قرب ووصال کی گھڑیاں، ایام صیام کی ساعتیں
دنیا اپنا ایک مزاج اور اسلوب رکھتی ہے ، جس طرح اس کوبالکلیہ نظر انداز کرنا اس کے فطری حقوق اور احترام کے بالکل منافی ہے ، اسی طرح اس کو بالکلیہ آزاد اور آوارہ چھوڑ دینا بھی نادان کے ہاتھوں میں چُھری تھما دینے کےمترادف ہے۔
اپنے انداز زیست کے لیےدنیا جو نظام تمدن تخلیق کرپاتی ہے۔ اس کےتین رنگ اور تین ہی اسلوب ہیں:
تمدن حسی: اس کی ساری عمارت حواس، اس کی تخلیقات اور نتائج کی اساس پر قائم ہے۔ یہ ایک ایسا عوامی تمدن ہے جس میں انسانی معاشرہ کے لیےبلاکی کشش پائی جاتی ہے۔ کیونکہ جیسا یہ سہل ترین ہے۔ ویسا ہی انسانی خواہشوں کی تسکین اور شادکامی کے لیے سب سے لذیٍذ اور قرب تر بھی یہی ہے، اغراض ،مصالح، ذاتی منفعت اور نقد حظ نفس کے لیے یہ تمدن ایک پُرکشش ، مزیدار اور ایک کیف اور دستر خوان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں اجتماعیت کے مقابلے میں انفرادیت یعنی ''نفسی نفسی'' کا رنگ غالب ہے اور اجتماعیت بھی جہاں اور جیسا کچھ پائی جاتی ہے وہ بھی چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح نجی اور شخصی اغراض کے خمیر پر قائم ہے۔ الغرض یہاں حواس کی پوری دنیا ''لذتیت اور بہیمی خواہشات'' کی تکمیل کے لیے سرگردان ہے اور ان کی چاکری میں شب و روز مصروف ہے۔
عقلی تمدن: یہ وہ نظام ہے جوتمدن حسی کو ''معقولیت'' کی راہ پر ڈالنے کے لیے کچھ سفارشیں مہیا کرتا ہے لیکن جزوی طور پر تو کسی حد تک اس کی سن لی جاتی ہے مگر ایک نظام کی حیثیت سے عملاً وہ کہیں بھی برپا نہیں ہے۔ بلکہ اس سے معنوی مقاصد کے لیے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اب اس کے ذمے یہ ڈیوٹی بھی لگا دی گئی ہے کہ ''منفعت عاجلہ اور لذت ذائقہ'' کے انواع والوان تلاش کرکے وہ ''کام و دہن'' کی تسکین کے لیے وسائل کابھی کھوج لگائے۔ دراصل اس ''عقلی تمدن'' میں جو عقل کار فرما ہے ، وہ عقل حیوانی ہے جو انسان کے صرف حیوانی تقاضوں کا احساس رکھتی ہے اور اسی حد تک انسان کے لیے مشعلیں روشن کرتی ہے جس سے بالآخر وہ تاریخی بڑھتی ہے جس سے انسانی مستقبل مزید تاریک ہوجاتا ہے۔
رہبانی اور اشراقی تمدن: یہ تمدن مادہ پرستی اور حواس کی غلامی کی بالکل ضد ہے۔ ان کانظریہ ہے کہ جسم کو اسی حد تک گھلاؤ کہ روح کو وہ چھوڑ دے اور اس قفس عنصری سے طائر روح کے لیے آشیانہ کی طرف پرواز کرنا آسان ہوجائے۔ ان کاخیال ہے کہ لذتیت ،جسم و جان کے تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔ اس لیے نفس کشی پر اصرار جاری رکھا جائے تاکہ اس مادی ڈھانچہ سے بیزار ہوکر روح خود بخود اپنے مرکز کی طرف سفر کرجائے۔
ہمارے نزدیک یہ تینوں نظام، انسان کے حال اور مستقبل کے لیے سخت مضر ہیں ، ان کی وجہ سے انسان ماہ وانجم کی بلندیوں کومسخر کرلینے کے باوجود ''قعر مذلت اور سفلی زندگی'' جیسے گڑھوں سے نکل نہیں سکا اور نہ آئندہ ان سے اس کی توقع ہے۔
حسی تمدن، سرتا پا بہیمی ہے، عقلی تمدن نسبتاً بہتر ہے لیکن جو چالو ہے وہ حیوانی عقل پرمبنی ہے۔ کیونکہ وہ حسی تمدنی کا حصہ ہے اور زیادہ تر یہی برپا ہے، رہی عقل سلیم کی بات؟ سو تنہا اس کاکہیں وجود نہیں پایا جاتا۔ اشراقی تمدن، دراصل ترک دنیا کا نام ہے، جو بہرحال مضرت کے لحاظ سے حسی تمدن سے کم نہیں ہے۔
ان کے مقابلے میں ''اسلامی تمدن اور طرز معاشرت'' جو ایک ایسی اساس پر قائم ہے جو مندرجہ بالا تینوں کےمحاسن کا مجموعہ ہے اور ان کی ہیئات سے منزہ اور پاک ہے یعنی آوارہ دنیا ہے نہ ترک دنیا بلکہ یہ ''باخدا دنیا ہے اور صرف ''باخدا دنیا''
اسلام میں جو ''عبادات'' کا تصور پایا جاتا ہے ، وہ ''فراری '' نہیں ہے کہ دنیا کو چھوڑ کر کوئی کام کیا جاتا ہو بلکہ ''دنیا کو باخدا'' گزارنے کانام عبادت ہے اس لیے حکم ہے کہ :
ادخلوا في السلم كآفة ''اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ''
یعنی مسلم کی پوری زندگی مومنانہ ہونی چاہیے، اس لیے مسلم کا ہر لمحہ اور اس کی زندگی کا ہر پہلو عبادت بن جاتا ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسی اسلامی عبادات دراصل مسلم کی عمومی زندگی اور مومنانہ سفر حیات سے ہٹ کر کوئی اقدام نہیں ہے بلکہ یہ بھی اس کی عمومی زندگی کی ایک مبارک کڑی ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ تعلق باللہ اور صبغۃ اللہ کے رنگ کے پھیکا پڑ جانے کے جو امکانات پیدا ہوجاتے ہیں بس اس کو کنٹرول کرنے کے لیے یک رنگی کی یہ ایک صورت ہے جو پیدا کر لی جاتی ہے ۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
ان عبادات میں ''روزہ'' کو خاص اہمیت حاصل ہے۔دیکھئے تو روزے دارمصروف کار بھی ہے ۔ سوچئے! تو دل اس کا سوئے یاربھی ہے بظاہر وہ دکان میں بیٹھا ہے لیکن باطن میں معیت الہٰی کے احساس سے ہمکنار بھی ہے۔ دیکھنے میں لوگوں کی انجمن اور محفل میں براجمان بھی ہے مگر حال یہ ہے کہ وہ تنہا بھی ہے، روٹی کما بھی رہا ہے اور روٹی سے بیزار بھی ہے۔
سوشلزم اور دنیا داروں کااصرار ہے کہ : شکم کے تقاضے بہرحال پورے ہوں، خدا کہتا ہے کہ شکم سے بالاتر ہوکر حریم کبریا کے دیار کا سفر بھی کبھی کردیکھئے! لوگ کہتے ہیں کہ ساری بے اطمینانیوں کی جڑ، زر، زمین اور زن کے سلسلے میں ''عدم مساوات'' ہے۔ اسلام کاارشاد ہے کہ اصل بنائے فساد یہ (زر ، زن اور زمین جیسے) وسائل نہیں ہیں بلکہ ان کو الٰہ، قاضی الحاجات، مطلوب بالذات اور بے خدا تصور کرنا ہی بگاڑ کی اصل بنیاد ہے۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ:
جس ماہ میں غزوہ بدر پیش آیا وہ پہلا ماہ رمضان تھا۔ جس میں روزے فرض ہوئے۔ (زاد المعاد:1؍160)
گو وہ گوشہ تنہائی میں خلوت گزین ہے مگر اللہ کی معیت کے احساس سے سرفراز بھی ہے، دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ غیر اللہ سے ذرہ بھر بھی نہیں ڈرتا، لیکن اس کا حال یہ ہے کہ خشیت الہٰی سے ترساں بھی ہے،جب کوئی پاس نہیں ہوتا، اس وقت بھی حدود اللہ کا اسے پاس رہتا ہے۔
روزے سے انسانیت کو جلا نصیب ہوتی ہے۔ سرکش بہیمی خصائص کا زور ٹوٹتا ہے، مسرفانہ حیوانی تقاضوں کابوجھ ہلکا ہوتا ہے اور انسانیت ملکوتی خصائص سے آراستہ ہوکر گردن فراز ہوجاتی ہے۔
قرآن حکیم کاارشاد ہے کہ:
روزوں کی یہ ریت شروع سے چلی آرہی ہے اور ہر قوم پر یہ فرض رہے ہیں۔
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ (بقرہ)
اس مبارک ماہ میں اس قرآن حمید کا نزول ہوا جو''کامل رہنمائی'' کا حامل ہے، رہنمائی روز روشن کی طرح دلائل و حقائق پرمبنی ہے ورنہ ایک آئینی تقاضے سے عہدہ برآ ہونے والی بات ہوتی ، لیکن اس سے قلبی خلش اور ذہنی بوجھ سے چھٹکارا نہ ملتا اور وہ سرتاپافرقان بھی ہے یعنی حق اور باطل ، خیر اور شر، نیک اور بد، مضر اور نافع کے سلسلے میں اس کی تعلیمات اور فیصلے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور لیلھا کنھارھا کے مصداق ہیں۔ عقل سلیم اور صالح نفسیات زبان حال سے بول اٹھتی ہیں کہ : گویا یہ بھی میرے دل میں تھا۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ(بقرہ)
ماہ رمضان میں اس کے نزول کی جو حکمت سمجھ میں آتی ہے وہ دراصل مبارک فضا ہے۔ جوقرآنی تعلیمات اور ہدایات کے لیے سازگار ہوتی ہے۔ کیونکہ قرآن حمید سے کسب فیض کے لیےفکر و عمل اور قلب و نگاہ کی طہارت ضروری ہے اگر سچی طلب ،پیاس اور خدا جوئی کا جذبہ موجود نہ ہو تو قرآن پاک تعویذ نہیں ہے کہ وہ بے طلب کسی کو اپنے رنگ میں رنگ دے۔
اس لیے فرمایا کہ :
خدا کو تمہارے لیے آسانی منظو رہے سختی اور مشکل نہیں۔
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ(بقرہ)
یہ اس لیے فرمایا کہ: ماہ رمضان کے سچے روزوں کا یہ بالکل قدرتی نتیجہ نکلتا ہے کہ دینی تعلیمات اور قرآنی حقائق انسان کے لیے بوجھ کے بجائے روحانی غذا بن جاتے ہیں، اس لیے اسے ''یسر'' سے تعبیر کیا گیا ہے۔
قرآن حکیم نےروزوں کی خود بھی جو حکمت بیان فرمائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ :
روزوں کےسلسلہ میں قرآن حکیم نے جو ہدایات جاری کی ہیں اور آپ کی سہولتوں کے لیے جو کرم نوازی کی ہے، اس کی بنا پر آپ بھی اللہ تعالیٰ کا بول بالا کریں۔
اگر ایک روزے دار،پورا ماہ روزے رکھ کر اور قرآن کو سینہ سےلگاکر خدا کابول بالا کرنے کے قابل نہیں ہوتا یا اس کے لیے مناسب اہتمام اور اقدام نہیں کرپاتا تو سمجھ لیجئے کہ سب کچھ کرکے آپ نے کھویا ہے پایا نہیں۔
دوسری یہ حکمت بتائی ہےکہ :
تاکہ اس ہدایت کے ملنے پر آپ خدا کاشکر کریں۔
و لعلکم تشکرون (بقرہ3 ع2)
شکر یہ کامفہوم یہ ہے کہ :
حق تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کی تعمیل ، احساس ممنونیت کے ساتھ کی جائے، ہمارے نزدیک یہ وہ سٹیج ہے جہاں پہنچ کر انسان کتاب و سنت کی تعلیمات اور تقاضوں کے لیے اپنے اندر ایک قدرتی پیاس محسوس کرتا ہے۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہےکہ:
''انسان صحیح معنی میں مسلم اس وقت ہوتا ہے ، جب قرآن کےفرمائے ہوئے اوامر و نواہی اس کی اپنی خواہش بن جائیں، یعنی وہ یہ نہ سمجھے کہ میں کسی حاکم یاآقا کے حکم و تسلط کے ماتحت فضائل اخلاق و عبادات پر کاربند اور ذمائم و قبائح نفس سے مجتنب ہوں بلکہ یہ چیزیں اس کی اپنی تمنا بن کر اس کے عمق روح سے اچھلیں، قرآن اس کے حق میں ایک تلخ اور شافی دوا نہ رہے بلکہ ایک لذیذ اور زندگی بخش غذا بن جائے۔ منشائے الہٰی اور فطرت انسان میں مغائرت نہ رہے (ملفوظات اقبال ص 70)
تیسری جو چیز قرآن حکیم کے سامنے ہے وہ بندوں کے تقویٰ کی نشوونما اور تکمیل ہے۔ لعلکم تتقون (بقرہ ع23)
تقویٰ کیا ہے؟ یہ اس بے چینی یا اندیشہ ہائے درون کا نام ہے جو ایک عاشق زار اپنے حبیب کے روٹھ جانے کے احساس سے اپن قلب و نگاہ کے نہاں خانوں میں سدا محسوس کرتاہے۔ جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔
اےبرق تو ذرا کبھی تڑپی ٹھہر کئی
یا عمر کٹ چکی ہے اسی اضطراب میں
جہاں شب و روز بے کلی کا سا سماں برپا ہو، وہاں حق تعالیٰ جیسی قدردان ذات کریم کا یہ اعلان کچھ غیر متوقع نہیں رہتی کہ:
الصوم لي وأنا أجزي به(بخاری) ''روزہ میرےلیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا''
روزہ دار اب اس پر کیوں نہ فخر کریں۔
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
رحمۃ اللعالمین ﷺکا ارشاد ہےکہ :
''جس شخص نے مؤمن ہوکر محض رب سے اجر پانے کے لیے ماہ رمضان کے روزے رکھے اور رات کو قیام کیااس کے پہلےسب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔''
من صام رمضان إیمانا و احتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه ومن قام رمضان إیمانا واحتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه الحدیث (بخاری و مسلم)
رحمۃ اللعالمین ﷺ اس ماہ میں جود وسخا کی حد کردیتےتھے،جیسی اندھیری چل پڑی ہو۔ (کالریح المرسلۃ ۔ بخاری)
أطلق کل أسیرو أعطی کل سائل (بیہقی)
''آپ ہر قیدی کو آزاد کردیتے اور ہرسائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دے دیتے تھے۔''
اس مبارک ماہ میں قرآن پاک کا ایک ختم آپ ضرور کیا کرتے تھے اور جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ بیٹھ کر دھراتے تھے۔ (بخاری)
حضرت عمر جب قرآن حکیم کا ختم کرتے تو ایک اونٹ ذبح کیا کرتے تھے یعنی شکرانے کے طو رپر ۔ (سیرت ابوبکرؓ)
حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل جیسے ائمہ بھی قرآن مجید کثرت سے ختم کیاکرتے تھے اور فرماتے کہ اس کے بعد دعا قبول ہوتی ہے۔ (صفۃ الصلوٰۃ لابن الجوزی)
صحابہ رمضان کی مبارک راتوں میں اس قدر لمبا قیام کیا کرتے تھے کہ سحری کے فوت ہوجانے کاان کو اندیشہ لاحق ہوجاتا تھا۔ قیام اللیل وغیرہ)
لیکن افسوس! آج کل قیام (تراویح) صر ف ایک گھنٹہ مگر تعداد رکعت پر بحث شاید ساری رات۔ انا اللہ
الغرض:ماہ رمضان کے روزے انسانیت کو بہیمیت کے بوجھ سے ہلکا کرکے کتاب و سنت سے ہم آہنگی کے لیے ایک مبارک تقریب پیدا کردیتے ہیں۔ کیا کوئی ہے کہ حق تعالیٰ کے اس احسان اور اکرام کااحساس کرے؟
یہ قرآن جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی ماہ میں نازل ہوا تاکہ اس سازگار فضا اور ماحول میں قرآنی رشد و ہدایت اور رحمتوں کو حرز جان بنا سکیں۔ غرض یہ ہے کہ تزکیہ و طہارت کا اہتمام ہوجائے تاکہ احکم الحاکمین کے پاک دربار اور باب الہٰی میں آپ بار یاب ہوسکیں،اگر پورا ماہ روزے رکھ کر بھی آپ قرب ووصال کی اس دولت سے شاد کام نہ ہوسکے تو پھر یقین کیجئے کہ ماہ مبارک کے روزوں میں آپ سےکوتاہی ہوگئی ہے اور یہ بہت بڑا حرمان اور بدنصیبی ہے۔
من حرم خیرھا فقد حرم (نسائی۔ابوہریرہ)
ولا یحرم خیرها إلاكل محروم (ابن ماجہ۔ انس)