نومبر 1986ء

اپنا مزاج عجز کے سانچے میں ڈھال دے

دل سے  نمود و فخر و رعونت نکال دے

اپنا مزاج عجز کے سانچے میں ڈھال دے

ایسا نہ ہو کہ تجھ پہ کبھی انگلیاں اٹھیں

موقع نہ دوسروں کو کبھی خوش خصال دے

یہ دور، دور فتنہ ہے لازم ہے احتیاط

ہیں جتنی لا ابالیاں دل سے نکال دے

کر اپنا راز دل نہ کسی پر بھی آشکار

باتیں ادھر ادھر کی بنا کر ہی ٹال دے

ہمدردیوں میں غیر کی آنا نہ زینہار

 ممکن ہے وہ تیری پگڑی اچھا ل دے

پروا نہ کر کبھی تو نشیب و فراز کی

دل کا غبار لوگوں سے کہہ کے نکال دے

دشمن کو مت سمجھ کبھی کمزور و ناتواں

محتاط رہ، مبادا مصیبت میں ڈال دے

البتہ پہل اپنی طرف سے کبھی نہ کر

ہوجائے گر مقابلہ کس بل نکال دے

فضل حزیں ہے کس لیے تو محو رنج و غم

یہ کائنات او رکسی کو سنبھال دے