اپنی قبر کے لیے پاک جگہ کی تمنّا ....خانقاہ کے نام وقف

ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ:

1۔ اگر کوئی شخص یہ وصیت کرے یا اس کی خواہش کرے کہ :اس کو کسی پاک جگہ ، مقدس مقام اور نیک لوگوں کے پاس دفن کیا جائے تو کیا یہ جائز ہے ؟ کیا اس سے اس کو فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے؟

2۔ کسی خانقاہ کے نام زمین ، مکان یا مخصوص آمدنی وقف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

الجواب واللہ اعلم بالصواب

پاک جگہ کی تمنّا:

اس سے پہلے بھی یہ سوال اور اس کاجواب شائع ہوچکا ہے، شائد موصو ف کی نظر سے وہ نہیں گزرا ۔ مزید مکرر عرض ہے کہ :

پاک جگہ کی تمنّا کرنا جائز ہے،جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر میں آتا ہے کہ جب ان کو یقین ہوگیا کہ موت بہرحال آکر رہے گی تو انہوں نے رب سےکہا کہ :الہٰی !تو پھر مجھے ارض مقدس سے قریب کر دیجئے!تقریباً پتھر پھینکنے کے فاصلہ پر۔

قال فلان: فسأل اللہ أن یدیته من الأرض المقدسة رمیة بحجر (بخاری:1؍178) باب من أحب الدفن في الأرض المقدسةأونحوھا)

باقی رہا تمنّا؟ سو اصل میں مطالعہ اس کا چاہیے! کہ اس کامحرک کیا ہے؟

کیا اس کی تہ میں یہ بات ہے کہ : وہ خود پاک ہستی ہے، اس لیے اپنی روح کی تسکین کے لیے ویسی سازگار فضا اور ماحول چاہتی ہے تو ان شاء اللہ یہ حسرت ضرور رنگ لائے گی، جیسا کہ حضرت عمرؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ دفن ہونے کے لیے حضرت عائشہؓ سے درخواست کی تھی۔

قال رأیت عمر بن الخطاب قال یا عبداللہ بن عمر اذھب إلی أم المؤمنین عائشة فقل یقرأعمر بن الخطاب علیک السلام ثم سلھا أن أدفن مع صاحبی، الحدیث (بخاری کتاب الجنائز ص186 باب ماجاء في قبر النبیؐ الخ)

اگر صلحاء سے مسنون عقیدت اور مقامات مقدسہ سے خالص محبت کانتیجہ ہے تو بھی اس امر کی گنجائش ہے کہ وہ اس کی تمنا کرے لیکن دیکھنا ہوگا کہ اس کی زندگی کو ان سے کچھ مناسبت بھی ہے؟ ورنہ یہی کہا جائے گا کہ سستی بخشش اور چور دروازے سے بہشت میں وہ گھسڑنے کی کوش کرنے لگا ہے۔ ایسے حال میں وہ بات کہی جائے گی جو حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابوالدرداء ؓ سے فرمائی تھی۔

حضرت ابوالدرداء نے حضرت سلمان ؓ سے درخواست کی تھی کہ آپ ''ارض مقدس''تشریف لے آئیں!آپ نے ان کو لکھا کہ زمین نہیں ،عمل انسان کو پاک کرتا ہے۔

أن أبا الدرداء کتب إلی سلمان أن ھلم إلی الأرض المقدسة فکتب إلیه سلمان أن الأرض لاتقدس أحد وإنما یقدس الإنسان عمله (مؤطا مالک،جامع القضاء کراھیة)

اہل بدعت کے لیے اس قسم کی تمنا کہ صالحین کے جوار میں جگہ ملے،اخروی لحاظ سے ہو سکتا ہے کہ ان کےلیے مضرر ہے کیونکہ شخصیت پرستانہ ذہنیت سے آزاد ہوکر ایسی پاک فضا اورمعصوم ماحول کی تمنّا کرنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ دنیامیں بھی وہ غیر اللہ کی پناہ ڈھونڈتے رہے ہیں اور مرنے کے لیے بھی کچھ اس قسم کے غیراللہ کی پناہ تلاش کرتے ہیں۔

تاریخ و سیر سے پتہ چلتا ہے کہ بعض بزرگ ہستیاں ایسی بھی تھیں جنہوں نے پاک لوگوں کےجوار سے پرے رکھنے کی وصیت کی کہ میں کس منہ سے ان کے پڑوس کی تمنا کروں، چنانچہ حضرت صدیقہ ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے بھانجے حضرت ابن زبیر سے وصیت کی تھی کہ مجھے حضور اور شیخین کے ہمراہ دفن نہ کرنا۔

أنھاأوصت عبداللہ بن الزبیر لا تدفنی معھم ادفني مع صواحبي بالبقیع لا أزکي به أبداً (بخاری ایضا:1؍186)

امام ابن حجر نے اس کے دو معنی بیان کیے ہیں، ایک یہ کہ حضور کے پاس دفن ہوکر دوسری ازواج مطہرات پر میں اپنی برتری ثابت کرنا نہیں چاہتی۔ دوسرے یہ کہ واقعہ جمل کے بعد آپ وہاں دفن ہونے سے شرماگئیں کہ اب کس منہ سے ؟ یہ سبھی کچھ ان کی خشیت الہٰی اور فروتنی کی بات ہے، ورنہ ان کامقام بہت بلند ہے۔

أَيْ لَا يُثْنَى عَلَيَّ بِسَبَبِهِ وَيُجْعَلُ لِي بِذَلِكَ مَزِيَّةٌ وَفَضْلٌ ....مَا وَقَعَ فِي قِصَّةِ الْجَمَلِ فَاسْتَحْيَتْ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ تُدْفَنَ هُنَاكَ(فتح الباری : 2؍258 مصری)

حالانکہ کتاب و سنت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا مقام بہت بلند تھا، رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ مگر اس کے باوجود سوچنے کا انداز منکسرانہ تھا۔ الغرض اس کی تمنا کرنا بُری بات نہیں ہے لیکن اس کو چو ردروازہ بنانا کچھ مفید بات نہیں۔ اس سے انسان پاک نہیں ہوتا مگر یہ کہ خدا قبول کرلے۔

وقف علی القبور: وقف سے غرض بوجہ اللہ موقوف علیہ (جن پر وقف کیا جائے) کی خدمت اور اعانت ہے۔ خانقاہیں بجائے خود ناجائز ہیں۔ ان کے نام کے اوقاف کہاں جائز ہوسکتے ہیں؟ پاک و ہند میں بالخصوص احناف کی کثرت ہے اور اسی مسلک کے لوگوں نے یہ خانقاہ بنا رکھے ہیں۔ اس لیے ہم انہی کے بزرگوں کے ارشادات پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی سمجھ میں آجائے۔

امام محمد فرماتے ہیں کہ ، قبر سے جومٹی نکلے ، بس وہی اوپر ڈال دی جائے، مزید نہیں، اس کو چونے گچ بنایا جائے یامٹی سے لیپی جائے یا اس کے پاس کوئی مسجد بنائی جائے یااس پرکوئی نشان لگایا جائے یا اس پر کچھ لکھا جائے؟ تو یہ سب مکروہ ہیں۔

ولا نری أن یزاد علی ماخرج منه و نکرہ أن یجصص أو یطین أویجعل عندہ مسجداً أو علماً أو یکتب علیه(کتاب الاثار امام محمد)

پکی اینٹ کی قبر بنانا یا اس میں داخل کرنا بھی مکروہ ہے اور یہی اقوال امام ابوحنیفہ کا ہے۔

ویکرہ الأجرأن یبنی به أو یدخل القبر .... وھو قول أبي حنیفة (ایضاً)

یہ سب باتیں خانقاہوں کی ہوتی ہیں۔ جب یہ چیزیں جائز ہی نہیں تو ان کے لیے وقف چہ معنی؟ آخر قبر کے لیے وقف کیوں؟ عمارت کے لیے؟ وہ جائز نہیں؟ آراستہ کرنے کے لیے؟ وہ بھی جائز نہیں!خدام کے لیے؟ ان کی یہاں کیاضرورت؟ عرس کے لیے؟ توبھی ممنوع !آنے جانے والوں کے لیے؟ تو یہاں آنے کی کیا ضرورت ؟ زیارت قبور کے لیے ؟ سو اس غرض کے لیے کوئی جاتا ہی نہیں۔ جو جاتے ہیں وہ قلیل ہوتے ہیں۔ ان کے لیے اتنے عظیم وقف کی حاجت ہی نہیں ہوتی۔

ہوسکتا ہے کہ ''ایصال ثواب '' کی نیت ہو۔ تو پھر وقف کسی اور کے نام ہوتا، قبر اور خانقاہ کے لیے کیوں؟ اسے ثواب اور اسی کے نام وقف؟ ایک لطیفہ ہے۔

حضرت امام شوکانی لکھتے ہیں کہ وقف علی القبور بالکل باطل ہے۔ ان کو اونچا رکھنا ہے تو وہ حضور کے ارشاد کےخلاف ہے کیونکہ آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا تھا کہ ہر اونچی قبر مسمار کردو۔ ان تزئین مقصود ہے تو وہ بھی فتنہ کا باعث ہے۔

واما الوقف علی القبور..... فلاشك في بطلانھا لأن رفعھا قد ورد النھي عنه کما في حدیث علی: أنه أمرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أن لا یدع قبر امشرفا إلاسواہ.... وکذلك تزیينھا و أشد من ذلك ما یجلب الفتنة علی زائرھا لوضع الستور الفائقةوالأحجار النفسیةو نحوذ لك..... وبالجملةفالوقف علی القبور مفسدۃ عظیمة و منکر کبیر (الداری المضیئۃ :ص؍144)

اس کے علاوہ یہ وقف حضرت ابوبکر الصدیقؓ کے ارشاد کے بھی خلاف ہے ، کیونکہ آپ کا ارشاد ہےکہ :

الحي أحوج إلی الجدید من المیت (مؤطا مالک باب ماجاء فی کفن المیت)

مردے سے زیادہ زندہ کونئے کپڑے کی ضرورت ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا زندہ ضرورت مند ہے، مروں پر ان کو ترجیح نہ دی جائے، مثلاً اوقاف ہیں یا ان کے لیے عمارتیں اور غلاف ہیں یا وہاں چہل پہل اور رونقیں ہیں، ان کے لیے بعض سہولتیں ہیں جائز نہیں ہیں، ان سب کے حاجت مند زندہ ہیں، مردے نہیں ہیں۔ اس لیے خانقاہوں کے جتنے اوقاف ہیں جائز نہیں ہیں، ورنہ وہی کچھ ہوگا جو کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔

ابتدائ میں صلحاء نے بزرگوں کےمقابر کے پاس اپنی تربیت گاہیں قائم کی تھیں کیونکہ دوسری جگہ اگر قائم کرتے تو حکومتیں ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتیں۔ اس لیے ان تربیت گاہوں کو زندہ رکھنے کےلیے خانقاہوں کے نام اوقاف جاری کیے گئے تھے گو نیت نیک تھی مگر بنیاد غلط پڑ گئی تھی، اس لیے اب اس کے غلط بلکہ حوصلہ شکن نتائج نکل رہے ہیں۔ عافیت راہ سنت اختیار کرنے پر موقوف ہے اور صرف راہ سنت پر۔بہرحال اب وہ تربیت گاہیں بھی نہیں رہیں بلکہ وہ معصیت اور بدعت کے اڈے بن گئے ہیں اس لیے جس قدر جلدی ممکن ہو ان کوختم کیا جائے۔ قبریں مقام عبرت ہیں مقام تجارت نہیں ہیں۔