فتاوی

الف: معلّق طلاق .......... اور
ب : حاملہ عورت سے نکاح کا حکم
محدّث کےایک قاری نے دارالافتاء کے نام ایک سوالنامہ روانہ کرکےاس کا جواب طلب کیاہے۔اصل سوال عربی میں ہے۔ افادہ عوام کی غرض سے یہ سوال مع جواب اُردو زبان میں شامل اشاعت ہے۔ سوال درج ذیل ہے:

(الف) معلّق طلاق :
ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دی او رعدت کے اندر رجوع کرلیا۔ لیکن بیوی پر یہ شرط عائد کی کہ اگر تو نے میری اجازت کے بغیر الماری کھولی تو تجھے طلاق۔پھر ایک ماہ بعد اسے الماری کھولنے کی مطلقاً اجازت دے دی۔

اجازت ملنے کے بعد عورت نے کہا کہ میں نےایک بار آپ کی اجازت کے بغیر الماری کھولی تھی مگر مجھے اچھی طرح یا دنہیں کہ آپ کی اجازت سے پہلے یا بعد؟ پھر خاوند نے اس عورت پر ایک اور شرط لگائی کہ اگر وہ اپنے بھائی سے بولی تو اسے طلاق۔ اور وہ عورت اپنے بھائی سے بول پڑی۔

پھر اس پر شرط لگائی کہ اگر میری اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلی تو تجھے طلاق۔ عورت نے کہا کہ بعض اوقات کسی مجبوری کے تحت گھر سے باہر جانا ہی پڑتا ہے، لہٰذا گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دے دیں۔

خاوند نے اسے مطلقاً اجازت دے دی، جبکہ اس کے دل میں یہ نیت تھی کہ یہ اجازت صرف اہم امور کےلیے دے رہا ہوں۔ مثلاً بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے ہاں جانا وغیرہ۔ لیکن ایک روز ان کا آپس میں جھگڑا ہوگیاتو غصے کے عالم میں عورت گھر سے باہر چلی گئی۔

پھر اس شخص نے عورت پر ایک اور شرط عائد کی کہ اگر اس نے اس کی پابندی نہ کی تو اسے طلاق۔ عورت نے صرف دو دن اس شرط کی پابندی کی۔ بعد میں اس کی یہ عادت اور طریقہ بن گیاکہ اس شرط پر عمل کیا اور کبھی نہ کیا۔

ان حالات میں جواب طلب سوال یہ ہے کہ یہ عورت ، جس نے مذکورہ عائد کردہ شرائط کی خلاف ورزی کی،جن کی بناء پر اسے طلاق کی وارننگ دی گئی تھی، اسے طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ اگر طلاق واقع ہوچکی ہے تو اس کی تحلیل کی کوئی گنجائش اور صورت موجود ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا؟ جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل دے کرعنداللہ ماجور ہوں۔ والسلام !

الجواب، بعون اللہ الوھاب :
نحمدہ و نصلي علیٰ رسوله الکریم.............. أما بعد
سوال سے ظاہر ہے کہ شخص مذکور نے یہ طلاقیں مختلف مجالس میں دی ہیں۔ (سائل نے اس کا اقرار زبانی بھی کیاہے)

واضح ہوکہ ہ معلّق طلاق ہے۔ او ریہ شرعاً واقع ہوجاتی ہے۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد خاوند کو رجوع کا حق ہوتا ہے۔ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ٱلطَّلَـٰقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌۢ بِإِحْسَـٰنٍ...﴿٢٢٩﴾...سورۃ البقرۃ
''طلاق دو بار ہے، اس کے بعد بہتر طور پر رکھنا ہے یا اچھے طریقے سے چھوڑ دینا۔''

باقی رہا ہمارے معاشرے میں مروجہ تحلیل (حلالہ) یعنی عارضی نکاح کا مسئلہ، تو وہ سرےسے حرام ہے او رکرنے والا ملعون:
''عن ابن عباس قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم المحلل والمحلل له........... و عن علي قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم المحلل والمحلل له'' 1
''حضرت ابن عباسؓ او رحضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے،ذ اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے، ان دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔''

''عن عقبة بن عامر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ألا أخبرکم بالتیس المستعار' قالوا: بلیٰ یارسول اللہ قال: ھو المحلل۔لعن اللہ المحلل والمحلل له'' 2
''حضرت عقبہ بن عامرؓ کابیان ہے ، آنحضرتﷺ نے فرمایا: ''کیا میں تمہیں مانگے ہوئے سانڈ کی خبر نہ دوں؟'' صحابہؓ نے فرمایا: ''کیوں نہیں'' اے اللہ کے رسول ﷺ'' تو آپؐ نے فرمایا: ''وہ حلالہ کرنے والا ہے۔ اللہ کی لعنت ہے حلالہ کرنے والے او رکرانے والے پر۔''

لہٰذا صورت مسئولہ میں عورت اپنے خاوند سے جدا ہوچکی ہے اور وہ اب (عدت گزارنے کے بعد) کسی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے۔ بشرطیکہ اس عورت اور نئے نکاح دونوں میں سے کسی کا بھی ارادہ تحلیل (حلالہ) کا نہ ہو، بلکہ وہ خاوند بیوی کی حیثیت سے رہیں۔پھر اتفاقاً اگر ان کے درمیان جدائی و تفریق ہوجائے تب وہ عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔اس کے بغیر نہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَ‌هُۥ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يَتَرَ‌اجَعَآ إِن ظَنَّآ أَن يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠ ...سورۃ البقرۃ
''اگر وہ خاوند پھر (تیسری مرتبہ) طلاق دے دے ، تو وہ عورت اس (طلاق دینے والے کے لیے ) حلال نہیں جب تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔ پھر وہ (دوسرا ناکح) اگر طلاق دے دے تو ان دونوں (عورت او رپہلا شوہر) پر رجوع کرلینے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم کریں گے ۔ یہ ، اللہ تعالیٰ، جاننے والے لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں۔''

ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب!

(2)
محمد ایوب صاحب لاہور سے لکھتے ہیں:
''ایک مطلقہ عورت کی شادی ایک شخص سے ہوئی، شادی کے سات ماہ پندرہ دن بعد ان کے ہاں بچہ پیداہوا۔ گویا جب نکاح ہوا تو عورت حاملہ تھی (اس کی تصدیق بھی ہوگئی) از روئے شریعت بتلائیں کہ آیا یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں؟ اگر صحیح نہیں تو اس عورت کا دوبارہ نکاح اس شخص سے ہوسکتا ہے یا نہیں؟''

الجواب :
أقول و باللہ التوفیق!
قرآن کریم میں ہے :
وَأُولَـٰتُ ٱلْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ...﴿٤﴾...سورۃ الطلاق
''او رحاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔''

سنن ابی داؤد ص297 پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے نکاح کو باطل قرار دیتے ہوئے میاں بیوی کے مابین تفریق کرادی تھی ۔ لہٰذا :
(1) حاملہ عورت سے نکاح درست نہیں، ان کے درمیان تفریق کرا دی جائے۔
(2) اگر دونوں رضا مند ہوں تو دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔


حوالہ جات
1. سنن ابن ماجہ، باب المحلل والمحلل له، ص140
2. سنن ابن ماجہ باب ایضاً ص140