نومبر 1986ء

حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے یا ولی؟

ضلع گوجرانوالہ سے ماسٹر بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں:

حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں چند سوالات روانہ خدمت ہیں، امید ہے آپ تسلی  بخش جواب تحریر فرما کر شکریہ کا موقع دیں گے۔ سوالات درج ذیل ہیں:

  • حضرت  خضرؑ نبی تھے یا ولی؟
  • قرآن مجید بتلاتا ہے ، آپؑ نے ایک لڑکے کو قتل کردیا تھا، آپؑ کیسے یہ جان گئے کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر سرکشی کا مرتکب ہوگا؟
  • اس لڑکے کا کیا قصور تھا یعنی ارتکاب جرم کے بغیر سزا چہ معنی؟
  • لڑکے کا کون کس کے ذمہ ہے، کیا اس کا قصاص ادا کیا گیا؟
  • ’’یہ لڑکا بڑا ہوکر سرکشی کا مرتکب ہوگا‘‘ یہ الفاظ بتلاتے ہیں کہ شاید ان کی عمر زیادہ تھی، تو پھر وہ طبعی عمر تک زندہ کیوں نہ رہا؟
  • حضرت خضرؑ کی زندگی کتنے برس تھی؟ وفات کب اور کس جگہ ہوئی؟ قبر مبارک کہاں واقع ہے؟ والسلام

الجواب بعون الوھاب :

(1) حضرت خضرؑ کی شخصیت مسلمانوں میں اس اعتبار سے متنازعہ فیہ رہی ہے کہ وہ نبی تھے یا ولی؟ نیز وہ ابھی تک زندہ ہیں یا انسانوں کے بارے میں قانون ایزدی کے مطابق اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے؟ او ریہ اختلاف چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں اس وقت رونما ہوا جب عجمی تصوف کے علمبرداروں نے مسلمانوں میں اس عقیدہ شنیعہ کو رواج دینا چاہا کہ معاذ اللہ اولیاء ، علم و فضل اور ادراک و معرفت میں انبیأء سے افضل ہوتے ہیں، اور وہ باطنی علوم و معارف کی وجہ سے علوم ظاہری کے حامل (بشمول حضرات انبیاء علیہم السلام) جملہ انسانوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ انہی افکار کے نتیجہ میں قرآن مجید میں مذکور قصہ موسیٰ و خضر علیہم السلام کے حوالے سے یہ بات مشہور کی گئی کہ حضرت خضر علیہ السلام چونکہ علم لدّنی کےحامل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف علوم ظاہری سے آشنا تھے، اس لیے وہ حضرت خضر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے او ران کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے نظرآتے ہیں۔[1]

مگر جیسا کہ ہم نے عرض کیا، یہ عقیدہ عجمی تصوف کی پیداوار، او راس سے بعض مسلم صوفیاء کی اثر پذیری کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے چوتھی صدی ہجری سے قبل ایسے  غیر حقیقت پسندانہ نظریات کا وجود ناپید رہا۔ بعد میں کچھ مہربانوں نے متعدد ایسی روایات کو وجود و فروغ بخشا، جن سے مذکورہ بالا عقیدہ کی نقلی تائید مقصود تھی۔[2]

اس کے برعکس اگر متعلقہ قرآنی آیات او ران کے اسلوب بیان کو پیش نظر رکھا جائے تو راجح یہی امر نظر آتا ہے کہ حضرت خضرؑ ولی نہیں بلکہ نبی تھے۔ اس لیے  کہ قرآن مجید نے جس انداز میں ان کے شرف کا ذکر کیا ہے، وہ مقام نبوت پر ہی صادق آتا ہے، او رمقام ولایت ان سے فروتر ہے۔ مثلاً حضرت خضرؑ نے غلام کے قتل کی وجہ یوں بیان کی۔ قرآن مجید کے الفاظ میں:

’’وما فعلتہ عن امری‘‘ (الکہف:82)

کہ ’’یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کیا۔‘‘

اور ظاہر ہےکہ کسی ولی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ الہام کے ذریعہ کسی کو قتل کردے اس لیے کہ الہام میں غلطی کا امکان ہے اور وہ شرعی حجت نہیں۔لہٰذا امور تکوینیہ میں سے ایک ایسا امر، جو بظاہر نہایت قبیح او ربہت بڑا جرم ہے، صرف وحی الٰہی کے ذریعہ ہی انجا پاسکتا ہے۔ نیز حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے درمیان گفتگو کو جس انداز میں بیان کیا گیا ہے، وہ بھی ان کے نبی ہونے کی تائید کرتاہے، اسی لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اوالعزم پیغمبر، حضرت خضرؑ کی معیت او ران کے علم تکوینی کے مشاہدے کے لیے اصرار کرتے ہیں، او رتبھی حضرت خضر علیہ السلام جرأت کے ساتھ اپنے علم اور حضرت  موسیٰ علیہ السلام کے درمیان موازنہ کرتے ہیں۔ [3]

علاوہ ازیں بعض صحابہ کرامؓ، محدثین اور مفسرین کی تصریحات اور ان کے پیش کردہ دلائل کا جائزہ لیا جاوے تو اس امر کو مزید تقویت ملتی ہےکہ خضر علیہ السلام نبی تھے نہ کہ ولی ۔ مثلاً :

  • حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

’’انہ نبی غیر مرسل‘‘

’’حضرت خضر علیہ السلام غیر مرسل نبی تھے۔‘‘

  • قعنبی کہتے ہیں:

’’ھونبی  فی سائر الاقوال‘‘

’’وہ جملہ اقوال (معتبرہ)کی رُو سے نبی تھے۔‘‘

  • وہب بن منبہ، ابوالحسن الرمانی وغیرہما بھی ان کے نبی ہونے کی صراحت کرتے ہیں۔[4]
  • مشہور مفسر قرطبی فرماتے ہیں:

’’ھو نبی عند الجمہور والاٰیۃ تشھد بذٰلک‘‘[5]

’’وہ جمہور کے نزدیک نبی ہیں۔اور آیات قرآنیہ بھی اس امر کی شاہد ہیں۔‘‘

  • ابو حیان رقم طراز ہیں:

’’والجمہور علیٰ انہ نبی‘‘ [6]

’’جمہور کے نزدیک وہ نبی تھے۔‘‘

  • امام شوکانی نے تصریح کی ہے:

’’وقد ذھب الجمہور الیٰ ان الخضر کان نبیا‘‘ [7]

’’جمہور کا مسلک یہ ہے کہ وہ نبی تھے۔‘‘

جمہور نے اپنے مسلک کی تائید میں مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ سے بھی استنباط کیا ہے:

  • ’’فوجدا عبدا من عبادنا اتینٰہ رحمۃ من عندنا۔الآیۃ‘‘ (الکہف:65)

’’(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا، جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت دی تھی۔‘‘

بایں طور کہ رحمت سے مراد نبوت ہے، جیسا کہ آیہ ذیل مین ’’رحمت‘‘ سے مراد بالاتفاق ’’نبوت‘‘ ہے:

’’اھم یقسمون رحمۃ ربک ۔الآیۃ‘‘ (الزخرف:32)

’’کیا یہ لوگ تمہارے  پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟‘‘

  • ’’وعلمنٰہ من لدنا علما‘‘ (الکہف:65)

’’او رہم نے اسے اپنے ہاں سے علم دیاتھا۔‘‘

آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ انہیں یہ علم بغیر کسی انسانی واسطہ کے ملا تھا۔

  • ’’قال لہ موسیٰ ھل اتبعک علیٰ ان تعلمن مما علمت رشدا۔ الآیۃ‘‘ (الکہف:66)

’’موسٰیؑ نے ان (خضر ؑ) سے کہا کہ جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے، اگر آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں ؟‘‘

اور ظاہر ہے نبی، غیر نبی سے علم حاصل نہیں کرتا۔

  • ’’وما فعلتہ عن امری ۔الآیۃ‘‘ (الکہف :82)

’’میں نے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے نہیں (بلکہ خدا کی رضا سے)کیا ہے۔‘‘ 

او ریہ ان کے نبی ہونےکی دلیل ہے۔[8]

اس بارے ایک تیسرا قول یہ بھی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ولی تھے اور  نہ ہی نبی، بلکہ وہ ایک فرشتہ تھا جو کہ انسانی روپ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفیق سفر بنے او رکئی امور غیبیہ سے پردہ اٹھایا۔ اس روایت کو ابن کثیر نے ماوردی کے حوالے سے نقل کیا ہے:

’’وقیل کان ملکا نقلہ الماوردی فی تفسیرہ‘‘ [9]

’’اور کہا گیا ہےکہ وہ (خضرؑ) فرشتہ تھے اسے ماوردی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے۔‘‘

مگر یہ محض ایک قول ہے جس کی کسی بھی  عقلی اور نقلی دلیل سے تائید نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی تردید قصہ موسیٰؑ و خضرؑ میں وارد احادیث صحیحہ کے اُن الفاظ سے ہوتی ہے جو کہ حضرت ابن عباسؓ سے یوں منقول ہیں:

’’سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول قام موسیٰخطیبا فی بنی اسرائیل فسئل۔ ’’ای الناس اعلم‘‘؟ فقال ’’انا اعلم‘‘ [10]

کہ  ’’میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا، موسیٰ علیہ السلام خطبہ دینے کے لیے بنی اسرائیل میں کھڑے ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا ’’الناس‘‘ (انسانوں‘ میں کون سب سے بڑا عالم ہے؟‘‘ تو انہوں نے فرمایا؟ ’’میں!‘‘

حدیث کے الفاظ ’’الناس‘‘ اس امر پرصریح اور واضح دلالت ہیں کہ یہاں علمی تقابل انسانوں کے درمیان ہورہا ہے، نہ کہ فرشتے او رانسان کے درمیان۔

(2) نص قرآنی اس امر کی شاہد ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے دوران سفر ایک (غلام)کو قتل کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’فانطلقا حتیٰ اذا لقیا غلاما فقتلہ۔ الآیۃ‘‘ (الکہف:74)

’’پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ (رستے میں) ایک لڑکا ملا تو (خضرؑ نے ) اسے مار ڈالا۔‘‘

اور علت یہ بیان کی کہ مستقبل میں اس کے سرکشی او رکافرانہ طرز حیات اپنانے کا اندیشہ تھا:

’’واما الغلٰم فکان ابواہ مؤمنین فخشینآ ان یرھقھما طغیانا و کفرا۔ الآیۃ‘‘ (الکہف:80)

’’اور وہ جو لڑکا تھا، اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ ان کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے۔‘‘

لیکن کیا کسی کا مستقبل میں ارتکاب جرم مستوجب قتل ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں مفسرین کی آراء مختلف نظر آتی ہیں۔چنانچہ:

ایک قول یہ ہے کہ مقتول بالغ او رمکلّف تھا او راس نے کئی ایسے جرائم کا ارتکاب کیاتھا جو اس کے قتل کا جواز فراہم کرتے تھے اور اگر اسے مزید مہلت دی جاتی تو وہ مزید فتنہ و فساد کا موجب بنتا۔لہٰذا اس کا قتل کرنا عین انصاف تھا۔ اس قول کے قائلین کے نزدیک قرآن مجید یا حدیث نبوی میں اس امر کی صراحت موجود نہیں ہے کہ مقتول نابالغ تھا، قرآن مجید نے مقتول کے لیے لفظ ’’غلام‘‘ استعمال کیا ہے جو کہ بالغ او رنابالغ دونوں کے لیے مستعمل ہے او راہل زبان سے اس امر کی صراحت یوں منقول ہے:

’’قیل اصلہ (غلام) من الاغتلام وھو شدۃ الشبق و ذٰلک انما یکون فی الشباب الذین قدبلغوا الحلم‘‘ [11]

یعنی ’’ غلام کا مادہ اشتقاق ، اغتلام ہے، جو کہ شدت شہوت سے عبارت ہے او روہ بالغ نوجوانوں میں ہی ہوسکتی ہے۔‘‘

لسان العرب میں ہے:

’’اغتلم اذا ھاج فی الشھوۃ والغلام الطار الشارب وھو من حین یولد الیٰ ان یشب‘‘ [12]

کہ ’’اغتلم‘‘ کامطلب شہوت کی انگیخت ہے اور غلام اس نوجوان کو کہا جاتا ہےجس کی مسیں بھیک رہی ہوں، پیدا ہونے سے لےکر جوانی تک کے عرصہ پرلفظ ’’غلام‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘

اس امر کی تائید حدیث میں قصہ معراج کے ضمن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس قول سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپؑ نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں’’........ لان غلاما بعث بعدی‘‘[13] کے الفاظ استعمال فرمائے۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ کی عمر اس وقت پچاس برس کےلگ بھگ تھی۔

امام شوکانی ، غلام کے قتل کے سبب کے ضمن میں مختلف آراء کا ذکر کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:

’’قلیل انہ کان بالغا وقد استحق بذٰلک کفرا ، وقیل انہ ، کان یقطع الطریق فاستحق القتل لذٰلک و الحاصل انہ لا اشکال فی قتل الخضر لہ اذا کان بالغا کافرا او قاطعا للطریق ھٰذا فیما تقتضیہ الشریعۃ الاسلامیۃ‘‘ [14]

’’ایک قول یہ ہے کہ   وہ بالغ تھا او رکافر متحقق ہوا او رایک قول یہ ہے کہ وہ ڈاکو تھا، اس بناء پر قتل کا مستحق ٹھہرا۔حاصل یہ کہ خضرؑ کے اسے قتل کرنے میںکوئی اشکال نہیں ہے، دریں حالیکہ وہ بالغ تھا، کافر تھا یا لٹیرا (بلکہ) یہ تو شریعت اسلامیہ کا (عین) تقاضا ہے۔‘‘

امام رازی رقم طراز  ہیں:

’’قل ان ذٰلک الغلام کان بالغا وکان یقطع الطریق و یقدم علی الافعال المنکرۃ‘‘[15]

’’یعنی وہ غلام بالغ تھا، ڈاکہ زنی کے علاوہ دیگر جرائم کا ارتکاب بھی کیاکرتا تھا۔‘‘

اگر مذکورہ بالا مؤقف کو درست تسلیم کرلیا جائے تو غلام کےقتل کا شرعی جواز موجود تھا، اور وہ ’’فساد فی الارض‘‘ جیسے جرم کے بدلے انجام کار کو پہنچا۔ اگر اسے مزید مہلت دی جاتی تو اس کی فتنہ سامانیوں کا دائرہ مزید وسیع ہوجاتا، حتیٰ کہ اس کے نیک خصلت والدین بھی اس کی تباہ کاریوں کا شکار ہوسکتے تھے۔ لہٰذا حکمت خداوندی کا تقاضا یہی تھا کہ اسے  فی الفور گرفت میں لیا جائے اور او راس کے ہاتھوں متوقع خطرات سے تحفظ کی ضمانت فراہم کی جائے۔

اور اس کے برعکس اگر یہ مؤقف درست تسلیم کرلیاجائے کہ مقتول (غلام) نابالغ اور شرعاً غیرمکلّف تھا تو اس خیال کے حامل گروہ کو اس اشکال کا سامنا کرنا ہوگا کہ صرف اس بناء پر کہ چونکہ وہ مستقبل میں طغیان و سرکشی کا مرتکب ہوگا، کیا اس کے قتل کا شرعی جواز موجود تھا؟ اس حوالے سے اگر مفسرین کی آراء کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگرچہ شریعت اسلامیہ کی رُو سے یہ درست نہیں ہے ، مگر ممکن ہے کہ دیگر شرائع میں یہ درست ہو، جن میں حضرت خضر علیہ السلام کی شریعت بھی شامل ہے۔ پھر چونکہ  اللہ تعالیٰ کا حکم ہی شرعی دلیل ہے، لہٰذا وہ جب چاہے اور جو چاہے حکم جاری کرسکتا ہے ، او راس میں کسی کا کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ امام شوکانی فرماتے ہیں:

’’................. واما اذا کان الغلام صبیا غیر بالغ فقیل ان الخضر علم باغلام اللہ لہ لو صار بالغا لکان کافرا یتسبب عن کفرہ اضلال ابویہ و کفرھما وھٰذا وان کان ظاھر الشریعۃ الاسلامیۃ یاباہ.......... ولککنہ یحل فی شریعۃ اخریٰ......... ویمکن ان یکون للخضر شریعۃ من عنداللہ تسوغ لہ ذٰلک‘‘[16]

یعنی  ’’اگر (غلام) بچہ تھا تو وجہ قتل کے ضمن میں کہا جائے گا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے بطریق وحی معلوم کرلیا تھاکہ یہ بالغ ہو کر والدین کے کفر کا سبب بنے گا لہٰذا اسے قتل کردیا جائے، اگرچہ اس امر کی اجازت بظاہر شریعت محمدیہؐ میں نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ کسی دوسری شرع مین جائز ہو، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ یہ صرف حضرت خضرؑ کی شرع میں ہی درست ہو۔‘‘

امام رازی اس اشکال کے جواب میں فرماتے ہیں:

’’ان قیل ھل یجوز الاقدام علیٰ قتل الانسان لمثل ھٰذا الظن؟ قلنا اذا تاکد ذٰلک الظن بوحی من اللہ جاز‘‘ [17]

’’اگر کہا جائے کہ کیا محض شبہ کی بنا پر کسی انسان کا قتل درست ہے؟ تو کہا جائےگا کہ : ہاں جب وحی کے ذریعہ شک یقین میں تبدیل ہوجائے تو درست ہے۔‘‘

جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں:

’’وقصۃ الخضر تحمل علیٰ انہ کان شرعا مستقلا بہ وھو نمی و لیس فی شریعۃ موسیٰ ایضا ولذا انکرہ‘‘ [18]

کہ’’ قصہ خضرؑ کو (قتل غلام کے سلسلے میں) اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ چونکہ وہ نبی تھے، لہٰذا یہ ان کےلیے ایک مستقل قانون شرعی کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن چونکہ یہ بات شریعت موسوی میں نہیں تھی، لہٰذا موسیٰ ؑ نے اس پر انکار کیا۔‘‘

الغرض قتل غلام، وحی الٰہی کی روشنی میں ہوا او رحکم خداوندی ہی اصل شریعت او رقانون ہے اور وہ جو چاہے فیصلہ کرسکتا  اور جب چاہے اسے واپس لے سکتا ہے۔ اس مؤقف کی تائید کے لیے اس ارشاد ربانی میں بھی اشارہ موجود ہے:

’’وما فعلتہ عن امری‘‘ (الکہف:82)

کہ ’’جو کچھ بھی میں نےکیا ہے اپنی مرضی سے نہیں(بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں کیا ہے)‘‘

(3) یہ بات نص قرآنی سے ثابت ہے کہ حضرت خضرؑ کا ذریعہ علم وحی الٰہی تھا، اور ان کے جملہ تصرفات آسمانی ہدایت کا نتیجہ تھے، چنانچہ ارشاد خداوندی ’’وما فعلتہ عن امری‘‘ اس امر کی واضح دلیل ہے۔

(4)یہ سوال کہ اس قتل کا قصاص کس کے ذمہ ہے؟ اور اس کا قصاص کس نے ادا کیا؟ تو اس کا جواب مذکورہ بالا سطور میں آچکا ہے کہ اس لیے کہ قصاص کا مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے ، جب حدود اللہ سے تجاوز کرتے ہوئے محض ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے انسانی خون کی  حرمت کو پامال کیا جائے۔ مقاصد شرعیہ کی تکمیل کے نتیجے میں ہونے والے قتل کے بارے قصاص کا سوال ہی بے معنی ہے۔

(5) لڑکے کو قتل اس لیے کیا گیا کہ اس کی طبعی عمر پوری ہوچکی تھی، اگر اس کی عمر باقی ہوتی تو قتل کا امکان بھی پیدا نہ ہوتا۔

(6)ایسے سوالات او ران کے جوابات مقاصد شریعت سے خارج ہیں، مطلوبہ امور کی تعیین میں کتاب اللہ بالکل خاموش ہے۔ حدیث رسول ﷺ، آثار صحابہؓ اور تاریخی روایات بھی اس بارے ہماری کوئی راہنمائی نہیں کرتیں۔ ہم اس امر کے پابند نہیں ہیں کہ ہر نبی کے بارے اس کی زندگی اور وفات کے حوالے سے جملہ معلومات اکٹھی کریں۔ سلسلہ انبیاؑء میں کتنے ہی ایسے اصحاب ہیں کہ ہم ان کی تاریخ پیدائش و وفات اور مقام تدفین وغیرہ ایسے امور سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے۔

اور اگر یہ سوالات اس مفروضہ کی پیداوار ہیں کہ خضرؑ ابھی تک زندہ ہیں ، او راس بناء پر ’’عمر خضر‘‘ ایسی اصطلاحات بھی ایجاد کی جاچکی ہیں تویہ بات بلا دلیل ہے۔ حضرت خضرؑ اپنی عمر طبعی کو پہنچ کر داعئ اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔چنانچہ ابوحیان لکھتے ہیں:

’’الجمھور علیٰ انہ مات‘‘[19]

’’جمہور حضرت خضر علیہ السلام کی موت کے قائل ہیں۔‘‘

چنانچہ امام ابن قیم کا دعویٰ ہے کہ امام ابن تیمیہ، امام بخاری، ابن کثیر ، ابن جوزی، قاضی ابویعلیٰ حنبلی، ابوطاہر بن العنباری، علی بن موسیٰ الرضا، ابوالفضل مریسی، قاضی ابوبکر بن العربی، ابوبکر محمد بن الحسن، جیسے جلیل القدر محدثین اور مفسرین ان  کی موت کے قائل ہیں۔[20]

مذکورہ بالا حضرات نے اپنے اس معقول مؤقف کی تائید میں کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ ﷺ سے متعدد دلائل پیش کیے ہیں، ان میں سے اہم تر  یہ ارشاد خداوندی ہے:

’’وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد۔الآیۃ‘‘ (الانبیاء :34)

’’ہم نے آپؐ سے قبل کے کسی بھی انسان کو ابدی زندگی نہیں دی۔‘‘

لہٰذا اگر قوانین فطرت کے پس منظر میں’’حیات خضرؑ‘‘ جیسے عقیدہ کا جائزہ لیا جائے تو اسے ایک خرافی او رباطل عقیدہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ افسوس ہے کہ اس افسانوی نظریہ کی تقویب کے لیے متعدد روایات بھی تراش لی گئی ہیں، جو کہ کسی طرح بھی جرح و تعدیل کے مسلّمہ قواعد و ضوابط پرپوری نہیں اترتیں، چنانچہ حافظ ابن حجر ایسی روایات کو تفصیل سےنقل کرنے کے بعد محاکمانہ انداز میں رقم طراز ہیں:

’’وجمیع ماورد فی حیاتہ لایصح منھا شئ باتفاق اھل النقل‘‘ [21]

کہ ’’(حیات خضر علیہ السلام) کے بارے  واردہ جملہ روایات بالاتفاق غیر صحیح ہیں۔‘‘

امام ابوالفرج الجوزی نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بنام ’’عجالۃ المنتظر فی شرح حالۃ الخضر‘‘ تحریر کیاہے، جس میں آپ، حیات خضرؑ سے متعلقہ روایات نقل کرنےکے بعد، ان پر مبصرانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ان میں سے اکثر موضوع اور بقیہ ضعیف ہیں (لہٰذا قابل اعتماد نہیں)‘‘[22]

مذکورہ بالاتصریحات کی روشنی میں ہم علیٰ وجہ البصیرت اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام ، موت و حیات سےمتعلق فطری قوانین کی رو سے اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے بعد وادی موت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ ہٰذ ما عندی واللہ اعلم بالصواب!

 

[1] ۔ قصہ موسیٰ ؑ و خضرؑ کے لیے ملاحظہ ہو، سورۃ الکہف آیت 60 تا 82

[2] ۔ دیکھئے: الاصابۃ 1؍433

[3] ۔ سوہاروی، قصص النبیین 1؍545

[4] ۔ الاصابۃ:1؍430، 431

[5] ۔ایضاً

[6] ۔ البحر المحیط:6؍146

[7] ۔ فتح القدیر:3؍304

[8] ۔ ایضاً

[9] ۔ تفسیر ابن کثیر:3؍99

[10] ۔صحیح مسلم مع شرح النووی جزء 15 صفحہ 137 (باب فضائل الخضر)

[11] ۔ البحر المحیط:6؍105 بذیل مادہ (غلام)

[12] ۔ لسان العرب:15؍366، تاج العروس:9؍504 نیز دیکھئے رازی: التفسیر الکبیر:21؍115

[13] ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 1513

[14] ۔ فتح القدیر:3؍304

[15] ۔رازی: تفسیر کبیر:21؍161

[16] ۔شوکانی: فتح القدیر:3؍304

[17] ۔ رازی: تفسیر کبیر:21؍161

[18] ۔تفسیر قاسمی:7؍72

[19] ۔الاصابہ:1؍436

[20] ۔ بحوالہ سوہاروی: قصص النبیین :1؍574، البدایۃ والنہایہ:1؍335

[21] ۔ الاصابۃ:1؍434، نیز فتح الباری:6؍435

[22] ۔ بحوالہ ابن کثیر:البدایہ والنہایہ:1؍334