ستمبر 1986ء

ترمیمی شریعت بِل پر مسلمانوں کے جملہ مکاتبِ فکر کا اتفاق و اتحاد

 وطن عزیز  میں لادین عناصر، قیام پاکستان سے لے کر آج تک ، نفاذ شریعت کی راہ میں بری طرح حائل رہے ہیں او رجب بھی اس سلسلہ میں کوئی آواز اٹھی، شریعت بیزار اس طبقہ نے فقہی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو بہانہ بنا کر راہ مارنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ان کی انہی نامسعود کوششوں کی بناء پر ’’آخر کس فرقہ کا اسلام نافذ کیا جائے‘‘ ملک میں عدم نفاذ شریعت کا ایک مستقل عنوان بن کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ اسلام نہ تو کسی مخصوص فقہ کا اسلام ہے ، نہ ہی کوئی فقہ شریعت  ہوتی ہے او رنہ ہی  فقہی اختلافات شریعت کا اختلاف بن سکتے ہیں۔ شریعت تو صرف اور صرف کتاب و سنت ہیں، اور اس ملک کی مختصر تاریخ میں علمائے دین نے متعدد مرتبہ کتاب و سنت پر مکمل اتفاق کے عملی ثبوت فراہم کیے ہیں۔ قرار داد مقاصد، جسے اب آئین کاحصہ بھی بنا لیا گیاہے، علمائے دین کے اسی جذبہ نفاذ شریعت کی مظہر ہے اور جس کی ایک شق یوں ہے کہ:

’’ایک دستور بنایا جائے...... جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی او راجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق، جو قرآن مجید اور سنت رسولؐ  میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔‘‘

کیا یہ بات انتہائی تعجب خیز نہیں کہ 1973ء کے دستور کو صحیفہ آسمانی سمجھنے والے او راس پر امت کے اجماع تک کی خوشخبری دے ڈالنے والے بھی، اسی دستور میں علمائے اسلام کی اس متفقہ شق کی موجودگی کے باوجود یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ مسلمان چونکہ شریعت پر متفق نہیں ہوسکتے، لہٰذا شریعت محمدیؐ کا نفاذ ممکن نہیں۔

پھر علمائے کرام کے بائیس نکات بھی، جنہیں ملک بھر کے اور مختلف مکاتب فکر کے جید اکتیس علماء نے متفقہ طور پر آئینی اساس کی حیثیت سے مرتب کیا تھا، شریعت دشمنون کے اس مذموم پروپیگنڈا کی نفی کرتے ہیں۔ ان بائیس نکات میں سے پہلے دو نکات حسب ذیل ہیں:

1۔ ’’اصل حاکم تشریعی و تکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔‘‘

2۔  ’’ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا او رکوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے گا ، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا، جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔‘‘

گویا یہاں بھی کسی فرقہ وارانہ یافقہی اختلاف کی نہ صرف کوئی رو رعایت نہیں کی گئی، بلکہ اشارتاً بھی اس کا ذکر تک موجود نہیں ہے۔ ہاں اگر ذکر ہے تو صرف اور صرف کتاب و سنت کی مطابقت کا، جو کتاب و سنت پر ان جملہ علماء کے مکمل اتفاق و اتحاد کا مظہر ہے۔

پھر تیسری مرتبہ حال ہی میں سینیٹ میں نفاذ شریعت بل 1985ء پیش ہوا، اور اسے عوامی آراء کے حصول کے لیے مشتہر بھی کیا گیا، تو یہ بل صرف اسی وقت تک متنازعہ فیہ رہا، جب تک اس میں شریعت کی تعریف درست نہ تھی او رجب تک اسے کتاب و سنت کی مشترکہ بنیادوں پر جملہ مکاتب فکر کے اتحاد کا علمبردار نہ بنایا گیا تھا لیکن اب جبکہ اس کی بنیاد صرف اور صرف کتاب و سنت پر رکھ دی گئی ہے، تو مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر بھی اسی پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس بل کی دفعہ 2 میں شق ب ج د کے تحت چونکہ فقہ کو شریعت متصور کئے جانے کی بات کی گئی تھی او راسی بناء پر یہ شقیں متنازعہ فیہ بن گئی تھیں، لہٰذا ترمیم کے ذریعے شریعت کی تعریف کو درست کردیا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا گیا کہ:

’’شریعت سے مراد قرآن و سنت ہیں۔‘‘

جب کہ  اس شق کے ضمن میں یہ ’’توضیح‘‘ بھی موجود ہے کہ:

’’قرآن و سنت کے احکام کی تعبیر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل مآخذ سے راہنمائی حاصل کی جائے گی۔‘‘

1۔ سنت خلفائے راشدینؓ

2۔  تعامل اہل بیت عظام و صحابہ کرامؓ

3۔  اجماع امت

4۔  مسلّمہ فقہائے اسلام کی تشریحات و آراء‘‘

او ریوں یہ ترمیمی بل متفقہ بنا دیا گیا ہے، جملہ مکاتب فکر کے نمائندوں نے 30۔اگست 1986ء کو اس پر دستخط کردیئے ہیں اور روزنامہ جنگ (مورخہ 6 ستمبر 1986ء) نے ’’نفاذ شریعت بل 1985ء‘‘ اور ’’متفقہ ترمیمی شریعت بل 1986ء‘‘ کے تقابل کی صورت میں اس کی مکمل رپورٹ بھی شائع کی ہے۔

(’’متفقہ ترمیمی شریعت بل 1986ء‘‘ کا خالص متن محدث کی زیر نظر اشاعت میں شامل ہے)

..............................

اسی پر بس نہیں، مورخہ 24 جولائی 1986ء کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ملک کے جملہ مکاتب فکر کے جید علماء کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔اس کانفرنس میں علمائے کرام کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہ اہلحدیث کے نامور اور مایہ ناز عالم دین ، مدیر’’الاعتصام‘‘ حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی حفظہ اللہ تعالیٰ جوکئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، اپنی علالت طبع اور انتہائی ضعف و نقاہت کے باوصف (کیونکہ  آپ ایک مدت سے فالج کے زیراثر صاحب فراش ہیں) کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور کانفرنس کے اختتام پر دعائے خیر بھی آپ ہی نے فرمائی۔...........و علیٰ ھذا القیاس........... اس پریس کانفرنس کا مکمل متن ، جسے ملک کے جملہ مکاتب فکر کا متفقہ مؤقف، بلکہ مشترکہ اعلامیہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ حسب ذیل ہے:

’’ریفرنڈم کی بنیاد پربرسراقتدار حکومت کی اوّلین ذمہ داری نفاذ شریعت ہے متفقہ ترمیمی شریعت بل تحریک نظام مصطفی ؐ کا ہی ایک تسلسل ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل سمیت جملہ مکاتب فکر کے اتفاق کے بعد بل سے انحراف خطرناک ہوگا۔‘‘

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے متحد ہوکر کوئی تحریک چلائی تو ان کے سامنے بڑی بڑی جابر قوتوں نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ خود پاکستان کاوجود برطانوی سامراج او رہندو اکثریت کے علی الرغم مسلم  اقلیت کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ماضی قریب میں علماء اور مشائخ کی قیادت میںمسلم عوام اٹھے تو نہ صرف قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا پڑا بلکہ نظام مصطفیؐ کے مطالبے کے سامنے مضبوط کرسی بھی نہ ٹھہر سکی۔

پاکستان کی پہلی اسمبلی کی طرف سے قرار داد مقاصد کی منظوری اسی اسلامی جذبے کی مرہون منت تھی لیکن پھر اسلام کے عملی نفاذ کےخلاف لادین اور ملک کی نظریاتی اساس کے مخالف عناصر نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ  مسلمان شریعت پر متفق نہیں ہوسکتے، لہٰذا محمدیؐ شریعت کا نفاذ ممکن نہیں۔

آج ہم جملہ مکاتب فکر کے نمائندے بیک آواز  ہیں کہ ہم نفاذ شریعت کے لیے متحد ہیں اور ان شاء اللہ متحد رہیں گے۔ پاکستان کی اسلامی ریاست کے دستور کے لیے ہمارے اکابرین  نے  اسی چیلنج کا جواب بائیس (22) نکات کی صورت میں دیا تھا اور انہی 22 نکات کے ایک اہم قانونی پہلو کی تکمیل کے لیے متفقہ شریعت بل تیار کیاگیا ہے۔ افسوس کہ جس طرح ملک کے اکتیس (31) جید علماء کےمتفقہ بائیس (22) نکات کو آج تک قانون حیثیت نہ دی گئی اسی طرح آج بھی شریعت بل سے پہلو تہی کی جارہی ہے۔

ہم  حکومت پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ متفقہ شریعت بل، تحریک نظام مصطفیٰؐ  کا ہی ایک  تسلسل ہے۔خود صدر جنرل ضیاء الحق کا اقتدار اسی تحریک کے طفیل ہے او رریفرنڈم کے بعد موجودہ سول حکومت کا جواز بھی اسلامی نظام کی تکمیل کے وعدے پر قائم ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش کے باوصف جملہ مکاتب فکر کامتفقہ مطالبہ تسلیم نہ کرنا ملک و  ملت کے لیے خطرناک ہوگا۔کیونکہ نفاذ شریعت کامسئلہ سیاست بازی کا نہیں، ملک و ملت کی بقا کا ہے۔

شریعت بل کے مشتہر ہونے کے بعد اس پرآراء سامنے آئیں تو ضرورت محسوس کی گئی کہ بل کےمندرجات کو قانونی شکل دینے کےلیے بعض ترامیم کی جائیں او راس تاثر کو بھی قطعی طور پر ختم کردیا جائے کہ مجوزہ شریعت بل متفقہ نہیں ہے۔ چنانچہ اب جملہ مکاتب فکر کے نماوندوں نے بل کو متفقہ بنا لیا ہے۔بالخصوص دفعہ 2 اور 2 1 پر چونکہ اختلافی آراء سامنے آئی تھیں، ان میں ترمیم کردی گئی ہے۔ جس سے فرقہ واریت اور اختلافی ہونے کا سد باب ہوگیاہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ نویں آئینی ترمیم شریعت بل کا متبادل نہیں ہے بلکہ حکومت نے نظام مصطفیٰؐ کے مکمل نفاذ سے بچنے کے لیے اس کا سہارا لیا ہے، جس سےنفاذ شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔

ہم دو ٹوک الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ ہم سب نے متحد ہوکر مکمل نفاذ شریعت کے لیے ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے او راسی سلسلہ میں 11۔ اکتوبر کو کل پاکستان نفاذ شریعت کنونشن ہوگا۔ جس میں تمام مکاتب فکر کے ہزاروں علماء ملک بھر شریک ہوں گے۔لہٰذا رابطہ کمیٹیوں نے ملک گیر دورے شروع کردیئے ہیں۔

حکومت اور شریعت کے مخالفین کو ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ علماء ، نفاذ شریعت کے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان شاء اللہ‘‘

.............................

وطن عزیز میں نفاذ شریعت کے لیے متحدہ شریعت محاذ کے اس مشترکہ اعلامیہ کے بعد شریعت بیزار ٹولہ کے اس مذموم پروپیگنڈا کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہ جاتی کہ علماء دین چونکہ شریعت پرمتفق نہیں، لہٰذا ملک میں محمدیؐ شریعت کا نفاذ ممکن نہیں۔ علماء دین نفاذ شریعت کے مطالبہ پر متفق ہوچکے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی متحدہ کوششیں بحمداللہ ہمیشہ بار آور ہوئی ہیں۔ ہم جہاں حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ شریعت بل کو منظور کرتے ہوئے، جملہ مسلمانوں کانفاذ شریعت کا دیرینہ مطالبہ پورا کیاجائے تاکہ قوم کو اس کی گمشدہ منزل مل جائے او ریہ ملک بھی اپنی نظریاتی سرحدوں پراستوار ہوسکے، وہاں جملہ خواص و عام سے بھی یہ اپیل کریں گے کہ وہ اس راہ میں کاٹنے بکھیرنے کی کوشش نہ کریں، بلکہ متحدہ شریعت محاذ کے شانہ بشانہ چل کر ان سے تعاون کریں۔

او راللہ تعالیٰ سے ہماری یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ اے اللہ، جو لوگ تیری راہ میں بہ خلوص نیت چل نکلے ہیں، ان کی نصرت و اعانت فرما، ان کو استقامت دے اور اس مبارک اتحادکی بدولت ان کے دامن اپنی رحمت سے مالامال کردے۔......... یہ تیرا وعدہ ہے کہ:

’’والذین جاھدوا  فینا لنھددینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین‘‘

وآخرد عوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین۔ (آمین)