اِسلام میں غُلامی کا تصّور ( قسط دوم)

قسط دوم

اسلام کی آمد:

 دُنیا میں غلاموں کی یہ دلخراش او راندوہناک صورت حال تھی ، جب آفتاب رسالت طلوع ہوا۔اس نے اپنی ضیاء پاشیوں سےجہاں انسانیت کے ہر گوشے اور ہر پہلو کو منور کیا، وہاں وہ انسانیت کی اس تذلیل کو بھی برداشت نہ کرسکا۔ اس نے دُکھی اور مختلف طبقات میں بٹی ہوئی انسانیت کو یہ درس دیا کہ تم سب لوگ آقا و غلام ، کالے اور گورے ، عربی او رعجمی ، ایک باپ او رایک ماں کی اولاد ہو۔ بحیثیت انسان تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں۔ہر شخص ، خواہ وہ کسی بھی طبقے سےمتعلق ہو، کسی بھی علاقے کا رہنے والا او رکسی بھی رنگ و نسل کا حامل ہو، اللہ کے ہاں صرف اپنی نیکی اور تقویٰ کی بنیاد پر برُا اور بھلا ہوسکتاہے۔

’’ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم‘‘ (الحجرات:13)

رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجۃ الوداع کےمشہور تاریخی خطبہ میں ارشاد فرمایا:

’’لا فضل لعربی علیٰ عجمی ولا لعجمی علیٰ عربی ولا لاحمر علی الاسود ولا لا سود علی الاحمر الا بالتقویٰ‘‘

کہ ’’کسی عربی کو عجمی پرفضیلت حاصل نہیں، نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر، نہ سفید فام کو سیاہ فام پر اورنہ ہی سیاہ فام کو سفید فام پر۔ ہاں اگر فضیلت ہے تو وہ  صرف تقویٰ کی بنیادپر ہے۔‘‘

اسلام نے تمام آقاؤں او رغلاموں کو یہ درس دیا کہ وہ سب ایک ہی جماعت کے  افراد ہیں اور اگر کوئی فضیلت  کسی کو کسی دوسرے پر حاصل ہے، تو اس کی بنیاد آقائی کا منصب نہیں بلکہ تقویٰ اور خشیت الٰہی ہے۔ چنانچہ قبائل ، آباء و اجداد اور خاندانوں کی بنیاد پر فخر و غرور جاہلیت کی علامت ہے، جسے ترک کردینا چاہیے۔ سبھی انسان ایک آدم کی اولاد ہیں او رآدم ؑ مٹی میں سے تھے۔

’’انتم بنو اٰدم و اٰدم من تراب‘‘ (ابوداؤد، باب التفاخر بالاحساب)

غلاموں پر رحمت و شفقت:

اسلام غلاموں پر ابر رحمت بن کر برسا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی حالت زار دیکھ کر آقاؤں کو ان کےمتعلق یہ نصیحت فرمائی کہ یہ تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے قبضے میں دے دیا ہے، ان سے بھائیوں جیسا ہی سلوک کرو۔ جو خود کھاؤ، ان کو بھی کھلاؤ او رجو خود پہنو، ان کو بھی پہناؤ۔علاوہ ازیں اگر انہیں کوئی سخت کام کرنا پڑے، تو خود بھی  ان کا ہاتھ بٹاؤ۔

دنیائے غلامی میں رحمۃ للعالمینؐ کی یہ پہلی آواز تھی، جسے دنیا نے سنا تو انگشت بدنداں رہ گئی۔ او رغلاموں نے سنا تو پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ ہم بھی انسان ہیں۔ پھر کیا تھا، وہ لوگ جو حیوانوں سےبھی بدتر سمجھے جاتے تھے او ران کے آقاؤں کے جانوروں کی خوراک بھی ان انسانوں سےبہتر ہوا کرتی تھی، یہی جانور نما انسان اپنے پورے حقوق کے ساتھ آقاؤں کے دستر خوان پران کے ساتھ بیٹھنا شرو ع ہوگئے۔

غلاموں کی عزّت نفس کا تحفّظ:

اسلام نے  صرف کھانے، پینے او رپہننے کی حد تک ہی غلاموں کی اصلاح پر اکتفاء نہیں کی، بلکہ انسان کی سب سے زیادہ قیمتی چیز ’‘’عزت نفس‘‘ کے سلسلہ میں بھی ان کو تحفظ بخشا۔ چنانچہ ان تمام الفاظ کےاستعمال سے یکسر منع فرما دیا کہ جن سے فخر و غرور کی بُو آتی تھی۔ اعلان کیاکہ دیکھو، آج کے بعد کوئی بھی مسلمان اپنے ان بھائیوں کو ’’عبدی‘‘ (میرا غلام) یا ’’امتی‘‘ (میری باندی) کہہ کرنہ پکارے۔ اسی طرح غلام اور باندی کو اپنے آقا کے لیے ’’سیدی‘‘ یا ’’سیدتی‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے چاہیئیں۔ کیونکہ رب تو اللہ ہے، جو سب کا مالک ہے۔

ان الفاظ کے بدل دینے سے ہی ہمارے سامنے اسلام کے تصور غلامی کا نقشہ کھچ جاتا ہے کہ اسلام کو ایسے متکبرانہ الفاظ سے ہی چڑ ہے۔ چنانچہ اسلام میں ایک آقا اپنے غلام کی ملکیت کا حقدار تو ہے، لیکن اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا اسے حق حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غلامی کے سلسلہ میں اسلام کی ان اصلاحات کی بدولت غلاموں کی ذلت او رمسکنت کا تصور ہی یکسر بدل کر رہ گیا اور دلوں میں ان کی عزت اور احترام کا جذبہ اجاگر ہوا۔ حصرت عمرؓ جیسے جلیل القدر خلیفہ بھی حضرت بلالؓ کو ’’سیدنا بلال‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے اور سلیمان فارسیؓ رسول اللہﷺ کے مشیر خاص تھے۔

حضرت عمرؓ غلاموں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاتے اور حاضرین سے فرماتے، ’’خدا ان لوگوں پر لعنت کرے، جن کو غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے میں عار ہے‘‘ غلاموں کےساتھ عمال کے برتاؤ کی تحقیق کرتے رہتے۔ آپؓ نے ایک عامل کو صرف اس بنیاد پر معزول کردیا تھا کہ اس نے غلام کی عیادت نہیں کی تھی [1]اور دوچار نہیں اس قسم کے سینکڑوں واقعات سےتاریخ اسلام مزین ہے۔حتیٰ کہ یورپ کے متعصب ترین مصنفین بھی غلامی کے سلسلہ میں اسلام کی ان اصلاح کوششوں کا انکار نہیں کرسکے۔

جان کا تحفظ:

جیسا کہ شروع میں ہم لکھ آئے ہیں، غلاموں کو اپنی زندگی پرکوئی حق نہیں تھا۔ مالک جب چاہے اسے کڑی سے کڑی سزا دے، حتیٰ کہ اسے جان سے بھی مار دے ، کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا کہ یہ حق اسے قانون نے دیا تھا۔لیکن اسلام میں غلام کی جان بھی اسی طرح محترم ہے، جس طرح کہ آزاد انسان کی۔ حضرت سمرہؓ سے روایت ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’من قتل عبدہ قتلناہ ومن جدع عبدہ جدعناہ‘‘ (ابوداؤد،کتاب الدیات باب من قتل عبدہ)

کہ ’’جس نے اپنے غلام کوقتل کیا، ہم اسے قتل کردیں گے او رجس نے اپنے غلام کے نا ک کان کاٹے ہم اس کے ناک کان کاٹ دیں گے۔‘‘

ابوداؤد ہی کی ایک دوسری روایت یوں ہے کہ:

’’من خصیٰ عبدہ خصیناہ‘‘ (ایضاً)

’’جس نے اپنے غلام کو خصی کیا، ہم اسے خصی کردیں گے۔‘‘

کیونکہ جاہلیت میں ایسے واقعات اکثر پیش آتے تھے۔ قدیم قوموں میں اس کا رواج تھا۔ ’’الرّق فی الاسلام‘‘ میں ہے کہ غلاموں کو خصّی کرنے کی رسم بد بہت پرانی تھی۔ اشوری، بابلی اور قدیم مصری قوموں میں اس کا رواج عام تھا۔ انہی لوگوں سے یونانیوں نے اس رسم کو اختیار کیا۔ (صفحہ 180)

اس کا مقصد یہ تھا کہ غلام زنانخانوں میں بےدھڑک آجاسکیں اور عورتوں کو ان سے اندیشہ نہ ہو۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس روتا چیختا ہوا آیا، آپؐ نے پوچھا، کیا بات ہے؟ تو اس نے جواب دیا ، اللہ کے رسولؐ ، میرے مالک کی ایک باندی ہے، میں نے اسے دیکھ لیا  تو مالک نےمیراذکر کٹوا دیا ہے۔ آپؐ نے یہ سن کر فرمایا: ’’جاتُو آزاد ہے‘‘ (ابوداؤد، باب من قتل عبدہ)

چہرے پر مارنے سے روک دیا:

غلام کی انسانیت اور شرافت بحیثیت انسان اپنی جگہ مسلّم او رقائم ہے۔غلامی کا یہ مطلب یہ نہیں کہ وہ درجہ انسانیت ہی سے گر گیا اور انسانی حقوق سےمحروم کردیا گیا ہے۔ ہاں حالات اور قسمت نےاسے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے جیسے انسان کی ملکیت میں ہے۔ تاہم اس کی انسانی شرافت کومدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے حکم دیا کہ کوئی مالک اپنے غلام کے منہ پر چانٹا نہ مارے۔ آپؐ نےفرمایا:

’’من لطم مملوکہ او ضربہ  فکفارتہ ان یعتقہ‘‘ (مسنداحمد)

کہ ’’جس نے اپنے غلام کے منہ پر چانٹا مارا یا اسے مارا پیٹا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کردے۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں، ایک شخص نے آنحضورﷺ سے پوچھا، اللہ کے رسولؐ، ہم غلام کے غلطی کرنے پر اس سے کتنی مرتبہ درگزر کریں؟ یہ سن کر آپؐ خاموش رہے، اس شخص نے دوبارہ پوچھا ، پھر بھی آپؐ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ اس نے یہی سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا:

’’اُعفوا عنہ فی کل یوم سبعین مرۃ‘‘ (ابوداؤد)

’’اس سے ہر روز ستر مرتبہ (بھی درگزر کرنی پڑے تو) درگزر کرو۔‘‘

ان باتوں کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ غلاموں کومار مار لہولہان کردیا جاتا۔ انہیں الٹا الٹا کر ساتھ وزن باندھ دیا جاتا۔ حتیٰ کہ بعض کا اسی حالت میں جسم و روح کا رشتہ ہی منقطع ہوجاتا۔

گواہی کا حق :

شہادت (گواہی) کا معاملہ اسلام میں بہت اہم اور نازک ہے۔ گواہی وہی لوگ دے سکتے ہیں، جو معاشرے او ردین دونوں کی نظر میں اپنے اخلاق،صفات اور دینداری کی وجہ سے قابل اعتبار ہوں۔کسی کی شہادت کا قبول کیا جانا اس شخص کی معاشرتی حیثیت کومتعین کرتا ہے۔ اسلام سے پہلے چونکہ  غلام ایک حقیر مخلوق تصور کی جاتی تھی، لہٰذا کسی قوم نے ان کو گواہی کا حق نہیں دیا تھا۔ اسلام میں بھی اگرچہ اصول شہادت بہت سخت ہیں، لیکن اس کے باوجود غلام کی گواہی قابل قبول ہے، جبکہ وہ اسلامی شرائط پرپورا اترتا ہو۔

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ مجھے تاریخ اسلامی میں کوئی ایسا آدمی نہیں ملا جس نے غلام کی گواہی کو رد کردیا ہو: ’’ما علمت احدا ردّ شھادۃ العبد‘‘ [2]

امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں ، شارع علیہ السلام کی طرف سے ایک حرف بھی ایسا نہیں آیا، جس میں فرمایا گیا ہو کہ غلاموں کی گواہی قابل قبول نہیں۔ اس کے برعکس کتاب اور سنت رسول اللہ ﷺ او راجماع صحابہؓ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ غلام کی شہادت ان تمام امور میں قابل قبول ہے، جن میں ایک آزاد آدمی شہادت دےسکتا ہے۔[3]

غلاموں کو شادی کا حق دیا:

غلاموں کے بارے میں اسلام کا اس سے بڑا احسان اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں نکاح کرنے کی صرف اجازت ہی نہیں دی بلکہ قرآن مجید نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کریں، ا و راس نکاح میں آزاد اور غلام کا کوئی فرق روا نہیں رکھا۔اگر آزاد عورت غلام سے، یا لونڈی آزاد مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو اسے مکمل آزادی ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

’’وانکحوا الا یامیٰ منکم والصالحین من عبادکم و امآئکم‘‘ (النور :32)

’’مسلمانو، تم اپنے نیک غلاموں او رباندیوں کانکاح کرو۔‘‘

جبکہ سابقہ قومیں خصوصاً رومن اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتے تھے۔[4]

خود آنحضرتﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحشؓ سے کردیا۔ لیکن بعض نفسیاتی اور خاندانی برتری کے احساسات کے باعث نباہ نہ ہوسکا اور دو سال کے بعد طلاق ہوگئی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ سے خود نکاح کرلیا۔ اسلام میں تو یہاں تک اجازت ہے کہ آزاد کی طرح غلام بھی چار عورتوں سےنکاح کرسکتا ہے۔ امام مالک اس کا استدلال ’’فانکحوا ما طاب لکم من النسآء‘‘ سے کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک یہ اچھا عمل ہے۔‘‘ [5]

غلاموں  سے حسنِ معاشرت :

اسلام میں غلام، احساس کمتری سے نکل کر ایک آزاد شہری کی طرح سوچتے، بولتے یہاں تک کہ اپنے آقاؤں کو مشورے بھی دیتے تھے اور اسلام نے فکری اور قولی آزادی کی جس نعمت سے دنیا کو نوازا ہے، غلام بھی اس نعمت سے بہرہ یاب ہوئے۔نتیجتاً وہ اپنے آقاؤں کی بعض بری عادات پر نکتہ چینی کرتے اور انہیں نصیحتیں بھی کرتے تھے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

’’ان العبد اذا نصح لسیدہ واحسن عبادۃ اللہ فلہ اجرہ مرتین‘‘[6]

’’جو غلام اپنے آقا کو نصیحت کرتا اور خود بھی اللہ کی عبادت اچھے طریقے سے کرتا ہے، اسے دوہرا اجر ملے گا۔‘‘

اس حدیث سے آپ غلاموں کی ذہنی آزادی اور مسلمانوں کی غلاموں کے ساتھ حسن معاشرت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا حسن سلوک ایسا تھا کہ لوگوں نے حضرت زید ؓ کو زید بن محمدؐ کہہ کر پکارنا شروع کردیا۔ حضرت زیدؓ کے گھر کے لوگ ان کو لینے کے لیے مدینہ منورہ آئے تو آپؐ نے فرمایا، برے شوق سے اسے لے جائیے، میں کوئی فدیہ لینے کے لیے بھی تیار نہیں، لیکن حضرت زیدؓ نے جانے سے انکار کردیا۔ آخر کس چیز نے انہیں اپنے والدین، بہن بھائیوں او رقبیلہ سے علیحدہ رہنے پر مجبور کیا؟ کیا وہ حضور علیہ السلام کا آپؓ کے ساتھ بیٹوں جیسا پیار نہ تھا؟

اسلام نے غلاموں او رباندیوں کی تعلیم و تربیت پر بھی بہت زور دیا۔ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ:

’’تین ایسے شخص ہیں جن کو دو بڑے اجر ملیں گے۔ ایک وہ شخص جو اپنی باندی کواچھی تعلیم دے او ربہترین ادب سکھانے کے بعد آزاد کرکے نکاح میں لے آئے ۔ دوسرا وہ شخص جو اہل کتاب تھا اور ایمان لے آئے۔ تیسرا وہ شخص جو اللہ کا حق ادا کرتا ہے او راپنے سیّد کی خیرخواہی بھی کرتا ہے۔‘‘[7]

انہی تعلیمات کا اثر تھا کہ ابتدائے اسلام میں بڑی بڑی برگزیدہ ہستیوں نے آزاد کردہ باندیوں سے شادیاں کیں او ران کے بطن سے ان مقدس ہستیوں نے جنم لیا جن کی خدمات اسلامی تاریخ میں سنہری حروف سےلکھے جانے کے قابل ہیں اور وہ لوگ مسلمانون کے امام، راہنما، اور بڑی بڑی سلطنتوں کے حاکم اور لشکروں کے سپہ سالار تک مقرر کئے گئے۔

غلام اور غلام زادے، اُمت کے سرخیل:

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ابوحذیفہؓ کے غلام سالم ؓ، نماز کی امامت کرواتے تھے، اور آپؓ کی اقتداء میں اکابر مہاجرین ، جن میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، ابوسلمہؓ اور عامر بن ربیعہؓ جیسی ہستیاں شامل ہیں، نماز ادا کیا کرتی تھیں۔[8]

یہ وہی سالمؓ ہیں، جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنی شہادت کے وقت فرمایا کہ اگر وہ زندہ ہوتے  تو میں انہیں خلیفہ نامزد کردیتا۔ یہ وہ وقت تھا جبکہ سلطنت اسلامیہ کا جھنڈا پوری آدھی دنیا پر لہرا رہا تھا۔

مولانا مودودی رقم طراز ہیں:

’’قانون سے زیادہ اسلامی سوسائٹی نے ان کو اپنے اندر عملاً مساوات کا درجہ دیا ہے۔ اجتماعی زندگی میں غلاموں کی حیثیت کسی طرح بھی آزادوں سے کم نہ تھی۔ علم سیاست، مذہب، معاشرت غرض ہر شعبہ میں ان کے لیے ترقی کی تمام راہیں کھلی ہوئی تھیں، اور غلام ہونا ان کے لیے کسی حیثیت سے بھی رکاوٹ کا باعث نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینبؓ کو جنہیں بعد میں اُم المؤمنین ہونے کا شرف  حاصل ہوا، اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ سے بیاہ دیا۔ امام حسین ؓ کا نکاح ایران کی ایک شہزادی سے ہوا، جو جنگ میں لونڈی بن کر آئی تھی۔ امام زین العابدینؓ انہی لونڈی کے بطن سے تھے، جن کی اولاد اشراف اسلام میں سب سے زیادہ بالاتر درجہ رکھتی ہے۔ سالمؓ بن عبداللہ، قاسم بن محمد بن ابی بکر، جو فقہائے تابعین کی اوّلین میں ہیں، دو لونڈیوں کے پیٹ سے تھے۔ امام حسن بصری جو ائمہ تابعین کے سرخیل اور اصحاب طریقت کے پیشوا ہیں، ایک غلام کے بیٹے تھے۔ امام ابوحنیفہ جو کروڑوں مسلمانوں کے مقتدا ہیں، بنی تیم اللہ کے موالی میں سے بتائے جاتے ہیں۔

مشہور محدث محمد بن سیرین، جن کا شمار اکابر تابعین میں ہوتا ہے، غلام کے بیٹے تھے۔ ان کے باپ سیرین اور ماں صفیہ مملوک تھے۔مگر اس درجہ سے مملوک کہ حضرت صفیہ کو تین امہات المؤمنینؓ نے دلہن بنایا تھا اور سیرین سے ان کا نکاح حضرت ابی بن کعبؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے پڑھایا تھا۔

امام مالک کے استاد نافع حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے غلام تھے۔ ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن مبارک، جن کا شمار اکابرمجتہدین میں ہوتا ہے، ایک غلام مبارک نامی کے بیٹے تھے۔

عکرمہ، جو ائمہ مفسرین میں سے ہیں، خود غلام تھے۔ محمد بن اسحاق مشہور صاحب سیرۃ کے دادا یسار معرکہ عین التمر سے پکڑے ہوئے آئے تھے۔ مکہ کے امام المحدثین عطاء بن رباح، یمن کے امام طاؤس بن قیس ، مصر کے امام یزید بن حبیب ، شام کے امام مکحول، الجزیرۃ کے امام میمون بن مہران، خراسان کے امام ضحاک، کوفہ کے امام ابراہیم نخعی سب کے سب غلاموں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔‘‘ [9]

سلمان فارسیؓ غلام تھے۔ جنہیں حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے۔ ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ ’’سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں۔‘‘ بلا ؓل حبشی غلام تھے ، جن کو حضرت عمرؓ ’’بلا سیدنا و مولیٰ سیدنا‘‘ بلال ؓ ہمارے آقاؐ کے غلام اور ہمارے آقا ہیں۔‘‘ صہیب ؓ رومی غلام تھے۔ جنہیں حضرت عمرؓ نے اپنی جگہ مسلمانوں کو امامت کے لیے  کھڑا کیا۔

آگے چل کر لکھتے ہیں:

’’یہ تو قرون اولیٰ کی باتیں ہیں، بعد میں جبکہ اسلامی روح بہت کمزور پڑ گئی تھی۔ قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش، غیاث الدین بلبن جیسے جلیل القدر غلاموں نے ہندوستان پر حکومت کی۔ محمود غزنوی، جو دنیا کا عظیم فاتح تھا، نسلاً ترکی غلام تھا۔

ان غلاموں کو کون غلام کہہ سکتا ہے؟ کیا آزادوں کے لیے ان سے کچھ  زیادہ ترقی، عزت اور اقتدار حاصل کرنےکے مواقع تھے؟‘‘[10]

“It is simply a  BU se of  words to apply the word” Slavery in the English Sense, to any status known [11]to the legislation on Islam."

یعنی  اسلامی قانون و معاشرت میں انگریزی کی اصطلاح ’’غلامی‘‘ کا کہیں بھی وجود نہیں۔ بلکہ الفاظ کی زبان میں یہ گالی ہے جو اسلام کو دی جاتی ہے۔

سید امیر علی ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں:

’’وہ غلامی، جو اسلام نے جائز رکھی ہے، درحقیقت اُس غلامی کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی جو ہمارے زمانہ تک عیسائیت میں روا رکھی جاتی رہی ہے اور نہ ہی اس کو اس غلامی کے ساتھ علاقہ ہے جو امریکہ میں 1965ء کی مقدس جنگ تک رائج رہی۔‘‘

ان کے الفاظ یہ ہیں:

“The slavery which was allowed in Islam had in fact, nothing in common with that which was in vogue in Christendom until recent times, or with American slavery untill the Holy War of 1965 put on end to that curse.”[12]

مستشرقین کا اعتراف:

یورپ کے بے شمار مصنفین یہ بات لکھنے پر مجبور ہوئے کہ اسلام نے اس پسے ہوئے طبقے کو کس طرح اٹھا کر عزت و احترام کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ان تمام  نفرتوں اور مظالم کی زنجیروں کو کاٹ کر پھینک دیا ہے۔ چنانچہ فالیری کہتا ہے کہ:

’’اسلام کے دشمنوں نے اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ غلامی کے رواج کو باقی رکھنے کی بناء پر اسلام کو نشانہ ملامت بنائیں۔ لیکن مسلمانوں کے ہاں جتنی مراعات غلاموں کے لیے ہیں، وہ  ان مراعات سے بدرجہا زیادہ ہیں جو یورپ میں غلاموں کے لیے ہیں۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ مشرق میں  جو غلامی قائم ہے، اس کو تو اس غلامی کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں، جو امریکہ میں پائی جاتی ہے۔‘‘

اس کے بعد فالیری، نبی علیہ السلام کی درج ذیل حدیث نقل کرتا ہے:

’’کوئی شخص اپنے غلام کو غلام او راپنی باندی کو باندی کہہ کر نہ پکارے۔‘‘

پھر وہ لکھتا ہے کہ:

’’اس سے بہتر انسانیت کون سی ہوسکتی ہے ؟‘‘[13]

موسیوگستاؤ لیبان اپنی کتاب ’’تمدن عرب‘‘ میں لکھتا ہے کہ:

’’غلامی کا لفظ جب اُس یورپین شخص  کے سامنے بولا جاتا ہے، جو امریکن ناولوں اور روایتوں کے پڑھنے کا عادی ہے، او رجن کا سلسلہ تیس سال سے جاری ہے تو اس کے ذہن میں فوراً ان غریبوں کا تصور پیدا  ہوجاتا ہے جو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہون او ران پر کوڑے برسائے جارہے ہوں، پھر ان بیچاروں کو بقائے حیات کے لیے کافی غذا نہ ملتی ہو۔ او ررہنے کے لیے رنگ و تاریک کوٹھڑیاں نصیب ہوتی ہوں۔ مجھے اس سے بحث نہیں کہ یورپ میں جو غلام ہیں ان میں یہ تمام باتیں صادق آتی ہیں یا نہیں؟ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسلام میں جو غلاموں کا تصور ہے وہ عیسائیوں کےغلامون سے مختلف ہے۔‘‘[14]

مسٹر جوزف تھامپس ، ’’لندن ٹائمز‘‘ میں (مورخہ 14 نومبر 1887ء کو) ایک  خط ’’مشرقی افریقہ میں غلامی‘‘ کے عنوان سے یوں لکھتا ہے:

’’جتنا تجربہ مشرقی افریقہ کے بارے میں میرا ہے، آپ کے کسی نامہ نگار کو نہیں۔ اگر یہاں غلاموں کی تجارت کا بازار گرم ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں اسلام کا پروپیگنڈہ نہیں ہوا او رمیرے پاس یقین کرنے کے کے قوی اسباب ہیں کہ اگر یہاں اسلام روشناس کرایا جاتا تو بردہ فروشی کا کبھی کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔‘‘[15]

ایک نہیں، ایسی بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ عہد اسلامی میں غلام غلام نہیں ، بلکہ برابر کے حقوق کا مالک تھا۔اس کا ثبوت اس سے بڑھکر کیا ہوسکتا  ہے کہ حضرت عمرؓ خلیفہ دوم، جب مصر میں داخل ہوتے ہیں، تو آپؓ کا غلام اونٹ پر سوار تھا اور آپؓ خود پیدل چل رہے تھے؟       (جاری ہے)

 

[1] ۔تاریخ  اسلام شاہ معین الدین ، صفحہ 209

[2] ۔بخاری۔ شہادۃ الامآء والعبید۔

[3] ۔ القیاس فی شرح الاسلامی صفحہ 128

[4] ۔انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھپکس

[5] ۔مؤطا، باب نکاح العبد

[6] ۔بخاری، باب اذا  نصح العبد لسیدہ

[7] ۔ صحیح بخاری، باب فضل من اسلم من اھل الکتاب۔

[8] ۔صحیح بخاری، باب استقصاء الموالی و استعمالھم۔

[9] ۔ جہاد فی الاسلام۔ سید مودودی صفحہ 261

[10] ۔الجہاد فی الاسلام۔ سید مودودی ، صفحہ 262

[11] ۔Spirit of Islam. P-263

[12] ۔ Spirit of Islam. P-264

[13] ۔الرّق فی الاسلام صفحہ209

[14] ۔ الرّق فی الاسلام بحوالہ دائرۃ المعارف فرید و جدی صفحہ 209

[15] ۔الرّق فی الاسلام بحوالہ دائرۃ المعارف فرید وجدی صفحہ 213