پارلیمنٹ او رتعبیرِ شریعت

ملوکیت سے بیزار ...... مگر ...... آمریت سے استواری
تقلید کی جکڑ بندیوں نے جہاں اسلامی فکر و نظر کی قوتوں کو گھائل کیا او رذہنی غلامی کو پروان چڑھایا ہے، وہاں اس سے بغاوت کرنے والوں نے اجتہاد کے نام پر دین میں تحریف و تبدل کے ذریعہ ایک دوسری انتہاء کو جنم دیا ہے۔ لیکن کیا یہ بات انتہائی عجیب نہیں کہ تقلید کے چنگل سے آزادی حاصل کرنے کی کوششوں میں ان متجددین نے بھی اپنے مزعومہ ''مجتہدین'' (حکومت و پارلیمنٹ) کو اپنا مقتداء و پیشوا بنا کر ان کے افکار و نظریات کی پرستش شروع کردی ہے، اور جس کے نتیجہ میں وہ اسی تقلید اور شخصیت پرستی کے پھر سے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں، جس سے انہوں نے بغاوت کی ٹھان لی تھی؟ گویا ان کی نظروں میں ائمہ سلف کی تقلید تو مذموم ٹھہری، لیکن ''فقیہان'' دور حاضر کہ جنہیں ائمہ سلف سے کوئی نسبت ہی نہیں، کی تقلید عین اسلام ہوگئی! ہمارے نزدیک نہ تو یہ اسلامی فکر ہے او رنہ ہی راہ اعتدال، ہاں بلا شبہ اسے افراط و تفریط کا نام دیا جائے گا۔ چنانچہ جس کا بھرپور مظاہرہ بعض ان مضامین میں ہوا ہے، جو اقبال او راجتہاد کے موضوع پراخبارات میں لکھے جارہے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں افراط و تفریط کی انہی بے اعتدالیوں کو اعتدال کی راہ دکھائی گئی ہے۔

کچھ عرصہ سے اخبارات و رسائل میں علامہ اقبال کے حوالے سے پارلیمانی اجتہاد کے موضوع پر خیال آرائی ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل نقطہ نظر متعین کئے جاسکتے ہیں:
(1) شریعت، بالخصوص سیاسی، معاشی او رمعاشرتی مسائل، کی روح عصر کے مطابق تعبیر نو ضروری ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور کے بدلتے تقاضے اجتہاد نو کی دعوت دیتے ہیں او ریہ اجتہاد موجودہ فرقہ وارانہ کشمکش میں پارلیمنٹ کا ہی معتبر ہوسکتا ہے۔ مصطفیٰ کمال پاشا کے جدید ترکی کی ''گرینڈ نیشنل اسمبلی'' نے بھی قرار دیا تھا کہ خلافت و امامت کو کئی افراد پر مشتمل ادارے یا منتخب اسمبلی کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔جدید دور میں یہی اجماع امت ہے۔ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے ائمہ سلف کی تقلید کی بجائے پارلیمنٹ کے سرکاری فیصلوں کی پابندی ہونی چاہیے۔

(2) قرآن و سنت میں منصوص مسائل کے علاوہ ائمہ سلف نے خلفائے راشدین کے طرز عمل سے ماخوذ مکمل نظام حیات پیش کردیا ہے۔ اب چونکہ مستقل اجتہاد کی اہلیت نہیں رہی، اس لیے انہی مدوّن کتب فقہ سے احکام کا استخراج کرکے کام چلانا چاہیے جو شیعہ سُنّی مکاتب فکر کے ہاں مسلمہ ہیں۔ ریاست کا مسلک اس فقہ کے مطابق ہو جس کے پیرو کاروں کی ملک میں اکثریت ہو۔ اس معاملہ میں برتری علمائے فقہ کو حاصل ہے۔ اقلیتی فرقوں کو صرف پرسنل لاز میں آزادی دی جائے۔

(3) عقیدہ، عبادات اور عائلی مسائل میں ہر فرقہ اپنی اپنی فقہ پر کاربند رہے۔ البتہ معاشرت، معیشت، اور سیاست سے متعلقہ امور پارلیمنٹ اسلامی اصولوں کی روشنی میں طے کرے۔ اس سلسلے میں ایسا رویہ اختیار کیا جائے کہ پارلیمنٹ میں علماء کوبھی بھرپور نمائندگی حاصل ہو۔ تاکہ بیک وقت مہارت علمی کے ساتھ ساتھ عوام کا اعتماد حاصل ہوجائے۔ چنانچہ اس کے لیے اسمبلی کی رکنیت کی شرائط اور بعض دیگر طریقوں کی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔

(4) قرآن و سنت کی شکل میں مدون شریعت ہمارے پاس مکمل ہے۔ قرآن دستور حیات ہے تو سنت رسول ﷺ اس کی حتمی او رابدی تعبیر۔ اجتہاد انفرادی ہو یا اجتماعی، شریعت کا حصہ نہیں۔ بلکہ پیش آمدہ مسائل کو منشاء الٰہی کے تابع انجام دینے اور شرع کی حدود کے اندر رکھنے کا طریقہ کار ہے۔ فتوےٰ اور قضاء میں اجتہاد کی اہمیت شریعت کی وسعتوں کی دلیل ہے۔ اس بارے میں مجتہد کی غلطی پر بھی اسے مخلصانہ اجتہاد کا اجر ملے گا۔ لیکن فقہ و اجتہاد مختلف اور متعدد بھی ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح مسائل کی نوعیت کی تبدیلی سے اجتہاد کا تغیر بھی ممکن ہے۔ پارلیمنٹ کے فیصلوں کا اجتہاد سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ ان کا تعلق تدبیری او رانتظامی امور سے ہوتا ہے۔ فقہ کی تشکیل نو اور شریعت کی تقنین (قانون سازی) دو مختلف امر ہیں۔ شرع میں اضافہ و تبدیلی کی گنجائش خلیفہ یا امام کو بھی نہیں ہے۔ کیونکہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی میں نہیں دیا جاسکتا۔

تحریک پاکستان کے حوالےسے علامہ اقبال کا فکری مقام بلا شبہ تسلیم، اور اس تناظر میں فکر اقبال کی اپنی جگہ اہمیت بھی بجا........... لیکن علامہ کی اس حیثیت کا یہ کوئی لازمی حصہ قطعاً نہیں کہ انہیں ائمہ سلف کے مقابل لاکھڑا کیا جائے اور پھر اس تقابل کے نتیجے میں ائمہ سلف کو تو دو رملوکیت کا پردورہ، جبکہ اقبال کو اسلامی نشاة ثانیہ کا حدی خوان ثابت کیا جائے۔ بالخصوص اس لیے کہ ائمہ سلف اور اقبال کے میدان ہائے کار الگ الگ تھے اور انہیں پیش آنے والےحالات میں باہمی مماثلت ہی مفقود ہے۔

جو لوگ اسلامی ریاست کی فکری تشکیل میں علامہ کے نظریات کو دلیل بنا کر انہیں مجتہد مستقل کا مقام دینا چاہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کے یہ نظریات ان کی ٹھوس آراء کی بجائے ان کے ارتقائی نظریات تھے۔ چنانچہ کائنات ارضی کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے واقعات پر غوروفکر کے نتیجے میں اقبال کے ان نظریات کو ، جو فکر اقبال کے حاملین کو ان کے عقائد نظر آتے ہیں، منزل تک پہنچنے سے قبل، اس راہ کی ٹھوکروں یا درمیانی مراحل کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ الصلوٰة والسلام) کو دیکھئے، ''رؤیت ملکوت سماوی و ارضی'' کے سلسلہ میں آپؐ، ستارے سے لے کر چاند او رپھر سورج تک کے لیے اپنے خاص عندیے کا اظہار فرماتے رہے، لیکن بالآخر آ.ؐ تائید ایزدی سے اصل حقیقت کی تہ تک پہنچ گئے۔ قرآن مجید نے ان حالات کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ اور مفسرین نے ان واقعات کو حضرت ابراہیمؑ کے ابتدائی غوروفکر کے مراحل قرار دیاہے۔ اس کے برعکس علامہ اقبال کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کرنے والوں کے سر پر مشکل یہ سوار ہے کہ وہ ان کے نظریات کو ان کی پختہ اور حتمی آراء سمجھنے لگ گئے ہیں۔ حالانکہ اسلامی ریاست اس دور میں محض ایک تخیل تھا، او رایسے تخیل سے مفکر کا تعلق زیادہ تر رومانوی ہوتاہے، وہ اپنے افکار و نظریات کو اپنی آخری اور حتمی عملی تجاویز کے طور پر پیش نہیں کرتا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تشکیل ریاست کے بارے میں علامہ کی طر ف سے ایسے فلسفیانہ مباحث میں شرکت کو، علامہ کی آئمہ سلف پر برتری کی دلیل بنا لیا جائے؟ بالخصوص اس لیے کہ علامہ نے جس دور میں آنکھ کھولی، یہ مذہب و سیاست کی ثنویت یا اسلام او رسیکولر ازم کی فکری جنگ کا زمانہ تھا، جس میں کہیں مذہبی روایات کے تحفظ پر جہاد ہورہا تھا، تو کہیں سیاسی سطح پر اسلام کا نفاذ ہی وقت کی مسلم تحریکوں کا مطمع نظر بن رہا تھا۔ ان حالات میں فکری افراط و تفریط ایک لابدی امر تھا۔ لہٰذا آج، ائمہ سلف کی نام لیوا بعض شخصیتوں کے طرز عمل کے حوالہ سے، خود ائمہ پر یوں کیچڑ اُچھالنا کہ ان کی فقیہانہ مساعی ملوکیت کی تائید کے لیے تھیں، جبکہ علامہ اقبال اسلامی نشاة ثانیہ کے واحد حدی خواں تھے، کوئی پسندیدہ رویہ نہیں کہلا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی شخص موجودہ مسلم تحریکوں کے قائدین پر یہ الزام تراشی شروع کردے کہ ان کی تمام تر مساعی مسلمانوں میں سیکولر جمہوریت کو ترویج دینے کے لیے تھیں، تو اسے مستحسن فعل قرار نہیں دیا جائے گا۔

دور جدید میں اسلامی مملکت کے مختلف پہلوؤں پر خیال آرائی کے لیے ہمارے سامنے ایک وسیع میدان ہے۔ چنانچہ جمہوریت و آمریت کا تقابل کرتے ہوئے اسلامی خلافت کے موضوع کو بھی زیر بحث لایا جاسکتا ہے او راس کی تشکیل کے لیے تجاویز بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن عصر حاضر کے تناظر میں ائمہ سلف کی کردار کشی کرنا، نہ صرف بہت بڑی جسارت اور پرلے درجے کی ناشکری ہے بلکہ انتہائی ناانصافی بھی۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں کہ علمی سطح پر انہوں نے عبادات و معاملات کے جملہ پہلوؤں پر عملی تفصیلات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست و حکومت کی غلط روشوں کا مردانہ وار مقابلہ بھی کیا ہے۔ کوئی تسلیم کرے نہ کرے، لیکن ائمہ اربعہ سمیت معتدبہ ائمہ کی قربانیاں تاریخ کے اوراق میں ثبت ہوکر بقائے دوام کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔ ہاہں جب میں اور اب میں فرق بین یہ ہے کہ ان لوگوں نے سیاسی امور میں جو کچھ بھی کہا، شرعی نکات کی وضاحت کے لیے کہا۔ کیونکہ اس دور میں زندگی ایک وحدت تھی۔ حتیٰ کہ تدبیری او رانتظامی امور بھی شرعی ہدایات کی روشنی میں انجام پاتے تھے، جبکہ دور حاضر میں سیاست اور مذہب الگ الگ ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اسلام کے نام سے سیاسی فلسفے بھگارنے کو زندگی کے جامع فکر کی معراج سمجھا جانے لگا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ اسلام کی نظر میں سیاست و حکومت کی اس اہمیت کے باوجود، کہ ان کے جملہ امور شریعت کی نگرانی میں طے پاتے ہیں، آج کے دانشور یہ کہنے کی جرأت کررہے ہیں کہ شریعت نے اسلامی حکومت کا کوئی مخصوص نظام نہیں دیا، لہٰذا احکام الٰہی کی غیر موجودگی میں اجتہاد سے یہ خلاء پُر کیا جائے گا۔ حالانکہ یہ لوگ اجتہاد کی تعریف ہی سے واقف نہیں۔ اجتہاد کا کام شریعت کے خلاء پُر کرنا نہیں، بلکہ زندگی کے متنوع پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے شریعت کی وسعتوں کی تلاش او رانہیں احکام الٰہی کی حدود میں لانے کا نام اجتہاد ہے۔ تاکہ مسلمان مکمل طور پر اپنی زندگیاں منشاء الٰہی کے مطابق بسر کرسکیں۔ چنانچہ اسلام کا مکمل دستور کتاب و سنت ہیں، او رمذہب و سیاست کے جملہ امور اسی دستور کی روشنی میں انجام پاتے ہیں جبکہ جدید ریاستوں کے موجودہ دساتیر صرف ملکی سیاست کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور انہیں فرد ومعاشرہ کی غیر سیاسی زندگی سے براہ راست کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ دساتیر و قوانین ریاست کے حکمران یا عوامی نمائندے بناتے ہیں اور وہی ان کی تعبیر و تغییر کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام میں نہ تو دستور حیات انسانی عقل و تجربہ کا نتیجہ، یا ا س کا محتاج ہوتا ہے او رنہ ہی ا س کی تعبیر و تنفیذ انسانی تگ و تاز پر منحصر رکھی گئی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے کتاب (قرآن مجید) نازل فرماکر سنت رسول(ﷺ) سے اس کی تعبیر و تنفیذ ہمیشہ کے لیے کردی ہے۔ اب انسانی تفکر و تعقل سے ہزاروں نکتہ آفرینیاں تو کی جاسکتی ہیں ، لیکن ان میں سے کسی کو بھی حتمی مراد الٰہی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ہاں صرف اور صرف سنت رسولؐ ہی حتمی تعبیر دین ہے کہ رسولؐ بہرحال معصوم ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ کوئی شخص بھی معصوم عن الخطاء نہیں سمجھا جاسکتا۔

اسلام کے اس دستوری فکر سے ناواقفی کی بناء پر ہی جدید سیاسی بزرجمہروں نے عوام کےذہنوں میں یہ بات راسخ کردی ہے کہ جس طرح دستور و قانون پارلیمنٹ و حکومت پہلے خود وضع کرتی ہے او رپھر ا س کا نفاذ کرتی ہے، بالکل اسی طرح پہلے شریعت وضع کرنی پڑے گی او رپھر اس کا نفاذ عمل میں آئے گا۔ حالانکہ شریعت اللہ کی طرف سے مکمل ہوکر قیامت تک کے لیے نافذ ہوچکی، اور ''الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا'' (المائدہ:3) کے الفاظ سے اس کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔ جس کا انتہائی واضح بلہل عملی ثبوت یہ ہے کہ آج تک مسلمان اپنی غیر سیاسی انفرادی، اور اجتماعی زندگی میں بھی ، شریعت کے احکام کی اتباع کرتے ہیں۔ورنہ نفاذ سے قبل کسی قانون یا شرعی حکم کی تعمیل کا کوئی معنی ہی نہیں۔ ہاں حکومت سے اگر نفاذ شریعت کا مطالبہ کیاجاتاہے تو اس کا معنی صرف یہ ہے کہ وہ سیاسی سطح پر بھی اس کا اعلان کرکے اپنے تئیں مسلمان بنائے ، او ریوں عوام اور حکومت کے روّیوں میں یکسانیت پیدا ہوجائے۔

کتاب اللہ کی تنزیل کے ساتھ ساتھ تعبیر شریعت بھی 23 سالہ دور نبوت میں مکمل ہوچکی ہے۔ سورة النحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ...﴿٨٩﴾...سورۃ النحل
کہ ''ہم نے کتاب (بتدریج) نازل فرما کر اس میں ہر شے بہت وضاحت سے پیش کردی ہے۔''

دوسری جگہ اسی سورہ میں ارشاد ہوا:
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ...﴿٤٤﴾...سورۃ النحل
کہ ''ہم نے یہ ذکر آپؐ پر نازل فرمایا ہے، تاکہ آپؐ اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں۔''

پھر قرآن مجید ہی نے بتلایا کہ جس طرح اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اسی طرح اس کے بیان (تعبیر) کی حفاظت بھی اللہ ربّ العزت کے ذمہ ہے۔
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُۥ وَقُرْ‌ءَانَهُۥ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَ‌أْنَـٰهُ فَٱتَّبِعْ قُرْ‌ءَانَهُۥ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُۥ ﴿١٩...سورہ القیامہ
''اس قرآن کا جمع کرنا اور پڑھنا پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔ (اے نبیؐ) جب ہم قرآن پڑھیں تو آپؐ اس پڑھنے کی اتباع کریں۔ پھر اس کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔''

یوں کتاب اللہ کو رسول کریم ﷺ کی زندگی (سنت) میں پرو کر ہمارے سامنے پیش کردیا گیاہے، لہٰذا اسی کی پابندی کرکے ہم زندگی کے جملہ شعبوں میں راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ گویا جب دستور حیات (قرآن مجید) بھی مل گیااو راس کی تعبیر بھی سنت رسولؐ کے ذریعہ متعین ہوچکی، تو ہمارا کام اب صرف یہ ہے کہ اسی دستور کو مضبوط سے پکڑ کر اس پر عمل پیرا ہوں اور فردو معاشرہ کی فلاح و نجات سے ہمکنار ہوں۔ اندریں صورت اسلام کی پارلیمانی تعبیر یاپرائیویٹ تعبیر کی بحث ہی بے بنیاد او ربلا جواز ہے۔ علماء ہوں یا حکومت اور عوام، سبھی کتاب و سنت (اسلامی دستور وتعبیر) کے پابند ہیں، جو ان کی زندگی کے جملہ پہلوؤں کے لیے کامل و اکمل موجود و محفوظ ہیں۔باقی رہا اجتہاد کا معاملہ ، تو یہ عرض کیا جاسکتاہے کہ اجتہاد دراصل شرعی احکام ہی کی تلاش و اطلاق کا نام ہے، کوئی نئی شریعت وضع کرلینے کانام نہیں۔ لہٰذا اس سلسلہ میں ضرورتوں کے مطابق وہی لوگ راہنمائی دے سکتے ہیں جو کتاب و سنت کے علوم کے ماہر او ران کی بھرپور بصیرت رکھتے ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مریض کا علاج ڈاکٹر کرتا ہے، اور عمارت و مشین انجینئر کے ہاتھوں تیار ہوتی ہے، بالکل اسی طرح اجتہاد بھی ماہرین علوم شریعت کا کام ہے، یہ ہرکس و ناکس کا روگ نہیں۔ ورنہ جس طرح نیم حکیم خطرہ جان کا باعث بنتا ہے، بالکل اسی طرح نیم ملاّ خطرہ ایمان کا باعث بھی بنتا ہے، لہٰذا علماء کو تھیاکریسی کا طعن دے کر اجتہادی ذمہ داریاں عوام کے سپرد کردینا نرا احمقانہ پن ہے۔ مقام غور ہے کہ اسلام میں جب نہ تو دستور و قانون وضع کرنے کا اختیار علماء کے پاس ہے او رنہ ہی اس کی تعبیر کا ، تو تھیاکریسی (پاپائیت) کیونکر قائم ہوگی؟ تھیاکریسی کی بنیادی روح، دستور و قانون کے سلسلہ میں کسی خاص طبقے کی وضع وتعبیر کے اعتبار سے اجارہ داری ہے، جو دلیل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ذاتی برتری کی بناء پر مذہبی طبقے کو حاصل ہوتی ہے۔ یہی حال حکمرانوں کے ''تصور اختیار حقوق ربانی'' (Devine Rules of Kingdom) کا ہے۔ چنانچہ دستور و تعبیر میں علماء کو اتھارٹی مانا جائے یا حکمرانوں او رپارلیمنٹ کو ، یہ بہرحال خدائی حقوق میں دخل اندازی ہے اور قرآن مجید نے جس کی یوں مذمت فرمائی ہے:
ٱتَّخَذُوٓاأَحْبَارَ‌هُمْ وَرُ‌هْبَـٰنَهُمْ أَرْ‌بَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِ...﴿٣١﴾...سورۃ التوبہ
کہ ''انہوں نے (یہود و نصاریٰ نے) اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب ٹھہرا لیا۔''

مروی ہے کہ حضرت عدیؓ بن حاتم طائی نے حضورﷺ کے سامنے جب اس آیت پر یوں معارضہ پیش کیا کہ:
''ہم اپنے علماء اور درویشوں کو رب نہیں کہتے۔''
تو رسول اللہ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا تھا:
''تم ان کے حلال کردہ کو حلال گردانتے ہو او رحرام کردہ کو حرام، یہی انہیں رب بنانا ہے۔''

لہٰذا حقوق الٰہی میں دخل اندازی خواہ علماء کی تسلیم کی جائے یا حکومت و عوام اور پارلیمنٹ کی، یہ انہیں رب بنا لینے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ سلف نے خود کو کبھی اتھارٹی قرار نہیں دیا۔ بلکہ اس سلسلہ میں خود انہوں نے اپنے اقوال کو کتاب و سنت پر پیش کرنے اور یوں اپنے استدلالات کی صحت و غلطی کا جائزہ لینے کی تلقین کی ہے۔ پھر موجودہ مذاہب فقہ یا فرقے نہ تو انہوں نے بنائے اور نہ ہی یہ ان کے زمانہ میں موجود تھے، بلکہ یہ تو مخصوص حالات کے نتیجہ کے طور پر ان ائمہ کی بلا جواز او رجامد تقلید کے ذریعے چوتھی صدی ہجری میں معرض وجود میں آئے۔ لہٰذا ان مذاہب یا فرقوں کو خود ان کے زمانہ میں ثاجبت کرنا ناممکن ہے۔ کجا یہ کہ بنی امیہ او ربنی عباس کے ادوار خلافت سے بڑھ کر، دور خلافت راشدہ میں ان کا وجود ثابت کرنے کی جسارت کی جائے۔

پس جب ائمہ سلف یا ان کی فقہ (جو ان کے متوسلین نے بعد میں ترتیب دی ہے) اتھارٹی نہیں، حالانکہ یہ کتاب و سنت پر عبور رکھتے تھے، تو پھر جدید دور کے قائدین اور حکومت یا ان کے اجتہادات (جو اجتہاد کی ابجد سے بھی واقف نہیں، تاوقتیکہ کتاب و سنت کی ماہرانہ بصیرت حاصل کریں) کیونکر اتھارٹی قرار دیئے جاسکتے ہیں؟

غور فرمائیے، جب پہلی شریعتیں، جو حکومتوں کی سرپرستی میں علماء کی کونسلوں کے ذریعے مدون کی جاتی رہیں، ان کے حلال و حرام کو بھی حتمی سمجھنا قرآن مجید نے خدائی اختیارات میں دخل اندازی قرار دیا ہے، تو اب شریعت محمدی، حکومتوں کے ہاتھوں انجام پذیر ہوکر کیونکر اتھارٹی بنے گی اور اس کی کیا حیثیت ہوگی؟ عیسائیت کی تدوین کے بارے میں اب تک بیس سے زیادہ کونسلوں نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے، وہ آپ کے سامنے ہے۔ ان میں بعض کونسلیں ایسی تھیں کہ حکومت کی سرپرستی میں، ان میں دو ہزار کے قریب علماء شریک ہوتے رہے۔ بایں ہمہ اس پاپائیت کو قبول نہیں کیا جاسکتا، تو وضع شریعت یاتعبیر شریعت کے نام پر ''حق سبحانی حکومت'' کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

یاد رہے، شریعت کی تدوین و تعبیر نو کا مسئلہ جدید دور کی پیداوار ہے، جو فرانس کی تقلید میں مسلمانوں میں درآمد ہوا ہے۔ ورنہ صحیح فکر یہ ہے کہ کتاب و سنت کی صورت میں شریعت کی تعبیر و تدوین پہلے سے موجود ہے۔ البتہ جہاں تک اجتہاد کا تعلق ہے، تو پہلے فقہاء کے اجتہادات اگرچہ فقہ و فتاویٰ کی ضخیم کتابوں کی صورت میں موجود ہیں، تاہم جدید طرز پر ان کی تدوین مقصود ہو تو یہ کام غلط بھی نہیں، بلکہ کسی حد تک مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ یہ کام صاحب تقویٰ او راس کے اہل لوگوں کے ہاتھوں انجام پائے۔ لیکن آج اصل مسئلہ تدوین کا نہیں، بلکہ تدوین کے نام پر تقنین (یعنی شریعت کی قانون سازی) کا ہے او رجسے دراصل جدید عربی لفظ ''تشریع'' سے مغالطہ کھاکر اپنایا گیا ہے۔لہٰذا تدوین و تقنین کا فرق ملحوظ رہنا چاہیے۔ تدوین، ترتیب فقہ کی ایک صورت ہے، جو لازمی نہیں ہوتی۔ جبکہ تقنین،کسی خاص تعبیر شریعت کو قانون جامہ پہنانے کا نام ہے جو ایک حتمی امر ہوکر جہاں شریعت سازی اور خدائی اختیارات میں دخل اندازی کا موجب بنتا ہے، وہاں اسے اجتہاد بھی نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اجتہاد سے شریعت کی وسعتیں حاصل ہوتی ہیں، لیکن تقنین سے، فردو معاشرہ کو ایک خاص تعبیر شریعت کا پابند قرار دے کر ، اجتہاد کے دروازے ان پربند کردیئے جاتے ہیں۔ قرآن مجید کی نظر میں اس کا نام ''اصرو غلال'' ہے او رجسے ختم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تھے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَ‌هُمْ وَٱلْأَغْلَـٰلَ ٱلَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ...﴿١٥٧﴾...سورۃ الاعراف
''(یہ رسول کریمﷺ) ان سے وہ بوجھ او ربندشیں دور کرتے ہیں، جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں۔''

یہ وہی بائیبل کی تدوین و تقنین کی جکڑ بندیوں کی طرف اشارہ ہے، لیکن ستم تو یہ ہے کہ آج کے متجددین، اُمت مسلمہ کو دوبارہ انہی جکڑ بندیوں میں دھکیل دینا چاہتے ہیں جن سے اللہ رب العزت نے رسول کریم ﷺ کے ذریعے اپنےبندوں کو نجات دلائی تھی۔ طرفہ یہ کہ اس نظریہ کے حامل لوگ جس شدومد سے تقلید کی مخالفت کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ شورو غوغا آرائی کے ساتھ حکومت یاپارلیمنٹ کی تعبیر و تقنین کو اتھارٹی منوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ فکر و نظر کا یہ کتنا بڑا تضاد ہے؟ کیا یہ بات سوچنے کی نہیں کہ ائمہ سلف کی تقلید ، اگر ان کی مہارت علمی کے باوجود جائز نہیں تو آج کی پارلیمنٹ بغیر کسی ضمانت صحت اور دلیل کے کیونکر اتھاٹری بن سکتی ہے؟

بعض حضرات نے علامہ اقبال کے حوالہ سے ترکی میں ''گرینڈ نیشنل اسمبلی'' کا فیصلہ بھی شرعی اجماع قرار دیاہے، کہ خلافت یا امامت کو کئی افراد پر مشتمل ادارے یا منتخب اسمبلی کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔او راسی بناء پر پارلیمنٹ کو خلیفہ یا امام کے قائم مقام ٹھہرایا ہے۔ حالانکہ خلیفہ یا امام کویہ مقام کہاں حاصل ہے کہ وہ شریعت کی تقنین ''تعبیر نو'' کے نام پر کرے؟ اسلامی تاریخ میں یہ عجمی تصور سب سے پہلے عبداللہ ابن المقفع نے پیش کیا، جس کا ذکر اس کے ایک رسالہ مشمولہ ''جمهرة رسائل العرب'' میں بھی ملتا ہے۔ لیکن یہ عجمی فکر امام مالک وغیرہ ائمہ دین (رحمہم اللہ) کی پُرزور مخالفت کیبناء پر پنپ نہ سکا بلکہ ابن المقفع کے ایسے ہی لادین افکار اسے ارتداد تک لے گئے او رانہی کی پاداش میں وہ قتل کردیا گیا۔

ابن المقفع کے اس تصور کی وجہ بھی وہی تھی، جو آج کل کے متجددین فقہی اختلافات کے حوالےسے پیش کررہے ہیں۔ اس نے خلیفہ منصور سے یہ کہا تھا کہ مفتی حضرات کے اختلاف فتاویٰ اور قاضیوں کے متنوع فیصلوں کی بناء پر فکری انتشار بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ خلیفہ ان تمام مختلف آراء کو جمع کرکے ان سے متعلق ایک ایسی حتمی رائے متعین کردے ، جس کے سب مفتی اور قاضی حضرات پابند ہوں۔ لیکن امام مالک نے اس فکر کی بھرپور مخالفت کی اور تادم آخر کرتے رہے۔ ان کامشہور مقولہ ہے کہ:
''مامن أحد إلاوقوله مقبول أومر دود علیه إلا صاحب ھٰذا القبر''
یعنی رسول اللہ ﷺ کے علاوہ ہر کسی کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے او ررد بھی کی جاسکتی ہے ۔ ہاں آپؐ کی بات صرف قبول ہی کی جائے گی، رد ہرگز نہیں کی جائے گی۔''

آخری مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید نے اسی تجویز کو ایک دوسری صورت میں پیش کیا کہ کیوں نہ امام مالک  کی مؤطا کو کعبہ میں لٹکا کر جملہ دیار و امصار کے مجتہدین کو اس کا پابند بنا دیا جائے؟لیکن آپ نے اس صورت کو بھی قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مؤطا ساری شریعت کا مجموعہ نہیں۔ جبکہ صحابہؓ و تابعین کے مختلف علاقوں میں پھیل جانے سے احادیث لوگوں کے پاس پہنچ چکی ہیں او روہ ان پر عمل کررہے ہیں۔لہٰذا اصل اتباع وحی کی ہے خواہ وہ مؤطا میں مندرج ہو یا نہ۔ یوں یہ عجمی فکر ایک لمبے عرصہ تک دوبارہ سرنہ اٹھا سکا۔

امام ابوحنیفہ تو اس سے بھی بڑھ کر محتاط تھے۔ قاضی کا اجتہاد اگرچہ شرعی امر ہوتا ہے اور وہ مخلصانہ مگر غلط بھی ہو، تو لاگو ہوتاہے، تاہم امام ابوحنیفہ نے منصب قضاء کو قبول کرنے سے صرف اس خطرے کی بناء پر انکار کردیا کہ مبادا ان پر دباؤ ڈالا جائے اور حکومت وقت انہیں اپنی خواہشات کے سامنے جھکنے پر مجبور کرے۔

اسی طرح امام مالک او رامام احمد بن حنبل نےعقیدہ و عمل کے بعض بظاہر معمولی مسائل میں حکومت کی فکری آمریت کو تسلیم نہ کیا۔ اس جرم میں انہوں نے ذلت و نکبت کو تو بخوشی قبول کرلیا، لیکن دین و شریعت پر آنچ نہ آنے دی۔ ان کا مطمع نظر یہ تھا کہ اقتدار حکومت اور شریعت کی اتھارٹی دو علیحدہ امر ہیں، حکومت وقت چونکہ اپنی ''تعبیر شریعت'' پر مجبور کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے ، لہٰذا خلافت تسلیم ہونے کے باوجود تعبیر شریعت کی یہ آمریت ہرگز قبول نہیں کی جاسکتی۔ گویاآئمہ سلف نے سیاسی مسائل میں بھی آمریت کو منظور نہ کیا او را س کی خاطر اپنی جان اور عزت بھی داؤ پر لگا دی۔ کیاایسے لوگوں کو دور ملوکیت کا پروردہ کہا جاسکتا، یا ان پر آمریت کی ہمنوائی کا طعن کیا جاسکتا ہے؟

یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہےکہ اگر ان ائمہ سلف کی آراء بھی صرف اس وجہ سے قبول نہیں کی جاتیں او ردین میں حجت تسلیم نہیں کی جاتیں کہ وہ انفرادی حیثیت رکھتی ہیں، تو یا علامہ اقبال کی رائے بھی انفرادی رائے نہیں؟ اس رائے پر کون سی اسمبلی کا اجماع ہوچکا ہے۔ فافهم فتدبر!