حضرت مولانا ابوسعید عبدالعزیز سعیدی مرحوم آف منکیرہ

مولانا موصوف جماعت اہل حدیث کے بلند پایہ عالم دین، صالح الاعمال اور بہترین اخلاق و عادات کے مالک تھے۔بیہقی زمان حضرت مولانا ابوسعید شرف الدین محدث دہلوی کے آخر شاگردوں میں سے تھے۔ والد گرامی کا نام میاں دین محمد تھا، جنہوں نے اس خاندان میں سب سےپہلےمسلک حق اہلحدیث قبول کیا، بڑے پاکباز، نیک طینت اور متقی تھے۔ اگرچہ خود تعلیم یافتہ نہ تھے، تاہم علماء کے وعظ و راشاد کو بڑی توجہ سے سنتے۔ حتیٰ کہ جو مسئلہ باحوالہ بیان کیا جاتا، آپ وہ حوالہ بھی یاد رکھتے تھے۔اس طرح جب کبھی کسی مسئلہ پربات چلتی تو فرما دیا کرتے کہ یہ مسئلہ فلاں عالم نے فلاں مقام پر تقریر کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا اور فلاں کتاب کا حوالہ دیا۔

1935ء میں ان کی وفات ہوئی۔

ولادت :

مولانا سعیدی کی (اپنی تحریر کے مطابق) ولادت 7۔اپریل 1919ء کو ہوئی۔ جب کہ والد گرامی چک نمبر 99؍10۔آر نزد جہانیاں منڈی ضلع ملتان میں رہائش پذیر تھے۔توحید و سنت کے ماحول میں آنکھیں کھولیں او رپروان چڑھے، جس کا اثر تھا کہ آپ مسلک اہلحدیث کے شیدائی اور پورے طور پر اس کے عالم او رمبلغ تھے۔

ابتدائی تعلیم:

1930ء میں پرائمری کرلی تھی۔ پھر قریبی چک 112 میں ایک بزرگ مولانا سید محمد صالح (جو کہ سید محمد شریف گھڑیالوی کے بھتیجے تھے) سے قرآن کریم کا کچھ حصہ، کریما اور صرف بہائی وغیرہ پڑھیں۔

1932ء میں بھینی سدھواں تحصیل ترنتارن ضلع امرتسر میں حضرت مولانا عطاء اللہ شہید (جنہوں نے 1947ء کے ہنگاموں میں سکھّوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا) کے ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ میں چلے گئے۔ وہاں دو سال تک تعلیم حاصل کی۔ اس دوران ابتدائی صرف و نحو اور بلوغ المرام پڑھ لیں۔ یہیں مشکوٰۃ شریف شروع کی۔ 1937ء میں رمضان کے بعد موضع لکھو کے ضلع فیروزپور چلے گئے، جہاں کا مدرسہ صرف، نحو اور معقولات کا بہترین مدرسہ شمار ہوتا تھا۔ مولانا عطاء اللہ لکھوی مرحوم سے ابواب الصرف فصول اکبری، شافیہ، شرح مأتہ عامل، ہدایت النحو اور مشکوٰۃ المصابیح  پڑھیں۔ 1939ء میں موضع میر محمد نزد راجہ جنگ  ضلع قصور تشریف لے گئے، وہاں عبدالحق سنگھانوالوی و فیروز پوری شہید (1947ء) رحمہ اللہ تعالیٰ سے درس لیا۔ اسی دوران اپنے والد کے ہمراہ چک نمبر 112 متصل جہانیاں منڈی (ملتان) میں رہائش پذیر ہوئے۔ اسی سال ملتان کے شہرہ آفاق محدث حضرت مولانا عبدالحق محدث ملتانی،تلمیذ حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ترجمۃ القرآن الکریم کے علاوہ کافیہ، شرح جامی او رابن ماجہ وغیرہ اسباق پڑھے۔

مولانا شمس الحق محدث ملتان (حال شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ ملتان) اندنوں مولانا عبدالحق ملتانی سے صحیح بخاری اور ہدایہ کا درس لیتے تھے اور مولانا شرف الحق ملتانی مرحوم مولانا سعیدی کے ہمدرس تھے۔ انہی دنوں حضرت مولانا محمد شریف گھڑیالوی امیر جمعیۃ اہلحدیث پنجاب چک نمبر 112 جہانیاں منڈی کے مشورہ پر  بھوئے آصل ضلع قصور چلے گئے۔ وہاں ’’شمس الہدیٰ‘‘ کےنام سے ایک مدرسہ تھا او رحضرت مولانا ابوسلمان عبدالرحمٰن انصاری بھوجیانی (جو جناب محمد ابراہیم انصاری بھوجیانی آف گوجرانوالہ کے بڑے بھائی تھے) مسند تدریس پر فائز تھے۔ موصوف بے حد خلیق، شیریں گفتار اور حدیث و تفسیر کے اچھے مدرس تھے۔ لیکن مولانا عبدالرحمٰن1936ء کے ذوالقعدہ میں حج کے لیے روانہ ہوگئے۔ اسی سال مجلس  احرار پنجاب کا ایک وفد سلطان ابن سعود کی خدمت میں اس غرض سے کیا کہ سعودی عرب کا امریکن کمپنی کےساتھ تیل کا جو معاہدہ ہوا ہے، اس کی مخالفت کی جائے۔ علمائے اہلحدیث ہند کی طرف سے حضرت مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا محمد اشرف سندھو، مولانا عبدالخالق آف پتوکی او رحضرت مولانا عبدالرحمٰن بھوجیانی بھی وفد میں شریک تھے۔ سلطان کے ہاں اس وفد کی خوب پذیرائی اور مدارات ہوئی۔ ہفت روزہ ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ نے سعودی مملکت کے حالات پر مشتمل ’’حجاز نمبر‘‘ بھی شائع کیا۔

مولانا عبدالرحمٰن مرحوم حج سے فارغ ہوکر محرم میں وطن واپس پہنچے تو پڑھائی شروع ہوئی، اس وقت سنن النسائی، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، شرح الجامی اور سراجی زیر درس تھیں۔ دوران سال حضرت مولانا کی آواز بیٹھ گئی، اور پھر  بند ہوگئی، سانس آتا تھا مگر بول نہ سکتے تھے، تاآنکہ اسی مرض میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

1937ء میں مدرسہ غزنویہ امرتسر (مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے زیر اہتمام ) چلے گئے۔ وہاں کے قابل ذکر اساتذہ میں مولانا نیک محمد شیخ الحدیث، مولانا محمد حسین شیخ التفسیر اور شیخ العلوم الآلیہ مولانا ابوالحسنات محمد عبداللہ بھوجیانی شہید (1947ء) تھے۔ حضرت مولانا نیک محمد سے جامع  الترمذی، مولانا محمد حسین سے ترجمۃ القرآن اور شرح جامی اور مولانا بھوجیانی سے شرح تہذیب، قطبی، میر قطبی، سبع المعلقات، مقامات حریری، دیوان الحماسہ کی تعلیم حاصل کی۔

شوال 1947ء میں حضرت مولانا عبدالحق محدث ملتانی اور مولانا عبدالتواب محدث ملتانی (ت1947ء) دونوں بزرگوں کے سفارشی خط بیہقی زماں حضرت مولانا ابوسعید شرف الدین محدث دہلوی کے نام لے شوال کے پہلے عشرہ میں مدرسہ عربیہ سعیدیہ دہلی پہنچ گئے، لکھتے ہیں کہ:

’’مولانا دہلوی درس دے رہے تھے، میں نے خط دیئے تو مولانا بے حد خوش ہوئے۔کیونکہ آپ مولانا عبدالحق محدث ملتانی کے شاگرد تھے۔ چنانچہ مدرسہ میں داخل کرلیا گیا۔ ترجمۃ البخاری ، سنن ابی داؤد، جامع ترمذی اور ادب میں متبنی، یہ اسباق شروع کئے۔

مدرسہ میں میرے ہمدرس احباب میں مولانا حبیب اللہ بستوی اور حضرت مولانا حافظ عبداللہ بھوجیانی مرحوم (مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف مدظلہ العالی، صاحب المکتبۃ السلفیہ و مدیر ’’الاعتصام‘‘ کے بڑے بھائی) تھے۔ یہ سال بہت عمدہ گزرا۔‘‘

مولانا سعیدی فرمایا کرتے تھے کہ ’’مولانا محمد شرف الدین کی نوازشات عاجز پر بہت زیادہ تھیں۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مدرسہ کے تمام طلبہ میں میرا مقام مولانا کی نظر میں امتیازی تھا۔‘‘

اس سال صحیح بخاری، سنن ابی داؤد او رجامع ترمذی کی ایک ایک جلد پڑھی جاسکی۔ صرف صحیح مسلم مکمل ہوئی۔ دوسرے سال کے ہمدرس ساتھیوں میں مولانا علی محمد صاحب سعیدی (حال مہتمم جامعہ سعیدیہ خانیوال) اور مولانا عزیز الرحمٰن صاحب چھٹہ (حال خطیب بستی چٹھہ ضلع ملتان) زیادہ معروف ہیں۔ اس سال کتب باقیہ کے علاوہ حجۃ اللہ البالغہ کا درس لیا۔ یہ 1939ء کازمانہ تھا او راس سال سند فراغت حاصل کرکے اپنے وطن واپس لوٹے۔

’’سعیدی‘‘ کی وجہ تسمیہ:

چونکہ آپ نے اپنی دینی تعلیم کی تکمیل ’’مدرسہ عربیہ سعیدیہ‘‘ میں کی تھی۔مدرسہ کی نسبت سے آپ سعیدی کہلوائے اور اب ہم لوگ یعنی مرحوم کی اولاد بھی سعیدی انتساب کو ہی پسند کرتی ہے۔

خصوصی تعلق:

والدیم مرحوم فرمایاکرتے تھے کہ  ’’جس سال ہم نے سند فراغت حاصل کی تو مولانا شرف الدین محدث دہلوی نے فرمایا:’’عبدالعزیز، تم مزید ایک سال یہاں رہ کر پڑھ لو‘‘ مگر گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے میں وقت نہ نکال سکا۔ جب فارغ التحصیل طلباء کو سندات تقسیم کی گئیں، تو فرمایا کہ تمہیں ابھی سند نہیں ملے گی اور میں بغیر سند لیے وطن چلا آیا۔ بعد میں جب استاذ مکرم چندہ کے سلسلے میں پنجاب آئے تو لوہے کی ایک مضبوط نالی بنوا کر اس میں سند محفوظ کرکے لائے او رمجھے سند عطا فرمائی۔‘‘

ایک بار آپ اپنے استاذ محترم سےملاقات کے لیے دہلی گئی اور چند روز قیام کے بعد جب واپسی کا ارادہ ہوا تو استاذ محترم نے فرمایا، میاں ٹھہرو۔پھر کتب خانہ میں جاکر چاقو سے ایک کتاب کی جلد توڑ کر کتاب ’’حصن حصین‘‘ اپنے شاگردوں کو ہدیہ دیا۔ یہ کتاب آج بھی ہماری لائبریری میں موجود ہے۔

اسی طرح جب 1948ء میں حضرت دہلوی ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے، 4 فروری کو اپنے عزیز شاگرد کے غریب خانہ پر چک 55 نزد رحیم یار خان آئے اور چھ ماہ تک وہیں رونق افروز رہے۔

مولانا لکھتے ہیں کہ یہ زمانہ میرا انتہائی تنگدستی اور فقر کا زمانہ تھا۔لیکن حضرت شیخ الحدیث کی تشریف آوری کے بعد فقر و فاقہ دور ہوگیا او رچھ ماہ بعد حضرت شیخ الحدیث، سندھ میں گوٹھ پیر آف جھنڈا تشریف  لے گئے۔ وہاں سےمنڈی تاندلیانوالہ، پھر کراچی، پھر تقویۃ الاسلام غزنویہ لاہور میں قیام فرمایا۔ تاآنکہ 1961ء میں راہگرائے عالم بقا ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اللھم اغفرلہ وادخلہ فی عبادک الصالحین۔

علمی و تحقیقی ذوق :

مرحوم کا علمی ذوق بلند اور اسلامی اور دینی موضوعات پر مطالعہ بہت وسیع تھا۔ جو کتاب بھی ہوتی ، اسے اوّل تا آخر پڑھتے۔ دوران مطالعہ چیدہ چیدہ مقامات پر نوٹ لکھتے جاتے۔اسی علمی ذوق کی بناء پر علماء اہلحدیث میں نیک شہرت کے حامل تھے۔ اللہ کریم نے آپ کوقرآن کریم اور حدیث نبوی کے علوم کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ آپ کو کتب حدیث کے مطالعہ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ تقریراً و تحریراً جو کچھ فرماتے، اس میں تحقیق و تنقید کا عنصر نمایاں ہوتا۔ آپ کی زیر مطالعہ ایک کتاب کو دیکھ کر مولانا محمد صادق صاحب خلیل نےفرمایا کہ ہمیں آپ کی لائبریری میں موجود کتابوں کے بالاستیعاب مطالعہ کی بجائے آپ کے لگائے ہوئے نوٹس دیکھ لینا کافی ہے۔

مکتبہ سعیدیہ:

اسی علمی ذوق کی بناء پر آپ نےورثہ میں ہزاروں کتابوں پر مشتمل ایک عظیم لائبریری چھوڑی ہے ، جو ’’مکتبہ سعیدیہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس مکتبہ میں قرآن کریم کےمختلف نسخے، مختلف عربی اُردو تفاسیر، انگریزی، فارسی، اُردو تراجم، کتب حدیث کا وسیع ذخیرہ او ران کی عربی شروح، حواشی اور اُردو تراجم ، اصول تفسیر و حدیث، فقہ و اصول فقہ، عربی اور فارسی ادب، منطق، فلسفہ، معانی، بیان، تاریخ ، علم رجال و اسناد، فتاویٰ اور عربی، اردو، فارسی اورانگریزی لغات کے علاوہ تحقیقی رسائل وغیرہ ہزاروں کی تعداد میں کتابیں ہیں۔ آپ کو سیرت النبیؐ سے خاصا لگاؤ تھا۔ اکثر و بیشتر سیرت کی کتابوں کا مطالعہ فرماتے اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے۔ اُردو اور عربی میں سیرت کی کتابون کا ایک وسیع ذخیرہ لائبریری میں موجود ہے۔ اتنی بڑی ذاتی لائبریری بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے او ربلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ کم از کم پورے ضلع بھکر و میانوالی میں کسی کی ذاتی لائبریری تو درکنار، کسی قومی ادارہ کی بھی اتنی بڑی لائبریری نہیں ہے۔

مسلک اہلحدیث سے شیفتگی او رجماعت اسلامی سے اخراج:

آپ چونکہ مسلکاً اہلحدیث تھے اور اعتقاد رکھتے تھے کہ اس مسلک کے حامل افراد ہی درحقیقت صحیح اسلام پر عمل پیرا ہیں، لہٰذا آپ مسلک کی اشاعت فرماتے رہتے۔مسلک سے آپ کی محبت قابل قدر اور قابل رشک تھی۔ آپ کا علاقہ اگرچہ جہالت و بدعت و شرک کا مرکز ہے، لیکن اکیلے ہونے کے باوجود یہاں بھی توحید و اتباع سنت کی شمع روشن کئے رہے۔ ہمیشہ کتاب و سنت کی عام اشاعت او رملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے او ریہی جذبہ کھینچ کر آپ کو جماعت اسلامی میں لے آیا۔ آپ نے دن رات ایک کرکے نفاذ اسلام کے لیے کام کیا لیکن بعض دوسرے احباب جماعت کی طرح  جماعت اسلامی کی رکنیت آپ کے مذہبی و مسلکی جذبہ کو متاثر نہ کرسکی او رمسلک اہل حدیث سے محبت کے جرم میں آپ کو جماعت اسلامی سے نکال دیا گیا ، کہ آپ نے جماعت اہلحدیث کے ایک اجتماع کو جماعت اسلامی کے اجتماع پرکیوں ترجیح دی؟ اس وقت کے کوثر اور تسنیم وغیرہ اخبارات اس واقعہ کے گواہ ہیں۔

ذریعہ معاش :

آپ ایک قابل و حاذق تجربہ کار طبیب تھے۔ عام طور پر یونانی طریق سے علاج فرماتے۔ سعیدی دواخانہ کےنام سےمنکیرہ میں ایک مطب تھا۔علم و ادب کے علاوہ حکمت میں بھی آپ کو کافی شہرت اورکمال حاصل تھا اور لوگ دور دراز سے علاج معالجہ کے لیے حاضر خدمت ہوکر باذن اللہ شفایاب ہوتے۔

سفر حج پرروانگی :

1944ء سے 1954 تک چک نمبر 55 رحیم یار خاں میں رہائش پذیر رہے، اپنے  حصہ کی زمین فروخت کرکے حج بیت اللہ کی درخواست مع اہلیہ اور دونوں بیٹوں کے لیے دی، جو منظور ہوگئی۔ اس سفر میں آپ  کے ہمراہ مزید پندرہ افراد تھے۔

عالی سند کا حصول:

اس سفر میں آپ کو مدینہ منورہ میں اکیس روز قیام کاموقعہ مل گیا۔ان دنوں وہاں شیخ الحدیث مولانا محمد علی لکھوی بن مولانا محی الدین لکھوی بن حافظ محمد لکھوی رحمہم اللہ (صاحب احوال الآخرت و تفسیر محمدی پنجابی منظوم) تشریف رکھتے تھے۔محدثین کے نزدیک حدیث کی سند کا حاصل کرنا متوارث چلا آرہا ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ آنحضرتﷺ تک حتی الامکان کم از کم واسطے ہوں، اسے عالی سند کہا جاتا ہے ۔ آپ نے مولانا محمد علی مرحوم سے سند حدیث حاصل کی۔ یہ سند امام شوکانی صاحب نیل الاوطار کے واسطے سے ہے۔                                                            (جاری ہے)