فریضہ تبلیغ
معنیٰ و مفہوم :
تبلیغ کے لغوی معنیٰ ہیں پہنچانا۔اصطلاح میں اس سے مراد بھلائی او رنیکی کی باتیں نیز دین کے احکام لوگوں تک پہنچانا ہے۔
سید سلیمان ندوی تبلیغ کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تبلیغ کے لفظی پیغام پہنچانے کے ہیں او راصطلاح میں اس کےمعنیٰ یہ ہیں کہ جس چیز کو ہم اچھا سمجھتے ہیں، اس کی اچھائی اور خوبی کو دوسرے لوگوں اور دوسری قوموں او رملکوں تک پہنچائیں او ران کو اس کے قبول کرنے کی دعوت دیں۔‘‘ (سیرت النبیؐ، جلد چہارم)
یہ تبلیغ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے ہوتی ہے۔
غیرمسلم کو تبلیغ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی اصول و احکام ، وضاحت سے پیش کرکے اسے غوروفکر کی دعوت دی جائے، تاکہ وہ اسلام کی حقانیت تسلیم کرنے حلقہ بگوش اسلام ہوجائے۔ مسلمانوں کو تبلیغ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں جو بدعملی اورفسق و فجور پیدا ہوچکا ہو، اسلام کے احکام کی یاددہانی کرا کر اسےترغیب و ترہیب سے ختم کیا جائے۔
قرآن پاک میں تبلیغ کے ہم معنی چند اور الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔مثلاً:
1۔ انذار: اس کے معنی ہوشیار کرنے، آگاہ کرنے او رہدایت کرنےکے ہیں۔
2۔ دعوت : اس کے معنی بلانے او رپکارنے کے ہیں۔
3۔ تذکیر : اس کے معنی یاد دلانے او رنصیحت کرنے کےہیں۔
اسلام میں دعوت و تبلیغ کی اہمیت :
دین اسلام نے دعوت و تبلیغ کو نہ صرف بہت زیادہ اہمیت دی اور اس کے لیے کھلے احکام دیئے ہیں، بلکہ داعئ اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی مبارک زندگی میں اس کی عملی مثالیں بھی پیش فرمائی ہیں۔ چنانچہ انجانوں کو ہوشیار اور بے خبروں کو آگاہ کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ کو ابتدائے وحی میں حکم ہوا:
’’یٰآیھا المدثرہ قم فانذرہ‘‘ (المدثر:1۔2) ’’اے کپڑا اوڑھنے والے، اُٹھئے اور (لوگوں کو)ہدایت کیجئے۔‘‘
پھر باربار حکم ہوتا رہا کہ:
’’یٰآیھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک‘‘ (المائدۃ:67)
’’اے رسولؐ، جو کچھ آپؐ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اسے (لوگوں تک)پہنچائیے‘‘
نیز فرمایا:
’’فلذٰلک فادع و استقم کما امرت‘‘ (الشوریٰ:15)
’’(اے نبیؐ) اسی (دین کی) طرف (لوگوں کو) بلاتے رہئیے او رجیسا آپؐ کو حکم ہوا ہے (اس پر ) قائم رہئیے۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوا:
’’تذکر ان نفعت الذکریٰ‘‘ (الاعلیٰ:9) ’’سو جہاں تک نصیحت (کے) نافع (ہونے کی امید) ہو نصیحت کرتے رہیے‘‘
سورہ ذاریات میں فرمایا:
’’وذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین‘‘ (الذاریات:55)
’’اور نصیحت کرتے رہیے کہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔‘‘
سورہ ق میں ارشاد ہوا :
’’فذکر بالقراٰن من یخاف و عید‘‘ (ق :45)
’’پس جو ہمارے (عذاب کی) وعید سے ڈرے، اسے قرآن مجید سے نصیحت کرتے رہیے‘‘
چونکہ آنحضرت ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے، اس لیے یہ فریضہ آپؐ کے بعد اُمت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کوسونپ دیا گیا۔
ارشاد خداوندی ہے:
’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر ۔الآیۃ‘‘ (آل عمران :110)
’’تم بہترین امت ہو، جسے لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کی اگیا ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو او ربُرائی سے روکتے ہو۔‘‘
اس آیت میں اُمت مسلمہ کو اس لیے بہترین قرار دیا گیا ہے کہ یہ امت لوگوں کو نیک کام کرنےکی تلقین کرتی، انہیں راہ راست پر لاتی اور انہیں برائی و بدکاری سے روکتی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
’’ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینطون عن المنکر واولئک ھم المفلحون‘‘ (آل عمران :104)
’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی دعوت دے، نیکی کا حکم کرے اور بُرائی سے روکے یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
سورۃ العصر میں اسی فریضہ تبلیغ کی ترغیب یوں دلائی گئی ہے:
’’والعصر۔ ان الانسان لفی خسر۔ الا الذین اٰمنوا وعملوالصٰلحٰت وتوا صوا بالحق ۔ وتوا صوابا الصبر‘‘
’’قسم ہے زمانے کی، یقیناً انسان گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق (بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
یہاں واضح طو رپر یہ بتا دیا گیا ہے کہ محض خود نیک بننے سے اسلام کاتقاضا پورا نہیں ہوتا، جب تک دوسروں کو بھی نیک بنانے کی کوشش نہ کی جائے او ربرائی کا خاتمہ نہ کیا جائے۔
احادیث رسول اللہ ﷺ میں بھی تبلیغ کی بہت زیادہ اہمیت بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت علی ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا:
’’فواللہ لان یھدی اللہ بک رجلا واحد اخیر من ان یکون لک حمر النعم‘‘ (صحیح مسلم مع نووی جز5 صفحہ 178)
’’بخدا، تمہاری وجہ سے کسی ایک آدمی کا بھی ہدایت پاجانا تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بڑھ کر ہے۔‘‘
’’من رایٰ منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذٰلک اضعف الایمان‘‘ (مشکوٰۃ ج2 ص436، بحوالہ مسلم۔ عن ابی سعید الخدریؓ)
’’تم میں سے جوکوئی برائی کو دیکھے، اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو کم از کم دل سے ہی اسے برا جانے (تاہم یہ آخری صورت)کمزور ترین ایمان کی نشانی ہے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:
’’بلغوا عنی ولواٰیۃ‘‘ (مشکوٰۃ ج1ص32 بحوالہ بخاری)
’’میری تعلیم کو آگے پہنچاؤ، چاہے وہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘
حجۃ الوداع کے مشہور خطبہ میں آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’فلیبلغ الشاھد الغائب‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج2 ص77)
’’جو شخص موجود ہے وہ اس تک پہنچا دے ، جو موجود نہیں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا:
’’واللہ لتامرون بالمعروف ولتنھون عن المنکر ولتاخذن علیٰ یدی الظالم ولتأطرنہ علی الحق أطرا ولتقصرنہ علی الحق قصرا اولیضر بن اللہ بقلوب بعضکم علیٰ بعض ثم لیلعننکم کما لعنھم‘‘ (مشکوٰۃ ج1 ص438 باب الامر بالمعروف بحوالہ ابوداؤد)
’’یعنی تم نیکی کے حکم اور بُرائی انسداد سے ہرگز نہ رکنا حتیٰ کہظالم کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے حق کی طرف جھکا دو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا اور ضرور تم پر لعنت کرے گا جس طرح اس نے ان بداعمال لوگوں پر لعنت کی ہے۔‘‘
تبلیغ کے ترک کرنے پر بہت سی احادیث میں وعید بھی آئی ہے۔ آپ ؐ کا ارشاد گرامی ہے:
’’عن جریر بن عبداللہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول:مامن رجل یکون فی قوم یعمل فیھم بالمعاصی یقدرون علیٰ ان یغیروا علیہ ولا یغیرون الا اصابھم اللہمنہ بعقاب قبل ان یموتوا‘‘ (مشکوٰۃ ج1 ص437 بحوالہ ابوداؤد)
’’کسی جماعت میں کوئی شخص گناہ کا ارتکاب کرتاہے اور وہ جماعت یاقوم باوجود طاقت اور اختیار کے اس شخص کو گناہ سے نہیں روکتی تو اس (جماعت یاقوم) پرمرنے سے پہلے دنیا میں ہی اللہ کا عذاب مسلط ہوجاتا ہے۔‘‘
حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ؐ نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تم ضرور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ قریب ہے کہ تم پر عذاب نازل ہو، پھر وہ وقت آئے کہ تم دعا کرو تو وہ قبول نہ ہو او رتم سوال کرو تو سوال پورا نہ کیا جائے۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’عن حذیفۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال والذی نفسی بیدہ لتامرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر اولیوشکن اللہ ان یبعث علیکم عذابا بامن عندہ ثم لتد عنہ ولا یستجاب لکم‘‘ (مشکوٰۃ ج1 ص436 بحوالہ ترمذی)
ان احادیث سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تبلیغ کی کتنی زیادہ اہمیت ہے اور مسلمانوں کو کس قدر اس کی تاکید کی گئی ہے ؟ پس مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دین کی سربلندی، عوام کی بھلائی، نیکی کی اشاعت، برائیوں کے خاتمے اور معاشرے کی اصلاح کے لیےتبلیغ کافریضہ انجام دیں۔معاشرے کو بدکاریوں اور فحاشیوں سے پاک کرنے کے لیے تبلیغ از بس ضروری ہے۔ان احادیث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ فریضہ تبلیغ سے غفلت ، پستی و ذلت کا پیش خیمہ ہے۔
تبلیغ کے اصول:
یہ نکتہ کہ کس طرح لوگوں کو سچائی کے قبول کرنے کی دعوت دینی چاہیے، قرآن مجید نے انتہائی مختصر الفاظ میں لیکن بڑی جامعیت سےبیان فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ و جادلھم بالتی ھی احسن۔الآیۃ‘‘ (النحل:125)
’’(اے پیغمبرؐ) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجئے حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سےبہت ہی اچھے طریقہ سے مناظرہ کیجئے۔‘‘
اس آیت میں مسلمانوں کو تبلیغ و دعوت کے تین اصول سکھائے گئے ہیں:
- دانش و حکمت (2) عمدہ نصیحت (3) مناظرہ بطریق احسن
1۔ دانش و حکمت :
مبلغ کا کام صرف ایک پیغام او رکلام کو لوگوں کے کانوں میں ڈال دینا نہیں، بلکہ حکمت و تدبر سے مناسب ماحول دیکھ کر اسے ایسے انداز میں لوگوں تک پہنچانا ہے کہ مخاطب کے لیے اسے قبول کرنا آسان ہوجائے۔ مطلب یہ کہ وہ ہدایت کا پیغام دلائل و براہین کی روشنی میں ایسے حکیمانہ انداز سے پیش کرےکہ سننے والاگردن جھکا دے۔
مولانا مودودی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’حکمت کامطلب یہ ہے کہ بےوقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کےساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے، جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سےاس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔‘‘ (تفہیم القرآن ، جلد دوم)
2۔عمدہ نصیحت:
موعظت کے معنیٰ نصیحت کےہوتے ہیں۔اصطلاح میں ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ کسی کو نیک کام کی طرف بلاناموعظت کہا جاتاہے۔ ’’موعظت‘‘ کے ساتھ ’’حسنہ‘‘ کی قید بھی لگا دی گئی تو اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ نصیحت نرم اور دلنشین انداز میں ہو۔بعض اوقات خاص ہمدردی اور خیرخواہی سے کسی کو بھلائی کی طرف بلایا جاتا ہے مگر لب و لہجہ دلخراش ہوتاہے، تو دعوت مؤثر نہیں ہوتی۔ ’’موعظت‘‘ کےساتھ ’’حسنہ‘‘ کی قید، تبلیغ کا دوسرا اہم اصول ہے۔
مولانامودودی مرحوم وضاحت فرماتے ہیں:
’’عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں۔ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کوبھی اپیل کیاجائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کامحض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے، بلکہ انسان کی فطرت میں ان کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہیں، اسےبھی ابھارا جائے او ران کے برے نتائج کاخوف دلایا جائے۔ہدایت او رعمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسےطریقہ سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیرسمجھ رہا ہے او راپنی بلندی کے احساس سے لذّت لےرہا ہے بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیےایک تڑپ موجود ہے، اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلد دوم)
3۔ مناظرہ بطریق احسن :
اگر پہلے دو اصول کارگر نہ ہوں اور نوبت مناظرہ او رمجادلہ تک پہنچ جائے تو مناظرہ اچھے طریقہ پر ہونا چاہیے۔ اس مناظرہ میں بھی نرمی ، خیر خواہی او رحسن خطاب کو نظر انداز نہ کیاجائے۔ اس میں غصہ (اتارنا پیش نظر نہ ہو، بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے لیےکلمہ حق بلند کرنا مقصود ہو۔ اس مباحثے کی اوّلین شرط یہ ہے کہ اچھے او رسلجھے ہوئے طریقے پر ہو اور مخاطب کے دلائل کی تردید بڑے منطقی انداز میں ہو تاکہ اس سے ضرر اور ہٹ دھرمی پیدانہ ہو۔
مولاناموصوف مناظرہ بطریق احسن کی وضاحت کرتے ہوئے یوں اظہار خیال فرماتے ہیں:
’’مبلّغ کی نوعیت محض مناظرہ بازی او رعقلی کشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو، اس میں کج بحثیاں، الزام تراشیاں او رچوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریف مقابل کو چپ کرا دینا او راپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو، بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو، اعلیٰ درجہ کا شریفانہ اخلاق ہو، معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔مخاطب کے اندر ضد او ربات کی پچ او رہٹ دھرمی پیدانہ ہونے دی جائے، سیدھے سیدھے طریقےسے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پراتر آیا ہے تواسے اس کے حال پرچھوڑ دیا جائے ، تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دور نہ نکل جائے۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلد دوم)
تبلیغ کے طریقے:
تبلیغ درج ذیل تین طریقوں سے کی جاسکتی ہے:
1۔ قولی تبلیغ:
قولی تبلیغ سےمراد یہ ہے کہ لوگون کو زبان سےدین کی سربلندی کے لیے بھلائی کی دعوت دی جائے، نیکی کا حکم کیا جائے او ربرائی سے روکاجائے۔
2۔ قلمی تبلیغ:
اس سے مراد یہ ہے کہ دینی لٹریچر عام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے پمفلٹ او رکتابیں شائع کی جائیں اور دینی رسائل و جرائد کا اجراء کیا جائے، جن کے ذریعے دین کی صحیح باتیں عوام الناس تک پہنچ جائیں۔
3۔ عملی تبلیغ:
عملی تبلیغ سے مراد یہ ہے کہ دین اسلام کے احکام پر عمل پیرا ہوکر اپنے کردار کو ایسا بنا کر پیش کیا جائے کہ دوسرے لوگ بھی دیکھ کر اسی کی طرح کےنیک اعمال کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔اس کے ساتھ ساتھ مبلّغ، لوگوں کو جس بات کی دعوت دیتا ہو، خود بھی اس پر عمل پیرا ہو۔ (جاری ہے)