اسلام میں غلامی کا تصّور
یورپ نے اسلام پرجو اعتراضات او ربہتان تراشیاں کی ہیں، ایک طویل کہانی اور دلخراش داستان ہے۔ اسلام سے اپنا پرانا بدلہ چکانے کے لیے مغرب مفکرین نے اپنا پورا زور قلم اسلام کو بدنام کرنے کے لیے وقف کرڈالا۔ اپنی صدیوں کی بربریت اور ظلم کو چھپانے کے لیے انہوں نے اسلام کو ایک ایسے خونخوار مذہب کا نام دیا، جو اپنے پیروکاروں کو انسانیت کا خون بہا کر جنت کا وارث بننےکی تعلیم دیتا ہے۔جو عورت کو مرد کے برابر حقوق نہیں دیتا او راسے گھر کی چاردیواری میں بند کرنا اجر عظیم قرار دیتا ہے۔ جوقطع اعضاء کی وحشیانہ سزائیں سناتا اور غلامی کو جائز قرار دے کر انسانیت کی تذلیل و توہین کامرتکب ہوتا ہے یہ او راسی طرح کے بیسیوں لغو اعتراضات مغربی مفکرین نے اسلام پر کرکے اپنی ذہنی ، فکری اور قلبی تسکین کا سامان مہیا کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔
دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے وہ دانشور اور مفکرین ، جو مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا شکار ہیں، مغرب کے ان نظریات کو یوں قبول کرچکے ہیں کہ وحی آسمانی کو بھی ان کے ہاں اس قدر پذیرائی حاصل نہیں۔ چنانچہ ان کا یہ ایمان بن چکا ہے کہ مغرب سے ہر آنے والا نظریہ اور فلسفہ قبول کئے بغیر ان کے لیے کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ لوگ تحقیق کی ان وادیوں اور علم کی ان چوٹیوں کو سر کرچکے ہیں کہ جن کا تصور بھی دوسروں کے لیے محال ہے۔
اس احساس کمتری میں مبتلا انیسویں صدی کے وہ مؤرخ اور سکالرز ہیں جن کی ساری تعلیم کا منبع اور فکری جولانگاہ مغربی فلاسفرز کے افکار و نظریات ہیں۔ ان کی ذہنی، فکری پرورش اسی ماحول کی رہین منت ہے۔ انہوں نے اپنی تاریخ، تہذیب اور تمدن کا مطالعہ انہی کی لکھی ہوئی کتابوں سے کیا، او راپنے اسلاف کی زندگیوں کا نمونہ انہی کی مرتب کی ہوئی تاریخوں میں، مغربی تہذیب کے عشق کی رنگین عینک لگا کر دیکھا۔ وہ یہودی اور عیسائی مفکرین، جو طلوع اسلام سے لے کر آج تک اپنی اسلام دشمنی کو نہیں بھول سکے تھے او ریہ عداوت ان کے خمیر میں گُندھی اور رچی بسی ہوئی تھی، انہوں نے اسلام کو بدنام کرنےکے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ مسلمانوں کےزوال کے بعد ان لوگوں نے تحقیق کے دلکش نام پراسلامی تاریخ و تہذیب کو بھینگی آنکھ کے ساتھ دیکھنا اور کھنگالنا شروع کیا اور اپنی ان کج بینیوں کو اپنی سیاسی قوت کی بنیاد پر تمام مفتوحہ اور مقبوضہ ممالک میں پھیلایا۔یورپ کو اس سلسلہ میں مکمل کامیابی حاصل ہوئی او رمغلوب اقوام نے ’’الناس علیٰ دین ملوکھم‘‘ کی تصویر پیش کرت ہوئے بغیر کسی تحقیق اور غوروخوض کے ان کی ہرزہ سرائیوں کو قبول کرلیا۔
چالاک اور مکار اقوام کا یہی وطیرہ اور دستور ہوتاہے کہ جب سیاسی غلبہ حاصل کرلیتی ہیں تو مغلوب اقوام کے ذہنوں کو مسخر کرنے کے لیے اور ان پراپنی گرفت کو مضبوط رکھنے کے لیے ان کی تاریخ کومسخ کردیتی ہیں۔ تاریخ، جس کی مثال ایک صاف اور شفاف آئینہ کی ہوتی ہے اور جس میں قومیں اپنے صحیح خدوخال کو پہچانتی ہیں، اپنے ماضی کو پڑھ کر اپنے حال کو سنوارتی اور مستقبل کی تدبیر کرتی ہیں، جب اس آئینہ ہی کو خراشوں سے بھردیا جائے تو اس میں اپنا چہرہ دیکھنے والوں کو اپنے اپ سے نفرت ہونےلگتی اور خوف آنےلگتا ہے۔دنیائے اسلام میں خصوصاً برصغیر میں انگریزوں نے ہمارے ساتھ یہی کچھ کیا۔ چنانچہ ہمارے اسلاف اور بزرگوں پر وہ کیچڑ اچھالا گیا کہ دیانت و اخلاق کی تمام حدود کو پامالکردیا گیا اور ہم اسی آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنے لگے۔
سرور عالمﷺ، جو بھٹکی ہوئی دنیاکو راہ ہدایت دکھانے کے لیے تشریف لائے تھے، جنہوں نے اس کراہتی او رسسکتی ہوئی انسانیت کو فضول، بیہودہ رسوم و رواج کی بوجھل زنجیروں سے آزاد کیا، جو ’’ویضع عنھم اصرھم والاغلٰل التی کانت علیہم‘‘ کا مصداق تھے، جنہوں نے انسانیت کو محبت، اخوت او رمساوات کا درس دیا۔ جو اس جہان کے لیے رحمت بن کر آئے اور جو معلم اوّل او رحکیم اعظم تھے، ان پرطرح طرح کے الزامات لگائے گئے۔ ہمارے اسلاف کو چور، ڈاکو او رلٹیرے کہا گیا۔اسلامی تاریخ کوانسانی خون سے رنگین گردانا گیا، مسلم سکالرز اورعلماء کو جاہل کے نام سےپکارا گیا اور اس پر ہزاروں صفحات سیاہ کئے گئے، بایں ہمہ اپنے محقق اور مصنف مزاج مؤرخ ہونے کا ڈنڈھورا بھی پیٹا گیا۔ ایسی بے شمار کتابیں آج بھی بازار میں دستیاب ہیہں۔
انگریزی سکولوں مین آج وہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، جن میں “My Dog Tipo” کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ ٹیپو سلطان کو ذلیل کرنے کے لیے کتوں کے نام ٹیپو رکھے گئے اور سادہ لوح مسلمانوں کا اس کا احساس تک نہیں ۔ بہرحال اس سیاسی زوال نے مسلمانوں کے علمی اور فکری سوتوں کو خشک کردیا۔غلامانہ ذہنیت کے حامل مسلمان، غیروں کے فکری، علمی اور تہذیبی حملوں کے جواب کی سکت نہ پاتے ہوئے، ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوگئے اور آج تک یہ حملے تہذیب اسلامی کی عمارت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنےکے لیے کئے جارہے ہیں۔ اللہ کاشکر ہے کہ انیسویں صدی میں ان حملوں سےبچنے کے لیے امت نے ایک کروٹ لی ہے، لیکن ایک شعلہ بن کر پھر سے پوری دنیا کومنور کرنےکا قرض اس اُمت کے ذمے ابھی باقی ہے۔ کیونکہ یہ اسی مقصد کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘‘ کی صدا ہروقت ان کے کانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ کسی صلاح الدین ایوبی او رمحمد بن قاسم کی تلاش میں یہ تاریخ سرگرداں ہے۔اللہ کرے وہ اُمت مسلمہ کو میسر آجائیں تو امت اپنی راہ پرچل پڑے او ردنیا میں پھر ایک مرتبہ اسلام کاغلغلہ بپا ہو۔ اقبال نے کہا تھا۔ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
مستشرقین نے اسلام پر جن اعتراضات سے اسلام کے نام لیواؤں کے ناپختہ ذہنوں کو مسموم کرنے اور تہذیب اسلامی کے رخ زیبا کو داغدار کرنےکی مذموم کوشش کی ہے، ان میں ایک اہم اعتراض ’’غلامی کا مسئلہ ‘‘ بھی ہے۔ جس پر آج تک اسلام کو مطعمون کیا جاتا رہا ہے، کہ ’’یہ بھی کوئی مذہب ہے جس نے انسانوں کی خرید و فروخت کو جائز رکھاہے؟‘‘ ’’اس سے بڑھ کر انسانیت کی اور تذلیل کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ ’’مسلمانوں نے اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے پوری دنیا کی حسین ترین دو شیزاؤں کو باندیاں بنایا اور آزادی کی نعمت عظمیٰ سے محروم کیا۔ وغیرہ وغیرہ‘‘
کیا یہ اعتراضات صحیح ہین اور اسلام میں غلامی کا یہی تصور ہے ۔ ذیل میں ہم انہی اعتراضات کا ایک محققانہ جائزہ پیش کرتے ہیں۔
غلامی کے بارے میں اعتراضات :
- کمیونسٹ اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اسلام زندگی کے تمام ادوار کے لیے موزوں اور ان سے ہم آہنگ ہوتا تو وہ انسانوں کو غلام بنانے کی اجازت نہ دیتا اور نہ ہی غلامی کو برداشت کرتا۔چنانچہ اسلام میں غلامی کے مسئلے کا پایا جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دین تاریخ کے ایک خاص دور کے لیے تھا ۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔[1]
- جے جے پول اپنی کتاب ’’سٹڈیز ان محمڈنزم‘‘ میں لکھتا ہے کہ:
’’اسلامی ممالک میں غلام اتنے نہیں تھے جتنی باندیاں ہیں۔مسلمانوں کے شہروں میں جو غلامی کا رواج پایا جاتاہے ، تو اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن نے انہیں اس کی اجازت دی ہے کہ وہ گرفتار ہونے والی عورتوں کو باندیاں بناکر رکھیں اور ان کےساتھ ہمبستری کریں۔ ایک منکوحہ بیوی کے ساتھ کتنی ہی باندیاں کے اضافے کی اجازت نے مسلمانوں کو سیلا بہائے بدی کے صرف دروازے ہی نہیں کھولے، بلکہ غلاموں کی گردنوں میں لوہے کی ایسی زنجیریں ڈال دی ہیں، جنہوں نے غلامی کے رواج کو اسلامی ممالک میں پسندیدہ بنا دیا ہے۔‘‘ [2]
- موئر اپنی کتاب ”Life of Mohammad” میں لکھتا ہے:
’’جہاں تک مسلمان آقاؤں کی سطوت کے تحت باندیوں کے ہونے کا تعلق ہے ، انسانی تحقیر و تذلیل کا کوئی تصور اس سے زیادہ بھیانک نہیں ہوسکتا۔ باندیوں کے ساتھ حقیر مخلوق کا سا معاملہ کیا جاتا۔ جب شادی کے قابل ہوتی تھیں تو انہیں شادی کے حقوق سے محروم کردیا جاتا۔‘‘
- یہی مصنف دوسری جگہ لکھتا ہے:
’’عورتوں کی غلامی ، باندیوں کے ساتھ ہمبستری کرنے کی ایک شرط ہے۔لہٰذا مسلمان کبھی اپنی خوشی سے اسےختم نہیں کریں گے۔‘‘ (ص 247)
- ’’غلامی کی تعلیم اسلام کے عین مطابق ہے۔ لیکن مذہب عیسوی کو غلامی سے نفرت ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ محمد ﷺ نے غلامی میں اصلاح کی، لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ شارع عرب کامنشاء غلامی کو ہمیشہ رکھنےکا تھا۔‘‘[3]
اسلام کو بدنام کرنےکے لیے عیسائی مصنفین اکثر یہ بات اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو ملک ملک کی حسین دوشیزاؤں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا تھا۔ اسی لیے انہوں نےغلامی کے رواج کو باقی رکھا۔
علاوہ ازیں اسی طرح کے مزید اعتراضات، جو صرف غیروں کی طرف سے نہیں بلکہ ان اپنوں کی طرف سےبھی ہیں جنہیں غیروں کی آشیر باد حاصل ہے، درج ذیل ہیں:
- ایک انسان کی اس سے زیادہ توہین کیاہوسکتی ہے کہ اسے ڈھور ڈنگروں کی طرح بیچا جائے، خریدا جائے اور ہبہ کیا جائے؟
- غلام کی کوئی ملکیت نہ ہو او روہ گویا صرف دوسروں کی خدمت او رتکلیفیں سہنے کے لیے دنیا میں آئے ہیں۔
- یہ چیز کتنی بھیانک اور بُری ہے کہ ایک عورت محاذ پر سے پکڑی جائے او راس کی خواہش کے برعکس اسے اپنی خواہشات نفسانی کا تختہ مشق بنایا جائے او رکوئی نکاح کی صورت بھی نہ ہو؟
- جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوتے ہیں، حقیقت میں وہ اس حکومت کے مہمان کی حیثیت میں ہوتے ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ انہیں مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے۔؟
غلامی کی ابتداء او رتاریخی پس منظر :
اس سے پہلے کہ ہم مندرجہ بالا اعتراضات کا جائزہ لیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وضاحت کردی جائے، غلامی کی ابتدا کیسے ہوئی۔ کیا اسلام غلام کا ذمہ دار ہے یا غلامی اتنی ہی پرانی ہے، جتنی کہ یہ کائنات خود پرانی ہے؟ سید امیر علی لکھتے ہیں:
“The practice of salavery is co-evil with human existance. Histerically its traces are visible in ever age and in every nation.”
یعنی جب سے نسل انسانی وجود میں آئی ہے، غلامی بھی اس کے ساتھ موجود تھی، تاریخی طور پر ہر قوم او رہر زمانے میں اس کے نشانات ملتے ہیں۔ یہودی، عیسائی، رومی اور پرانی جرمن اقوام میں دونوں طرح کی غلامی موجود تھی۔
غلام او رلونڈی کا سب سے بڑا ذریعہ جنگیں تھیں، جن میں فاتح قوم مفتوح قوم کے لوگوں کو غلام اور باندیاں بنا لیتی تھیں۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہےکہ جب سے دنیا میں جنگ کا وجود پایا جاتا ہے، اسی وقت سے غلامی بھی موجود ہے۔
نیبور نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ:
’’ابتداء میں انسان کو جانور پالنے کی عادت تھی، اس عادت نے بڑھتے بڑھتے انسانوں کو پالنے کی عادت اور شکل اختیار کرلی او راس کو غلامی کہا جانے لگا۔‘‘ (انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھپکس ص596)
بہرحال تاریخ پس منظر میں جب ہم غلامی کو دیکھتے ہیں تو یہ تمام قدیم مذاہب اور اقوام میں پائی جاتی ہے۔
یہودیت میں غلامی کا وجود :
سفر الخروج بحوالہ ’’اسلام میں غلامی کی حقیقت‘‘ صفحہ 34 پر ہے کہ:
یہودی شریعت میں تین صورتوں میں ایک شخص دوسرے کو غلام بناسکتا تھا:
- کوئی شخص کسی کا قرض ادا نہ کرسکے، تو قرض اداکردینے والے کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ مقروض کو غلام بنالے۔
- کسی شخص نے چوری کی اور اب وہ مال واپسں نہیں کرسکتا، تو مال کے مالک کو حق تھاکہ وہ چور کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کردے او رپیسے ادا کرنے والا چور کو غلام بنا لے۔
- والدین اپنی اولاد کو کسی کےہاتھ بیچ ڈالیں۔
اس لیے اکثر یہودی، غلامی کی تجارت کا کاروبار کرتے تھے۔ البتہ یہودی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں غلاموں کے حقوق باقی قوموں سےزیادہ تھے۔
عیسائیت میں غلامی:
’’انجیل میں غلامی کی مذمت کہیں نہیں کی گئی۔‘‘ [4]
مسٹر ۔ ایل۔ڈی ۔ اگیٹ لکھتا ہے کہ:
’’ہمارے حضرت مسیح علیہ السلام نے غلامی ایسی وحشیانہ رسم کی مذمت کیوں نہیں کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
- ہمارے آقا نے اپنی تعلیمات ایسےطریقے سے پیش کی ہیں جو ہر زمانہ کے سیاسی حالات کے ماتحت قابل عمل ہوں۔
- یک لخت غلامی کے رواج کا خاتمہ کردینے اور اس کے لیے کوشش کرنے سے روحانی سوسائٹی کے نظام معاشرت کو صدمہ عظیم پہنچتا تھا۔
- گرجا کا ابتدائی عہد اس امید پر تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پھر دوبارہ جلد تشریف لائیں گے۔ اس بنا پر غلامی جیسی مادی چیز پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔‘‘ [5]
عیسائیوں کے ہاں غلامی کی مذہباً اجازت تھی اور یورپ والوں نے افریقہ کے سیاہ فام لوگ اس کثیر تعداد میں غلام بنائے کہ بعض قوموں کےنام و نشان تک مٹ گئے۔ بازاروں میں غلاموں کی کھلم کھلا تجارت ہوتی او راسی مقصد کے لیے مستقل بازار اور منڈیاں قائم تھیں۔
یورپ میںغلام جس کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے، اس کا پورا نقشہ مسٹر سی۔ پی۔ اسکاٹ ان الفاظ میں کھینچتا ہے:
’’یہ غریب باربردار جانوروں کی فہرست میں شامل تھے او ران کی انہی جیسی قدروقیمت تھی۔ ان کو وہ تمام سختیاں اٹھانی پڑتیں جو طمع اور خوئے بد، اختراع کرسکتی تھی۔ صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے جاگیر داروں کے جبر و ظلم کو سہتے تھے، بلکہ اگر کوئی جاگیر کسی دوسرے کومنتقل ہوتی تو دستاویزات میں ان کانام بھی شامل ہوتا۔کیونکہ قانون نافذ الوقت کے مطابق ان کوجاگیر کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ جیسے اینٹ، پتھر، درخت او رجھاڑیاں وغیرہ۔ جاگیردار،ان سے سارا دن کام لیتے او رجہاں جانور باندھے جاتے تھے، وہیں ان کا مقام ہوتا۔ ان کی گردن میں دھات کا طوق پڑا رہتا اور اس پر ان کے آقا کا نام کندہ ہوتا۔ انہیں کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ اس طرح وہ اسی زمین کی مٹی ہوجاتے جس میں وہ کام کرتے تھے اور موت ہی آکر انہیں اس مصیبت سے رہائی دلاتی تھی۔بیکسی او رجانکاہی کی کوئی مثال او رانسانی ظلم و ستم کی کوئی داستان دنیابھر میں ایسی نہیں ملتی جیساکہ قرون متوسط میں غلاموں کی تھی۔غلاموں کے خاندانوں کی عورتوں کی عزت اور عصمت بالکل آقاؤں کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔‘‘[6]
جیساکہ میں نے عرض کیا، دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں تھی جس میں غلامی کی بدترین شکلیں موجود نہیں تھیں۔ اہل فارس، اہل چین اور یونان و مصر میں غلام اپنی زندگی کو آہوں اور سسکیوں کے عالم میں گزار رہے تھے۔
اہل روم میں غلامی کی صورت :
غلامی کی تاریخ میں عہد روما بہت بدنام، او رغلاموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں بہت مشہور اور مذموم ہے۔ صرف اس موضوع پربے شمار کتابیں لکھی گئیں ہیں۔اس سلسلہ میں مسٹر آر۔ ایچ بارد کی لکھی ہوئی کتاب “Slavery in the Roman Empire”بہت قیمتی معلومات کا ذخیرہ ہے۔[7]
رومیوں کے عہد میں غلاموں کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا ، بلکہ محض جنس تجارت خیال کیا جاتات ھا۔ انہیں کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ مگر یہ کٹھن فرائض اور ذمہ داریوں سے گرانبار تھے۔ یہ غلام کہاں سے آتے تھے؟ ان کا سب سے بڑا ذریعہ جنگیں تھیں، جو کسی بڑے نصب العین کے لیےنہیں لڑی جاتی تھیں، بلکہ دوسروں کو غلام بنانے کے لیے برپا کی جاتی تھیں۔چنانچہ ان جنگوں میں جو لوگ پکڑے جاتے وہ غلام بنا لیے جاتے۔ ان جنگوں کامقصد اہل روما کے لیے عیش و عشرت کے سامان، ٹھنڈے اور گرم حمام، ملبوسات فاخرہ، لذیذ کھانے اور دوسرے لذائد حیات فراہم کرنا تھا۔[8]
جنگوں میں جو لوگ گرفتار ہوتے، انہیں روما کے بازاروں میں بہت کم قیمت پر فروخت کردیا جاتا۔ وہ لڑکے اور لڑکیوں کو چرا لاتے اور غلام باندیاں بناکر بیچ دیتے۔ ان کا عام دستور تھاکہ جس غلام کوبیچنا ہوتا اسے پتھر کی ایک چٹان پرکھڑا کردیتے تاکہ ہر گاہک اسے دیکھ سکے۔[9]
غلاموں کو سزائیں اور رومی زندگی کی بھیانک تصویر:
غلاموں کو سزا دینے کے بدترین طریقے رائج تھے۔ اگر کسی غلام سے ادنیٰ سا جرم سرزد ہوجاتا تو اس کی کمر کے ساتھ ایک بھاری پتھر باندھ دیاجاتا اور اسی صورت میں اسے کھیتوں میں کام کرنےکے لیے کہا جاتا۔ بطور سزا غلاموں کو الٹا لٹکا دیا جاتا اور بڑی وزنی چیزیں ان کے جسم کے ساتھ باندھ دی جاتیں او راتنامارا جاتا کہ وہ بیچارے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔[10]
رومی استعمار کیحرص و ہوس کے لیے سامان عیش و عشرت فراہم کرنےکی خاطر غلاموں کے ریوڑ دن بھرکھیتوں میں جُتے رہتے۔ اس کے باوجود ان کو پیٹ بھر کر کھانےکو نصیب نہیں ہوتا تھا، بلکہ صرف اتنا دیا جاتا کہ جس سے ان کا رشتہ جسم و روح برقرار رہتا، بے جان درختوں اور وحشی درندوں سے بھی ان کی حالت گئی گزری تھی۔ دن کے وقت ان کوبیڑیاں پہنا دی جاتی تھیں تاکہ وہ بھاگ نہ جائیں۔ ان کی پیٹھوں پربے تحاشا کوڑے برسائے جاتے۔ کیونکہ آقا اور مقامی کارکن انہیں اذیت پہنچانے میں لذت محسوس کرتے تھے۔ شام کو جب کام ختم ہوتا تو دس دس، پچاس پچاس کی ٹکڑیوں میں بانٹ کر مویشیوں کی طرح انہیں غلیظ، بدبودار، چوہوں او رکیڑے مکوڑوں سے پٹے ہوئے باڑوں میں بند کردیا جاتا۔[11]
ایک وحشیانہ کھیل :
آقاؤں کی ضیافت طبع کے لیےکچھ غلاموں کو تلواریں او رنیزے دے کر اکھاڑے میں دھکیل دیا جاتا۔اکھاڑے کے چاروں طرف تماشائیوں کی نشستیں بنی ہوتی تھیں، جن پر ان غلاموں کے آقا اور بعض اوقات خود شاہ روم رونق افروز ہوتا۔ کھیل شروع ہوتا، غلام تلواروں اورنیزوں سے ایک دوسرے پر پل پڑتے یہاں تک کہ ایک دوسرے کا قیمہ بن جاتا۔ جو خوش قسمت بچ جاتے وہ فاتح سمجھے جاتے ، ان کے لیےتالیاں پیٹی جاتیں اور خوشی کے نعروں اور قہقہوں سے ان کااستقبال کیا جاتا۔[12]
ٹیٹوس جو نسل انسانی کا دُلارا(Darling of the Human Race) کہلاتا ہے، اس نے ایک دفعہ پانچ ہزار درندوں کو پکڑوایا او رکئی ہزار یہودی قیدیوں کو ان کے ساتھ ایک احاطہ میں چھوڑ دیا۔ ٹراجان کے کھیلوں میں گیارہ ہزار درندے اور دس ہزار آدمی بیک وقت لڑائے جاتے تھے۔کلاڈیوس نے ایک دفعہ ایک جنگی کھیل میں 19ہزار آدمیوں کو تلواریں دے کر ایک دوسرے سے لڑا دیا۔ قیصرآگسٹس نے اپنی وصیت کے ساتھ جو تحریر منسلک کی تھی، اس میں لکھتا ہے کہ ’’میں نے 8 ہزار شمشیر زنوں اور 3510 جانوروں کے کھیل دیکھے ہیں۔‘‘ یہ سب تفریحات جنگی قیدیوں کے دم قدم سے چل رہی تھیں۔[13]
رومی قانون میں غلاموں کے لیے اس قدر سخت قوانین تھے کہ اگر کوئی غلام اپنے آقا پر دست درازی کرتا تو اس کو او ربعض اوقات اس کےپورے خاندان کوموت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ۔[14]
611ء میں جب ہرقل کی تخت نشینی کے تھوڑا عرصہ بعد ا س کی بیوی پوڈوکیسیا کا انتقال ہوگیا اوراس کا جنازہ قبرستان کی طرف چلا تو اتفاق سے ایک لونڈی نے، جو ساتھ تھی، زمین پر تھوک دیا۔ اس قصور پر اسے گرفتار کیا گیا او راس کے قتل کا حکم دے دیا گیا ۔[15]
ایران کی حالت :
روم کی طرح ایران میں بھی اسیران جنگ کے لیے کسی قسم کی کوئی رعایت نہ تھی۔معمولی قیدی تو درکنار، خود قیصر روم والیریان جب شاہ پور اوّل کے ہاتھوں قید ہوا تو اسے زنجیروں سے باندھ کر شہر میں گشت کرایا گیا۔ عمر بھر اس سے غلاموں کی طرح خدمت لی گئی اور مرنے کے بعد اس کی کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھروا دیا گیا۔[16]
شاہ پور ذوالاکتاف کا واقعہ مشہور ہے کہ بحرین اور الحساء کے عرب اسیران جنگ سے انتقام لینے کے لیےاس نے حکم دیا تھا کہ ان کے شانوں میں سوراخ کرکے ان کے اندر رسیاں پروئی جائیں اور سب کو ملا کرباندھ دیا جائے۔اسی بنا پرتاریخ نے ان کو ’’ذوالاکتاف‘‘ کے نام سے یاد رکھا ہے۔[17]
الغرض غلام کی زندگی اور موت اس کے آقا پر منحصر تھی۔ وہ چاہتا تو اسے زندگی کی کوئی آسائش دیتا یا جانوروں سےبھی بدتر زندگی گزارنے پرمجبور کردیتا، جیسا کہ آپ نے اوپر اقتباسات ملاحظہ فرمائے۔ پورے معاشرے او رقوم کی ذہنی غذا اسی میں تھی کہ وہ غلاموں کی زندگیوں کو اجیرن بنائے رکھے۔ ان کے جسموں کو گرم لوہے سے داغنا، کسی جرم پران کے کان کاٹ دینا اور فرار ہوجانے پر انہیں قتل کردینا، روزمرہ کا مشغلہ تھا۔ غلاموں کےسلسلہ میں تقریباً یہی صورت حال تمام قوموں میں موجود تھی۔ (جاری ہے)
[1] ۔ اسلام اور جدید ذہن کے شبہات ، صفحہ 54
[2] ۔اسلام میں غلام کی حقیقت، صفحہ 11
[3] ۔ اسلام میں غلامی کی حقیقت، صفحہ 12
[4] ۔ انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھپکس
[5] ۔ ایضاً بحوالہ اسلام میں غلامی کی حقیقت
[6] ۔ اخبار الاندلس، جلد3 صفحہ223۔226
[7] ۔اسلام میں غلامی کی حقیقت صفحہ 44 بحوالہ۔الرّق فی الاسلام صفحہ 32
[8] ۔ اسلام اور جدید ذہن کے شبہات ، صفحہ 58
[9] ۔اسلام میں غلامی کی حقیقت صفحہ 43
[10] ۔ایضاً
[11] ۔اسلام او رجدید ذہن کے شبہات صفحہ 58
[12] ۔اسلام او رجدید ذہن کے شبہات ، صفحہ 40
[13] ۔ الجہاد فی الاسلام صفحہ 214
[14] ۔ “So Stantine the Great. P.57”بحوالہ الجہاد فی الاسلام صفحہ 214
[15] ۔ “Byzantine Empire. P.99” بحوالہ الجہاد فی الاسلام صفحہ 214
[16] ۔ “Skyes Vol.1”بحوالہ الجہاد فی الاسلام صفحہ 215
[17] ۔ “Skyes Vol.1”بحوالہ الجہاد فی الاسلام صفحہ 215