"فرائض سے پہلوتہی، وطن عزیز کی بربادی"
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
جب بھی کوئی مورخ دنیا کی مختلف اقوام کے عروج و زوال کا تجربہ کرنے بیٹھتا ہے تو اسے جو چیز سر فہرست نظر آتی ہے وہ کسی قوم کی محنت اور جانفروشی ہے۔ جس قوم میں محنت ، جانفروشی اور اپنے فرائض کی خوش اسلوبی سے بجا آوری کا احساس جتنا زیادہ جاگزین ہوتا ہے اسی تناسب سے وہ عروج و اقتدار کے زینوں پر چڑھتی ہے اور بعد میں جوں جوں اس میں فرائض سے پہلو تہی اور ذمہ داری سے فرار کا رجحان بڑھتا ہے۔ توں توں اس کے زوال کی داستان شروع ہو جاتی ہے۔
اپنی ذمہ داری کا گہرا احساس اور فرائض کی بجا آوری کا شعور جہاں فرد کو ذاتی زندگی میں کامیابی کی ضمانت دیتا ہے وہاں اجتماعی زندگی میں بھی اقوال کو سرفراز کرتا ہے۔ کوئی قوم اسی وقت ہی اپنےعزائم کی تکمیل میں کامیاب ہو سکتی ہے جب قوم کے افراد وہ زندگی کے کسی شعبے میں بھی اُترے ہوں اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کریں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے ملت کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمْ) کہ "اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت آپ نہ بدلیں" چونکہ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے، لہذا افراد کی ذاتی زندگی میں کوشش، محنت اور فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا جذبہ پوری ملت کے لیے، نیک شگون اور کامیابی کا پیغامبر ہوتا ہے۔ لیکن جب افراد اپنے فرائض سے پہلو تہی برتنے لگیں، ذاتی غرض درمیان میں حائل ہو جائیں اوور اپنے ذاتی مفاد کی خاطر لوگ اجتماعی مفاد کو قربان کرنے لگیں تو یہی "قہر الہی" کو دعوت دینے والی باتیں ہیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ناپ تول میں کمی کی، تو ان کو دنیا سے نیست و نابود کر دیا گیا۔ قوم لوط علیہ السلام نے جب بے حیائی اور فحاشی کی روش کو اپنایا تو ان کی بستی ان پر الٹ دی گئی۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے ذاتی اغراض کی خاطر حضرت موسی علیہ السلام کو جھٹلایا تو کس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔ قوم بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی گستاخی و سرکشی کی بنا پر بارہا عذابِ الہی میں گرفتار ہوئی۔آج تک پیغمبروں اور رسولوں کی جناب میں گستاخی کرنے والوں کے قصے نشان عبرت بنے ہوئے ہیں اور تا قیامت بنے رہیں گے۔
افسوس تو یہ ہے کہ گزشتہ دور میں قہر الہی کا مرتکب ہونے والی قوموں کی تمام خامیاں اور علامات اس وقت ہم پاکستانی مسلمانوں میں موجود ہیں، اور ان میں سر فہرست اپنے فرائض سے پہلو تہی کا رجحان اور ذمہ داری سے فرار کا راستہ ہے۔
اسلام انسان کی اخلاقی تربیت اور معاشرے کی اجتماعی بہبود کا بہت زیادہ اہتمام کرتا ہے۔ اس کے لئے وہ اپنے ماننے والوں کے دلوں میں دیانتداری اور روز قیامت جوابدہی کا گہرا احساس پیدا کرتا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے لئے نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کا قیام و اہتمام بڑا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ بعینہ بنی نوع انسان کے لئے خٰر خواہی، ہمدردی، نیکی و خیر میں تعاون اور اپنے فرائض کو دیانتداری کے ساتھ ادا کرنے پر بڑا زور دیتا ہے۔ فرض کو تو اسلام نے امانت قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها﴿٥٨﴾... سورة النساء" بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں مستحق لوگوں تک پہنچاؤ۔ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ (لا ايمان لمن لا امانة له) " کہ جو شخص امانت ادا نہیں کرتا وہ ایمان سے خالی ہے"۔ پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی جو چار نشانیاں بتائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ امانت میں خیانت کرتا ہے۔
اسلامی شریعت میں لفظ "امانت" وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ ہر انسان زندگی کے کسی نہ کسی شعبہ سے متعلق ہوتا ہے اور اپنی زندگی گزارنے کے لئے اسے کچھ نہ کچھ اہتمام کرنا ہی پڑتا ہے، تو جو کوئی اپنے حصے کا کام جتنے اچھے انداز اور ذمہ داری سے نبھاتا ہے وہ اتنا ہی خدا کی نگاہ میں سرخرو اور قوم کی نگاہ میں معزز ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کر کے حقیقی خوشی و مسرت سے دوچار ہوتا ہے۔ اس کا یہی فرض اور یہی کارگردگی اس کے پاس قوم کی امانت ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے کام کو دیانتداری اور خدا خوفی سے انجام نہیں دیتا تو وہ امانت میں خیانت کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک، قوم کے نزدیک اور خود اپنے ضمیر کے نزدیک خیانت کار ہے۔ دفتر میں بیٹھنے والا سرکاری ملازم، شعبہ تعلیم سے منسلک اشاتذہ و طلبہ، گاہک و تاجر، آجر و مستاجر، عورت اور مرد غرض ہر انسان کو اسلام ذمہ دار قرار دیتا ہے اور ذمہ داری کا گہرا احساس اجاگر کرنے کے لئے خدا خوفی اور فکر آخرت کے ذریعے اخلاقی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(ألا كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته)
"سنو تم سب لوگ ذمہ دار ہو اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کی بابت سوال ہو گا"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرمان کی مزید وضاحت یوں فرمائی:
"حکمران عامۃ الناس کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کی بابت سوال ہو گا۔ ایک عام آدمی اپنے اہل و عیال کا نگہبان ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اولاد کی نگران ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس کا جوابدہ ہو گا۔ سنو ہر شخص ذمہ دار ہے اور وہ اپنی ذمہ داری کے بارے میں جوابدہ ہو گا۔
مگر اس سنہری تعلیم اور رہنما اصولوں کے برعکس اس وقت پاکستانی معاشرہ کی حالت دگرگوں ہے۔ لوگوں نے یہ روش اپنا لی ہے کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ بڑے بلنگ بانگ دعوؤں سے کرتے ہیں۔ مگر ان کے اپنے فرائض کے کھاتے میں کام چوری، غفلت اور کوتاہی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے خائن لوگوں کو اپنے انجام کے بارے میں غور کرنا چاہیے کہ وہ ایک طرف اپنی عاقبت برباد کر رہے ہیں تو دوسری طرف معاشرہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں اور قوم کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔آج کل تھوڑا کام کرنا اور زیادہ دولت بنانا بلکہ ناجائز فوائد حاصل کرنا ایک بہت بڑا فن سمجھ لیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین دفتروں میں گپ شپ لگا کر اور پارٹیاں اڑا کر زیادہ سے زیادہ الاؤنس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مزدور توڑ پھوڑ کر کے اور آئے دن کی ہڑتالوں سے اپنے طویل مطالبات کی فہرست منوانے پر مصر ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کی تربیت سے غافل ان کو پریپ اور نرسری میں ہی سکولوں کے حوالے کر کے اور گھر میں ٹی-وی کا بندوبست کر کے مطمئن ہیں۔ بنک سودی لین دین میں مشغول ہیں۔ حکام رعایا کی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے عیش و تکلفات کو پورا کرنا اور بلا شرکت غیرے اقتدار کا مالک بننا اپنی خوش نصیبی قرار دیتے ہیں، چاہے اس کے لئے قوم کو کتنا ہی جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑے۔ طلبہ ہیں کہ پڑھائی میں محنت نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ مفت کی ڈگریاں ہاتھ میں آ جائیں۔ اشاتذہ شاگردوں کو ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں اور اوقات کار کے درمیان تن دہی سے نہیں پڑھاتے۔ کلرک حضرات اور سرکاری افسر رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ پولیس والے رشوت لے کر خود جرائم کی نشوونما کراتے ہیں۔ غرضیکہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اپنے فرائض سے والہانہ عشق اور لگن معدوم ہو چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر قابل افسوس امر یہ ہے کہ قوم کے قائدین یعنی علماء و مشائخ اور حکمران و سیاستدان سب یک زبان ہو کر قوم کو یہ درس دیتے ہیں کہ پاکستان اور اہل پاکستان کی بقا و فلاح اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنانے اور اسے زندگی کے ہر شعبہ میں جاری و ساری کرنے میں ہے، مگر خود (باستثناء چند افراد) کے بڑے دھڑلے سے اسلام احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ غرض یہ ایک ہولناک منافقت ہے جو سارے معاشرے کے تاروپود بکھیرے جارہی ہے اور وطن عزیز کے لئے تباہی کی پیغامبر ثابت ہو رہی ہے۔ نیز یہ تباہی عظیم وطن کے دونوں محاذوں پر ہے یعنی اندرونی بھی اور بیرونی بھی۔ پہلے ہم مختصر طور پر اندرونی محاذ کا جائزہ لیں گے:
(1)قیام پاکستان کی جو تحریک برپا کی گئی تھی، اس کا عنوان تھا"پاکستان کا مطلب کیا لا إله إلا الله" دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ اور عوام نے مل کر اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لئے عظیم جدوجہد کی۔ لاکھوں جانی اور مالی قربانیاں پیش کر کے یہ مملکت خدادا د حاصل کی گئی۔ لہذا قیام پاکستان کے بعد قرار داد مقاصد منظور کی گئی۔ اگر پاکستان قرارداد مقاصد کا عملی نمونہ بن جاتا اور قرآن و سنت کے مطابق یہاں "نظام مملکت" چلتا تو پاکستان یقینا دنیا کو ایک نئے انقلاب سے روشناس کروسکتا تھا۔ مگر افسوس اس پر عمل ایک خواب ہی بنا رہا۔ پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتیں اسلام کا نام تو بہت لیتی رہیں، مگر "تہذیب مغرب" سے مرعوب ہونے کے باعث ان کے اعمال اور اقدامات اسلام احکام سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ قوم نے کئی بار شریعت بل منظور کروانے کی کوششیں کیں۔ مگر وہ بھی تا حال سرد خانے کا شکار ہے۔ بلکہ موجودہ حکومت تو کھلم کھلا اسلامی احکامات کا مضحکہ اڑا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اسلامی حکومت کے قیام کے جو فرائض بیان کئے ہیں یعنی نماز و روزہ کا نظام قائم کرنا (2) عدل وانصاف کا قیام (3) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نفاذ: یہ سارے فرائض ان حکمرانوں کی نگرانی میں پامال ہو رہے ہیں۔
اول تو اسلامی ریاست میں عورت کا حکمران بننا ہی محل نظر ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ "مساوات مرد و زن" کے نام پر بہت سے اسلام احکامات سے محاذ آرائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ سودی لین دین مسلسل جاری ہے۔ قمار خانے چل رہے ہیں اور ہمارا ریاستی قانون تا حال فرنگی اور غیر اسلامی ہے۔
(2) ہمارا دوسرا اہم مسئلہ ملی تشخص کی بحالی تھا، ضروری تھا کہ پاکستان بننے کے بعد قائدین اپنے ملی و قومی تشخص کو اجاگر کرتے۔ قومی لباس شلوار قمیص اور دوپٹہ ایک طرف ساتر لباس ہے، سستا ہے تو دوسری طرف دیدہ زیب اور باوقار بھی ہے۔ مغربی لباس کو ترک کر کے اس قوی لباس کو زیادہ سے زیادہ رواج دینا ہماری انسانیت اور حیاء کے بقا کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح قومی زبان بھی تشخص کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر افسوس 49 سال گزرنے کے باوجود "اردو" کو پاکستان میں وہ خاطر خواہ مقام نہیں دیا جا سکا جس کی وہ مستحق تھی۔ اس کے برعکس انگریزی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ ہمارے مرکزی وزیر تعلیم کا یہ بیان محل نظر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "پہلی جماعت سے انگریزی زبان اخیار کی جائے اور جہاں ذریعہ تعلیم اردو یا علاقائی زبان ہے وہاں انگریزی زبان زائد زبان کے طور پر پڑھائی جائے"
پہلی جماعت سے انگریزی زبان لازمی کرنے میں دینی، اخلاقی، تعلیمی اور معاشرتی لحاظ سے جو خرابیاں ہیں، افسوس اس مختصر مضمون میں ان کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ مختصر طور پر اس کو پاکستانی مسلمان قوم کے خلاف ایک سازش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
غیر ملکی وضع قطع اختیار کرنا، اہل مغرب کے سے نام رکھنا، عورتوں کے سروں سے بتدریج پہلے پردہ اور پھر دوپٹے غائب ہونا، مردوں کا گلوں میں ٹائیوں کا طوق پہننا اور ہندو ثقافت و کلچر اختیار کرنا، انڈین فحش فلمیں دیکھنا اور ان کے ثقافتی طائفوں کی پذیرائی کرنا کیا یہ سب کچھ وطن عزیز کی بربادی کا موجب نہیں؟
کجا کہ اپنے ملی تشخص کو بحال کر کے اہل پاکستان کا رشتہ دنیا کی عظیم مسلم ملت کے تابناک ماضی سے جوڑا جاتا، ان کے ذہنوں میں اپنے شاندار ماضی پر احساس تفاخر پیدا کیا جاتا، نئی نسل کو "نظریہ پاکستان" سے روشناس کرایا جاتا، ہندو کی مسلم دشمنی اور اسلام کے خلاف تعصب سے نئی نسل کو آگاہ کیا جاتا اور اہل مغرب کے اسلام دشمن رویہ اور صلیبی جنگوں والے تصادم اور تعصب سے پاکستان کی موجودہ نسل کو آگاہ کیا جاتا، مگر افسوس یہ سب کچھ نہیں ہو سکا۔
بے مقصد تعلیمی پالیسی:
کسی بھی قوم کے لئے کامیابی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اس کی تعلیمی پالیسی ہے۔ اگر تعلیمی پالیسی قومی امنگوں اور ملی تقاضوں کے مطابق ہو، ملکی تشخص کو اجاگر کرنے والی ہو تو قوم چند سالوں کے اندر اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیتی ہے۔ اسرائیل کی نظریاتی مملکت اور روس کی کمیونسٹ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی سب سے پہلے اپنی تعلیمی پالیسی کی طرف توجہ دی اور اپنے نظریہ کو انہوں نے عصری تعلیم کا بنیادی مرکز و محور بنا دیا۔ مگر ہمارے ہاں عرصہ دراز تک کوئی تعلیمی پالیسی نہ بن سکی اور آج بھی وطن عزیز میں سب سے زیادہ ناگفتہ بہ جس محکمہ کی کیفیت ہے وہ "محکمہ تعلیم" ہے۔ مختلف اوقات میں تعلیمی میدان میں جو بھی منصوبہ بندی کی گئی، مغرب کے پروردہ حکمرانوں نے وقتا فوقتا ان تعلیمی پالیسیوں پر اپنی اصلاحات کا آرا چلایا اور اس طرح انگریزی زبان کو بالا دست بنانے کی کوشش ہر دور میں جاری رہی۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ذہین طبقہ بھی انگریزی رٹتے رٹتے اپنی باقی صلاحیتیں بھی کھو بیٹھتا ہے۔ انگلش میڈیم سکولوں نے قومی تعلیمی پالیسی کو عملا ناکام بنا دیا ہے۔ ہر سطح پر انگریزی کی وجہ سے طلبہ کی اکثریت فیل ہو جاتی ہے۔ قوم کی تخلیقی قوتیں ٹھٹھر کر رہ گئی ہیں۔ "ریسرچ ورک عملا" نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دینی تعلیم، اعلیٰ ادب، سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ اسلام سے بیزار اور انگریزوں کے وفادار ہیں تو دوسری طرف وہ وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں سے غافل خود ہی برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کو تاریخ کا غلط فیصلہ قرار دینے پر مصر ہیں اور خدانخواستہ اس تقسیم کو دیوار برلن سے تشبیہ دے کر اس دیوار کو توڑنے کے درپے نظر آتے ہیں۔
تعصب:
دینی و نظریاتی تعلیم سے جدید نسل کو دور رکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف صوبوں میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو جوڑنے کا جو واحد ذریعہ اسلام تھا۔ اس پر سے لوگوں کا اعتقاد کمزار ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس کی جگہ صوبائی و لسانی تعصب بیدار ہونا شروع ہوا۔ امریکہ کی پچاس ریاستیں "انگریزی زبان واحد ذریعہ تعلیم" کے ذریعے آپس میں مربوط و پیوست ہیں۔ یورپ کامیاب مارکیٹ کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے اور اس وقت پاکستان میں مختلف صوبائی و لسانی فتنے جگائے جا رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کی عظیم ترین اسلامی مملکت تھا اور اسلام ہی کے رشتہ سے مضبوط و مستحکم تھا۔ مگر مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ نے مسلسل ہندو نوازی کا درس دیا اور بنگلہ دیش کا مسموم زہر ان کے دلوں میں انڈیلا بالآخر چشم فلک نے یہ عظیم سانحہ بھی دیکھا کہ صرف 23 سال کے بعد مشرقی بازو اس سے الگ ہو گیا اور بظاہر آزاد مگر درپردہ ہندوستان کا غلام "بنگلہ دیش" بن گیا اور تقریبا بانوے ہزار مسلمان فوجی ہندوستان کے ہاتھ گرفتار ہوئے لیکن "ادھر تم ادھر ہم" کا نعرہ لگا کر یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا گیا۔
سیاستدان اور علماء کرام کو اب بھی ہوش نہیں آیا، ہر کوئی (چند مخلص بزرگوں کو چھوڑ کر) اپنی لیڈری کی دکان چمکانے کے لئے عوام کو آپس میں لڑانے اور مختلف قسم کے لسانی و صوبائی تعصب کو ہوا دینے کے درپے ہے۔ اسی طرح اساتذہ نے اس سلسلے میں اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا کماحقہ ادراک نہ کیا۔ آج صوبہ سندھ کے حالات پورے پاکستان کے لئے باعث تشویش بنے ہوئے ہیں۔ وہاں سندھی اور غیر سندھی، مہاجر اور پنجابی کے مسائل بڑی شدت سے سلگ رہے ہیں اور دشمن ان فتنوں کو برابر بڑھکانے میں مصروف ہے۔ اس طرح انتشار اور انارکی برابر بڑھتی جا رہی ہے جو استحکام پاکستان کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے۔
(4) اسی طرح آج کل تشدد کی لہر بھی زوروں پر ہے۔ آئینی ذرائع سے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں دیر لگتی ہے۔ ذمہ دار حضرات دفتروں میں یا اپنے ڈیروں پر ملتے ہی نہیں۔ محنت اور جانفشانی کا راستہ چھوڑ کر تخریب کاری، توڑپھوڑم تشدد، کلاشنکوف کلچر، مار دھاڑ اور دن دہاڑے ڈاکے ڈال کر دولت کا حصول روزمرہ کا معمول بنتا جا رہا ہے۔تہذیب و شائستگی اور اعلیٰ اخلاقی قدریں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔
(5) ہمارے مالی مسائل بھی روز افزوں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ مالی وسائل سے نوازا ہے۔ یہ معدنیات سے بھری زمینیں، یہ سونا اگلتے کھیت، یہ پنجاب کا مثالی نہری نظام۔ مگر افسوس ارباب اقتدار نے مناسب منصوبہ بندی نہ کی۔ لہذا خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہو سکے۔ ویسے بھی عمدہ سے عمدہ منصوبہ بندی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے لوگ اگر مخلص نہ ہوں تو سنہری منصوبے بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، کچھ ایسا ہی حال ہمارا ہے۔
کراچی بہت بڑا صنعتی شہر ہے۔ مگر آج وہاں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر صنعتی زندگی تلپٹ ہو کر رہ گئی ہے۔ ملک میں اس وقت بے روزگاروں کی تعداد 50 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ملک پر اس وقت بیرونی قرضہ18 ارب ڈالر یعنی چھتیس (36) ہزار کروڑ روپے سے بھی متجاوز ہے۔ جس کا سالانہ سود ہی ایک ارب ڈالر یا 20 ارب بنتا ہے۔ اسی طرح اندرونی قرضہ جو بینکوں سے حکومتوں نے لے رکھا ہے وہ بھی 280 ارب روپے کے قریب ہے۔ پاکستان کی معیشت کو عالمی مالیاتی بینک اور امریکہ کے ہاں رہن رکھ دیا گیا ہے اور یہ بات مبنی برحقیقت ہے کہ معاشی محتاجی ذہنی غلامی کو جنم دیتی ہے۔ جو جسمانی غلامی سے کئی گنا زیادہ تباہ کن اور مہلک ہے۔ افسوس کہ خود کفالت کی پالیسی نہ اپنائی گئی۔ اگر چین ، جاپان کی طرح پاکستانی حکومت اپنے وسائل پر انحصار کرنا شروع کرتی، تو پوری قوم کے ساتھ مل کر عزم صمیم سے یہ مقصد باآسانی حاصل کر سکتی تھی۔ مگر "بسا آرزو کہ خاک شدہ" یہ قرضہ ہر آنے والے دن میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور پاکستانی معیشت مکمل طور پر امریکہ کے قبضہ میں آ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی حکومت مکمل طور پر امریکی مفادات کی حاشیہ بردار بن چکی ہے۔ اس قرضہ سے صرف حکمران طبقہ اپنا اور اپنی پارٹی کا پیٹ بھرتا ہے۔ جبکہ دیہات کی 72٪ غریب کسان آبادی نان شبینہ کی محتاج ہے۔ با اختیار لوگ عالیشان بنگلوں میں عیش اور ٹھاٹھ سے رہتے ہیں، جبکہ عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہے۔
(6) نئی جمہوری حکومت کے دور میں بے شمار لا ینحل مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ مرکزی و صوبائی حکومتوں کی کشمکش میں عوام پس رہے ہیں۔ ان کے کام رکے ہوئے ہیں۔ ترقیاتی کام بند پڑے ہیں۔ انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ جان و مال، عزت و آبرو کے عدم تحفظ کا احساس ہر شہری میں بڑھ رہا ہے۔ حکومتوں کی محاذ آرائی سے نہ عوام کا پیٹ بھر سکتا ہے، نہ جان و مال کا تحفظ فراہم ہو سکتا ہے بلکہ الٹا بدعنوانی، کرپشن، اندھا دھند قتل و غارت بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
اخلاقی زوال: منافقت قومی روگ بن چکی ہے۔ علماء و سیاستدان جو عوام کے قائم ہوتے ہیں اگر یہ "جاوہ استقامت" پر قائم رہیں تو عوام بھی صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہیں۔ لیکن اگر یہ اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں تو پورا معاشرہ تلپٹ ہو جاتا ہے۔ ایک بزرگ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر مجھے معلوم ہو کہ میری ایک دعا ضرور قبول ہو گی تو میں یہ دعا حاکم وقت کے حق میں کروں، مگر جب حاکم وقت کا "فرض منصبی" ہر حیلے بہانے سے اپنے اقتدار کی لوالت بن کر رہ جائے تو وہاں "ترقی معکوس" کے علاوہ کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
بیرونی محاذ پر پاکستان کا مسئلہ نمبر 1 "بھارت کے ساتھ تعلقات برابری کی سطح پر " ہے۔ بھارت نے پاکستان کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا اور اس کی ہر حکومت ہر طریقے سے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کوشاں رہی۔ ریاست گورداسپور، رن کچھ، کاٹھیا واڑ وغیرہ وقتا فوقتا ہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ "کشمیر" کو جسے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور جہاں پنجاب کے سارے دریاؤں کے منبع ہیں۔ اسی ریاست جموں و کشمیر کو بھارت اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور لالچ، ظلم و ستم، جوروتشدد ہر بہانے سے کشمیر پر رائے شماری کرانے سے گریز کرتا ہے۔ نیز وہ 71ء میں زبردست پروپیگنڈہ کے ذریعہ فوج کشی کر کے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
ہندو ہمیشہ سے "بغل میں چھری منہ میں رام رام" پر عمل کرتا رہا ہے۔ ایک طرف وہ پاکستان کے ساتھ ثقافتی معاہدے کرنے اور فنکاروں کے خیر سگالی دورے کرنے پر زور دیتا ہے۔ تو دوسری طرف ہر وقت پاکستان کے خلاف ہر پلیٹ فارم سے پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے۔ ہندوستان کے کسی علاقے میں ایک پتا بھی کھڑکتا ہے تو "چور مچائے شور" کے مصداق پاکستان کو اس کا ملزم قرار دیتا ہے، حالانکہ خود وہ پاکستان میں متعدد مقامات پر تخریب کاری کرنے اور اب سندھ کو پاکستان سے الگ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سیاچین کا مسئلہ الگ بھارت کے چہرے پر ایک سیاہ دھبہ ہے جس کی آڑ میں بھارت میں بڑی بے رحمی سے نہتے مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ سانحہ بھاگلپورمیں ہزاروں مسلمان تہ تیض کر دئیے گئے اور ان کے سینکڑوں گھروں اور دکانوں کو جلا دیا گیا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک 25000 سے زائد مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخی مسجد "بابری مسجد" کو مسمار کر کے اب رام جنم بھومی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں کی "جدوجہد آزادی" کو نہایت بے دردی سے کچلنے کی سازش کی جا رہی ہے، وولر بیراج تعمیر ہو رہے ہیں اور اسی طرح کے مزید آٹھ نو ڈیم بھارتی حکومت کے زیر غور ہیں تاکہ وہ بوقت ضرورت کبھی پانی روک کر اور کبھی فالتو پانی چھوڑ کر ہر طرح سے پاکستان کی معیشت کو ناکارہ اور عبث بنا سکے۔ اوپر سے بھارتی حکومت نہایت میٹھی بن کر بھارتی ثقافتی طائفوں کو امن اور محبت کا پیامبر بنا کر ہمارے پاس بھیجنا چاہتی ہے اور اس کے جواب میں اب ہماری حکومت کشمیر کے تنازعے کو نظر انداز کر کے اور وولر بیراج کی تعمیر کی اجازت دے کر پاکستان کے مفادات کا سودا کر رہی ہے اور اس طرح پاکستان پر تباہی و بربادی کے مسلسل نقش ثبت کئے جا رہے ہیں۔
مزید درج ذیل بین الاقوامی مسائل سے پاکستانی حکومت مجرمانہ غفلت برت رہی ہے:
1۔ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی وطن عزیز میں آبادی کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔
2۔ "مسلمانان ہند" سے پاکستان غیر متعلق نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کا یہ سرفہرست مسئلہ ہونا چاہیے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں پر بھارت کے بہیمانہ سلوک کو ہر بین الاقوامی کانفرنس خصوصا اسلامی کانفرنسوں میں اٹھائے اور بھارت کو ان بائیس کروڑ مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ پر مجبور کر دے۔
3۔ پاکستانی حکومت صحیح افغان پالیسی کی حمایت جاری رکھے اور افغانستان کی حکومت کو اسلامی اخوت اور انسانیت کی بنیادوں پر تسلیم کرے، نیز افغان مجاہدین کی تیرہ چودہ سالہ جدوجہد اور کشمکش کو اور ساتھ ہی پاکستان نے اس ضمن میں جو اپنا کردار ادا کیا ہے اس کو برباد ہونے سے محفوظ رکھتے ہوئے اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچائے۔ اگر اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت برتی گئی تو تاریخ حکومت پاکستان کی اس غلطی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
وہ افغان مجاہدین جنہوں نے اپنی بےسروسامانی کے باوجود دنیا کی ایک سپر پاور کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا اور ان کی بے مثال جدوجہد نے پوری دنیا کی مظلوم و محکوم قوموں کو جذبہ حریت و آزادی عطا کیا ہے۔ ان کے ساتھ یکجہتی اختیار کرنا لازمی ہے۔
4۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کشمیر میں جہاد کی تحریک زوروں پر ہے۔ "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعروں سے پورا کشمیر گونج رہا ہے۔ ویسے بھی کشمیر دینی، تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور معاشی ہر پہلو سے پاکستان سے پیوستہ ہے۔ اس کے بغیر پاکستان ادھورا ہے۔ اہل پاکستان کو اس سنہری تاریخی موقعہ پر اپنے کشمیری بھائیوں کی پوری مدد کرنی چاہیے۔ اور اگر خدانخواستہ یہ موقع نکل گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور پاکستانی حکومت و اہل وطن کی یہ مجرمانہ غفلت انہیں عظیم تباہی سے دوچار کر دے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش میں آئیں اور کشمیر کے سلسلے میں اپنی اخلاقی اور مادی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کر کے پاکستان کی تکمیل کریں
(اللهم ثبت أقدامنا وانصرنا علي القوم الكفرين)
اس وقت انتظامیہ ، عدلیہ، افسر شاہی، جاگیردار اوور وڈیرے اور تمام بااختیار طبقے اپنے فرائض سے مجموعی طور پر غافل ذاتی اغراض پوری کرنے میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے کہ سب اس تاریخی لمحہ میں اپنی صحیح روش اختیار کر کے تاریخ کی نظر میں بھی سرخرو ہوں اور اللہ جل شانہ کے عذاب سے بھی بچ سکیں۔