یکم مئی (مزدوروں کا عالمی دن ) اور اسلامی نقطہ نظر
یکم مئی بین الاقوامی سطح پر "یوم محنت" کے طور پرمنایا جاتاہے۔ یہ دن ان مزدوروں کی یاد میں ہے جو یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے آجروں کے خلاف مظاہر ہ کر رہ تھے۔ ان میں سے بعض کو فائرنگ کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا اور بعض کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ پس یہ دن مغربی و اشترا کی ممالک میں انہی "شہدائے شکاگو" کو خراچی عقیدت پیش کرنےکے لیے منایا جاتا ہے۔ اس دن مزدورں کے حق میں پروگرام ہوتے ہیں۔ حکمران مزدوروں کی مراعات کے لئے کچھ بیانات جاری کرتے ہیں۔ اسی طرح عالم اسلام میں بھی کئی مقامات پر یہ دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس دن سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔
یہ دن مناکر"عالمی ضمیر" یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ محنت کش طبقے کا بڑا قدردان اور رکھوالا ہے۔ اسے حقوق انسانی کا بڑا پاس ولحاظ ہے۔ اسی لئے جب ان چند محنت کشوں پر زیادتی ہوئی تو پورامغرب ان محنت کشوں پرہونے والے مظالم کی تاب نہ لا سکا۔ اب ان کی یاد میں متعدد ریلیاں منعقد ہوتی ہیں۔ مظاہرے ہوتے ہیں۔ (بلکہ سڑکیں بلاک ہو جاتی ہیں) ان مزدوروں کے لئے حقوق ومراعات کا اعلان ہوتا ہے۔ ہر ملک کی ٹریڈ یونین ان حق میں متحرک اور فعال ہوتی ہے اور ستم یہ کہ یہ سارا پروپیگنڈہ وہ سرمایہ دار طبقہ کرتا ہے جو غریبوں کا ہمدرد بن کر ان کی محرومیوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ ان کی محرومیوں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے نوحے پڑھنے والا خود عالیشان بنگلوں اور محلات میں رہتے ہیں۔ طیارہ نما گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں ، اپنے علاج معالجہ اور اپنے بچوں کی تعلیم پر زر کثیر صرف کرتے ہیں۔ جبکہ غریب بے چارے مسلسل ان سازشوں کا شکار ہو کر ان سیاسی شعبدہ بازوں کے حق میں نعرے بازی کرتے ہیں۔ بھوک ہڑتال کرتے ہیں۔ ٹریڈ یونین کے ذریعے مطالبات پیش کرے ہیں اور بالآخر یہ نام نہاد دن ختم ہونے پر پھر ہوہی محنت کشی اور وہی اس کی پرانی ڈگر۔
ٹریڈ یونین کی ضرورت کس کو ، اہل مغرب کو یا اہل اسلام کو؟
پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی مغرب کی دیکھا دیکھی یہ دن بڑے تز واحتشام سے منایا جاتا ہے۔ ہر مسلمان ملک میں بھی اہل مغرب کی طرح ٹریڈ یونینیز موجود ہوتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ٹریڈ یونین کو ضرورت کیوں پیش آئی ، کب پیش آئی؟
جوا ب اس کا یہ ہے کہ یہ ضرورت تو دراصل یہودیوں اور عیسائیوں کو (اور دھریو ں کو) ہے جو سماجی اور معاشرتی زندگی میں (اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف ہو جانے کے باعث) عدل و انصاف اور انسانی حقوق صاصل کرنے سے محروم رہے۔ وہ آہستہ آہستہ طبقاتی نفرت کی وادیوں میں بھٹکتے چلے گئے۔ چنانچہ شکاگو کے مقام پر ہونے والے حادثہ میں چند یہودی اور عیسائی لیڈروں نے اس طبقاتی نفرت کو عوام میں باقاعدہ متعارف کروانے کا آغازکیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک کر دیے گئے۔ جس کے نتیجہ میں ٹریڈ یونینز وجود میں آئیں۔
لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کو ٹریڈ یونین کی کیا ضرورت۔ جبکہ قرآن وسنت نے بڑی وضاحت کے ساتھ آجر و اجیر کے معاملات تعین کر دیا ہے۔ زیر دستوں سے اچھا سلوک، ان کی ضروریات و آرام کا خیال اور اس سے شفقت و محبت کی ہدایات بکثرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور ارشادات میں موجود ہیں۔
تاریخ اسلام سے گواہی
ہمیں پوری "تاریخ اسلام" میں امیری و غریبی کی بنا پر یا مالک ومزدور کی بنیاد پر نفرت و امتیاز کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہاں تو امیر وغریب کو ، شاہ و گدا کو، کالے اور گورے سب کو بھائی بھائی کہ کر ایمان و ایقان کی ایک ہی لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔ صدقات و ذکوۃ کے نظام اور بیت المال کے ذریعہ مساکین و یتامی کی اور دیگر تمام حاجت مندوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہے۔
دیکھئے حضرت ابوبرک صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بڑے بڑے امراء ورؤ سا کے ہوتے ہوئے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو سالار لشکر مقرر کیا جاتا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بڑے بڑے مال دار اصحاب کے ہوتے ہوئے جو قدر ومنزلت ملی، وہ نسلی اور مادی تفاخر کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے۔ یہاں تو محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اپنی بہترین تعلیمات کے ذریعے طبقاتی منافرت کی جڑیں کاٹ کر رکھ دی ہیں۔
سرمایہ داری اور سرمایہ دارانہ رویہ (دونوں کا فرق)
سرمایہ دار ہونا اور چیز ہے اور سرمایہ دارانہ رویہ بالکل دوسری چیز جو کہ اسلام سے کلیتاََ متصادم ہے وہ صاحب حیثیت سرمایہ دار لوگ جو حلال کماتے اور کھاتے ہیں۔ جو دولت کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔ عزیزوں ، رشتہ داروں اور دستوں کی خدمت کرنے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ ان کایہ درویشانہ طرز عمل عمل اللہ تعالیٰ کا بڑا پسند ہے۔ اس صورت میں تو سرمایہ خیرکثیر (بہت بڑی بھلائی) ہے۔ ایسے لوگ اگر غریب بھی ہوں تب بھی ان کے دل تنگ نہیں ہوتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ "()" کہ اصل غنائ دل کا غنی ہونا ہے' وہ دوسروں کے ساتھ حسن وسلوک سے پیش آتےہیں، ہم کار مزدوروں سے اچھا سلوک کرتے اور ان کےقلب و ذہن کو اینی باتوں سے سکو ن بہم پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ تنگ سے تنگ حالات میں بھی ایمان اور آدمیت کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔اس کے مقابلہ میں سرمایہ دار انہ رویہ "دل کی تنگی" کا نام ہے جس کا مطلب ہے " سب فائدہ اپنے لئے ہر جائز ناجائز طریقے سے اکٹھا کر لینا اور دوسروں کو کچھ نہ دینا بلکہ سب کچھ اپنا ہی حق سمجھنا" اور دوسروں کے لیے کوئی حق نہ سمجھنا ۔ کیا مقابلہ ہے ایک صاحب ایمان محنت کش" کارکن" کا اور اس سرخ انقلاب کے نام پر دن رات اٹھتے بیٹھتے مزدوروں کا ۔ نام تو جینے کا ہے۔ مگر در حقیقت ان کے منہ میں جانے والا نوالہ تک چھیننے والے کا مریڈ کا ہوتا ہے۔ ٹریڈ یونین تو غریب اور مزدور کو فریب دینے کے لئے سرخ انقلاب برپا کرنے والے بناتے ہیں اور یوم مئی روح کو جکڑ کر صرف جسمانی کھانے اور پہننے کی ضروریات کی ضمانت دیتاہے۔ اور علاج معالہ اور تعلیم کے حقوق سے یکسر محروم رکھتا ہے) مگر پوری وہ بھی نہیں کر پاتا۔ جبکہ اسلام روح اور جسم دونوں کے فطری مطالبات و احتیاجات پورا کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
اسلام میں محنت کا مقام
اسلام نے محنت کو بڑا مقام عطا کیا ہے اور محنت شخص کی بڑٰ حوصلہ افزائی کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (طبرانی)" خود کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے " فرما کر محنت کی قدرو قیمت اجاگر فرما دی ہے۔ ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: () " کسی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا۔ (صحیح البخاری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزدوروں کے حقوق کا اس حد تک پاس تھا کہ وصال سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی"() " کہ نماز کا خیال رکھو اور ان لوگوں کا بھی جو تمہارے زیر دست ہیں" (احمد ، ابو داؤد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا :"تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں خود جھگڑوںگا ۔ ان میں سے ایک وہ ہو گا جس نے کسی کام کروایا ۔ کام تو اس سے پورا لیا مگر اسے مزدوری پوری ادا نہ کی( صحیح البخاری)
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے مصافحہ کرتے وقت اس کے ہاتھوں پر کچھ نشانات دیکھے ، وجہ پوچھی تو اس نے بتایا روزی کمانے میں محنت مشقت کرنے کی وجہ سے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ چوم لیا۔ مزید ارشاد فرمایا:
*"مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری ادا کر دو" ( ابن ماجہ)
*"جو کوئی غٰیر آباد زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کی ہے" (گویا اس کی محنت نے اس کو مالکانہ حقوق عطاء کر دئیے ) (احمد ، ترمذی ، ابو داؤد )
جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ساری عمر محنت کرنےکے باوجود بھی محنت کش کو مالکانہ حقوق نہیں مل سکتے ۔
*" کسی کے پاس غیر آباد زمین ہو جسے وہ خود کاشت کرے نہ کسی کو کاشت کے لئے دے تو اس کی زمین بحق سرکار ضبط ہو جائے گی (یعنی یا تو اس پر محنت کر کے اس سے خود فائدہ اٹھائے یا کسی دوسرے کو اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے ۔ جب یہ دونوں شکلیں نہیں بن رہیں، تو بیکار زمین پر حکومت قبضہ کر لے تا کہ وہ آگے کسی ضرورت مندکو دے سکے۔ یہاں بھی محنت ہی اصل بنیاد قرار پائی ہے)
*"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مضاربت یا شراکت میں سرمایہ کے ساتھ محنت کی پوزیشن برابر قرار دی۔
*"کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکلہاڑا دے کر محنت کرنے کو کہا"
*"کوئی جوان شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مانگنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مثال سے توجہ دلائی کہ تمہارے پاس ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان ، ناک اور زبان صحیح سالم موجود ہیں۔ اس صورت میں تیرے پاس بے شمار دولت موجود ہے۔ محنت کر کے کماؤ ، مانگتا کیوں ہو؟"
تمام انبیاء علیہم السلام خود کما کر کھاتے تھے۔
انبیائ علیہم السلام جو پوری بنی نوع کے راہبر ورہنما ، اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں، پوری انسانیب کا خلاصہ اور نچوڑ ہیں۔ اتنے معزز ومحترم اور عظیم المرتبت ہونے کے باوجود سب نے اپنے دست مبارک سے کمایا ہے۔ بلکہ خود پیغمبروں ؑ نے ان مبارک پیشوں کی بنیاد ڈالی ہے۔ جن کو آج سرمایہ پرست اور دولت کے پجاری حقیر سمجھتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے سب سے پہلے لکڑی کا کام کیا، حضرت ادریس علیہ السلام درزی بھی تھے اور خوشنویسی کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی، حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیھم السلام دونوں باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر میں راج اور مزدور کا سا کام کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بکریاں چرائیں ، حضرت داؤد علیہ السلام بادشاہ ہونے کے باوجود اپنے ہاتھوں سے زرہ بنایا کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بھی عظیم الشان سلطنت کے سربراہ ہونے کے باوجود لوہے، تانبے اور پیتل کے بڑے بڑے برتن بنا کر اہل و عیال کو کھلاتے تھے۔
سب سے بڑھ کر خود سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال موجود ہے۔ جنہوں نے بچپن میں عرب کے ریگستانوں اور وادیوں میں بکریاں چرائیں۔ جوانی میں تجارت کی ، بعد از نبوت بھی دست مبارک سے ہر کام کیا۔ مسجد نبوی بناتے وقت مزدوروں کی طرح مٹی اور گارا ڈھویا۔ اور جنگ احزاب کے موقع پر خندق کھودتے وقت کدال لے کر بے شمار سخت پتھر توڑ ڈالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں بکری کا دودھ دودھ لیا کرتے ۔ جو تا مرمت کرلیا کرتے اور قمیص کو پیوند لگا لیا کرتے تھے۔
یہاں بطور نمونہ چند پیغمبروں ؑ کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ انہی سے اندازہ ہو جاتا ہےکہ اسلام میں محنت اور مشقت کا کتنا اہم مقام ہے۔غور کریں تو وہ واقعہ کس قدر دلکش ہے، جب جنگ تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے چندہ کے لیے اپیل کی۔ ہر ایک نے حسب توفیق کچھ نہ کچھ لا کر اس کار خیر میں حصہ لیا۔ اور اسی طرح ایک بہت بڑا ڈھیر بن گیا۔ اسی اثناء میں حضرت ابو عقیل رضی اللہ عنہ چند کھجوریں لے کر آئے۔ جو انہوں نے اس غزوہ میں اپنا حصہ شامل کرنے کی غرض سے ساری رات ایک یہودی کے ہاں محنت مزدوری کر کے حاصل کی تھیں۔ چونکہ وہ کھجوریں صرف ایک کلو کے قریب تھیں لہذا وہ یہ کھجوریں پیش کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اس کیفیت کو بھانپ لیا او ر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجوریں سارے ڈھیر کے اوپر پھیلا دیں اور ان کو تسلی دی کہ تمہاری کھجوروں نے سارے ڈھیر کو ڈھانپ لیا ہے اور سارے مال پر پھیل گئی ہیں، یہ تھوڑی کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کی قدر افزائی ہی تو تھی۔
دنیائے اسلام میں اپنے وقت کے بڑے بڑے نامور علماء وفضلا اپنے ہاتھ سے کما کر کھانے والے اور محنت کش ہی ہوا کرتے تھے۔ وہ حداد (لوہار) نجار(بڑھئ)قصار(دھوبی) قدوری(ہنڈٰیا بنا کر بیچنے والے) کہلاتے اور لکھنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔ مزید یہ کہ وہ موچی اور درزی جیسےکام بخوشی کر لیا کرتے تھے۔
آج ہر طرف یہی سوال ہے کہ مزدور کی مناسب اجرت کیا ہونے چاہیے؟ حالانکہ اسلام نے چودہ سو سال قبل اس کا صحیح حل پیش کر دیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو خود کھاؤ یسا انہیں کھلاؤ ، جو خود پہنو ویسا ان کو پہناؤ " اس طرح وہ آجر و مزدور کے درمیان تعلقات، آزادی اور مساوات کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"ابن آدم کا بنیادی حق یہ ہے کہ اس کے لیے گھر ہو جہاں وہ رہ سکے، کپڑا ہو جس سے وہ اپنے جسم کو ڈھانپ سکے، کھانے کے لیے روٹی اور پینے کے لیے پانی ہو جس سے وہ زندہ رہ سکے۔ زیر دست کو ضرورت کے مطابق مناسب غذا اور لباس دیا جائے اور اس پر اتنا بار ڈالا جائے جسے وہ آسانی سے برداشت کر سکے" (مسلم؟)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے "نظام اجرت" کے بجائے "نظام حقوق" کی بحالی پر زوردیا ہے۔ یعنی ایک ملازم کو اتنا معاوضہ ضرور ملے جس سے وہ اپنے اہل وعیال کی بخوبی کفالت کر سکے اور انہیں بنیادی ضروریات زندگی بھی مہیا کر سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں بھی مزدوروں کے حقوق پر بڑا زور دیا۔
دن منانے کا رواج
دن منانے کا رواج تو اہل مغرب کی ایک استحصالی سکیم ہے کہ عملاََ کسی کے حقوق دبائے رکھو اور سال بھر میں اس کے نام کا صرف ایک دن منا لو۔ اس دن ان کی خاطر لمبی چوڑی لچھے دار اور جذباتی انداز میں تقریریں کر کے ان کو زبانی کلامی خراج تحسین پیش کرتے رہو کہ تا کہ کام بھی نکلا رہے اور مظلوم کا استحصال بھی جاری رہے۔ ان کو اپنے ہاں سے کچھ نہ دینا پڑے اور محض ان کے نام پر نعرے بازی، مظاہروں او ریلیوں سے ان کے پیٹ بھر دیے جائیں۔
سوال یہ ہےکہ کیا عالم اسلام کے لیے کوئی یوم محنت ہونا چاہیے؟ اسلام جو آج سے چودہ صدیاں قبل عام پسماندہ طبقوں کو مستقل حقوق دے کر اشراف کی صف میں لا کھڑا ہوتا ہے۔ (مثلاََ خاندان غلاماں کو چشم فلک کب بھول سکتی ہے۔ جنہوں نے غلام ہونے کے باوجود وہ قدر ومنزلت پائی کہ مدت تک برصغیر ہندو پاک میں حکمران رہے ) یہ دین صرف ایک دن کے لیے مزدوروں کے حقوق تسلیم نہیں کرتا بلکہ تاحیات ان کو ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے، اس لیے سب سے پہلی بحث تو یہ ہے کہ کیا عالم اسلام کو یہ دن منانے کی ضرورت بھی ہے کہ نہیں؟ اس کا جواب میری ناقص رائے میں تو یہی ہےکہ اہل مغرب کے غلبےسے پہلے مسلمان معاشرسوں میں محنت کشوں کے لیے کبھی یہ نوبت ہی نہیں آئی کہ وہ اپنے حقوق مانگنے کے لیے مجبور ہوں یا بر سر عام سڑکوں پر نکل آئیں یا اپنی ٹریڈ یونین تشکیل دیں۔ ان میں تو کبھی طباقاتی منافرت پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ ان کو معاشرے میں بڑا اہم مقام حاصل تھا، ان کی مادی ضروریات بھی پوری ہو رہی تھیں۔ روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی خوشحالی بھی انہیں حاصل تھی اور عزت نفس بھی محفوظ تھی۔ لہذا ان کا دل مطمئن اور بار گاہ الہٰی میں قانع تھا۔
مگر جب مسلمان ممالک یورپی استحصال کا شکار ہوئے تو یہاں بھی بڑی بڑی جاگیرداریاں معرض وجود میں آئیں ۔ بڑے سرمایاہ دار اورکارخانہ دار پروان چڑھے۔ ایمانی و اخلاقی قدریں مفقود ہونے لگیںاور مادی ترقی ومالی خوشحالی ہی حقیقی نصب العین ٹھہری۔ دوسری طرف عالم اسلام پر وہ مغرب زدہ طبقہ مسلط ہوا جو مغربی تہذیب کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے۔ انہوں نے اہل مغرب کی ہر بات کو صحیح سمجھ کر اسلام سے اس کا جواز لانے کی کوشش کی۔ اسی مرعوبیت کاہی نتیجہ ہے کہ ایک طرف مسلمان معاشروں میں بھی محنت کشوں میں وہ محرومیاں (جو مغربی معاشروں کا خاصہ ہیں ) پیدا ہو گئیں۔ چنانچہ اب مسلمان حکمران ہر سال یوم محنت مناتے ہوئے فخر سےیہ بیان دیتے ہیں کہ اسلام نے مزدوروں کو بہت حقوق دیے ہیں۔ مگر مغربی فریب کاروں کی طرح خود بھی اپنی غریب، متوسط اور محنت کش رعایا کو آئے دن ٹیکسوں کے بوجھ تلے کچل کر پیستے چلے جاتے ہیں او خود الگ ان ٹیکسوں کے تاج محل پر بیٹھ کر عیاشیاں کر تے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے محنت کش طبقے کی ہمدردی کے گیت بھی الاپتے رہتے ہیں۔
اگر مسلمانوں کو اس حوالے سے کوئی دن منانا ہی ہے(جو کہ میرے رائے میں محل بھی نظر ہے) تو پھر یہ "یوم مئی" نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اس طرح طبقاتی منافرت کاتعارف کرانے والوں کو "شہدائے شکاگو" کہہ کر اسلام کے لفظ "شہید" کی تحقیر کی جاتی ہے، اہل مغرب کے پیمارنے ، ہمارے پیمانے ہرگز نہیں ہوسکتے۔
ہمیں اس کے لیے اپنی تاریخ وتہذیب کی طرف رجوع کرنا چاہیے، میرے خیال میں یہ 9ذوالحجۃ کا دن ہو سکتا ہے جب تمام حجاج کرام میدان عرفات کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں، تو خانہ کعبہ کو اس دن غسل دیا جاتا ہے اور خلاف کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے۔ یا پھر "یوم خندق" کو "یوم محنت" کے طور پر منایا جا سکتا ہے۔ جب عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 5ہجری میں مدینہ کے مسلمانوں پر سارے عرب کے یہودیوں، کافروں اور مشرکوں کا مشترکہ لشکر چڑھ دوڑا تو اس وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیمان فارسی علیہ السلام کے مشورہ سے اپنے دفاع کی خاطر مدینہ کے شمالی جانب ایک خندق کھو دی۔ یہ خندق ساڑھے تین میل لمبی، پندرہ فٹ گہری اور پندہ فٹ ہی چوڑی تھی۔ 8ذی القعدہ سے لے کر 17ذی القعدہ تک یعنی دس دنوں (اور کچھ روایات کے مطابق بیس دنوں ) میں یہ خندق مکمل ہوئی ۔ تین ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اسے مل کر کھودا۔ دس دس آدمیوں کے ذمے چالیس چالیس ہاتھ کدائی تھی۔سب نے اس خندق کی کھدائی میں بڑی محنت و مشقت سے کام کیا۔ چونکہ اس وقت مسلمانوں کے مالی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے۔ لہذا بھوک اور فاقہ کی کیفیت بھی تھی۔ کمریں سیدھی رکھنے کی غرض سے تقریباََ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے پیٹ پر پتھر باندھے رکھتے تھے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے فاقہ و تنگدستی او پیٹ پر پتھر باندھنے کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قمیص مبارک اٹھا کر دکھایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بطن اطہر پر ایک کے بجائے دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ یہ محنت و مشقت ، جس کا ہم آج کے دور میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ دوران کھدائی یاک پتھر سخت ثابت ہوا۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کدال مار مار کر تھک گئے، مگر ان سے وہ ٹوٹتا نہ تھا۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کدال سے اس پر تین ضربیں لگا کر اس کو توڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ضرب پر اس پتھر سے ایک روشنی نکلتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام ،ایران اور یمن کی فتح کی بشارت سنائی، خندق کھودتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ملکر یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے:
اللهم لولا هديتك ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا.
اللهم انزل السكينة علينا' وشبت الاقدام ان لا قينا....
"اے اللہ! اگر تو ہمیں ہدایت نہ دیتا، تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے، اے اللہ! تو ہم پر سکینت نازل فرما اور جب دشمن سامنے آئے تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ لوگو ہمارے خلاف ذیادتی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جب کہ ہم ان سے زیادتی نہیں کرتے"
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان اشعار کے جواب میں فرماتے: "اللهم لا عيش الا عيش الآخرة . فاغفر الانصار والمهاجرة"
"اے اللہ ! آخرت کی بھلائی ہی اصل بھلائی ہے، اے اللہ ! تو انصار ومہاجرین کی مغفرت فرما"
سبحان اللہ! کیا پاکیزہ اور روح پرور منظر ہے۔ "فرمانروائے مملک اسلامی" کسی طرح کومحنت کش بن کر محنت کشوں کے ساتھ کام میں مشغول ہے۔ ان سے دو گنا فاقہ ہے۔ ان سے دگنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشقت ہے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ ان کی باہمت اور پر عزم آواز کے ساتھ آواز ملا کر حوصلہ افزائی کے لیے اشعار بھی پڑھ رہے ہیں، تا کہ کسی کو کام بھاری محسوس نہ ہو ،نیز آخر میں انصار ومہاجرین دونوں کو تصور دلا دیا کہ یہ دنیا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود آخرت کی بھلائی و خوشحالی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے رفقائے کار کے لیے دعائے خیر کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اے مسلمانو ! اگر تم "یوم محنت " منانا چاہتے ہو تو 8 ذی القعدہ کو مناؤ اور اپنے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے ان محنت کشوں کو خلوص ومحبت کے ساتھ گلے لگا لو۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اگر آج بھی کوئی اسلامی مملکت اسلام کے نظام عدل پر مبنی اسلامی شریعت اپنے ہاں نافذ کر لے تو پھر اسے غیر مسلموں کی نقالی میں یہ دن منانے کی قطعاَََ کوئی ضرورت پیش آہی نہیں سکتی۔
یہاں ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے کہ علماء ، اساتذہ، سیاستی لیڈر ان سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہےکہ وہ عوام الناس کو ان کے شرعی وتمدنی حقوق و فرائض سے اس طرح آگاہ کریں کہ وہ مغرب کے دیے ہوئے فریب کارانہ اور مکارانہ اوپرے حقوق کی چکا چوند سے مرعوب ہو کر ایسے دن نہ مناتے پھریں او ر اگر علماء و اساتذہ کرام یہ کام نہ کریں تو وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کےہاں اس بات کےلیے جوابدہ ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے تمام ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین !)
پھول جب ہنستے ہوئے نذر خزاں ہوتے ہیں۔
جو شناسائے غم اہل جہاں ہوتے ہیں اہل عالم کے لیے فیض رساں ہوتے ہیں
زخم جو سینہ انساں میں نہاں ہوتے ہیں شرح بے چارگی چارہ گراں ہوتے ہیں
خوف انجام سے جو گریہ کنا ہوتے ہیں قہقہے ان کی سماعت پر گراں ہوتے ہیں
وجد کرتی ہے نسیم سحری بھی، جس وقت ترے اوصاف لب گل سے بیاں ہوتےہیں
تیغ کےسامنے آتے ہیں وہی تیغ بکف تیغ کےسائے میں پل کر جو جواں ہوتے ہیں
سوز وغم، رنج و الم ، آہ و فغان ، حزن وملال ہاں یہی راہ محبت کے نشاں ہوتے ہیں
اہل دل، اہل نظر ، اہل خبر، اہل ہنر کوئی بتلائے کہ یہ لوگ کہاں ہوتے ہیں
سیر کر گلشن عالم کی مگر یا درہے پھول ہوتے ہیں جہاں خار وہاں ہوتے ہیں
بند کر بیٹھے ہمیں دیدہ عبرت ورنہ حادثے عام سر بزم جہاں ہوتے ہیں
کھیل ہے کفر کے طوفان سے ٹکرا جانا دل جواں ہو تو عزائم بھی جواں ہوتے ہیں
دل پہ ایک عالم بے نام گزر جاتا ہے پھول ہنستے ہوئے جب نذر خزاں ہوتے ہیں
وقت بیہودہ مشاغل میں وہی کھوتے ہیں جو کہ نا آشنائے سود و زیاں ہوتے ہیں
شور ماتم ہی پہ موقوف نہیں اے عاجز قہقہے بھی دل زندہ پہ گراں ہوتے ہیں
عبدالرحمن عاجز