عہد ِنبویؐ میں حافظان ِقرآن او راس کی حفاظت

(قسط 2)

6۔ حضرت سعد

نسب: ابواسحاق سعد بن ابی وقاص مالک بن اہیب بن عبدمناف بن مرہ القرشی الازہری۔

چھ آدمیوں کے بعد آپ ایمان لائے۔ آپ بھی عشرہ مبشرہ کی صف میں شامل ہیں۔ آپ ہی وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے اسلام کے راستے میں تیرچلایا جس کے نتیجہ میں حضور کی دعا کے مستحق ٹھہرے۔ آپ نے دعا کی: اللھم سددہ واجب دعوتہ یعنی اے باری تعالیٰ اس کوصراط مستقیم پر قائم رکھ اور اسے مستجاب الدعوات بنا۔ اسی دعاکاثمرہ اللہ نے فتح قادسیہ اور فتح مدائن کی صورت میں دیا۔ نیز حضور نے آپ کے لیے وہ کلمات کہے جو تمام صحابہ کے لیے قابل رشک تھے یعنی آپ نےفرمایا تھا: ادم فداک ابی و امی ، آپ تیر چلائیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ کو حضورؐ نے ھذا خالی کہہ کر پکارا تھا۔ آپ کی وفات میں اختلاف ہے۔ آپ 51ھ اور 58 ھ کےدرمیان فوت ہوئے۔ الاصابہ: ج2 ص30۔ اسد الغابہ :ج2 ص290۔ آپ کے بارے میں علامہ سیوطی نے ابوعبید کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ حافظ قرآن تھے۔ الاتقان :ج1 ص74۔

7۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

نسب: ابوالعباس عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف القرش الہاشمی۔

آپ شعب ابی طالب میں پیدا ہوئے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی عمر تیرہ سال تھی۔ حضورﷺ نے آپ کو سینے سےلگایا اور فرمایا: اللھم علمہ الحکمۃ یعنی اے اللہ اس کو ''دانائی'' سکھا۔نیز فرمایا اللهم فقه في الدین و علمه التأویل۔ایک اور روایت میں ہے کہ یہ الفاظ بھی فرمائے علمه الحکمة و تأویل الكتاب یعنی بیک وقت چار چیزوں کے لیے دعا فرمائی جس کی وجہ سے آپ کو ''حبر العرب'' ''حبرالأمة'' کےنام سے پکارا جاتاتھا۔ حضرت عمرؓ نے بھی اسی فراست کو دیکھ کر (جو حضورﷺ کی دعا کانتیجہ تھی)مجلس شوریٰ میں جگہ دی تھی حالانکہ یہ منصب کم ہی صحابہؓ کو نصیب ہوا۔ آپ 68ھ میں طائف میں فوت ہوئے اور حضرت محمد بن علی ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ الاصابہ:ج2 ص322۔ اسد الغابہ : ج3 ص193۔ تہذیب الاسماء واللغات :ج1 ص274۔ الاستیعاب:ج1 ص372۔ اقرأ القرآن على أبي بن كعب۔نیز آپ خود فرماتے ہیں جمعت المفصل علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی آپ نے حضورﷺ کے زمانے میں کچھ حصہ یاد کیا اور بعد میں پورا قرآن مجید یاد کرکے حضرت ابی بن کعب کو سنایا۔ معرفة القرأء الکبار للذہبی :ج1 ص41۔ حفظ المحکم في زمن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم عرض القرآن کله علی أبي بن کعب طبقات القرأ جزری :ج1 ص425 کان حافظا الاتقان: ج1ص74۔ الغرض آپ حافظ قرآن تھے۔

8۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نسب: ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن عمر بن خطاب بن نفیل القرشی العددی۔

آپ نبوت کے چوتھے سال پیدا ہوئے او راپنے والد ماجد کے ساتھ ہی ایمان لے آئے۔ حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ ''مارائت رجلا اورع من ابن عمر'' یعنی میں نے ابن عمر سے کوئی شخص پرہیزگار نہیں دیکھا۔ آپ کے بارے میں حضورﷺ نےفرمایاتھا: ان عبداللہ رجل صالح یعنی حضورﷺ فرما رہے ہیں کہ عبداللہ صالح آدمی ہے۔ آپ نے آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ)پرعمل کرنے کے لیے اپنی لونڈی ''رمثة'' کو آزاد کردیا کیونکہ وہ آپ کو پسند تھی۔ فتویٰ دینے کے بارے میں آپ بڑی احتیاط کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بات ایسی نکل جائے جو حضورﷺ کے فرمان کے مخالف ہو۔ آپ74ھ میں 86سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ الاصابہ:ج2 ص338۔ اسدالغابہ:ج3 ص227۔ الاستیعاب:ج1 ص368۔

''کان شدید الاتباع لآثار النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم '' تہذیب الاسماء و اللغات:ج1 ص279۔ أخرج النسائي بسند صحیح عن عبداللہ بن عمر قال جمعت القرآن فقرأت به کل لیلة فبلغ النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال اقرأه في شهر یعنی آپ کو قرآن مجید یادتھا اور آپ روزانہ رات کو ختم کرتےتھے تو حضورﷺ نےفرمایا کم از کم قرآن مجید ایک مہینہ میں ختم کیاکرو۔ الاتقان:ج1 ص74۔

9۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما

نسب: ابو محمد عبداللہ بن عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید القرشی السہمی۔

آپ اپنے باپ حضرت عمرو سے صرف بارہ سال چھوٹے تھے۔ آپ اپنے والد ماجد سے پہلے مشرف باسلام ہوئے۔ آپ کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپ کو مجھ سے بھی زیادہ حدیثیں یاد تھیں کیونکہ آپ لکھ لیتے تھے ۔ آپ کو جنگ صفین میں جانے کے لیےکہا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم نہ تو میں جنگ میں شریک ہوں گا اورنہ ہی تیر و تلوار استعمال کروں گا کیونکہ یہ چیز آپ کے زہد کے مانع تھی۔ الاستیعاب : ج1ص370۔الاصابہ :ج2ص373

آپ قرآن کے علاوہ پہلی کتابوں کے بھی حافظ تھے۔ اسد الغابہ: ج3 ص333۔

مذکورہ بالاکتاب میں ہے کہ آپ کے اصرار پر حضورﷺ نے آپ کو کم از کم تین دن میں قرآن مجید پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ ابوداؤد: ج1 ص193۔ کان حافظا الاتقان : ج1 ص74۔طبقات القرأ جزری : ج1ص431 میں یہ الفاظ مرقوم ہیں۔

الصحابي الجلیل وردت الروایة في حروف القرآن العظیم وهو أحد الذین حفظوا القرآن العظیم في حیاة النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی آپ نے حضور کی زندگی ہی میں قرآن مجید یاد کرلیا تھا اور مزیدبرآں آپ قاری بھی تھے۔

10۔ عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما

نسب:ابوبکر عبداللہ بن الزبیر بن العوام بن خویلد بن اسد القرشی الاسدی۔

آپ 21ھ میں پیداہوئے۔ آپ پہلے مولود ہیں جو کہ اسلام میں پیدا ہوئے۔ جب آپ پیدا ہوئے تو مسلمانوں کو دوچند خوشی ہوئی کیونکہ یہود مدینہ نے یہ بات مشہور کررکھی تھی کہ ہم نے جادو کردیا ہے اس لیےمسلمانوں کی نسل آگے نہیں چل سکتی تو اللہ تعالیٰ نے ان کےدعوے کو رد کردیا۔ جب حضرت عبداللہ پیدا ہوئے تو حضورﷺ نے کھجور لے کر پہلے خود چبائی پھر حضرت عبداللہ کے منہ میں ڈالی۔ اس طرح نبی کا لعب دہن اُمتی کے لعاب دہن سے جاملا جس نے بعد میں جاکر ایک عظیم ہستی کاروپ دھارا۔ آپ کی بیعت خلافت معاویہ بن یزید کی موت کے بعد ہوئی۔ آپ کی اطاعت میں اہل حجاز، یمن، عراق، خراسان شامل تھے۔ آپ کوحجاج نے عبدالملک کی خلافت میں محاصرہ کرکے شہید کردیا۔ آپ کی شہادت 73 ھ میں ہوئی۔ سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں باقی اصحاب سےمخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کی بیعت خلافت یزید کی موت کے بعد معاویہ کی خلافت میں ہوئی۔ تاریخ الخلفاء،ص161

کان حافظاً الاتقان: ج1 ص73 یعنی آپ حافظ قرآن تھے۔

آپ حافظ ہونےکے ساتھ ساتھ قاری بھی تھے۔ طبقات القراء جزری :ج1ص419

11۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما

ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب بن شخص بن قار الہذلی حلیف بنو زہرہ۔

آپ کبار صحابہ کرام میں سے ہیں اپنے ایمان لانے کے سبب کو خود ہی بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں میں نوجوان تھااو رعقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرا رہا تھا کہ حضورﷺ حضرت ابوبکر صدیقؓ کےساتھ تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا اےلڑکے آپ کے پاس دودھ ہے؟ میں نے کہا دودھ تو ہے لیکن یہ مال میرا نہیں ہے تو آپ نے فرمایا کہ اچھا وہ بکری لے آؤ جو ابھی دودھ کے قابل نہ ہو تو میں ایک بکری لایا۔ حضورﷺ نے اس کے تھنوں کو ہاتھ لگایا تو دودھ آناشروع ہوگیاجس سے آپؐ او رحضرت ابوبکر صدیقؓ دونوں نے سیر ہوکر پیا۔ پھر آپ نے دودھ کو بند ہونے کو کہا تو وہ بند ہوگیا۔میں پاس کھڑا سب کچھ دیکھ رہاتھا۔ حیران ہوکر عرض کی آپ وہ کلام مجھے بھی بتائیں جس کے پڑھنے سے یہ کام ہوا ہے تو حضور نے میرے سر پرپرہاتھ پھیر کر فرمایا تو پڑھا لکھا بچہ ہے یعنی تجھ میں استطاعت ہے کہ تو پڑھے۔ پھر اس کے بعد آپ جلدی ہی مسلمان ہوگئے۔ آپ نے دو دفعہ ہجرت کی اور بدر میں بھی شریک ہوئے او رباقی تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ حضورﷺ نے آ پ کے جنتی ہونے کی بشارت دی تھی۔ آپ کے بارے میں حضور نےفرمایا جس سے عبداللہ بن مسعود خوش ہے اس سے میں بھی خوش ہوں۔جس سے عبداللہ بن مسعود ناراص ہے اس سے میں بھی ناراض ہوں۔ آپ 32 ھ میں مدینہ المنورہ میں فوت ہوکر جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ الاصابہ:ج2 ص360۔اسدالغابہ: ج3 ص256۔ الاستیعاب:ج1 ص259۔کتاب القراءة، القراء من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ابوعبید نے لکھا ہے ۔ کان حافظاً الاتقان:ج1 ص74 حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:

حفظت من فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سبعین سورۃ یعنی میں نے سترسورتیں حضور ﷺ کے دہن مبارک سےازبر کیں۔معرفۃ القراء الکبار للذہبی:ج1 ص34۔

اسی کتاب میں ہے :ابومسعود فرماتے ہیں: والله لاأعلم أحدا ترکه رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أعلم بکتاب الله تعالى من هذاوأشار إلی ابن مسعود ۔ مختصر یہ کہ آپ حافظ قرآن تھے۔ مزید کہ أسلم قبل عمر عرض القرآن علی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ آپ حضرت عمر ؓ سے پہلے اسلام لائے او رقرآن مجید یاد کرکے حضور کو سنایا۔ أنه كان یقرأ القرآن في غیر رمضان في الجمعة وفي رمضان في ثلاث۔ آپ رمضان میں تین دن اورغیررمضان میں ایک ہفتہ میں قرآن مجید پڑھتے تھے۔ طبقات القراء للجزری:ج1ص458۔

12۔ حضرت عبداللہ بن السائب

نسب : ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن السائب بن ابوالسائب اسمہ صیفی بن عائذ مخزومی القاریؓ۔

آپ حضورﷺ کے تجارت میں بھائی وال تھے جیسا کہ وہ خود اپنے ایمان لانے کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں۔ أتیت رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بمکة لأ بایعه فقلت أتعرفني؟ قال نعم ألم تکن شریكا لي مدة۔

فرماتے ہیں کہ میں حضورﷺ کے پاس مکہ میں بیعت کے لیے حاضر ہوا تو میں نے کہا کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں کیا تو میرا کسی وقت شریک کار نہ تھا؟ آپ عبداللہ بن زبیر ؓکی خلاف میں فوت ہوئے اور عبداللہ بن العباسؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ الاصابہ :ج2 ص306۔ اسدالغابہ: ج3 ص170۔

قرأ عبداللہ القرآن علی بن ابی کعب۔ آپ نے قرآن مجید یاد کرکے حضرت ابی بن کعب کو سنایا معرفۃ القرأ الکبار للذہبی: ج1 ص42۔ ان کے بارے میں مجاہد نے یہ الفاظ رقم کیے ہیں۔ كنا نفخر علی الناس بقارئنا عبدالله بن السائب  ہم لوگوں پر اس بات کا فخر کرتے تھے کہ ہمارا قاری عبداللہ بن السائب ہے۔ طبقات جزری:ج1 ص42۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صرف حافظ ہی نہیں بلکہ قاری بھی تھے۔

حضرت عبداللہ ذ1والبجادین

نسب: عبداللہ بن عبدنہم بن عفیف بن سحیم بن عدی بن ثعلبہ بن سعد المزنی

آپ کا جاہلیت کا نام عبدالعزیٰ تھا جب آپ مسلمان ہوئے تو حضورﷺ نے آپ کا عبداللہ رکھا۔ آپ کو ذوالبجادین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ یتیم تھے او راپنے چچا کی زیر کفالت تھے جب آپ مسلمان ہوئے تو آپ کے چچا نے تمام کپڑے چھین لیے اور آپ کی والدہ نے ایک کمبل دیا۔ جس کو انہوں نے پھاڑ کر آدھا اوپر آدھا نیچے لے لی۔ اسی حالت میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورﷺ نے آپ کو ذوالبجادین کہہ کرمخاطب کیا جس سے یہ آپ کا لقب بن گیا۔ حضورﷺ کی زندگی ہی میں جنگ تبوک میں آپ اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ حضورﷺ نے اپنے دست مبارک سے آپ کو لحد میں اتارا اور فرمایا اے اللہ میں اس سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا۔ جب آپ نے یہ دعا فرمائی۔ صحابہ کہتے ہیں کاش کہ اس کی جگہ ہم ہوتے اور حضورﷺ کی دعا کے حق دار بن جاتے۔ آپ کے حافظ ہونے کے بارے میں یہ الفاظ ملتے ہیں۔ كان أوهافاضلاً کثیر التلاوۃ للقرآن العظيم انتهی والله أعلم بالصواب۔ الاصابہ:ج2 ص330۔ اسدالغابہ: ج3 ص122 یعنی آپ قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کرتے تھے۔ تلاوت تب ہی ہوسکتی ہے جب کہ آپ حافظ ہوں کیونکہ اس وقت قرآن مجید آج کل کی طرح ایک جگہ سب کے پاس جمع نہیں تھا۔

14۔ حضرت ابي بن کعب

نسب: سید القرأ ابوالمنذر و ابوالطفیل ابی بن کعب بن قیس بن عبید بن زیاد بن معاویہ الانصاری المعاوی۔

آپ عقبہ ثانیہ میں مسلمان ہوئے اور تمام جنگوں میں شریک ہوئے۔ آپ کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا: أمرت أن أقرأ عليك القرآن۔ یعنی مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ پر قرآن پڑھوں حضرت ابی کہنے لگے الله سماني لك فقال نعم۔ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر کہا ہے تو حضورﷺ نے فرمایا ہاں جب حضورﷺ نے کہا واقعی اللہ نے آپ کا نام لے کر مجھے کہا ہے تو حضرت ابی بن کعبؓ رونے لگے کیونکہ رونا خوشی میں آجاتا ہے۔ خوشی جب حد سے تجاوز کرجاتی ہے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ آپ کو سیدالمسلمین کے نام سے مخاطب کرتے تھے اور فرماتے تھے: اقرأ یا أبي۔ آپ کی وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کے خیال میں آپ خلافت عمرؓ میں فوت ہوئے مثلاً حافظ ابن حجر اور بعض کے خیال میں آپ خلافت عثمانؓ میں فوت ہوئے۔مثلاً ابن اثیر جزری۔ الاصابہ :ج1 ص31۔ اسدالغابہ:ج1ص49۔ الاستیعاب: ج1ص26۔

آپ کے حافظ ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ عرض القرآن علی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے قرآن مجید یاد کرکے حضورﷺ کو سنایا۔ آپ نے حضرت ابی بن کعب کے بارے میں فرمایا تھا: استفتووا القرآن من أربعة عبدالله ابن مسعود سالم مولیٰ أبي حذیفة و معاذ بن جبل و أبي بن كعب رضي الله عنهم ۔ حافظ ابن سیرین نے آپ کے بارے میں کہا ہے۔ کان حافظاً الاتقان:ج1ص74۔

قرأ على النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم القرآن العظیم و قرأ عليه النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض القرآن للإر شاد والتعليم۔ یعنی حضور اور حضرت ابی نے قرآن کا دور بھی کیا ۔ حضرت ابی نے پورا قرآن مجید حضور کو سنایا اور حضور نے کچھ حصہ پڑھا۔ حماد بن سلمہ کے واسطے سے ایک روایت آتی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا اقرا کم ابی بن کعب یہ روایت مرسل ہے لیکن اس کی سند صحیح ہے۔ طبقات ، جزری ج1ص31۔

15۔ حضرت حذیفہ

نسب: ابوعبداللہ حذیفہ بن حسل الیمان بن عامر بن عمرو بن ربیعہ العبسی۔

ان کے والد کو الیمان اس لیے کہتے ہیں کہ اس نے اپنی قوم سے لڑائی کرکے بنی عبدالاشہل کے پاس پناہ لی تھی اس لیے الیمان کہا جانے لگے۔ حضرت حذیفہ ؓ کبار صحابہ میں سے ہیں۔ آپ جنگ اُحد میں شریک ہوئے۔ آپ کے بارے میں یہ بات بہت مشہور تھی کہ آپ حضورﷺ کے ''رازدان'' ہیں۔ ایسے رازدان کہ ان رازوں کا آپ کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔ وہ خود فرماتے ہیں ۔ لقد حدثني رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماكان وما يكون حتی تقوم الساعة۔ اسی لیے آپ کے بارے میں حضرت ابوالدرداءؓ نے حضرت عقلمہؓ کو فرمایا تھا ۔ أليس فيكم صاحب السر الذي لا یعلمه غیره۔ حضرت عمرؓ نے فتنہ کے متعلق حضرت حذیفہؓ سے دریافت فرمایا تھا۔ آپ حضرت عثمانؓ کی شہادت اور حضرت علیؓ کی بیعت کے چالیس دن بعد فوت ہوئے یہ واقعہ 33ھ میں وقوع پذیر ہوا۔ الاصابہ:ج1 ص317۔اسدالغابہ:ج1ص390۔ آپ کو ابوعبید نے حفاظ میں سے شمار کیا ہے۔ الاتقان:ج1ص74۔ امام جزری نے یہ الفاظ رقم کیے ہیں۔ وردت الرواية في حروف القرآن یعنی آپ حافظ ہی نہیں قاری بھی تھے۔ طبقات جزری: ج1ص203۔

16۔ حضرت سالم

نسب: ابوعبداللہ سالم بن عبید بن ربیعہ اور بعض نے آپ کے والد کا نام معقل بتایا ہے۔

آپ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدالشمس القرشی کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ فضلاء صحابہ میں سے تھے۔ حضرت ابوحذیفہؓ نے آپ کو اپنا متبنیٰ بیٹا بنایا ہوا تھا۔ جب یہ آیت اتری ادعوهم لآباءهم تو پھر آپ کو سالمؓ مولی ابی حذیفہؓ کہا جانے لگا۔ حضورﷺ نے آپ کے بارے میں یہ الفاظ فرمائے تھے۔ الحمدالله الذي جعل في أمتي مثله یہ الفاظ آپ نے حضرت سالمؓ کا قرآن مجید سن کر کہے تھے۔ آپ نےمدینہ میں مہاجرین و انصار کی جماعت بھی کرائی جس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔ الاصابہ:ج2ص60 ۔ اسدالغابہ: ج2 ص245۔

حضورﷺ نے جن چار صحابہ سے قرآن پڑھنے کو کہا تھا ا ن میں حضرت سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہ بھی تھے۔ معرفۃ القراء ذہبی: ج1ص33۔کان حافظاً الاتقان:ج1ص74۔ آپ حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ قاری بھی تھے۔ طبقار جزری: ج1ص301 میں ہے کہ وردت الرواية في حروف القرآن۔

17۔ حضرت ابوہریرہ

نسب: ابوہریرہ عبدالرحمٰن بن عامر بن عبدالشریٰ بن طریف بن عتاب بن ابی صعب الدوسی۔

آپ کے نام کے بارے میں کافی اختلاف ہے۔ حافظ ابن حجر نے دس قول نقل کیے ہیں اور جزری نے ترجیحاً لکھا ہے۔ آپ کے اسلام لانے کے متعلق بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے 7 ھ میں لکھا ہے۔ ذہبی نےبھی یہی لکھا ہے لیکن بعض کے خیال کے مطابق آپ 7 ھ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ روایت کرنے والی انہیں کی ذات ہے۔ ایک دن حضرت ابوہریرہؓ سے کثرت روایت کےمتعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ مجھے کوئی کام تو تھا نہیں سوائے حدیثیں یاد کرنے یا کھانے پینے کے بخلاف مہاجرین و انصار کے کیونکہ وہ اپنے کام کاج میں مشغول بھی ہوتے تھے جب کہ میں ہمیشہ حضور کی خدمت میں ہی رہتا تھا تو یہ بات ضروری ہے کہ میں نے حضورﷺ سے زیادہ حدیثیں یاد کیں۔ پھر آپ سے سوال ہوا کہ آپ کو اتنی حدیثیں یاد کس طرح رہ گئیں تو آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا: یارسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ ، قَالَ : ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ ، قَالَ : فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : ضُمَّهُ ، فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ "

(ترجمہ) اے اللہ کے رسول ﷺ میں آپ سے بہت سی باتیں سنتاہوں مگر بھول جاتا ہوں ۔ آپ نے چادر بچھانے کا حکم دیا۔ میں نے چادر بچھائی۔ پھر آپ نے فرمایا اس کے سینے سے لگا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ سینے سے لگانا تھا کہ ذہن کے حافظے کے دریچے کھل گئے۔ اس کے بعد مجھے کوئی بات نہیں بھولی۔ اب اس کے بعد بھی کسی کو آپ کی فقاہت پر کلام ہو تواسے چاہیے کہ اپنے عقل کے ناخن لے۔ کیونکہ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جو کہ حضورﷺ کے اس کشتہ سے آنکھیں بند کرلے جو کہ حضورﷺ نے حضرت ابوہریرہؓ کو ذہن حافظے کے لیے عنایت فرمایا تھا۔ آپ کی وفات 57ھ میں ہوئی۔ الاصابہ:ج5ص315۔ الاستیعاب:ج2 ص697۔

آپ کے حافظ ہونے کے بارے میں مندرجہ ذیل الفاظ نقل کیے گئے ہیں وقرأ القرآن علی ابی بن کعب۔ حضرت نے قرآن مجید یاد کرکے حضرت ابی بن کعب کو سنایا۔ معرفۃ القراء ذہبی :ج1 ص40۔ نیز یہ الفاظ مرقوم ہیں۔ حکى جماعة من شیوخنا البغداد بین أن الأعرج قرأ على أبي هریرة وأن أبا هریرة قرأ على النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔طبقات جزری:ج1 ص370۔

(ترجمہ): ایک جماعت نے حکایت کی ہے جو بغداد والوں سے تھی کہ الاعرج نے قرآن مجید یاد کرکے حضرت ابوہریرہ کو اور حضرت ابوہریرہ نے حضور کو سنایا۔ طبقات القراء جزری :ج1ص370۔کان حافظاً الاتقان:ج1ص74۔

18۔ حضرت معاذ بن جبل

نسب: ابوعبدالرحمٰن معاذ بن جبل بن عمرو بن اوس بن عابدین عدی الانصاری الخزرجی۔

آپ کے بارے میں کعب بن مالک فرماتے ہیں۔ کان شاباً جمیلا سمعاً من خیر شباب قومہ اور واقدی نے لکھا ہے ۔ کان اجمل الرجال الغرض آپ نہایت حسین و جمیل تھے۔ آپ تقریباً تمام جنگوں میں شریک رہے۔ مثلاً بدر، اُحد وغیرہ، جب آپ جنگ بدر میں شریک ہوئے اس وقت آپ کی عمر 21 سال تھی۔ حضورﷺ نے آپ کو یمن کا والی بنایا تھا۔ حافظ ابن حجر نے ان کے حالات میں لکھا ہے۔ الإمام المقدم في علم الحلال والحرام سنن ابوداؤد میں ہے کہ حضرت معاذ فرماتے حضور نےمیرے بارے میں یہ الفاظ فرمائے۔ انی لاحبک یعنی حضور کے محبوب اوربقول ابن حجر علم حلال و حرام کے امام۔ آپ کی وفات طاعون کی مرض سے ہوئی۔ الاصابہ: ج3 ص406۔ اسدالغابہ:ج4ص376۔ طاعون کی وبا 17ھ میں پھیلی تھی۔ آپ ان چار حفاظ میں سے تھے جن کے لیے حضور نے فرمایا تھا کہ ان سے قرآن مجید سیکھو۔ معرفۃ القراء للذہبی :ج1 ص33۔ کان حافظاً الاتقان:ج1ص74۔

حفظ علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقدوردت عنہ الروایۃ فی حروف القرآن انتہی۔

آپ حافظ ہی نہیں قاری بھی تھے۔طبقات جزری: ج2ص301۔ کان حافظا تلقیح ابن جوزی: ص225۔

19۔ حضرت عبادہ بن الصامت

نسب: ابوالولید عبادہ بن الصامت بن احرم بن فہر بن قیسالانصاری الخزرجی۔

آپ عقبہ اولیٰ او رثانیہ دونوں میں شریک تھے۔ آپ نے بدر اور تمام جنگوں میں حصہ لیا (بدر کے متعلق امام جزری نے لکھا) حضرت امیر معاویہ نے فرمایا تھا ھوافقہ منی آپ بڑی قدوقامت کے خوبصورت جوان تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو صداقت کے لانے کا حکم دیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے آپ کو شام میں قرآن مجید کی تعلیم کے لیےبھیجا تھا۔ آپ 72 سال کی عمر 34ھ رملہ یا بیت المقدس میں فوت ہوئے۔ الاصابہ:ج2ص260۔ اسدالغابہ:ج3ص106۔کان حافظا تلقیح فہم اہل الاثر :ص220۔ کان حافظا الاتقان: ج1ص74۔ الغرض آپ بھی قرآن مجید جیسی عظیم کتاب کے حافظ تھے۔

20۔ حضرت مجمع بن الجاریۃ

نسب: مجمع بن الجاریہ ابن عامر بن مجمع بن المعطاف الانصاری الاوسی۔

آپ کے والد جاریہ نے مسجد ضرار بنوائی تھی اور وہ منافق تھے۔ حضرت مجمعؓ ابھی بچے ہی تھے اس لیے آپ مسجد ضرار میں نماز پڑھاتے رہے۔ حضرت عمرؓ کی خلافت میں یہ بات چلی کہ حضرت مجمعؓ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو یہ اعتراض ہوا۔ أو ليس كان إمام المنافقین في مسجد الضرار فقال والله الذي لا إله إلاهو ما علمت من أمرهم بشيء فترکه عمر یصلي۔ یعنی آپ پر منافقین کے امام ہونے کا الزام لگا تو آپ نے قسم اٹھائی کہ مجھے ان کے کسی معاملے کا علم نہ تھا تو حضرت عمرؓنے آپ کو کوفہ میں لوگوں کی تعلیم کے لیے مقرر کردیا۔ دجال کے ''باب لد'' کے پاس قتل ہونے والی روایت بھی حضرت مجمع ؓہی کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے۔ آپ کے حافظ ہونے کے متعلق حافظ ابن حجر نے یہ لفظ رقم کیے ہیں۔ قد جمع القرآن۔ الاصابہ: ج3ص346۔ اسدالغابہ:ج4ص303۔ ابوعبید نے آپ کے بارے میں لکھا ہے۔کان حافظ الاتقان: ج1ص74۔ احد الذین جمعوا القرآن علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ یعنی آپ نے حضورﷺ کی زندگی ہی میں قرآن مجید اپنے سینے میں محفوظ کرلیا تھا۔ وردت الرواية عنه في حروف القرآن۔ آپ قاری بھی تھے۔ طبقات جزری:ج3ص42۔

21۔ حضرت ابوحلیمہ معاذ القاری

نسب: ابوحلیمہ معاذ بن الحرث بن الارقم بن عوف بن دہب الانصاری الخزرجی۔

آپ جنگ خندق میں شریک ہوئے او رجنگ جسر کے موقع پر حضرت ابوعبیدہ ثقفی کےساتھ تھے۔ الاصابہ: ج3ص407۔ اسدالغابہ:ج4ص378۔

آپ کو ابوعبید نے اپنی کتاب میں حفاظ میں شمار کیا ہے۔ الاتقان:ج1ص74۔

22۔ حضرت عقبہ بن عامر الجہنی

نسب: عقبہ بن عامر بن عیس بن عمرو بن عدی بن عمر الجہنی۔

آپ عقبہ اولیٰ میں مسلمان ہوئے اور تمام جنگوں میں شریک ہوئے لیکن حضرت عقبہ ؓ اپنے ایمان لانے کا واقعہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔ قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم المدينة وأنا في غتم لي أدعا ها فترکتها ثم ذهبت إلیه فقلت بایعنیفباء یعني على الهجرة الحدیث۔ یعنی آپ حضورﷺ کے مدینہ میں پہنچنے کے بعد مسلمان ہوئے اس میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ آپ عقبہ اولیٰ میں مسلمان ہوئے ہوں او رحضور ﷺ کے مدینہ پہنچنے پر دوبارہ بیعت لینا چاہی تو حضور نے ہجرت پر بیعت لی۔

آپ جنگ صفین میں حضرت امیرمعاویہ کے ساتھ تھے اور حضرت امیرمعاویہ کی خلافت میں مصر کے والی بھی رہے۔ آپ59ھ میں فوت ہوئے۔ الاصابہ:ج1ص281۔ اسدالغابہ:ج3ص59۔ الاستیعاب:ج2ص489۔ کان حافظا الاتقان:ج1ص74۔

کان عقبة قارءا عالماً بالفرائض والفقه او ریہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ کے ہاتھ پر قرآن مجید لکھا ہوا کافی دیر کے بعد بھی دیکھا گیا جو کہ حضرت عثمانؓ کے نسخہ سے الگ تھا۔کتاب الانساب للسمعانی ص145۔ مختصر یہ کہ آپ حافظ ۔ قاری اور عالم تھے۔

23۔حضرت ابوموسیٰ اشعری

نسب: ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس بن سلیم بن حرب بن عامر الاشعری۔

آپ دبلے پتلے جسم کے مالک تھے۔ آپ اسلام لائے او راپنے وطن واپس چلے گئے۔وہاں سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ فتح خیبر کے موقع پر واپس آئے تو حضرت ابوموسیٰ اشعری بھی اسی موقع پر تشریف لائے۔ حضورﷺ نے آپ کو یمن کے بعض علاقوں زبید اور عدن وغیرہ کا والی بنایا تھا۔ حضورﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا لقد أوتي مز مارا من مزامیر آل داود یعنی حضورﷺ آپ کی آواز کی تعریف فرما رہے ہیں ۔ آپ ابھی یمن میں ہی تھے کہ حضورﷺ کی وفات ہوگئی پھر آپ واپس مدینہ آگئے۔ حضرت عمرؓ نے آپ کو بصرہ کا حاکم بنایا او رحضرت عثمانؓ نے آپ کو کوفہ کا حاکم مقرر فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے وصیت کی تھی کہ کوئی عامل ایک سال سے زیادہ نہیں رہ سکتا اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کو چار سال کے لیے عامل نامزد کیا اور سفین کے مکین میں سے ایک ابوموسیٰ الاشعری تھے۔

آپ کی وفات 44ھ ہے۔ الاصابہ:ج2ص351۔ اسدالغابہ:ج2ص248۔

هاجر إلى النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقد اعلیه عند خبیر و حفظ القرآن والعلم۔

یعنی آپ قرآن مجید کے علاوہ دوسرے علوم و فنون سے بھی بہرہ ور تھے۔معرفۃ القراء: ج1 ص27۔ الاتقان: ج1 ص74 و حفظ القرآن و عرضها علی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ طبقات جزری :ج1ص442........... (باقی آئندہ)