سورة بقرة
(قسط14)
﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ﴾''اور جب ہم نے فرشتوں سے کہاکہ آدم کے آگے جھکو تو شیطان کے سوا (سب کے سب)جھکے پڑے اس نے نہ مانا اور شیخی میں آگیا اور (وہ دراصل) نافرمانوں میں سے تھا۔''
(1)اسجدوا:(سجدہ کرو ، جھک جاؤ، اطاعت کرو) یہاں سجدہ سے کیا مراد ہے؟ زمین پر پیشانی رکھنا یا نیازمند انہ سرجھکانا اور سلام کرنا؟ بہت سے حضرات کا خیال ہے کہ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں کیونکہ سجدہ غیراللہ کے لیے حرام اور کفر ہے۔
جمہور کے نزدیک اس سے مراد پہلے معنی ہیں، لیکن اس کی نوعیت میں اختلاف کیا ہے۔ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہ سجدہ خدا کو تھا، آدم علیہ السلام کی حیثیت صرف قبلہ کی تھی لیکن اسجدوا لادم کے الفاظ سے اس کی تائید نہیں ہوتی، دوسرے ائمہ کا ارشاد ہے کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔ آیات کریمہ کے سیاق اور احادیث پاک سے اسی مسلک کی تائید ہوتی ہے۔
فإذا سویته ونفخت فیه من روحي فقعوا له سجدین (15:29)
''جب میں اسے درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیےسجدہ میں گر پڑنا۔''
مسند احمد اور مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے : جب انسان (آیت )سجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیان ایک طرف ہو کر روتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے افسوس! ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا تو اس نے سجدہ کیا، اسے جنت مل گئی، مجھے اس کا حکم ہوا تو میں نے نافرمانی کی جس کے نتیجے میں مجھے دوزخ ملا۔
إذا قرأ ابن آدم السجدۃ فسجدا عتزل الشیطٰن یبکی و یقول یا ویله أمر ابن آدم بالسجود فسجد فله الجنة و أمرت بالسجود فعصیت فلي النار (رواہ احمد و مسلم عن ابی ہریرۃؓ)
اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کو اسی سجدہ کاکہا گیا تھا جس کا اب انسان سے کہا گیا ہےمگر اس فرق کے ساتھ کہ خدا کو جو سجدہ ہوتا ہے، وہ سجدہ عبادت کہلاتا ہے اور جو فرشتوں سےکہا گیا ،وہ سجدہ تعظیمی تھا۔ باقی رہی غیر خدا کو سجدہ کی سنگینی کی بات؟ سو یہ صرف اس لیے تھی کہ خدا کو پسند نہیں تھا ،اگر وہ خود کہہ دے کہ یوں کرو تو پھر اس سنگینی کا اور کوئی محرک باقی نہیں رہتا، جو تھا اسے فی الحال ملتوی کردیا گیا تھا کیونکہ غیر کو سجدہ نہ کرنے کا حکم بھی اسی کا تھا، اب کرنےکو کہا ہے تو وہ بھی اسی کا حکم ہے(جیسے کسی کو قتل کرنا سنگین جرم ہے مگر جہاد کے میدان میں ایک نہیں ہزاروں کو موت کے گھاٹ اتار دینا، عظیم عبادت بن جاتا ہے۔
اس کے علاوہ آدم اور فرشتوں کا یہ واقعہ ،عالم ارواح کی بات ہے اور فرشتوں کا سجدہ بھی ان کے اپنے شایان شان بات تھی جس کی ہوبہو تصویر پیش کرنا ہمارے لیےمشکل ہے۔ ہاں جو متجددین ''سجدہ'' کے تصور سے بدک رہے ہیں وہ صرف غیراللہ کے سلسلے میں نہیں بدک رہےبلکہ اللہ کے سلسلے میں بھی اس سے شرماتے ہیں اور وہ بھی صرف ٍذہنی عیاشی کی حد تک ایسا کہتے اور سوچتے ہیں، ورنہ نفس و طاغوت کے حضو ر جس ذلیل انداس میں وہ سجدہ ریز ہیں، اس کا کچھ نہ پوچھیئے۔
(2)الا(مگر ، سوا) یہ استثناء منقطع ہے۔ کیونکہ ابلیس جن ہے فرشتہ نہیں ہے۔
(3) ابلیس (شیطان) ابلیس (افعیل) ابلاس سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ایک ایسا حزن و ملال جوخیر اور عنایات ربی سے بالکلیہ مایوس اور ناامیدی کا نتیجہ ہو۔ یہ شیطان کا اسم علم ہے۔ الإبلاس الحزن المعترض من شدۃ أیاس منه اشتق إبلیس (مفردات)
شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں کہ:
ان ملائکہ کے مدمقابل ایک اور گروہ ہے جن کے کام میں ہلکا پن طیش اور خیر کے منافی افکار ہوتے ہیں اور وہ متنفن (گلے سڑے)اور تاریک بخارات (خبیث عناصر۔ تفہیمات ص1؍239) سے پیدا ہوتے ہیں، ان کو شیاطین کہتے ہیں، جن کا کام ملائکہ کی مساعی (جمیلہ) کے خلاف کوششیں جاری رکھنا ہوتا ہے۔
وبازاء أولئک آخرون أولو خفة و طیش و أفکار متضادۃ للغیرأوجب حد و ثھم تعفن بخارات ظلمانیة ھو الشیطٰن لا یزا لون یسعون في أضداد ما سعت الملائکة فیة ( حجۃ اللہ البالغۃ باب ذکر الملاء الأعلی۔ ص1؍13)
شیطان کے مختلف نام۔ ابلیس کے سوا اس کے باقی سب نام وصفی ہیں مثلاً
شیطان۔ اس کے معنی ہیں :
(الف) ہلاک ہوا، اس کاخون رائیگان گیا، جلد باز،جل گیا،بھڑک اُٹھا۔ (شاط یشیط)
(ب) دور ہوا، دور نکل گیا،اصل مطلوب سے ہٹا کر دوسری راہ پر ڈال دینے والا، سرکش متمرد (شطن)
وسواس۔ اس کے معنی ہیں وسوسہ انداز، چونکہ اس باب میں وہ یکتا ہے، اس لیے اس کانام وسواس بھی ہے۔
خناس۔ وہ وسوسہ انداز جو پیچھے ہٹ ہٹ کر وسوسہ اندازی جاری رکھتا ہے یاذکر الہٰی سن کر ہٹت جاتا ہے اسے خناس کہتے ہیں۔
طاغوت۔ ویسے تو ہر اس شے کا نام ہے جو خدا سے سرگرداں کردے لیکن شیطان کو بھی طاغوت کہتے ہیں کیونکہ سرکشی اس کے خمیر میں داخل ہے اور دوسرے کو سرکش بنانا اس کا دلچسپ مشغلہ ہے۔
ہم سب سے پہلے شیطان کا وہ تعارف پیش کریں گے جوقرآن حکیم نے بیان کیا ہے، اس کے بعد ان کے ان خدوخال کاخاکہ آپ کے سامنے پیش کریں گے جو رحمۃ للعالمینﷺ نے بیان کیاہے۔ سب سے آخر میں وہ اقوال پیش کیے جائیں گے جو بزرگان دین اور اماموں سےمنقول ہیں۔
ابلیس کا قرآنی تعارفشیطان جن تھا: شیطان فرشتہ نہیں تھا،جن تھا۔
کان من الجن (پ15۔ کہف ع7)
آگ سے پیدائش: خالص آگ سے اس کی تخلیق ہوئی۔
وخلق الجان من مارج من نار (پ27۔ الرحمٰن ع1)
آگ کے گرم بخارات سے:
من نار السموم (پ14۔الحجر ع3)
حق سے فرار کے لیے فلسفہ: غلام کا کام آقا کی غلامی ہوتی ہے، خانہ ساز فلسفہ چھانٹنا اور تولنا نہیں ہوتا۔
ماخلقت الجن والإنس إلالیعبدون (پ27۔ الذاریات ع3)
خداکا حکم ہوا آدم کو سجدہ کیجئے! خوئے بدرا بہانہ بسیار! بولا:
جناب! کچھ تو سوچئے! وہ مٹی سے بنا اور میں سر تا پا روشن آگ سے، ایک بہتر شے ادنیٰ کے سامنے جھکے ، قدر شناسی نہیں۔
قال أنا خیر منه خلقتني من نارو خلقته من طین (پ8۔ اعراف ع2)
(اے خدا کچھ تو سوچیئے) کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔
رب کے حکم سے تجاوز کرگیا۔
ففسق عن أمر ربه (پ15۔ الکہف ع7)
تجاوز کرگیا کہا، پیچھے رہ گیا نہیں کہا، کیونکہ وہ رب کوسمجھانے لگا تھا، جیسے خدا وہ راز نہیں سمجھ سکا اور یہ لعین سمجھ گیا ہے ۔ دور حاضر میں سب خطرناک فتنہ رب کو یہی لقمے دینے کی ریت اور حق سے فرار کرنےکے لیےفلسفہ بازی ہے۔
تکبر اور تحقیر آمیز اِبا : حدود اللہ سے یہ تجاوز کسی دلیل کانتیجہ نہیں تھا بلکہ اپنی برتری کے خبط کانتیجہ تھا۔ ابیٰ واستکبر (پ1 بقرہ ع4) اِبا اس تحقیر آمیز انکار کو کہتے ہیں جو کسی شے کو اپنے مقابلے میں ردی سمجھنے اور اس سے نفرت کرنے کے جذبہ نفرت پر مبنی ہو۔
الاباء:ھو الامتناع عن الشیء والکراھیة له بغضه و عدم ملايمته (تاج العروس)
گویا اس نے حضرت آدم کو حقیر جانا، اس سے نفرت کی اور پھر تندی کے ساتھ اس کی تعظیم کرنےسے انکار کردیا۔
یہاں سے نکل جاؤ: حکم ہوا، اےگستاخ یہاں سے نکل جاؤ!
فاخرج منها فإنك رجیم (پ23۔ ص ع5)
تم پر قیامت تک میری لعنت:
وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (ایضاً)
حق کو دبانے کے لیے سازشیں: بسا اوقات وقتی تحریک اور انگیخت کی بنا پر ایسی گستاخی کا صدور ممکن ہوتا ہے لیکن وضوح غلطی کے بعد حق کی راہ مارنے کے لیے اور تن جانا، سب سے بڑی محرومی ہوتی ہے، یہی حال شیطان کا ہے کہ :دھتکارے جانے کے بعد اس نے پہلے رب سےمہلت مانگی۔
رب أنظرني إلی یوم یبعثون (پ14۔ الحجرع3) ''اے میرے رب! قیامت تک کے لیے مجھے مہلت دیجئے۔''
اللہ نےفرمایا:جاؤ تمہاری درخواست منظور!
قال فإنك من المنظرین (پ23۔ ص ع5)
مہلت ملنے پر میدان میں اتر آیا اور جس عظیم ہستی کی وجہ سے اس کی تنزلی ہوئی، اس کو بام اوج سے پٹخ کرنیچے دےمارنے کا اعلان کردیا، اور کہا :
(حضور!) تیرے جلال کی قسم! ان سب کا بیڑا غرق (گمراہ)کرکے دن نہ ہوں تو داغ نام نہیں۔
فبعزتك لأ غوینهم أجمعین (پ23۔ ص ع5)
''فبعزتک'' کے جملہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ : شیطان ، رب اور اس کے جلال کا منکر نہیں تھا بلکہ اس کا احترام بھی اس کے دل میں تھا مگر بزعم خویش اپنے حقوق کے لیے خدا سے اُلجھنے یااس کو سمجھانے کو بُرا نہیں سمجھتا تھا اور نہ یہ بات اس کو احترام اور ادب کے منافی نظر آتی تھی۔ جو لوگ خدا کومان کر اس کے احکام سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں، وہ بھی دراصل اسی شیطانی راہ پرپڑ جاتے ہیں، آج کل کاروباری اور جاہ پرست سیاست باز لوگ اس مرض میں زیادہ مبتلا ہیں۔
قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا(پ15۔ بنی اسرائیل ع7)
(حقارت آمیز اشارہ کرکے خدا سے ) کہا کہ بھلا دیکھئے تو ، یہی وہ شخص ہے جس کو تو نے مجھ پر چڑھایا ہےاگر تو نے قیامت تک مہلت دی تو اس کا صفایا کردوں گا (جیسے کھیت کا ٹڈی کرتی ہے) ہاں تھوڑے سے رہ جائیں گے۔
وہ کیسے؟ شیطان، شیطان ہوکر صاف گو اتنا ہے کہ اس نے اپنے ''رقیب (آدم)'' کو مات دینے کے لیے جو جو ہتھکنڈے استعمال کرنا تھے، اس کے تفصیلی خاکہ کا بھی اسی دن اعلان کردیا، چنانچہ کہا:
الہٰی جو راہ تیری طرف جاتی ہے، اس پربیٹھ رہوں گا، پھر ان میں سے ہر آنے جانے والے کا تعاقب کروں گا اور چاروں طرف سے گھیر کر اسےبرباد کروں گا۔
قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (پ8۔ الاعراف ع7)
بولا: کہ جیسی آپ نے میری راہ ماری ہے میں تیری ''راہ مستقیم'' پران کی گھات میں لگا رہوں گا۔ پھر ان کو ان کے سامنے سے آلوں گا اور(کبھی) ان کے پیچھے سے (آؤں گا) اور (کبھی) ان کے داہنے سے اور (کبھی) ان کے بائیں گے (ان کوآگھیروں گا)
میں ان کو ہر بُرائی ، ہر زہر آب حیات، ہرحماقت، عقل و دانش، ہر ذلالت، عزت اور ہر شقاوت، سعادت بنا کر دکھاؤں گا۔
لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ (پ14۔ الحجر ع3)
ہاں تیرے خاص بندوں پرمیرا کچھ بس نہیں چلے گا۔
إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ(ایضاً)
معلوم ہوا کہ اگر ''عبدیت'' میں رمق اور صبغۃ اللہ میں جان ہو، تو شیطان بھی ہو تو بھی اس کے اعتراف کے بغیر اسے چارہ نہیں ہوتا۔ شیطان نے خدا کی بستی کا انکار نہیں کیا بلکہ''بلاچون و چرا'' اس کے احکام کی تعمیل میں اس کو تامل تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کو ''ضد'' ایمان سے پیاری تھی تو بے جا بات نہ ہوگی۔
پھر وہ یوں للکارا:وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (118) وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ (پ5۔ النساءع18)
اور وہ (شیطان) کہہ چکا ہے کہ میں آپ نے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا، میں ان کو بہکاؤں گا اور انہیں آرزوؤں میں چور رکھوں گا اور ان کو سکھاؤں گا کہ وہ جانوروں کے کان چیریں اور ان کو سکھاؤں گا کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں۔
مقرر حصہ سے مراد ہے کہ ، وہ جو بھی کام کریں اس میں شیطنت کی آمیزش ضرور ہو، اب یہ آپ دیکھ لیں کہ ہمارا کون سا کام بےداغ رہ گیا ہے۔ بہکانا اور گمراہ کرنا یہ ہے کہ، ان کی زندگی کا پہیہ پٹڑی سے اتار دوں گا یا غلط سمت پر ڈال دوں گاکہ وہ عمر بھر سفر جاری بھی رکھیں تو منزل کا سراغ نہ پاسکیں۔
جانوروں کے کان چیرنے کے معنی، اوہام پرستی کی بیماری میں مبتلا کرنا ہے اور تغیر خلق اللہ سے مراد تکوینی اور تشریعی پہلو میں تغییر برپا کرنا ہے، جیسی شکل و صورت بنا کر رہنے کا حکم ہے اس میں اپنی مرضی سے ردوبدل کرنا اور اسلامی نظام زندگی میں'خانہ زاد ٹانکے'' لگانا شریعت میں ترمیمیں اختیار کرنا، یہ سب امور ''تغییر خلق اللہ'' کے تحت آتے ہیں۔
آپ کے پاس گنتی کے رہ جائیں گے۔ اس کے بعد اعلان کیا کہ الہٰی: بہت کم بندے اب آپ کے لیے رہ جائیں گے۔
وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (8۔الاعراف ع2)
یونہی تو یونہی سہی: اللہ نے فرمایا: یونہی تو یونہی سہی، جو مجھے چھوڑ کر تمہارا محاذ سنبھال لیں گے آپ کے ساتھ ہی جائیں گے۔
قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا(بنی اسرائیل ع7۔ پ15)
جا دفع ہو! جو بھی تیرے پیچھے ہولے گا، تیرے ہی ساتھ جہنم رسید ہوگا۔
قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَدْحُورًا لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ أَجْمَعِينَ(پ8۔اعرافع2)
جا اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا اور اپنے سارے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کو شکار کرنے کی کوشش کر، ان کی جانوں، مالوں اور آل اولاد میں اپنے سارے جراثیم پیوست کر ڈال اور جتنے جھوٹے وعدے اور سبز باغ دکھا سکتے ہو ان کو جاکر دکھا۔
وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (پ15۔ بنی اسرائیل ع7)
اور (جا!) ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز (دعوت) سے بہکاتا رہ اور ان پر اپنے سوار اور پیادے سارے چڑھا لا،اور ان سے ان کے مال اور اولاد میں ساجھا کرلے اور ان کو سبز باغ دکھا (حقیقت یہ ہے کہ ) شیطان کے وعدے دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتے۔
لیکن یہ یاد رہے ، جو تیرے ہیں، مجھے ان کی ضرورت نہیں، وہ سب تم لے جاؤ، لیکن جو میرے ہیں وہ تیرے جال میں قطعاً نہیں آئیں گے۔
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ(پ14۔الحجر ع2)
اے آدم ہوشیار،ہوشیار، شیطان کے ان مکروہ ہتھکنڈوں اور منصوبوں سے آدم کو اللہ تعالیٰ نے مطلع فرما دیا کہ : ہشیار ہوجاؤ!
فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى(پ16۔ طہٰ ع7)
تو ہم نے (آدم سے) کہا کہ اے آدم یہ (ابلیس) آپ کا اور آپ کی بیوی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ تم دونوں کو بہشت سے نکلوا باہرکرے اور تمہاری شامت آجائے۔
پھر اپنے اپنے وقت پر سب لوگوں سے بھی فرمایا کہ یہ تمہارا دشمن ہے۔
اے ابن آدم ہوشیار:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (پ2 ۔بقرہ ع25)
لوگو! اسلام میں پورے پورے آجاؤ اور شیطان کے نقوش پا کا اتباع نہ کرو، وہ تمہارا ظاہر ظہور دشمن ہے۔
اسلام میں پورے پورے آجاؤ : اس لیےکہا کہ اگر کوئی شخص پورا پورا ''ابولہب اور ابوجہل'' نہیں بن جاتا تو شیطان اتنے پر بھی راضی ہوجاتا ہے کہ رحمٰن کے ساتھ شیطان کی بھی کچھ بات مان لی جائے کیونکہ جو شخص ایک قدم میخانہ میں رکھ لیتا ہے ، اس میں پورے پورے داخل ہوجانے کا امکان بھی قوی ہوجاتا ہے۔
يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (پ23۔ یسٰن ع5)
اے اولاد آدم! شیطان کی غلامی اختیار نہ کرنا، وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔
اب شیطان آتا ہے: اس اعلان جنگ کے بعد شیطان اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے میدان میں اترتا ہے اور سب سے پہلے مسجود ملائکہ (حضرت آدم علیہ السلام کو ہدف بناتا ہے مگرنہایت معصومانہ طریقے کے ساتھ قلب و نگاہ کے خفیہ گوشوں میں اترتا ہے اور ان کے جذبات میں ایک تحریک پیدا کرتا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وسوسے کا تیر پھینکتا ہے۔
فوسوس الیہ الشیطان (پ16۔طہٰ ع7) اور ساتھ حضرت حوّا کو بھی اس وسوسہ میں شریک کرلیتا ہے۔ فوسوس لھما الشیطان (پ8۔اعراف ع2) مگر بقائے دوام، بادشاہت اور قرب الہٰی کے نام پر طرح ڈالتا ہے۔
قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى(پ16۔طہٰ ع7)
اے آدم! کہو تو میں آپ کو ہمیشگی کا درخت بتا دوں (کہ جس کو کھا کر سدا جیتے رہو) اور ایسی سلطنت جو کبھی کہنہ نہ ہو۔
یہاں پر اسی درخت کی طرف لے جایا جارہا ہے ، جس سے اس کوروکا گیا تھا تاکہ اس کو اس جنت سے نکال باہر کیا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس درخت سے تو خدا نےمنع کیا ہے، وہ میری بقا نے دوام اور لازوال بادشاہت کا سبب کیسےبن سکتا ہے؟ اس خلش کو دور کرنے کے لیے اس نے یہ حیلہ کیا: قسمیں کھائیں اور کہا کہ: اصل بات یہ ہے: اس درخت کے کھانے سے انسان فرشتہ بن جاتا ہے یا بقائے دوام حاصل کرلیتا ہے ۔ اس لیے اللہ نے آپ سے یہ راز چھپایا ہے اور کہا: یقین کیجئے میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔
وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ (20) وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ(پ8۔ الاعراف ع2)
یہ سب کچھ فریب اور دھوکے سے کیا:
فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ(ایضاً)
احکا م الہٰی کے سلسلے میں وہ کوتاہی سب سے زیادہ فتنہ ثابت ہوتی ہے ، جو کسی خاجری فلسفہ کی پیداوار ہوتی ہے اور شیطان عموماً اسی راہ سے حملہ آور ہوتا ہے، جیسا کہ یہاں ہوا۔
بہرحال حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے بھرے میں آگئے اور اس نافرمانی کاقدرتی نتیجہ ظاہر ہوکر رہا یعنی چکھتے ہی ستر کھل گیا اور اب لگے پتوں کو چپکانے۔
فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ (پ8۔ الاعراف ع2)
یہ اصلی بہشت تھی،کیونکہ اس کی یہ خاصیت تھی کہ اس میں بھوک تھی نہ پیاس، نہ عریانی نہ دھوپ۔
إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى (118) وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى (پ16۔طہٰ ع7)
لیکن اگر انسان خو دہی ان خالص کو چھوڑ دے تو ظاہر ہے، بہشتی خصائص ساتھ چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
رہ رہ کر انسان کے دل میں یہ خلش پیدا ہوتی ہے کہ حضرت آدم کی قیام گاہ بہشت، وہ مقام لازوال اور پاک، شیطان کا گذر وہاں کیسے ہوا اورحضرت آدم وہاں سے کیسے نکلے؟
اصل بات یہ ہےکہ : جب بہشت بطور جزا ملے گا، وہاں سے پھر کوئی نہیں نکلے گا، بطور مہمان یا معائنہ داخلہ ہو تو لازوال نہیں ہوتا۔ جیسا کہ معراج کی رات حضور بہشت میں تشریف لے گئے اور پھر آ بھی گئے۔باقی رہا وہاں ابلیس کا گزر کیسے ہوا اور وسوسہ اندازی اس کے لیے کیسے ممکن ہوئی؟ تو غرض ہے کہ اصل واقعہ یہ ہے کہ شیطان خارج سے نہیں آیا تھا، بلکہ پیدائشی طور پر ایک ابلیس اور ایک فرشتہ ہر انسان کےساتھ ساتھ رہتے ہیں اور یہ بالکل اسی طرح جس طرح ایک انسان کے اپنے اعضاء ۔ حضور ؐ کا ارشاد ہے:
مامنکم من أحد إلا وکل به قرینه من الجن و قرینه من الملئکة قالوا و إیاك یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال وإیاي ولکن اللہ تعالیٰ أعانني علیه فلا یأمرنی إلابالحق (مسلم:2؍221)
کیونکہ اس دارالامتحان کا یہی فطری تقاضا ہے۔
یہاں سے نکل جاؤ: اب حکم ہوتا ہے کہ دونوں یہاں سے تشریف لے جائیں۔ وقال اھبطا منھا جمیعا (پ8۔ طہٰ ع2) چونکہ حظ نفس کے چرکے بیدار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے باہم آویزش کے امکانات بھی ابھر آئے تھے، اس لیے فرمایا : وہاں ایک دوسرے سے تمہاری چپقلش رہے گی۔ بعضکم لبعض عدو (ایضاً) اس کے بعد پوری نسل کے لیے زمین کو ہی مسکن بنا دیا، وہاں ہی مرنا، جینا اور مرکر وہاں سے پھر ظاہر ہونا، ان کامقدر بنا دیا۔
قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (24) قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (پ8۔ اعراف ع2)
پھر پوری نسل انسان کو اس المیہ سے آگاہ کرکے تنبیہ فرمائی کہ کہیں تم اس کے نرغے میں نہ آجانا۔
يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ (پ8۔ اعراف ع3)
میری ہدایت اور رہنمائی جب تمہارے پاس پہنچے تو جس نےاس کا اتباع کیا وہ پھر گم گشتہ جنت پالے گا اور راستہ کہیں بھی نہیں بھٹکے گا۔
فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى (طہٰ ع7)
مگراس پہلے مرحلہ کے بعد جوں جون نسل انسانی آگے بڑھی ابلیس بھی اپنی ذریت کے ساتھ اور تیز ہوتا گیا اور اپنے منصوبے کےمطابق ان کو اپنے جال میں لاکر شکار کرتار رہا۔ مثلاً
اعمال کی دل فریبی۔ شیطان کے ہتھکنڈوں میں سے ایک چربہ یہ ہے کہ انسان جو بھی کام کرتا ہے اس کے لیے اس میں دل فریبی پیدا کردیتا ہے ۔ دل فریبی کے رنگ کئی ہوتے ہیں، (1)بدعت کو عبادت بنا کر اس کی نگاہ میں جاذب کردیتا ہے، (2) لطف حاضر کو وعدہ فردا پر ترجیح دینے کی تحریک پیدا کردیتا ہے، (3) خوش فہمی میں مبتلا کرکے پٹخنی دیتا ہے۔
زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ (پ7۔ الانعام ع5)
وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ(پ10۔ انفال ع6)
وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ(پ19۔ نحل ع2)
تنگدستی کا ڈر: انسان کی سب سے بڑی کمزوری روزی کی تنگی کا اندیشہ ہے۔ اس لیے شیطان یہ حربہ استعمال کرتا ہے کہ (1) راہ حق میں خرچ کیا تو تنگ دست ہوجاؤ گے (2) اگر حق و راستی پر مبنی کاروبار کیا تو دیوالیہ ہوجاؤ گے، اس لیے جائز اور ناجائز کی بک بک میں نہ پڑیں، جس طرح بن پڑے کمائیں۔(3) حاملین حق عموماً زیردست ہوتے ہیں، زبردست عموماً وقت کے فرعون اور قارون بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بات اس کو سمجھاتا ہے کہ زیردستوں کے ہمراہ چلو گے تو بھوکے مرجاؤ گے، زبردستوں کا ساتھ دو گے تو وارے نیارے ہوں گے۔
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ(پ3۔ البقرہ ع37)
پھوٹ ڈالنے کا ایک ساحرانہ انداز:شراب کی مستی سینکڑوں بُرائیوں کی جڑ ہے۔ ان میں سے ایک ''جھگڑا'' بھی ہے۔یہی حال جوئے کا ہے۔ اپنے اپنے بتوں کی خوشنودی کےلیے جان ماری ، بجائے خود دوسرے سے تصادم پر منتج ہوتی ہے، یہی حال عقیدت کے مختلف مراجع اور مراکز کا ہے۔ گو ایک ہی دن کی بات ہو لیکن اس میں اگر مرجع عقیدت مختلف ہوں گے تو یقیناً کلمہ جامعہ انتشار کی نذر ہوجائے گا، یہی کیفیت،وےہم پرستانہ فالوں اور پانسوں کی ہے کہ اندھے کے ہاتھ میں لٹھ تھمانے کے نتائج سر پھٹول ہی ہوگی۔ اس لیے شیطان ان چیزوں کو رواج دیتا رہتا ہے کہ اس کے ساتھ خدا بھی بھول جاتا ہے۔
إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (90) إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ (پ7۔ مائدہ ع13)
چونکہ شیطان ازلی دشمن ہے، اس لیے وہ تمہیں لڑا کر خوش رہتا ہے۔
إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا(پ15۔ بنی اسرائیل ع6)
وہ تمہیں الجھانے کے لیے آپ میں اپنے ڈھب کے لوگ لاگھسیڑتا ہے تاکہ وہ تمہیں الجھائے رکھیں اور جھگڑا جاری رکھیں۔
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ(پ8۔ الانعام ع13)
معلوم ہوتا ہے ہے کہ ایسی کج بحثی وہ خواہ دین کے نام پر ہو یا سیاست کے نام پر بہرحال وہ خدمت دین نہیں کہلا سکتی۔
طاغوت کے پاس مقدمہ: طاغوت ہر اس شے کا نام ہے جس کا خدا کے مقابلے میں انسان دم بھرتا ہے، ان میں سے ایک شیطان بھی ہے کیونکہ انسان اس کے کہنے پر زیادہ چلتا ہے۔ فرمایا کہ کہنے کو تو مسلمان ہیں مگر اپنے فیصلے اور کیس اس کےحوالے کرتے ہیں جو حق کی راہ مارتے ہیں۔
يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (پ5۔ النساء ع9)
سبز باغ دکھاتا ہے: شیطان سبز باغ دکھا کر مارتا ہے اور جھوٹی آرزوؤں میں چور رکھ کر اُلو بناتا ہے۔
يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (پ5۔ النساء ع18)
قابو پاکر خدا سے غافل کرتا ہے: جب انسان پر سوار ہوجاتاہے تو اُسے سب سے پہلے خدا سے بےتعلق اور اس کی یاد سے غافل کردیتا ہے۔
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ الله(پ28۔ المجادلہ ع3)
شیطان کا نزول ان پرہوتا ہے: (1) شیطان کے لئے جن لوگوں میں بڑی کشش ہے اور جو لوگ اس پرجان چھڑکتے ہیں ، وہ جھوٹے اور بدکار لوگ ہیں۔
هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221) تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (پ19۔ الشعراء ع11)
جو یاد خدا سے غافل ہوجاتے ہیں، شیطان ان کا جانا دوست بن جاتا ہے جو سفر حضر میں ہمراہ رہتا ہے اور ان کو راہ راست سے روکتا رہتا ہے مگر وہ اس خوش فہمی میں پڑے رہتے ہیں کہ سیدھی راہ پر چل رہے ہیں۔
وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ (36) وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ (پ25۔ الزخرف ع4)
دنیا میں یوں ساتھ رہا مگر جب قیامت ہوگی تو کہے گا: الہٰی ! یہ دور ہوں۔
حَتَّى إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ (ایضاً)
پر یہ بُرا ساتھی ہے، جب اسے چمٹا لیا تو پھر اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔
وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا (پ5۔النساء ع6)
شیطان اور شیطان صف لوگ مل کر دعوت حق کی راہ روکنے کے لیے سازشیں کرتے ہیں۔ خوشنما بول گھڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کے ذریعے وہ شکار کرسکیں۔
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا (پ8۔ الانعام ع9)
غور فرمائیے! شیطان کی یہ ساری کارستانیاں کس طرح یہ چاروں طرف چھا رہی ہیں۔ انا للہ
انبیاء پر نازل کردہ کتب اور صحیفوں میں درایت ، نفس و طاغوت کی دلفریب باتیں، اوہام پرستانہ ذہنیت اور بدعت کی یوں آمیزش کرتے ہیں کہ وہ بجائے خود ''تعبیر وحی'' بن جاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ ایک کے بعد دوسرے رسول کوبھیجتا رہا ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (پ17۔الحج ع7)
یا یہ کہ داعی حق پر بعض ایسی آیات نازل ہوتی ہیں جن کو لے کر شیطان یا شیطان صفت لوگ لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان متشابہات کے مقابلے میں دوسری محکم آیات نازل فرما دیتا ہے جس کے بعد شیطان شکوک و شبہات کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔
قیامت میں یہ آنکھیں بھی نہیں ملائے گا: إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ (پ13۔ ابراہیم ع4)
بے شک خدا نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا (سو اس نے پورا کیا) اور وعدہ تم سے میں نے میں کیا تھا مگر میں نے تمہارے ساتھ وعدہ خلافی کی اور تم پر میری کچھ زبردستی تو تھی نہیں۔ بات تو اتنی تھی کہ میں نے تم کو (اپنی طرف)بلایا، دعورت دی، تم نے میرا کہا مان لیا تو اب مجھے الزام نہ دو، اپنے کو کوسو! (اب) نہ تو میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم۔
بلکہ انسان کو گمراہ کرکے اور مصیبت میں ڈال کر قیامت میں یہ مکار یہ جواب بھی ان کو دے گا کہ مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے،میں تو تم سے الگ ہوتا ہوں۔
إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (پ28۔ الحشر ع2)
بے محل اور بے تحاشا خرچ: مال و دولت اللہ کی نعمتیں ہیں، ان کے ذرے ذرے کا حساب ہوگا مگر شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ اور بے محل لٹائیں تاکہ حساب کتاب سے بوجھل ہوجائیں اور قیامت میں اس کے بوجھ سے ان کابیڑا غرق ہو۔ اس لیے فرمایا یہ شیطان کے بھائی ہیں۔
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (پ15۔ بنی اسرائیل ع3)
اہل حق کے خلاف خفیہ میٹنگیں: ذریت ابلیس یعنی وہ لوگ جو شیطان کے بندے ہیں، اہل حق کو ہراساں کرنے ، ان کی تحریک کونقصان پہنچانے کے لیے خفیہ میٹنگیں اور سازشیں کرتے ہیں مگر ہوتا وہی ہے جو رب کو منظور ہوتا ہے۔
إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ الله(پ28۔ المجادلہ د2)
قرآنی علاج: شیطان کا جب حملہ ہو تو فرمایا: پہلے وہ مجلس اور جگہ چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوں۔
وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (پ7۔ الانعام ع8)
دوسرا یہ کہ :اعوذ پڑھے: وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِالله(پ24۔ حم السجدہ ع8)
تیسرا یہ کہ :فوراً سنبھل جائیں۔غلطی ہوئی ادھر آنکھیں کھل گئیں۔
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (پ19۔ اعراف ع24)
اگر سنبھلنے اور استغفار کے بجائے بے حس رہے تو پھر وہ معصیت طبیعت ثانیہ بن جائے گی جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔
وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ(ایضاً)
احادیث میں شیطان کا تعارف: قرآنی آیات میں شیطان کاجو تعارف تھا آپ نے پڑھ لیا۔ اب چند سطریں حدیث کی بھی ملاحظہ فرما لیں۔
اللہ کے رسول سے بھی باز نہیں آتا: حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں کہ حضور نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو اعوذ باللہ منک (میں تجھ سے اللہ سے پناہ مانگتا ہوں) کہا، پھر کہا:
ألعنك بلعنة الله (میں تم پرخدا کی لعنت بھیجتاہوں) کہا اور تین دفعہ ہاتھ آگے بڑھایا، پھر ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ :اللہ کادشمن آگ کا انگارہ میرے منہ میں چھوڑنا چاہتا تھا، تو تین دفعہ میں نے خدا کی پناہ مانگی اور تین بار اس پرلعنت کی مگر وہ پیچھے نہ ہٹا، پھر میں نے اسے پکڑنا چاہا مگر حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آگئی
۔ لأ صبح موثقا فلعب به ولدات أھل المدینة (مسلم) ورنہ میں باندھ دیتا اور مدینے کے لونڈے اس سےکھیلتے( مسلم)
سب کےسا تھ لگا ہوا ہے:حضورﷺ فرماتے ہیں کہ: شیطان سب کے ساتھ لگا ہوا ہے ، عرض کی حضور!آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا: ہاں! پر اللہ تعالیٰ نے اسے میرے لیے رام کردیا ہے۔ اب :
فلا یأمرني إلابحق (أوقال إلابخیر) مجھے حق کے سوا کچھ نہیں تلقین کرتا۔ (مسلم)
نومولود بچےکو کچوکے:حضورﷺ فرماتے ہیں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان بچے کے سرین پر چٹکی لیتا ہے ، جس کی وجہ سے بچہ چلاتاہے۔
إلاابن مريم وأمه لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی والدہ حضرت مریم علیہ السلام اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (مسلم)
نماز میں چھیڑتا ہے:نمازی کو نماز میں چھیڑتا ہے۔ایک صحابی نے حضور سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔اس شیطان کانام خزب ہے۔
شیطان کی تھپکی: جب انسان سوجاتا ہے تو اس کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے ، پھر ہر گروہ پرتھپکی دیتا ہے کہ ابھی رات لمبی ہے سوجا! اگر وہ جاگ کر رب کو یاد کرتا ہے تو کھل جاتا ہے، پھر اُٹھ کر جب وہ وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ بھی کھل جاتا ہے، جب نماز پڑھنے لگتا ہے توتیسری بھی کھل جاتی ہے۔ پھر ہلکا پھلکا اور مسرور ہوکر صبح کرتاہے ورنہ سست اور خبیث النفس حالت میں صبح کرتا ہے۔ (مسلم)
شیطان رات کو پھیل جاتے ہیں: آپ فرماتے ہیں، رات ہوتے ہی شیطان پھیل جاتے ہیں،جب رات کاکچھ حصہ گزر جائے تو بسم اللہ پڑھ کر دروازے بند کردیا کرو ، شیطان داخل نہیں ہوتا، نہ دروازے کھولے گا، اپنی مشک کا منہ باندھ دیا کرو، برتن ڈھک دیا کرو۔
أطفئوا مصابیحکم (مسلم): چراغ بجھا دیا کرو۔
نماز میں جمائی : نماز میں جمائی آئے تو فرمایا:
فلیکظم ما استطاع جہا ں تک ممکن ہو اسےروکے، کیونکہ شیطان منہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
نماز میں بُرے خیالات لاتا ہے، حضور کیا کروں۔ فرمایا: نماز پوری کیجئے۔ یہ تو تا آخر اسی طرح کرتا جائے گا۔ (مؤطا مالک)
ولہان نامی شیطان: ولہان نامی ایک شیطان ہے جو وضو کے سلسلے میں وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے، اس سے بچئے!
یقال له الولھان فاتقوا وسواس الماء (ترمذی) یہ اس لیےفرمایا کہ اگر کوئی وضو کےسلسلے میں مطمئن نہ رہا تو نماز میں یکسوئی کہاں نصیب ہوگی۔
خدا کو کس نے بنایا: حضور فرماتے ہیں کہ شیطان آتا ہے جس کی وجہ سے انسان سوچنے لگتا ہے کہ فلاں شے کو کس نے بنایا اورفلاں کوکس نے بنایا ہے اور فلاں کو کس نے بنایا؟ یہاں تک کہ وہ کہنے لگتا ہے کہ خدا کو کس نے بنایا ہوگا؟ فرمایا:
فلیستعذ باللہ ولینته(بخاری مسلم) اللہ کی پناہ مانگیئے اور سوچنا چھوڑ دیجئے۔
پہلا سوچنا تو عبادت تھا،اب کفر! اس لیے فرمایا کہ اب رک جائیں۔
فرمایا جب ایسا خیال آئے تو سورہ اخلاص پڑھ کر داہنی جانب تف کرے (ابوادؤد)
رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے: فرمایا شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے
یجري من الإنسان مجری الدم (بخاری مسلم)
شیطان کاسب سے بڑا مقرب: شیطان اپنا تخت پانی پر بچھا کر اپنا لاؤ لشکر ادھر ادھر پھیلا دیتا ہے ان میں سے جو سب سے بڑا فتنہ گر ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ اس کا مقرب ہوتا ہے اس لیے سب کی رپورٹ لیتا ہے ، سب سے کہتا ہے ، تم نے کچھ نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک شیطان آکر کہتا ہے کہ میں نے میاں بیوی میں تفریق کردی ہے تو اسے سینہ سے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے ، کرنے کا کام تو نے کیا ہے(مسلم)
ناچاقی وجدال: فرمایا: شیطان اس بات سے تو مایوس ہوگیا ہے کہ اب کوئی نمازی اس کی پوجا کرے۔ لیکن باہمی جنگ و جدال سے مایوس نہیں ہے۔ (مسلم)
شیطان کا تصرف: فرمایا : شیطان اور فرشتہ دونوں تصرف کرتے اور دخل دیتے ہیں.... شیطان شرکی دھمکی دیتا ہے اورحق کو جھٹلانےکو کہتا ہے۔ (ترمذی)
جب عورت گھر سے نکلتی ہے: فرمایا جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو (
استشرفها الشیطان) شیطان اس کے پیچھے ہولیتا ہے۔
شیطان کی نشست: فرمایا : آدھا دھوپ میں اور آدھا سایہ میں بیٹھنا ، شیطان کی نشست ہے (حدیث)
ایک پاؤں میں جوتا: ایک پاؤں میں جوتا پہن کر نہ چلے۔کیونکہ ایسا کام شیطان کا ہے۔
بائیں ہاتھ سے کھانا: فرمایا: شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے، اس لیےایسا کوئی صاحب نہ کرے۔ ورنہ شیطان شریک ہوجاتا ہے۔کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے، ورنہ شیطان اسے اپنے لیے حلال تصور کرتا ہے۔
بسم اللہ: کھانا کھاتے وقت بسم اللہ بھول جائے تو بسم اللہ اولہ و اخرہ کہے، فرمایا پھر شیطان کھایا پیا قےکردیتا ہے۔
گدھے کی آواز: جب گدھے کی آواس سنو تو ''أعوذ'' پڑھو،کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر چیختا ہے۔
منتر نشتر: فرمایا یہ : من عمل الشیطان (ابوداؤد) یہ ایک شیطانی کام ہے (اکثر روایات مشکوٰۃ سےماخوذ ہیں)
شیطان کی شرارت : حضرت ابن مسعود نے اپنی بیوی کے گلے میں دھاگا دیکھا تو توڑ ڈالا ، بیوی نے کہا کہ اگر یہ غلط ہے تو پھر اس سے آرام کیوں آجاتا ہے ۔ فرمایا یہ شیطان کی کارستانی ہے۔
إنما ذاك عمل الشیطان کان ینخسھا بیدہ فإذا رقاها کف عنها (ابوداؤد)
یہ شیطان کی حرکت تھی وہ ہاتھ سے آنکھوں کو کریدا کرتا تھا جب وہ منتر جنتر پڑھتا تو شیطان کریدنا روک دیتا تھا (جس سےتم سمجھے کہ یہ منتر کا اثر ہے)
معلوم ہوا کہ اوہام اور بدعت کے باوجود لوگوں کی جو مرادیں پوری ہوجاتی ہیں، اس لیے نہیں ہوتیں کہ وہ سارے ٹوٹکے برحق ہوتے ہیں بلکہ ان میں شیطان ان سے تعاون کرتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا ہے۔
اوقات شیطان:آپ نے دوپہر کے وقت سورج ڈوبتے یا نکلتے وقت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے:کیونکہ یہ شاطان کے اوقات ہیں۔ (مسلم وغیرہ)
سورہ بقرہ: فرمایا گھروں کو قبرستان نہ بنا ڈالو، جس گھر میں سورہ بقرہ کی تلاوت ہوتی ہے ۔ شیطان اس میں داخل نہیں ہوتا۔
رمضان میں جکڑ دیئے جاتے ہیں: جب ماہ رمضان آتا ہے تو صفدت الشیاطین (مؤطا مالک) شیطان باندھ دیئے جاتے ہیں۔نبی کی صورت نہیں بن سکتا۔ شیطان میں ہررنگ بدلنے کی استطاعت ہےمگر نبی کریم ﷺ کی صورت کے مشابہ شکل نہیں بنا سکتا۔
لا ینبغي للشیطان أن یتشبه بي (أوکما قال)بزرگوں کے ارشاداتامام ثوری۔ حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں۔ شیطان کو سب سےزیادہ بدعت پسند ہے، کیونہ لوگ گناہ سےتوبہ کرلیتے ہیں مگر بدعت سےنہیں۔ (کیونکہ یہ تو ان کی عبادت ہوتی ہے)
البدعة أحب إلی إبلیس من المعصیةلأن المعصیة یتاب منھا والبدعة لا یتاب منھاخلاصہ: حضرت آدم علیہ السلام اپنے خصائص انسانیت اور علمی شرف و مزیت کی بنا پر جب ملائکہ پر آشکارا ہوگئے تو فرشتوں نے حق تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کےحضور سجدہ ریز ہونے میں کوئی تامل نہ کیا اور سجدہ میں گر گئے، ہاں ابلیس نے از راہ رقابت حسد اورتکبر انتہائی حقارت کےساتھ خدا کے حکم کی تعمیل سے گریز کیا اور خوئے بدرا بہانہ بسیار کے مطابق ''چونکہ چنانچہ'' کی طرح ڈالی اور حق تعالیٰ کے ارشاد کو خانہ ساز فلسفہ کی ترازو میں تولنے کی حماقت کیاور راندہ گیا۔ .......... (مسلسل)
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ