مارچ 1996ء

علمائے اہلحدیث کا سانحہ ارتحال

(1)


پاسبان مسلک اہلحدیث اور قوم کا عظیم سرمایہ جو کہ ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہو گئے،

علم کے گوہر اور مدبرانہ صلاحیتوں کی مالک وہ مسلک حقہ کی روح رواں شخصیات چند ہی ہفتو ں میں جماعت کو یتیم کر گئیں ۔ ابھی ایک "غم بساط" اکٹھی بھی نہیں ہوتی تھی تو دوسری دل فرسا خبر سنی جاتی رہی، جن کے غموں سے مرکزی جمعیت اہلحدیث کی کمر ٹیٹرھی ہو کر رہ گئی ہے۔ ان شخصیات کی رحلت سے پیدا ہونے والا یہ خلا مدتوں پر نہیں ہو سکتا ہے۔ کچھ دن قبل ہی یہ روح فرسا خبر سنی کہ حضرت مولانا شیخ الحدیث سلطان محمود رحمۃ اللہ ہم کو محرورم کر کے مالک حقیقی کو جا ملے ہیں۔ یہ خبر سن کر بہت صدمہ ہوا، باوجود اس کے راقم کو شیخ الحدیث رحمۃ اللہ سے شرف ملاقات نہ تھا، لیکن قدرتی طور پر ان کے نام اور علم و فضل کی وجہ سے ان سے محبت تھی، جب بھی ان کا آتا تو سر فخر سے اونچا ہو جاتا کہ الحمد اللہ ہم میں اتنے بڑے شیخ الحدیث موجود ہیں جن کی تعریف اپنوں کے علاوہ ناقد بھی کرتے ہیں۔

چند ہی دن ہی گزرے تھ کہ جماعت کے سرخیل ، علم کے عظیم آفتاب اور شیخ عرب وعجم علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کی خبر پاکستان سے محترم پروفیسر عبداللہ ناصر رحمانی نے ٹیلیفون پر جناب عارف جاوید محمد ی کو دی۔ انہوں نے اسی وقت میرے ساتھ رابطہ کیا ور بذریعہ ٹیلیفون مجھے خبر دی، جس کا آنا فانا عرب دوستوں کو بھی پتہ چل گیا ۔ میں نے عرب دوستوں کو بھی سخت افسردہ اور غم میں ڈوبا ہوا دیکھا۔ جو شیخ العرب والعجم کے بہت مداح تھے۔ ان یکے بعد دیگرے دونوں خبروں نے بہت غمگین کیا۔ اس وقت شدید احساس ہور ہا ہے۔ کہ ہم قحط الرجال کے دو رمیں ہیں کیونکہ اب انگلیوں پر بھی گنتی سے ایسے بزرگ نہیں ملتے کہ جو ہمارے درمیان موجود ہوں۔

یہ علم کے عظیم گوہر تھے جو کہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ہم سے گم ہوگئے اور ایسی صلاحیتیوں کے مالک بیک وقت محدث ، مدرس ، مناظر و مقرر تھے اور جن کے علمی تبحر کے اغیار بھی متعرف تھے۔

دو سال قبل جب محدث العصر سید بدیع الدین کویت تشریف لائے اور انہوں نے جہاں عربوں کے علاوہ ہمیں بھی اپنے دروس سے مستفید کیا اور شرف زیارت بخشا، وہاں کئی ایک محاصرات عربی اور اردو زبان میں بھی ہوئے۔

حضرت شاہ راشدی نے فی البدیہہ خطابات سے جس طرح عربوں کو متاثر کیا یہ ان کا ہی خاصہ تھا۔ عرب حضرت شاہ صاحب کے بہت مداح ہوئے باوجود اس کے کہ وہ پہلے ہی سے شاہ صاحب کے مدح خواں تھے۔ لیکن اب بالمشافہ سننے سے جو ان پر اثر ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ میں نے کئی عرب دوستوں کو یہ کہتے سنا کہ سبحان اللہ شیخ بدیع فی الواقع ایک عظیم محدث ہے جو بغیر کتاب کے عربی عبارتوں کو اس طرح پڑھتے ہیں ویسا تو عرب بھی نہیں پڑھ سکتے۔ عربوں کے علاوہ یہاں پاکستانی اور ہندی حنفی لوگ بھی متاثر ہوئے۔ آپ کم گو تھے لیکن سوال کا جواب بروقت اور مدلل دیتے تھے اور ہر حدیث کو باحوالہ پیش کرتے او ر دوسرے فرقہ کی کتب کے صفحات تک بتاتے۔

آپ ایک مدبر سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ با اخلاق ، خوش مزاج اور حق بات کہنے کے عادی تھے۔ جماعتی معاملات کے بارے میں بڑی کھلی سوچ کے مالک تھے۔ گفتگو میں شائستگی اور اخلاص میں پختگی کا یہ عالم تھا کہ وہ جو شخص آپ کے حلقہ میں ایک مرتبہ آتا تو آپ ہی کاہو کر رہ جاتا۔ آپ کے چہرہ سے رعب کی کرنیں نمایاں رہتی تھیں۔ جس سے بڑے بڑے لوگو بھی خائف تھے اور آپ سے با ت کرتے وقت لرزتے تھے۔

ابھی کویت کی "مسجد شائع" میں سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ کی غائبانہ جنازہ ادا کیے ایک ہی دن گزارتھا کہ دوسرے دن ایک اور دل فرسا خبر پڑھی۔ جس سے جماعتی خلا کا احساس شدید تر ہو گیا۔

آہ! مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ناظم اعلیٰ میان فضل حق بھی ہم کو داغ مفارقت دے گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!

وہ صحیح افکار، گہری سوچ اور ہمیشہ مسلک حقہ کی تڑپ رکھنے والے عظیم قائد تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کو جماعتی سر گرمیوں کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اپنی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے ہمیشہ مرکزی جمعیت اہلحدیث کی باگ دوڑ بڑی عقل و فراست کے ساتھ سنبھالے رکھی اور جماعت کو ایک دور سے نکال کر ایک نئے دور میں داخل کر دیا ۔ جس سے جماعتی زندگی کو ایک نئی روح ملی اور ایک نیا ولولہ میسر آیا۔ یہ سب کچھ ان کے اخلاص کی وجہ سے تھا کہ ہر دور میں وہ اپنے آپ کو جماعتی امور میں پیش پیش رکھتے اور ساری زندگی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ساتھ وابستہ رہے۔ ہمیشہ جمعیت اہلحدیث کی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ انہوں نے جمعیت کے لیے اپنے دامے، درمے ، سخنے، قدمے وقف کر رکھے تھے۔ ان کے حسن اخلاق کایہ عالم تھا کہ وہ دوسرں کے لیے عزت و احترام کو اپنے دل میں جگہ دیتے تھے۔ نیز حاجت مندوں کی مالی کفالت کرنا، رشتہ داروں سے نیک سلوک ، لوگوں کی عزت و آبرو کا تحفظ ، مظلوم کی دستگیری کرنا جیسی صفات ان کی عملی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں۔

مہمان نوازی خصوصاََ ان کا طرہ امتیاز تھا اور ان بے پایاں اوصاف کی وجہ سے اغیار بھی ان کے گرویدہ ہو چکے تھے خوش اخلاقی ، مہمان نوازی اور اعتدال پسندی کا یہ عالم تھا۔ کہ ہر فرد یہ سمجھتا تھا کہ میرا ان کے ساتھ سب سے زیادہ تعلق ہے،مگر حقیقی معنوں میں وہ ہر ایک کے دوست تھے اور پختہ اوصاف کی وجہ سے ہر کسی کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔

آہ! ایک اور علمی شخصیت شیخ الحدیث حضرت مولانا داؤ د انور جس کی دلدوز خبر موقر مجلہ "اہلحدیث" سے پڑھی اور ساتھ ہی حضرت مولانا عبدالرحمن کیلانی کی وفات کی خبر نے بھی دل کو ہلا کر رکھ دیا کہ االلہ تعالیٰ اس طرح علم کے میناروں کو اپنے پاس بلا رہا ہے۔ جنہوں نے اپنی زندگی میں علم کے چراغ روشن کیے ہوئے تھے جن سے انسانیت اپنی گم کردہ راہ تلاش کر رہی تھی اور یہ ایسا ہی ہو رہا تھا کہ ابھی ایک بساط تعزیت ختم نہیں ہوتی تھی تو دوسرے سانحہ سے دو چار ہو جاتے ۔ اسی طرح حضرت مولانا محمدخالد راسخ کی جدانی بھی ایک المیہ سے کم نہ تھی۔

اللہ تعالیٰ مرحومین کو کروٹ کروٹ اپنی رحمتوں او ر بخششوں سے اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ اس عظیم سیل غم میں جناب مولانا عبدالرحمن مدنی اور جناب میاں نعیم الرحمین طاہر اور دیگر تمام لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین


(2)

مولانا عبدالرحمن عاجز


مسلک اہلحدیث کے داعی اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سرخیل میاں فضل حق کی وفات حسرت آیات کی اطلاع موصول ہوئی۔ اس اچانک المناک خبر سے قبل حزیں پر جو گزری۔ اس کی تصویر بنوک قلم صفحہ قرطاس پر مرتسم نہیں کی جا سکتی۔ آپ نے رقم اور قدم سے دین اسلام کی جو خدمت کی ہے اس کا اندازہ نا ممکن ہے۔ جامعہ سلفیہ فیصل آباد آپ کی زندہ یاد گار ہے۔ اس میں آپ کا بہت سا مالی حصہ شامل ہے۔ جماعت اہلحدیث کی مالی مشکلات میں آپ عموماََ تعاون فرماتے رہے ہیں۔ دامے، درمے ،قدمے، سخنے آپ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مال بھی بہت دیا تھا۔ آپ راہ خدا میں خرچ بھی بہت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور آپ کا یہ عمل جنت الفردوس میں "بلندی درجات" کا ذریعہ بن جائے۔ رب کائنات پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے اور آپ کے نقش قدم پر گامزن ہونے کا شرف عطا فرمائے۔

دوسری اندوہناک خبر یہ ملی کہ علامہ سید بدیع الدین شاہ بھی دنیائے دوں س عالم آخرت کی طرف رحلت فرما گئے (رحمۃ اللہ علیہ ) آپ علم دین کے دریا تھے، بہت ساری کتابیں تصنیف فرمائیں۔ آپ علمائے حرمین میں بھی بخوبی متعارف تھے۔ آپ کی وفات سے انہیں بھی دلی قلق ہوا:

ہے علم ہی اللہ کے نبیوں کی وراثت

یہ علم ہی اللہ کے ولیوں کی ہے ثروت

ہوتی ہے جہاں علم شریعت کی اشاعت

آتی ہے وہاں جھوم کے اللہ کی رحمت

ہو سکتی نہیں علم کی دولت پر قناعت

اک علم ہے جائز ہے جہاں رشک و رقابت

وہ دل نہیں جنت ہے جو ہے علم سے روشن

وہ گھر نہیں دوزخ ہے کہ ہے جس میں جہالت

اک عالم دین کا ہے دہن نافہ آہو

کھلتا ہے وہ جس وقت بکھر جاتی ہے نگہت

مرجاتا ہے جو علم کی تحصیل میں عاجز

اللہ سے پاتا ہے مقامات شہادت


اللہ تعالیٰ آپ کو خلد برٰیں میں انبیاء و اولیاء ، شہداء و اتقیاء اور اصفیاء و علما کی صحبت نصیب فرمائے اور ہم سب کو بھی ،اور وہاں اپنے دیدار رشک بہار سے بھی متمتع فرمائے جو جملہ " نعیم جنت" سے اعلیٰ وبالا ہے ۔ انسان قانون الہیٰ کی زنجیر میں جکڑا ہوا موت کی دہلیز پر پڑا ہوا ہے۔

کل شئی ہالک قانون ہے اللہ کا

جس میں مضمر ہیں ، رموز انقلاب زندگی

حیف، چھاتا جا رہا ہے ، رہگزاروں پر دھواں

ہائے ڈھلتا جا رہا ہے آفتاب زندگی

گر رہی ہےکس طرح بن بن کے ہر موج حیات

مٹ رہا ہے کیسے بن بن کر حباب زندگی

اختتام زندگی اور موت پر ؟ ممکن نہیں

موت تو خود کھولنے آتی ہے بابت زندگی

قلزم ہستی کی گہرائی میں عاجز ڈوب کر

موت سے تو کر رہا ہے اکتساب زندگی

جانا ہی جب یاد نہیں پھر آنا بھی ناکام گیا

آنے والا جائے گا آخر صبح گیا یا شام گیا


ان سے پہلے مولانا بشیر احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کتب خانہ لاہور اچانک وفات پا گئے ۔ وہ فیصل آباد تشریف لا کر مجھے گھر پر مل کر گئے۔ لاہور پہنچ کر دوسرے روز سفر آخرت پر چل پڑے۔ میرے اپنے بے شمار رشتہ دار ، یا رو غمخوار اس فانی دنیا سے منہ موڑ گئے اور ہم گنہگاروں سے تعلق توڑ گئے۔ محلوں کےمحلے خالی ہوئگے۔ اچانک اموات کے ان گنت واقعات روزانہ ہو رہے ہیں۔ آنکھیں دیکھ رہی ہیں، کان سن رہے ہیں، اخبارات میں پڑھ رہے ہیں، عبرت ،عبرت، عربت، فعتاََ کر آگیا تجھ کو پیام الواداع۔ دفتعاََ یہ کیا ہوا تو دیکھتا رہ جائے گا۔یہ ضروری نہیں کہ موت بستر پر آئے گی اور توبہ کی مہلت مل جائے گی۔ موت اچانک بھی آتی ہے اور توبہ کی مہلت بھی ملتی:

﴿وَمَا تَدْرِ‌ي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِ‌ي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْ‌ضٍ تَمُوتُ...٣٤﴾...سورة لقمان
"کسی نفس کو خبر نہیں کل اسے لیا پروگرام پیش آجائے گا اور کسی نفس کو علم نہیں کہ اس کی موت زمین کے کسی حصہ پر آئے گی"

(إذا اراد لله قبض عبد بأرض فأتى بها حاجة) الحديث

" جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی روح زمین کے کسی حصہ پر قبض کرنا چاہتا ہے تو وہاں پہنچنے کے لیے اسے کوئی حاجت پیش آجاتی ہے"

کچھ دنوں کی بات ہے مسجد الحرام میں نماز مغرب کے بعد چند نوجوان خوبصورت چہرے والے حطیم کے پیچھے کھڑے تھے۔ میں بھی ان کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ، سلام کےبعد پوچھا: آپ کہا ں کے رہنے والے ہیں ؟ کہنے لگے: ہم جزائر کے باشندے ہیں۔ میں نے پھر ان سےکہا هل رائيتم الحياة؟ ؟ کیا آپ نے زندگی دیکھی ہے؟ اس کا کیا رنگ ہے۔ وہ کہاں رہتی ہے او ر اس کا گھر کیسا ہے؟ وہ میرے اس سوال پر حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ گئے اور خاموش ہو گئے۔ میں نے پھر یہی سوال کیا وہ پھر چپ چاپ کھڑے رہے ۔ میں نے پھر "سورۃ الملک" کی یہ آیت تلاوت کی (ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْمَوْتَ وَٱلْحَيَو‌ٰةَ) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا۔ پھر میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ کیوں فرمایا ، اس نے موت پیدا کی اور زندگی؟ کیا موت زندگی سےپہلے ہے یا زندگی موت سے پہلے ہے؟ کچھ دیر سکوت کے بعد ان میں سے ایک نوجوان بولا میں اس آیت کا مفہوم سمجھ گیا ہوں، اس زندگی کے لیے بقا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک مہلت ہے آخرت کی تیاری کے لیے ۔ فالحياة حياة الآخرة ليس لها انقطاع" زندگی توآخرت ہی کی ہے جو کبھی ختم نہ ہو گی۔

﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْ‌جَعُونَ ﴿ 57﴾...سورۃ العنکبوت

"ہر ذی روح کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ پھر تم سب کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے" ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَ‌كُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ ... ﴿185﴾...سورۃ آل عمران"ہر ذی روح کو ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اس کے بعد قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دتمہیں دیا جائے گا" ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَ‌كُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ... ﴿88﴾...سورۃ القصص "ہر شے فانی ہے بجز اس کی ذات پاک کے" ﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَ‌بِّكَ ذُو ٱلْجَلَـٰلِ وَٱلْإِكْرَ‌امِ ﴿٢٧﴾) (سورۃ الرحمن :26-27) "زمین پر جو کچھ بھی ہے سب فنا ہونے والا ہے صرف آپ کے پروردگار کی ذات عظمت و احسان باقی رہنے والی ہے، وہ وقت بھی آئے گا ہر زرہ فنا ہو گا، جس دم نہ کوئی ہو گا اس دم بھی خدا ہو گا،

یہ دنیا ہے رہے گا کون باقی۔ خدا باقی ہے اور سب کو فنا ہے۔ موت سب کے لیے مقدر ہے۔ ﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ...٣٠﴾...سورة الزمر" بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ سب لوگ بھی مرنے والے ہیں"

"فانك وياه‘ في اعداد الموتي لان كل ما هو آت آت" "آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور یہ سب لوگ مردوں میں شمارہوتے ہیں ہو۔ اس لیے کہ وہ چیز جو آنے والی ہے (موت) وہ آنے والی ہے۔ (پی ڈی ایف صفحہ 100)

موت سے فرار نا ممکن ہے۔﴿قُل لَّن يَنفَعَكُمُ ٱلْفِرَ‌ارُ‌ إِن فَرَ‌رْ‌تُم مِّنَ ٱلْمَوْتِ أَوِ ٱلْقَتْلِ ...﴿16﴾...سورۃ الاحزاب "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ موت یا جہاد میں قتل ہونے سے بھاگنا کچھ فائدہ نہ دے گا موت کا وقت مقرر ہے"﴿وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ كِتَـٰبًا مُّؤَجَّلًا ... 145﴾...سورۃ آل عمران" اللہ کے حکم کے بغیر کوئی جان مر نہیں سکتی، ہر ایک کے لیے موت کا ایک وقت مقرر ہے" اس معیاد مقرر کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ۔

ہولناک سفر

موت کے بعد آخرت کا سفر نہایت کٹھن اور خوفنا ک ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہے "الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت" "عقلمند ہے وہ جو اپنے نفس کو (برائی سے) روک کر رکھتا ہے اور موت کے بعد (آخرت) کے لیے تیاری کر رہا ہے، آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو گوہا کہ تم کل مرنے والے ہو۔

عن انس عن النبي صلي الله عليه وسلم "اصلحو الدنيا واعملو اآخرتكم كانكم تموتون غذا" (كنز العمال‘ ج15ص547-552)

"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دنیا بھی سنوارو اور آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو گویا کہ تم کل مرنے والے ہو"

آہ اے عاجز دم آخر مجھے آیا یقین

زندگی کا میرا ہر لمحہ کفن بردوش تھا

قارئین کرام ! میری عمر76سال کی ہو گئی ہے ، کفن بردوش قبر کےکنارے کھڑا ہوں آپ میرے لیے دعا فرمائیں"رب الرحیم" میرے گناہ معاف فرمائے اور اپنے دین کی خدمت کے لیے صحت کےساتھ میری عمر طویل کر دے اور ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے اور جنت الفردوس میں جمع فرمائے۔ آمین