نومبر 1986ء

شریعت ..................محمّدیؐ یا سرکاری؟

یوں تو حکومت اور ایم ۔ آر۔ڈی باہم دست و گریباں ہیں، لیکن شریعت بل کی مخالفت میں یہ دونوں ٹولے، حزب اقتدار اور حریصان اقتدار، ایک ہی صف میں کھڑے ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں۔صاف  ظاہر ہےکہ سوشلزم اور سیکولر ازم ایک دوسرے سے گلے مل کر شریعت کے خلاف اپنے دیرینہ اتحاد کی خبر دے رہے ہیں تاکہ نفاذ شریعت سے بہرحال جان چھڑائی جاسکے۔

دینی حلقوں پر یہ الزام ہمیشہ لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ شریعت پر متفق نہیں ہوسکتے، او راسی بناء پر یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ شریعت بل فرقہ واراینہ انتشار کا باعث ہوگا۔ چنانچہ لادین دانشوروں اور سرکاری اجارہ دار طبقوں کا یہ حربہ بڑاپرانا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف براہ راست آواز اٹھانی چونکہ مشکل ہے، اس لیے شریعت کی عملداری کے خلاف جب بھی کوئی سازش ہوئی، اسی مذکورہ بہانے سے ہوئی۔ عباسی دور خلافت میں عجمی فلسفہ اور قانون کو عربی میں منتقل کرنے کا کام مشہور زندیق ابن المقفع کے ہاتھوں ہوا، جس نے علماء او رقضاۃ کے فتوؤں اور فیصلوں کے اختلاف سے جنم لینے والے موہوم بحران کی آڑ میں عباسی خلفاء کو سرکاری شریعت مدوّن کرنےکی تجویز پیش کی تھی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اس کا ایک رسالہ ’’جمھرۃ رسائل العرب‘‘ میں موجود ہے۔ اس کے حامی اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف تدبیروں سےمنصور، مہدی او رہارون رشید کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن امام مالک کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔ جدید دور میں یہی نظریہ قانون، مستشرقین یورپ کے خوشہ چین آنجہانی غلام احمد پرویز نے ، برسر اقتدار طبقہ کی کاسہ لیسی کے لیے متعارف کرایا ہے۔ جس میں اس نے حکومت کی مرکزی اتھارٹی کو ’’مرکز ملت‘‘ کا نام دے کر خدا اور رسول ؐکے قائم مقام ٹھہرایا ہے، جو ’’ختم نبوت‘‘ کے عقیدہ کے خلاف ’’نبوت کے تسلسل‘‘ کا ہی ایک نظریہ ہے۔

بالفاظ دیگر،  انگریز کے خود کاشتہ پودا ’’قادیانیت‘‘ کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی نے سیاسی سطح پر مسلمانوں کے زوال کے لیے ’’جہاد‘‘ کی مخالفت کرتے ہوئے جو سازش تیار کی تھی، وہی سازش غلام احمد پرویز نے اہل علم کے ’’اجتہاد‘‘ کی بجائے، سامراج اور سرکار کی ذہنی غلامی پیدا کرنے کے لیے’’مرکز ملت‘‘ کا تصور پیش کرکے کی ہے، تاکہ شریعت الٰہی پر انسانی قانون کوبالادستی دی جاسکے۔ واضح رہے کہ مروجہ قوانین کی اصل،’’حمیری تختیوں‘‘ کو قرار دیا جاتا ہے، جس کی بنیاد نمرود کے ہاتھوں رکھی گئی، لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ غلام احمد پرویز کے اس نظریہ قانون کے تحت سیاسی اقتدار کے ساتھ ساتھ اگر فکری بالادستی بھی سرکار کو حاصل ہوگئی تو یہ ملت ابراہیمی کے خلاف نمرودی ذہن کی بازگشت ہوگی۔

ابن المقفع وغیرہ نے عجمی فلسفہ قانون کی چربہ سازی کرتے ہوئےعباسی خلفاء، منصور اور پھر مہدی کو جب سرکاری شریعت کی تدوین کا مشورہ دیا، او رانہوں نے یہ تجویز امام مالک کے سامنے پیش کی تو امام صاحب نے اس کی شدید مخالفت کی۔اسی تجویز کے ردّ میں امام مالک کا یہ مقولہ معروف ہے کہ:

’’مامن احد الاوقولہ مقبول اومردود علیہ الاصاحب ھٰذا القبر‘‘

یعنی ’’ہر کسی کی بات قبول بھی  کی جاسکتی ہے اور ردّ بھی کی جاسکتی ہے ، ہاں مگر یہ صاحب روضہ (رسول اللہ ﷺ، کہ آپؐ کی بات صرف قبول ہی کی جائے گی، ردّ ہرگز نہیں کی جاسکتی)‘‘

آخر ی مرتبہ ہارون رشید نے جب اسی تجویز کو ایک دوسری صورت میں پیش کیا کہ امام مالک کی مؤطا کوکعبہ میں لٹکا کر جملہ دیار و امصار کے مجتہدین کو اس کا پابند بنایا جائے تو آپ نے اس صورت کو بھی تسلیم کرنےسے یہ کہتے ہوئے انکار فرما دیا کہ مؤطا  ساری شریعت کا مجموعہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں صحابہؓ و تابعین کے دیگر علاقوں میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ کافی احادیث او رروایات بھی ان علاقوں میں پہنچ چکی ہیں، جب کہ ہر ایک کو صرف وحی کی اتباع کا حکم ہے، لہٰذا وہ اپنے پاس محفوظ سنت پر عمل پیرا ہونے میں آزاد ہیں۔ یوں سرکاری شریعت مدوّن کرنے کی یہ سازش دب گئی۔

اس ’’تدوین شریعت‘‘ کے ساتھ ساتھ امام ابوحنیفہ کو ’’تعبیر شریعت‘‘ کا مسئلہ درپیش ہوا، کہ اس دور میں یہ اہم منصب شعبہ قضاء کے پاس تھا اور  اس سلسلے میں قاضی القضاۃ کی حیثیت کلیدی ہوتی تھی۔ امام ابوحنیفہ کی طرف سے اس عہدہ کوقبول کرنے کی صورت میں چونکہ یہ خطرہ تھا کہ آپ تعبیرشریعت کے سلسلہ میں سرکاری ذہن کی بالادستی کے فتنہ سے دوچار ہوسکتے تھے۔ اس لیے اپ نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ حتیٰ کہ سنت یوسفی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آپ کو اس انکار کی پاداش میں قید و زندان بھی قبول کرنا پڑا۔

آج اگرچہ بہت کم مسلمان اپنے اسلاف کے اس ایمانی جذبہ، او رکسی مسئلہ کو قبول کرنے  اس احتیاط سے متصف ہیں، لیکن  ہماری روایات بڑی تابندہ ہیں۔ اپنے اسلاف کی امانت کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، او راس مبارک ورثے کے خلاف ہم ان شاء اللہ کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ سرکاری فکر کے اجارہ  دار اور لا دین دانشور ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ شریعت محمدیؐ کا نفاذ اس لیے ممکن نہیں کہ علماء شریعت پر متفق نہیں ہوسکتے، حالانکہ علماء نے یہ چیلنج آج بھی قبول کیا ہے اور اس سے قبل بھی انہوں نے اسلامی دستور کے لیے بائیس بنیادی نکات متفقہ طور پرپیش کرکے قبول کیا تھا۔ لیکن  افسوس کہ جس طرح سرکار نے ان بائیس نکات کی پذیرائی نہ کی  اور انہیں سردخانہ میں ڈال دیا، بالکل اسی طرح آج بھی کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے اس خطہ ارضی میں شریعت کے نفاذ کے راستے میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں او رعلماء کو اس کے لیے تحریک چلانی پڑ رہی ہے۔

یہی سلوک سرکار نے ’’قرار داد مقاصد‘‘ کے ساتھ کیا۔ کہنے کو تو یہ مارچ 1949ء میں پاس کردی گئی، لیکن اسے قانونی حیثیت دینے سے پہلو تہی کی جاتی رہی۔ اب قرارداد مقاصد کو اگرچہ دستور کا حصہ بنا دیاگیا ہے، لیکن جب اسے عملی حیثیت دینے کے لیے شریعت بل پیش کیا گیا تو اب نعرہ یہ لگایا جارہا ہے کہ شریعت بل دستور کے منافی ہے۔ اس پر مستزاد یہ پروپیگنڈہ کہ شریعت بل سے فرقہ واریت کو فروغ حاصل ہوگا، جو وہی پرویزی ہتھکنڈہ اور نفاذ شریعت سے بچنے کے لیے پرانی حیلہ سازی ہے۔ حالانکہ جملہ دینی مکاتب فکر ’’قرار داد مقاصد‘‘ اور ’’متفقہ بائیس نکات‘‘ کے مرحلہ سے کامیاب گزرنے کے بعد ایک دفعہ پھر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف لادین طبقہ کے اس ’’فقہی اختلافات‘‘ کے پروپیگنڈہ کو توڑنے کےلیے کتاب و سنت پر اتحاد کرکے مثبت  جواب دیا ہے ، بلکہ فقہی اختلافات سے پاک ایک ’’متفقہ شریعت بل‘‘ پیش کرکے، شریعت پر حکومت کی فکری اجارہ داری قائم ہونے کی بھی نفی کردی ہے۔

ہمارے اکابرین ائمہ اربعہ (رحمہم اللہ تعالیٰ) نے یہ روایت قائم کی تھی کہ سیاسی قوت کے ساتھ علمی اور فکری بالادستی کا توازن قائم رہے، تاکہ سیاسی آمریتوں کے ساتھ علمی آمریت جمع نہ ہوسکے۔ بالکل اسی انداز سے دینی مکاتب فکر نے جہاں شریعت بل کی دفعہ2 میں اختلافی شقوں ، ب، ج، د، کو متفقہ بنا لیا ہے، وہاں ’’اجتہاد‘‘ کے نام پر ’’الحاد‘‘ کے دفاع کے لیے دفعہ 12 کو باقی رکھنے پر زور دیا ہے، تاکہ محمدیؐ شریعت کی جگہ بناوٹی شریعت نہ لے سکے۔

قرارداد مقاصد کو مؤثر حیثیت دینے کی غرض سے پیش کیے جانے والے شریعت بل کو حکومت نے ٹالنے کی خاطر ’’نویں آئینی ترمیم‘‘ پر اکتفاء کرنے کی کوشش کی اور اسی کو شریعت بل کا نام دیا۔ حالانکہ خود نویں آئینی ترمیم کو بھی سینیٹ میں جس شکل میں پاس  کرایا گیا، وہ اس قرار داد سے قطعی مختلف ہے جو 16۔ اکتوبر 1985ء کو قومی اسمبلی نے اسی نویں آئینی ترمیم کی خاطر متفقہ طور پر منظور کی تھی، کیونکہ اس قرار داد میں قرآن و سنت کی بالادستی تسلیم کی گئی تھی۔ جبکہ نویں آئینی ترمیم میں اسے بدل کر اسلام کے ان احکام کی بالادستی منظور کروائی گئی، جنہیں حکومت قانون سازی کے ذریعے متعین کرے۔ او ریوں محمدیؐ شریعت پر سرکاری شریعت کی بالادستی، یا بالفاظ دیگر، شریعت پر حکومتی اجارہ داری قائم کرنے کی سازش کی گئی۔ اسی طرح اب چونکہ  دینی حلقے نویں آئینی ترمیم کو قابل اصلاح او رناکافی سمجھتے ہیں، لہٰذا ’’پرائیویٹ شریعت بل‘‘ کے بالمقابل ’’سرکاری شریعت بل‘‘ لانے کی باتیں ہورہی ہیں او رطرفہ یہ کہ اس سلسلے میں علماء کا بورڈ بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل سے بڑھ کر وہ کون سا علماء بورڈ ہوگا جو آئینی حیثیت بھی رکھتا ہو؟ پھر  اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اس ’’متفقہ ترمیمی شریعت بل‘‘ کے مطابق بھی ہیں جو جملہ مکاتب فکر کے نمائندوں نے تیار کیا ہے۔ یہ ساری مساعی دراصل نفاذشریعت کی راہ میں بند باندھنے کے مترادف ہیں، اور اسی بناء پر انتہائی مذموم بھی۔

رہا شریعت بل کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کہ یہ آئین سے متصادم ہے تویہ  بھی محض اس وجہ سے ہے کہ سرکاری شریعت بل لاکر قرار داد مقاصد کے تقاضوں کو پامال کیا جاسکے۔ ورنہ سوچا جائے کہ اگر قرار داد مقاصد کی تکمیل کے لیے شریعت بل کو منظور کرنےسے آئین میں کچھ ترامیم کی ضرورت پڑتی ہے، تو یہ ترامیم اس لیے بھی ضروری ہیں کہ خود قرارداد مقاصد بھی تو آئین کا حصہ ہے، او راس بناء پر آئین کا باہمی تضاد ختم ہونا چاہیے۔ یوں اس غلط پروپیگنڈہ کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ چنانچہ آئین کا یہ تضاد ختم کرنےکے لیے ایسی ترامیم کو نویں آئینی ترمیم میں شامل کیا جاسکتا ہے، جودینی حلقوں کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے۔ یوں حکومتی پارٹی کی انا بھی باقی  رہے گی اور شریعت بل کو مؤثر قانونی حیثیت بھی حاصل ہوجائے گی۔

یاد رہے کہ شریعت بل کامرکزی تصو رحکومت کے جملہ شعبوں مقننّہ، عدلیہ او رانتظامیہ پر شریعت کی بالا دستی ہے او ریہ کام جس طریقہ سے بھی پورا ہو، بہرحال ریفرنڈم میں نفاذ شریعت کی تکمیل کے وعدہ پر قائم ہونے والی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ اگر متفقہ شریعت بل کی منطوری سے پہلو تہی کی گئی، تو خود حکومت او راسمبلیوں کےجواز کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ فاعتبروا یاولی الابصار۔