کہتے ہیں مسلم بنگال میں انقلاب آگیا ہے ..... ہوگا؟

14 اور 15۔ اگست کی درمیانی شب کو تقریباً 3 بجے بنگالی میر جعفر اور غدار قوم شیخ مجیب کی حکومت کا تختہ الٹ کر فوج نے اس کو تختہ دار پر لٹکا دیا ہے۔ کہتےہیں کہ اس کے پورے خاندان میں ایک بچے کے سوا او رکوئی نہیں بچ سکا۔

مسلم بنگال خوش ہے کہ بنیا کے ایک غلام سے چھٹکارا نصیب ہوا، مزدور مسرور ہے کہ روٹی کے سبز باغ دکھانے والے جھوٹے مجیب سے خلاصی ہوئی، خدا پرستوں نے چین کا سانس لیا ہے کہ ایک بے خدا شخص کے اس منحوس دور سے نجات ملی جس میں صدا یہ سماں طاری رہتا تھا۔

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا کرکے تھانے میں

کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

وحدت ملت کے حامیوں کی بر آئی کہ ملت اسلامیہ کی وحدت کا راہ کا ایک سنگ گراں دفع ہوا۔مسلم بنگال کی دھرتی کی بھی خدا نے سن لی، جس کے سینہ پر برسوں سے وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا جسے لوگ سیلاب کہتے ہیں ، وہ دراصل اس دکھیاری سرزمین کے درد بھرے نیر اور آنسو تھے۔ جنہیں بہت کم سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ 1970ء میں انتخابات کے نتیجہ میں ''بنگہ بندھو'' اقتدار کی جو گھٹا اٹھی تھی اسے لوگوں نے دور سے دیکھا تو جھوم کر آہا بول اٹھے لیکن مجیب شناس قدرت مسکرائی۔ کہ او نادانو! تم غلط سمجھے! جس کی زندگی کے پورے ترکش میں ''اسلامی شعار اور خدا سے وفا'' کا ایک بھی پاک تیر تم نہ دیکھ سکے، اس سے تم کیونکر رحمت اور وفا کی امیدیں باندھتے ہو؟ نادانو!یہ گھٹا جو نظر آتی ہے ، رحمت کی گھٹا نہیں بلکہ عذاب کی ہے او رسرتا پاعذاب کی۔

اللہ تعالیٰ نے ایک نافرمانی قوم کاذکر کیا ہےکہ اللہ کے پیغمبروں نے جب ان کو غلط روی کے انجام بد سےڈرایا تو ڈرنے کے بجائے اور اکڑے کہ عذاب کا یہ تیر بھی تم آزمالو۔ بس پھر کیا تھاکہ اس پار سے بادلوں کی ایک گھٹا اٹھی جسے دیکھ کر وہ جھوٹ گئے اور آہا! آہا! ابھی کر ہی رہے تھے کہ اس نے آکر انہیں تہس نہس کرکے رکھ دیا۔

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ(پ26۔احقاف ع3)

اب پھر ایک گھٹا اُٹھی ہے، جس سے ہمیں بھی گو خوشی ہوئی ہے، تاہم جلدی نہ کیجئے!کیونکہ انقلابی حکمران اسی مشینری کے پھینکے ہوئے کل پرزے ہیں، خدا جانے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔ اب تک کا تجربہ ہے کہ جو بھی انقلابی آیا ہے،لوگوں نے اسے ہی نجات دہندہ تصور کیا ہے، خود اس نے بھی ایسے ہی دعوے کیے ہیں، مگر جب ان کے نتائج سامنے آوے ہیں تو عموماً سب نے محسوس کیا کہ:یہ سب توقعات قبل از وقت خوشی فہمیاں تھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ :ہم دعوؤں پر تو نگاہ رکھتے ہیں، لیکن مدعیوں کی زندگیوں او ران کے ماضی کے مطالعہ سے بے نیاز ہورہتے ہیں او رکبھی اس امر کے سوچنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جولوگ محمد ﷺ کے سچے وفادار اور خدّام نہیں ہیں، وہ ہم سے خاک وفا کریں گے، جن کے اپنے سارے دھندے ''ہیرا پھیری'' پرمبنی ہوتے ہیں وہ محض آپ کے مستقبل اور ملی مفاد کے لیے اتنے پرخلوص لیڈر کیسے ثابت ہوں گے؟

مسلم لیگ نے نعرہ لگایا کہ :پاکستان بنے گا تو قرون اولیٰ کا اسلامی نظام اور اس کی رحمتیں لوٹ آئیں گی لیکن جو پاکستان کے داعی تھے ان کی اکثریت کے شب و روز کے مطالعہ کی کسی نے بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ چنانچہ جب وقت آیا اور بانی پاکستان مرحوم بھی لدگئے تو دنیا نے دیکھ لیا کہ باقی جو تھا چھان بورا نکلا۔ مگر ایک کے بعد جو آتا پھر وہی مغالطہ ساتھ لاتا جو پہلے دن سے آزمایا جارہا ہے۔

اب مشتاق احمد کھنڈکر تشریف لائے ہیں، گو ہم اس کی زندگی او رماضی سے پوری طرح واقف نہیں ہیں تاہم اتنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بھی اسی بنگالی میر جعفر کی مشینری کا ایک پرزہ رہا ہے۔ جس کا انہوں نے اب تیاپانچہ کیا ہے۔ اس لیے گو ہم مایوس نہیں ہیں لیکن قبل از وقت اس پر جھومنے اور شادیانے بجانے کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ ہاں دعاضرور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اسلامی اقدار کے احیاء کے توفیق دے اور دعا کرتے ہیں کہ وہ اسلام او رملت اسلامیہ کے مستقبل کے لیے کچھ کرسکیں اور مسلم بنگال کے باسیوں کے حال زار کا کچھ مداوا بھی کرپائیں۔ انقلاب کانعرہ ایک رومانوی نعرہ بن گیا ہے لیکن عموماً ان کے نتائج توقعات کے خلاف ہی برآمد ہوئے ہیں۔ خدا کرے اب کے ایسا نہ ہو او راب تک مسلم بنگال پر جو گزری ہے اس کی تلافی ہوجائے او رپاکستان کامطلب کیا لا الہ الا اللہ کا خواب پھر پورا ہوجائے۔ آمین

۔۔۔۔۔۔:::۔۔۔۔۔۔

مسجد ابراہیم اور یہود

الخلیل ایک قصبہ کا نام ہے جو دریائے اُردن کے مغرب کنارے پر بیت المقدس سے 20 میل کے فاصلہ پر پہاڑوں کے درمیان واقع ہے، یہ قصبہ سطح سمندر سے تین ہزار فٹ کی بلندی پر بیت اللحم کے جنوب میں واقع ہے، اس کی آبادی اب تقریباً پچاس ہزار ہے۔ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی زندگی کے دن زیادہ یہاں گزارے تھے۔

حرم الخلیل کے تحت ''مکفلا'' نامی ایک عظیم اور تاریخی غار ہے، جس میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے تاریخی مزار ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ غار اپنے خاندان کے قبرستان کے لیے خرید کیا تھا۔ جہاں اب حضرت سارہ، حضرت ابراہیم، حضرت اسحا ق او رحضرت یوسف علیہم السلام کے مزارات واقع ہیں۔ ان مبارک مزارات کے تعویذ مسجد ابراہیم کے بالائی فرش پر ایک خاص حصے پرتھوڑے تھوڑے فاصلے پر تعمیر کیے گئے ہیں اس لیے اس کے قدرتی طور پردو حصے بن گئے ہیں۔ ایک حصے پر مزارات ہیں ، دوسرے حصے پر مسجد ہے۔

اس مسجد کے پاس ایک مسافر خانہ ہے جوقدیم ایام سے مسافروں کے ٹھہرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس سلسلے کے تمام اخراجات حضر ت تمیم دارمی ؓ اور دوسرے بزرگوں کے اوقاف سے پورے کیے جاتے ہیں۔ یہ ستمبر 1968ء تک اردن کا حصہ رہا ہے۔

5 جون 1968ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ستمبر 1968ء میں اس پر یہودیوں نے قبضہ کیا، پھر بتدریج اس پر اپنی گرفت سخت کرنا شروع کردی، پہلے آس پاس کی مسلم آبادی کو برباد کرکے ان دیہاتوں میں یہودیوں کو لا بسایا، جب ان کی نفری بڑھی تو انہوں نے بتدریج مسجد پر ڈورے ڈالنے شروع کردیے۔ پہلے اس کےمزارات والے حصہ پر قبضہ کیا او ریہی حصہ بڑا تھا اور اسی جانب مسجد کے دروازے بھی بہت پڑتے ہیں، پھر یعقوب علیہ السلام کے مزار کو ایک نئی چھت کے ذریعے مزار ابراہیم سےملانے کااعلان کیا، پھر مسجد میں اپنے حصے کے لینے کا پروگرام بنایا، اس میں ''عبادت سبت ''کی، ساتھ ہی مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے سے روکنے او ران کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے انواع و اقسام کے ظلم ڈھائے۔ ان کو اجاڑا، ان کولوٹا، ان کو گھر سے بےگھر کیا، وہاں ایک کنواں تھا ، جسے انہوں نے ختم کیا۔ ایک تاریخی دیوار گرائی،مسجد کی الماریاں اور چٹائیاں تک اٹھا کر لے گئے، ان کے جنازوں کی بے حرمتی کی، جس سے غرض یہ تھی کہ اب مسلم ان کے چمار بن کر رہ جائیں او ریوں مرعوب ہو رہیں کہ سراٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنے کا حوصلہ نہ کرسکیں۔ حالانکہ بیت المقدس کے منشور میں یہ تحریر ثبت ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے ہے او رکوئی یہودی اسےاستعمال کرنے کا مجاز نہیں ہے۔مگر اب گنگا الٹی بہ نکلی۔ جو اصل وارث تھے، ان کو نکال باہر کیا جارہا ہے او رجن کو اس کے استعمال نہیں تھی، وہ اس کے متولی اور وارث بن بیٹھے ہیں۔مسجد صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے،غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے نام معبد، گوردوارہ، مندر او رکلیسا وغیرہ ہیں۔ اس لیے کسی دوسری قوم یا فرقے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کے مذہبی معاملات یا عبادت گاہوں میں کوئی تصرف یا مداخلت کرے۔ تصرف او رمدافعت تو بڑی بات ہے، ہمارا قرآن تو یہ اعلان کرتا ہے کہ اگر یہ مسجدیں بنانا بھی چاہیں تو ان کو اس کا حق نہیں ہے۔
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ(پ10۔ توبہ ع3)

ہمیں پوری طرح علم ہے کہ اس سود خوار قوم کو عبادت گاہوں سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کو میخانے یا قمار خانے درکار ہیں، دراصل وہ اپنے ارد گرد مقدس مقامات کا حصار قائم کرکے اپنی ریاست کا استحکام چاہتے ہیں، تاکہ دائرہ بھی وسیع ہوجائے، مسلمانوں کاانخلاء بھی آسانی سے کیا جاسکے، او رکچھ عرصہ کے بعد وہ دنیا کی نگاہ میں بڑے ''پیرومرشد اور احبار''' کہلا کر ساری روحانی دنیا کے پیشوا بن سکیں۔مسلمان بہرحال ان کی ان چالوں اور سازشوں کو سمجھتے ہیں او روہ اپنی ہزار کمزوریوں کے باوجود اتنی ہمت رکھتے ہیں کہ ''یہود و نامسعود'' کادماغ درست کرسکیں۔

یہودیوں کی تمام تخریبی سرگرمیوں اور فریب کاریوں کے پیچھے جو دست غیب کام کررہے ہیں، وہ تمام بڑی طاقتیں ہیں جو اس امر پرمصر ہیں کہ یہودیوں کا ایک وطن ضرور ہونا چاہیے۔ اگر درمیانی حل کے طور پر کسی عرب ملک نے بھی ان کی منظوری دی تو مسلمان اسے تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اس کے وارث 80 کروڑ مسلمان ہیں، کوئی ایک مسلم ملک نہیں۔

اب تازہ خبر موصول ہوئی ہے کہ جدہ میں اسلامی وزراء خارجہ کی ایک کمیٹی نے اسرائیلی تجاویز کے خلاف جوابی کارروائی کا پروگرام تیار کرلیا ہے اور اس امر کا امکان قوی ہے کہ احتجاج کے لیے وزراء خارجہ کی کانفرنس بلائی جائے۔

شہزادہ سعود الفیصل نے بالکل صحیح کہا ہے کہ :

دنیائے اسلام اب اتنی طاقتور ہےکہ اسرائیل سے اپنے مقدس مقامات واپس لے سکے اور اسرائیل کو انہوں نےخبردار کیا کہ اسلامی ممالک اپنے مقدس مقامات کی بے حرمتی ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔اسرائیل کو چاہیے کہ مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرنے سے باز رہے او رمسلم مقامات مقدسہ کے خلاف اپنی مذموم حرکت ترک کردے ورنہ اسرائیل کے خلاف طاقت بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

روحانی لحاظ سے نہ سہی ، دنیوی طور پربھی اسرائیل کے یہ تمام منصوبے اور اقدامات مقبوضہ علاقے کے رہنے والوں کے حقوق اور مراعات سے متعلقہ جنیوا کنونشز کےبھی صریحاً خلاف ہے او راقوام متحدہ نے اس علاقہ کی اراضیات او راملاک کے بارے میں جو قرار دادیں منظور کررکھی ہیں ۔ ان کی بھی یہ صریح خلاف ورزی ہے۔ ان کی قرار دادوں میں سے اس مفہوم کی قرار دادیں بہت ہیں کہ اسرائیل نے بیت المقدس کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے جتنے قانونی و انتظامی اقدامات کیے ہیں، وہ سب ناجائز ہیں۔مسجد ابراہیم کا تعلق بھی اسی قسم کے تحفظات سے ہے۔

بہرحال اسرائیل کوچاہیے کہ اب مسلمانوں کو مزید اشتعال دلانے کی کوششیں ترک کردے اور انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ :مسلمان مسجد ابراہیم اور بیت المقدس کی قانونی حیثیت میں تبدیلی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔

۔۔۔۔۔::::::۔۔۔۔۔۔

ماہ رمضان میں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی ذمہ داری

چند شرعی معٍذوروں کے سوا دوسرے ہر مسلمان پر روزے فرض ہیں۔ مثلاً مریض،مسافر، دیوانے، دودھ پلانے والی یا حاملہ خواتین او رنابالغ بچے عنداللہ معذور ہیں۔ ان کے علاوہ باقی جو مسلمان افراد ہیں، ان میں سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔اگر کوئی تندرست شخص روزہ رکھنے سے جی چراتا ہے تو لوگ یہ کہہ کر خاموش ہورہتے ہیں۔

اپنی اپنی کرنی اور اپنی اپنی بھرنی

یہاں تک کہ حکومت بھی عوام یا خواص کی اس فروگذاشت سے بے تعلق رہتی ہے بلکہ اس سلسلے میں ان کا احتساب کرنے کو مداخلت فی الدین یا جمہوری حقوق میں مداخلت تصور کرکے چپ ہو رہتی ہے۔ حالانکہ اس کا نام ''مداخلت'' نہیں بلکہ یہ اس کا سیاسی فریضہ بھی ہے کیونکہ ہر اسلامی مملکت اس امر کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ دین اسلام کے سلسلے میں عوام پرکڑی نگاہ رکھے اور ان کو راہ راست پر چلنے کے لیے قانونی طاقت کا استعمال کرے۔

حضرت عمر بن الخطابؓ (ف23ھ) کی خلافت کے دور میں ایک شخص نے ماہ رمضان میں شراب پی تو آپ نے اس کو 80 دُرے لگائے اور فرمایا:

ويلك وصبياننا صيام (بخاری) ''تیرا ناس ہو! (تو جوان ہوکر شراب پیتا ہے) حالانکہ ہمارے چھوٹے بچے تک روزے سے ہیں۔''

پھر اس کو ملک شام میں جلا وطن کردیا۔ (بغوی)

اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست کے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ ماہ رمضان کے تقدس کی نگرانی کرے اور جو غیر معٍذور لوگ اس کے احترام کے منافی کوئی حرکت کریں ان کو اس کی سزا دے۔