بیعتِ عقبہ ثانیہ او رحضرت عباس
ماہنامہ ’’ترجمان القرآن ‘‘ اگست 1986ء لاہور، میں ڈاکٹر سلیمان صاحب اظہر کا ایک مضمون شاوع ہوا ہے، جس میں موصوف نے ایک نئی تحقیق پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔بلا شبہ تحقیق کی تحسین ہونی چاہیے، مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر موصوف سلف کی تحقیقات کو چیلنج کرکے اس کوشش سے جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں، اس میں ناکام رہے ہیں، کیونکہ موصوف نےجو صغرٰی کبریٰ بنائے ہیں وہ صحیح نہیں۔ ظاہر ہے جب اصولاً صغرٰی کبریٰ ہی صحیح نہ ہوں تو صحیح نتیجہ کی توقع عبث ہے۔کچھ یہی حال ڈاکٹر صاحب موصوف کی تحقیق کا ہے ۔جس سے بعض غلط فہمیاں اور اسلاف کی کوششوں پر بداعتمادی کی فضا پیدا ہونےکا اندیشہ ہے۔جس کےازالہ کی خاطر درج ذیل سطور قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں۔
تاریخ و سیرت کی متداول کتب میں بیعت عقبہ ثانیہ کی جو تفصیل موجود ہے اور جس میں حضرت عباسؓ کی شرکت کا واضح ذکر ہے، ڈاکٹر صاحب نے اسے بیان کرتے ہوئے یہ باو رکرانے کی غرض سے، کہ حضرت عباسؓ اس موقعہ پر موجود نہ تھے، تین سوال اٹھائے ہیں، انہوں نے لکھا ہے :
’’اس واقعہ میں درج ذیل باتیں محل نظر معلوم ہوتی ہیں:
- کیا حضرت عباسؓ واقعتاً عقبہ میں آنحضرتﷺ کے ساتھ تشریف لے گئے تھے؟
- اگرمذکورہ بالا سوال کا جواب ہاں میں ہے ، تو کیا حضرت عباسؓ کا یہ فرمانا ’’ان کا خاندان ہمیشہ آنحضرتؐ کا سینہ سپر رہا ہے۔‘‘ درست ہے؟
- کیاان کی تقریر کے آخری حصہ کو ’’محمدؐ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں اگر تم ان کی حفاظت کرسکتے ہو تو لے جاؤ ورنہ ابھی سے جواب دے دو۔‘‘
اسی طرح ہونا چاہیے؟ کیا یہ حصہ معاملات کے لین دین میں ان کی مہارت کا اظہار کرتا ہے یا ان الفاظ کے ساتھ انہوں نے آنحضرتؐ کی پوزیشن کو انصار کے مقابلہ میں کمزور کردیا ہے؟‘‘
ان سوالات سےمعلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو براہ راست حضرت عباسؓ کی بیعت عقبہ میں شرکت سے انکار نہیں بلکہ اس کو تسلیم کرنے میں ان کے سامنے دو آخری صورتوں کا استحالہ ہے او رہم سمجھتے ہیں کہ اگر موصوف ذرا تحمل سے اس پورے واقعہ کا مطالعہ کرتے تو یہ رکاوٹ بھی ختم ہوجاتی۔کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ابوطالب کی وفات کے بعد بھی دو طرح کے لوگ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حفاظت و مدافعت فرماتے تھے۔ ایک طبقہ ان لوگوں کا تھا جو مسلمان ہوچکے تھے، جیسے حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ وغیرہ۔ دوسرے وہ جن کا حسب و نسب کی وجہ سےنبی علیہ السلام سےتعلق تھا۔ چنانچہ خود حضرت عباسؓ نے موقعہ عقبہ پر فرمایا:
’’یمنعہ واللہ منا من کان علیٰ قولہ ومن لم یکن منا علیٰ قولہ یمعنہ للحسب والشرف‘‘ [1]
چنانچہ جو لوگ مسلمان نہ ہونے کے باوجود صرف نسبی تعلق کی بناء پر آپؐ کا دفاع اور حفاظت کرتے تھے، ان میں حضرت عباسؓ بالخصوص پیش پیش تھے۔ بلکہ آپؓ، نبی علیہ السلام ہی نہیں دیگر نو مسلم صحابہ کریمؓ کو بھی پناہ دیتے تھے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’کان انصر الناس لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد ابی طالب....... وکان من ھناک من المؤمنین یتقون بہ ویصیرون الیہ......... فکان عونا لھم علیٰ اسلامہم‘‘[2]
اور ایسا ہوتا بھی کیوں نہ؟ کہ ایک تو حضرت عباسؓ آپؐ کے خصوصی تعلق دار تھے ، دوسرے آپؓ اپنےخاندان کے رئیس او رباحیثیت و بااختیار آدمی تھے۔ جس کا تقاضا یہی تھا کہ آپؓ حضور علیہ السلام کا تعارف کرواتے ہوئے یہ بتائیں کہ ہم نے ان کا ہمیشہ دفاع کیا او راس میں وہ من وجہ حق بجانب تھے کیونکہ وفات ابی طالب کے بعد انہوں نے ابوطالب کی طرح نبی علیہ السلام کی مکمل حوصلہ افزائی فرمائی او رابوطالب کی کفالت سے لے کر اس موقعہ تک کی طویل مدافعت و صیانت کو اگر خاندان کی طرف منسوب کیا ہے تو یہ خلاف واقعہ نہیں۔ البتہ جہاں تک بعض تکالیف اور آزمائشوں یا اسفار و پناہ کا تعلق ہے تو یہ تمام کچھ شعب ابی طالب میں نظر بندی سے بہرحال کمتر ہیں۔ جس سے ابوطالب کی وفا و مدافعت کو چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔ پھراس تعبیر پریہ شہادت بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ نقض صحیفہ کے وقت ہشام بن عمرو، زہیر بن امیۃ، مطعم بن عدی اور ابوالبختری کا کردار غیر مسلم ہونےکے باوجود انسانی ہمدردی او رخاندانی جذبات کا مظہر ہے ۔ جس سے آپﷺ کوشعب ابی طالب سے آزادی نصیب ہوئی۔
جہاں تک دوسری صورت استحالہ کا تعلق ہے تو اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو حضرت عباسؓ کے مذکورہ حصہ خطاب کے بعد یہ سمجھنابالکل آسان ہوجاتاہے کہ انہوں نے یہ الفاظ آنحضرتﷺ کی پوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے نہیں، بلکہ مضبوط اور بہتر بنانےکےلیے فرمائے تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ شخص خاندا ن کا راندہ نظر ہے۔ بلکہ یہ باور کریں کہ ہم آج بھی آپؐ کی حفاظت کا ذمہ اٹھا سکتے ہیں او رحضرت عباسؓ کا نبی علیہ السلام سے تعلق و معمول بھی اس نتیجہ کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ الفاظ آپؐ کی پوزیشن کو کمزور کرنےکے لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’اگر حفاظت نہیں کرسکتے تو ابھی جواب دےدو‘‘ پھر اگ رمعاہدات اور خاندانوں اور اقوام کے حلیف بننےکی روشنی میں اس بات کو دیکھا جائے تومعلوم ہوگا کہ حضرت عباسؓ نے آپؐ کو کمزور نہیں بلکہ خود دار، بااثر اور حسب و شرف والی شخصیت کے طور پر متعارف کرایا اور پوزیشن کے کمزور کرنے والانتیجہ حضرت عباسؓ کی اس وضاحت کے بعد اخذ کرنا قطعاً درست نہیں جس میں آپؐ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے مسلمان نہ ہونے کے باوجود اپنے ہم فکر لوگوں سے آپؐ کو تحفظ دیا۔ آپؐ اپنی قوم میں باعزت اور شہر مین محفوظ ہیں، لیکن اس کے باوجود آپؐ کی خواہش ہےکہ وہ آپ لوگوں کے پاس آئیں ۔‘‘ ان کے الفاظ ہیں:
’’وقد منعناہ من قومنا ھو علیٰ مثل راینا فیہ فھو فی عزۃ من قومہ و منعۃ فی بلدہ وانہ قد ابیٰ الا الانحیاز الیکم واللحوق بکم‘‘ [3]
اور یہ خواہش و ارادہ بھی آپﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کی تبلیغ سے مسلمان ہونے والے انصار کی فرمائش پر فرمایا۔ علاوہ ازیں اگر حضرت عباسؓ کے یہ الفاظ فی الواقع آپؐ کی پوزیشن کمزور کرنےکے مترادف تھے تو پھر آپﷺ کو خود چاہیے تھا کہ اس کی وضاحت فرماتے۔کیونکہ عام حالات میں کوئی بھی ایسا گوارا نہیں کرسکتا۔ مگر آپﷺ نے خود فرمایا:
’’وعلیٰ ان تنصرونی فتمنعونی اذا قدمت علیکم مما تمنعون منہ انفسکم وازواجکم و نساءکم ولکم الجنۃ‘‘[4]
یعنی ’’مجھ سے اس بات پر معاہدہ کرو کہ میرا تعاون کرو گے اور جس طرح اپنی یا اپنے اہل و عیال کی حفاظت و مدافعت کرتے ہو، میری آمد کے بعد میری بھی مدافعت کرو گے تو اس کے بدلے جنت پاؤ گے۔‘‘
یہی نہیں بلکہ اس کے جواب میں انصارؓ نے بھی کہا کہ ’’اگر آپؐ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے تو ہمیں بھلا کر کسی اور کو ترجیح تو نہیں دیں گے؟ تو آپ ؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا)
’’انا منکم و انتم منی احارب من حاربتم و اسلم من سالمتم‘‘
یعنی ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اب تمہارا او رمیرا تعلق ایک جسم کا سا ہے جس سے تمہاری لڑائی ہوگی، میں بھی اس کے خلاف لڑوں گا او رجس سے تمہاری صلح و پناہ ہوگی ، میں بھی اس سے صلح رکھوں گا۔‘‘
اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ فریقین بھی ایک دوسرے سے معاہدہ میں تحفظات کے طالب تھے، جس میں کسی کی خفت و کمزوری کا کوئی پہلو نہیں۔
بیعت عقبہ ثانیہ میں حضرت عباسؓ کی عدم شرکت کے موقف کو ثابت کرنےکے لیے، ان باتوں کے علاوہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے بعض خارجی سہارے بھی تلاش کئے ہیں۔جن کا ذکر بھی مختصراً ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ:
’’آپؐ نے معززین طائف سےکہا تھا کہ اہل مکہ کو میرے اس مشن کے بارے میں نہ بتانا لیکن انہوں نے یہ بات بھی ماننے سے انکار کردیا۔‘‘
اس عبارت میں موصوف نے ’’مشن‘‘ کالفظ لا کر اور آخری الفاظ کا اضافہ کرکے دراصل اپنی بات کو مصنوعی وزن دینے کی نہ صرف کوشش کی ہے بلکہ اوراق تاریخ سے بھی زیادتی کی ہے۔ جو تاریخ بیان کرنے سے زیادہ تاریخ سازی کے ضمن میں آتی ہے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ کا نہمشن کسی سے مخفی تھا اور نہ اس کی تبلیغ میں اسفار پوشیدہ تھے۔ البتہ جو بات آپؐ نے فرمائی وہ صرف یہ تھی کہ ہماری جو گفتگو ہوئی ہے اور تم نے جو میری دعوت پر ردّعمل کیاہے، میری قوم تک نہیں پہنچنا چاہیے۔کیونکہ اس سے وہ مزید اپنے مؤقف پراڑ جائیں گے جیساکہ تاریخ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔
’’فقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من عندھم وقد یئس من خیر ثقیف وقد قال لھم اذا فعلتم ما فعلتم فاکتموا عنی وکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان یبلغ قومہ عنہ فیذئرھم ذٰلک علیہ‘‘ [5]
واقعہ دراصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ طائف میں جن تین سرداروں عبد یا لیل، مسعود اور حبیب بن عمرو کے پاس گئے ، انہوں نے کچھ جواب اس قسم کے دیئے تھے جو نہ صرف مایوس کن تھے بلکہ اگران کا اہل مکہ کو علم ہوتا تو وہ سمجھتے کہ اب اس شخص کو نہ اندرون خانہ قبولیت ہے نہ بیرون مکہ۔لہٰذا اس قسم کے آدمی کے خلاف جو بھی انتہائی قدم اٹھایا جائے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن اتفاق ہے کہ اہل طائف نے کوئی بات بتائی یا نہ، اس واقعہ کے بعد آپؐ کے خلاف کارروائیاں سخت ہوگئیں۔ جس کا ثبوت دارالندوہ کی مشاورت ہمارے سامنے ہے۔
جہاں تک حضرت عباسؓ کے مذکورہ الصدر الفاظ کے ضمن میں اس بات کا تعلق ہے کہ مطعم بن عدی نے پناہ کیوں دی یا اس کی پناہ کو کسی نے چیلنج کیوں نہ کیا؟ بظاہر یہ بات بڑی معقول معلوم ہوتی ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ حافظ ابن کثیر کی وضاحت کے مطابق یہ پناہ ملنے کے چند دن بعد حضور علیہ السلام ہجرت فرما جاتے ہیں، تو اس چند دنوں کے قلیل عرصہ میں اس پناہ پراہل خاندان کی طرف سے کسی خاص ردّ عمل کی ضرورت نہ تھی۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مطعم بن عدی کی یہ پناہ مستقل تھی یاعارضی؟ ہمارے خیال میں یہ پناہ عارضی او رجزء وقتی بلکہ دفع الوقتی تھی۔ جیسا کہ روایات ابن کثیر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام ایک رات مطعم بن عدی کےپاس ٹھہرے ، صبح مطعم او راس کے لڑکوں کے ساتھ طواف کے لیے تشریف لائے اور اس کے بعد ظاہر ہے وہ اپنی جگہ پرچلے گئے مگر نبی علیہ السلام مکہ ہی میں رہے۔ ا سپناہ کے جزء وقتی ہونے پر دیگر قرائن کے علاوہ یہ شہادت بھی ہےکہ مطعم بن عدی کا ہجرت سے تقریباً ایک ماہ بعد انتقال ہوا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے خلاف اہل مکہ کی آخری گھناؤنی سازش قتل دارالندوہ میں مطعم بن عدی کی زندگی ہی میں ہوئی۔ اب اس کی پناہ اگر باقی اور دائمی ہوتی تو وہ ضرور کوئی قدم اٹھاتا، مگر اس کے برعکس تاریخ گواہ ہے کہ اس سازش میں نہ صرف مطعم بن عدی کابھائی طعیمہ بن عدی شریک تھا بلکہ خود اس کا لڑکا جبیر بن مطعم بھی شامل تھا۔جس سے ظاہر ہے کہ پناہ باقی نہ رہی تھی یا پھر اس قد رکمزور پناہ تھی کہ خود مطعم کے اہل خانہ بھی اس کا احترام نہ کرتے تھے۔ تو ایسی پناہ کا آنحضرتﷺ کو کیافائدہ یا ہاشمیوں پرکیا اثر ہوسکتا تھا؟
او رجہاں تک اس بات کا تعلق ہےکہ بیعت عقبہ میں آنحضرتﷺ مطعم بن عدی یا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کونظر انداز کرکے حضرت عباسؓ کو کیوں لے گئے؟ یہ بات بھی بظاہر بڑی وزنی معلوم ہوتی ہے، مگر ذرا واقعہ کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ بات ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ سے زیادہ اہمیت و حیثیت نہیں رکھتی۔کیونکہ اولاً ہم اشارتاً ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت عباسؓ کا آنحضرتﷺ سے خصوصی تعلق تھا۔ تو آپؐ وہاں پہنچے او راس لیے گئے کہ جو بات او رمعاملہ و معاہدہ طے پانا ہے اس میں کوئی اخفاء و اجمال یا کمی نہ رہ جائے، جس کے نتائج بعد میں خوشگوار نہ نکلیں۔ ویسے بھی معاہدات میں فریقین کے معاونین بھی ہوتے ہیں، جو بات کو پختہ کرنے او رآگے بڑھانے کا کام دیتے ہیں۔ تقریباً تمام مؤرخین نے جہاں حضرت عباسؓ کی بیعت عقبہ میں شرکت کا ذکر کیا ہے، وہاں واضح طور پریہ بھی لکھا ہےکہ:
’’وھو یومئذ علیٰ دین قومہ الا انہ احب ان یحضر امر ابن اخیہ و یؤثق لہ‘‘ [6]
’’آپؓ اپنی قوم کے دین (جاہلیت)پر ہوتے ہوئے بھی وہاں اس لیے حاضر ہوئے کہ بھتیجے کے ساتھ ہونے والا یہ معاملہ مشاہدہ کرسکیں او راسے پختہ بنا سکیں۔‘‘
چنانچہ آپؓ نے بالفعل بھی یہی کام انجام دیا۔ اب ان دو وجوہ کے علاوہ ایک تیسرا اتفاق بھی ہے، جس کی بناء پر حضرت عباسؓ ہی کو وہاں جانا چاہیے تھا۔ اس اتفاق کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی تبلیغ سے مسلمان ہونے والے اہل مدینہ جب موسم حج میں حضور علیہ السلام کی ملاقات کےلیے حاضر ہوتے تو وہ آپؐ سے متعارف او رشناسا نہ تھے۔لہٰذا انہوں نے مکہ میں آکر آپؐ کے متعلق دریافت کیا تو ایک روایت کے مطابق پوچھنے والے نے پوچھا: ’’تم محمدﷺ کو پہچانتے ہو؟‘‘ تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔اس پر اس نےکہا’’عباسؓ کو پہچانتے ہو؟‘‘ تو انہوں نےاثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا ’’وہ اکثر تجارت کے لیے ہمارے ہاں آتے جاتے ہیں، ہم انہیں پہچانتے ہیں۔‘‘ تو اس بتانے والے نے بتایا کہ ’’پھر بیت اللہ میں جو شخص حضرت عباسؓ کے پاس بیٹھا ہے وہی محمدﷺ ہیں۔‘‘ لہٰذا وہ وہاں آپﷺ سے ملے۔(ابن ہشام :1؍439) جبکہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ان کی ملاقات نبی علیہ السلام سے حضرت عباسؓ کے گھر میں ہوئی۔
’’جاء قوم من اھل العقبۃ یطلبون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقیل لھم ھو فی بیت العباس فدخلوا علیہ فقال لھم العباس ان معکم من قومکم من ھو مخالف لکم فاخفوا امرکم‘‘ [7]
یعنی ’’اہل مدینہ آنحضرتﷺ کی تلاش میں جب مکہ آئے تو انہیں بتایا گیاکہ نبی علیہ السلام، حضرت عباسؓ کے گھر میں ہیں۔ جب وہاں پہنچے (اور گفتگو ہوئی، پروگرام بنا) تو حضرت عباسؓ نے مشورہ دیا کہ اس موقعہ پرتمہارے ساتھ تمہارے مخالف بھی مکہ میں آئے ہوئے ہیں۔لہٰذا اس پروگرام کو پوشیدہ رکھو۔‘‘
اب روایات اس بات پر کم از کم متفق ہیں کہ نبی علیہ السلام کا ان کے ساتھ جو پروگرام جہاں بھی بنا، اس کا صرف حضرت عباسؓ ہی کو علم تھا اور اسے مخفی رکھنا بھی ضروری تھا، یہی وجہ ہےکہ نبی علیہ السلام نے ایام تشریق کی تقریباً آخری رات کے مقام عقبہ پرجمع ہونے کا پروگرام دیا۔ اب اس پوری تفصیل کا تقاضا یہی تھا کہ کسی اور کے علاوہ نبی علیہ السلام کے ساتھ حضرت عباسؓ ہی جاتے۔
چوتھا جہاں تک مطعم بنی عدی کا تعلق ہے ، اگر ڈاکٹر موصوف کے بقول آپﷺ ان کی پناہ میں تھے، تو ظاہر ہے مطعم کو ساتھ لے جانا قرین مصلحت نہ تھا۔ کیونکہ اس کا مقصد علاوہ ازیں کیا ہوسکتا تھا کہ آپؐ خود اس کی پناہ کو عملاً واپس کرتے یا وہ اپنی پناہ واپس لیتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر وہ کہہ سکتا تھا کہ جب میری پناہ آپؐ کو حاصل ہے تو کیوں جارہے ہیں؟ جب کہ نہ صرف آپؐ کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ آزادی ہے یا پھر اس میں میری توہین ہے۔لہٰذا اس کا ساتھ جانا بھی مناسب نہ تھا، سو آپؐ اسے نہ لے گئے۔
پانچویں بات ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر بالفرض حضرت عباسؓ سفری طور پر ورود میں نبی علیہ السلام کے ساتھ نہ تھے تو عین ممکن ہے ، پروگرام کے معلوم ہونے کی وجہ سے آپؐ وہاں بعد میں پہنچ گئے ہوں اور مؤرخین نے اسے حقیقی معیت سے تعبیر کیا ہو او راس بات کی تائید درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے:
’’فقرأ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورۃ ابراہیم............ فرق القوم واخبتوا حین سمعوا واجابوہ فمر العباس بن عبدالمطلب وھو یکلمھم ویکلمونہ فعرف صوت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال ابن اخی من ھؤلاء الذین عندک قال یا عم سکان یثرب........... قد دعوتھم الیٰ مادعوت الیہ من قبلھم من الاحیآء فاجوبونی و صدقونی و ذکروا انھم یخرجونی الیٰ بلادھم فتنزل العباس بن عبدالمطلب وعقل واحلتہ ثم قال لہم یامعشر الاوس والخزرج ھٰذا ابن اخی وھو احب الناس الی فان کنتم صدقتموہ واٰمنتم واردثم اخراجہ معکم فانی ارید اخذ علیکم موثقا تطمئن بہ نفسی لا تخذلوہ ولا تغروہ فان جیرا نکم الیہود والیودلہ عدو ولا امن مکرھم علیہ۔‘‘ [8]
خلاصہ روایت یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے مقام عقبہ پر جب انصار کے سامنےقرآن مجید کی تلاوت کی او ردعوت پیش کی تو انہوں نے تسلیم کرلی۔ اسی گفتگو کے دوران وہاں سے حضرت عباسؓ کا گزر ہوا، جو نبی علیہ السلام کی آواز پہچان کر وہاں ٹھہر گئے۔جب تفصیل معلوم ہوئی کہ یہ لوگ نہ صرف ایمان لاچکے ہیں بلکہ نبی علیہ السلام کو اپنے ساتھ لے جاناچاہتے ہیں تو حضرت عباسؓ نے اپنے ہاں نبی علیہ السلام کی حیثیت اور تعلق کو بیان کرنےکے بعد، مدینہ کے یہود الود ماحول میں، جو خطرات نبی علیہ السلام کو پیش آسکتے تھے، ان کو بھانپتے ہوئے انصار سے نبی علیہ السلام کی حفاظت و مدافعت کا عہد لیا۔ جس سے واضح ہوتا ہےکہ حضرت عباسؓ کا اس طرف گزر او ربیعت عقبہ کے موقعہ پرموجودگی ایک اتفاق امر تھا او رزیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ اخذ ہوسکتا ہے انکار نہیں۔
چھٹی یہ بات بھی ہمیں سامنے رکھنی چاہیے کہ اگر اس روایت کو دوسری روایات کے مخالف ہونے کی وجہ سے قبول نہ بھی کیا جائے توپھر اس سوال کا جواب کیا ہے کہ مقام عقبہ میں آنحضرتﷺ ، روایات کی تصریح کے مطابق ، دو تہائی رات گزارنے کے بعد پہنچے، تو مکہ سے تقریباً دو میل دور اس دشوار گزار راستہ میں آپؐ کا ساتھ کون دے رہا تھا؟ اس بات کو ڈاکٹر موصوف بھی گول کرگئے ہیں۔ حالانکہ حضرت عباسؓ کی معیت کی نفی کے بعد اس کا جواب ضروری ہوجاتاہے۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب موصوف اپنے مفروضہ نتیجہ کو صحیح باور کرانے کے لیے بڑی دور کی کوڑی روئے ہیں کہ یہ روایت امر واقعہ میں خلفاء بنی عباس کوخوش کرنے کے لیے بنائی گئی ہے، حقیقت میں کچھ بھی نہیں۔ تاکہ حضرت عباسؓ کی فضیلت بیان کرنے بنو عباس کے خلفاء کو خوش کیا جائے۔ ہمیں اعتراف ہےکہ بعض مفاد طلب او رموقع پرست حضرات ایسے کارنامے سرانجام دیتے رہے ہیں مگر ہم علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتے ہیں کہ علماء حق نے ہمیشہ ایسی وضعی روایات کو علیحدہ کرکے امت کو ان کی حیثیت سے بھی آگاہ کیا ہے۔کتنی روایات و احادیث ذاتی و قومی اور فقہی مفاد حاصل کرنے کے لیے وضع کی گئیں، مگر ’’دیکھنے والےبھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں‘‘ وہ روایات محدثین کی عقاب صفت نظروں سے اوجھل نہ رہیں اور انہوں نے صحیح وسقیم کو جدا جدا کر دکھایا۔ہم محسوس کرتے ہیں کہ جب موصوف کے اخذ کردہ نتیجہ پر خود ان کا دل مطمئن نہیں ہوا تو بلاساختہ اور غیر شعوری طور پر ایک ایسی بات کو انہوں نےوضعی کہہ دیا جسے مؤرخین و محدثین نے تقریباً تواتر سے بیان کیاہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات موصوف کی تحقیق نہیں بلکہ بوکھلاہٹ اور ذہنی پریشانی کا نتیجہ ہے۔ ورنہ حافظ ابن کثیر، ابن حجر، ابن عساکر، ابن سعد، نووی اور ابن حبان جیسے حفاظ و نقاد کی بیان کردہ بیعت عقبہ میں شرکت حضرت عباسؓ کو وہ خود ساختہ نہ کہتے۔ کیونکہ اگر یہ روایت حقائق و واقعات کے برعکس وضعی اور خود ساختہ ہوتی تو یہ مؤرخین و محدثین ضرور اشارہ کرتے، خاموش نہ رہتے۔‘‘
پھر لطف کی بات یہ ہے کہ اگر خلفاء بنی عباس کو خوش کرنےکے لیے یہ روایت وضع کی جاتی تو اس تکلف سے کہیں بہتر تھا کہ اس روایت کو بنانے والا حضرت عباسؓ کو بیعت عقبہ سے پہلے مسلمان ثابت کرتا جوکہ بوجہ اس شرکت سے نہ صرف آسان ہے بلکہ حقیقی فضیلت و منقبت بھی مسلمان ہونا ہی ہے۔ لیکن یہ روایت نہ وضعی ہے نہ اس تکلف کی ضرورت محسوس کی گئی۔ بلکہ تقریباً سب مؤرخین نے روایت میں کھلے الفاظ میں لکھا ہے کہ حضرت عباسؓ ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عباسؓ نسبی تعلق، بھتیجے سے ہمدردی اور حفاظت و صیانت کے جذبات کے تحت بیعت عقبہ کے موقعہ پرموجود تھے اور تمام کتب تاریخ اس بات پر متفق ہیں، او راس موجودگی و شرکت میں کوئی عقلی و نقلی استحالہ بھی موجود نہیں۔ لہٰذا ہم ڈاکٹر صاحب موصوف سے توقع رکھتے ہین کہ وہ اپنی تحقیق کو جاری ضرور رکھیں، مگر جو تقاضا اور احتیاط مطلوب ہوتی ہے اس کا دامن بھی ہاتھ سےنہ جانے دیں، تاکہ یہ سرمایہ افتخار، تشکیک او رپھر آگے بڑھ کر کہیں تکذیب کا شکار و نشانہ نہ بن جائے۔
[1] ۔ طبقات ابن سعد : جلد1صفحہ222
[2] ۔ تہذیب لابن حجر صفحہ5 ، تاریخ خمیس صفحہ 318 جلد1، تہذیب، تاریخ ابن عساکر صفحہ 232 جلد7
[3] ۔بدایہ لابن کثیر جلد3 صفحہ 160
[4] ۔ ایضاً 109؍2
[5] ۔ابن ہشام 419؍1 بدایہ لابن کثیر صفحہ 135 جلد3
[6] ۔ بدایہ ابن کثیر جلد3 صفحہ 160، تاریخ خمیس جلد1 صفحہ 318
[7] ۔طبقات ابن سعد جلد1 صفحہ222، ابن خلدون جلد2 صفحہ 12، تاریخ خمیس جلد1 صفحہ 317
[8] ۔دلائل النبوۃ لاصبہانی جلد2 صفحہ 106