ستمبر 1986ء

متفقہ ترمیمی شریعت بل 1986ء

ابتدائیہ:

ہر گاہ کہ قرارداد مقاصد جو پاکستان میں شریعت کو بالادستی عطا کرتی ہے کو دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان 73ء کا مستقل بالذات حصہ بنا دیا گیا ہے۔

او رہر گاہ کومذکورہ قرار داد مقاصد کے اغراض کو بروئے کار لانے کے لیےضروری ہے کہ شریعت کے فی الفور نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔

لہٰذا حسب ذیل قانون بنایا جاتاہے۔

دفعہ نمبر 1۔  مختصر عنوان، وسعت او رآغاز نفاذ :

(الف) اس ایکٹ کو ’’نفاذ شریعت ایکٹ 1986ء‘‘ کہا جائے گا۔

(ب) یہ ایکٹ تمام پاکستان پر وسعت پذیر ہوگا۔

(ج) اس ایکٹ میں شامل کسی امر کا اطلاق غیرمسلموں کے شخصی قوانین پر نہ ہوگا۔

(د) یہ ایک فوری طور پرنافذ العمل ہوگا۔

دفعہ نمبر 2 ۔ تعریفات:

اس ایکٹ میں، تاوقتیکہ متن سےکوئی مختلف مفہوم مطلوب ہو، مندرجہ ذیل اصطلاحات سے وہ مفہوم مراد ہے جو ذیل میں انہیں دیا گیا ہے یعنی:

(الف) ’’قرارداد مقاصد‘‘ سے مرا دوہ مفہوم ہے جوآرٹیکل 2الف دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء میں اُسے دیا گیا ہے۔

(ب) ’’مقررہ‘‘ سے مراد اس ایکٹ کے تحت مقررہ قواعد ہیہں۔

(ج) ’’شریعت‘‘ سے مراد قرآن و سنت ہیں۔

توضیح: قرآن و سنت کے احکام کی تعبیر کرتے ہوئےدرج ذیل مآخذ سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔

(1)                 سنت خلفائے راشدینؓ

(2) تعامل اہل بیت عظام و صحابہ کرام ؓ

(3) اجماع امت

(4) مسلّمہ فقہائے اسلام کی تشریحات و آراء

دفعہ نمبر 3 ۔شریعت کی دیگر قوانین پر بالاتری:

کسی دیگر قانون، رواج، تعامل یا بعض فرقوں کے مابین معاملہ یا لین دین میں شامل کسی بھی امر کےاس سے مختلف ہونے کے باوجود شریعت پاکستان میں بالاتر قانون کی حیثیت سےمؤثر ہوگی۔

دفعہ نمبر 4 ۔عدالتیں شریعت کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کریں گی:

ملک کی تمام عدالتیں تمام امور و مقدمات بشمول مالی امور وغیرہ میں شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی اور شریعت کے خلاف فیصلوں کی کوئی قانون حیثیت نہیں ہوگی۔ اگرکسی عدالت میں یہ سوال اٹھایا جائےکہ آیا کوئی قانون یا فیصلہ شریعت کے منافی ہے تو اس مسئلہ کے تصفیہ کے لیےوفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔

دفعہ نمبر 5 ۔وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ اختیار:

وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ اختیار سماعت و فیصلہ، بلا استثنیٰ تمام امور و مقدمات پر حاوی ہوگا۔

دفعہ نمبر 6 ۔شریعت کے خلاف احکامات دینے پر پابندی:

انتظامیہ کا کوئی بھی فرد، بشمول صدر مملکت اور وزیراعظم ، شریعت کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکے گا اور اگر ایسا کوئی حکم دیا گیا تو اس کی کوئی قانونی حیثیت  نہیں ہوگی اور اسے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا، بشرطیکہ شکایت کنندہ کے لیے کوئی اور قانونی مداوا موجود نہ ہو۔

دفعہ نمبر 7 ۔عدالتی عمل او راحتساب :

حکومت کے تمام عمال، بشمول صدر مملکت، اسلامی قانون عدل کے مطابق احتساب سے بالاتر نہیں ہوں گے۔

دفعہ نمبر 8 ۔ 

مسلّمہ اسلامی فرقوں کے شخصی معاملات ان کے اپنے اپنے فقہی مسلک کے مطابق طے کئے جائیں گے۔

دفعہ نمبر9۔ غیر مسلم کو تبلیغ کی آزادی :

یہ شق حذف کردی گئی ہے (کیونکہ دفعہ (1) کی شق (ج) کے بعد اس کی ضرورت نہیں)

سفارشی دفعہ نمبر 10۔ علماء کو جج مقرر کیا جائے گا:

تمام عدالتوں میں حسب ضرورت تجربہ کار اور جید علمائے دین کا بحیثیت جج او رمعاونین عدالت تقریر کیا جائے گا۔

سفارش دفعہ نمبر 11۔ ججوں کی تربیت کے انتظامات:

علوم شرعیہ او ر اسلامی قانون کی تعلیم او رججوں کی تربیت کا ایسا انتظام کیا جائے گا کہ مستقبل میں علوم شرعیہ اور خصوصاً اسلامی قانون کے ماہر جج تیار ہوسکیں۔

دفعہ نمبر 12۔ قرآن و سنت کی تعبیر کا طریق کار :

قرآن و سنت کا تعبیر کا طریق کار وہی معتبر ہوگا جو مسلّمہ مجتہدین کے علم اصول تفسیر اور علم اصول حدیث و فقہ کےمسلّمہ قواعد و ضوابط کےمطابق ہو۔

دفعہ نمبر 13۔ عمّال حکومت کے لیے شریعت کی پابندی:

انتظامیہ، عدلیہ اور مقنّنہ کے ہر فرد کے لیے فرائض شریعت کی پابندی او رمحّرمات سے اجتناب کرنا لازم ہوگا۔

’’جو شخص اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا، وہ مستوجب سزا ہوگا ۔ (یہاں کوئی سزا متعین کردی جائے) بشرطیکہ کسی دیگر قانون کے تحت یہ جرم مستوجب سزا نہ ہو۔‘‘

دفعہ نمبر 14۔ ذرائع ابلاغ کی تطہیر:

تمام ذرائع ابلاغ سے خلاف شریعت پروگراموں ، فواحش او رمنکرات کی اشاعت ممنوع ہوگی۔ جو شخص اس کی خلاف ورزی کامرتکب ہوگا، مستوجب سزا ہوگا (یہاںمتعین طور پر سزا کا ذکر کرنا مناسب ہوگا مثلاً دو سال قید بامشقت اور جرمانہ)بشرطیکہ کسی دوسرے قانون کے تحت یہ جرم مستوجب سزا نہ ہو۔

دفعہ نمبر 15۔ حرام کی کمائی پر پابندی:

خلاف شریعت کاروبار کرنا او رحرام طریقوں سے دولت کمانا ممنوع ہوگا۔جو شخص اس کی خلاف  ورزی کامرتکب ہوگا، مستوجب سزا ہوگا(یہاں سزامتعین کی جائے گی)بشرطیکہ کسی دوسرے قانون کےتحت یہ جرم مستوجب سزا نہ ہو۔

دفعہ نمبر 16۔ بنیادی حقوق کاتحفظ:

شریعت نے جو بنیادی حقوق  باشندگان ملک کو دیئے ہیں، ان کے خلاف کوئی حکم نہیں دیاجائے گا۔

دفعہ نمبر 17۔ قواعد سازی کے اختیارات:

اس ایکٹ کے مقاصد کے حصول اور شریعت کے عملی نفاذ او راس قانون پرعملدرآمد کرانے کے لیے مرکزی حکومت کو اختیار ہوگا کہ ضروری قواعد وضع کرے۔ ان قواعد کا نفاذ اس دن سے ہوگا جس دن مرکزی حکومت انہیں گزٹ میں شائع کرے گی۔

.........................................

(نمائندگان کے دستخط )

1۔   محمد عبدالقیوم ، ناظم اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور

2۔   حافظ عبدالرحمٰن مدنی، رابطہ علمائے اہل حدیث پاکستان

3۔   محمداجمل غفرلہ، نائب امیر مرکزی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان

4۔   محمد اسلم سلیمی، نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان

5۔   میاں شیر عالم ایڈووکیٹ لاہور ،نائب صدر ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹز