کے تحت تعلیم کا ایک باقاعدہ ڈائریکٹوریٹ بنایا جائے ۔
مولانا محمد حیات (ڈسکہ )
نے کہا کہ دور افتادہ دیہاتوں کے مدارس میں کام کرنے والے اساتذہ کو ہمارے کچھ ساتھی بہتر سہولتوں کا لالچ دے کر شہر میں لے آتے ہیں ،ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔
مولانا عطاءالرحمٰن (شیخوپورہ).
نے کہا کہ دینی مدارس کو چھتری کی ضرورت ہے ۔اکثر دینی مدارس کا تعلق مرکزی جمعیت اہلحدیث سے ہے ۔ دینی مدارس کی حیثیتریڑھ کی ہڈی کی سی ہے ۔جب تک مرکزی جمعیت اہلحدیث منظوری نہ دے دے ، اس وقت تک کوئی مدرسہ رجسٹرڈ نہ کرایا جائے ۔مدا رس میں پالیسی بھی مرکز کی طرف سے جاری ہو ۔ ایک باقاعدہ بورڈہوجو امتحان لے کر سر ٹیفیکیٹ جاری کرے ،۔جن مدارس نے وفاق المدارس میں رجسٹریشن کر لی جائے ۔ طلباءکے لیے داخل خارج کا سرٹیفیکیٹ جاری ہو ۔تاکہ طلبا ء کی آوارگی ختم کی جا سکے ۔ہم نے آج تک تعلیم و تبلیغ کو جہاد کی طرز پر متعارف نہیں کرایا ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ صرف کشمیری جہاد کے نام پر لاکھوں روپے چندہ اکٹھا کر لیتے ہیں جبکہ علم و تعلم بہت بڑا جہاد ہے جس سے امت کی تقدیر وابستہ ہے۔
مولانا عبدالحفیظ (شیخوپورہ )
نے کہا ہے ایک شہر میں صرف ایک ادارہ ہو جو مرکزی جمعیت اہلحدیث کے تحت ہو ۔ ایک شہر میں زیادہ ادارے ہونے سے تاثر اچھا نہیں رہتا ۔نیز مرکز اساتذہ کی تربیت کا بھی بندوبست کرے۔
مولانا عبدالستار (منڈی احمد پور شیخوپورہ)
نے کہا کے مرکز اس بات کا بغورجائزہ لے کہ کہیں یہ تو نہیں کہ ادارہ قائم ہے مگر طلباء نہیں ہیں ۔اور یہ بھی دیکھا جائے وہاں تبلیغ کا کام ضروری ہے یا تعلیم کا کام۔
مولانا عبدالقادر ندوی ناظم (جامعہ تعلیم الاسلام ،مامو ں کانجن)نے کہا کہ سب سے پہلے
اداروں کی رجسٹریشن کروائی جائے ۔ ان کے کوائف جمع کئے جائیں ۔
ان کے جملہ مسائل کا جائزہ لیا جائے ،پھر دوبارہ اجتماع کیا جائے اور تمام تحصیلوں اور اضلاع میں موجود جماعت کے امراء حضرات کو ہدایت دی جائے کہ وہ اس سلسے میں
رابطے کریں تاکہ اس کام کے ٹھوس اور بہتر نتائج نکل سکیں۔
مولانا عبداعزیز علوی شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد
نے کہا کہ تمام مدارس کے علمی کوائف جمع کیے جائیں ۔مسائل کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنائی جائے۔ مدارس کو سطح کے لحاظ سے ترتیب دیا جائے۔ اس طرح وحدت پیدا ہو گی۔ نیز آپس میں مخالفت اور منفی مقابلہ ختم کیا جائے اور تحصیل و ضلع ، صوبہ اور مرکز کی سطح پر ریفریشر کو رسز کروائے جائیں تا کہ بہتر نتائج پیدا ہوں۔
مولانا فاروق اصغر صارم مدرس جامعہ الاسلامیہ (گوجرنوالہ)
نے کہا کہ دینی مدارس کا ایک با قاعدہ نصاب بنایا جائے۔ جو کتب نصاب میں پڑھانا ہوں ، ان کی نشاندہی کی جائے، اگر کتب معیاری نہ ملیں تو نئی کتب تیار کروائی جائیں۔ ہمارے مسلک کے علماء نے جو کتب تحریر کی ہیں ان کو ہر صورت میں نصاب میں شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی کتب سے بھی فائدہ اٹھایا جائے ۔ کیونکہ روایتی درس نظامی کی کتب میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔
مولانا محمد یونس بٹ(وفاق المدارس سلفیہ، فیصل آباد)
نے کہا کہ سب حضرات نے یہ کہا ہے کہ نظام تعلیم میں تبدیلی کی جائے لیکن کسی نے بھی ٹھوس تجاویز نہیں دیں، کہ نظام کس طرح تبدیل کیا جائے، میرے رائے میں در حقیقت نصاب کی وحدت ہی تعلیمی ترقی کی ضامن ہے۔
مولانا مرزا عبدالرحمن (پشاور)
نے کہا کہ لڑکیوں کے لیے بھی دینی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔
مولانا ارشاد الحق اثری (ادارہ علوم اثریہ ، فیصل آباد)
نے کہا کہ دینی مدارس کی جماعت سے وابستگی ایک مشکل مسئلہ ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کام کو کامیاب فرما دے۔ لوگوں کو ذہنی طور پر وابستگی کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ جو طلباء ایک مدرسہ چھوڑ کر دوسرے مدرسہ میں جائیں تووہ اس کلاس میں جا بیٹھیں جس کلاس سے انہوں نے پہلا مدرسہ چھوڑا ہو، بادی النظر میں مدارس کی مرکزی جماعت کے ساتھ وابستگی ایک آسان کام معلوم ہوتی ہے لیکن فی الحقیقیت اس کے لیے بڑی قربانی اور جذبے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بعد متعلقہ ادارہ کو اپنے جمیع کوائف سے مرکز کو باخبر رکھنا ہو گا۔ اگر آج کے اجتماع سے ہم صرف دارس کی رجسٹریشن کے مسئلہ پر اتفاق و عزم پیدا کر لیں تو یہی بہت اہم کامیابی ہے اور آوندہ اجتماعیت کے ساتھ چلنے کی پہلی دلیل ہے۔ مدارس کے مہتمم اور ناظم حضرات کو اس با ت کی اہمیت کا کھلے دل اور وسیع النطری کا ثبوت دیتے ہوئے قبول کرنا چاہیے۔
مولانا محمد یوسف انور (نائب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان )
نے کہا کہ حکومت پاکستان کے وزیر تعلیم کا بیان ہے کہ دینی مدارس کے نصاب میں چار مضامین اور شامل کیے جائیں گے اور ان کی سند میٹر ک کے برابر ہو گی۔ اس کے اس بیان پر رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے۔ سب سے اہم چیز دینی خلوص اور پھر بجٹ ہے۔ اگر ہمارے پاس خلوص ہو گا تو پھر ہر کام آسانی سے ہو جائے گا۔
مولانا میاں محمد جمیل (ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان )
نے کہا کہ ہمیں اپنے فارغ التحصیل طلبہ سے رابطہ قائم رکھنے کی اور ان کی اچھی تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ مثلاََایک مدرسہ سے ایک ہزار طلباء فارغ ہو چکے ہیں اور ان میں سے 800 خطیب ہیں ، اگر ان سے ہمارا رابطہ ہو تو پھر دیگر لوگوں سے چندہ مانگنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔اور خطیب حضرات ہمارے لیے مالی تعاون کا بندوبست کر سکتے ۔ دیو بند کے مدارس عام لوگوں سے چندہ نہیں مانگتے بلکہ انہوں نے تعصب کی فضا پیدا کی ہے ۔جامعیہ اشرفعیہ سے فارغ ہونے والے صرف جامعہ اشرفیہ سے تعاون کریں گے ۔ہمارے اندر نظم و ضبط کا فقدان ہے ۔ روسی ریاستوں کے طلباء جو ہمارے اداروں سے فارغ ہو کر گئے ہیں ،ہمارا ان سے رابطہ نہیں ہے ۔ ہماری پوری جماعت میں تنظیم کا فقدان ہے۔ ہمیں اپنے اندر ونی معاملات میں رابطہ قائم کرنا چاہئے ۔پچھلے دنوں مجلس شوری کے ارکان کو ایک فارم مہیا کیا گیا کہ اسے پر کر کے بھیجیں ۔ اس سلسلے میں بھی کوئی حوصلہ افزاصورتحال سامنے نہیں آئی ۔
شٰخ الحدیث مولانا عبداللہ صاحب (جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ )
نے کہا کہ جماعت نے مدارس کے رابطوں کا جو پروگرام بنایا ہے وہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے ۔الگ الگ دلوں کو جوڑنا صرف اللہ تعالی کا کام ہے۔ ہمیں حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنا چاہئے ۔پاکستان میں صرف جامعہ سلفیہ ایک با اختیار اور با قا عدہ جماعتی مدرسہ ہے باقی سب مدرسوں کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث نے نہیں بنایا ۔
اکثر مدارس میں ہمارے علماءبا اختیار نہیں ہیں ۔ مقامی طور پر مقامی جماعتوں کا عمل دخل ہے اور معاملات بھی مقامی لوگوں کے ہی ہاتھوں میں ہیں ۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہمارے اس منصوبے سے مقامی جماعتوں کا کیا رد عمل ہو گا ۔مدارس میں رابطہ کا کام بہت اچھا ہے۔محترم حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب اہل علم ، جوان اور متحرک شخصیت ہیں۔اللہ تعالی کرے کے وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوں ۔ میں نے ایک مرتبہ حضرت مولانا اسماعیل مرحوم اور حضرت مولانا داؤد غزنوی مرحوم کو یہ تجویز دی تھی کہ ہماری تمام زکوۃ مرکز میں جمع ہو اور تمام مدارس کی ایک تنظیم بن جائے تو انہوں نے بھی اس تجویز پر عمل در آمد کو مشکل بتایا تھا ۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ مرکز کی طرف سے بھی کوئی رابطہ نہ ہوا ،کوئی فند مہیا نہ کیا گیا ۔انہیں قواعدوضوابط سے روشناس نہ کرایا گیا غفلت اور لا پرواہی کی وجہ سے یہ نوبت آئی ۔مدارس کو نظم و ضبط کرنے کے لیئے سر دھڑکی بازی لگانی پڑے گی ۔ جب تک جماعت کا بیت المال نہ ہو گا تب تک مدارس کو مالی امداد نہیں دی جا سکتی۔
ہمارے مدارس سے فارغ ہونے والے طلباہمارے مدارس سے فارغ ہونے والے طلباءکے لیے کوئی پروگرام نہیں ہے ۔ ان میں دینی کام وہی شخص کر سکے گا جس کو پیٹ پالنے کے لیے روزی ملے گی ۔اس منصوبے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے جو تمام مسائل کا جائزہ لے۔تب ہی بہتر نتائج نکل سکتے ہیں ۔آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے تاکہ ہم اپنے مدارس میں تعلیم کا معیار بلند کر سکیں۔قرآن وحدیث ،صرف و نحو اور دیگر علوم کو اچھے طریقے سے پڑھایا جائے تاکہ ہم علم میں پختہ اور راسخ علماء مہیا کر سکیں ۔جو کمیٹی بنائی جائے وہ باقاعدگی سے اپنے اجلاس بلائے اور رابطے مضبوط کرنے کے لئے مسلسل غوروفکر کرتی رہے۔
محترم شیخ الحدیث مولانا عبداللہ صاحب کی زیر صدارت ہونے والا یہ اجلاس انہی جذبات ،دلو ں میں متحرک جزبوں اور مستقبل کی اچھی امیدوں پر اختتام پزیر ہو ا۔جس میں شریک ہونے والے یہ احساس لیتے ہوئے واپس ہوئے کہ انہیں مدارس کو مربوط و منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے،اس کے بغیر ایسے منصوبے تکمیل سے ہم کنار نہیں ہو سکتے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس نیک ارادے اور منصوبے کو کامیاب فرمائے ۔آمین!