خُلق ِمُحمدﷺ

إن رسول الله كان خلقه القرآن

(ابوداؤد، باب الصلوٰۃ فی اللیل)

مطلق لفظ ''خُلق'' میں حسِ خلق اور سوء خلق دونوں معانی پائے جاتے ہیں، لیکن جب اس کی اضافت نبی اکرمﷺ کی ذات والاصفات کی جانب کی جاتی ہے تو یہ لفظ معنی و مراد کے اعتبار سے صرف حسنِ خلق تک محدود رہتا ہے اور اس کے برعکس کا شائبہ تک نہیں رہتا۔ قرآن حکیم کی یہ نص صریح اس امر کی تصدیق و تائید کرتی ہے: انک لعلی خلق عظیم۔ یعنی آپؐ عظیم خلق و کردار کے مالک ہیں۔

حُسن ِ خلق کامفہوم

(1) حضرت علیؓ: حسن الخلق من ثلث خصال، اجتناب المحارم و طلب الحلال التوسعة علی العیال

''حسن خلق حرمتوں سے اجتناب، طلب حلال او راہل و عیال پر فراخی کانام ہے۔''

(2) امام حسن بصری : حسن الخلق بسط الوجھه و بذل الندى و کف الأذى

''حسن خلق خندہ پیشانی سے پیش آنے، سخاوت کرنے اور نقصان پہنچانے سےبچنے کو کہتے ہیں۔''

(3) امام غزالی : حسن الخلق ھو إرضاء الخلق في السّراء والضّراء

''حسن خلق خوشی اور غمی میں خلق خدا کو راضی رکھنے کا نام ہے۔''

حسنِ خلق کی فضیلت

نبی اکرمﷺ کی بکثرت احادیث حسن خلق کی اہمیت و فضیلت پر وارد ہوئی ہیں۔ امام غزالی نے ''احیاء العلوم الدین'' میں اس نوعیت کی کئی احادیث ذکر کی ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) جاء  رجل إلى رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال: ما الدین یارسول اللہ؟ قال : حسن الخلق۔

''ایک شخص آیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: دین کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اچھا خلق''

(2) سئل علیه السلام أي الأعمال أفضل؟ قال: حسن الخلق

''نبی ﷺ سے سوال ہوا:کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ فرمایا:اچھا خلق''

(3) والذي نفسي بیده لا یدخل الجنة إلاحسن الأخلاق

''آنحضرتﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، صرف اچھے اخلاق کا مالک جنت میں داخل ہوگا۔''

(4) إن الله یحب معالي الأخلاق

''اللہ تعالیٰ اعلیٰ اخلاق کو ہی پسند فرماتا ہے''

(5) حسن الخلق من خصال أهل الجنة

''اچھا خلق جنتی لوگوں کی صفات سے ہے۔''

(6) أحسنكم إیمانا أحسنكم أخلاقا

''تم میں سے بہترین ایمان دار اچھے اخلاق والا شخص ہی ہوسکتا ہے۔''

قرآن حکیم اور خلق نبویﷺ

قرآن کا فیصلہ ناطق او ربرھان قاطع ہوتا ہے۔ اس کی نص ہر تصور کو اساس حتمیّت و قطعیت مہیا کرتی ہے۔اس لیے سب سے پہلے قرآن نے ہی خلق نبویﷺ کی شہادت کفار و مشرکین مکہ کے جم غفیر میں چیلنج کی صورت میں دی ۔ وہ شہادت یہ تھی:

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

''میں نے تم میں آج سے قبل بھی عمر کا ایک حصہ بسر کیا ہے، پھر تم کیوں عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ہو۔''

مخالفین کے عظیم اجتماع میں کوئی معمولی چیلنج نہ تھا۔ حضورﷺ کی 40 سالہ حیات طیبہ جوبچپن، لڑکپن، نوجوان، جوانی او رپختہ عمری کی تمام منازل پر مشتمل تھی، ایک صفحہ قرطاس کی مانند ہر ایک کے سامنے تھی۔ ہر فرد کو انگلی اٹھانے کی کھلی دعوت تھی۔ پھر حضورﷺ نے یہ چالیس برس کسی گوشہ تنہائی میں بسر نہیں کیے تھے کہ آپﷺ کی سیرت و کردار پردہ گمنامی میں ہو۔ حضورﷺ کی زندگی کا ہر پہلو خواہ وہ تدبیر منزل سے متعلق ہو یا سیاست مدن سے، اپنوں او ربیگانوں کے سامنے تھا ۔ حرب فجار اور حلف الفضول میں شرکت،سفرہائے تجارت، عائلی و معاشرتی امور سےدلچسپی، شہری و قومی مسائل سے عملی تعلق اور لوگوں سے عام لین دین۔ الغرض یہ وہ معاملات تھے جن سے آپﷺ کو واسطہ رہا او رپھر یہ عرصہ بھی کوئی کم نہ تھا۔ ماہرین نفسیات کی رائے ہے کہ انسانی شخصیت کا ہر پہلو تقریباً 40برس کی عمر تک تکمیل پذیر ہوچکا ہوتا ہے او رتمام انسانی محاسن و معائب اس دور کے اواخر تک منصہ شہود پر آجاتے ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اگر اس چیلنج کی اہمیت کا اندازہ لگایا جائے تو ہر صاحب عقل اس حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کردے گا کہ اس قدر اخلاقی وثوق و اعتماد صرف اسی تاجدار عرب و عجم کا ہی نصیب تھا جس نے بزبان قرآن پہاڑ کی چوٹی پر اپنے خلق عظیم کی شہادت پیش کی اور ابوسفیان جس کی تصدیق واشگاف الفاظ میں (مذہبی عناد کے باوجود) قیصر روم کے دربار میں کیے بغیر نہ رہ سکا۔

اس پہلی قرآنی شہادت کے بعد متعدد مقامات پرخلق نبویؐ کی تعریف مختلف انداز سے کی گئی ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:

(1) وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (ن)

''بے شک آپﷺ خلق عظیم کے مالک ہیں۔''

(2) لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (توبہ)

''تمہارے پاس تمہی میں سے رسول پہنچا جس پر وہ چیز شاق گزرتی ہے جوتمہیں مشقت میں ڈال دے، تمہاری نگہبانی کرتا او رمومنوں کے ساتھ شفقت او رمہربانی رکھتا ہے۔''

(3)فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ(آل عمران)

'' کرم الہٰی کی بدولت تیرا معاملہ ان سے نرمی کا ہے او راگر تو ان ک ےلیے سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے مال سے بھاگتے۔''

(4)لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

''تمہارے لیے سول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔''

(5)النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ

''نبیﷺ مومنوں کے ان کی جانوں سے زیادہ دوست ہیں۔''

(6)وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ

''ہم نے تو تجھے (اے حبیبؐ) سب جہانوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے۔''

نبی اکرمﷺ کے اخلاقی محاسن

اگر سیرت نبویؐ کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو رسول کریمﷺ کے خلق عظیم کے لاتعداد پہلو سامنے آتے ہیں او رحقیقت یہ ہے ان کا احاطہ تو درکنار ، کماحقہ ادراک بھی انسانی استعداد سے ماوراء ہے۔ آپ ﷺ کی ذات طیبہ میں اخلاقی مکارم و محاسن منتہائے کمال پرنظر آتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ غایات بعثت محمدیؐ میں سے ایک غایت جلیلہ یہ بھی تھی جس کی طرف خود آپؐ نے اشارہ فرمایا ہے: بعثت لاتمو مکارم الاخلاق (میں ؐ اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں) اب ہم خلق نبوی ؐ کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں:

(1) سادگی وبے تکلفّی

حضورﷺ کی ذات اقدس سادگی کانمونہ کامل تھی۔ آپﷺ کی اس خصوصیت کو تین پہلوؤں سے دیکھا جاسکتا ہے:

(الف) غذا کی سادگی...... آپﷺ مرغن غذائیں تناول نہ فرماتے بلکہ سادہ اور غریبانہ غذا پسند فرماتے: ''ما أكل خبزا  مرققا ولا شاۃ مسموطة حتی لقي الله''(بخاری) ''آپﷺ نے باریک آٹے کی روٹی او ربُھنی ہوئی مچھلی نہیں کھائی یہاں تک کہ دنیا سے کوچ کیا۔''

(ب) لباس کی سادگی .... آپﷺ کا لباس سادہ ہوتا ۔ قیمتی ملبوسات زیب تن نہ فرماتے تھے: ''كان رسول الله يلبس ثیاباً من صوف (شمائل ترمذی، سفر السعادۃ) 'ّآنحضرتﷺ موٹی اور کُھردری اُون کا لباس پہنتے تھے۔''

(ج) مزاج کی سادگی .... آپﷺ کی عادات او رمزاج میں تکلف و تصنع کا نام تک نہ تھا اور نہ ہی خود پسندی کا شاوبہ تھا بلکہ طبعاً سادہ مزاج تھے۔ملاحظہ ہو۔ كان رسول الله يرکب حماراً (بخاری و مسلم) ''آپﷺ گدھے کی سواری کرتے تھے۔''

اور كان یرعي الغنم في مکة (بخاری) ''مکہ مکرمہ میں آپؐ بکریاں چراتے تھے۔''

حضورﷺ اپنا ہر کام خود اپنے ہاتھوں سے کرلیا کرتے اور اس میں قطعاً عار محسوس نہ کرتے تھے۔

(2) استقلال و مداومت

قرآن حکیم نے انبیاء علیہم السلام کی نسبت اولو العزم من الرسل کہا ہے اور حضورﷺ کی ذات میں چونکہ تمام اوصاف و کمالات نہ صرف جمع تھے بلکہ رفعت و بلندی کی آخری حد پر تھے، اس لیے آپؐ جیسے عزم و استقلال او رمداومت عمل کی مثال کسی نبی میں بھی نہیں مل سکتی۔

مکی دور کےمصائب و آلام او رمشکلات و تکالیف کے باوجود آپؐ کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش کا پیدا نہ ہونا اس امر کا بین ثبوت ہے۔ عزم و استقلال او رمداومت عمل کی نسبت حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ملاحظہ ہو:

أيكم لیستطیع ما كان النبيﷺ لیستطيع(بخاری، کتاب الرقاق)

''جو آنحضرت ﷺ کرسکتے تھے تم میں سے کون کرسکتا ہے؟''

دوسری روایت میں ہے:

وكان إذاعمل عملاأثبته (بخاری، کتاب الأدب۔ ابوداود، کتاب الصلوٰۃ)

''آنحضرتﷺ جب کوئی کام کرتے نہایت پائیدار کرتے۔''

حضورﷺ کا اپنا ارشاد اس ضمن میں قابل غور ہے‎:

إن أحب العمل إلی الله أدومه (بخاری و ابوداؤد)

''اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے۔''

(3) نفع بخشی و فیض رسانی

نفع بخشی و فیض رسانی کی نسبت نبی اکرمﷺ نے خود یہ ارشاد فرمایا تھا:

الخلق كلهم عيال الله أحبهم إليه أنفعهم

''مخلق ساری اللہ تعالیٰ کے عیال ہیں او ران میں سے لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا اللہ کو بہت پیار اہے۔''

حضورﷺ کا عمل مبارک اپنے قول سے مطابقت رکھتا تھا۔ اس سے بڑھ کر اور واضح دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ قرآن یہ اعلان کررہا ہے۔

ووجدك عائلا فأغنیٰ ''ہم نے تجھے تنگ دست پایا پس غنی بنا دیا۔''

لیکن غنی ہونے کے باوجود گھر سے فاقہ ختم نہیں ہوتا تھا۔ آپؐ نے معاشرے کے غرباء و مساکین کے معاشی تعطل کو رفع کرنے کے لیے اپنے اوپر فقر اختیاری لازم فرما لیا تھا۔

دنیا کی کوئی ہستی یہ مثال پیش نہیں کرسکتی کہ وہ خود تو تین تین دن کافاقہ کرے مگر دوسروں کی بھوک برداشت نہ کرسکے۔ یہ نمونہ صرف پیغمبر اسلام ؐ ہی دنیا کے سامنے پیش کرسکتے تھے۔

حدیث میں آتا ہے:

من ترک دینا فعلي قضاؤه ومن ترک مالا فلورثته (بخاری)

''جس پر قرض ہو وہ میرے ذمہ ہوگا او رجو مال چھوڑے وہ اس کے ورثاء کا۔''

اور جب آپﷺ کا وصال ہوا تو یہ حالت تھی:

ماترك دینا راولاد رهما ولا شاة ولا بعيرا ولا أوصی بشيء

''آپﷺ نے اپنے پیچھے نہ درہم دینار او رنہ ہی بکری اونٹ چھوڑا او رکسی کے حق میں وصیت بھی نہیں کی۔''

وجہ یہ تھی کہ آپؐ نے خود کو مال و دولت کامالک نہیں بلکہ ''قاسم'' تصور کرلیا تھا۔

إنما أنا قاسم والله یعطي (بخاری) ''دہندہ تو اللہ ہے میں تو صرف تقسیم کنندہ ہوں۔''

(4) عدل پسندی و منصف مزاجی

آپﷺ کے عدل کے بھی دو پہلو ہیں:

(1) عدل بین الناس (2) عدل بین الازواج

عدل بین الناس کی مثال اس واقعہ سے معلوم ہوجاتی ہے جو ''امرأة مخذومیة'' کی چوری کے ضمن میں پیش آیا او رحضورﷺ نے اسامہ بن زیدؓ کوجو سفارش کرنے آئے تھے، فرمایا:

لو كانت فاطمة بنت محمد ﷺ لقطعت یدها (بخاری)

''اگر (بنو مخزوم کی فاطمہ کی جگہ) فاطمہ ؓ محمدؐ کی بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹتا۔''

اور عدل بین الازواج کی حقیقت اس روایت سے نمایاں ہوجاتی ہے:

كان إذا أراد سفراأ قرع بين نسائه ''جب سفر کا ارادہ کرتے تو بیبیوں میں سے رفیق سفر کاانتخاب قرعہ سے کرتے۔''

حالانکہ امت کے برعکس آپؐ پر عدل بین النساء واجب نہیں تھا، یعنی یہ رخصت آپ ؐ کا خاصا ہے۔

علاوہ ازین اس سے بڑھ کر او ربین ثبوت کیا ہوسکتا ہے خود زوجہ رسول حضرت عائشہ صدیقہؓ صحابہؓ کے استفسار پر فرما رہی ہیں:

إن رسول الله كان خلقه القرآن (ابوداود) ''رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن تھا۔''

(5) حسن سلوک

نبی اکرمﷺ میں شفقت و احسان کا پہلو غالب تھا او راس وصف کا بیان قرآن بارہا کرچکا ہے۔ بخاری میں مذکور آپؐ کی رحمت و رأفت او رمحبت و شفقت کی نسبت ایک روایت ملاحظہ ہو:

كان رسول الله رحیما رقيقا (بخاری) ''آپﷺ رحم دل نرم مزاج تھے۔''

آپﷺ کا حسن سلوک چھوٹوں سے شفقت کی صورت میں بڑوں سے عزت کی صورت میں او رکفار سے عفو و احسان کی صورت میں ہوتا تھا۔ آپﷺ کی رحمت و عنایت نہ صرف عالم انس بلکہ جن و حیوانات کے لیے بھی عام تھی۔ کیونکہ آپﷺ تمام کائنات کے لیے سراپا رحمت بن کر مبعوث ہوئے تھے۔ قرآن کی یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ ''ہم نے تو تجھے سب جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔''

آپﷺ کی تعلیم ہی یہی تھی:

لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدا بروا وکونوا عبادالله إخوانا (بخاری)

''آپس میں بغض نہ رکھو او رنہ حسد کرو او رپیٹھ پیچھے بُرائی نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔''

اور ...... لا یؤمن أحد كم حتی یحب للناس ما یحب لنفسه (مسنداحمد بن حنبل)

''تم سے کوئی اس وقت مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ لوگوں کے لیے وہی کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔''

(6) عیادت و تعزیت

سنن نسائی ''باب التکبير علی الجنازة'' میں ہے:

كان عند النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أحسن شيء  عیادة المريض

'''نبیﷺ کے نزدیک مریض کی عیادت بہترین عمل تھا۔''

عیادت و تعزیت میں آپﷺ دوست دشمن او رمؤمن و کافر میں تفریق نہیں فرماتے تھے۔

امام غزالی ''احیاء العلوم الدین'' میں حضورﷺ کی نسبت فرماتے ہیں:

كان يعود المریض و یتبع الجنازة ''آپ بیماروں کی عیادت کرتے او رجنازوں کے ساتھ جاتے تھے۔''

(7) زُھد و تقویٰ

زہد و تقویٰ میں بھی حضورﷺ کی شخصیت منفرد و ممتاز تھی ۔ آپﷺ خود فرماتے ہیں:

إن أتقٰكم و أعلمكم بالله اأنا ۔ (بخاری و مسلم) ''تم میں ....... کا پرہیزگار او رسب سے زیادہ عالم میںؐ ہوں۔''

حضورﷺ قیام لیل میں اتنی کثرت فرماتے تھے کہ پاؤں پر ورم آجاتا اور صحابہؓ کے استفسار پر فرماتے: افلا اکون عبداً شکوراً ''کیا میں شکرگزار بندہ نہ بنوں۔''

آپﷺ کا ایک ارشاد نماز کی نسبت قابل ذکر ہے:

جعلت قرة عیني في الصلوٰۃ (نسائی) ''میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔''

(8) شرم و حیاء

صحاح ستہ میں ایسی روایات بکثرت وارد ہوئی ہیں جن میں مذکور ہے کہ حضورﷺ دوشیزہ لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ آپﷺ کے لب مبارکہ تبسم کے علاوہ کبھی خندہ و قہقہہ سے آشنا نہیں ہوئے۔

اگر محفل میں کوئی بات ناگوار ہوتی تو زبان سے کچھ نہ فرماتے۔ چہرہ انور کے آثار سے آپﷺ کی ناگواری طبع نمایاں ہوجاتی تھی۔

(9) عفو و حِلم

اس وصف مبارکہ میں بھی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ امام غزالی  نے انہیں ایک مقام پر جمع کردیا ہے۔ چند ایک ملاحظہ ہوں:

كان أحلم الناس وأرغبهم في العفو مع القدرة ''آپ نہایت حلیم الطبع او رطاقت کے باوجود معافی میں رغبت رکھتے تھے۔''

اس کا سبب قرآن حکیم کا یہ ارشاد تھا:

فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

''(اے نبیؐ) انہیں معاف کردے، ان سے درگزر کر، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والے کو دوست رکھتے ہیں۔'' ........ اور

وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ''(متقی) غصہ کو پی جانے والے او رلوگوں کی کوتاہیاں معاف کردینے والے ہوتے ہیں۔''

اس کا عملی مظاہرہ حضورﷺ ساری زندگی ہی فرماتے رہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر جس کمال عفو و درگزر کا مظاہرہ ہوا اس کی مثال تاریخ انسانی کا کوئی انقلاب پیش نہیں کرسکتا۔

لا تثريب عليكم الیوم اذھبوا فأنتم الطلقاء ''آج تم پرکوئی ملامت نہیں، جاؤ! تم آزاد ہو۔''

(10) جرأت و شجاعت

آنحضرت ﷺ کو سینکڑوں مصائب و خطرات اور بیسیوں معرکے اور غزوات پیش آئے لیکن کبھی شجاعت و پامردی کے قدم میں تزلزل واقع نہیں ہوا۔

امام غزالی روایت کرتے ہیں:

کان انجد الناس واجشعھم ''آپ نہایت سخی اور دلیر تھے۔''

غزوہ اُحد اور غزوہ حنین کے واقعات اس حقیقت پرشاہد عادل ہیں۔ غزوہ حنین میں جب کفار حملہ آور ہوئے تو حضورﷺ سواری سے اتر آئے اور زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے:

انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب (بخاری)

''میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔''

مدینہ پرحملہ کی افواہ پھیلی تو حضورﷺ دفاع کے لیے سب سے آگے اکیلے ہی پہنچ گئے۔

حضورﷺ میں آخر یہ جرأت و شجاعت کیوں نہ ہوتی جبکہ خود خدا تعالیٰ کا ارشاد تھا:

واللہ یعصمک من الناس ''اللہ تعالیٰ لوگوں سے آپﷺ کی حفاظت فرمائیں گے۔''

(11) تواضع و انکساری

کان اشدالناس تواضعا فی علو منصبہ (حدیث)

''آپﷺ علو منصبی کے باوجود نہایت متواضع تھے۔''

کسر نفسی اور تواضع کی انتہا یہ تھی کہ حضورﷺ اپنی نسبت جائز تعظیمی الفاظ بھی پسند نہ فرماتےتھے۔ایک دفعہ کسی شخص نے آپ کو یا خیر البریہ (مخلوق کے بہترین) کہہ کر مخاطب کیا۔ آپﷺ نے فرمایا ''وہ ابراہیم تھے۔'' (مسلم)

حضورﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: لا تخیرو نی علی موسیٰ (بخاری) ''مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو۔''

اسی طرح بخاری مسلم میں (متفق علیہ) روایت ہے کہ آپ ﷺ عجز و تواضع کی بنا پر انما ان بشر مثلکم '' میں تمہارے ہی طرح کا آدمی ہوں۔'' فرمایا کرتے۔ آپﷺ نے اُمت کو بھی یہی تعلیم دی او رکسی کے سامنے مداحی کو ناپسند فرمایا: اذا رأیتم المداحین فاحثوا فی وجوھھم التراب۔ (ابوداؤد) ''جب تم بہت مدح سرائی کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر مٹی پھینک دو۔'' یعنی ان کو اہمیت نہ دو اور ان کے منہ بند کردو۔

او رمنشاء ایزدی بھی یہی ہے: واللہ لا یحب کل مختال فخور (حدید) ''اللہ تعالیٰ ہر اکڑنے والے فخر پسند سے نفرت کرتا ہے۔''

(12) راست گفتاری اور ایفائے عہد

حضورﷺ نے اپنی امت کو ان امور کی تعلیم مثبت و منفی دونوں انداز سے دی تھی۔

مثبت انداز یہ تھا:

علیکم بالصدق وایاکم والکذب (حدیث) ''سچ کو لازم پکڑو اور جھوٹ سے دور رہو۔''

اور عائشہ ؓ کی روایت: حسن العہد من الایمان ''ایفائے عہد کرنا ایمان سے ہے۔''

منفی انداز یہ تھا:

ثلٰث من کن فیہ کان منافقاً: اذا حدث کذب واذا وعد اخلف واذا خاصم فجر (حدیث)

''جس شخص میں تین خصلتیں پائی جاتیں وہ منافق ہوتا ہے: بات کرے تو جھوٹی، وعدہ کرے تو خلاف کرے او رجب جھگڑے تو بکواس کرے۔''

جہاں تک حضورﷺ کے اپنے عمل مبارک کا تعلق ہے آپؐ کی ان خوبیوں کا اعتراف مخالفین بھی کرتے تھے۔ آپ کے دعوائے نبوت کی تردید و افکار میں کفار نے آپ ؐ کو ساحر کہا، کاہن کہا، شاعر کہا، مجنون کہا، مگر سیرت و تاریخ کی کتب شاہد ہیں کہ کسی کو اتہام کذب کی جرأت نہیں ہوئی۔ حیرت ہے کہ ابوجہل یہ کہا کرتا تھا: ''محمد ؐ! میں تم کو کاذب نہیں کہتا مگر جو کچھ تم کہتے ہو میں اس کو صحیح نہیں مانتا۔'' (جامع ترمذی، تفسیر انعام)

سیرت ابن ہشام میں مذکور ہے کہ ابوسفیان نے قیصر روم کے دربار میں حضورﷺ کی راست گفتاری او رایفائے عہد کی شہادت دی۔

مندرجہ بالا اخلاقی محاسن کے علاوہ نظافت پسندی، مہمان نوازی، لطف طبع، جود و سخا، ایثار و قربانی، الغرض ہزاروں ایسے پہلو ہیں جن کو علمائے کرام سیر و فضائل کی کتب میں درج کرتے رہے ہیں۔ میں اپنا سلسلہ کلام حضرت حسان بن ثابتؓ کی اس رباعی پر ختم کرتا ہوں:

واجمل منک لم ترقط عین ... واحسن منک لم تلد النساء

خلقت مبرأ من کل عیب ...... کانک قد خلقت کما تشاء

''آپﷺ سے زیادہ حسین صورت آج تک آنکھ نے نہیں دیکھا، آپﷺ سے زیادہ خوبصورت تو عورتوں نے جنا ہی نہیں، آپﷺ تو ہر نقص و عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں گویا کہ جیسے آپﷺ نے چاہا اللہ نے بنا دیا۔''

اللہ تعالیٰ آپﷺ کی خوبیوں کو اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین