حدیث كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا قضي صلاته مسح جبهة... الخ کی تحقیق

بعض روایات میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور اس سے فارغ ہوتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے سر پر مسح فرماتے، اور یہ دعا معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ وارد ہوئی ہے جیسا کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ، اپنی کتاب الاذکار میں ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس طرح نقل فرماتے ہیں:

"كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا قضي صلاته مسح جبهة بيده اليمي ثم قال: اشهد ان لا اله الا الله الرحمن الرحيم اللهم اذهب عني الهم والحزن"(1)

اس حدیث کو ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمل اليوم والليلة(2) میں اور ابونعیم اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ نے "حلية الاولياء"(3) میں بطريق عن زيد العمي عن معاوة بن قرة عن انس روایت کیا ہے۔ اگر اس کی اسناد پر غور کیا جائے تو ہمیں اس میں دو مجروح راوی نظر آئیں گے:

(1)سلام بن سلیمان الطویل المدائینی جس کے متعلق یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ نے ليس بشئي یعنی دھیلہ کے برابر بھی نہیں ہے" اور ایک مرتبہ "ضعیف ہے، اس کی حدیث نہیں لکھی جاتی" فرمایا ہے۔ علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ضعیف ہے اس کے پاس منکر احادیث ہیں" امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "تركوه" عبدالرحمٰن بن یوسف بن خراش رحمۃ اللہ علیہ نے سلام کو "کذاب" امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے "منکر الحدیث"، ابوزرعہ نے "ضعیف" اور نسائی، ابن جنید، ازدی، دارقطنی اور ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ نے "متروک الحدیث" قرار دیا ہے۔ عقیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ثقات سے منسوب اس کی احادیث مین منکرات ہوتی ہیں" اور امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "ثقات سے موضوعات روایت کرتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ گویا متعمدا ایسا کرتا ہو" تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ(4) میں مذکور کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔

(2) اس طریق کا دوسرا مجروح راوی زید بن حواری العمی ہے جسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے "صالح" مگر امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے "ضعیف" اور ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف واھی الحدیث" بتایا ہے۔ ابن مدینی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: "ہمارے نزدیک ضعیف تھا"، ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "لعل شعبة لم يرو عن اضعف منه" سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "متماسک" قرار دیا ہے، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "صالح" بتایا ہے مگر ابن معین رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اور قول ہے کہ "کچھ بھی نہیں ہے" آں رحمہ اللہ ہی سے ایک تیسرا قوم منقول ہے کہ "ضعیف ہے مگر اس کی حدیث لکھی جاتی ہے"۔ امام حاتم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ضعیف ہے، اس کی حدیث لکھی جاتی ہے مگر اس سے احتجاج نہیں کیا جاتا" ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "طبقہ خامسہ کا ضعیف راوی ہے" اور امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "حضرت انس رضی اللہ عنہ سے موضوع چیزیں جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی، روایت کرتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی خبر کے ساتھ احتجاج جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حدیث کا لکھنا الا یہ کہ عبرت کے لئے ہو "تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ(5) میں مذکور کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔

صرف سلام بن سلیمان الطویل المدائینی کی سند میں موجودگی ہی اس کو "موضوع" قرار دینے کے لئے کافی ہے چنانچہ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ " نے سلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة (6)میں اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔

اس سلسلہ کی ایک اور روایت جسے علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "الجامع الصغیر" میں وارد کر کے گویا اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے، اس طرح ہے: كان اذا صلي مسح بيده اليمني علي راسه ويقول: بسم الله الذي لا اله غيره الرحمن الرحيم اللهم اذهب عني الهم الحزن۔۔۔ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے المعجم الاوسط (7)میں اور خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے "تاریخ بغداد"(8) میں بطریق احمد بن يونس حدثني كثير بن سليم ابي سلمة سمعت انس به روایت کیا ہے۔ افسوس کے "الجامع الصغیر" کے شارح علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر کوئی تعقب نہیں کیا ہے، حالانکہ اس طریق کا راوی "کثیر بن سلیم" متروک ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور ازدی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "متروک الحدیث" بتایا ہے، ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "واھی الحدیث تھا"، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "منکر الحدیث ہے" ابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ، یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اسے فقط "ضعیف" بتاتے ہیں مگر امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:

"یہ ان لوگوں میں سے تھا جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی طرف ایسی حدیثیں روایت کرتے تھے جو ان کی نہ ہوتی تھیں، نہ اس نے ان کو دیکھا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر کے یہ شخص احادی گھڑا کرتا تھا پھر انہیں بیان کر دیتا تھا۔ اس کی حدیث کا لکھنا اور اس سے روایت کرنا ناجائز ہے الا یہ کہ علي سبيل الاختبار ہو"

مزید تفصیلی حالات کے لئے حاشیہ(9) میں درج کتب کی طرف رجوع کریں۔

کثیر بن سلیم کی موجودگی کے باعث یہ حدیث سندا "بے حد ضعیف" بلکہ موضوع کے قریب تر ہو جاتی ہے۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو "میزان الاعتدال" مین کثیر بن سلیم کے ترجمہ میں وارد کیا ہے اور شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے اس پر "ضعیف جدا"(10) کا حکم لگایا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے ہی مروی طبرانی رحمۃ اللہ علیہ و بزار رحمۃ اللہ علیہ کی بعض دوسری روایات میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے:

"ان النبي صلي الله عليه وسلم كان اذا صلي وفرغ من صلاته مسح بيمينه علي راسه وقال بسم الله الذي لا اله الا هو الرحمن الرحيم اللهم اذهب عني الهم والحزن" اور "مسح جبهته بيده اليمني وقال اللهم اذهب عني الغم والحزن"

ان روایات کی اسناد میں بھی "زیدبن الحواری العمی" راوی موجود ہے جس کا ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔ ان روایات کے متعلق علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"رواه الطبراني في الاوسط والبزار بنحوة باسانيد وفيه زيد العمي وقد و ثقه غير واحد و ضعفه الجمهور و بقية رجال احد اسنادي الطبراني ثقات و في بعضهم خلاف"(11)

زید بن الحواری العمی کی موجودی کے باعث یہ روایات بھی "ضعیف" قرار پائیں لہذا ناقابل احتجاج ٹھہریں۔والله اعلم بالصواب


حواشی

1."الاذكار" للنووي رحمة الله عليه ص69

2. "عمل اليوم والليلة" لابن السني رحمة الله عليه حديث نمبر 110

3. "حلية الاولياء" لابي نعيم اصبهاني ج٢/ص301

4. "الضعفاء والمتروكون"للدارقطني رحمة الله عليه ترجمه 265، تاریخ یحییٰ بن معین رحمة الله عليه ج4/ص376. "سوالات محمد بن عثمان رحمة الله عليه" ص167 "التاریخ الکبیر" للبخاری رحمة الله عليه ج2/ص133، "التاریخ الصغیر" للبخاری رحمة الله عليه ج3/ص215، "ضعفاء الصغیر" للبخاری رحمة الله عليه ترجمہ 55، "الجروح والتعدیل" لابن ابی حاتم رحمة الله عليه ج2/ص260، "کتاب الجروحین" لابن حبان رحمة الله عليه ج1/ص339،"الکامل فی الضعفاء" لابن عدی رحمة الله عليه ج3/ترجمہ 1146، "میزان الاعتدال" للذہبی رحمة الله عليه ج2/ص175، "تہذیب التہذیب" لابن حجر رحمة الله عليه ج1/ص342، "تقریب التہذیب" لابن حجر رحمة الله عليه ج1/ص342، "الضعفاء والمتروکین" لابن الجوزی رحمة الله عليه ج2/ص6، "نصب الرایۃ" للذیلعی رحمة الله عليه ج1/ص205،293، ج2/ص412،420، "سنن الدارقطنی رحمة الله عليه" ج1/ص220، ج2/ص15 "ضعفاء الکبیر" للعقیلی رحمة الله عليه ج2/ص161، "مجمع الزوائد" للھیثمی" ج9/ص135، "التحقیق" لابن الجوزی رحمة الله عليه ج1/ص205.

5. "سوالات محمد بن عثمان رحمة الله عليه" ص54، "تاریخ یحییٰ بن معین رحمة الله عليه" ج4/ص107، 152،191،345، "التاریخ الکبیر" للبخاری رحمة الله عليه ج2/1ص392، "الجرح والتعدیل" لابن ابی حاتم رحمة الله عليه ج3/ص560-561، "ضعفاء الکبیر" للعقیلی رحمة الله عليه ج2/ص74، "الکامل فی الضعفاء" لابن عدی رحمة الله عليه 144، "کتاب الجروحین" لابن حبان رحمة الله عليه، ج1/ص309، "تہذیب التہذیب" لابن حجر رحمة الله عليه ج3/ص408، "تقریب التہذیب" لابن حجر رحمة الله عليه ج1/ص274۔ "کتاب الکنی" للمسلم رحمة الله عليه 56 "الکنی" للدولابی رحمة الله عليه ج1/ص160، "الکنی" للحاکم رحمة الله عليه ج1/ص120، "کشف الحثیث" للحلبی رحمة الله عليه ص187، "معرفۃ الثقات" للعجلی رحمة الله عليه ج1/ص378، "میزان الاعتدال" للذہبی رحمة الله عليه ج2/ص102، "الاکمال" ج3/ص216، "قانون الضعفاء" للغتنی رحمة الله عليه، ص257، "کتاب الضعفاء والمتروکین" لابن الجوزی رحمة الله عليه ج1/ص305، تہذیب تاریخ دمشق" لابن عساکر رحمة الله عليه ج6/ص5، من کلام ابن معین رحمة الله عليه فی الرجال ص40، "الباب فی معرفۃ الانشاب" لابن اثیر الجزیری رحمة الله عليه ج2/ص359-360 "الموضوعات" لابن الجوزی رحمة الله عليه ج3/ص215، "السنن الکبریٰ" للبیہقی رحمة الله عليه ج9/ص286، "تحفۃ الاحوذی" للمباکفوری رحمة الله عليه ج1/ص186، "تنزیۃ الشریعۃ" لابن عراق رحمة الله عليه ج1/ص62، "مجمع الزوائد" للہیثمی رحمة الله عليه ج5/ص126، "نصب الرایۃ" للذیلعی رحمة الله عليه ج1/29،28، ج3/ص289۔

6. سلسلۃ "الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ" الالبانی ج2/ص114۔

7. "المعجم الاوسط" للطبرانی، ص451۔

8. "تاریخ بغداد" للخطیب رحمة الله عليه ج12/480۔

9. "تاریخ یحییٰ بن معین رحمة الله عليه " ج4/ص123، "التاریخ الکبیر" للبخاری ج4/ص218، "ضعفاء الکبیر" للعقیلی رحمة الله عليه ج4/ص5، "کتاب الجرح والتعدیل" لابن ابی حاتم رحمة الله عليه ج3/ص152، "کتاب الجروحین" لابن حبان رحمة الله عليه ج2/ص223، "الکامل فی الضعفاء" لابن عدی رحمة الله عليه ج6/ترجمہ 2084، "کتاب الضعفاءوالمتروکین"للدارقطنی رحمة الله عليه ترجمہ 443، "الضعفاء والمتروکون" للنسائی رحمة الله عليه ترجمہ "کتاب الضعفاء و المتروکین" لابن الجوزی رحمة الله عليه ج3/ص23، "میزان الاعتدال" للذہبی رحمة الله عليه ج3/ص405، "تہذیب التہذیب" لابن حجر رحمة الله عليه ج8/ص417، "تقریب التہذیب" لابن حجر رحمة الله عليه ج2/ص132، "کشف الحثیث للحلبی رحمة الله عليه، ص340، "الموضوعات" لابن الجوزی رحمة الله عليه ج2ص263، "مجمع الزوائد" للہیثمی رحمة الله عليه ج7/ص175۔

10. "سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ الموضوعۃ" الالبانی ج2/ص144۔

11. "مجمع الزوائد للہیثمی ج10/ص110۔