سلام کی اہمیت ، فضیلت اور آداب
مذاہب عالم میں سلام کا تصور
دنیا کی ہر قوم میں ملاقا ت کا ایک طریقہ اور سلیقہ موجود ہے ،عیسائی جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اگر سر پر ٹوپی یا ہیٹ ہو تو اسے اٹھا کر تھوڑا سا جھکا کر کہتے ہیں good morning ,good evening , good by, یہودیوں کے ہاں سلام کا طریقہ وہی ہے جو عام طور پر سکائوٹوں اور ملٹری میں رائج ہے ۔دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں اکٹھی کر کے پیشانی تک لانا اور نیچے سے کھٹاک سے پائوں مارنا ۔ ہندو ملاقات کے وقت دونوں ہاتھ جوڑ کر پیشانی تک لا تے ہیں اور زبان سے لفظ " نمستے '' ادا کرتے ہیں ۔ سکھ ملاقا ت کےوقت "ست سری اکال " کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کے وقت ایک دوسرے کو ٍحباک اللہ ، حباک اللہ بالخیر اور یا انعم صباحا کے الفاظاستعمال کرتے تھے ۔(اللہ تجھے زندہ رکھے ، اللہ تجھے بھلائی سے زندہ رکھے ،تمہاری صبح نعمت والی ہو)۔اآج کل عرب ممالک میں صباح النور اور مساء النور کے الفاظ ملاقات کے وقت مستعمل ہیں ۔
حقیقت میں ابتدائے آفرینش سے ہی انسان کو سلام کا طریقہ سکھایا گیا ۔حضرت آدم علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو اللہ تعالی نے ان سے کہا :آدم !کچھ فرشتے بیٹھے ہوئے ہیں ،انہیں جا کر سلام کہو ،حضرت آدم علیہ السلام نے انہیں جا کر السلام علیکم کہا ، فرشتوں نے جواب دیا : وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ ۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام قیامت تک تیری ذریت (اولاد ) کا یہی سلام ہو گا
جونہی پیغمبرو ں کی یہ تعلیمات معاشرے سے مٹنا شروع ہوئیں، سلام کا یہ طریقہ بھی جہالت کی وجہ سے کئی صورتیں بدلتا رہا ۔بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب ایک دوسرے کو" حباک اللہ '' کے الفاظ سے زندگی کی دعا دیا کرتے تھے ،چونکہ عربوں میں جنگ و جدال ہر لمحہ ہر آن جاری رہتا تھا،اس لیئے ایک دوسرے کو زندگی کی دعا دیتے تھے۔بقول حالی مرحوم
کہیں پانی پینے پلانے پر جھگڑا کہیں گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا
یونہی ہوتی رہتی تھی تکرار ان میں یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
اکثرو بیشتر حملے قافلوں پر اس وقت ہوتے تھے جب وہ صبح کی میٹھی نیند سوئے ہوتے تھے ۔متاع زندگی بہت ارزاع تھی ،اس لیئےعربوں کی مجبوری بن گئی تھی کہ وہ اپنی اس قیمتی متاع کے لیئے ایک دوسرے کو زندگی کی دعا دیتے تھے یا "صبح کی نعمت والی " ہونے کی دعا دیتے تھے ۔ قرآن مجید کی سورہ نساء میں عربوں کے انہیں معروف الفاظ کی بنیاد پر یہ حکم آیا :
﴿وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُدّوها ۗ ... ﴿٨٦﴾...سوةر النساء
"اور جب تمہیں کوئی سلام کہے تو اسے سلام کا بہتر جواب دو یا کم سے کم اتنا ہی ضرور لوٹا دو"
تحیہ : سلام کے معروف معنوں میں آج بھی مستعمل ہے ۔
سلام کے معا نی
سلام سے مراد دراصل سلامتی ، امن اور عا فیت ہے ۔ سلامتی میں انسان کی ساری زندگی اس کے معمولات ، تجارت ، اس کی زراعت اور اس کے عزیزو اقا رب گویا معاشرتی زندگی کے سب پہلو ، دین دنیا اور آخرت شامل ہوتے ہیں ۔
امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ نے المفردات میں لکھا ہے :
السلام التعري من الآفات الظاهرة والباطنة
" یعنی ظاہری اور باطنی آفات و مصائب سے محفوظ رہنا"
پس جب ہم کسی کو "اسلام علیکم " کہتے ہیں تو اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ " تم جسمانی ،
ذہنی اور روحا نی طور پر عافیت میں رہو "تمہاری دنیا اور آخرت کی زندگی کے تمام معمولات اور انجام ،امن اور عافیت والے ہوں ۔رسول الرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث اس مفہوم کو یوں واضح کرتی ہے :
المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده
"صحیح معنوں میں مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان امن اور عافیت میں رہیں ۔"
عربوں کے سلام پر ایک لحظہ غور کیجئے "حیاک اللہ " کا معنی اللہ تعالی تمہیں زندہ رکھے ۔
شریعت میں زندگی کی ایسی دعا کبھی نہیں مانگی گئی۔اگر ایسی دعا سے کسی انسان کی زندگی کا سو سال یا اس سے اوپر ہو جائے اور وہ زندگی مصائب و آلام سے عبارت ہو ،انسان بڑھاپے کی ایسی منزل کو جا پہنچے جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی:
اللهم اني اعوذبك من ارذل العمر
"اے اللہ تعالی میں رذیل عمر سے تیری پناہ چاہتا ہوں "
تو ایسی زندگی سے موت انسان کے لیے بہتر ہے ۔معاشرے میں ایسے بہت سے انسان دیکھنے کو اب بھی ملتے ہیں جن کے بارے میں انسان مجبور ہو کر اللہ تعالی سے یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ !اسے اس مصیبت سے نجات عطا فرما ۔پر خلوص دعا ؤ ں کے نتیجے میں لمبی زندگی مل بھی جائے تو یاد رہنا چاہئے کہ ایسی زندگی انسان کے لیے نعمت نہیں بلکہ مصیبت اور زحمت ہوتی ہے ۔پھر رشتہ دار اور عزیزو اقارب بھی ایسے انسان کے لیے موت کی دعا ئیں مانگتے ہیں ۔قرآن مجید نے بہت خوبصورت بات کہی : (وَمَن نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِى ٱلْخَلْقِ ۖ) اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں ،اسے خلقت میں اوندھا کر دیتے ہیں ۔زندگی کی اگر دعا دینا ہو تو یوں کہنا چاہئے کہ اللہ تعا لی تمہاری عمر میں برکت عطا فرمائے ۔(بارك الله في عمرك) یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ زندگی تو انسان کی اس دن لکھ دی گئی تھی جب انسان اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ کا تھا ۔فرمان الہٰی ہے :
﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذا جاءَ أَجَلُهُم لا يَستَأخِرونَ ساعَةً ۖ وَلا يَستَقدِمونَ ﴿٣٤﴾... سورة الاعراف
"ہر ایک امت کے لیئے (موت ) کا وقت مقرر ہےجب ان کا وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی دیر نہیں کر سکتے اور نہ جلدی کر سکتے ہیں ۔"
بعض لوگ یوں دعا دیتے ہیں کہ اللہ تعالی تمہیں عمر نوح علیہ السلام یا خضر علیہ السلام عطا فرمائے ۔ شاعر نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے :
مجھے زندگی کی دعا دینے والے
تیرے خلوص کو نیند آ گئی تو کیا ہو
سلام کی اہمیت
"سلام " کے لیئے جو کلمات حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک بتائے گئے وہ یہ ہیں :السلام علیکم (تم پر سلامتی ہو) ،وعلیکم السلام (اور تم پر بھی سلامتی ہو ) یہ کلمات اتنے جامع ہیں کہ اس میں انسان کی ساری زندگی کا احاطہ ہو جاتا ہے ۔زندگی انسان کی دو دن ،یا چار دن یا سو سال کی ہو ،ایک مسلمان بھائی اپنے مسلمان بھائی کے لیے یہ دعا کرتا ہے کہ "اللہ تعالی ٰ کرے تمہاری زندگی کے یہ دن سلامتی سے بسر ہوں "مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات ہو،رنج و الم تمہارے نزدیک نہ پھٹکنے پائے ۔جیسےقرآن کہتا ہے کہ انسان کی آزمائش بھوک اور افلاس سے ہوتی ہے ،
کسی ظالم اور جابر بادشاہ کا خوف مسلط کر کے بھی ،انسان کے مال اور جان میں کمی سے بھی،کھیتوں اور باغات میں بیماریوں اور آسمانی آفات کے ذریعے بھی تو گویا "السلام علیکم " ایسی سب آزمائشوں سے انسان کو محفوظ رکھنے کی دعا ہے ۔ اس دعا کا صرف دینوی زندگی پر اطلاق نہیں ہوتا بلکہ آخرت کی زندگی بھی اس میں شامل ہے ۔گویا دونوں جہانوں کی سلامتی مقصود ہوتی ہے ۔قرآن مجید کے غائر معالعہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اللہ تعالی ٰ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں لفظ "سلامتی " سے یاد کرنے کے ناطے سے ان پیغمبروں کی مصیبتیں اور پریشانیاں دور ہو گئیں :
﴿سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ ﴿٥٨﴾...سورۃ یٰس
"پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائے گا)"
یعنی سلامتی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کلمہ ہے جو انسانوں کی مصیبتوں کو دور کرتا ہے۔حضرت نوح علیہ السلام پر جب مشکل وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ ﴿٧٩﴾...سورة الصافات
"تمام جہانوں میں نوح پر سلامتی ہو" دوسری جگہ فرمایا:
﴿قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ...٤٨﴾...سورة هود
"حکم ہوا ،اے نوح !ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ اتر جاؤ "
جب زمین پانی اگل رہی تھی ،آسمان سے موسلا دھار باش جاری تھی ۔اس طوفانی دھارے میں جبکہ سب پہاڑوں کی چوٹیاں زیر آب آچکی تھیں ،تو اگر حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ان متلاطم موجوں پر سلامت تھی تو دراصل یہ اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام تھا جو لفظ سلامتی کے ناطے سے حضرت نوح علیہ السلام کو پہنچا تھا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام پر زندگی میں سب سے مشکل وقت وہ تھا جب نمرود نے آپ کو آگ میں ڈالا ، اللہ تعالی ٰ کی طرف سے فوراََ "پیغام سلامتی "پہنچا :
﴿قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ﴿٦٩﴾...سورة الانبياء
"ہم نے حکم دیا ،اے آگ !تو سردہو جا اور ابراہیم کے لیئے موجب سلامتی بن جا !"
حضرت یحییٰ کی پیدائش پر اللہ جل شانہ کی طرف سے "پیغام سلامتی "یوں سنایا گیا:
اور جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وفات پا ئیں گے اور جس دن زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ان پر سلام اور رحمت ہے"
بن باپ پیداہونے کے ناطے سے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازک وقت آیا تو ان کی زبان پر اللہ تعالی ٰ کی طرف سے سلامتی کا اعلان اس طرح ہوا:
﴿وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾...سورة مريم
اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مجھے موت آئے گی اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤگا مجھ پر سلام اور رحمت ہے۔
فرعون جیسے ظالم اور جابر بادشاہ کے دربار میں جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام گئے تو اللہ تعالی ٰ نے انہیں سلامتی کا پیغام سنایا :
﴿سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿١٢٠﴾...سورة الصافات
"موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام پر سلام ہو "
حضرت الیاس علیہ السلام پر سلامتی کا اعلان اس طرح ہوا:
﴿سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ﴿١٣٠﴾...سورة الصافات "اور الیاسین پر سلام ہو"
اللہ جل شانہ نے تمام پیغمبروں کو سلامتی سے نوازا ، فرمایا :
﴿وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴿١٨١﴾...سورة الصافات "پیغمبروں پر سلام ہو"
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دائمی سلامتی کا اعلان اس طرح ہو ا:
﴿إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾...سورة الاحزاب
"اللہ جل شانہ اور اس کے فرشتے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ،اے اہل ایمان !تم بھی پیغمبر صلی علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کرو"
ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ جب بھی کسی پیغمبر پر مشکل وقت آیا ،اللہ تعالی ٰ نے اسے لفظ "سلامتی "سے نوازا ۔لہٰذا "سلام "دراصل دین و دنیا اور آخرت کی سلامتی کا ضامن ہے۔اس لئے تمام مسلمانوں کو ملاقات کے وقت ایک دوسرے کی سلامتی کی دعا مانگنے کا حکم دیا گیا۔تاکہ مسلمان ہر قسم کے مصائب و آلام سے دنیا میں امن رہے اور اس کی
اخروی زندگی بھی سلامتی سے ہمکنار ہو۔
سلام کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیدائش آدم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیا ،یہ دنیا کی ہر شریعت میں معمول رہا ، نبی اکرم صلی علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ طیبہ کی گلیوں میں اونٹوں پر سوار تبلیغ کا سب سے پہلا یہ جملہ تھا :
(يا ايها الناس افشو السلام... تدخلو الجنة بسلام)
"اے لوگوسلام کو عام کرو ۔تم جنت میں سلامتی سے داخل ہو جاؤ گے "
سلام کرنے کی حکمت
سلا م سے انسان ایک دوسرے کے قریب آتا ہے ۔باہم پیارو محبت پیدا ہوتی ہے۔
رسول اکرم صلی علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا تدخلون الجنة حتي تومنوا ولا تومنوا حتي تحابوا الا ادلكم علي شئي اذا فعلتموه تحاببتم افشوا السلام بينكم
"تم اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک ایمان نہ لاؤ گے اور اس وقت تک مومن نہ ہو گے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو گے کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤ ں کہ جس ہر عمل کرنے سے تم باہم محبت کرنے لگو :یہ کے سلام کو خوب پھیلاؤ"
دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
"ان افضل الاعمال اطعام الطعام وتقرا السلام علي من عرفت ومن لم تعرف"
"سب سے افضل ترین عمل کھانا کھلانا اور تو ہر ا س آدمی (مسلمان ) کو سلام کہے جسے تو جانتا ہے اور جسے تو نہیں جانتا"
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب چلتے ہوئے راستے میں کوئی درخت یا کوئی ٹیلہ ایسا آجاتا تو وہ دائیں بائیں سے گزرنے کے بعد ملتے وقت ایک دوسرے کو "سلام "کہتے تھے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كان اصحاب رسول الله يتماشون فاذا لقتيهم شجرة او اكمة تفرقوا يمينا وشمالا فاذا التقوا من ورآئها يسلم بعضهم علي بعض
سنن ابی داؤد کی حدیث میں ہے :
اذا لقي احدكم اخاه فليسلم عليه فان حالت بينهما شجرة او جدار او حجر ثم لقيه فليسلم عليه.
جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے ساتھی کو ملے ، اسے چاہیے کہ اپنے ساتھی کو سلام کہے ،
اگر درمیان میں کوئی درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہو جائے ،تو پھر (بھی ) ملاقات پر اپنے ساتھی کو سلام کہے "
حدیث میں یہ بھی آیا ہے :
اذا قعد احدكم فليسلم واذا قام فليسلم
"جب تم میں سے کوئی مجلس میں آ کر بیٹھے تو (پھر ) سلام کہے اور جب رخصت ہونے کے لیے اٹھے تو سلام کہے ۔"
عرب ممالک خصوصا ََ سعودی عرب میں ان احادیث پر عمل روز مرہ کے معمولات میں داخل ہے ۔ یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ایک آدمی گلاصاف کرنے کے لئے بھی مجلس سے اٹھا تو واپسی اس نے سلام کہا ۔
ہمارے ہاں یہ مسائل عوام کے علم میں نہیں ہیں ۔لہٰذا ہمارے ہاں صرف اس آدمی کو کہا جاتا ہے جس سے واقفیت ہو ،اجنبی ادمی کو ہم سلام نہیں کہتے ،جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلقین فرمائی ۔کہ افضل عمل یہ ہے کہ تو ہر اس آدمی کو سلام کہے جسے تو جانتا ہے اور جسے تو نہیں جانتا ۔قرآن مجید میں اس بات کا تذکرہ کثرت سے موجود ہے کہ جنت کی بولی سلام ،سلام ہو گی اور جنت کے داروغے اہل ایمان کو خوشخبریا ں سنائیں گے :
﴿وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ﴿٧٣﴾...سورة الزمر
"تو داروغہ جنت ان سے کہے گا ۔تم پر سلام ہو ،تم بہت اچھے رہے ۔اب اس میں ہمیشہ کے لیئے داخل ہو جاؤ۔"
﴿ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ ﴿٣٤﴾... سورة ق
اس (جنت ) میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔"
﴿وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ...٤٦﴾ ...سورة الأعراف
"تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔"
﴿دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ...١٠﴾...سورة يونس
"جب وہ ان کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو بے ساختہ کہیں گے "سبحان اللہ "اور آپس میں ان کی دعا "سلام " ہو گی"۔
(لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا ﴿٢٥﴾ إِلَّا قِيلًا سَلَـٰمًا سَلَـٰمًا ﴿٢٦﴾)
"وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ،وہاں ان کا کلام سلام ،سلام ہو گا۔"
(سَلَـٰمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى ٱلدَّارِ)
(کہیں گے ) تم پر سلامتی یہ تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر بہت خوب ہے۔"
(خَـٰلِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَـٰمٌ)
اپنے پروردگار کے حکم سے ہمیشہ ان (باغات )میں رہیں گے وہاں ان کا ملنا سلام ،سلام ہو گا۔"
﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿٤٥﴾ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ﴿٤٦﴾...سورة الحجر
"جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے ۔ان سے کہا جائے گا کہ ان میں سلامتی سے داخل ہو جاؤ۔"
﴿يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٣٢﴾...سورة النحل
"فرشتے بوقت نزع مسلمانوں کو یہ خوشخبری سناتے ہیں ۔"
وہ "اسلام علیکم " کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو عمل تم کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں بہشت میں داخل ہو جاؤ۔"
ہماری نماز بھی سلام سے بے نیاز نہیں ہے ۔(یعنی نماز کا اختتام السلام علیکم و رحمتہ اللہ دائیں ،بائیں کہنے سے ہوتا ہے ) ہم تشہد میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ، تمام صالحین کے لیے اور اپنے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہیں :
"التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلي عبادالله الصالحين"
" تمام عبادتیں ،سا ری دعائیں اور پاکیزہ کلمات اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں ۔اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پر سلام ہو اور اللہ جل شانہ کی رحمت اور اس کی برکتیں آپ صلی علیہ وسلم پر نازل ہوں ،سلام ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں پربھی ہو۔"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام نیک بندوں کے لئے سلامتی کا پیغام یوں قرآن میں آیا ہے:
﴿قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ...٥٩﴾...سورة النمل
"آپ صلی علیہ وسلم کہہ دیجیے سب تعریف اللہ جل شانہ ہی کو سزا وار ہے اور اس کے منتخب بندوں پر سلام ہے۔"دوسری جگہ فرمایا:
﴿تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا ﴿٤٤﴾...سورة الأحزاب
" جس روز وہ ان سے ملیں گے ان کا تحفہ (اللہ کی طرف سے ) سلام ہو گا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیئے بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔"اور جگہ فرمایا :
﴿أُولَـٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا ﴿٧٥﴾...سورة الفرقان
"ان کے صبر کی وجہ سے انہیں بالا خانہ عطا کئے جائیں گے اور انہیں دعا اور سلام کے تحفے ملیں گے۔"
"سلام " اللہ تعالیٰ کےناموں میں سے ایک نام بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی سلامتی اور عافیت کا سر چشمہ ہے ،اس لئے ہر نماز کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگنے کا حکم فرمایا :
اللهم انت السلام ومنك السلام تباركت يا ذالجلال والاكرام.
"اے اللہ!تو سلامتی کا منبع ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے ، اے عزت اور بزرگی کے مالک تیری ذات ہی با برکت ہے۔"
ان آیات و احادیث کا احاطہ بہت مشکل ہے جن میں سلام کی اہمیت بیان ہوئی ہے ۔ معلوم ہوا کہ جنت ہر طرف سلامتی ہی سلامتی کی صدائیں ہوں گی تو پھر کیوں نہ ہم دنیا میں بھی انہی کی صداؤں کو عام کریں ۔
سلام کے آداب
قرآن و سنت نے صرف "سلام " کی اہمیت ہی بیان نہیں کی بلکہ " سلام " کے آداب کی طرف بھی ہماری رہنمائی کی ہے ۔ سورہ نساء میں فرمایا :
﴿وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا...٨٦﴾...سورة النساء
"اور جب تمہیں کوئی ایک "سلام " کہے تو تم اس کے سلام کا بہتر انداز سے جواب دو یا کم از کماتنا ہی لوٹا دو ۔بےشک اللہ جل شانہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ۔"
اس سے مفسرین نے استنباط کیا ہے کہ سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے ۔
لیکن بعض محدثین نے ان احادیث سے جن میں سلام کہنے کا حکم ہے مثلاََ"افشواالسلام" "ان تقراالسلام علی من عرفت و من لم تعرف "اور "فسلم علیه"سے استدلال کیا ہے کہ چونکہ یہ قولی احادیث ہیں اس لئے "سلام " کرنا واجب بھی ہے۔
سلام کا بہتر جواب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !سلام کا بہتر جواب کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو آدمی آپ کو "السلام علیکم " کہے ،آپ اسے یوں جواب دیں " وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ" اگر کوئی آپ کو "السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہے " تو آپ اس کو جواب دیں "وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ " تو صحابہ نے عرض کیا اگر کوئی اس طرح کرے "السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ " تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :چونکہ اس نے آپ کے لئے فضیلت کا کوئی کلمہ نہیں چھوڑا ،لہٰذا آپ اسے کہیں "وعلیکم "(یعنی جتنا سلام تم نے مجھے کیا اتنا ہی آپ پر ہو۔
(نوٹ)"متعدد ضعیف احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ "و رحمتہ اللہ و برکاتہ " کے بعد
"مغفرتہ "وغیرہ کا اضافہ بھی ہے۔
چھوٹا بڑے کو سلام کرے
حدیث میں ہے :
"کہ چھوٹے پر لازم ہے کہ وہ اپنے سے بڑے کو سلام کہے اور جو آدمی پیدل چل رہا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ بیٹھے ہوئے کو سلام کہے جو تعدادمیں تھوڑے ہوں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ کو سلام کہیں ،اور مسلم شریف کی روایت میں آیا ہے کہ سوار پیدل کو سلام کہے ۔"
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ومن لم يوقر كبيرنا ولم يرحم صغيرنا فليس منا.
"اور جو آدمی اپنے سے بڑے کا احترام نہیں کرتا ااور چھوٹے پر رحم نہیں کرتا وہ ہماری امت کا فرد نہیں "
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ چھوٹوں پر بڑوں کا احترام لازم ہے ،اسی لیئے چھوٹوں پر لازم کیا گیا کہ وہ بڑوں کو "سلام " کہیں ۔لیکن چھوٹے بچوں کی تربیت کے لئے یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ بڑے چھوٹوں کو سلام کہیں ۔اس طرح ان کی سلام کی عادت پختہ ہو گی اور وہ خود بڑوں کو احترام میں انہیں "سلام " کرنے میں پہل کریں گے ۔
سوا ر پیدل کو سلام کہے
فرمایا :"پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور سوار پیدل کو سلام کہے "
اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بیٹھنے والے کو کبھی آنے والے شخض سے ضرر (نقصان وغیرہ )کا خطرہ ہو سکتا ہے تو سلام کہنے سے ضرر (یعنی تکلیف ) کا خطرہ جاتا رہے گا۔
ماہرین نفسیات نے کہا کہ "جو آدمی جتنی حرکت میں ہوتا ہے اس کا دماغ اتنی ہی ااونچی پرواز کرتا ہے "تو اس لیے ایسے آدمی کے سر میں سمائے ہوئے" غرور " کو نکالنے کے لئے یہ حکم دیا :"پیدل چلنے والا بیٹھے کو اور سوار پیدل کو سلام کہے"تاکہ اس کے دماغ میں اگر کوئی غرور کی بو ہےتو نکل جائے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
البادي بالسلام بري من الكبر.
"سلام میں پہل کرنے والا فخروغرور سے بری ہے ۔"
1۔اگر پیدل چلنے والے اور دو سوار باہم ملیں تو جو آدمی دین و شریعت کے لحاظ سے مقام و مرتبے میں بلند ہے تو پھر دوسرے آدمی کو چاہیئے کہ وہ اسے سلام کہے ۔کیونکہ شریعت میں دینی مقام کا احترام اور لحاظ لازم ہے۔ یہی سلام کی حکمت ہے۔اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کے احترام کا حکم دیا ۔فرمایا :"قومواالی سیدکم۔"
2۔اگر دو ملاقات کرنے والے مقام و مرتبے میں برابر ہوں تو حدیث میں آتا ہے کہ"وخيرهما الذي يندا بالسلام" (بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں : "الماشيان اذا اجتمعا فايهما بدا بالسلام فهو افضل" (دو پیدل چلنے والے جب آپس میں ملاقات کریں تو سلام میں پہل کرنے والا افضل ہے)
ترمزی شریف میں ہے: "ان اولي الناس بالله من بدا بالسلام"
(لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ بہتر ہے جو سلام میں پہل کرے )
حسن اور طبرانی میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا کہ اے اللہ تعالیٰ کے نبی !جب ہم ملاقات کریں تو "سلام " میں کون پہل کرے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اطوعكم لله تعالي" (جو تم میں سے اللہ تعالی ٰ کا زیادہ فرمانبردار ہے)
3۔سوار پیدل کو "سلام " کہے ":
موجودہ دور کے اعتبار سے اس کی تشریح یوں کی جا سکتی ہے کہ جو آدمی جتنی بڑی سواری پر سوار ہو اتنا ہی اس کا سر فخر سے بلند ہو سکتا ہے ،اس لیے بڑی گاڑی کا سوار کار کے سوار کو سلام میں پہل کرے ،کار کا سوار موٹر سائیکل کے سوار کو سلام میں پہل کرے ،موٹر سائیکل سوار سائیکل سوار کو سلام میں پہل کرے ،اسی طرح ااونٹ پر سوار گھوڑے پر سوار کو آدمی کو سلام میں پہل کرے،تاکہ دفاع کا فتور جاتا رہےااور یہی سلام کا مقصد ہے۔
اگر جماعت کی طرف سے ایک آدمی اونچی آواز سے سلام کہے تو ساری جماعت کے لیے کافی ہو جاتا ہے،دوسری طرف سے بھی اگر ایک آدمی جواب اونچی اواز سے دے تو جماعت کی طرف سے کافی ہو جاتا ہے ۔اسی طرح تعداد میں کم لوگوں کو اپنے سے زیادہ لوگوں کو سلام کا جو حکم دیا تو اس کی وجہ "اکرام جماعت "ہے ۔اسے محدثین نے "سنت کفایہ "قرار دیا ہے،یہ صورت بھی "فرض کفایہ " کی طرح ہے۔جیسے نماز جنازہ میں گھر کا ایک فرد شریک ہو تو سب کی طرف سے نماز جنازہ ادا ہو جاتی ہے۔اسی طرح جماعت میں سے ایک آدمی کے سلام کہنے اور ایک آدمی کے جواب دینے سے پوری ھو جائے گی ۔مگر یاد رہے کہ اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ باقی جماعت بالکل خاموش رہے ،
اگر سارے سلام کہیں اور سب جواب دیں تو یہ اولیٰ اور افضل ہے۔
غیر مسلموں کو سلام
اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) کو سلام کہنے میں پہل نہیں کرنی چاہیے،اس کا سبب یہ ہے کہ سلام سلامتی کی دعا ہے ،امن اور عافیت کا پیغام ہے جو غیر مسلموں کے لیےجائز نہیں ۔اگر کسی مخلوط محفل میں مسلمان ،مشرک ،بتوں کے پجاری ،یہودی اور عیسائی اکھٹے موجود ہوں تو سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ان رسول الله مربمجلس فيه اخلاط من المسلمين والمشركين عبدة الاوثان واليهود فسلم عليه.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر اہل کتاب تمہیں راستے میں سلام کہنے میں پہل کریں تو تم انہیں "وعلیکم "کہہ دو "اذا سلم عليكم اهل الكتاب فقولوا وعليكم"
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اذا سلم عليكم اليهود فانما يقول احدهم السام عليك فقل وعليك"
"جب تمہیں یہود "سلام "کہیں تو ان میں سے اگر کوئی یہ کہے "السلام علیک " (تم پر ہلاکت ہو )تو "وعلیک "کہہ دو۔"
جمہور ائمہ کا خیال ہے کہ اہل کتاب کو سلام کی ابتدا کرنا جائز نہیں ،لیکن شافعیہ کے مطابق سلام میں پہل جائز ہے اور صرف "السلام علیکم "کہے ،ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کا یہی مذہب ہے ۔قا ضی عیاض رحمہ اللہ نے ایک جماعت سے بیان کیا ہے کہ ضرورت اور حاجت کے وقت سلام میں پہل جائز ہے مگر "رحمتہ اللہ " کے الفاظ نہ کہے۔ یہ جو فرمایا انہیں تنگ راستے سے گزرنے پر مجبور کرو ، تو یہ اسلام کی سر فرازی
(supremacy) کا مسئلہ ہے ،اسلام زمانے میں دبنے کے لیے نہیں آیا ،فرمان الہٰی ہے:
﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ...٣٣﴾...سورة التوبة
کا تقاضا ہے کہ اسلام کا یہ مقام اور مرتبہ دنیا پر عیاں ہو ۔نیز یہ صورت ایسے معاشرے میں وجود پزیر ہو سکتی ہے جہاں مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مشترکہ رہائش ہو اور مسلمان حکمران ہوں ۔لیکن اگر یہود و نصاریٰ مہمان کی حیثیت سے ملک میں آئیں تو مہمان کے احترام کے ناطے سے ان سے یہ سلوک نہیں کرنا چائیے ۔نجران کے عیسائیوں کا وفد جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھرایا اور خود ان کی میزبانی فرماتے رہے۔لہٰذا ہمارے ہاں اگر کوئی وفد آجائے تو اس کا معنی یہ نہیں کے انہیں تنگ راستوں سے گزرنے پر مجبور کر دیا جائے ۔
گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام کہنا
آداب سلام میں سے یہ بھی ہے کہ گھر میں داخل ہوتے وقت اور گھر سے نکلتے وقت اہل و عیال کو "سلام " کہنا چاہئے۔ سورہ نور میں ارشاد ہے۔
﴿فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً...٦١﴾...سورة النور
"جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے گھر والوں کو سلام کہو،یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے"
شریعت کا یہ حکم ہے کہ اپنے گھروں کے علاوہ جب کسی جب کسی دوسرے کے گھر جانا مقصود ہو تو بلااجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہو،اور اجازت مانگنے کا سلیقہ یہ ہے کہ دروازے سے باہر کھڑے ہو کر گھر والوں کو اونچی آواز سے سلام کہا جائے،جس کے الفاظ یہ ہوں :السلام و علیکم یا اہل البیت "فرمان باری ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٢٧﴾...سورة النور
"اے ایمان والوں اپنے گھروں کے سوا جب دوسروں کے گھرں میں جانا مقصود ہواو اہل خانہ سے اجازت لیے بغیر اور ان کو "سلام " کہے بغیر داخل نہ ہو اکرو،یہ بات تمہارےحق میں بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو"
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے یا غیر کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے "سلام "کرنا ضروری ہے۔بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کے اگر گھر میں کوئی آدمی موجود نہ ھو تو بھی سلام کہنا چاہئے،اس لیئے کہ فرشتے اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں :
()
طبرانی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگر مسافر کے دل میں یہ گمان ہو کے وہ بیٹھے ہوئے آدمی کو سلام کہے گا تو وہ اس کا جواب نہیں دے گااسے چاہیے کے اپنا یہ گمان چھوڑ دے اورسلام کہے ۔ہو سکتا ہے کے اس کا گمان غلط ہو ،اور اگر وہ اسے سلام کا جواب نہیں دے گا تو فرشتے اس کو جواب دیں گے اور یہ جو کہا گیا ہے کے جس آدمی کو یہ گمان ہوکہ جسے وہ سلام کہے گا اور وہ اس کا جواب نہیں دے گا تو اس کو سلام نہیں کہنا چایئے،اس کا سبب غالباَََََ دوسرے آدمی کو گناہ سے بچانا ہے۔لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ۔
کیونکہ ایسی باتوں پر شرعی حکم کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ابن دقیق العبد رحمہ اللہ کا بھی یہ خیال ہے کہ ایک مسلمان کو جو سلام کا جواب نیہں دینا چاہے،گناہمیں گھسیٹنا سلام کی مصلحت سے زیادہ سخت ترین ہے ۔
کن لوگوں کو سلام نہیں کرنا چاہئے
سلام کے آداب میں امام نووی رحمہ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ کھانے اور پینے میں مصروف بیت الخلا یا حمام میں داخل ،سوئے ہوئے نماز میں مصروف اور ازان دینے والے کو سلام نہیں کرنا چاہئے۔بیت الخلا یا حمام میں موجود آدمی کو اس وقت تک جواب دینے کی ضرورت نہیں جب تک وہ تہبند نا باندھ لے(یہ اس صورت میں ہے جب کسی نے اس پر سلام کہہ دیا ہو)خطبہ جمعہ میں سلام کہنے کو مکروہ سمجھا گیا ہے ۔ کیونکہ جمعہ کاخطبہ خاموشی سے سننا ضروری ہے۔اگر کوئی سلام کہے تو اس کا جواب دینا واجب نہیں۔اسی طرح تلاوت قرآن مجید میں مشغول آدمی کے بارے میں واحدی کا قول ہے کہ بہتر یہ ہے کہ اس کو سلام نہ کیا جائے اور اگر کوئی اس کو سلام کہہ دے تو تلاوت کرنے والا صرف اشارے سے جواب دے،لیکن اگر وہ "و علیکم السلام " کہہ کر جواب دے تو اسے چاہہئے کہ پھر اعوذ باللہ پڑھ کر تلاوت شروع کرے۔بہر صورت اس میں علما کا اختلاف ہے۔امام نووی رحمہ اللہ کا خیال یہ ہے کہ اس کو سلام کہنا بھی جائز ہے اور اس کو "سلام " کا جواب دینا بھی واجب ہے۔
غصے میں کیا کرنا چاہئے
یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے غصہ آتا ہےاور بسا اوقات دوستوں ، بھائیوں کا آپس میں اختلاف بھی ہوتا ہے۔اس اختلاف سے ایک دوسرے سے بول چال اور گفتگو ختم ہو جاتی ہے ،ایسی صورت حال میں سلام کرنا تو در کنار انسان سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتا ،شریعت نے انسان کی اس نفسیا ت کا لحاظ رکھا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلث ليال' يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذي يبدا بالسلام"
کسی مسلمان کے لیئے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلام کرے،کہ وہ دونوں آپس میں ملتے ہیں ایک اس طرف منہ پھعر لیتا ہے اور دوسرا اس طرف منہ پھیر لیتا ہے اور دوسرا اس طرف منہ پھیر لیتا ہے ، اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ھے جو سلام میں پہل کرے۔"
گویا شریعت نے تعن دن رات تک بائیکاٹ کی اجازت دی اور پھر اس آدمی کو بہتر قرار دیا جو سلام میں پہل کرتا ہے ۔کیونکہ سلام کا جواب دینے سے غصہ جاتا رہتا ہے ۔فقہا نے تین دن رات تک بائی کی حکمت اس طرح بیان کی ہے کہ پہلے دن غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے ، دوسرے روز رجوع پیدا ہوتا ہے اور تیسرے دن وہ اپنے بھائی سے معزرت کر لیتا ہے۔لیکن تعن دن سے زیادہ غصہ حرام ہے عام طور پر معاشرے میں غصے اور ناراضگی کی یہی دلیل ہوتی ہے کہ آپ سلام کہیں اور وہ آپ کو جواب نہ دے ۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : روٹھے ہوئے بھائی کی طرف رجوع کرنا دراصل اسے سلام کرنا ہے ۔"
مصافحہ
سلام سے اگلا قدم مصافحہ ہے ، عام طور پر مصافحہ کا معنی دو بھائیوں کا آپس میں ہاتھ ملاتے ہوئے سلام کرنا ہے ۔یہ زیادہ محبت اور پیار کی دلیل ہے اگر لفظ مصافحہ پر غور کیا جائے تو یہ باب مفاملہ ہے ۔اس سے مراد باہم ایک دوسرے سے در گزر کرنا ہے ۔امام راغب رحمہ اللہ نے صفہ کا معنی ترک تشريب یعنی الزام وغیرہ چھوڑ دینا کیا ہے ۔صفح کا معنی کنارہ کش ہونا ،الزام سے در گزر کرنا ،دل کی کدورتوں ،نفرتوں ، بغض ، حسد اور عناد کو دل کی گہرائیوں سے نکال دینے کا دوسرا نام ہے ۔ قرآن مجید میں آتا ہے : (فَٱعْفُوا۟ وَٱصْفَحُوا۟) " تم معاف کر دو اور در گزر کر دو۔"
نیز صفح کو عفو سے زیادہ بلیغ مانا گیا ہے ۔پس سلام کے ساتھ ساتھ دو بھائیوں کا آپس میں "مصافحہ " کرنا بلا شبہ زیادہ پیارو محبت کی دلیل ہے ،اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" مامن مسلمين يلتقيان فيتصافحان الا غفرلهما قبل ان يتفرقا".
"اگر دو مسلمان آپس میں ملتے ہوئے اخوت دینی کی بنا پر مصافحہ کریں تو وہ جدا ہونے سے پہلے بخش دیئے جاتے ہیں ۔
پس ہمیں چاہیئے اظہار محبت کے ساتھ ساتھ "مصافحہ " بھی کریں ۔
معانقہ
"سلام "اور "مصافحہ"کے ساتھ ساتھ اسلام نے اظہار محبت کا ایک اور طریقہ
"معانقہ " بھی سکھایا ہے ،معانقے سے مراد سلام کہتے ہوئے گردن سے گردن ملانا ہے ۔جب کوئی شخص مدت کے بعد ملے یا لمبے سفر سے لوٹےتو اس کے ساتھ اظہار محبت کے لئے آپس میں گلے ملنا (معانقہ ) بھی جائز ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ مدینہ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف فرما تھے ،انہوں نے دروازے پر دستک
دی ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کرتا اتارا ہواتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کو گلے لگایا اور چوما: (پی ڈی ایف صفحہ 74) اسی طرح جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ہجرت حبشہ سے واپس تشریف لائے تو "فالتزمه وقبل ما بين عينيه" (حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے چمٹ گئے اور آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا ۔)
عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ محض فیشن یا رسم و رواج کی صورت "سام علیکم " اور جواب میں "سام علیکم " کہتے ہیں جو کسی صورت میں بھی شریعت میں جائز نہیں ، کیونکہ "سام " کا معنی ہلاکت و تباہی ہے ۔یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چال بازی کیا کرتے تھے ،اس لیے مسلمان پر لازم ہے کے وہ واضح طور پر "السلام علیکم " کہے اور جواب دینے والے پر واجب ہے کہ مسنون الفاظ "وعلیکم السلام " کہے ۔
ہاں اگر دو بھائی وفر جذبات میں ایک دوسرے کو سلام میں پہل کرتے ہیں تو پھر دونو ں کو " وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و بر کا تہ " بھی کہہ دینا چاہئے۔والله تعالي والي التوفيق
سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ ﴿٥٨﴾